سلیمانی

سلیمانی

عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وا نے الکاظمی کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اگلے چند دنوں میں، امریکہ کی زیر قیادت انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کے تمام جنگی دستے امریکی فریق کے ساتھ ایک اسٹریٹجک معاہدے کے فریم ورک کے اندر عراق سے نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عراق میں امریکی افواج کا کردار مشورہ دینا ہو گا، اور یہ کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء سے "عراق میں سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام عراقی افواج کی صلاحیت" کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

دریں اثناء بغداد میں امریکی سفیر میتھیو ٹولر نے 4 دسمبر کو الکاظمی کا دورہ کیا۔ ملاقات کے دوران فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور شراکت داری کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا اور خطے کی تازہ ترین پیشرفت بشمول سیکورٹی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

خطے میں سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانے میں عراق کے کردار پر زور دیتے ہوئے، الکاظمی اور ٹولر نے "عراق میں [امریکی] اتحادی افواج کے جنگی کردار کو ختم کرنے میں پیش رفت کا جائزہ لیا۔"

الکاظمی اور ٹولر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکی مشن کا خاتمہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ اور "مشاورت، مدد اور بااختیار بنانے" کے مرحلے میں منتقلی پر مبنی ہوگا۔

26 جولائی کو، بغداد اور واشنگٹن نے اس سال کے آخر تک عراق سے امریکی لڑاکا فوجیوں کے انخلاء پر اتفاق کیا، جس سے عراقی افواج کو مشورہ اور تربیت دینے کے لیے صرف امریکی فوجیوں کی تعداد باقی رہ گئی ہے۔

امریکی فوجی 2014 میں عراق میں داخل ہوئے تھے۔ اس بہانے سے امریکہ داعش نامی بین الاقوامی اتحاد کی شکل میں 3000 فوجی لائے جن میں سے 2500 امریکی تھے۔ ISIS پر بغداد کی فتح کے بعد، عراقی عوام اور حکومت نے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ضرورت پر زور دیا۔

امریکہ کو بے دخل کرنے کے لیے عراقی عوام کا اصرار اس وقت شدت اختیار کر گیا جب امریکہ نے پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی پاپولر موبلائزیشن آرگنائزیشن کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔ اس جرم کے جواب میں عراقی پارلیمنٹ نے جنوری 1998 میں ملک سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے منصوبے کی منظوری دی۔ 

عراق میں امریکی فوجی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات کے کئی دور ہونے کے باوجود، امریکہ قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراقی سرزمین پر موجود ہے۔ تاہم عراقی حکام نے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور بعض اوقات کئی امریکی جنگی یونٹس کے انخلا کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔

چین کی  وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کی طرف سے منعقدہ نام نہاد “جمہوریت  سمٹ” کے بارے میں کہا کہ نام نہاد”جمہوریت سمٹ”کا اصل مقصد  جمہوریت کو آلہ کار اور ہتھیار بنا کر اور  جمہوریت کے نام پر جمہوریت مخالف کام کرنا ، تقسیم اور تصادم کو ہوا دینا ، ملکی تضادات اور مسائل کو  دوسروں پر منتقل کرنا، دنیا میں امریکی تسلط کو برقرار رکھنا، اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنا ہے۔

امریکہ کے اقدامات تاریخی رجحان کے خلاف ہیں اور انہیں عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترجمان نے نشاندہی کی کہ امریکہ ’’جمہوریت کا مینارہ‘‘ نہیں ہے اور امریکی جمہوریت جمہوریت کے مرکزی نظریے سے ہٹ چکی ہے۔

پیسے کی سیاست، شناخت کی سیاست، پارٹی دشمنی، سیاسی پولرائزیشن، سماجی ٹوٹ پھوٹ، نسلی تنازعات، اور امیر اور غریب کے درمیان پولرائزیشن جیسے مسائل کے ساتھ آج کی امریکی جمہوریت خراب حالت میں ہے۔

متعلقہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 72فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ اب دوسرے ممالک کے لیے “جمہوری ماڈل” نہیں رہا جس کی تقلید کی جا سکتی ہے، اور 44فیصد عالمی جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ عالمی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ترجمان نے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ چین تمام بنی نوع انسان کے لیے امن، ترقی، انصاف، جمہوریت اور آزادی کی مشترکہ اقدار  اور  بین الاقوامی تعلقات کی جمہوری اقدار کو فعال طور پر فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔

چین  ہر قسم کی سوڈو ڈیموکریسی،  جمہوریت دشمنی اور جمہوریت کی آڑ میں سیاسی جوڑ توڑ کرنے کی مخالفت کرتا ہے اور  بنی نوع انسان کے  ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کرتا رہےگا۔

( وإذاابتلیٰ ابرهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال إنّی جاعلک للنّاس إماماً قال ومن ذرّیّتی قال لا ینال عهدی الظالمین ) ) (بقرہ/۱۲۴)

