Super User

Super User

Saturday, 01 August 2015 10:46

میثم تمّار

 

   صدر اسلام کی اہم شخصیتوں میں سے ایک، جو حضرت علی (ع) سے خاص محبت رکھتے تھے اور حضرت علی (ع) بھی انھیں کافی چاہتے تھے، میثم تمّار تھے۔ ان کی کامیاب زندگی اور ان کی فخر و مباہات والی شہادت تمام آزاد انسانوں اور مسلمانوں کے لئے درس، سر مشق اور الہام ہے۔

   وہ یحیی کے بیٹے تھے اور ان کا لقب ابو سالم تھا اور وہ امام علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے صحابی تھے۔ ان کا وطن، سر زمین " نہروان" تھا، یہ علاقہ عراق اور ایران کے درمیان واقع ہے، بعض مورخین نے انھیں ایرانی اور اہل فارس جانا ہے۔

   میثم کے والدین نے ان کے لئے اسی نام کا انتخاب کیا تھا۔[i] تمّار کا لقب میثم کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ کوفہ میں خرما فروش تھے۔[ii]

   امام علی علیہ السلام نے انھیں بنی اسد کی ایک عورت سے خریدا تھا اور اس کے بعد انھیں آزاد کیا تھا اور انسے مخاطب ہوکر فرمایا:" تمھارا نام کیاہے؟ انھوں نے جواب میں کہا : ابو سالم۔ امام (ع) نے فرمایا:" پیغمبر (ص) نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرے باپ نے تیرا نام میثم رکھا ہے۔"

   میثم نے کہا:" خدا، رسول خدا اور امیرالمؤمنین نے سچ فرمایا ہے، میرا نام میثم ہے۔"

   اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:" اپنے نام کی حفاظت کرنا اور اپنی کنیت ابو سالم قرار دینا۔"

   میثم تمّار نے آزاد ہونے کے بعد علوم ولایت کے خرمن سے علم و دانش اور فضیلت کی کافی خوشہ چینی کی کہ ان میں سے اہم علم " بلایا و منایا"[iii] اور تفسیر قرآن کا علم تھا۔

   ابن ابی الحدید اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:" علی (ع) نے بہت سے علوم میثم کو سکھائے اور انھیں اسرار سے واقف کیا۔"

   علی (ع) اور میثم کے درمیان جو اخلاص و صمیمیت تھی اس سے ان دو کے درمیان مودت و محبت کے رابطہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت علی (ع) میثم کی خرما کی دوکان پر جاتے تھے اور وہاں پر ان سے گفتگو کرتے تھے اور انھیں قرآن مجید اور دینی معارف کا درس دیتے تھے۔

تفسیر اور تاویل قرآن کا علم

   میثم، عالم اسلام کے ایک بڑے مفسر قرآن ہیں اور تنزیل، تفسیر، اور تاویل قرآن میں اس قدر متبحر تھے کہ ابن عباس، جو مفسرقرآن اور علی(ع) کے شاگرد تھے اور ان کی تفسیر عام و خاص کے لئے پسندیدہ تھی، جب میثم کی تفسیر و تاویل کے درس میں بیٹھے توحکم دیاکہ ان کے لئے قلم و کاغذ لایا جائے تاکہ قرآن مجید کے بارے میں میثم کے کلام کو لکھ لیں۔

   میثم نے کہا: تفسیر قرآن کے بارے میں جو پوچھنا چاہتے ہو، پوچھ لو، کیونکہ میں نے قرآن مجید کی تفسیر و تاویل امیرالمومنین(ع) سے سیکھی ہے۔"

   اس کے بعد اپنی تفسیر ابن عباس کے سامنے پیش کی اور انھوں نے اسے لکھا۔ اس کے بعد میثم نے اپنی شہادت کی کیفیت کو ابن عباس کے سامنے بیان کیا۔ ابن عباس نےخیال کیا کہ میثم ساحر اور پیشنگوئی کرنے والوں میں سے ہیں، اس لئے انھوں نے ان کی تفسیر کو نابود کرنا چاہا ، میثم نے کہا:" اسے اپنے پاس رکھنا، اگر میری شہادت کی خبر سچ نہ نکلی ، تو اسے نابود کرد ینا"۔[iv]

