Super User
جناب نرجس خاتون
تاریخ اسلام کی ایک اور نامور خاتون حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور فرزند رسول حضرت امام مھدی آخرالزماں عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مادر گرامی جناب نرجس خاتون ہیں۔ آپ کا اصلی نام " ملیکہ" ہے جو مشرقی روم کے بادشاہ کے بیٹے یشوعا کی صاحبزادی ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری جناب شمعون کی اولاد میں سے ہیں۔جب جناب نرجس خاتون تیرہ برس کی ہوئیں تو قیصر روم نے ارادہ کیا کہ آپ کی شادی اپنے بھتیجے سے کردیں پھر انہوں نے دینی رہنماؤں اور حکومت کے اعلی عھدہ داروں کی موجودگی میں ایک عظیم الشان جشن کا اہتمام کیا مگر جیسے ہی انجیل کھولا گیا تاکہ صیغہ نکاح جاری کیا جائے عین اسی وقت تخت ٹوٹ کر بکھر گیا اور دولہا بیہوش ہوگیا ۔قیصر روم نے حکم دیا کہ اس کے بھائی کو لایا جائے تاکہ ان کی پوتی کا نکاح اس کے ساتھ پڑھا جائے لیکن جیسے ہی عقد نکاح کرنا چاہا پھر وہی حادثہ پیش آیا اور دولہا پھر بیہوش ہوگیا یہ واقعہ دیکھ کر قیصرروم بہت ہی حیران و پریشان ہوگیا ۔
جناب نرجس خاتون اس بارے میں فرماتی ہیں : کہ میں نے اسی رات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے اپنے فرزند سے میرا عقد پڑھ دیا پھر میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد میں بہت سخت بیمار پڑ گئی ، میں نے اپنے خواب کی بناء پر اپنے دادا سے درخواست کی کہ تمام مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیں اور انہوں نے میری بات مان لی ۔
جناب نرجس خاتون نے کہتی ہیں کہ اسی طرح میں نے ایک رات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو خواب میں دیکھا جو مجھ سے فرمارہی تھیں کہ تم پروردگار عالم کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام ص کی رسالت کی گواہی دو تو میں نے گواہی دی پھر حضرت فاطمہ زہرا نے مجھ سے فرمایا : تم انتظار کرو میرا بیٹا حسن تم سے بہت جلد ملاقات کے لئے آئے گا ۔
دوسری رات نرجس خاتون نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور خوابوں کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہا یہاں تک کہ ایک رات خواب میں امام علیہ السلام نے نرجس خاتون سے فرمایا : تمہارے دادا عنقریب ہی مسلمانوں سے جنگ کے لئے ایک لشکر بھیجنے والے ہیں تم بغیر کسی کو بتائے ہوئے ایک خادمہ کی حیثیت سے اس لشکر کے ساتھ روانہ ہوجانا جناب نرجس بے صبری سے اس دن کا انتظار کرنے لگیں اور جب لشکر چلنے کے لئے آمادہ ہونے لگا تو نرجس خاتون نے جن کے دل میں حق کی معرفت و شناخت ، اسلام اور امام علیہ السلام سے والہانہ عقیدت کا چراغ روشن ہوچکا تھا فورا ہی خادمہ کا لباس زيب تن کیا اور لشکر کے ساتھ روانہ ہوگئیں اور بالآخر مسلمانوں کی قید میں آگئیں ۔
دوسری جانب حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےصحابی " بشر بن سلیمان " جو سامرا میں امام علیہ السلام کے پڑوس میں رہتے تھے اس واقعے کے بارے میں دلچسپ باتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " ایک رات کی بات ہے میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک آواز سنی میں دوڑتا ہوا دروازے پر پہنچا وہاں میں نے امام علی نقی علیہ السلام کے خادم کو دیکھا اس نے کہا کہ امام علیہ السلام نے تمہیں فورا بلایا ہے میں نے لباس زيب تن کیا اور فورا ہی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگیا میں نے مشاہدہ کیا کہ امام علیہ السلام اپنے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام اور اپنی بہن حکیمہ خاتون سے محو گفتگو ہیں جو پردے کے پیچھے تشریف فرما ہیں ۔امام علیہ السلام نے فرمایا : اے بشر تم انصار کے بزرگوں میں سے ہو اور تمہارے پورے خاندان کو اعتماد و اطمینان کی وجہ سے خاندان رسالت نے امامت و ولایت کی خدمت کے لئے قبول کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک اہم راز سے باخبر کروں اور ایک کنیزکی خریداری کی ذمہ داری سونپ دوں ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے رومی زبان میں ایک خط لکھا اس پر مہر ثبت کی اور کنیز کے پتہ کے ساتھ میرے حوالے کیا میں بغداد کی جانب چل دیا میں نے وہاں کچھ قیدیوں کو دیکھا جنہیں عمر ابن یزيد بیچنے کے لئے بازار میں لایا تھا انہیں افراد میں میں نے ایک کنیز کو دیکھا جس نے اپنے کو نامحرموں کی بدبین نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی حجاب کر رکھا تھا اور کسی کو بھی اپنا بدن چھونے نہیں دے رہی تھی حالانکہ ان کے خریدار بہت زيادہ تھے لیکن جیسے لگ رہا تھا کہ وہ حقیقی خریدار کی منتظر ہو ۔
میں امام علی نقی علیہ السلام کے حکم کے مطابق ان کے قریب گیا اور خط ان کے حوالے کیا وہ خط پڑھ کر بہت زيادہ روئیں اور اپنے مالک سے کہا کہ مجھے اس کے ہاتھ فروخت کر دے پھر میں نے ان کی قیمت اس کے حوالے کی اور کنیز کے ہمراہ واپس آکیا میں نے انہیں ایک مکان میں ٹھہرایا تا کہ بعد میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں میں نے دیکھا کہ انہوں نے وہ خط نکال کر اپنے چہرے اور سر سے مس کیا ، میں نے کہا: جس شخص کو تم نہیں پہچانتی کس طرح سے اس کے خط کو اتنا زيادہ اہمیت دے رہی ہو؟ انہوں نے کہا: اگر تم پیغمبر اور ان کے جانشینوں کی معرفت و شناخت رکھتے تو کبھی بھی ایسی بات نہ کہتے ؟ پھر انہوں نے اپنی زندگی کے گذشتہ حالات و واقعات کو مجھ سے بیان کیا ۔
اسیری سے رہائی کے بعد ملیکہ نے اپنا نام بدل کر نرجس رکھ لیا تھا اور اس کے بعد انہیں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا امام علیہ السلام نے نرجس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تمہارے احترام میں دو چیزیں پیش کررہا ہوں پہلے یہ کہ تمہیں دس ہزار دینار عطاکردوں یا یہ کہ تمہیں ابدی شرافت عطا کروں ، نرجس خاتون نے عرض کیا اے مولا میں ابدی شرافت چاہتی ہوں پھر امام علیہ السلام نے ان کو ایک ایسے فرزند کی بشارت دی جو پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