”اوراس وقت کویادکروجب خدا نے چندکلمات کے ذریعہ ابراھیم علیہ السلام کاامتحان لیااورانھوںنے پوراکردیاتواس)خدا)نے کہا:ہم تم کولوگوں کا قائداورامام بنارہے ہیں۔)ابراھیم علیہ السلام)نے کہا گیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشادہواکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا۔“

اس آیہء کریمہ سے دو بنیادی مطلب کی طرف اشارہ ہو تاہے:

۱ ۔منصب امامت،نبوت ورسالت سے بلندترہے۔

۲ ۔منصب امامت،ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

یہ مطلب تین باتوں پرمشتمل ہے:

 

پہلی بات:منصب امامت کابلندمرتبہ ہو نا۔

دوسری بات:منصب امامت ظالموں اورستم گاروں کونہیں ملے گا۔

تیسری بات:منصب امامت کازبان امامت سے تعارف۔

۱۵

 

 

پہلی بات

منصب امامت کابلند مرتبہ ہو نا

ہم اس آیہء شریفہ میں دیکھتے ہیں کہ خدائے متعال نے حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بڑھاپے کے دوران نبوت رسالت کو سالہا سال گزرنے کے بعدان کی عمرکے آخری مرحلہ میں امتحان لیااور انھوں نے اس امتحان الہٰی کوقبول کیا اورکامیابی کے ساتھ مکمل کردکھا یا امامت کاعہدہ وہ ارتقائی درجہ تھا جواس عظیم ا متحان اورصبروثبات کے بعدانھیںعطاکیاگیا۔

آیہء کریمہ سے اس مطلب کو بہتر طریقہ سے واضح کرنے کے لئے،درج ذیل چند بنیادی نکات کی وضاحت ضروری ہے:

۱ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحان اوران کی امامت کے درمیان رابطہ کیسا ہے؟

۲ ۔اس آیہء کریمہ میں بیان کیاگیاامتحان،کس قسم کا امتحان تھا؟

۳ ۔کیایہ کہا جاسکتاہے کہ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کو عطا کئے گئے عہدہ امامت سے مرادان کا وہی منصب نبوت ورسالت ہی ہے؟

۴ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطا کی گئی امامت،کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

۱۶

 

 

امتحان اورمنصب امامت کارابطہ

آیہء کریمہ:( واذابتلیٰ ابراهیم ربّه بکلمات فاٴتمّهنّ قال انّی جا علک للناس إماماً ) میں لفظ”إذ“ظرف زمان ہے اوراس کے لئے ایک متعلق کی ضرورت ہے۔”إذ“کامتعلق کیاہے؟

پہلااحتمال یہ ہے کہ”إذ“کامتعلق”اذکر“)یادکرو)ہے،جومخذوف اورپوشیدہ ہے،یعنی:اے پیغمبر (ص)!یاداس وقت کو کیجئے جب پروردگارنے ابراھیم علیہ السلام کا چندکلمات کے ذریعہ سے امتحان لیا۔

اس احتمال کی بنیادپرچنداعتراضات واردہیں:

۱ ۔مستلزم حذف وتقدیر)متعلق کو مخذوف اور مقدر ماننا)خلاف اصل ہے۔

۲ ۔”( إنی جاعلک للناس إماماً ) “کا اس کے پہلے والے جملہ سے منقطع ہو نا حرف عطف کے بغیرہونا لازم آتاہے۔

وضاحت:جملہء”قال انّی جاعلک“کابظاہرسیاق یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے والے جملہ سے علٰحیدہ اورمنقطع نہیں ہے اورمعنی ومضمون کے لحاظ سے قبل والے جملہ سے وابستہ ہے،اورچونکہ اس کے لئے حرف عطف ذکرنہیں ہواہے،اس لئے بظاہر اس جملہ کے آنے سے پہلاجملہ مکمل ہوتا ہے،اوران دونوں فقروں کے درمیان ارتباط کلمہ”إذ“کے”قال“سے متعلق ہونے کی بناپرہے۔اسی صورت میں ایہء شریفہ کامعنی یوں ہوتا ہے:”جب ابراھیم علیہ السلام سے ان کے پروردگار نے امتحان لیا،توان سے کہا:میں تم کولوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں۔“اس بناپریہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کو منصب امامت عطا کرنے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ تھا۔

۱۷

 

 

آیہء کریمہ کے اس مطلب پر قطعی گواہ کے لئے ایک دوسری آیت ہے کہ اس میں پیغمبروں کے ایک گروہ کے لئے صبروامامت کے درمیان رابطہ بخوبی بیان ہوا ہے:

( وجعلنا منهم ائمته یهدون بامرنا لماّصبروا وکانوا بآیاتنایوقنون ) (سجدہ/۲۴)

”اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کوامام اورپیشواقراردیاہے جوہمارے امرسے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں،اس لئے کہ انہوں نے صبرکیاہے اورہماری آیتوں پریقین رکھتے تھے۔“

