Super User

Super User

بسم‌ الله ‌الرحمن‌ الرحیم

والحمد للّه ربّ العالمین و صلّی اللّه علی محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

حج کا موسم جو ہمیشہ عالم اسلام کی عزت و عظمت اور حیرت انگیز خصوصیات کا موسم رہا، اس سال مومنین کی حسرت اور غم و اندوہ کا آئینہ اور اشتیاق میں ڈوبے افراد کے احساس فراق اور محرومی کی تصویر بن گيا ہے۔ کعبے کی تنہائی دیکھ کر دلوں کو اپنی تنہائی کا احساس ستا رہا ہے، جدائی میں تڑپنے والوں کی صدائے لبیک آنسوؤں اور آہوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ محرومیت عارضی ہے اور اللہ کی مدد سے یہ زیادہ وقت نہیں رہے گی۔ تاہم اس سے حج کی عظیم نعمت کی قدر کرنے کا سبق ملتا ہے جو ہمیشہ یاد رہنا چاہئے، اس کی برکت سے ہمیں غفلتوں سے نجات حاصل کرنا چاہئے۔ کعبے کی حدود، حرم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جنت البقیع میں مدفون ائمہ علیہم السلام کے حرم میں مومنین کے رنگارنگ اور وسیع اجتماع کی اہمیت اس سال ہمیں ہمیشہ سے زیادہ محسوس ہونا چاہئے اور اس کے بارے میں ہمیں غور کرنا چاہئے۔

حج بے مثال فریضہ ہے۔ اسلامی واجبات کے گلشن کا حسین پھول ہے۔ دین کے تمام شخصی، سماجی، زمینی و آسمانی، تاریخی و عالمی پہلو اس میں مد نظر رکھے گئے ہیں۔ اس میں روحانیت ہے لیکن خلوت و تنہائی اور گوشہ نشینی کے بغیر۔ اس میں اجتماع ہے لیکن تصادم، بدکلامی اور بری خواہشوں کے بغیر۔ ایک طرف مناجات، روحانی لذت اور ذکر خداوندی ہے اور دوسری جانب انسانی انس و روابط ہیں۔ حاجی کی نگاہ پرانی تاریخ سے اپنے رابطے، ابراہیم، اسماعیل، ہاجرہ اور مسجد الحرام میں فاتحانہ انداز میں رسول اسلام کی صدر اسلام کے مومنین کی بڑی جماعت کے ہمراہ آمد کے لمحات سے اپنے رابطے پر بھی ہوتی ہے اور اس کی ایک نگاہ اپنے ہم عصر مومنین پر بھی ہوتی ہے جن میں سے ہر شخص باہمی تعاون کا ایک فریق اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے اجتماع کا ایک جز قرار پا سکتا ہے۔

حج کی حقیقت پر غور و خوض حاجی کے اندر یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ انسانیت کے لئے دین کے بہت سے اہداف و مقاصد دینداروں کے باہمی تعاون، ہمدلی اور امداد باہمی کے بغیر مکمل نہیں سکتے اور یہ ہمدلی و باہمی تعاون پیدا ہو جانے کی صورت میں مخالفین اور دشمنوں کے مکر و فریب سے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔

حج ان استکباری قوتوں کے مقابلے میں طاقت کی نمایش ہے جو بدعنوانی، ظلم و ستم، کمزوروں کے قتل عام اور غارت گری کا مرکز ہیں اور آج امت اسلامیہ کا جسم و جان ان کے ستم اور خباثتوں کی وجہ سے لہولہان ہے۔ حج امت اسلامی کی فکری و افرادی توانائی کا مظہر ہے۔ یہ حج کا مزاج، حج کی روح اور حج کے اہداف کا سب سےاہم حصہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے عظیم قائد امام خمینی نے حج ابراہیمی کا نام دیا تھا اور یہ وہی چیز ہے کہ اگر خود کو خادم حرمین کہنے والے متولی سچائی کے ساتھ اسے تسلیم کریں اور امریکی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے رضائے پروردگار کی فکر میں رہیں تو عالم اسلام کی بڑی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں۔

آج ہمیشہ سے بڑھ کر امت اسلامیہ کی مصلحت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے۔ اس اتحاد پر جو خطرات اور دشمنیوں کے مقابلے میں متحدہ قوت تشکیل دے اور مجسم شیطان، جارح اور عیار امریکہ اور اس کے پالتو کتے یعنی صیہونی حکومت پر بجلی بن کر گرے اور جابرانہ اقدامات کے مقابلے میں شجاعت کے ساتھ ڈٹ جائے۔ یہی اللہ کے اس قول کا مفہوم ہے جس میں اللہ فرماتا ہے؛ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَميعًا  وَلا تَفَرَّقوا(یعنی اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے پکڑ لو اور منتشر نہ ہو)۔ قرآن کریم امت اسلامیہ کو «اَشِدّاّْءُ عَلَي الكُفّارِ رُحَماّْءُ بَينَهُم (کفار کے خلاف سخت اور آپس میں رحم دل)» کے تناظر میں متعارف کراتا ہے اور ان سے  «وَلا تَركَنوِّا اِلَي الَّذينَ ظَلَموا (ظالموں پر کبھی بھروسہ نہ کرو)»،  «وَلَن يَجعَلَ اللهُ لِلكـّْفِرينَ عَلَي المُ‍ـؤمِنينَ سَبيلًا (اور اللہ ہرگز کفار کے لئے مومنین پر غلبے کا راستہ نہیں بنائے گا۔)»،   «فَقاتِلوِّا اَئِمَّةَ الكُفر (کفر کے سربراہوں سے جنگ کرو)»  اور «لا تَتَّ‍ـخِذوا عَ‍ـدُوّي وَ عَدُوَّكُم اَولِياّْء (میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)» جیسے فرائض پر عمل آوری کا مطالبہ کرتا ہے۔ دشمن کی بخوبی نشاندہی کرنے کے لئے یہ حکم صادر کرتا ہے؛ «لا يَن‍هىّْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِي الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيارِكُم »۔ یہ اہم اور فیصلہ کن فرمودات ہرگز ہم مسلمانوں کی فکر و نظر کے دائرے اور اقدار سے جدا نہیں ہونے چاہئے اور انھیں ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔

اس وقت اس بنیادی تبدیلی کے وسائل امت اسلامیہ اور اس کی ممتاز ہستیوں اور خیر خواہوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہیں۔ آج اسلامی بیداری یعنی مسلمان دانشوروں اور نوجوانوں کی اپنے روحانی و معرفتی سرمائے پر توجہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ آج لبرلزم اور کمیونزم جو سو سال اور پچاس سال پہلے مغربی تمدن کا عظیم ثمرہ سمجھے جاتے تھے پوری طرح بے رنگ ہو چکے ہیں اور ان کی لا علاج خامیاں آشکارا ہو چکی ہیں۔ اس پہلی فکر پر استوار نظام منہدم ہو چکا ہے اور اس دوسری فکر پر مبنی نظام گہرے بحرانوں سے دوچار اور تباہی کی دہانے پر کھڑا ہے۔

اس وقت صرف مغرب کا کلچرل ماڈل ہی نہیں جس نے شروع ہی سے بے غیرتی اور رسوائی کے ساتھ میدان میں قدم رکھا بلکہ اس کا سیاسی و اقتصادی ماڈل یعنی دولت کے گرد گھومنے والی ڈیموکریسی اور طبقاتی، تفریق آمیز اور بدعنوان سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا ہے۔

آج عالم اسلام میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو سر اٹھا کر اور افتخار و سرافرازی کے ساتھ مغرب کے تمام تمدنی اور علمی دعوؤں کو چیلنج کر رہے ہیں اور ان کے اسلامی متبادل صراحت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ آج تو بعض مغربی مفکرین بھی جو اس سے پہلے تک لبرلزم کو بڑی نخوت سے تاریخ کا آخری انجام قرار دیتے تھے، مجبورا اپنے دعوے واپس لے رہے ہیں اور اپنی فکری و علمی سرگردانی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ امریکہ کی سڑکوں، اپنے عوام کے ساتھ امریکی حکام کے برتاؤ، اس ملک میں گہری طبقاتی خلیج، اس ملک کو چلانے کے لئے منتخب افراد کی حماقت و حقارت، وہاں کی ہولناک نسل پرستی، غیر مجرم شخص کو سڑک پر بڑے اطمینان سے راہگیروں کی آنکھ کے سامنے ایذائیں دیکر قتل کر دینے والے اہلکاروں کی سفاکی، مغربی تمدن کے اخلاقی و سماجی بحران کی گہرائی اور وہاں کے سیاسی و اقتصادی فلسفے کی کجروی اور کھوکھلے پن پر ایک نظر ڈالئے۔ کمزور اقوام کے ساتھ امریکہ کا برتاؤ اس پولیس اہلکار کے برتاؤ کی بڑے کینواس کی تصویر ہے جس نے نہتے سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر اتنا دبایا کہ وہ مر گیا۔ دیگر مغربی حکومتیں بھی اپنے وسائل اور توانائی کے مطابق اسی المناک صورت حال کی دوسری مثالیں ہیں۔

حج ابراہیمی اس ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کی ایک پرشکوہ حقیقت ہے۔ یہ اسلام کی دعوت اور اسلامی معاشرے کے طرز زندگی کی علامتی جھلک ہے۔ وہ اسلامی معاشرہ جس میں مومنین کی پرامن بقائے باہمی توحید کے محور پر مربوط پیش قدمی کی سب سے نمایاں تصویر ہے۔ ٹکراؤ اور تصادم سے دوری، تفریق اور  امتیاز سے اجتناب، بدعنوانی اور آلودگی سے پرہیز جس کی لازمی شرطیں ہیں۔ شیطان پر وار اور مشرکین سے اظہار بیزاری، کم رتبہ افراد سے گھل مل جانا اور غریبوں کی مدد اور اہل ایمان کے شعائر کا نمایاں ہونا جس کے اصلی اعمال ہیں۔ اللہ کے ذکر، اس کے شکر اور اس کی عبادت کے ساتھ ساتھ عمومی مفادات اور مصلحتوں کا حصول اس کے میانہ مدتی اور آخری اہداف ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے کی اجمالی تصویر ہے جو حج ابراہیمی کے آئينے میں جلوہ گر ہے۔ بلند بانگ دعوے کرنےوالے مغربی معاشروں کے حقائق سے اس کا تقابلی جائزہ ہر بلند ہمت مسلمان کے دل کو شوق اور اس معاشرے کی تشکیل کے لئے سعی و کوشش کے جذبے سے بھر دیتا ہے۔

عظیم قائد امام خمینی کی ہدایت و رہبری میں ہم ایران کے عوام نے اسی شوق کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا اور کامیاب رہے۔ ہمارا یہ تو دعوی نہیں کہ ہم نے وہ سب حاصل کر لیا جو چاہتے تھے اور جن سے آگاہ تھے لیکن یہ دعوی ضرور ہے کہ اس راہ میں ہم کافی آگے گئے ہیں اور راستے کی بہت سی رکاوٹیں ہم نے ختم کی ہیں۔ قرآنی وعدوں پر اعتماد کی برکت سے ہمارے قدموں کو ثبات ملا ہے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا راہزن اور عیار شیطان یعنی امریکی حکومت ہمیں ہراساں یا اپنے مکر و حیلے سے مغلوب نہیں کر سکی اور نہ ہماری مادی و روحانی پیشرفت کا سلسلہ روکنے میں کامیاب ہوئی۔

ہم تمام مسلم اقوام کو اپنے بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہمارے دشمن محاذ سے نہیں جڑے ہیں بھلائی اور انصاف کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اسلامی معاشروں کے دکھ اور مشکلات کو اپنی مشکلات مانتے ہیں اور ان کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ مظلوم فلسطین کی مدد، یمن کے زخمی پیکر کے لئے ہمدردی اور دنیا کے کسی بھی خطے میں ستم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کے لئے فکرمندی دائمی طور پر ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ بعض مسلمان سربراہوں کو نصیحت کرنا ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، ان سربراہوں کو اپنے مسلمان بھائی پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمن کی آغوش میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور عارضی ذاتی مفادات کی خاطر دشمن کی تحقیر اور ڈانٹ پھٹکار برداشت کرتے ہیں اور اپنی قوم کا وقار اور خود مختاری نیلام کرتے ہیں، جو ظالم و غاصب صیہونی حکومت کی بقا پر راضی ہیں اور آشکارا اور خفیہ طور پر اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ ایسے رہنماؤں کو ہم نصیحت کرتے ہیں اور اس روئے کے تلخ انجام کی طرف سے خبردار کرتے ہیں۔ ہم مغربی ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کو اس علاقے کی اقوام کے لئے ضرر رساں اور ملکوں کی بدامنی، تباہی اور پسماندگی کا سبب مانتے ہیں۔ امریکہ کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں اور وہاں نسل پرستی کے خلاف جاری تحریک کے تعلق سے ہمارا موقف عوام کی حمایت اور اس ملک کی نسل پرست حکومت کے بے رحمانہ برتاؤ کی مذمت پر مبنی ہے۔

آخر میں حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) پر درود و سلام بھیجتے ہیں، عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور شہیدوں کی پاکیزہ ارواح پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالی سے امت اسلامیہ کے لئے مستقبل قریب میں محفوظ، مقبول اور مبارک حج کی دعا کرتے ہیں۔

والسلام علی عباد اللّه الصالحین

سید علی خامنه‌ ای

۷ مرداد ۱۳۹۹ (ہجری شمسی مطابق 28 جولائی 2020)

بدھ کی صبح عوامی رضاکار فورس بسیج کے ہزاروں جوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران ایرانی قوم کی پرشکوہ تحریک کی قدر دانی کی۔

آپ نے شرپسندوں کے اقدامات کے خلاف پرجوش مظاہرے کرنے پر پوری قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ  قوم نے اپنے اس اقدام سے دشمن کی جانب سے تیار کی جانے والی انتہائی وسیع اور خطرناک منصوبہ بند سازش کو نقش بر آب کردیا۔

آپ نے فرمایا کہ میں ایرانی عوام کی تکریم و تعظیم کرتا ہوں جس نے اپنے اقدام سے ایک بار پھر حقیقی معنوں میں اپنی طاقت اور عظمت کو ثابت کردیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن نے اس سازش کی تیاری پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور موقع کی تلاش میں تھے کہ تخریبی اقدامات اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں۔