امام علیہ السلام نے نرجس کو اپنی بہن حکیمہ کو سپرد کرتے ہوئے فرمایا : اے حکیمہ یہ وہی خاتون ہے جس کے بارے میں میں نے تمہیں خبر دی تھی یہ سنتے ہی حکیمہ اور نرجس گلے ملیں اور کافی دیر تک آپس میں گفتگو کرتی رہیں۔ پھر امام علیہ السلام نے حکیمہ خاتون سے کہا کہ نرجس کو اپنے گھر لے جائیں اور انہیں احکام اسلامی کی تعلیم دیں کیونکہ آنے والے زمانے میں وہ میرے بیٹے حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ماں بننے والی ہیں ۔
فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور نرجس خاتون کی شادی کا وقت قریب آگیا جناب حکیمہ خاتون نے اس سنت حسنہ کا تمام سامان فراہم کیا اور اس طرح جناب نرجس خاتون فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات بن گئیں۔ کچھ دنوں بعد جناب نرجس حاملہ ہوئیں مگر حمل کے آثار نمایاں نہ ہوئے اور یہ بھی قدرت کا انتظام تھا تاکہ دشمن امام مھدی علیہ السلام کی دنیا میں آمد سے باخبر نہ ہوسکیں ۔
شعبان دو سو پچپن ہجری قمری کی پندرہویں تاریخ کی صبح نمودار ہونے والی تھی نرجس خاتون کودرد زہ محسوس ہوا اور اچانک ایک نور نے نرجس کو اپنے حصار میں لے لیا اور جیسے ہی نور کا ہالہ ختم ہوا ایک نورانی پیکر بچہ سامنے نظر آیا۔
جی ہاں دوسو پچپن ہجری تھی پندرہویں شعبان کی سپیدی سحر میں زمین پر حجت خدا کا نزول ہوا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تشریف دنیا میں لائے اور نرجس خاتون کے بطن مبارک سے ایسا بچہ پیدا ہوا جس نے پیدائش کے بعد اپنے پدر گرامی سے گفتگو کی اور پروردگارعالم ، پیغمبر اسلام ص اور آپ کے اوصیاء کی گواہی دی ۔
جناب نرجس خاتون کے نور نظر کی پیدائش کو چند روز گذر چکے تھے اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور امام زمانہ علیہ السلام کی مادر گرامی اپنے شوہر عزیز کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی تھیں ۔
روایت میں ہے کہ ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام نے نرجس خاتون سے خاص گفتگو کی اور آئندہ آنے والی تمام مشکلات و پریشانی ، امام زمانہ عج کی غیبت اور اہل بیت اور شیعیان اہل بیت پر ہونے والی مصیبت کو بیان کیا اور آخر میں اپنی شہادت کی خبر بھی دی ۔
جناب نرجس یہ باتیں سن کر بہت زيادہ غمگین ہوئیں اور امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کی شہادت سے پہلے انہیں موت دیدے اور بالآخر امام علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ہی سن دوسو اکسٹھ ہجری قمری کو جناب نرجس خاتون معبود حقیقی سے جاملیں آپ کے جسد اطہر کو سامرا میں فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے حرم مطہر میں دفن کردیاگیا اور پھر اسی سرزمین مقدس پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور جناب حکیمہ خاتون کو بھی سپرد خاک کیا گیا اس وقت یہ مقدس مقام مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور لوگ دور و دراز کا سفر اور صعوبتیں برداشت کرکے اس سرزمین نور پر آتے ہیں اور ان انوار الہیہ کے آستانے پر ادب و احترام سے اپنی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔
قرآن و عترت پر اجماع اتحاد کا واحد راستہ
الازھر یونیورسٹی کے استاد کی موجودگی میں تکفیری خطرات کی شناخت سے متعلق پہلی نشست قم میں منعقد ہوئی۔
الازھر یونیورسٹی کے ایک بزرگ استاد ڈاکٹر شیخ تاج الدین الہلالی نے اس نشست میں تکفیری خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج تکفیری خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مسلمان کا گلہ کاٹتے ہیں اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر گلے پر چاقو چلاتے ہیں۔
انہوں نے تکفیری افکار کو بے بنیاد اور انحرافی افکار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اہلسنت کے مذہب میں صحاح ستہ کے اندر تمام موجود احادیث صحیح ہیں جبکہ مکتب تشیع میں ائمہ اطہار کے حکم کے مطابق حدیثی کتابوں کو قرآن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جو احادیث قرآن کے ساتھ تناقض رکھتی ہوں انہیں نامعتبر قرار دیا جاتا ہے۔ در حقیقت علمائے شیعہ احادیث کو نقد کے قابل سمجھتے ہیں لیکن علمائے وہابی ضعیف احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں اور یہ چیز اس طرح کے تشدد کا سبب بنتی ہے۔
ڈاکٹر الہلالی نے تکفیریوں کے پاس عقلی اور منطقی دلیل نام کی کوئی چیز نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم کیسے ایک دوسرے کو کافر کہہ سکتے ہیں جبکہ تمام مسلمان توحید، نبوت اور معاد پر متفق ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کیسے شیعوں اور مکتب اہلبیت(ع) کے ماننے والوں کو کافر ٹھہرا سکتے ہیں جبکہ وہ بھی اسلام کے تمام بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں لاالہ الا اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو حدیث سلسلۃ الذھب کے مطابق الہی قلعے میں داخل ہونے کی شرط ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ حدیث سلسلۃ الذھب جو امام رضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا "کلمة لا إله إلا الله حصني، فمن قالها دخل حصني، ومن دخل حصني أمن عذابي‘‘ یہ حدیث شیعہ منابع کے علاوہ اہلسنت کی اہم کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔
شیخ الہلالی نے اس باریک نکتے کو ان سے پوچھا کہ اگر تم اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کو کافر جانتے ہو تو تمہاری صحاح ستہ کی بہت ساری حدیثیں بے کار ہو جائیں گی اس لیے کہ ان کے راویوں میں سے تقریبا ۱۴۰ راوی ایسے ہیں جن کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا: افسوس سے نہ صرف بعض بے بنیاد اور من گھڑت الزامات شیعوں پر لگائے جاتے ہیں بلکہ بعض ایسی چیزوں کی شیعوں کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جیسے شیعوں کے درمیان کسی دوسرے قرآن کے رائج ہونے کا الزام۔
انہوں نے تکفیریوں کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گروہ کے یہ اعمال صد در صد سنت رسول(ص) کے خلاف ہیں چونکہ آپ نے فرمایا: "من قتل مسلماً فاعتبط بقتله لم یکن له یوم القیامة صرفاً و لا عدلاً".