اس آیہء شریفہ میں ان پیغمبروں کوامامت ملنے کاسبب صبرویقین بیان کیاگیاہے اور یہ رابطہ حضرت ابرھیم علیہ السلام کے امتحان اورامامت کے درمیان رابطہ کوزیربحث آیت میں واضح اورروشن کرتاہے۔

۱۸

 

 

حضرت ابراھیم علیہ السلام کاامتحان

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی یہ آزمائشیں کن مسائل اور امور سے متلق تھیں کہ جس کا نتیجہ امامت کا عظیم عطیہ قرار پایاتھا۔

آیہء شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ امتحان چند کلمات کے ذریعہ لیا گیا اورحضرت ابراھیم علیہ السلام نے انھیں مکمل کر دکھایا۔بظاہریہ کلمات ایک خاص قسم کے فرائض اوراحکام تھے کہ جن کے ذریعہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا امتحان لیاگیا۔

قرآن مجیدمیں ،حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تاریخ کے سلسلہ میں جوچیز”واضح وروشن امتحان“کے عنوان سے بیان ہوئی ہے،وہ ان کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام ہے:( إن هذا لهوالبلائ المبین ) (۱) بیشک یہ بڑا واضح و روشن متحان ہے)یہ)بیٹے کوذبح کرنے کااقدام)حقیقت میں وہی کھلاامتحان ہے۔یہ امتحان حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے حضورمیں ایثاروقربانی اورمکمل تسلیم ہونے کامظہرتھا۔

اس مطلب کی طرف اشارہ کر نا ضروری ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کایہ امتحان ان کی پیری اور بڑھاپے میں انجام پایاہے اور وہ بھی اس وقت جب ان کا بیٹاجوانی کے مرحلہ میں داخل ہوچکاتھا۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی جوانی کا مرحلہ طے کرنے تک صاحب اولادنہیں تھے۔جب بڑھاپے کے مرحلہ میں پہنچے اور اولادسے ناامیدہوئے، توخدائے متعال

____________________

۱۔ صا فات/۱۰۶

۱۹

 

 

نے انھیں اسماعیل واسحاق نام کے دو بیٹے عطاکئے اور یہ اس حالت میں تھاکہ جب ان کی نبوت اور رسالت کو سالہاسال گزرچکے تھے۔

کیااس آیت میں امامت سے مرادان کی وہی نبوت ورسالت نہیں ہے؟

خدائے متعال نے جوامامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کوعطاکی،کیاوہ،وہی ان کی نبوت ورسالت تھی،جیساکہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے،یایہ امامت کوئی دوسراعہدہ ہے؟

اس سے پہلے بیان کئے گئے مطلب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ امامت،درج ذیل دودلائل کے پیش نظرحضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہلے سے موجودنبوت ورسالت کے علاوہ تھی:

پہلے یہ کہ:یہ آیہء شریفہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ امامت، حضرت ابراھیم علیہ السلام کوبہت سے امتحانات کے بعد عطاکی گئی ہے،کہ ان امتحانات کا ایک واضح وروشن نمونہ ان کااپنے بیٹے کو ذبح کرنے کااقدام تھاجبکہ نبوت ورسالت انھیں پہلے دی جاچکی تھی۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں ”جاعلک“اسم فاعل ہے اور ادبی لحاظ سے اسم فاعل صرف اسی صورت میں اپنے مابعد پر عمل کر سکتا ہے اور کسی اسم کومفعول کے عنوان سے نصب دے سکتا ہے،جب ماضی کے معنی میں نہ ہو، ۱ بلکہ اسے حال یامستقبل کے معنی میں ہوناچاہئے۔اس بنا پرآیہء شریفہ:( إنیّ جاعلک للنّاس إماماً ) میں فاعل”جاعل“ کے دومفعول ہیں)ایک ضمیر”کاف“اوردوسرا”اماماً“)اس لئے ماضی کوملحوظ نظر نہیں قرار دیا جا سکتا۔

____________________

۱-البھجتہ المرضیتہ،مکتبتہ المفید،ج۲،ص۵-۶

۲۰

 

 

یہ امامت کس چیزپردلالت کرتی ہے؟

ہمیں آیہء شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت کا مفہوم پیشوائی اور قیادت ہے اوراس کامعنی نبوت ورسالت سے متفاوت ہے۔امام،وہ ہے جودوسروں کا پیشواہواورانسانوں کے آگے آگے چلے، جسے خدائے متعال نے متعلق طور پر لوگوں کے لئے امام قراردیاہے اورتمام انسانی پہلوؤں سے لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ بنایاہے لوگوں کو چا ہئے کہ تمام ابعاد حیات میں اس سے ہدایت حاصل کریں اوراس کی اقتداء و پیروی کر یں۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کو یہ مقام)امامت)رسالت ملنے کے سالہا سال بعد تمام بڑے امتحانات الہٰی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدعطاکیاگیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ امامت کا مرتبہ اور درجہ نبوت ورسالت کے مساوی نہیں ہے بلکہ ان سے بالا تر ہے۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:جب یہ ثابت ہواکہ امامت کا درجہ و مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے اورنبوت کے لئے قطعی دلائل کی بنیادپرعصمت کی شرط لازمی ہے،پس جوچیز نبوت سے برتر وبلندترہو،بدرجہ اولٰی اس کے لئے بھی عصمت کاشرط ہوناضروری ہوگا۔