آپ نے فرمایا کہ دشمن تصور کر بیٹھے تھے کہ پیٹرول کے معاملے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اوراسی تصور کے تحت انہوں نے اپنے زرخریدوں کا لاؤ لشکر میدان میں اتار دیا لیکن ایران کے عوام نے اپنے پرشکوہ مظاہروں کے ذریعے دشمن کی چال کو ناکام بنادیا۔

آپ نے ایرانی عوام کے مظاہروں کو پولیس فورس، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور عوامی رضاکار فورس بسیج سخت کے اقدامات سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی قوم کی اس عظیم تحریک نے عالمی سامراج اور صیہونیزم کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا اور اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی قوم کے دشمنوں نے اس عوامی تحریک کے حقیقی پیغام کو اچھی طرح سمجھ لیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عوامی رضاکار فورس بسیج کے قیام کو امام خمینی رح کے جانب سے امریکی سامراج کے مقابلے میں عوامی طاقت کے عظیم مظاہرے سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اگر اس زمانے میں امریکی خطرات کا مقابلہ نہ کیا گیا ہوتا تو معلوم نہیں ملک کا مستقبل کیا ہوتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کا اسلامی نظام اسلامی اقدار پر استوار ہے اور اسلام انصاف و آزادی کا علمبردار ہے، دوسری جانب تسلط پسند طاقتیں آزادی اور انصاف کی دشمن ہیں بنا برایں ایران کو ہمیشہ تسط پسند طاقتوں اور سامراجی محاذ کی جانب سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

آپ نے امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں میں تسلط پسند نظاموں کی جانب سے آزادی و انصاف کے قتل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تسلط پسند نظام شروع ہی سے قوموں کی آزادی کو دبانے کوشش اور ان کی توہین کر رہا ہے اس میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتا۔

عصر غیبت کی زندگی کی اپنی خصوصیات ہیں۔ جس زمانے میں حجۃ اللہ نظروں سے اوجھل ہیں اور اللہ کا فیض و فضل ان ہی طرف سے دوسری مخلوقات تک پہنچتی ہے اور آنحضرت(ع) اللہ کے بندوں کے تمام لمحات سے آگاہ ہیں؛ لیکن ہماری آنکھوں سے غائب ہیں، انہیں دیکھا بھی جائے تو پہچاننا ممکن نہیں ہے، ظاہر نہیں ہیں لیکن اللہ کے اذن سے حاضر و ناظر ہیں۔ امر مسلّم ہے کہ ایسے دور کی زندگی کی صورت حال کچھ خاص قسم کی ہوگی۔ زندگی جو مکمل طور پر خوف و ہراس اور امید و انتظآر سے مالامال ہے۔ چنانچہ انسانی تاریخ کے اس دور کو بخوبی خوف و امید کا دور کہا جاسکتا ہے۔

انکار کا خوف

اس دور میں حضرت حجت(ع) تک رسائی، آپ کے دیدار اور زیارت کا امکان بہت کم اور محدود اور امام(ع) کی اپنی صوابدید اور انتخاب پر منحصر ہے۔ ایسے حالات میں اور امام(ع) کی غَیبَت کی طوالت کی وجہ سے ممکن ہے کہ امام زمانہ(عج) کے انکار کا باب بھی کھل جائے۔ کچھ لوگ عصر غیبت کے طویل ہونے کے باعث منکر ہو بھی چکے ہیں اور کچھ شکوک و شبہات پیدا کرکے ہزار سالہ زندگی کو ناممکن سمجھتے ہیں، اور کچھ دوسرے لوگ امام(ع) کے دیدار سے محروم رہنے کے بموجب ذہنی تشویش میں متبلا ہوکر انکاری ہوئے ہیں۔

اس عجیب و غریب صورت حال میں صرف ایک معتقد، محقق مؤمن ـ جو عشق امام(ع) میں سچا ہے ـ احسن انداز سے ایسے شبہات کا جواب دے سکتا ہے اور قرآن اور احادیث نیز معتبر تاریخی منقولات کی روشنی میں امام عصر(عج) کے طول عمر کو قبول کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کا قائل کرسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو تحقیق و مطالعہ کرکے عقلی اور نقلی استدلالات کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور مہدویت سے متعلق شبہات کا جواب دینے کے درپے ہیں؟ کیا ہم امام صادق علیہ السلام کے بقول "شیطانی شبہات کے مقابلے میں پہاڑ سے زيادہ مضبوط اور استوار اور لوہے سے زیادہ سخت" مؤمنین میں شامل ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف اس طرح کے لوگوں کو امام عصر(عج) کے حقیقی منتظرین کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ (1)

خداوند متعال نے قرآن کریم میں بارہا ارتداد کو بہت زیادہ امکانی خطرہ قرار دیا ہے جو اللہ کی لعنت اور ابدی عذاب کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآنی آیات کے درمیان مہدویت کے موضوع اور مصداق کے سلسلے میں ارشاد ہوا ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛ اللہ کا تم میں سے ان بندوں سے (کہ خدا اور حجتِ عصر) پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کرتے رہیں، وعدہ ہے کہ (بعد از ظہور) روئے زمین پر انہیں ضرور بہ ضرور خلیفہ قرار دے گا  جس طرح کہ اس نے انہیں خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ضرور اقتدار عطا کرے گا ان کے اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گا ان کے ہر خوف کو امن و اطمینان میں؛ وہ میری عبادت کریں گے اس طرح کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے تو یہی فاسق لوگ ہوں گے۔ (2) اس آیت شریفہ میں بھی انکارے کے خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا ہے:

إِذَا فُقِدَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ فَاللَّهَ اللَّهَ فِي أَدْيَانِكُمْ لَا يُزِيلُكُمْ عَنْهَا أَحَدٌ؛ جب ساتویں امام [یعنی میرا] پانچواں فرزند غائب ہوجائے تو اپنے دین کا خیال رکھو، کہیں کوئی تمہيں تمہارے دین سے دور نہ کردے۔ (3)

انحراف کا خوف

امام زمانہ(عج) کی محبت اور وصال کے راستوں کی تلاش اور عرصۂ فراق کی طوالت اور حتی کہ وصال کے لئے عجلت، مہدویت کے دکانداروں کی منڈی کی رونق کا باعث بن سکتی ہے؛ وہی دکاندار جنہوں نے لوگوں کی اس مخلصانہ محبت اور پاک ترین عقیدت کو بازیچہ اور اپنے لئے شہرت، دنیاوی اعتبار اور مال و دولت کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ عباسی بادشاہ مہدی عباسی سے لے ـ

جس نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے عصر امامت میں اپنے آپ کو مہدی موعود قرار دیا اور عباسیوں نے اس موضوع کو اپنی بادشاہت کے استحکام کا ذریعہ بنایا (4) ـ  حال حاضر تک کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو امام(ع) کی زوجہ، امام(ع) کا فرزند، امام(ع) کا نائب، امام(ع) کا باب وغیرہ وغیرہ کہلواتے ہیں؛ سب کے سب اپنے مفادات کے لئے افراد کے خالصانہ عشق و مودت سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور امام مہدی(عج) کے عشاق اور محبین و منتظرین کے عقیدے میں انحراف پیدا کرنے کے مصادیق ہیں۔

نجات دہندہ کے دیرینہ عقیدے اور مہدویت کے اعتقاد سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا امکان اس قدر قوی تھا کہ احادیث میں ہمیں امام زمانہ(عج) کے ساتھ رابطہ رکھنے کے دعوید

اروں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ امام زمانہ(عج) نے اپنے آخری نائب خاص علی بن محمد سمری (رضوان اللہ علیہ) کے نام اپنے آخری خط میں لکھا: "بسم الله الرحمن الرحيم يا علي بن محمد السمري أعظم الله أجر إخوانك فيك: فانك ميت ما بينك وبين ستة أيام فاجمع أمرك ولا توص إلى أحد فيقوم مقامك بعد وفاتك، فقد وقعت الغيبة التامة فلا ظهور إلا بعد إذن الله تعالى ذكره وذلك بعد طول الامد وقسوة القلب وامتلاء الارض جورا وسيأتي شيعتي من يدعي المشاهدة ألا فمن ادعى المشاهدة قبل خروج السفياني والصيحة فهو كذاب مفتر۔۔۔؛  اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم والا ہے۔ اے علی بن محمد سمری! خداوند متعال آپ کے سوگ پر آپ کے بھائیوں کے اجر میں اضافہ فرمائے۔ آپ چھ دن بعد زندگی سے وداع کریں، اپنے امور کو منظم کرنا اور [نیابت خاصہ میں] اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہ کرنا، کیونکہ غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے اور ظہور اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہوگا، اور وہ بھی طویل عرصے کے بعد جب بہت سے دل قساوت کا شکار ہوچکے ہونگے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آگاہ رہنا جس نے بھی سفیانی کی بغاوت اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کیا، بہت جھوٹا اور بہتان تراش ہے۔ (5)

نیز معصومین علیہم السلام نے ہم سے تقاضا کیا ہے کہ کبھی بھی ظہور کے لئے وقت متعین نہ کریں اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ كَذِبَ الْوَقَّاتُونَ إِنَّ مُوسَی علیه السلام لَمَّا خَرَجَ وَافِداً إِلَی‏ رَبِّهِ وَاعَدَهُمْ ثَلَاثِینَ یَوْماً فَلَمَّا زَادَهُ اللَّهُ عَلَی الثَّلَاثِینَ عَشْراً قَالَ قَوْمُهُ قَدْ أَخْلَفَنَا مُوسَی عليه السلام فَصَنَعُوا مَا صَنَعُوا؛ [ظہور کے لئے] وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں، وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں؛ بےشک جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کا حکم لینے [طور سیناء میں] داخل ہوئے تو اللہ انھوں نے اپنی قوم کو 30 دن کا وعدہ دیا اور جب اللہ نے 10 دن کا اضافہ کیا تو ان کی قوم نے کہا: موسی(ع) نے ہمارے سے وعدہ خلافی کی ہے، اور انھوں نے کیا جو کیا (یعنی بچھڑے کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اور سامری کے مرید)۔ (6)

چنانچہ اگر مہدویت کے مباحث مصادیق اور وقت کے تعین پر مرکوز ہوجائیں، اور بطور مثال شعیب بن صالح، سید یمانی، سید خراسانی، نفس زکیہ وغیرہ کے لئے مصادیق معین کئے جائیں یا کوئی خاص وقت یعنی سال و ماہ و تاریخ ظہور کے لئے متعین کیا جائے اور پھر نہ وہ اشخاص وہی ہوں جنہیں مذکورہ عناوین کا مصداق گردانا گیا ہے اور نہ اس گھڑی ظہور وقوع پذیر ہو جس کا تعین کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ ظہور و انتظآر پر لوگوں کے عقیدے کے سست ہونے اور اصولی طور پر خود عقیدہ مہدویت کے متنازعہ ہوجانے، اور اس بنیادی عقیدے سے عوامی روگرانی کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔

اصلاح اور انتظار کی امید

مذکورہ خدشوں اور مخاوف کے ساتھ ساتھ غیبت کبری کے دوران فردی اصلاح اور ظہور کے لئے مکمل تیاری کی امید بھی ہے؛ یوں کہ انسان تیاری کرے اور پوری آمادگی اور ادب کے ساتھ اپنے آپ کو امام زمانہ(عج) کے حضور میں حاضری دینے کا منتظر ہو، اور یہ کہ انسان جانتا ہے کہ اپنی تیاری اور محنت و کوشش اور اہلیت کے تناسب سے امام زمانہ(عج) کی حکومت عدل میں صاحب منزلت ہوگا اور بہت بہتر انداز سے اسلام اور امت کی خدمت کرسکے گا؛ اور یہ کہ انسان ترکِ گناہ اور فرائض کی ادائیگی کو اپنے امام کی خوشنودی کا سبب جانتا ہے اور عصر ظہور میں سربلند اور رو سفید ہوکر حضرت مہدی(عج) کا دیدار چاہتا ہے؛ یہ سب عصر غیبت کی امید آفرینی کے ثمرات ہیں۔

غیبت کے زمانے میں ہی امام کو یاد رکھنا اور ایمان کا تحفظ کرنا تمام ائمۂ اطہار علیہم السلام کے زمانوں میں مؤمنانہ کردار سے زیادہ بہتر و بالاتر ہے؛ جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ ثَبَتَ عَلَى مُوَالاَتِنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا أَعْطَاهُ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِثْلَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ؛ جو شخص ہمارے

قائم(عج) کی غیبت کے زمانے میں ہماری پیروکاری پر ثابت قدم رہے خداوند متعال اس کا اجر بدر اور احد کے شہداء کی سطح کے ہزار شہیدوں کے برابر قرار دیتا ہے۔ (6)

ایک حقیقی منتظر قطعی انحراف کا باعث بننے والی شیطانی جلدبازیوں سے بالکل دور رہ کر معتبر احادیث اور دعاؤں سے حاصل ہونے والی معرفت کی روشنی میں، بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر صحیح انتظآر کی حالت میں ہوتے ہوئے موت کو گلے لگا لے اور اس کی دنیاوی زندگی زمانۂ ظہور کے ادراک سے قبل ہی اختتام پذیر ہوجائے تو پھر بھی رجعت کے اصولوں اور دعائے عہد کے بیان کے مطابق، نئی زندگی پائے گا اور صدائے تکبیر کے ساتھ اپنی قبر سے محشور ہوگا اور اپنے امام کی مدد کو پہنچے گا۔ چنانچہ حتی کہ پیرانہ سالی اور ظہور کی عدم وقوع پذیری بھی اسے صحیح انتظار سے باز نہیں رکھتی اور

اس کی امید کبھی بھی ناامیدی میں نہیں بدلتی؛ کیونکہ وہ ہر صبح یہ دعا پڑھتا رہا ہے کہ:

"اللَّهُمَّ إِنْ حَالَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ الْمَوْتُ الَّذِي جَعَلْتَهُ عَلَى عِبَادِكَ حَتْماً مَقْضِيّاً، فَأَخْرِجْنِي مِنْ قَبْرِي مُؤْتَزِراً كَفَنِي شَاهِراً سَيْفِي مُجَرِّداً قَنَاتِي مُلَبِّياً دَعْوَةَ الدَّاعِي فِي الْحَاضِرِ وَ الْبَادِي؛ اے خدا! اگر میرے اور میرے امام(ع) کے درمیان حائل ہوئی جسے تو نے اپنے بندوں کے لئے حتمی اور قطعی قرار دیا ہے، تو مجھے میری قبر سے کفن پوش ہوکر، بے نیام تلوار اور برہنہ نیزہ ہاتھ میں لئے داعی حق کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا، شہر نشین اور صحرا نشین کے درمیان۔ (8)

کون سے مہدوی نعرے برحق ہیں؟

مخاوف سے جان بچا کر قلب سلیم کے ساتھ عہدہ برآ ہونے اور امید واثق کے ساتھ عاقلانہ و عاشقانہ انتظار کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم امام عصر(عج) کی صرف دو توقیعات شریفہ کے پابند ہوں؛
توقیع شریف اسحاق بن یعقوب کے نام:

فَمَنْ أَنْكَرَنِي فَلَيْسَ مِنِّي وَسَبِيلُهُ سَبِيلُ اِبْنِ نُوحٍ ۔۔۔ وَأَمَّا ظُهُورُ اَلْفَرَجِ فَإِنَّهُ إِلَى اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَكَذَبَ اَلْوَقَّاتُونَ  ۔۔۔ وَأَمَّا اَلْحَوَادِثُ اَلْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَأَنَا حُجَّةُ اَللَّهِ... وَأَمَّا وَجْهُ اَلاِنْتِفَاعِ بِي فِي غَيْبَتِي فَكَالاِنْتِفَاعِ بِالشَّمْسِ إِذَا غَيَّبَهَا عَنِ اَلْأَبْصَارِ اَلسَّحَابُ وَإِنِّي لَأَمَانٌ لِأَهْلِ اَلْأَرْضِ كَمَا أَنَّ اَلنُّجُومَ أَمَانٌ لِأَهْلِ اَلسَّمَاءِ فَأَغْلِقُوا بَابَ اَلسُّؤَالِ عَمَّا لاَ يَعْنِيكُمْ وَلاَ تَتَكَلَّفُوا عِلْمَ مَا قَدْ كُفِيتُمْ وَأَكْثِرُوا اَلدُّعَاءَ بِتَعْجِيلِ اَلْفَرَجِ فَإِنَّ فِي ذَلِكَ فَرَجَكُمْ؛

جو میرا انکار کرے وہ مجھ سے نہیں ہوگا اور اس کی مثال نوح کی بیٹے کی مثال ہے... اور ظہورِ فَرَج اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو لوگ وقت کا تعین کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں... اور نئے رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے میں ہماری حدیثوں کے راویوں رجوع کیا کرنا کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں جیسا کہ میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں... اور یہ کہ لوگ میری غیبت میں میرے وجود سے کیونکر مستفید ہونگے تو میرے وجود سے استفادہ بادلوں میں چھپے سورج سے اسفادہ کرنے کی مانند ہے، میں اہل زمین کے لئے امان ہوں جس طرح کہ ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں۔ ایسے سوالات پوچھنے سے پرہیز کرو جن کا تمہارے لئے کوئی فائدہ نہيں ہے اور اپنے آپ کو ایسی چیزوں کے سیکھنے کے لئے مشقت میں مت ڈالو جن کی تمہیں ضرورت نہيں ہے۔ میرے ظہورِ فَرَج کی تعجیل کے لئے بہت دعا کیا کرو کیونکہ یقینا میرے ظہور میں تمہاری اپنی فراخی اور تمہارے اپنے مسائل کا حل ہے۔

توقیع شریف کے مذکورہ بالا اقتباسات میں ـ عصر غیبت کے دوران ثابت قدمی، ایمان کے تحفظ، عقیدۂ مہدویت اور ظہور کی تعجیل کے لئے دعا اور مراجع تقلید اور مکتب اہل بیت(ع) کے فقہاء اور علماء سے رجوع کے سلسلے میں بہت اہم نکات بیان فرمائے گئے ہیں۔

چنانچہ ایک فرد یا گروہ ـ حتی ظاہری طور پر مہدوی نعروں کے ساتھ ـ اگر فقہائے عظام اور مراجع تقلید کی مخالفت کرے تو اس کے تمام تر نعرے باطل ہیں اور وہ شخص اہل بدعت ہے۔ یہ مسئلہ ہم سے ہمارے امام معصوم، مہدی مُنتَظَر کا تقاضا اور آنجناب کا فرمان ہے جو آپ نے اپنے آخری نائب خاص کے نام اپنے آخری خط میں تحریر فرمایا ہے۔

فرماتے ہیں:

بِسْمِ اَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِيمِ  فَقَدْ وَقَعَتِ اَلْغَيْبَةُ اَلتَّامَّةُ فَلاَ ظُهُورَ إِلاَّ بَعْدَ إِذْنِ اَللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَذَلِكَ بَعْدَ طُولِ اَلْأَمَدِ وَقَسْوَةِ اَلْقُلُوبِ وَاِمْتِلاَءِ اَلْأَرْضِ جَوْراً وَسَيَأْتِي شِيعَتِي مَنْ يَدَّعِي اَلْمُشَاهَدَةَ أَلاَ فَمَنِ اِدَّعَى اَلْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوجِ اَلسُّفْيَانِيِّ وَاَلصَّيْحَةِ فَهُوَ كَذَّابٌ مُفْتَرٍ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ اَلْعَلِيِّ اَلْعَظِيمِ۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔۔۔  غیبت تامّہ (یا غیبتب کبری] کا آغاز ہوچکا ہے، اور کوئی ظہور نہیں ہے سوا اللہ کے اذن کی رو سے، بہت طویل عرصے کے بعد، دلوں کی قساوت اور زمین کے ظلم و ستم سے بھر جانے کے بعد، اور یہ کہ بہت جلد کچھ لوگ تمہاری طرف آئیں گے اور دیدار [بمع نیابت] کا دعوی کریں گے لیکن جب تک کہ سفیانی کی بغاوت کا آغاز نہیں ہوا اور آسمانی چیخ سنائی نہيں گئی، ایسا کوئی بھی دعوی کرنے والا جھوٹا اور دھوکہ باز ہے؛ اور  اللہ کے سوا  کوئی بھی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ (10)

امام زمانہ کے مکتوبات کی پناہ میں عصر غیبت کے انحرافات سے محفوظ رہنا ممکن ہوجاتا ہے اور صحیح انتظار کے سائے میں اعتقادی خرابیوں کی اصلاح کا اہتمام کرکے روز بہ روز امام کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ س

ے زیادہ انسیت پیدا کی جاسکتی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج52، ص308۔
2۔ سورہ نور، آیت 55۔
3۔ الکلینی، الکافی، ج1، ص335۔
4- طباطبائی، سید محمد کاظم، گونه‌های چالش آفرینی عباسیان نخستین در مسأله امامت (امامت کے مسئلے پر ابتدائی عباسیوں کی مسئلہ آفرینیوں کی اقسام)، ص135۔
5۔ احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص297۔ چونکہ یہ توقیع شریف (امام عصر(عج) کا مکتوب) نیابت خاصہ اور امام(ع) کے ساتھ مؤمنین کے بالواسطہ تعلق کے خاتمے کا اعلان ہے لہذا علامہ مجلس نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے کہ دیدار کے دعویدار کے جھٹلانے سے ایسے دعویدار کا جھٹلانا مراد ہو جو دیدار بمع امام(ع) کی نیابت کا دعوی کرے۔ (علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص318 و 325۔
6- الکلینی، الکافی، ج1، ص368-369۔
7۔ علی بن عبد الکریم بہاء الدین النیلی الجفی، منتخب الأنوار المضیّة , ج1، ص79؛ علامہ مجلسی،  بحار الأنوار، ج52، ص125۔
8۔ دعائے عہد سے اقتباس۔
9۔ الراوندي، قطب الدين أحمد بن يحيى، الخرائج والجرائح، ج3، ص1113؛ الحر العاملي، وسائل الشیعة (دار احیاء التراث العربي - بیروت - المحقق الحاج الشيخ محمد الرازي) ج18، ص101، ح9؛ شیخ صدوق، كمال الدين، ج2، ص483، ح4.  علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص180، ح10.
10۔ شیخ صدوق، کمال ‌الدین، ص516؛ شیخ طوسی، الغيبة، ج1، ص395۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علاقے کے بہت سارے اسلامی ممالک اگر چہ بظاہر اسلامی ملک ہیں لیکن در حقیقت وہ قضیہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے والوں میں سے ہیں اور ان کی پالیسیاں فلسطینی کاز کے بالکل برخلاف ہیں وہ بجائے اس کے کہ فلسطینی عوام کی حمایت کریں امریکہ اور صہیونی ریاست کے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ فلسطینی عوام کا مدافع رہا ہے اور غربی عربی اور عبری مثلث کے ظالمانہ مقاصد کے خلاف ڈٹا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین پر ظالمانہ قبضے کے دور سے آج تک صہیونی ریاست کے جبر و استبداد کے مقابلے میں سینہ سپر ہے۔ اور اس اسٹراٹجیک نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطین میں ریفرنڈم کے انعقاد کے عنوان سے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے تاکہ اس ملک کی سرنوشت خود فلسطینیوں کے ہاتھوں لکھی جا سکے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے رہبر انقلاب اسلامی کے اس منصوبے کے حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ”سعد اللہ زارعی” کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں:
خیبر: رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام کے لیے ریفرنڈم کے عنوان سے سنہ ۱۳۶۹ میں ایک منصوبہ پیش کیا تھا، بعد از آن آپ نے ۱۷ مرتبہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عالمی برادری پر زور ڈالا۔ اس پیش کش اور منصوبے کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
۔ میری نظر میں، رہبر معظم انقلاب نے یہ منصوبہ پیش کر کے مغرب کو ایک نازک مرحلے میں کھڑا کر دیا ہے۔ مغربی رہنما بہت ہی دلکش ہیں انہوں نے غنڈہ گردی کے ساتھ دنیا میں بہت سارے کام انجام دئیے ہیں۔ انہی مغربیوں نے دنیا میں انتخابات کا معاملہ اٹھایا اور اس طرح جس شخص یا گروہ کو چاہا دنیا کے ہر خطے پر مسلط کر دیا۔ اور جس شخص یا گروہ کے ساتھ مخالفت کی اسے گرا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مکمل ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ مغربیوں کے اسی حربے کو استعمال کیا اور فلسطین میں ریفرنڈم کا اعلان کیا جو بظاہر مغربی سیاست کے مطابق ہے لیکن در حقیقت فلسطینی مسئلے کا بہترین راہ حل بھی ہے۔ در حقیقت، انہوں نے مغرب کو ایک نازک حالات میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ رہبر انقلاب نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ مغرب مجبور ہو کر یا ریفرنڈم اور حق رائے دہی کے شعار کو ترک کر دے یا اس پیش کش کو قبول کرے۔ چنانچہ اگر وہ ریفرنڈم کے منکر ہوتے ہیں تو گویا وہ اپنے ہی دعوے کے منکر ہیں اور دوسری طرف سے وہ رہبر انقلاب کی پیش کردہ پیش کش کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں لہذا وہ ایسے نازک حالات میں گرفتار ہیں کہ اگر ان دو طرفوں میں سے کسی ایک طرف کا بھی انتخاب کرتے ہیں تو ان کی شکست ہے۔
خیبر: کیا آپ کی نگاہ میں یہ منصوبہ قابل نفاذ ہے اور کیا یہ پیش کش مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک نہائی پیش کش ہے؟
۔ رہبر انقلاب کے پیش نظر یہ پیش کش اور منصوبہ ایک حقیقی اور واقعی منصوبہ ہے اور میری نظر میں قابل نفاذ ہے۔ لیکن مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے دو بحثیں ہیں: ایک بحث اسرائیل کی نابودی کی ہے اور دوسری بحث سرزمین فلسطین کے مستقبل کی ہے، یہ دونوں بحثیں الگ الگ ہیں۔
صہیونی ریاست کی نابودی کے مسئلے میں صرف ایک ہی طریقہ کار ہے اور وہ ہے مزاحمت۔ اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ ہم صہیونیوں کو بین الاقوامی قوانین، علاقائی عہد و پیمان اور بیرونی جنگوں کے ذریعے فلسطین سے نکال سکیں۔ اسرائیل کی نابودی کا واحد راستہ اندرونی مزاحمت ہے۔ یہی مزاحمت جو اس وقت فلسطین میں موجود ہے اور رہبر انقلاب بھی اس مسئلے پر زور دیتے ہیں اور مسلحانہ مزاحمت پر تاکید کرتے ہیں۔
غزہ تقریبا ۶ فیصد فلسطینی سرزمین پر مشتمل ہے اور آج یہ علاقہ بطور کلی مسلح ہے، مغربی کنارے میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے اور یہ علاقہ جو ۱۶ فیصد فلسطین پر مشتمل ہے اور غزہ سے بڑا ہے وہ بھی تقریبا مسلح ہے۔ اور یہ علاقہ اردن میں ساکن فلسطینی پناہ گزینوں سے جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ۴ ملین سے زیادہ فلسطینی پناہ گزیں مسلحانہ انتفاضہ میں شامل ہو سکتے ہیں اور یہ چیز اسرائیل کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔
لہذا اسرائیل کی نابودی کا مسئلہ صرف مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نابودی کے بعد فلسطین کو کیسے چلایا جائے گا؟ اس سرزمین پر حکومت کرنے میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا کیا کردار ہو گا اور ان کی ذمہ داری کیا ہو گی؟
اس عوام کو سمندر میں نہیں پھینکا جا سکتا اور نہ انہیں نابود کیا جا سکتا ہے، یہ مسئلہ ایک سیاسی تدبیر کا محتاج ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اسے پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ فلسطینیوں ( چاہے مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی) کو چاہیے کہ اس ریفرنڈم میں حصہ لیں اور سرزمین فلسطین کو چلانے کا طریقہ کار معین کریں۔
خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ بعض لوگ کوشاں ہیں کہ اس سرزمین پر ساکن اور غیر ساکن فلسطینی پناہ گزینوں میں سے ایک ایک فرد کی صورتحال کا جائزہ لیں اور ان کی اصالت کو مشخص کریں، انشاء اللہ اگر آئندہ سالوں میں ریفرنڈم کے لیے موقع فراہم ہو، تو اس منصوبے کا ایک حصہ عملی جامہ پہن لے گا اور ایسا ہونا بھی چاہیے تاکہ اس مسئلے کے حوالے موجود تشویش کا خاتمہ ہو سکے۔
صہیونیوں کے دعوے کے مطابق ۷ ملین یہودی مقبوضہ فلسطین میں ساکن ہیں۔ لیکن ہمارے جائزے اور اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے چار ملین سے زیادہ یہودی نہیں ہیں۔ لیکن بہر صورت یہودیوں کی یہ تعداد جس میں یقینا ۳ ملین یہودی غیر فلسطینی ہیں کی تکلیف معین ہونا چاہیے۔ یقینا ان میں سے بعض کو کچھ شرائط کے تحت فلسطینی شہری کے عنوان سے قبول کرنا پڑے گا۔
بنابرایں، اس مسئلے میں بہت پیچیدگیاں اور چیلینجیز پائے جاتے ہیں لہذا فلسطین کے ساکن یہودی مطمئن رہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور ایسا نہیں ہے کہ جو رویہ صہیونیوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنایا وہی مسلمان بھی ان کے ساتھ اپنائیں گے۔
خیبر: رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین میں حق خود ارادیت کے استعمال کے حوالے سے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ریفرنڈم کا منصوبہ ان فلسطینیوں سے مخصوص ہے جو ۱۹۴۸ سے قبل اس سرزمین میں زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت کا سلسلہ ۱۹۰۵ سے شروع ہوا، اسرائیلی حکومت ۴۳ سال اس کے بعد وجود میں آئی اور اس دوران یہودیوں کی کثیر تعداد فلسطین میں ہجرت کر چکی تھی۔ سنہ ۱۹۴۵ میں تقریبا ۳ فیصد فلسطین یہودیوں کے اختیار میں تھا لیکن سنہ ۱۹۴۸ میں جب اقوام متحدہ نے اسرائیل کو جنم دیا اسرائیل کی سرزمین ۳۷ فیصد فلسطین کو شامل ہو گئی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے اس منصوبے کے مطابق ۱۹۴۸ سے قبل کے فلسطینیوں کو اس ریفرنڈم میں حاضر ہونا چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہودی جنہوں نے فلسطین ہجرت کی ہے ان کے بارے میں گفتگو ہو۔ رہبر انقلاب نے در حقیقت ان کی فائل کو بند نہیں کیا بلکہ آپ نے ۱۹۴۸ کے بعد والے مہاجر یہودیوں کا چپٹر کلوز کر دیا ہے۔ میری نظر میں یہ مسئلہ قابل غور ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کوئی شخص ایسا ہو جو خود فلسطینیوں کی نسل سے ہو اور فلسطین واپس آیا ہو۔ اس لیے ۱۹۴۸ سے قبل کا چپٹر بند نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مسئلہ بھی ریفرنڈم کی پیچیدگیوں میں سے ایک ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ خود ریفرنڈم کو بھی فلسطین میں بہت سارے چیلنجیز ہیں اسکے اطراف و جوانب پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کو باریکیوں سے بیان ہونا چاہیے ایک ایک پوئنٹ پر بات ہونا چاہیے۔
جو چیز حائز اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے ایک کلی منصوبہ پیش کیا ہے اس کے جزئیات پر گفتگو کرنا محققین اور ماہرین کا کام ہے۔ البتہ حالیہ سالوں اس حوالے سے سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں لیکن بطور کلی فلسطینیوں، عرب حقوق دانوں اور مغربی محققین پر مشتمل ایک گروہ تشکیل پانا چاہیے جو اس حوالے سے معلومات اکٹھا کرے اور اس کے تمام جوانب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جامع لائحہ عمل سامنے لائے۔