ڈاکٹر الہلالی نے مزید کہا: تکفیری بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں جن سے پورے عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہے جبکہ ان ہتھیاروں کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس سے تکفیری انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے تاکید کی: یہ ہتھیار در حقیقت اسرائیل کا مقصد پورا کر رہے کہ جو اسرائیل کا نیل سے فرات کا خواب ہے اسی وجہ سے تکفیری عراق، شام اور مصر میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
شیخ تاج الدین الہلالی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے راستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں چاہیے کہ اپنے ان مشترکہ اصول اور عقاید کو پہچنوائیں جو دونوں فرقوں کے درمیان وحدت ایجاد کر سکتے ہیں ۔
انہوں نے تاکید کی کہ ہمیں خیر اور نیکی کی طرف دعوت دینا چاہیے اور مرکز نور یعنی قرآن و عترت پر اجماع کر لینا چاہیے یہی وحدت کا سب سے بڑا راستہ ہے۔
ایران کے سنی نشین علاقوں کو مسلکی روا داری کا نمونہ بنانے کے لیے قم میں ورکشاپ کا انعقاد
ایران کے سنی نشین صوبے سیستان و بلوچستان کو مسلکی رواداری کا نمونہ بنانے کے پیش نظر" فرق و مذاہب کے ساتھ آشنائی" کے عنوان سے معلمین اور مبلغین کی ۲۱ویں ورکشاپ ، اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کی کوششوں سے سیستان و بلوچستان کے کثیر تعداد میں شیعہ اور سنی ثقافتی کام کرنے والوں کی موجودگی میں شہر قم میں منعقد ہوئی ۔
اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی نے اس تربیتی ورکشاپ کے افتتاحیہ میں معلمین اور مربیین کا استقبال کرتے ہوئے اسلام کے معنی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: قرآن میں مسلمانوں کے اتحاد پر اصرار موجود ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان اسلام کے راستے سے منحرف ہو گئے ہیں جب کہ آیت ’’ان الدین عند اللہ الاسلام ‘‘ میں اسی موضوع کو چھیڑا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدل کے راستے سے نکل جانا دین میں اختلاف کا باعث بنتا ہے جس دین کو خدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے یہ وہی دین ہے کہ جو ابراہیم ، موسی ، اور محمد مصطفیٰ (ص) پر نازل ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛اپنے چہرے کو دین کے لیے استوار رکھو اور مشرک نہ بنو۔دوسرے لفظوں میں مشخص ہو جاتا ہے کہ دین کا راستہ مسلمانوں کا اتحاد ہے اور اگر ہمارے دین کا نتیجہ اتحاد کی صورت میں سامنے نہ آیا تو معلوم ہے کہ ہم راہ سے بھٹک چکے ہیں ۔
تقریب مذاہب کی اعلی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری نے اسلام کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے تصریح کی؛ اسلام کی تعریف کی چند خصوصیات ہیں؛اسلام کا سب سے پہلا ستون محض خدا کی اطاعت ہے۔جس طرح کہ حضرت ابراہیم پر وحی ہوئی کہ اپنے بچے اور بیوی کو صحرا میں چھوڑ دو کہ خدا ان کا نگہبان ہے اور ابراہیم نے ایسا ہی کیااور قرآن نے اس امتحان کو بلائے مبین سے یاد کیا۔یہاں پر قرآن یہ بتا رہا ہے کہ ابراہیم اور اسماعیل اسلام تک پہونچے اور انسان کی نیکی کی سب سے بڑی جزا اسلام حقیقی تک پہونچ جانا ہے ۔
آیۃ اللہ اراکی نے مزید کہا:قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے مومنو صبح و شام خدا کو یاد کرو یعنی تمام امور کی ابتدا اور انتہا خدا کے نام سے ہو ۔ ہمارا قول فعل اور ہمارا ذکر سب کچھ خدا کی خاطر ہونا چاہیے۔
انہوں نے محمد وآل محمد پر صلوات کی تفسیر میں کہا : محمد و آل محمد پر صلوات کامطلب لمحہ بہ لمحہ رحمت ہے او ہر لحظہ پیغمبر کا مرتبہ بلند ہوتا ہے جس کا نتیجہ مسلمانوں پر رحمت کا نزول اور اسی طرح تاریکیوں سے دوری ہے۔
آیۃ اللہ اراکی نے اسلامی امتوں کے بارے میں بولتے ہوئے دو تقسیم بندیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا:قرآن کریم میں امتوں اور سماجوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ؛ایک امت متخاصم اور متجاوز ہےکہ یہ امت الہی نہیں ہےاور یہ اہل جہنم کی علامت ہے ۔دوسر ی قسم،اہل ایمان اور امت مومن ہے جو اہل بہشت ہیں ۔
انہوں نے آخر میں ایمان واقعی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جو کچھ بھی انبیاء پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے ،کہ اگر ایسا ہو جائے تو تفرقہ پیدا نہیں ہو گا ۔ جب مومن کا دل نور کا منشاء بن جائے تو ہماری روح و جان ذات خدا سے وابستہ ہو جاتی ہے اور اس وقت تسلیم محض متحقق ہوتی ہے ۔ در حقیقت ہم میں فرق ایک دوسرے پر سبقت لی جانے کے سلسلے میں ہونا چاہیے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان حقیقی اسلام تک پہونچ جائیں ۔
سلمان رشدی ملعون کے ارتداد کا تاریخی فتوی
سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی کا تاریخی فتوی اور مغرب کے پروپگینڈے خاص کر آزادی بیاں کے نام پر اسلام کے خلاف جاری پرویگینڈا مہم اور اسکے مذموم مقاصد کا جائزہ
٭٭٭٭٭
1988 میں برطانیہ میں مقیم ایک ہندوستانی نژاد سلمان رشدی نے رسول اکرمۖ کی توہین پر مبنی ایک کتاب تحریر کی جس میں رسول اکرمۖ کے توہیں کے علاوہ یہ ہرزہ سرائی بھی کی گئی کہ قران مجید اللہ کیطرف سے حضرت محمدۖ پر نازل نہیں ہوا بلکہ یہ خود انکے اپنے افکاروخیالات کا مجموعہ ہے۔ سلمان رشدی کی اس کتاب کے سامنے آتے ہی تمام عالم اسلام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ اس سے دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اسلام کے خلاف پروپگینڈے کا بازار گرم کردیا۔مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے شیطانی آیات نامی اس کتاب کے مصنف پر انعامات کی بارش کردی اور برطانیہ کی ملکہ نے ملعون سلمان رشدی کو" سر" کا خطاب دے دیا۔مغربی ممالک کی طرف سے اس متنازعہ کتاب کی حمایت ایک عادی اور روزمرہ کی بات نہ تھی وہ اس حمایت کے ذریعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات بالخصوص قران اور پیغامبر گرامی کے خلاف توہین کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔امام خمینی رح نے ایک دور اندیش رھبر کی حیثیت سے مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے 14 فروری 1988 کو قرآن وسنت کی روشنی میں سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا تاریخی فتوی صادر کیا۔اس فتوی کو تمام عالم اسلام میں زبردست پزیرائی ملی۔ امام خمینی رح کی رحلت کے بعد رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس فتوی پر تاکید کی اور اسے ناقابل واپسی قرار دیا۔