 

دوسری بات:

منصب امامت ظالموں کونہیں ملے گا

یہ آیہء شریفہ عصمت امامت پر دلا لت کرتی ہے کیونکہ آیت کے جملہ لاینال عھدی الظالمین یعنی:”میراوعدہ)امامت)ظالموں تک نہیں پہونچے گا“سے استفادہ ہوتاہے کہ ظالم مقام امامت تک نہیں پہو نچ سکتا۔

جب خدائے متعال نے فرمایا: إنیّ جاعلک للناس إماماً ”میں تجھے لوگوں کے لئے امام قرار دیتاہوں“ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا: ومن ذرّیّتی؟ ”کیامیری ذریت اور اولادمیں سے بھی کوئی اس مقام تک پہنچے گا؟“پروردگارعالم نے فرمایا: لاینال عھدی الظالمین میرا وعدہ ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

۲۱

 

 

اس جملہ سے درج ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

۱ ۔امامت وعدئہ الہٰی ہے۔

۲ ۔یہ وعدہ ظالموں تک نہیں پہونچ سکتا،چونکہ ہر گناہ ظلم شمارہوتاہے، ۱ لہذاجومعصوم نہیں ہے،وہ گناہوں میں گرفتارہوگا۔

اس بناء پر آیہء شریفہ کی یہ دلالت کہ ہرامام کواپنے عہدہ امامت میں گناہوں سے پاک ہونا چاہئے،واضح اور ناقابل انکار ہے۔

کیا اس جملہ سے یہ استفادہ کیاجاسکتاہے کہ:جن لوگوں نے امامت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اگرکوئی ظلم کیاہووہ امامت کے عہدہ پر فائزہوسکتے ہیں یانہیں؟

۱ ۔چونکہ ہرگناکبیرہ یاصغیرہ کیفرالہٰی کامستحق ہے،اس لئے گناہ گار گناہ کے ذریعہ اپنے اوپرظلم کرتاہے۔

دوسرے الفاظ میں :مشتق کا عنوان)جسے ظالم)زمانہ حال میں ظہور رکھتاہے اوریہ اس شخص پرلاگونہیں ہوتاہے جوپہلے اس صفت سے متصف تھالیکن زمانہ حال میں اس میں وہ صفت نہیں ہے۔اس بناء پر اس آیہء شریفہ کے مطابق،جوخلافت کے عہدہ پرفائزہونے کے دوران ظالم ہو،وہ امامت کے عہدہ پرفائز نہیں ہو سکتالیکن جو پہلے کبھی ظالم تھا،لیکن اس عہدہ پر فائزہونے کے وقت ظالم نہیں ہے،وہ امامت کے عہدہ پرفائزہوسکتاہے۔

۲۲

 

 

اعتراض کے جواب میں دوباتیں

پہلی بات جواس اعتراض کے جواب میں پیش کی گئی ہے وہ ایک عظیم محقق مرحوم حاج شیخ محمدحسین اصفہانی کی ہے کہ جسے مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں ذکرکیاہے: ۱

حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت چارگروہوں میں تقسیم ہوتی ہے:

۱ ۔وہ گروہ جو امامت پر فائز ہونے سے پہلے ظالم تھے اوراس مقام پر فائزہونے کے بعدبھی ظالم رہے۔

۲ ۔وہ گروہ جوامامت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے عادل تھے اورامامت کے عہدہ پر فائزہونے کے بعد ظالم بن گئے۔

۳ ۔وہ گروہ،جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے ظالم تھے اورامامت کا عہدہ سنبھالنے کے بعدعادل ہوگئے۔

۴ ۔وہ گروہ جوامامت کے عہدہ پرفائزہونے سے پہلے اوراس کے بعددونوںزمانوں میں عادل تھے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی اس عظمت کے پیش نظرپہلے دوگرہوں کے لئے کہ،جوا پنے عہدہ امامت کے دوران ظالم ہوں،ہرگزامامت کی درخواست

_____________________

۱۔تفسیر المیزان ،ج۱،ص۲۷۷،دارالکتب الاسلامیہ۔

۲۳

 

 

نہیں کریں گے۔ اس بناپر( ومن ذرّیّتی ) ”میری اولادسے؟“کاجملہ صرف تیسرے اورچوتھے گروہ پرصادق آتا ہے،اورخدائے متعال بھی جواب میں فرماتاہے( لاینال عهدی الظالمین ) ”میراوعدہ ظالموں تک نہیں پہو نچ سکتا۔“اس جملہ کے پیش نظر تیسراگروہ جوپہلے ظالم تھالیکن امامت کا عہدہ سنبھالنے کے دوران عادل ہوگیا،وہ بھی خارج ہوجاتا ہے اوراپنی اولاد کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں صرف چوتھے گروہ کو امامت دی جاتی ہے۔