ہفتہ وحدت ایک بہترین موقع ہے جس میں عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کی ضرورت کا جائزہ لیا جاسکتاہے خاص طور پر اس دور میں جب عالم اسلام فتنہ و آشوب سے دوچار ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران سمیت پوری دنیا میں 12 سے 17 ربیع الاول کے ایام کو ہفتہ وحدت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جشن عید میلاد النبی(ص) اور ہفتہ وحدت انتہائی شان و شوکت کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

بارہ ربیع الاول کی مبارک تاریخ کی مناسبت سے ایران کے مختلف علاقوں میں سنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ شیعہ مسلمان اور علمائے کرام ،عید میلاد النبی کے  جشن میں شریک ہیں اور نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کر رہے ہیں ۔

اہل سنت راویوں اور علما  کے مطابق بارہ ربیع الاول پیغمبراسلام کی ولادت باسعادت کی تاریخ ہے جبکہ شیعہ راویوں اورعلما کے مطابق پیغمبراسلام کی ولادت باسعادت کی تاریخ سترہ ربیع الاول ہے اسی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رح)نے بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کی تاریخ کو ہفتہ وحدت قراردیا تھا اور اس کے بعد سے ہر سال ایران اور پوری دنیا میں ان ایام میں ہفتہ وحدت منایا جاتا ہے -

واضح رہے کہ دشمنان اسلام مسلمانوں  کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں ہیں اور عالمی سامراج قومی اور مذہبی جذبات کو مشتعل اور علاقے کے ملکوں میں جنگ کے شعلوں کو بھڑکا کر غاصب صیہونی حکومت کی سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہتاہے اور دشمن شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرکے اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئےعالم اسلام تاریخ کے ایک اہم موڑ پر حیرت انگیز تبدیلیوں سےگزر رہا ہے اور اس حساس صورتحال میں جب اسلام اور حقانیت کے محاذ کا امریکا کی زیرسرکردگی کفرو نفاق اور سامراج  کے محاذ سے سخت مقابلہ ہے تو علمائے اسلام اور دانشوروں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی اختلافی عمل اور کسی بھی مسلک کے مقدسات کی توہین جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور آیت الله خامنہ ای (رہبر انقلاب اسلامی) نے بھی بار بار تاکید فرمائی ہے، جائز نہیں ہے۔

تاریخ کی مختصر سی ورق گردانی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی حیات طیبہ کے مختصر جائزے سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امامت کی حیات کا یہ دور سابقہ ادوار سے بالکل مختلف تھا۔ عباسی سرکار نے مسلمانوں کے درمیان امام حسن عسکری علیہ السلام کی خاص منزلت کے پیش نظر، آپ کی زندگی کے تمام شعبوں پر کڑی نگرانی کا انتظام کیا تھا اور ستمگر حکمران آپ کے لئے کسی بھی قسم کی قائل نہ تھے۔ امام(ع) کے تمام علمی، ثقافتی، سیاسی، دینی اور سماجی تعلقات پر حکومت کی نہایت شدید حفاظتی اور معلوماتی نگرانی قائم کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود  آپ نے عباسی دور کے شدید گھٹن کے اس دور میں شیعہ معاشروں کی تقویت اور اپنے پیروکاروں کے لئے فکری، ثقافتی امداد رسانی کے لئے پانچ انتہائی خفیہ حکمت عملیوں کا انتظام کیا تھا:

1۔ نہایت قابل قدر علمی اور ثقافتی کوششیں  

گوکہ کہ امام(ع) کو عباسی سرکار کی کڑی نگرانی کا سامنا تھا مگر آپ نے تمام تر سیاسی اور معاشرتی گھٹن اور دباؤ کے باوجود ایسے شاگرد تیار کئے تھے جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کی ترویج، شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے شبہات کا ازالہ کرنے اور سائلین کے سوالات کا جواب دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ان فکری سپاہیوں کی تعداد ـ جو بہر طور امام(ع) کے چشمہ علم و معرفت سے سیراب ہوئے تھے ـ 100 تک پہنچتی تھی۔ (1) ان نمایاں علمی شخصیات میں سے کچھ نمایاں ترین  احمد بن اسحاق قمی، ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری، عبداللہ بن جغفر حِمیَری، ابو جعفر محمد بن عثمان سعید بن عَمرِی وغیرہ ہیں۔

2۔ شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتھ رابطے کے لئے خفیہ جال بچھانا

امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں شیعہ معاشرہ قم، آبہ، نیشابور، سامرا، خراسان، یمن، رے، آذربائی جان، کوفہ، بصرہ، جرجان، بغداد سمیت دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں اور متعدد شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ جن کے درمیان سامرا، بغداد، نیشابور، قم اور کوفہ جیسے شہر ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور خاص حکمت عملی کے حامل تھے۔ (2)

اور پھر شیعہ حیات کے جغرافیے کی وسعت اور پھیلاؤ ایک خفیہ ادارے اور روابط کے ایک خفیہ نظام کا تقاضا کرتے تھے، ایسا نظام جو  امام(ع) کے انتظام و قیادت کے تحت کام کرتے ہوئے شیعیان اہل بیت(ع) کو امامت و ولایت سے متصل کردے۔  فطری امر ہے کہ عباسی سرکاری کی طرف سے امام(ع) کی کڑی نگرانی اور شدید حفاظتی انتظامات کے ہوتے ہوئے، اس طرح کا نظام بہترین شیوہ تھا جو شیعہ معاشروں کے انتظام و قیادت کو ممکن بنا سکتا تھا۔ اسی سلسلے میں نویں امام کے دور امامت کے آخری برسوں سے وکالت اور نمائندوں کی تقرری کا انتہائی خفیہ جال مختلف علاقوں میں منظم اور سرگرم عمل ہوا۔ یہ سلسلہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور میں بھی جاری رہا۔ (3)

3۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی انتہائی خفیہ اور سیاسی سرگرمیاں

امام حسن عسکری علیہ السلام عباسی بادشاہت کی طرف سے شدید حفاظتی اقدامات اور نگرانیوں کے باوجود، کچھ خفیہ اور سیاسی سرگرمیوں کی قیادت کررہے تھے۔ لیکن امام(ع) کا حفاظتی نظام اس قدر محفوظ تھا کہ عباسی شاہی دربار کبھی بھی آپ کی خفیہ سرگرمیوں کا سراغ نہ لگا سکا اور اگر عباسیوں کو ان سرگرمیوں کی بھنک پڑتی تو یقینا وہ امام(ع) کے  خلاف شدید ترین اقدامات عمل میں لاتے۔ بطور مثال: عثمان بن سعید عَمری، جو امام کے نہایت قریبی ساتھی سمجھ جاتے تھے، معاشرے میں "سمّان" یا روغن فروش کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے اور اسی عنوان سے معاشرے میں کام کرتے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب اور پیروکار جو اموال امام(ع) کو پہنچانے کا ارادہ کرتے، تو انہیں عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دیتے تھے اور وہ انہیں گھی کے کنستروں اور مشکیزوں میں رکھ لیتے تھے اور امام(ع) کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ (4)

4۔ شیعیان اہل بیت(ع) کی مالی امداد

امام عسکری علیہ السلام کی زندگی کا ایک بہت کام یہ تھا کہ آپ محتاجوں کو توجہ دیتے تھے اور ان کے مالی مسائل حل کرلیتے تھے اور یہ اقدام بجائے خود شیعیان اہل بیت(ع) اور ادارۂ امامت کے درمیان رابطوں کے استحکام میں نہایت بابرکت کردار ادا کرتا تھا۔ تاریخی محققین کی رائے کے مطابق، امام(ع) کی اس ثقافتی، سماجی اور اقتصادی فعالیت نے معاشرے کے کمزور طبقوں کو مالی اور معاشی دباؤ سے کی بنا پر انہیں ظالم عباسی بادشاہی نظام میں جذب ہونے سے چھٹکارا دلوایا۔ (5)

بطور مثال بعض تاریخی مآخذ میں منقول ہے کہ ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حوالے سے تنگدستی کا شکار تھا، میں نے اپنی صورت حال کو ایک خط کے ضمن میں امام حسن عسکری(ع) کے لئے تحریر کرنا چاہا مگر شرم کے مارے خط لکھنے کو نظر انداز کر گیا۔ جب گھر پہنچا تو امام(ع) نے 100 دینا میرے لئے بھجوا دیئے اور ایک خط بھی، جس میں آپ نے تحریر فرمایا تھا: جب بھی تمہیں ضرورت ہو، شرماؤ نہیں اور ہم سے مانگو، اللہ چاہے تو

اپنے مقصود تک پہنچوگے۔ (6)

5۔ شیعیان اہل بیت کو عصر غیبت کے لئے تیار کرنا

چونکہ ایک معاشرے کے امام و رہبر کا غائب ہونا ایک بہت بڑا اور ناقابل برداشت واقعہ ہے اور بہت سوں کے لئے ایسا واقعہ قبول کرنا، دشوار نظر آتا ہے۔ چنانچہ ابتداء ہی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی کوشش تھی کہ غیبت کے بہت اہم موضوع کو اپنے پیروکاروں کے لئے واضح کریں۔ اس بہت اہم اور تزویری اہمیت کے حامل موضوع کو امام علی النقی الہادی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے ادوار میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا رہا تاکہ اسلامی معاشروں کو فرہنگ انتظار اور منتظر معاشرے کے آداب سے روشناس کرایا جاسکے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- رجال، المکتبۃ الحیدریۃ، 1381، ص427۔
2- طبسی، شیخ محمد جواد،حیاۃ االامام العسکری، ص223۔
3- مہدی پیشوائی، سیرۂ پیشوایان، ص633۔
4- شیخ طوسی، الغیبۃ، ص214۔
5۔ مہدی پیشوایی، سیره پیشوایان، ص639۔
6- شیخ مفید، الارشاد، ص343۔

امریکہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی بلا منازع بڑی طاقت کہلواتا تھا اس وقت رو بزوال ہے۔ بہت سارے مفکرین اور دانشور اس حقیقت پر یقین کامل رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے دلائل کے سہارے امریکی زوال کی گواہی دیتا ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکی طاقت کے زوال اور یک قطبی عالمی نظام کے چند کثیر قطبی عالمی نظام میں بدلنے کے سلسلے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ ذرائع ابلاغ میں جاری رہا ہے اور ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ موضوع کس حد تک سنجیدہ ہے اور جو لوگ امریکی زوال کی بات کرتے ہیں ان کے ہاں اس کی نشانیاں اور معیارات کیا ہیں؟