امام خمینی کے اس تاریخی فتوی پر مغربی ممالک کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ایران میں تعینات گیارہ یورپی ملکوں نے تہران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے اور ایرنی حکومت اور عوام کو شدید ترین سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔ ایرانی قوم اور اور حکومت کی استقامت اور پامردی اس بات کا باعث بنی کہ بارہ کے بارہ یورپی ممالک کے سفیر بغیر کسی شور شرابے کے تہران واپس آگئے۔غاصب صیہونی حکومت اور برطانیہ ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں لیکن اسکے باوجود سلمان رشدی اس فتوی پر عمل درآمد کے خوف سے سیکوریٹی کے انتہائی سخت انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے۔
مغرب کیطرف سے اسلامی مقدسات کی توہین کا جاری سلسلہ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ امام خمینی کی دور اندیشی اس حوالے سے کسقدر صحیح اور حقیقی تھی۔ بحران میں گھرے مغربی تمدن کے پالیسی ساز اس بات کو اچھی طرح درک کر رہے تھے کہ اسلامی تمدن، بیداری اور عالمگیر ہونے کیطرف گامزن ہے اوریہ دین الہی اور آسمانی تعلیمات کا حامل ہونے کی وجہ سے مغرب کے مادیت پر مبنی نظریانی نظام کو تہس نہس کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے ہرطرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔مغرب اسلام و مسلمیں کے مقدسات کی توہیں کرکے مسلمانوں کی غیرت وحمیت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور آذادی بیان کے نام پر اس توہین کا دفاع کرکے مسلمانوں کی مخالفت کو نظر انداز کرتا ہے۔گذشتہ سالوں میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ۖ اور قران مجید کی شدید ترین توہین کی گئی ۔ رسول اکرمۖ کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے ۔امریکی پادری کے ہاتھوں قران مجید کے نسخے جلائے گئے ۔صیہونی ادارے "شنکار" میں خواتین کے لباس پر قرانی آیات لکھ کر توہین کی گئی اسی طرح سویڈن کے اخبارات میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ۖکی توہین پر مبنی کارٹون شائع کئے گئے ۔مغرب کے مادہ پرستوں نے اس پر بس نہیں کی بلکہ اسلام اور اسلامی مقدسات کے خلاف فلمیں تک بنائیں۔ان فلموں میں "فتنہ" اور "برات ازمسلمیں" کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔اسلامی مقدسات کے خلاف اس شدید حملے کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ان توہین آمیز اقدامات کے ذریعے نہ صرف اسلامی تقدسات کی توہین کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ان مقدسات کے حوالے سے بے حس اور غیرجانبدار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اندر دینی غیرت اور حمیت ختم ہوجائے اور وہ اسلام مخالف سامراجی طاقتوں کے خلاف کسی قسم کا خطرہ نہ بن سکیں۔وہ ان اقدامات کےذریعے اسلام کی طرف غیر مسلموں کی بڑھتی ہوئی توجہ کو بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں نے ان مذموم اور انسان دشمن اقدامات پر ہرگز خاموشی اختیار نہ کی اور مظاہروں۔تنقیدوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمانوں نے دنیا کی مختلف عدالتوں میں ان جرائم کے خلاف مقدمات بھی دائر کئے لیکن ان عدالتوں نے آزادی اظہار کے نام پر ان مقدمات کو کسی طرح کی اہمیت دینے سے انکار کیا۔اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔امریکی وزیرخارجہ نے "برات از مسلمیں" نامی فلم پر مسلمانوں کے شدید اجتجاج پر یہاں تک کہا تھا کہ امریکہ مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے اپنے شہریوں کو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روک سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی اظہار کا عالمی کنونشن اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی ازادی اظہار کے نام پر ادیان اور مذاہب کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے۔ان اداروں کے معاہدوں کا اگر سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے بھی آذادی بیان کے حق کو بےحدوحساب نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کو بہانہ بنا کر مذاہب اور ادیان کی توہین کو روا سمجھا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی ادارے کے آرٹیکل انیس کی تیسری شق میں آیا ہے کہ آذادی بیان کے حق کے نفاز کے لئے کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد ہوتے ہیں اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے کـچھ پابندیوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے جو کہ کچھ اسطرح ہیں۔
ا.دوسرے کے حقوق اور حیثیت کے احترام کے لئے
ب.قومی سلامتی کے تحفظ اور اجتماعی نظم وسلامتی کے لئے