دوسری بات مرحوم طبرسی کی ہے جوتفسیرمجمع البیان میں ذکر ہوئی ،وہ کہتے ہیں:ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ جوفی الحال ظالم نہیں ہے اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں اطلاق نہیں ہوتاہے،لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس نے پہلے ظلم کیا ہے،ظلم کرنے کے دوران اس پر ظالم کاعنوان حقیقت میں صادق تھا،مذکورہ آیت ایسے افراد کوبھی مشتمل ہے۔یعنی ایساشخص اب امامت کے لئے شائستہ نہیں ہے اورامامت پرفائزنہیں ہوسکتاہے اور”لا ینال“کا جملہ چونکہ مضارع منفی ہے،اس لحاظ سے اس پردلالت کرتاہے۔

اس بناپر،جس نے زندگی میں ایک لمحہ کے لئے بھی گناہ کیاہے،وہ امامت کے عہدے پرفائزنہیں ہوسکتاہے،چونکہ اس وقت ظالم اور ستم گارہے اورآیہء شریفہ کہتی ہے:( لاینال عهدی الظالمین ) ”میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔“

اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ آیہء شریفہ دوجہتوں سے اماموں کی عصمت پرحتی عہدہ امامت پر فائز ہونے سے پہلے بھی دلالت کرتی ہے۔اورامامت کے منصب پرفائز ہونے والاشخص اپنی پوری عمرملکہء عصمت سے وابستہ ہوتاہے۔اوراس طرح یہ بھی واضح ہوگیاکہ امامت ایک الہٰی منصب ہے جو خدائے متعال کی طرف سے عطا کیاجاتاہے،یعنی یہ خدائے متعال کی ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کو وہ جوشائستہ و سزا وار جانتا ہے اسی کو عطا کر تا ہے۔

۲۴

 

 

تیسری بات

منصب امامت کازبان امامت سے تعارف

آیہء شریفہ کوبیان کرنے کے بعدمناسب ہے کہ امامت کی حقیقت کے سلسلہ میں ہمارے آٹھویں امام حضرت امام موسی الرضا علیہ السلام کی بیان کی گئی ایک حدیث پیش کیجائے:

اٴبو محمدالقاسم بن العلاء-رحمه-رفعه عن عبدالعزیزبن مسلم قال:کنّامع الرضا-علیه السلام-بمرو،فاجتمعنافی الجامع یوم الجمعة فی بدء مقدمنا،فاٴدارواامرالامامته وذکرواکثرةاختلاف الناس فیها فدخلت علی سیدی-علیه السلام-فاٴعلمته خوض الناس فیه،فتبسم-علیه السلام-ثم قال:یاعبدالعزیزجهل القوم وخذعواعن آرائهمإن اللّٰه عزّوجلّ لم یقبض نبیّه (ص)حتی اٴکمل له الدین وانزل علیه القرآن فیه تبیان کلّ شیء،ٍ بیّن فیه الحلال والحرام والحدود والاحکام وجمیع مایحتاج الیه النّاس کملاً فقال عزّوجلّ( مافرّطنافی الکتاب من شیءٍ ) (۱) واٴنزل فی حجة الوداع،وهی آخرعمره(ص):( اٴلیوم اٴکملت لکم دین واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ) (۲) وامرالامامةمن تمام الدینولم یمض(ص)حتیّ بیّن لامته معالم دینهم واٴوضع لهم سبیلهم، وترکهم علی قصد سبیلالحق،و اقام لهم علیّا علما ًو

_____________________

ا۔انعام/۳۸

۲۔مائدہ/۳

۲۵

 

 

إماماً و ماترک لهم شیئاً یحتاج إلیه الامته إلاّبیّنه فمن زعم ان اللّٰه عزّوجلّ لم یکمل دینه فقد ردّ کتاب اللّٰه و من ردّ کتاب اللّٰه فهو کافر به هل یعرفون قدر الإمامة و محلّها من الامّة فیجوز فیها اختیارهم؟ إنّ الامامة اٴجلّ قدراً و اٴعظم شاٴنا و اعلی مکاناً و اٴمنع جانباً و ابعد غوراً من اٴن یبلغها النّاس بعقولهم اٴوینالو بآرائهم اٴویقیموا إماماً باختیارهم