اس رپورٹ میں سات ایسے مفکرین کی آراء و نظریات کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جو عرصے سے اس زوال کی پیش گوئی کرتے آئے ہیں۔

اس رپورٹ کی تمہید میں امریکی قیادت میں یک قطبی عالمی نظام کے آغاز پر روشنی ڈالیں گے۔

دیمک جیسا زوال

سوویت اتحاد (کمیونسٹ روس) وقت کے امریکی صدر جارج ہربرٹ واکر بش (بش سینئر) کے برسر اقتدار آنے کے دو سال بعد سنہ 1991ع‍ میں زوال پذیر ہوا۔ بش کے علاوہ بھی کئی لوگ اس وقت دوسری عالمی جنگ کے ترکے کے طور پر بنے دو قطبی عالمی نظام کے خاتمے کے گن گارہے تھے۔ بش تزویری امور کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں ایک دوسرے کو امریکی بالادستی کے دور اور امریکی صدی کے آغاز کی خوشخبریاں سنا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ "اس کے بعد دنیا پر امریکی طرز حیات، اقدار اور ثقافت کی حکمرانی ہوگی۔

بل کلنٹن کا نعرہ بھی بش سینئر سے ملتا جلتا تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ اب جو امریکہ کہے گا دنیا میں وہی ہوگا اور یہ کہ دنیا میں اقدار کا تعین امریکہ کرے گا اور جب ان کا دور گذرا اور بش جونیئر کا دور آیا تو انھوں نے باپ کی روش کو اپنے انداز سے جاری رکھا۔ انھوں نے اپنا منصوبہ فرانسس فوکویاما کے نظریئے "تاریخ کا خاتمہ" (1) اور سیموئل ہنٹنگٹن (2) کے نظریئے "تہذیبوں کا تصادم" (3) پر استوار کیا۔ بش جونیئر نے سوویت اتحاد کے بعد ایک منظم دہشت گردی کو امریکہ کے نئے دشمن کے طور پر متعارف کروایا اور افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوئے۔

ان مسائل کے بعد ہی امریکی بالادستی کے زوال کی پہلی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ مشہور امریکی مفکر اور نظریہ پرداز نوآم چامسکی نے اسی زمانے میں کہا کہ امریکی زوال کا آغاز ہوچکا ہے اور امریکی حکام کا یہ متکبرانہ خیال ـ کہ امریکہ ہی بلا مقابلہ طاقت ہے ـ ایک خوش خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

امریکی پروفیسر اور کیٹو (4) نامی تھنک ٹینک کے سینئر رکن ٹیڈ گیلن کارپینٹر (5) نے امریکہ کے تدریجی زوال کے لئے "دیمک جیسا زوال" (6) کی اصطلاح سے استفادہ کیا جسے بعد میں کرسٹوفر لین (7) نے اپنے مضمون میں استعمال کیا۔

سنہ 2016ع‍ ڈونلڈ ٹرمپ بر برسراقتدار آئے تو امریکی طاقت اور امریکی سپنے کے زوال کے بارے میں متعدد دوسرے تجزیہ نگاروں نے بھی اظہار خیال کیا۔ ٹرمپ نے 2016 میں پہلی سطح کے امریکی سیاستدان کے طور پر امریکی طاقت کے کی نشانیاں ناپید ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ باعظمت نہیں رہا" اور انھوں نے اس نعرے کو اپنی صدارتی انتخابی مہم کا نعرہ قرار دیا کہ "آیئے امریکہ کو ایک بار پھر باعظمت بنائیں"۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی سلامتی کی تزویری دستاویز (سنہ 2017ع‍) میں ـ پہلی بار، "مسلسل جنگ جوئیوں" اور "رقیبوں سے پیچھے رہنے" کے بموجب ـ امریکی طاقت کے تدریجی زوال کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور اس سلسلے کا سدباب کرنے یا اسے مؤخر کرنے کو اپنے منصوبوں کا محور قرار دیا۔ مشہور امریکی سیاستدان ہنری کیسنجر نے بھی کہا ہے کہ "میرے خیال میں شاید ٹرمپ ان ہی تاریخی کرداروں میں سے ایک ہے جو کبھی ایک دور کے خاتمے کا اعلان کرنے کے لئے ابھرتے ہیں"۔

ٹرمپ اور امریکی طاقت کے زوال کے باہمی تعلق کے بارے میں تجزیہ نگاروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ زوال کا سلسلہ عرصہ پہلے شروع ہوچکا تھا اور عوام نے ٹرمپ کے اس نعرے کو ووٹ دیا کہ "ایک بار پھر امریکہ کو باعظمت بنائیں"، جو اس حقیقت کا ضمنی اور سماجی اعتراف ہے کہ "امریکہ پسماندگی کا شکار ہوچکا ہے"۔ ان لوگوں کے خیال میں ٹرمپ اس زوال کا سبب نہیں بلکہ اس کی علامت ہیں۔

بعض دوسروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ سے پہلے زوال کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور ٹرمپ ہی نے  بین الاقوامی معاہدوں سے علیحدہ ہوکر اور دیرینہ اتحادیوں کو دور کرکے دنیا میں امریکہ کے قائدانہ کردار اور اثر و رسوخ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں ٹرمپ امریکی زوال کا سبب ہیں۔

تجزیہ نگاروں کی ایک تیسری جماعت بھی ہے جنہوں نے درمیانی موقف اپنایا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکی طاقت کے زوال کا ایک تدریجی اور سست رو سلسلہ پہلے سے موجود تھا لیکن ٹرمپ نے امریکہ کے اسی رخ کو آشکار کردیا جس نے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا اور یوں انھوں نے اس سلسلے کی رفتار کو تیزتر کردیا۔

بہرحال تینوں مبصرین کے تینوں گروہوں کا مشترکہ خی

ال ہے کہ امریکی طاقت اور بالادستی کا زوال اس سے کہیں زيادہ نمایاں ہے کہ اس کا انکار کیا جاسکے۔

ذیل میں ہم ان مفکرین اور نظریہ پردازوں کا تعارف کروانے کی کوشش کی ہے جو مختلف نشانیوں اور علائم کی رو سے امریکی طاقت کے زوال کی پیشگوئی کر چکے ہیں۔

ذیل میں ہم ان مفکرین اور نظریہ پردازوں کا تعارف کروانے کی کوشش کی ہے جو مختلف نشانیوں اور علائم کی رو سے امریکی طاقت کے زوال کی پیشگوئی کر چکے ہیں۔

1-نوام چامسکی (8)

چامسکی، نظریہ ‌پرداز، مفکر اور سیاسی مبصر ہیں جنہوں نے متعدد مقالات اور مضامین امریکہ کے زوال کے بارے میں تحریر کئے ہیں۔ وہ "فرید زکریا" سمیت دوسرے مبصرین کی مانند سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے زوال کا باعث خود امریکہ ہی ہے۔

چامسکی کہتے ہیں کہ امریکہ ـ اگرچہ ایک جمہوریت ہے ـ لیکن یہ "سرمایہ داروں کا ملک" بن چکا ہے۔ وہ جو "امریکہ کے سیاسی دھارے میں کالے دھن (9) کے کردار" محقق اور ناقد ہیں، تفصیل کے ساتھ سیاستدانوں کو کمپنیوں اور نجی مالیاتی اداروں کے مفادات کا تابع بنانے میں امیر لابیوں کے کردار کے بارے میں متعدد مضامین تحریر کرچکے ہیں۔

چامسکی سرمایہ دارانہ نظام کے ناقدیں میں سے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جو کچھ آج "سرمایہ داری" کہلاتی ہے، در حقیقت کمپنیوں کی سوداگری کا دوسرا نام ہے اور یہ سوداگری وسیع البنیاد مطلق العنانیت پر استوار اور نہایت غیر جوابدہ ہے جو ملکی معیشت، سیاسی نظامات اور ثقافتی و سماجی حیات پر مسلط ہے۔  اور طاقتور حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعاون کرتی ہے یہ سوداگری اندرونی معیشت اور بین الاقوامی برادری میں وسیع مداخلت کرتی ہے۔

چامسکی کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 80 فیصد عوام اپنے معاشی نظامی کو "ذاتا غیر منصفانہ" اور سیاسی نظآم کو دھوکہ باز سمجھتے ہیں جو "خاص مفادات" کا تحفظ کرتا ہے اور عوامی مفاد کو اہمیت نہیں دیتا۔ عوام کی اچھی خاصی اکثریت کا خیال ہے امریکی معاملات میں مزدوروں کی صدا نہیں سنی جاتی (یہی صورت حال برطانیہ کی بھی ہے)۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت محتاج عوام کو امداد رسانی کی ذمہ دار ہے، اور یہ کہ صحت اور تعلیم کے اخراجات کی تکمیل ٹیکس حذف کرنے اور بجٹ کو کم کرنے پر مقدم ہے، اور یہ کہ آج ریپبلکنز جو قوانین کانگریس سے بڑی آسانی سے منظور کروا رہے ہیں وہ سب امیروں کے مفاد اور عام لوگوں کے نقصان میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ جو دانشور کہلواتے ہیں شاید وہ کوئی دوسری داستان سرائی کرنا چاہیں لیکن حقائق تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔

نوآم چامسکی اعلانیہ طور پر جدید عالمی نظام اور آج کی دنیا میں طاقت کے قواعد پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نظام اور اس کے قواعد سے سے حاصل ہونے والے نتائج دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ تفکرات کی ترویج کے مفاد میں ہیں اور جدید عالمی نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ نظام منافقت اور نسل پرستی پر استوار ہے۔ چامشسکی عراق کے سابق آمر صدام کو اسی نظام کا ثمرہ سمجھتے ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق جدید عالمی نظام میں حقائق کی تشریح صاحبان اقتدار کے مفاد میں ہوتی ہے؛ جیسا کہ کردوں پر صدام کے حملے کی خبروں کو وسیع سطح پر شائع کیا گیا یہاں تک کہ واشنگٹن نے بےگناہوں کے تحفظ کے بہانے اپنے مفادات کے حصول کے لئے قدم اٹھایا جبکہ اسی صدام نے شیعیان عراق پر کردوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک حملے کئے تھے لیکن نہ تو ان حملوں کی کوئی رپورٹ کہیں شائع ہوئی اور نہ ہی کوئی فکرمند ہوا!

 
2۔ جیمز پیٹراس (10)

برمنینگھم یونیورسٹی کے استاد اور فیکلٹی رکن جیمز پیٹراس ـ جو سینکڑوں مضامین اور درجنوں کتب کے مصنف ہیں ـ کی تحقیقات کا ایک موضوع "امریکی خارجہ پالیسی میں یہودی لابی کا کردار" ہے اور وہ اس لابی کی طرف سے ٹھونسی ہوئی پالیسیوں کو امریکہ کے زوال و انحطاط کا سبب گردانتے ہیں۔

پیٹراس نے اپنی کتاب "صہیونیت، عسکریت پسندی اور امریکی طاقت کا زوال" (11) میں خطے میں امریکی عسکریت پسندی میں یہودی لابی کے کردار پر تفصیل کے ساتھ  روشنی ڈالی ہے اور بعدازاں ان عوامل و اسباب پر بحث کی ہے جو دنیا بھر میں امریکی طاقت کے خاتمے کا موجب بنتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد، مغربی یورپ، جاپان، اور حال ہی میں چین اور روس نے اپنی معاشی صلاحیتوں کی بالیدگی کی طرف قدم بڑھائے ہیں اور اسی اثناء میں امریکہ یہودی لابی کے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور عسکریت پسندی کی طرف مائل رہتا ہے۔

اس مغربی پروفیسر کا کہنا ہے کہ "جو کچھ امریکہ کے لئے نقصان دہ ہے وہ مختصر مدت میں یہودی ریاست (اسرائیل) کے مفاد میں ہے"۔

3۔ فرید زکریا

فرید زکریا ایک سیاسی دانشور اور امریکی نیوز چینل "سی این این" کا اینکرپرسن ہیں جنہوں نے اپنی تحقیقات کا بڑا حصہ امریکی خارجہ پالیسی کو مختص کردیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی زوال و انحطاط کا سبب یہ ہے کہ اس ملک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد طاقت سے غلط فائدہ اٹھایا ہے۔

زکریا کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر دوستوں کو اپنے آپ سے دور کردیا ہے اور اپنے دشمنوں کو تقویت پہنچائی ہے۔

زکریا کہ کہنا ہے کہ 11 ستمبر کے حملوں نے امریکی بالادستی کے خاتمے میں دوہرا کردار ادا کیا ہے۔ ان حملوں نے ابتداء میں واشنگٹن ک

و آمادہ کیا کہ اپنے وسائل اور افواج کو ـ اس [امریکہ] کے بقول ـ دہشت گردی کے خلاف حرکت دے۔ سنہ 2001ع‍ میں امریکی معیشت اپنے بعد کی پانچ اقتصادی طاقتوں کی مجموعی معیشت سے بڑی تھی، اور اس نے اپنے فوجی اخراجات کو بڑی حد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا سبب امریکہ کا عراق پر حملہ تھا جو اس ملک کے لئے ایک نہایت مہنگے المیے میں بدل گیا۔

ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے امریکی خارجہ پالیسی کو آخری مہلک اور کاری ضربوں کا نشانہ بننا پڑا ہے اور انھوں نے امریکہ کو "ماورائے بحرالکاہل شراکت داری" (12) جیسے معاہدوں سے نکال کر، یورپ سے دوری اختیار کرکے اور امریکی خارجہ پالیسی کی باگ ڈور سعودی ریاست اور یہودی ریاست کے ہاتھ میں دے کر امریکی بالادستی کے زوال کو عیاں بھی کردیا ہے اور آگے بھی بڑھایا ہے۔

4- ڈیوڈ رینی  (13)