پس آرٹیکل انیس کی تیسری شق کی روشنی میں آزادی اظہار کا حق اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب اسکی وجہ سے کسی دوسرے کی حیثیت اور احترام متاثر ہو رہی ہو۔ شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی ادارے کے اس چارٹر کی بیسویں شق کے مطابق کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت اور کینہ کی ترغیب ممنموع ہے۔ان شقوں کو امریکی اور یورپی انسانی حقوق کے معاہدوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے دیگر عالمی اداروں نے بھی آزادی بیان کی حق کومحدود کیا ہے خاص کرجب وہ کسی فرد یا گروہ کی حیثیت کو نقصان پہنچا رہا ہو۔ایک ایسے عالم میں جب مغرب اسلام کی توہین اور اسکے مقدسات کی اہانت کو آزادی بیان کے نام پر قبول کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بعض مسائل منجملہ ہولوکاسٹ کے بارے میں کسی طرح کی علمی تحقیق کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ہولوکاسٹ ان موضوعات میں سے ہے جسکے بارے میں غاصب اسرائیل سمیت سولہ ملکوں میں سخت پابندیاں ہیں اور ان ملکوں میں اسکا انکار ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ 1988 میں فرانس کی ایک عدالت نے معروف فلسفی اور سیاستدان راجر گارودی کو صرف اس وجہ سے چالیس ہزار ڈالر کا جرمانہ کیا کیونکہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں ایک علمی اور مدلل تنقید کی تھی۔مغرب کے اس رویے کو دیکھ کر بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب آزادی بیان کے حوالے سے دوغلے رویوں اور دوہری پالیسیوں پر گامزن ہیں۔
٭٭٭٭٭
دنیا کے کسی بھی قانونی نظام میں ہر طرح کے عقیدے کے اظہار کی کھلی آزادی نہیں ہے ہرملک اپنی آئیڈیالوجی اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے۔اور تمام عقلاے عالم کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر انسان اپنے تمام اعمال و کردار کے حوالے سے مکمل اور مطلقآ آزاد نہیں ہو سکتا۔
معروف برطانوی مفکر جان اسٹورٹ میل کے مطابق"کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ اعمال کوعقیدے کی طرح آزاد ہونا چاہیے خاص کر ایسے حالات میں جب عقیدے کا اظہار دوسروں کی مصلحت اور مفاد کے خلاف ہو۔ایسی صورت حال میں تو عقیدے کا اظہار بھی اپنی حیثیت کھو دیتا ہے"
اگرچہ آزادی اظہار انسانی اقدار میں سے ایک اہم قدر ہے لیکن آزادی اظہار کے نام پر انسانی عزت وکرامت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح اس کائنات کے خالق اور اس کے پیامبران جوکہ انسانی سعادت کے لئے مشعل راہ ہیں کی عزت واحترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور آزادی اظہار کے نام پر ان اخلاقی حدود کو عبور نہیں کرناچاہیے۔لہذاآزادی اظہار کو افراد اور شخصیات کی توہین اور انکی شخصیت کشی کے برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔
اسلام کے نقطہ نظر میں انسان کو آزاد خلق کیا گیا ہے اور آزادی خداوند عالم کی طرف سے ایک بہترین ھدیہ اور تحفہ ہے۔اسلام میں آزادی اظہار کو بھی آزادی کی ہی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔اسلام میں ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے توہین سے ہٹ کر اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اسلام کے خلاف اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور اسلام نے کبھی اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل اور قانع کنندہ دین ہے وہ اعتراض کرنے والوں کے سوالات کا منطقی اور مدلل جواب دیتاہے اور سب کو تعقل ،تفکر، غور وفکر اور بحث ومباحثہ کی دعوت دیتا ہے۔ البتہ اسلام میں بھی عقل سلیم کے تحت آزادی اظہار کے حوالے سے کچھ پابندیاں موجود ہیں۔یہ پابندیاں حقیقت میں آزادی کے تحفظ اور اخلاقی اور نفسیاتی شرائط کے لئے ضمانت کا کردار ادا کرتی ہیء کیونکہ کسی بھی معاشرے میں نظریانی اور فکری آزادی تک پہنچنے کے لئے ان پابندیوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اسلامی مقدسات کی توہین اور اسلام کے چہرے کو مسخ کر کے پیش کرنا مغرب کا ایک ہتھکنڈہ اور وہ اس عمل کے ذریعے اسلام و فوبیا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے وہ ان اقدامات سے معاشرے کی اخلاقی اور نفسیاتی صورت حال کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایسی صورت حال میں ایک عام انسان صحیح اور سالم راہ کا انتخاب آسانی سے نہیں کرسکتا اور یہی کیفیت مغرب کی مطلوبہ کیفیت ہے۔مغرب نے مشرق میں اسلامی بیداری اور مغرب میں اسلام پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے لئے اس روش کا انتخاب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب ان عناصر کی بھرپور حمایت کر رہا ہے جو آزادی اظہار کے پردے میں اسلام و فوبیا کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔
امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: '' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔''
(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق کائنات کا مقصد یہ ہے کہ پوری کائنات میں صرف خالق کائنات کانام و نمود ہو صرف اس کا تذکرہ ہو ، زمین پر آسمان کی طرح صرف اللہ کا سجدہ ہو غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے، صرف کلمة اللہ کا علَم بلند ہو کسی دوسرے نام کا علَم اللہ کی خلق کردہ فضا میں لہراتا ہوا نظر نہ آئے، اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں صرف قانون الہی نافذ ہو کوئی دوسرا قانون اس کے جایگزین ہونے کی کوشش نہ کرے اور روئے زمین پر صرف ایک ہی حکومت ہو اور وہ صرف اللہ کی حکومت ہو جس میں ذرہ برابر ظلم و ستم نام کی کوئی چیز نہ ہو جس میں نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ ہی ناحق کسی کو مارا جائے، جس میں انسان تو انسان جانور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے ساتھ جیئیں، جس میں عدل و انصاف کی یہ حد ہو کہ فقیر و مسکین اور مظلوم و بے کس تلاش کرنے سے بھی نہ ملیں۔ ایسے نظام حکومت کے قیام کے لیے اللہ نے ارسال رسل اور نزول کتب کا سلسلہ قائم کیا ۔ اور آخری نبی حضرت محمد مصفطی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا مقصد، خاص طور پر یہی بیان کیا :''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون (توبہ،٣٣)کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی لیے بھیجا کہ وہ اسے دیگر تمام باطل ادیان پر غالب کرے ، دیگر ادیان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دین اسلام کو سر بلندی عطا کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ٦٣ سالہ حیات مبارکہ میں انتھک کوششیں اور زحمتیں اٹھا کر اس دین کی بنیاد ڈالی اور اپنے بعد دوازدہ خلفا ء برحق کا سلسلہ قائم کر کے اس کی بنیادوں کو مستحکم اور مضبوط بنایا۔ اس لیے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے مقصد کو حاصل کرنا عادی طور پر ناممکن ہے ۔ لہذا گزر ایام کے ساتھ ساتھ جب انسانوں کے شعور بیدار ہوتے رہیں گے تودنیا میں انقلابات رونما ہوتے رہیں گے اور خود بخود اس عالمی الہی حکومت کے لیے زمین ہموار ہوتی رہے گی تاکہ جب آخری فرزند و جانشین رسول ،پردہ غیب سے نکل کر آئے گا تو پوری دنیا ان کا استقبال کرے گی اور آپ مختصر وقت میں پوری دنیا میں الہی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اگردنیا میں موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو لامحالہ انسان اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ پوری دنیا ایک ہی سمت و سو حرکت کر رہی ہے۔ چاہے وہ مغرب سے اٹھنے والی آوازیں ہوں یا مشرق سے بلند ہونے والی صدائیں ،سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ انسان ، انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت زندگی نہیں گزار سکتا ، انسان کو انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے مافوق بشر طاقت کے بنائے ہوئے قانون کی ضرورت ہے ۔
تیس پینتیس سال پہلے ایرانی قوم کے اندر یہ شعور بیدار ہوا تو انہوں نے رہبر کبیر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی انوکھی رہبریت میں اپنے شعور کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اسلامی انقلاب قائم کر کے ایک نیا طرز زندگی اور جینے کا ڈھنگ دنیا والوں کو سکھایا، اسلام کو حیات مجدد عطا کی اور عالم اسلام کے لیے الہی حکومت کا ایک انمول اور بے نظیرعملی نمونہ پیش کیا۔
اسلامی بیداری میں اسلامی انقلاب کا کردار
اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ایک بار پھر مستضعفین کو روئے زمین کی حکومت عطا کرنے والا اللہ کاسچا وعدہ عملی جامہ پہنتے ہوئے نظر آیا اور صاحبان ایمان کو ایک بار پھر زمین کے ایک خطہ میں الہی حکومت قائم کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اوراسلام کا چمکتا ہوا سورج ایک بار پھر نئی روح و حیات لے کر سر زمین ایران کی افق سے نمودار ہوا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں نور افشانی کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والیں اسلامی تحریکیں اسی آقتاب عالمتاب کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ بین الاقوامی حوادث کے متعلق نظریہ پردازوں نے انقلاب اسلامی کے ذریعہ حیات مجدد حاصل کرنے والے اسلامی معاشروں کے سلسلے میں کہا:'' ایران میں امام خمینی کی حکومت کے آغاز کے ساتھ اسلام نے ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیا جس نے بہت مختصر وقت میں عالمی سطح پر اپنے ایسے سیاسی اور ثقافتی آثار و برکات نچھاور کئے جن کی ہر گز پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی تھی''۔(ماہنامہ اسلام و غرب، شمارہ بہمن و اسفند٧٨ )
'' اسلامی انقلاب اور اس کے رہبر( امام خمینی) بے شک اسلام کو نئی زندگی دینے والی تحریک کے موجد ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی اسلامی ہویت اور شخصیت کو دوبارا حاصل کرنے کا سلیقہ سکھلا دیا۔ یہ تحریک قومیت سے بالاتر اثر و رسوخ کی حامل ہے''۔ ( پروفیسر کارسٹن کوپلر، شکل اسلام، ص٦٧)
'' امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعہ نہ صرف ایرانیوں اور مشرقی وسطی کو بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا عاشق بنا دیا''۔ ( گراہام فولر امریکی، قبلہ عالم، جیوپولیٹیک ایران، ترجمہ عباس مخبر، ص١١١)
''جس طریقہ سے امام خمینی نے ایرانیوں کی زندگی کو معنی اور مفہوم دیا ہے اسی طریقہ سے کروڑوں مستضعف انسانوں کو زندگی کی امید دی ہے '' (فتحی شاقی، تحریک فلسطین کا رہبر، انتفاضہ و طرح اسلامی معاصر، ص٨٧)
''آج اسلامی انقلاب کے آثار و برکات ایرانی باڈر سے باہر نکل گئے ہیں اور مشرق وسطی میں سب سے بڑا سیاسی اور اسلامی تحریکوں کا محرک اسلامی انقلاب ہے''۔ ( ڈاکٹر ماروین زونیس، امریکہ یونیورسٹی کا استاد، رسالت نیوز اینجسنی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ٧٩،١١،١٧)
'' انقلاب امام خمینی، مسلمان قوموں کو متحد کرنے کی غرض سے ان کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے '' (شیخ عبد العزیز عودہ، )
'' آج شمال افریقہ سے لے کر ایشیا کے جنوب مشرق تک تمام اسلامی ممالک میں اسی انقلاب کی وجہ سے اسلامی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر آئے دن اس کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا چلا جا ر ہا ہے''۔( پیتر۔ ال۔ برگر، معروف امریکی سوشیالیسٹ، افول سکولاریزم، ترجمہ افشار امیری، ص٢٣)
مسئلہ فلسطین پر انقلاب اسلامی کا اثر
خاص کر کے مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ہو گیا تھا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجہات کا مرکز بن گیا۔ اور خود فلسطینی لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور فلسطین کو غاصب صہیونیسٹ سے آزادی دلانے کا ایک بہترین راستہ مل گیا اگر چہ ان کے درمیان امام خمینی (رہ)جیسے عظیم الشان رہبر کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں صحیح راہنمائی حاصل نہیں ہو سکی اور وہ آزادی حاصل نہیں کر پائے۔لیکن ابھی تک ان کے اندر جو اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ صرف انقلاب اسلامی کی دین ہے جیسا کہ ایک اسکالر کا کہنا ہے:
'' ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے فلسطینی انقلاب اور عوام پر بہت گہرا اثر ڈالا'' ۔( شیخ عبد اللہ شامی، تحولات انقلابی در ایران، جمیلہ کدیور، پایان نامہ کارشناسی ارشد، ص١٤٢)
اور'' فلسطینی عوام نے یہ احساس کر لیا کہ اسرائیل کو شکست دینا ممکن ہے''۔( فتحی شقاقی، مذکورہ حوالہ)
اسلامی ثقافت کی تجدید حیات