إنّ الإمامة خص اللّٰه عزّوجلّ بها إبراهیم الخلیل - علیه السلام - بعد النبوة و الخلّة مرتبة ثالثة و فضیلة شرّفه بها و اٴشاد بها ذکره فقال:( إنّی جاعلک للنّاس اماماً ) فقال الخلیل- علیه السلام سروراًبها:( ومن ذرّیّتی ) قال اللّٰه تعالی:( ولاینال عهدی الظالمین ) (۱) فابطلت هذه الآیة إمامة کلّ ظالم إلی یوم القیامة و صارت فی الصفوه ثمّ اٴکرم اللّٰه تعالی باٴن جعلها فی ذرّیّته اهل الصفوة و الطهارة فقال:( و وهبنا له إسحاق و یعقوب نافلة وکلّا جعلنا صالحین وجعلناهم اٴئمّه یهدون باٴمرنا واٴوحینا إلیهم فعل الخیرات وإقام الصلوةوإیتائ الزکوة وکانوا لنا عابدین ) (۲)

فلم تزل فی ذرّیّته یرثها بعض عن بعض قرناً فقرناً حتی ورّثها اللّٰه تعالی النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال جلّ وتعالی:( إنّ اٴولی الناس بإبراهیم للّذین اتّبعوه وهذا النبیّی والّذین آمنوا واللّٰه )

____________________

۱۔بقرہ/۱۲۴

۲۔انبیاء/۷۳۔۷۲

مؤلف: رضاکاردان

 

جرمنی میں یمنیوں نے جارحیت کے جرائم کی مذمت کی ہے۔

 جرمنی کی ریاست شلس وِگ ہولسٹے میں یمنی کمیونٹی نے ایک اجتماع کا اہتمام کیا، جس میں یمن کے خلاف امریکی حمایت یافتہ جارحیت کے جرائم کی مذمت کی گئی۔

 کمیونٹی نے یمن میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل نشانہ بنانے کی مذمت کی جو کہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔احتجاجی مظاہرے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں یمنی عوام پر جارحیت ختم کرنے اور محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے ایسے جرائم پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی کی مذمت کی۔

 بیان میں اتحادی ممالک اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں کو یمنی عوام کے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ایم ایم

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جوہری معاہدے میں واپسی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب وہ ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللهیان نے اخبار کامرسنٹ  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہر چند کہ یورپ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا لیکن ایران نے نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر قانونی یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے دروازے کو بند نہیں کیا اور ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلئے نتیجہ خیز گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق صورتحال اس لئے بن گئی کہ امریکہ نے جوہری معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ویانا میں 29 نومبر کو ایران کی تجویز پر غور کرنے کے لئے ورکنگ گروپس کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے ۔ اس سے قبل ایران نے پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں دو سندیں پیش کیں ۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے دفتر کے مسئول، حجت الاسلام والمسلمین آقای محمدی گلپائیگانی نے ایران کے مشہور اخبار روزنامہ کیھان کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ جب رہبر انقلاب کی خدمت میں آئے اور آپ کی رہائشگاہ کو دیکھا تو ان کے لئے باعث تعجب اور ناقابل یقین تھا کہ رہبر ایران ایسے مکان میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ انتہائی قیمتی تحفے اپنے ساتھ لائے تھے، لیکن آپ نے ان تمام ہدایا کو فروخت کرکے ان پیسوں سے غریبوں کے لئے مکانات بنائے ہیں۔ حجت الاسلام محمدی گلپایگانی نے مجمع عمومی نمایندگان طلاب و فاضلاء کی نشست، جو کہ جامعہ مدرسین کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی، سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں 30 سال سے رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ہوں، اب تو کافی عمر بھی ہوچکی ہے (اب تو آرام کا وقت بھی نزدیک آپہنچا ہے) اور ریٹائرمنٹ کا وقت بھی نزدیک ہے۔۔۔۔

میں ہمیشہ رہبر معظم انقلاب کی طرف سے حوزہ کے بزرگان کی خدمت میں آتا جاتا ہوں۔ ایک دن میں حضرت آقا کے حکم پر آیت اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی رحمة اللہ عليہ کی خدمت میں پہنچا اور ان سے کہا کہ اگر کوئی کام وغیرہ ہے تو فرمائیں، ہم نمٹا دیں گے۔۔۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں کوئی غیر قانونی کام، خلاف شرع کام حکومت سے دیکھوں اور میرا تذکر دینا حکومت اسلامی کو کمزور کرنے کا سبب نہ بنے تو کہہ دیتا ہوں۔ اگر دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں کہ میری وجہ سے۔۔۔ میرے تذکر کی وجہ سے نظام اسلامی کمزور ہو رہا ہے تو نہیں کہتا بلکہ خاموش رہتا ہوں۔۔۔۔ چونکہ نظام اسلامی کی تضعیف اور اس نظام کو کمزور کرنا حرام ہے۔ انہوں نے کہا آپ "اشِدّاء عَلَی الکُفّار رُحَماء بَینہُم" ہیں، میں نے ایک بار بھی ان میں خوف و ڈر نہیں دیکھا۔