حدیث ومناقب کے راوی:

   میثم نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بہت سی احادیث سنی ہیں اور انھوں نے اس سلسلہ میں ایک کتاب مرتب کی تھی کہ افسوس، کچھ روایتوں کے علاوہ اس کتاب کا کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے ان کی تحریروں کو بیان کرتے تھے۔

امام علی (ع) کو متعارف کرانا:

   میثم، امام علی علیہ السلام کو متعارف کرانے کے بہت ہی مشتاق تھے۔ وہ عام لوگوں کو امام اور آپ (ع) کی عظمت کی طرف متوجہ کراتے تھے اور حتی کہ جب وہ ایک مدت تک ابن زیاد کے چنگل سے بچنے کے لئے روپوش تھے،تو ہر فرصت سے استفادہ کرکے علی علیہ السلام کے مناقب اور فضائل بیان کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔

دور اندیشی اور علم غیب

   میثم اسرار سے واقف تھے، وہ بہت سے آنے والے حوادث اور فتنوں سے آگاہ تھے اور ضرورت کی صورت میں افراد کی ظرفیت کے مطابق لوگوں کو ان کے بارے میں آگاہ فرماتے تھے۔ من جملہ، کوفہ میں مسلم کی شہادت کے بعد، میثم ومختار اور امام حسین (ع) کے بعض صحابیوں کے حاکم کوفہ ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی پیشنگوئی بھی ہے۔

   میثم نے مختار سے کہا: تم قید سے آزاد ہوجاؤگے اور امام حسین (ع) کی خونخواہی کے لئے انقلاب کروگے اور ہمارے قاتل ابن زیاد کو قتل کر ڈالو گے۔[v]

فن خطابت اور سخن وری:

   میثم: ایک فصیح و بلیغ مقرر تھے اور وہ بازار کوفہ کے میوہ فروش تھے اور دوسرے میوہ فروشوں کے ترجمان تھے۔ بازار کوفہ کے دوکانداروں کی طرف سے جب ابن زیاد کی شکایت کی جاتی تھی، تو وہ ان کے نمایندہ کے عنوان سے حاکم کوفہ کے پاس جاتے تھے۔

   اس کے علاوہ، میثم، " کمیل ابن زیاد" جیسے افراد کے قدم بہ قدم امام علی علیہ السلام کے،طاعت اور عبادت کے مواقع پر حاضر ہو کر حضرت (ع) کی عرفانی شبوں میں پروردگار سے راز و نیاز کے لمحات میں شریک ہوتے تھے۔

علی (ع) کے ہمدم

   جیسا کہ اشارہ کیا گیا، ،میثم امیرالمؤمنین (ع) کے قریبی دوستوں اور اصحاب میں سے تھے، انہوں نے کبھی کبھی کوفہ کے نخلستانوں میں امام علی (ع) کی مناجات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میثم فرماتے ہیں:" ایک رات کو میں امیرالمؤمنین کے ہمراہ  تھا ،ہم دونوں ،کوفہ سے باہر آئے، سب سے پہلے امام علی (ع) نے مسجد جعفہ میں چار رکعت نماز پڑھی اور ان جملوں سے بارگاہ الہی میں راز و نیاز کیا: اے میرے معبود تجھے کیسے پکاروں جبکہ میں نے تیری نافرمانی کی ہے اور کیسے تجھے نہ پکاروں جبکہ تجھے پہچانتا ہوں اور تیری محبت میرے دل میں مستحکم ہے میں نے تیری طرف ایک ایسے ہاتھ کو پھیلایا ہے ، جو گناہوں سے بھرا ہے۔ چشم امید رکھتاہوں۔ ۔ ۔جب دعا ختم ہوئی، پیشانی کو سجدہ میں رکھ کرسو مرتبہ" العفو" کہا اور اس کے بعد مسجد سے باہر آئے۔ میں ان کے ہمراہ تھا۔ تھوڑی سی راہ طے کرنے کے بعد، حضرت (ع) نے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: اس لکیر سے آگےنہ بڑھنا اور خود چلے گئے ۔ میں ڈر گیا کہ کہیں دشمن اور معاندین امام کو کوئی گزند نہ پہنچائیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ امام اپنے سر کو کمر تک ایک چاہ میں ڈال کر مناجات پڑھ رہے ہیں۔ میری موجودگی کو محسوس کرکے فرمایا: کون ہو؟ میں نے کہا میثم۔ فرمایا کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ لکیر سے آگے نہ بڑھنا؟ میں نے کہا: جی ہاں، لیکن میرے دل نے آرام نہیں پایا اور آپ کی جان کے بارے میں خائف ہوا۔ فرمایا: کیا میری گفتگو سے کچھ سمجھے؟ میں نے کہا: نہیں، اس کے بعد میرے لئے یہ شعر پڑھا:

وفی الصدر لبانات                         اذا ضاق لھا صدری

نکّت الارض بالکف                      وایدیت لھا سرّی

فمھما تنبت الارض                     فذاک النبت من بذری

   "میرے سینہ میں کچھ اسرار ہیں، جب سینہ پھٹنے کو آتا ہے ، اپنے ہاتھ سے زمین کھود کر اپنے اسرار کو اسے بتاتا ہوں ۔ جب زمین سے کوئی گھاس اُگتی ہے، وہ گھاس میرے بیج کا ماحصل ہوتی ہے۔"

   جس طرح میثم تمار خود اہل بیت (ع) کی خدمت میں تھے، ان کے دو بیٹے بھی اہل بیت (ع) کے صحابی تھے۔ شعیب بن میثم ، امام صادق (علیہ السلام) کے صحابی تھے اور صالح بن میثم امام باقر و امام صادق (ع) کے صحابی تھے۔

ایک بڑا رازدار

   میثم تمار، امام علی (ع) کی شاگردی کی روشنی میں بعض اسرار کے بارے میں آگاہ ہوئے تھے اور کبھی کبھی مستقبل کی خبر دیتے تھے کہ یہاں پر ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

امام علی (ع) کی شہادت کی خبر

   امام رضا علیہ السلام نے اپنے آبا و اجداد سے نقل کی گئیایک حدیث میں فرمایا ہے: " ایک دن میثم تمار، امام علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت (ع) کو سوئے ہوئے پایا۔ بلند آواز میں کہا: خدا کی قسم آپ کی ریش مبارک کا، آپ کے سرمبارک کے خون سے خضاب کریں گے۔ امام (ع) نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا: میثم داخل ہو جاؤ، میثم داخل ہوئے اور پہلے والے جملہ کو پھر سے دہرایا۔ امام نے فرمایا: سچ کہا تو نے، خدا کی قسم تیرے ہاتھ پاؤں اور زبان کو کاٹ دین گے، محلہ کناسہ کے درخت خرما کو کاٹ دیں گے اور اس کے چار حصے کریں گے اور ان میں سے ایک حصہ پر تجھے دار پر چڑھادیں گے اور دوسرے حصہ پرحجر بن عدی کو اور ایک حصے پر محمد بن اکتم کو اور پھر دوسرے حصے پر خالد بن مسعود کو دار پر چڑھا دیں گے۔"

   میثم نے کہا: یہ کام کون کرے گا؟  فرمایا:  بنی امیہ کا ناپاک زادہ، عبیداللہ بن زیا۔

حبیب کی شہات کی خبر

   ایک دن، بنی اسد کے جمع ہونے کے ایک میدان کے کنارے، میثم گھوڑے پر سوار حبیب بن مظاہر سے ملاقی ہوئے، جبکہ حبیب بھی گھوڑے پر سوار تھے۔

   حبیب نے کہا:" میں ایک بوڑھے کو جانتا ہوں کہ اس کے سر کے اگلے حصہ میں بال نہیں ہیں اور اس کا پیٹ پھولا ہوا ہے اور دارا لرّزق میں خربوزہ بیچ رہا ہے،[vi] اہل بیت(ع) کی دوستی کی راہ میں پھانسی کے پھندے کی طرف بڑھ رہا ہے۔"