تحریک امام خمینی (رہ) اور اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشروں پر ایک اثر یہ بھی چھوڑا کہ اسلامی معاشروں میں شعائر اسلامی کی عظمت دوبارہ زندہ ہوئی، مسلمانوں کے اندر اپنے مقدسات کی حفاظت کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کے تحفظ کی ہمت اور غیرت ان کے اندر پیدا ہوئی ، جوان نسل میں خاص کر اسلامی تفکر نے جگہ حاصل کی، ان کے نزدیک مذہب کا پاس و لحاظ رکھنے کا جذبہ اجاگر ہوا۔جوانوں نے جگہ جگہ اسلامی کانفرانسیں اور سمینار منعقد کروانے شروع کئے، مذہبی پروگراموں میں جوانوں کی شرکت میں اضافہ ہوا اور دینی امور میں نسل جوان پیش قدم نظر آنے لگی۔ اوراسلامی ممالک میں مخصوصا اسلامی ثقافت نے دوبارہ زندگی حاصل کی وہ اسلامی ثقافت جو ایک عرصہ سے استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کے کلچر کا نذرانہ بن چکی تھی، مسلمان اپنے تمدن کو چھوڑ کر انگریزی تمدن کو اپنانا اور ان کے جیسی زندگی بسر کرنا اپنا افتخار سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد وہی مسلمان اسلامی تمدن و ثقافت کو اپنانے میں نہ صرف کسی قسم کی شرم و عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دیتے ہیں ۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی جوانوں کے لیے امام خمینی (رہ)کے مسیحا ہونے اور ان کے اندر اسلامی اور مذہبی روح پھونکنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
'' اس انقلاب کے بانی امام بزرگوار نے مسلمانوں کو نشاط بخشا، اسلام کو زندہ کیا اور آج اسلام، نسل جوان اور روشن فکروں کی آرزو اور امید ہے'' (سخنرانی معظم لہ دومین سالگرد رحلت امام(رہ) ١٤،٣،٧٠ش)
دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی
آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پہنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رہا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ہمکنار کر دے۔ لہذا ایسے میں سوائے اسلامی و الہی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نہیں نکال سکتی۔ اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور( بقرہ،٢٥٧)
امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بہت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ہو گئی ہو ، جس کا اعتبار ختم ہو گیا ہو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کہنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ہو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ہیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وہم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔
ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نہیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ہو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذہان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ہونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذہنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نہیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انہیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ہمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نہیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔
تحریک امام(رہ) کا دیگر ممالک میں پھیلنا
آج جو اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم الشان لہر پھیلی ہے اس کی پیشنگوئی خود امام خمینی (رہ) کر چکے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی متعدد تقریروں میں فرمایا:'' آج آپ کی تحریک اور آپ کے انقلاب کی موج پوری دنیا میں جا چکی ہے ( صحیفہ نور، ج ١٧، ص٦٣)۔'' آ پ کا انقلاب الحمد للہ دنیا میں پھیل چکا ہے نہ کہ پھیلے گا''۔ ( وہی حوالہ، ج١٨،ص١٦٩)۔'' اسلام نے الحمد اللہ پوری دنیا میں جلوہ نمائی کی ہے ''۔(وہی، ج ١٨ص١٤٠)۔ ''آپ لوگ جان لیں کہ مرکز ایران سے اسلام کا سایہ پوری دنیا میں پھیلا ہے '' (وہی، ج ١٩ص١٩٥)۔'' ہمارا انقلاب پھیل چکا ہے اور ہر جگہ اسلام کا نام ہے اور مستضعین نے اسلام سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں''۔ ( وہی، ج ١٥،ص٢٠٠)
''پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے چاہنے والے ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ۔۔میں اپنی شجاع قوم کی خدمت میں عرض کروں کہ خداوند عالم نے آپ کی معنویت کے آثار و برکات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے''۔( وہی حوالہ، ج٢٠،ص٣٣)
امام خمینی رضوان اللہ علیہ سالہا قبل یہ واضح طور پر فرما چکے تھے کہ ہمارا انقلاب ایرانی حدود سے نکل چکا ہے ہمیں اس کے اکسپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کی عقلوں پر یہ بات گراں گزری تھی اور انہیں ہضم نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج ان کی باتوں کی صداقت ہر آنکھ مشاہدہ کررہی ہے کہ کس قدر دوسری قوموں نے انقلاب اسلامی کی پیروی میںاور اس سے اثر قبول کرتے ہوئے انقلابات برپا کرنے کی کوششیں کیںاور کر رہے ہیں انشا اللہ ان کی یہ کوششیں مثمر ثمر واقع ہوں۔
خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ضمیر بیدار ہوں اور وہ دین الہی کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے بلادستی اور سربلندی عطا کرنے کی کوشش کریں۔
بقلم: جعفری
لندن کی مرکزی مسجد:
لندن کی مرکزی مسجد (London Central Mosque) برطانیہ کے شہر لندن میں ایک بڑی مسجد ہے اور یہ مسجد محلہ “ وستمینسٹر” میں واقع ہے۔ یہ مسجد مرکز اسلامی لندن س متصل ہے۔
۲۴ اکتوبر ١۹۴۰ء میں برطانیہ کی اس وقت کی حکومت نے مسلمانوں کے لئے اس مسجد کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ معین کرنے کے ضمن میں ایک زمین کا رقبہ بھی عطا کیا۔
لندن کی مرکزی مسجد، سرکاری طور پر ١۹۴۴ء میں جارچ ششم کے ہاتھوں افتتاح ھوئی اور لندن کے مسلمانوں کو عطیہ کے طور پر دیدی گئی، لیکن جنگ اور دوسری وجوہات کی بناء پر اس کا باضابطہ افتتاح ۳۴ سال تک ملتوی کئے جانے کے بعد ١۹۷۸ء میں ھوا۔