ڈیوڈ رینی ایلینویز  یونیورسٹی (14) کے استاد اور 100 سے زیادہ کتب اور مقالات کے مصنف ہیں۔ وہ اپنی کتاب "جدید عالمی ابتری: امریکی طاقت کا زوال" (15) میں " اقدار کا بحران" (16) نامی مفہوم کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ اس بحران نے 2008ع‍ کے معاشی بحران کے بعد امریکی معاشرے کو آ لیا ہے۔ ان کے بقول اقدار کا بحران سرمایہ داری کی پوری تاریخ میں بھی جاری رہا ہے اور یہ ذاتا سرمایہ داری کا لازمہ ہے۔

رینی نے اپنی ویب گاہ میں اس کتاب میں مندرجہ نظریات کی یوں وضاحت کی ہے: "میں نے جو نتائج اخذ کئے ہیں ان میں سے ایک یہ تھا کہ ہمارے 1970ع‍ اور 1980ع‍ کی دہائیوں کا تجربہ وہی ہے جس کو میں "اقدار کا بحران" کہتا ہوں جس کے رد عمل میں پورا سرمایہ داری نظام بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ہے اور اس کے نتیجے میں مزدوروں کو اپنے روزگار سے محروم اور اپنی رہائشی سہولتوں سے محروم ہوکر خانہ بدوش ہونا پڑا، اس کے باوجود کہ اسی پالیسی کو نئے سرے سے تیار کرکے جارج بش (سینئر) نے "جدید عالمی نظام" کا نام دیا جبکہ یہ پالیسی جاری رکھنے کے قابل نہ تھی۔ یہ نظام ایک تنکوں کے بنے گھر کے اوپر استوار تھا اور آج وہ تنکوں کا گھر شکست و ریخت کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔ ہمیں ایک بار پھر اقدار کے بحران کا سامنا ہے۔ ہم نے اس کتاب میں استدلال کیا ہے کہ اقدار کا موجودہ بحران یا تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے نفاذ پر منتج ہوگا یا پھر بنیادی تبدیلیوں پر"۔

رینی مزید لکھتے ہیں: "دنیا میں امریکہ کا مسلط کردار 1940ع‍ کے عشرے کے وسط سے قائم تھا اور سرمایہ دارانہ نظام ـ اپنی موجودہ شکل میں ـ مختلف پہلؤوں سے دباؤ کا شکار رہا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہمہ جہت دباؤ آخرکار کامیاب ہوجائے اگرچہ معلوم نہیں ہے کہ کونسی چیز اس کے متبادل کے طور پر سامنے آئے گی۔ حکومت کے اخراجات میں اضافے کی تجاویز بھی کارساز نہيں ہونگی"۔

رینی کہتے ہیں: "جیسا کہ میں نے کہا کہ سنہ ہے کہ سنہ 2008-2009ع‍ سے اقدار کا بحران شروع ہوچکا ہے؛ تو یہ کہنا میرا مقصود نہ تھا کہ جس تجربے سے ہم 2008ع‍ میں گذرے ہیں یہی 1930ع‍ کی دہائی کے اقتصادی بحران کے بعد واحد کسادبازاری تھی؛ جس صورت حال سے ہم آج گذر رہے ہیں یہ اس بحران کی تدریجی بہتری نہیں ہے بلکہ ہم ایک نہایت سنجیدہ بحران کے ابتدائی دنوں میں ہیں۔ اقدار کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کی پوری تاریخ میں جاری رہا ہے اور یہ بحران اس نظام کا لازمہ ہے۔
 
5- الفرڈ میک کائے  (17)

وسکانسن میڈیسون یونیورسٹی (18) میں تاریخ کے پروفیسر الفرڈ میک کائے نے مشہور کتاب "ہیروئن کی سیاست: منشیات کے عالمی لین دین میں سی آئی کی شراکت داری" (19) کے مصنف بھی ہیں۔ میک کائے نے امریکی زوال کے بارے میں بےشمار مضامین لکھ لئے ہیں اور ہاں! وہ ان "امریکہ کے بغیر کے عالمی نظام" کا خیر مقدم کرنے والے دانشوروں میں شامل ہیں۔
میک کائے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سی آئی کی فوجی بغاوتوں، ویت نام کی جنگ، عراق اور اور افغانستان پر جارحیت کے بعد عقوبت خانوں کے قیام اور مختلف ممالک میں امریکی ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ امریکی بالادستی کے زوال کے اسباب میں چین کے کردار کو بہت نمایاں سمجھتے ہیں۔

میک کائے کا خیال ہے کہ چین نے امریکی عالمی نظام کے متوازی عالمی نظام کی بنیاد رکھ کر مغرب کے زیر تسلط اداروں اور تنظیموں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔

میک کائے کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (20) "نیٹو" کا متبادل ہے، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (21) آئی ایم ایف کا متبادل اور خطے میں معاشی شراکت کا جامع معاہدہ (22) ماورائے بحرالکاہل شراکت داری نامی معاہدے (23) کا متبادل ہے۔ یہ مماثل ادارے ہیں جنہیں چین نے مغربی اداروں کے متبادل کے طور پر تشکیل دیا ہے۔

990ع‍ کی دہائی میں ـ ایک مختصر مدت کے لئے ـ ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیوں کے حصص (المعروف بہ Dot-com Bubble) میں حباب کے انداز میں اضافہ کیا گیا اور موجودہ صدی کی ابتدائی دہائی میں رہائش کی قیمت میں حباب سازی ایسی پالیسی تھی جو اگرچہ ابتداء میں کارگر ثابت ہوئی لیکن کچھ عرصہ بعد بحران پر منتج ہوئی اور اس وقت اس سطح کی حباب سازی کے لئے کوئی رغبت نظر نہيں آرہی ہے؛ گوکہ کہ اس وقت شرح سود صفر (0) تک پہنچ چکی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ چونکہ اس صورت حال میں شرح سود میں کمی مسئلے کا حل نہیں ہے اور مجموعی مانگ میں اضافے کے لئے حکومتوں کے اخراجات میں اضافے کا بھی امکان نہیں ہے لہذا امریکہ ٹرمپ کے دور میں اپنا بحران دوسرے ممالک ـ بالخصوص چین ـ میں برآمد کرکے اپنے بحران پر غلبہ پانے کے لئے کوشاں ہے۔

پٹنائک کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان معاشی جنگ ـ جسے امریکی معیشت کو بحران سے نکالنے کے لئے شروع کیا گیا ہے ـ اس وقت امریکہ کے اندرونی بحران کو عالمی معیشت میں منتقل کررہی ہے  اور دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے لئے پانے والی مختصر سی رغبت کو بھی مزید کم کرچکی ہے۔

پٹنائک کے مطابق، اگرچہ ممکن ہے کہ یوں تصور کیا جائے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو ایک نئی اقتصادی کسادبازاری کے دہانے تک لے گئی ہیں؛ لیکن عالمی مبصرین اور تجزیہ نگار 2016ع‍ میں ان کے انتخاب کو نولبرل معیشت ـ جو رونلڈ ریگن (33) کی صدارت کے دور سے امریکہ کی معاشی پالیسی سازی کا اصول قرار پائی تھی ـ کے زوال  کی علامت سمجھتے ہیں اور اس انتخاب کو اس زوال کا سبب نہيں گردانتے۔

6۔ پربھات پٹنائک (24)

پربھات پٹنائک بھارت کے مارکسی نظریئے کے حامل ماہر معاشیات اور سیاسی مبصر ہیں جو تقریبا 10 کتابوں کے مؤلف ہیں جو انھوں نے ان کتابوں میں دنیا کے سیاسی مسائل کو معیشت کے دریچے سے دیکھا ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے ناقدین میں سے ہیں اور انھوں نے اس نظام کے زوال کے اسباب کو بھی اس نظام کے اندرونی نقائص کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔
پٹنائک کے خیال میں 2008ع‍ کا معاشی بحران عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ باہم بُنا ہوا بحران ہے اور امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اس بحران سے عبور  کے لئے بنیادی راہ حل تلاش کرنے کے بجائے عارضی اور سطحی اقدامات اور درد کُش دواؤں کا سہارا لیا گیا۔

پٹنائک نے حال ہی میں اپنی یادداشت میں لکھا: "سنہ 2008ع‍ کے مالیاتی بحران کے بعد امریکہ اور دوسرے ممالک میں توسیعی مالیاتی پالیسی (25) کو اختیار کیا گیا اور شرح سود کو تقریبا صفر (0) تک گھٹایا گیا۔ اس اقدام نے محض وقتی طور پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو محض وقتی طور پر سانس لینے کا موقع فراہم کیا، لیکن اس وقت ایک بار پھر کسادبازاری کی نشانیاں ظاہر ہونے لگی ہیں"۔

پٹنائک ان نشانیوں کے بارے میں کہتے ہیں: "امریکہ میں تجارتی سرمایہ کاری میں کمی آنے لگی ہے اور صنعتی پیداوار کے اشاریہ جولائی 2019 کو جون کی نسبت 0.2 فیصد کمی آئی ہے۔ برطانیہ کی معیشت کو دوسرے سہ ماہی میں منفی نمو کا سامنا رہا اور جرمنی کی معیشت کی صورت حال بھی اس سے بہتر نہيں تھی۔ معیشت کی یہی تصویر اٹلی، برازیل، میکسیکو، ارجنٹائن اور بھارت سمیت دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی نظر آرہی ہے"۔

مغربی ممالک کے پالیسی سازوں کے ہاں کا راہ حل ـ اس طرح کے مسائل کے لئے ـ ایک بار پھر شرح سود میں کمی کرنا ہے۔ پٹنائک کا کہنا ہے کہ مغربی پالیسی سازوں کے اس راہ حل کا مقصد سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں بلکہ "اثاثوں کی قیمتوں میں بلبلا" پیدا کرنا ہے جو مجموعی مانگ (26) میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مجموعی مانگ میں یہ اضافہ در حقیقت ان لوگوں کی طرف سے ہوگا جو اپنے اثاثوں میں حبابی بڑھوتری (27) دیکھ کر محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ پہلے سے زیادہ امیر ہوگئے ہیں چنانچہ وہ اپنے اخراجات میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

اس ہندوستانی معیشت دان کا کہنا ہے کہ "دوسری عالمی جنگ کے فورا بعد ـ یعنی نولبرلیت (28) کے عالمگیریت کے آغاز سے قبل، جب حکومتوں کو کساد بازاری کا خطرہ محسوس ہوتا تھا تو وہ سرکاری اخراجات کو بڑھا دیتی تھیں تا کہ اس طرح مجموعی مانگ میں اضافہ کرسکیں۔ حکومتیں ضرورت کے وقت مالیاتی واجبات یا قرضہ جات میں اضافہ کرنے پر قادر تھیں کیونکہ ان کے پاس سرمائے پر نظارت کرنے (29) کا طریقۂ کار ہوتا تھا اور مالیاتی واجبات میں اضافے کی صورت میں سرمایوں کے فرار (30) کا خطرہ لاحق نہيں ہوتا تھا"۔

جان مینرڈ کینز (31) جنہیں سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی نظام کے معماروں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے، "مالی معاملات کو بین الاقوامی بنانے" کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ مالی معاملات کی حدودی کو ایک ملک کی سرحد کے اندر تک محدود ہونا چاہئے۔ اور اگر مالی معاملات کو بین الاقوامی بنایا جاے تو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں قومی ریاستوں (32) کی صلاحیت محدود ہوکر رہ جائے گی اور وہ مالی مسائل کے ہاتھوں میں قیدی بن کر رہ جائیں گی اور یہ سلسلہ روزگار کی فراہمی کے لئے سرکاری اخراجات کی بڑھوتری سے متصادم ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور وکیل کے طور پر اس خطرے کو محسوس کرتے تھے کہ اگر قومی ریاستیں  روزگار کے مواقع میں ضرورت کے مطابق اضافہ نہ کرسکیں تو سرمایہ داری اپنی بقاء کی ضمانت نہیں دے سکے گی۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت بالآخر اسی سمت چلی گئی جس کا کینز کو خطرہ تھا۔ مسلسل خسارے ـ جو کہ اس دور میں امریکہ کے کرنٹ اکاؤنٹ سے بھی بڑا ہے ـ کی بنا پر کثیرالقومی بینکوں کے پاس سرمائے کے ڈھیر لگانے ، نیز 1970ع‍ کی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں بےتحاشا اضافے اور سرمایے پر کنٹرول ـ جو بہت زیادہ مشکل ہوچکا تھا ـ کے پیش نظر اوپک کے رکن ممالک کے تیل کی آمدنی کے انبار اکٹھے کرنے کی وجہ سے، نیست و نابود ہوگئی۔ یہ رویہ اس لئے تھا کہ پوری دنیا کا مالی نظام کھل جائے اور ممالک اپنی مرضی کے مطابق ایک دوسرے کی مالیاتی منڈی تک رسائی حاصل کرسکیں۔ چنانچہ دنیا میں "بین الاقوامی مالیات" کی بالادستی کا آغاز ہوا۔ یہ رویہ مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے روزگار کی سطح کے تحفظ سے قومی ریاستوں کی پسپائی کے مترادف تھا۔ چنانچہ نولبرل سرمایہ داری میں مجموعی مانگ میں اضافہ کرنے کا واحد طریقہ قیمتوں میں ہیجان پیدا کرکے قیمتوں میں حباب پیدا کرنا تھا جس کے لئے شرح سود میں کمی کی پالیسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔

پٹنائک کی رائے کے مطابق ـ حکومت کے اخراجات کے برعکس، جنہیں مرضی کے مطابق منظم کیا جاسکتا ہے ـ "بلبلے" یا "حباب" کو مرتب یا کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔ 1

7۔ کرسٹوفر لین (34)

کرسٹوفر لین ابھرے ہوئے سیاسی مبصر اور ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے جارج بش سکول آف گورنمنٹ اینڈ پبلک سروس (35) کے انٹیلی جنس و قومی سلامتی کے استاد اور فیکلٹی رکن ہیں جنہوں نے اب تک امریکی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں 100 سے زائد مقالات اور تین کتب کے مصنف ہیں اور امریکی بالادستی، نیٹو اتحاد، عالمی جنگ کے بعد کی امریکی پالیسی، عراق میں امریکی پالیسی وغیرہ جیسے موضوعات پر ان کے درجنوں تحقیقی مقالات کئی معتبر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔

کرسٹوفر لین نے اپنے ایک مضمون میں ـ جسے چیتھم ہاؤس (36) نے شائع کیا ـ امریکی بالادستی کے زوال کے اسباب و عوامل کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور جدید چین کے ظہور  کو اس زوال کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب گردانا ہے۔ لکھتے ہیں: "آج فوجی، معاشی اور انتظامی قطاروں ـ جو "پاکس امریکانا" (37) اور امریکی بالادستی کی نگہبانی کررہی تھیں ـ کو چين نے خطرے میں ڈال دیا ہے"۔

وہ امریکی طاقت کے زوال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چین نے عسکری اور معاشی شعبوں میں اپنے آپ کو امریکہ کے قریب تر پہنچایا ہے۔ لین نے رینڈ کارپوریشن (38) نامی تھنک ٹینک کے حوالے سے لکھا ہے کہ  2020 اور 2030 کے درمیان چین کا عسکری ڈھانچہ ـ ڈاکٹرائن، وسائل اور ہتھیاروں، نفری اور تربیت کے لحاظ سے ـ امریکہ کے برابر ہوجائے گا۔ رینڈ کے تجزیئے کے مطابق، پیشگوئی کی گئی ہے کہ ان ہی برسوں کے دوران مشرقی ایشیا کے علاقے میں امریکہ کا تسلط شدت سے کم ہوجائے گا۔

لین کا کہنا ہے کہ گذشتہ عشروں کے دوران امریکی معاشی قوت میں کمی آنے اور دوسری طرف سے چین کی معاشی قوت میں اضافے کی نشانیاں اس سے کہیں زیادہ واضح اور عیاں تھیں کہ انہیں نظرانداز کیا جاسکے۔ عظیم کسادبازاری کے آغاز سے لے کر اب تک چین تسلسل کے ساتھ برآمدات، تجارت اور پیداوار کے لحاظ سے پہلے درجے کے ممالک میں شامل ہے۔ سنہ 2014ع‍ میں عالمی بینک نے یہ اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ "چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت میں تبدیل ہوا ہے"۔

لین کہتے ہیں کہ جو واقعات عالمی سطح پر رونما ہوئے ہیں ان کی وجہ سے امریکہ کی نرم طاقت بھی شدت سے کم پڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی معاشی کساد بازاری کے سب سے اہم اثرات وہ اثرات تھے جنہوں نے دنیا بھر میں امریکی نرم طاقت کے سلسلے کے عمومی ادراکات پر مرتب کئے ہیں اور اس امریکی طاقت کے بارے میں عمومی سوچ میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔

یہ حقیقت کہ امریکہ کا زیر تسلط مالیاتی نظام امریکہ کے اندرونی بحران کی وجہ سے اضطراب سے دوچار ہوا اور اسی اضطراب نے امریکہ کی ساکھ اور طاقت کو دھبہ دار کردیا اور مغربی دنیا کے ان دعؤوں کو غیر معتبر کردیا کہ آزاد منڈی کی تجارت، جمہوریت اور عالمگیریت کی راہ پر گامزن ہونا ہی سیاسی اور معاشی ترقی کا واحد راستہ ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

ماخذ: https://www.tasnimnews.com/fa/news/1398/07/15/2111752
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ End of the history
2۔ Samuel P. Huntington
3۔ Clash of civilization
4۔ Cato Institute
5۔ Ted Galen carpenter
6۔ Termite Decline
7۔ Christopher Layne
8۔ Noam Chomsky
9۔ Dirty money
10۔ James Petras
11۔ Zionism, Militarism and the Decline of US Power (2008)
12۔ Trans-Pacific Partnership TPP
13۔ David Ranney
14۔ Illinois University
15۔ New World disorder: The decline of US Power
16۔ Crisis of Value
17۔ Alfred W. McCoy
18۔ University of Wisconsin Medison
19۔ The Politics of Heroin: CIA Complicity in the Global Drug Trade
20۔ Shanghai Cooperation Organization [or Shanghai Pact]
21۔ Asian Infrastructure Investment Bank [AIIB]
22۔ Regional Comprehensive Economic Partnership [RCEP]
23۔ Trans-Pacific Partnership [TPP]
24۔ Prabhat Patnaik
25۔ Expansionary monetary policy
26۔ Aggregate demand
27۔ Bubble rise
28۔ Neo-liberalism
29۔ Capital control
30۔ Flight of capital
31۔ John Maynard Keynes
32۔ Nation states
33۔ Ronald Wilson Reagan
34۔ Christopher Layne
35۔ George Bush School of Government and Public Service at Texas A&M University
36۔ Chatham House
37۔ Pax Americana
38۔ Pax Americana

تہران میں خاتم الانبیا ایئرڈیفینس یونیورسٹی میں تربیت پانے والے افسران کی پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے فرمایا کہ دشمن کسی ملک کو جو سب سے بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک کی سلامتی اور امن وامان کو سلب کرلیا جائے۔

آپ نے فرمایا کہ خطے کے بعض ملکوں میں آج یہ عمل شروع کردیا گیا ہے اور عوام کے امن و سلامتی کو ان سے چھینا جارہا ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا بھر میں امریکہ اور مغربی ملکوں کے خفیہ ادارے خطے کی رجعت پسند حکومتوں کی دولت کے ذریعے آشوب برپا کر رہے ہیں اور یہ کسی بھی قوم کے ساتھ بدترین دشمنی اور خطرناک حد تک کینہ پروری ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عراق و لبنان سے ہمدردی رکھنے والوں کو نصیحت کی کہ وہ ترجیحی بینادوں پر اس بدامنی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

آپ نے فرمایا کہ میں عراق اور لبنان سے ہمدردی رکھنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بدامنی کے علاج کو ترجیح دیں، عوام کے کچھ مطالبات ہیں، جنہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پورا کیا جانا چاہیے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب کسی ملک کا قانونی ڈھانچہ درھم برہم اور سیاسی خلا پیدا ہوجائے تو پھر کوئی مثبت کام انجام نہیں دیاجاسکتا۔

آپ نے فرمایا کہ دشمن نے ایران کے خلاف بھی ایسے منصوبے تیار کیے تھے لیکن خوش قسمتی سے عوام بروقت میدان عمل میں اتر آئے ہماری مسلح افواج بھی پوری طرح آمادہ تھیں اور انہوں نے دشمن کی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سامراجی طاقتوں کے فوجیوں اور ایران کی مسلح افواج کے درمیان پائے جانے والے فطری فرق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی طاقتوں کی افواج کا کام دیگر ملکوں پرجارحیت، قبضہ جمانا اور نقصان پہنچانا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا بنیادی فلسفہ پوری قوت کے ساتھ ملک کا دفاع کرنا ہے اور اس میں کسی ملک کے خلاف جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے پچھلی ایک صدی کے دوران، برصغیر، مشرقی و مغربی ایشیا اور شمالی و مغربی افریقا میں برطانیہ، فرانس، اور امریکہ کی فوجوں کے بعض جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مذکورہ افواج کی اصل مشکل یہ ہے کہ ان کی بنیادیں سامراجی نظام پر رکھی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ قرآن اور اسلام کی تعلیمات پر بھروسہ کرنے پر تاکید کرتے ہیں۔

آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے روشن مستقبل کی امید اور وعدہ الہی کی تکمیل پر یقین کو دشمن کی سازشوں کے مقابلے کے اہم عوامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خدا وند تعالی کے لطف و کرم سے ایران کی نوجوان نسل انتہائی پرامید ہے اور وعدہ الہی کی تکمیل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حزب اللہ کے مومن اور فلسطینیوں کے باہمت جوانوں کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی پے در پے ناکامیوں کو وعدہ الہی کی تکمیل کا واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بھاری اخراجات برداشت کرنے کے باوجود مغربی ایشیا میں سامراجی طاقتوں کی شکست بھی وعدہ الہی کی تکمیل کا ایک اور نمونہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ خداوند تعالی کے لطف وکرم سے غزہ میں جاری واپسی مارچ ایک دن فلسطینیوں کی اپنی سرزمینوں کی واپسی پر منتج ہوگا۔

صلح امام حسن علیہ السلام کے شرائط دنیائے اسلام کے مستقبل کے لئے بڑے اہم اور مستحکم تھے اور صلح حسنی نے ہی حسینی قیام کی راہ ہموار کی۔

حضرت علی کی شہادت اور تکفین وتدفین کے بعدعبداللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیرقیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ ۲۱/ رمضان ۴۰ ہ یوم جمعہ کاہے۔

حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن کے ہاتھوں میں آئی توزمانہ بڑاپرآشوب تھاحضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھے دنیاسے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعة شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کوبیدارکردیاتھا اورساری مملکت میں سازشوں کی کھچڑی پک رہی تھی خودکوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمربن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلابرسرعناداورآمادہ فسادنظرآتے تھے ۔

معاویہ نے جابجاجاسوس مقررکردئیے تھے جومسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اورحضرت کے لشکرمیں اختلاف وافتراق کابیچ بوتے تھے اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اوربڑی بڑی رشوتیں دے کرانہیں توڑلیا۔

بحارالانوارمیں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمربن حریث ، اشعث بن قیس، حجرابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجاکہ جس طرح ہوسکے حسن ابن علی کوقتل کرادو،جومنچلایہ کام کرگزرے گااس کودولاکھ درہم نقدانعام دوں گا فوج کی سرداری عطاکروں گا اوراپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا یہ انعام حاصل کرنے کے لیے لوگ شب وروزموقع کی تاک میں رہنے لگے حضرت کواطلاع ملی توآپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نمازجماعت پڑھانے کے لیے باہرنکلتے توزرہ پہن کرنکلتے تھے_

معاویہ نے ایک طرف توخفیہ توڑجوڑکئے دوسری طرف ایک بڑالشکرعراق پرحملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جب حملہ آورلشکرحدودعراق میں دورتک آگے بڑھ آیا توحضرت نے اپنے لشکرکوحرکت کرنے کاحکم دیاحجرابن عدی کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرمایاآپ کے لشکرمیں بھیڑ بھاڑتوخاصی نظرآنے لگی تھی مگر سردارجوسپاہیوں کولڑاتے ہیں کچھ تومعاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے حضرت علی کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اوردشمنوں کوجرائت وہمت دلادی تھی۔

اس وقت آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایاہے کہ ہم میں ہرایک یاتلوارکے گھاٹ اترے گایازہروغاسے شہیدہوگا اس کے بعدآپ نے عراق، ایران،خراسان،حجاز،یمن اوربصرہ وغیرہ کے اعمال کی طرف توجہ کی اورعبداللہ ابن عباس کوبصرہ کاحاکم مقررفرمایا۔ معاویہ کوجونہی یہ خبرپہنچی کی بصرہ کے حاکم ابن عباس مقررکردیئے گئے ہیں تواس نے دوجاسوس روانہ کیے ایک قبیلہ حمیرکاکوفہ کی طرف اوردوسراقبیلہ قین کابصرہ کی طرف، اس کامقصدیہ تھاکہ لوگ امام حسن سے منحرف ہوکرمیری طرف آجائیں لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتارکرلیے گئے اوربعدمیں انہیں قتل کردیاگیا۔

حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن کے ہاتھوں میں آئی توزمانہ بڑاپرآشوب تھاحضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھے دنیاسے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعة شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کوبیدارکردیاتھا اورساری مملکت میں سازشوں کی کھچڑی پک رہی تھی خودکوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمربن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلابرسرعناداورآمادہ فسادنظرآتے تھے ۔۔۔ معاویہ نے جابجاجاسوس مقررکردئیے تھے جومسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اورحضرت کے لشکرمیں اختلاف وافتراق کابیچ بوتے تھے اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اوربڑی بڑی رشوتیں دے کرانہیں توڑلیا۔

بحارالانوارمیں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمربن حریث ، اشعث بن قیس، حجرابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیام بھیجاکہ جس طرح ہوسکے حسن ابن علی کوقتل کرادو،جومنچلایہ کام کرگزرے گااس کودولاکھ درہم نقدانعام دوں گا فوج کی سرداری عطاکروں گا اوراپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا یہ انعام حاصل کرنے کے لیے لوگ شب وروزموقع کی تاک میں رہنے لگے حضرت کواطلاع ملی توآپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نمازجماعت پڑھانے کے لیے باہرنکلتے توزرہ پہن کرنکلتے تھے_

معاویہ نے ایک طرف توخفیہ توڑجوڑکئے دوسری طرف ایک بڑالشکرعراق پرحملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جب حملہ آورلشکرحدودعراق میں دورتک آگے بڑھ آیا توحضرت نے اپنے لشکرکوحرکت کرنے کاحکم دیاحجرابن عدی کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرمایاآپ کے لشکرمیں بھیڑ بھاڑتوخاصی نظرآنے لگی تھی مگر سردارجوسپاہیوں کولڑاتے ہیں کچھ تومعاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے حضرت علی کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اوردشمنوں کوجرائت وہمت دلادی تھی۔

مورخین کابیان ہے کہ معاویہ ۶۰ ہزارکی فوج لے کرمقام مسکن میں جااترا جوبغدادسے دس فرسخ تکریت کی ”جانب اوانا“ کے قریب واقع ہے امام حسن علیہ السلام کوجب معاویہ کی پیشقدمی کاعلم ہ

واتوآپ نے بھی ایک بڑے لشکرکے ساتھ کوچ کردیااورکوفہ سے ساباط میں جاپہنچے اور ۱۲ ہزارکی فوج قیس ابن سعد کی ماتحتی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کردی پھرساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا ،جس میں آپ نے فرمایاکہ

”لوگوں ! تم نے اس شرط پرمجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اورجنگ دونوں حالتوں میں میراساتھ دوگے“ میں خداکی قسم کھاکرکہتاہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض وعداوت نہیں ہے میرے دل میں کسی کوستانے کاخیال نہیں میں صلح کوجنگ سے اورمحبت کوعداوت سے کہیں بہترسمجھتاہوں ۔“

لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کامطلب یہ سمجھاکہ حضرت امام حسن، معاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اورخلافت سے دستبرداری کاارادہ دل میں رکھتے ہیں اسی دوران میں معاویہ نے امام حسن کے لشکرکی کثرت سے متاثرہوکریہ مشورہ عمروعاص کچھ لوگوں کوامام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے لشکرمیں بھیج کرایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈاکرادیا۔ امام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ شہرت دینی شروع کی کہ اس نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اورقیس بن سعدکے لشکرمیں جوسازشی گھسے ہوئے تھے انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچاکردیاکہ امام حسن نے معاویہ سے صلح کرلی ہے_