   میثم نے جواب میں کہا:" میں بھی ایک سرخ رو مرد کو پہچانتا ہوں،جس کے دو لمبے گیسوہیں، وہ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے کی مدد کرنے کے لئے شہر سے باہر جارہا ہے اور قتل کیا جاتا ہے اور اس کے سر کو کوفہ کی سڑکوں اور گلیوں میں پھرایا جارہا ہے۔"

   یہ دونوں اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ جن لوگوں نے ان کی اس گفتگو کو سنا، انھوں نے ان پر دروغ گوئی اور سحر کا الزام لگاتے ہوئے کہا:" ہم نے ان دو سے زیادہ جھوٹے نہیں دیکھے ہیں۔" اسی اثناء میں " رشید ہجری" پہنچے اور میثم اور حبیب کے بارے میں سوال کیا۔ انھیں واقعہ سنایا گیا، رشید نے کہا: خداوند متعال، میثم پر رحمت نازل کرے۔ وہ یہ کہنا بھول گئے ہیں کہ حبیب کے سر کو کوفہ لانے والے کو دوسروں کی بہ نسبت ایک سو درہم زیادہ انعام دیا جائے گا۔"

عاشورا ئے حسینی(ع)کے بارے میں پیشنگوئی

ایک دن میثم نے لوگوں کی ایک جماعت سے کہا:

   " خدا کی قسم، یہ امت پیغمبر (ص) کے فرزند کو قتل کرے گی۔ جب محرم کے دس دن گزریں گے، دین کے دشمن اس دن کو اپنے لئے برکت کے دن کے عنوان سے منائیں گے۔"

شہادت کے انتظار میں

   امام علی علیہ السلام نے مختلف مواقع پر میثم تمّار کی شہادت سے انھیں آگاہ کیا ہے۔

   ایک دن امام علی علیہ السلام نے لوگوں کی ایک جماعت اور اپنے دوستوں کے سامنے میثم سے مخاطب ہوکر فرمایا: " اے میثم! میرے بعد تجھے گرفتار کریں گے اور تجھے پھانسی پر لٹکائیں گے۔ دوسرے دن تیرے منہ اور ناک سے خون بہے گا اس طرح  کہ تیری داڑھی رنگین ہو گی اور تیسرے دن ایک ضرب سے تیرا پیٹ چاک کردیا جائے گا، یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے گی، اس کے انتظار میں رہنا، تیری دار کی جگہ عمرو بن حریث کے گھر کے سامنے ہوگی اور تو دسواں شخص ہوگا جسے دار پر چڑھایا جائے گا، تیری دار کی لکڑی دوسروں کی بہ نسبت چھوٹی ہوگی اور زمین کے نزدیک تر ہوگی۔ میں اس خرما کے درخت کو تجھے دکھلا دوں گا جس پر تجھے سولی پر چڑھایا جائے گا۔"

   اور دودن بعد اس خرما کے درخت کو انھیں  دکھلادیا۔

   اسی طرح ایک اور دن امام علی (ع) نے میثم سے کہا:" تو اس وقت کیا کرےگا، جب بنی امیہ کا زنازادہ تجھ سے میرے بارے میں اظہار بیزاری کا مطالبہ کرے گا؟ میثم نے کہا: اے امیرالمؤمنین! خدا کی قسم میں ہرگز آپ سےبیزاری کا اظہار نہیں کروں گا۔ امام نے فرمایا: تجھے قتل کر ڈالیں گے اور تجھے دار پر چڑھا دیں گے۔ میثم نے جواب میں کہا میں صبر کروں گا، یہ مصیبت میرے لئے راہ خدا میں معمولی ہے۔ امام (ع) نے فرمایا: اس صورت میں تو میرے مقام پر ہوگا۔"

   امام علی علیہ السلام کی رحلت کے بعد میثم ہر روز اس درخت خرما کے پاس جاتے تھے جس پر انھیں سولی پر چڑھانا قرار پایا تھا، اور اس خرما کے درخت سے مخاطب ہوکر کہتے تھے: کیسے مبارک درخت ہو جو میرے لئے پیدا کئے گئے ہو ، اس کے نیچے جھاڑو دے کر وہاں پر نماز پڑھتے تھے۔