اس مسجد کا نقشہ “ سرفرڈریک کییرڈ” نے بنایا ہے۔ اس مسجد کا دوسری مساجد کے مانند ایک خوبصورت گنبد ہے۔ اس گنبد کا بیرونی منظر طلائی رنگ کا ہے اور اس کی اندرونی چھت کو اسلامی آرٹ سے مزین کیا گیا ہے۔
مسجد کی اصلی عمارت میں نماز گزاروں کے لئے دوبڑے ہال ہیں۔ اس کا ایک حصہ تین طبقوں پر مشتمل ہے، جس میں کانفرنس ہال، کتابخانہ، ریڈنگ روم، دفتر اور مینار ہیں۔ اس مسجد کا اصلی ہال، لندن کے مسلمانوں کے لئے نماز پڑھنے اور ان کی معنوی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس میں بیک وقت ٦۰۰۰ سے زائد افراد نماز پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔ اصلی ہال کے مشرقی ایوان پر خواتین کا نماز خانہ ہے۔
اس مسجد کے اصلی ہال میں ایک بڑا جار نصب کیا گیا ہے اور پورے ہال میں جانماز نما قالین بچھایا ھوا ہے ۔
اس مسجد سے ملحق ایک چھوٹی کتاب فروشی کی دوکان اور حلال گوشت والا قہوہ خانہ بھی ہے۔
مسجد کا صدر دروازہ
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا دورۂ ایران
رپورٹ کے مطابق تحریک منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دورۂ ایران کے دوران ایران کی ممتاز مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی، آیت اللہ محسن اراکی اور آیت اللہ حسین نوری ہمدانی شامل ہیں۔ اس دورہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، داؤد حسین مشہدی اور آغا مرتضی پویابھی موجود ہیں۔
قم شہر پہنچے پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایران کے ممتاز مذہبی رہنما آیت اللہ صافی گلپائیگانی سے ملاقات کے دوران امت مسلمہ کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت جبکہ خارجی فتنہ اور انتہاء پسندی کو مسلم امہ کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ دہشتگرد اور انتہاء پسند اس دور کے خوارج ہیں جن کی مسلح جدو جہد کا آغاز امیر المومنین علی (ع) کے دور میں ہوا اور انہیں طاقت کے ذریعے کچلا گیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے احادیث نبوی (ص) اوراہلِ بیت اطہار کی عظمت پر اپنی تصانیف بھی آیت اللہ صافی کو پیش کیں۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایران کی مجلس خبرگان (اسمبلی آف ایکسپرسٹس) کے سابق ممبر اور ایران کے ممتاز سیاسی و مذہبی رہنماء آیت اللہ محسن الاراکی اور آیت اللہ حسین نوری ہمدانی سے بھی ملاقات کی ۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے قم شہر میں واقع مکتبہ المرعشی نجفی کا دورہ بھی کیا جو کہ مسلم دنیا کی قدیم ترین لائبریریوں میں سے ہے جہاں عربی، فارسی، اردو اور ترکش زبان میں مختلف مذہبی موضوعات پر ہاتھ سے تحریر شدہ 40000 سے زائد کتب موجود ہیں۔
مسجد الاقصی میں نماز ادا کرنا دلی تمنا ہے۔ دیمبابا
برطانوی فٹبال کلب چلسی کے فارورڈ دیمبابا نے کہا کہ ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ مسجد الاقصی جائیں اور وہاں پر نماز ادا کریں۔ انہوں نے کہا غزہ کی پٹی میں افراد بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں لہذا اگر مشکلات نہ ہوں تو وہ وہاں جاکر لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔
دیمبابا نے کہا کہ مغربی ممالک میں اسلام کو صحیح طریقہ سے پیش نہیں کیا گیا ہے اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس میں زندگی کے تمام شعبہ جات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ سنگال سے تعلق رکھنے والے اس فٹبال اسٹار کا کہنا تھا کہ وہ نیوکاسل کی مسجد میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ نماز یومیہ کیلئے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ چلسی کے یہ فٹبالر گذشتہ سال مناسک حج کے سلسلہ میں مكه مكرمه اور مدينه منوره بھی گئے تھے۔
فلسطین کے لئے امریکی منصوبہ نا قابل قبول
حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے تاکید کی ہے کہ فلسطین کے لئے امریکی وزیر خارجہ کا منصوبہ قابل قبول نہیں ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" نے ایک اردنی وفد کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ جان کیری کے منصوبے میں فلسطینی سرزمینوں پر صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کو قانونی حیثیت دی گئی ہے اور ملت فلسطین کو پناہ گزین کیمپوں میں محدود کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے منصوبے کی بنیاد پر ، غاصب صہیونی حکومت اور فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کے درمیان حتمی سمجھوتے کی صورت میں فلسطینی پناہ گزین ، اپنے آبائی وطن واپسی کے حق سے محروم ہوجائینگے اور صہیونی حکومت غرب اردن کے مشرقی علاقے "اغوار" کے فلسطینی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی اور اس علاقے پر اپنا قبضہ جما لے گی۔ اردنی وفد نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ وہ فلسطین کے حوالے سے جان کیری کے منصوبے کے سامنے مزاحمت کرینگے۔
عمّار حکیم: دھشتگردانہ بم دہماکوں کی مذمت، عوام کا قتل عام ناقابل قبول
عراق کی مجلس اعلی اسلامی کے سربراہ "سید عمّار حکیم" نے اس ملک میں اپنے ایک خطاب میں عراق کے مختلف شہروں اور علاقے کے بعض ملکوں میں دھشتگردانہ دہماکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرائم اس بات کی دستاویز ہے کہ دھشتگرد گروہ عام شہریوں کے قتل عام اور اسلامی ملکوں میں عوام کے امن و استحکام کو درہم برہم کرنے کے درپے ہیں۔ "سید عمّار حکیم" نے مزید کہا کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ ، ہمہ جہتی اور طویل مدت کی جنگ ہے اور عراق کے عوام اپنے ملک میں امن و استحکام کی برقراری کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں اور ان کی یہ جدوجہد دھشتگردی کی لعنت کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے عراق کی سیکیورٹی فورسیز سے اپیل کی کہ عراق کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش کریں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