ان کی بڑی خصوصیات میں سے ایک اپنی اولاد کی بہترین تربیت ہے۔ آپ کے 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ ان کی بہترین تربیت زبان زدعام و خاص ہے۔ ان کے سب بیٹے کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بچوں نے ہمیشہ بیت المال کا مکمل خیال رکھا ہے، یہاں تک کہ دفتر سے ایک فوٹو کاپی بھی کروائی تو اس کے پیسے ادا کرتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اعلیٰ علمی مدارج کی تشویق کرتے ہیں۔ آپ کا ایک بیٹا انتہائی عظیم شخصیت کا مالک ہے، حالانکہ ان کی عمر بھی اتنی نہیں۔ آقای محمدی نے واضح کیا کہ آپ کی سادہ زیستی، تجملات کے ساتھ مقابلہ، دنیاداری سے اجتناب بارز ترین خصوصیات میں سے ہے۔ آپ معمولی اشارے پر بہت سی چیزوں کے مالک بن سکتے ہیں، لیکن آپ نے کبھی ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں دی۔۔۔۔

انہوں نے سعودی عرب کے بادشاہ ملک عبداللہ کی ایران آمد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی بادشاہ نے رہبر انقلاب کے پاس آنے کے بعد جب آپ کی رہائشگاہ کو دیکھا تو تعجب کیا اور ان کے لئے قابل یقین نہیں تھا کہ رہبر ایران ایسے گھر میں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ آپ کے لئے بہت سارے قیمتی ہدایا لائے۔ آپ نے ان سب کو بیچ کر غریبوں کے لئے رہایشگاہیں بنوائیں۔ آپ کو مختلف مقامات سے ہدایا آتے ہیں، لیکن آپ کسی کو بھی اپنے استعمال میں نہیں لاتے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود
حضرت آقا سے سنا کہ اگر سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو پیکان (بہت پرانے ماڈل کی بہت کم قیمت کی ٹیکسی) میں ادھر اُدھر جاتا۔ آپ کے دفتر میں کچھ گاڑیاں ہیں، ان کو استعمال میں لاتے ہیں اور ہر 6 ماہ بعد ان گاڑیوں کے تیل اور تعمیری پیسے ادا کرتے ہیں۔

دفتر کے مسئول نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نماز تہجد اور شب بیداری آپ کی بڑی عادات میں سے ہیں۔ آپ اہل دعا اور مناجات ہیں۔ ہمیشہ اذان صبح سے پہلے خدا کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتے ہیں۔ کبھی شب بیداری ترک نہیں ہوتی ہے۔ آپ دعاوں کے ساتھ بہت زیادہ اُنس رکھتے ہیں۔ خصوصاً صحیفہ سجادیہ اور دعای مکارم الاخلاق کے ساتھ بہت زیادہ مانوس ہیں۔ آقای گلپائیگانی نے کہا کہ آپ محو اہل بیت علیہم السلام ہوتے ہیں۔۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا اور امام زمانہ (ع) سے بہت زیادہ متوسل ہوتے ہیں۔ آقای محمدی نے سب سے اپیل کی کہ رہبر انقلاب کی سلامتی اور طول عمر کے لئے دعا کریں، تاکہ اس پرچم اسلام کو اپنےحقیقی وارث کے حوالے کرسکیں۔

بشکریہ! روزنامہ کیھان

ترجمہ و ترتیب: محمد علی شریفی
بشکریہ:اسلام ٹائمز

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کے ساتھ ملاقات میں عراق اور شام میں داعش کی اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ داعش کی شکست سے امریکہ کو شدید غصہ ہے اسی وجہ سے امریکہ خطے میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ شام کو کمزور کرکے خطے میں اسرائیل کی بالا دستی قائم  کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس سلسلے میں اسے داعش دہشت گردوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ شمخانی نے شام پر اسرائیل کے مسلسل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اب فلسطین اور لبنان کے بعد شام کو بھی مسلسل اپنے وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائيل خطے اور عرب ممالک کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

شامی وزیر خارجہ فیصل مقداد نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ اسرائيل مسلسل شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے لیکن شامی عوام امریکہ اور اسرائیل کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے خلاف استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی قومی سلامتی کے مشیرشیخ طحنون بن زاید اسلامی جمہوریہ ایران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران ، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی سلامتی کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کو مشترکہ فہم اور ادراک تک پہنچنا چاہیے اور اغیار کے اشاروں پر ایکدوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں ہمسایہ ، عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا اور مضبوط و مستحکم بنانا شامل ہے۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے گمراہ کن پروپیگنڈہ پر توجہ مبذول نہیں کرنی چاہیے۔ اسرائیل خطے میں اپنے شوم منصوبوں کو فروغ دینا چاہتا ہے، جبکہ ایران ہمسایہ ممالک کی ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے اور ان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے۔