   اس کے علاوہ وہ عمرو بن حریث کے پاس جاکر کہتے تھے: میں تمھارا ہمسایہ بننے والا ہوں، میرے لئے ایک اچھا ہمسایہ بننا۔ عمرو بن حریث ان کی مراد نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے:" کیا ابن مسعود کے گھر کو خریدنا چاہتے ہو؟"

سفر مکہ

   میثم تمّار سنہ60 ہجری میں ، اس سال جب امام حسین (ع) نے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا، خانہ خدا کی زیارت کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ایک دن میثم، ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

ام سلمہ نے ان کا نام پوچھا۔

کہا: میں میثم ہوں۔

ام سلمہ نے کہا:

   "خدا کی قسم میں نے بہت بار سنا ہے کہ رسول خدا (ص) تجھے راتوں کی نصب شبوں میں یاد کرتے تھے اور اسی طرح تیرے بارے میں علی (ع) کے سامنے سفارش فرماتے تھے۔"

یہاں پر میثم نے امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھا۔

ام سلمہ نے کہا : وہ اپنے ایک باغ میں گئے ہیں۔

میثم نے کہا:" جب وہ واپس لوٹیں گے، تو میرا سلام ان تک پہنچانا اور کہنا کہ ہم عنقریب ہی خدا کے حضور ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔

   اس کے بعد ام سلمہ ایک عطر لائیں تاکہ میثم اپنی داڑھی کو معطر کرلیں ۔

   میثم نے اپنی داڑھی کو معطر کرنے کے بعد کہا: آپ نے میری داڑھی کو معطر کیا، لیکن عنقریب میری داڑھی محبت اہل بیت (ع) میں خون سے خضاب ہوگی۔

اس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا:" امام حسین (ع) آپ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔"

میثم نے کہا:" میں بھی انھیں ہمیشہ یاد کرتا ہوں، اس وقت ایک کام پر جارہاہوں اور ان کی ملاقات تک صبر نہیں کرسکتا ہوں۔"

   میثم نے خانہ خدا کی زیارت کے بعد کوفہ کا رخ کیا۔ لیکن کوفہ کے حالات درہم برہم اور تتر بتر ہوچکے تھے۔ مسلم اور ہانی کو عبیداللہ ابن زیاد نے شہید کیا تھا۔ عبیداللہ ڈر گیا کہ اگر میثم کوفہ میں قدم رکھیں گے،تو لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیں گے، اس لئے حکم دیا کہ انھیں کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے گرفتار کریں۔ عبیداللہ کے سپاہیوں نے میثم کو قادسیہ کے مقام پر گرفتار کر کے عبیداللہ کے پاس پیش کیا، بعض افراد نے میثم کی طرف اشارہ کرکے عبیداللہ سے کہا: یہ شخص علی (ع) کی نظر میں سب سے محبوب تر تھا۔

عبیداللہ نے کہا: افسوس ہو آپ پر، کیا علی اس عجمی کا اس قدر احترام کرتے تھے؟!


اس کے بعد کہا: کیا تم میثم ہو؟

میثم نے کہا: ہاں

عبیداللہ نے کہا: تیرا پروردگار کہاں ہے؟

میثم نے کہا: ظالموں کی گھات میں اور تم ایک ظالم ہو۔

عبیداللہ نے کہا: ابو تراب سے اظہار نفرت کرو۔

میثم نے فرمایا: میں ابو تراب کو نہیں جانتا ہوں۔

عبیداللہ نے ایک بار پھر کہا: علی بن ابیطالب سے اظہار نفرت کرو۔

میثم نے جواب میں کہا: ایسا نہیں کروں گا۔

عبیداللہ نے کہا:" خدا کی قسم میں تیرے دونوں ہاتھ پاؤں کاٹ دوں گا اور تجھے دار پر چڑھا دوں گا۔"

میثم نے جواب میں کہا: اس دن کی میرے مولانے مجھے خبر دی ہے۔

عبیداللہ نے پوچھا: تیرے مولانے اور کیا کہا ہے؟

میثم نے جواب دیا: انھوں نے فرمایا ہے: تیرے ہاتھ پاؤں اور زبان کو کاٹ دیں گے اور تجھے دار پر چڑھا دیں گے۔