امام حسن کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اوربدگمانی کے جذبات ابھرنکلے امام حسن کے لشکر کاوہ عنصرجسے پہلے ہی سے شبہ تھاکہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہ کہنے لگا کہ امام حسن بھی اپنے باپ حضرت علی کی طرح کافرہوگئے ہیں بالآخرفوجی آپ کے خیمہ پرٹوٹ پڑے آپ کاکل اسباب لوٹ لیاآپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا،دوش مبارک پرسے ردابھی اتارلی اوربعض نمایاں قسم کے افرادنے امام حسن کومعاویہ کے حوالے کردینے کاپلان تیارکیا،آخرکارآپ ان بدبختیوں سے مایوس ہوکرمدائن کے گورنر،سعدیاسعیدکی طرف روانہ ہوگئے ، راستہ میں ایک خارجی نے جس کانام بروایت الاخبارالطوال ص ۳۹۳ ” جراح بن قیصہ“تھا آپ کی ران پرکمین گاہ سے ایک ایساخنجرلگایاجس نے ہڈی تک محفوظ نہ رہنے دیاآپ نے مدائن میں مقیم رہ کرعلاج کرایا اوراچھے ہوگئے (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۱ ،تاریخ آئمہ ص ۳۳۳ فتح باری)۔

معاویہ نے موقع غنیمت جان کر ۲۰ ہزارکالشکرعبداللہ ابن عامرکی قیادت وماتحتی میں مدائن بھیج دیاامام حسن اس سے لڑنے کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ اس نے عام شہرت کردی کہ معاویہ بہت بڑالشکرلیے ہوئے آرہاہے میں امام حسن اوران کے لشکرسے درخواست کرتاہوں کہ مفت میں اپنی جان نہ دین اورصلح کرلیں ۔

اس دعوت صلح اورپیغام خوف سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے ہمتیں پست ہوگئیں اورامام حسن کی فوج بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے لگی۔

معاویہ کوحضرت امام حسن علیہ السلام کی فوج کی حالت اورلوگوں کی بے وفائی کاحال معلوم ہوچکاتھااس لیے وہ سمجھتے تھے کہ امام حسن کے لیے جنگ ممکن نہیں ہے مکراس کے ساتھ وہ بھی یقین رکھتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کتنے ہی بے بس اوربے کس ہوں ، مگرعلی وفاطمہ کے بیٹے اورپیغمبرکے نواسے ہیں اس لیے وہ ایسے شرائط پرہرگزصلح نہ کریں گے جوحق پرستی کے خلاف ہوں اورجن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو، اس کونظرمیں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک طرف توآپ کے ساتھیوں کوعبداللہ بن عامرکے ذریعہ پیغام دلوایاکہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو، اورخون ریزی نہ ہونے دو۔ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کورشوتیں بھی دی گئیں اورکچھ بزدلوں کواپنی تعدادکی زیادتی سے خوف زدہ کیاگیااوردوسری طرف حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجاکہ آپ جن شرائط پرکہیں انہیں شرائط پرصلح کے لیے تیارہوں ۔

امام حسن یقینا اپنے ساتھیوں کی غداری کودیکھتے ہوئے جنگ کرنامناسب نہ سجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرورپیش نظرتھاکہ ایسی صورت پیداہوکہ باطل کی تقویت کادھبہ میرے دامن پرنہ آنے پائے، اس گھرانے کوحکومت واقتدارکی ہوس توکبھی تھی ہی نہیں انھیں تومطلب اس سے تھا کہ مخلوق خداکی بہتری ہواورحدودوحقوق الہی کااجراہو،اب معاویہ نے جوآپ سے منہ مانگے شرائط پرصلح کرنے کے لیے آمادگی ظاہرکی تواب مصالحت سے انکارکرنا شخصی اقتدارکی خواہش کے علاوہ اورکچھ نہیں قرارپاسکتاتھا اوریہ معاویہ صلح کی شرائط پرعمل نہ کریں گے ،بعدکی بات تھی جب تک صلح نہ ہوتی یہ انجام سامنے آکہاں سکتاتھا اورحجت تمام کیونکر ہوسکتی تھی پھربھی آخری جواب دینے سے قبل آپ نے ساتھ والوں کوجمع کرلیا اورتقریرفرمائی

آگاہ رہوکہ تم میں وہ خون ریزلڑائیاں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ مقتول صفین میں ہوئے جن کے لیے آج تک رورہے ہواورکچھ مقتول نہروان کے جن کامعاوضہ طلب کررہے ہو، اب اکرتم موت پرراضی ہوتوہم اس پیغام صلح کوقبول نہ کریں اوران سے اللہ کے بھروسہ پرتلواروں سے فیصلہ کریں اوراگرزندگی کوعزیز رکھتے ہوتوہم اس کوقبول کرلیں اورتمہاری مرضی پرعمل کریں ۔

جواب میں لوگوں نے ہرطرف سے پکارناشروع کیاہم زندگی چاہتے ہیں ہم زندگی چاہتے ہیں آپ صلح کرلیجیے ،اسی کانتیجہ تھاکہ آپ نے صلح کی شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے

شرائط صلح

اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں :

۱ ۔ معاویہ حکومت اسلام میں ،کتاب خدااورسنت رسول پرعمل کریں گے۔ ۲ ۔ معاویہ کواپنے بعدکسی کوخلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہوگا۔ ۳ ۔ شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔ ۴ ۔ حضرت علی کے اصحاب اورشیعہ جہاں بھی ہیں ان کے جان ومال اورناموس اوراولاد محفوظ رہیں گے۔ ۵ ۔ معاویہ،حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اورخاندان رسول میں سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طورپراورنہ اعلانیہ ،اوران میں سے کسی کوکسی جگہ دھمکایااورڈرایانہیں جائے گا۔ ۶ ۔ جناب امیرالمومنین کی شان میں کلمات نازیباجواب تک مسجدجامع اورقنوت نمازمیں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردئیے جائیں ، آخری شرط کی منظوری میں معاویہ کوعذرہوا تویہ طے پایاکہ کم ازکم جس موقع پرامام حسن علیہ السلام موجودہوں اس جگہ ایسانہ کیاجائے ،یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول ۴۱ ء ہجری کوعمل میں آیا۔

صلح نامہ پردستخط

۲۵/ ربیع الاول کوکوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا اورصلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰)

اس کے بعد معاویہ نے اپنے لیے عام بیعت کااعلان کردیااوراس سال کانام سنت الجماعت رکھا پھرامام حسن کوخطبہ دینے پرمجبورکیا آپ منبرپرتشریف لے گئے اورارشاد فرمایا:

”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی اورآخرکے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا معاویہ نے اس امرمیں مجھ سے جھگڑاکیاجس کامیں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی نسبت اس امرکوترک کردینابہترسمجھا تم رنج وملال نہ کروکہ میں نے حکومت اس کے نااہل کودے دی اوراس کے حق کوجائے ناحق پررکھا، میری نیت اس معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ معاویہ نے کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۵) ۔

تکمیل صلح کے بعدامام حسن نے صبرواستقلال اورنفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناخوشگوارحالات کوبرداشت کیا اورمعاہدہ پرسختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہواکہ امیرشام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اورسیاسی اقتدارکے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہوکرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہئے ،قیام کیا اورجمعہ کے خطبہ کے بعداعلان کیاکہ میرامقصد جنگ سے یہ نہ تھا کہ تم لوگ نمازپڑھنے لگو روزے رکھنے لگو ،حج کرویازکواة اداکرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہومیرامقصد تویہ تھاکہ میری حکومت تم پرمسلم ہوجائے اوریہ مقصدمیراحسن کے اس معاہدہ کے بعدپوراہوگیا اورباوجودتم لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا رہ گئے وہ شرائط جومیں نے حسن کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچےہیں ان کاپوراکرنا یانہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے یہ سن کرمجمع میں ایک سناٹاچھاگیا مگراب کس میں دم تھا کہ اس کے خلاف زبان کھولتا۔

شرائط صلح کاحشر

مورخین کااتفاق ہے کہ معاویہ جومیدان سیاست کے کھلاڑی اورمکرو فریب اورزور کی سلطنت کے تاجدارتھے امام حسن سے وعدہ اورمعاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص ۱۶۲ میں ہے کہ معاویہ نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اورکسی پرعمل نہ کیا ، امام ابوالحسن علی بن محمدلکھتے ہیں کہ جب معاویہ کے لیے امرسلطنت استوراہوگیاتواس نے اپنے حاکموں کوجومختلف شہروں اورعلاقوں میں تھے یہ فرمان بھیجاکہ اگرکوئی شخص ابوتراب اوراس کے اہل بیت کی فضیلت کی روایت کرے گاتومیں اس سے بری الذمہ ہوں ، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اورلوگوں کومعاویہ کامنشاء معلوم ہوگیاتوتمام خطیبوں نے منبروں پرسب وشتم اورمنقصت امیرالمومنین پرخطبہ دیناشروع کردیاکوفہ میں زیادابن ابیہ جوکئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہدمیں ان کے عمال میں رہ چکاتھا وہ شیعیان علی کواچھی طرح سے جانتاتھا ۔ مردوں ،عورتوں ، جوانوں ، اوربوڑھوں سے اچھی طرح آگاہ تھا اسے ہرایک رہائش اورکونوں اورگوشوں میں بسنے والوں کاپتہ تھا اسے کوفہ اوربصرہ دونوں کاگورنربنادیاگیاتھا۔

اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ شیعیان علی کوقتل کرتااوربعضوں کی آنکھوں کوپھوڑدیتا اوربعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتاتھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اورپہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزارآدمیوں کاقتل واقع ہواجن میں بیالیس حافظ اورقاری قرآن تھے ان پرمحبت علی کاجرم عاید کیاگیا تھا حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے عثمان کے فضائل بیان کئے جائیں اورعلی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھاکہ ایک ایک فضیلت کے عوض دس دس منقصت ومذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلالینے اوریزیدکے لیے زمین خلافت ہموارکرنے کی خاطرتھا۔

کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی

صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اورعبداللہ ابن جعفراوراپنے اطفال وعیال کولے

کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی ،چنانچہ انہوں نے ۵/ بارآپ کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے جعدہ بنت اشعث کے پاس معاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے شہید کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ، ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیرجلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔

قائد اسلامی انقلاب نے پاکستانی وزیراعظم کیساتھ ایک ملاقات میں فرمایا ہے کہ ایران نے گزشتہ سالوں کے دوران، یمن سے متعلق ایک چار نکاتی امن منصوبے کی تجویز دی ہے اور اگر اس جنگ کا صحیح طرح سے خاتمہ ہوگا تو علاقے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

آپ نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کے فروغ پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مدتوں پہلے جنگ یمن کے خاتمے کے لیے چار نکاتی تجویز پیش کی تھی اور اس جنگ کا خاتمہ خطے پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ایران اور پاکستان  کے درمیان پائے جانے والے گہرے عوامی تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پاکستان کو اپنا برادر ہمسایہ ملک سمجھتا ہے اور ایسے بے مثال مواقع کے ہوتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں موجودہ صورتحال سے کہیں زیادہ گرمجوشی اور بہتری دکھائی دینا چاہیے اور سرحدوں کی سلامتی میں اضافہ  نیز گیس پائپ لائن جیسے معطل منصوبوں کو مکمل کیا جانا چاہیے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے میں سلامتی کے قیام کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی کوششوں کی قدردانی کی اور مغربی ایشیا کے علاقے کو انتہائی حساس قرار دیا۔

آپ نے اس علاقے میں حادثات کی روک تھام کے حوالے سے اجتماعی ذمہ داریوں پر تاکید اور عراق و شام میں میں دہشت گرد  گروہوں کی حمایت میں خطے کے بعض ملکوں کے تخریبی کردار کی جانب اشارہ نیز یمن میں جنگ و خونریزی  پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری ان ملکوں کے ساتھ کوئی  دشمنی نہیں ہے لیکن یہ ممالک امریکہ کی منشا کے تابع ہیں اور اسی کے کہنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر تاکید فرمائی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کبھی جنگ میں پہل نہیں کرے گا لیکن اگرکسی نے ایران کے خلاف جنگ شروع کی تو بلاشبہہ اسے اپنے کیے پر پشیمان ہونا پڑے گا۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ ایران نے گزشتہ سالوں کے دوران، یمن سے متعلق ایک چار نکاتی امن منصوبے کی تجویز دی ہے اور اگر اس جنگ کا صحیح طرح سے خاتمہ ہوگا تو علاقے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ریبر انقلاب اسلامی نے دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اور قریبی تعلقات کی مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم پاکستان کو اپنے برادر ہمسایہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور موجودہ صلاحیتوں اور مواقع کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی حالیہ سطح میں مزید توسیع دینی ہوگی۔

انہوں نے دونوں ملکوں کے مشترکہ سرحدوں پر امن و سلامتی کی مزید تقویت سمیت تاخیر کا شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بحالی اور تکمیل پر زور دیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے خطے میں قیام امن و استحکام سے متعلق پاکستانی وزیر اعظم کے جذبہ خیر سگالی اور ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے مغربی ایشیا کو ایک انتہائی حساس علاقہ قرار دے دیا۔

انہوں نے بعض خطی ممالک کیجانب سے عراق اور شام میں دہشتگرد گروہوں کی حمایت اور یمن میں جنگ اور خونریزی سے متعلق افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ان جیسے ممالک سے دشمنی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن وہ امریکہ کے زیر کنٹرول ہیں اور اس کی خواست کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف کاروائی کرتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس ملاقات میں ایران اور پاکستان کو دو برادر ملک قرار دیا اور کہا کہ تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعاون میں فروغ آنا چاہیے اور ہم ایران کے ساتھ  اپنے روابط کو خاص اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ہم ایران کو اپنا اہم تجارتی حلیف سمجھتے ہیں۔

انہوں نے تجارت کے شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو پاکستان کا ایک اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے باہمی تعلقات کی توسیع پر دلچسبی کا اظہار کردیا۔