اس ملاقات میں متحدہ عرب امارات کی قومی سلامتی کے مشیر طحنون بن زاید نے دونوں ممالک کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس خطے کے فرزند ہیں ہماری سرنوشت ایکدوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں اور صدر سید ابراہیم رئيسی کے دورہ امارات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہوجائےگا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں فلسطینی تنظیم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو اسرائيل کے ساتھ سیاسی تعلقات برقرار کرنے کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے۔ ترکی کے شہر استنبول میں"  پیشگامان فلسطین " کے عنوان سے بارہواں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے ضمن ميں فلسطینی تنظیم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو اسرائیل کے سات سفارتی تعلقات قائم کرنے کو روکنا چاہیے اور اس سلسلے میں گمراہ کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیےکیونکہ اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا سلسلہ شر اور شرارت پر مبنی ہے۔

اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائيل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں نظر ثانی کریں اور فلسطینی عوام کی پشت میں خنجر گھونپنے سے باز رہیں۔

حماس کے رہنما نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دوسرے اسلامی ممالک سے بھی اپنی فوجیوں نکالنے پر مجبور ہوجائےگا جس کے نتیجے میں خطے میں امریکی اتحادی کمزور ہوجائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بیت المقدس کی آزادی اور اسلامی مزاحمت کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المقدس اور مسجد الاقصی کی اہمیت کو مد نظر رکھیں، اسلامی مزاحمت کی بھر پور حمایت کریں اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو روکنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے بین الاقوامی منظر نامے پر ایران کی بے مثال طاقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

آئی آر جی سی کے کمانڈر نے کہا، "دشمن نے اس کے بجائے اقتصادی جنگ اور ایران کے خلاف پابندیوں کا سہارا لیا ہے۔"

جنرل سلامی نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن میز سے باہر ہے، کیونکہ ملک غیر ملکی جارحیت کا شکار ہونے کے لیے اتنا طاقتور ہو چکا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: رہبر معظم کا وژن دشمن کو پست اور کمزور کرنا تھا اور اس ہنر نے دشمن کے راستے کو مسدود کردیا اور دشمن کے میز سے ہر آپشن کو ہٹا دیا۔

جنرل سلامی نے مزید کہا کہ "آج کا اسلامی، انقلابی ایران طاقتور ہے اور کوئی بھی دشمن جانتا ہے کہ یہ علاقہ قابلِ قبضہ نہیں ہے… اور اب انہوں نے اقتصادی جنگ اور پابندیوں کا سہارا لیا ہے،" جنرل سلامی نے مزید کہا۔

گزشتہ ماہ متعلقہ تبصروں میں، جنرل سلامی نے کہا کہ واشنگٹن ایرانی قوم کے خلاف اپنی سازشوں میں شکست کو برقرار رکھنے کا عادی ہے، اور امریکہ سے ایران کا چوری شدہ تیل کا سامان واپس لے کر آئی آر جی سی بحریہ کی حالیہ فتح کو سراہا۔

امریکیوں کو ایرانی قوم کے ہاتھوں شکست کھانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، لیکن انھوں نے ابھی تک اچھی طرح سے سبق سیکھنا ہے، جنرل سلامی نے سابق صدر کے سامنے منعقدہ عالمی استکبار کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی ریلی اور یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ تہران میں امریکی سفارت خانہ جسے اب جاسوسوں کا اڈہ کہا جاتا ہے۔

سلامی نے زور دے کر کہا کہ دنیا میں جنگوں کو ہوا دینے کے لیے امریکی تسلط پسندانہ چالوں کے بارے میں بھی کہا کہ دنیا کے 40 حصوں میں 40 سے زیادہ بڑی جنگیں دنیا میں امریکیوں کی سیاست کا نتیجہ ہیں۔

جنرل سلامی نے کہا کہ امریکہ یورپ، افریقہ، جنوبی امریکہ، مشرق بعید، مغربی ایشیا اور روس کے بہت سے ممالک کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے اور مزید کہا کہ امریکہ کی جنگوں سے دنیا میں 80 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔

میجر جنرل سلامی کے مطابق امریکہ نے عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا تاکہ پوری دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے تاہم ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکیوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے سے روک دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے خطے میں امریکی سازشوں کو ناکام بنایا۔

سلامی نے مزید کہا، "آج ہم علاقائی سیاست کے مرکز میں امریکہ کو نہیں دیکھتے اور خطے میں امریکی اتحادیوں کا اس ملک کی پالیسی پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔"

انہوں نے بحیرہ عمان میں ایرانی آئل ٹینکر کو چرانے کی امریکہ کی حالیہ کوشش کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ امریکیوں نے ایرانی آئل ٹینکر کو چرانے کی کوشش کی تاہم سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے دستے موقع پر پہنچ گئے۔ ایرانی قوم کے مفادات کا دفاع۔

انہوں نے کہا کہ ایران خطے کو سلامتی فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے، انہوں نے علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ سلامتی کے لیے بیرونی طاقتوں کے بجائے ایران پر انحصار کریں۔

"ان لوگوں سے مدد لینے کی ضرورت نہیں ہے جو اپنی حفاظت کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں۔"