عبیداللہ نے پوچھا: کیا تیرے مولا نے یہ نہیں کہا کہ یہ کام کون انجام دے گا؟

میثم نے جواب دیا: ہاں ، فرمایا کہ بنی امیہ کا زنا زادہ عبیداللہ بن زیا د یہ کام کرے گا۔

عبیداللہ شدید طور پر غضبناک اور بے چین ہوا اور میثم کے جواب میں کہا: میں تیرے ہاتھ پاؤں کو کاٹ دونگا، لیکن تیری زبان کو چھوڑ دوں گا تاکہ تیرے مولا کا جھوٹ ثابت ہوجائے۔"

   میثم نے کہا : میرے مولا نے جھوٹ نہیں کہا ہے اور انھوں نے جو کچھ کہا ہے، اسے انھوں نے پیغمبر خدا (ص) جبرئیل اور خدا سے سنا ہے۔ تم ان کی کیسے مخالفت کرسکتے ہو؟ میں عصر اسلام میں پہلا شخص ہوں گا، جس کی زبان پر لگام لگادی جائے گی۔"

   عبیداللہ نے حکم دیا، کہ میثم کو مختار ثقفی کے ہمراہ زندان میں ڈال دیا جائے اور ایساہی کیا گیا۔

   زندان میں میثم نے مختار سے کہا: تم آزاد ہو گے اور امام حسین (ع) کی خونخواہی کے لئے قیام کروگے اور اس شخص ( عبیداللہ) کو قتل کر ڈالو گے۔

دار پر شہادت:

   عبیاللہ نے اپنے کہنے کے مطابق حکم دیا کہ میثم کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں دار پر لٹکادیں۔ لیکن ، ولایت کے فداکار میثم، دار پر بھی اپنی آرزؤں سے دست بردار نہیں ہوئے اور فضائل اہل بیت (ع) کے بارے میں احادیث بیان کرنے لگے اور کہتے تھے: اے لوگو! جو بھی امام علی (ع) کی احادیث سننا چاہتا ہے، وہ میرے قریب آئے۔"

   لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوئے اور ان کے کلام کو سنتے تھے۔ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے دار پربنی امیہ کو رسوا کرکے رکھ دیا، عبیداللہ نے ایک ملازم کو بھیجا تاکہ اس کی زبان کاٹ دے۔ مامور نے میثم کے پاس آکر کہا: " اپنی زبان کو باہر نکالو تاکہ میں اپنے امیر کے حکم سے اسے کاٹ دوں۔" میثم نے جواب میں کہا: کیا عبیداللہ یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ میرے مولا جھوٹ بولتے ہیں؟ لو یہ میری زبان ہے! اور اس کے بعد اپنی زبان باہر نکالی۔ ملازم نے بڑی بے رحمی سے ان کی زبان کاٹ دی اور میثم کا چہرہ خون سے خضاب ہوا۔

   بالآخر تیسرے دن جبکہ میثم دار پر لٹکے ہوئے تھے، ایک ملعون نے خنجر سے ان کا پیٹ چاک کیا اور اس طرح وہ جان بحق ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ سر انجام میثم، امام حسین (ع) کے عراق (کربلا) میں داخل ہونے سے دس دن پہلے، 22ذی الحجہ سنہ 60 ہجری کو شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔

   میثم کی شہادت کے بعد عبیداللہ نے ان کے جنازہ کو دار سے اتار کر دفن کرنے کی اجازت نہیں دی۔

   کوفہ کے سات خرما فروشوں نے میثم کے جنازہ کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا، رات کی تاریکی میں بعض افراد نے میثم کے جنازہ پر مامور محافظوں کو گفتگو میں مشغول کیا اور دوسرے چند افراد جنازہ کو دار سے اتار کر لے گئے اور ایک نہر کے کنارے قبیلہ مراد کے قبرستان میں دفن کر دیا۔[vii]عبیداللہ کو اس امر کا خوف تھا کہ میثم کا مزار شیعوں کے اجتماع کا مرکز نہ بنے، اس لئے دوسرے دن کچھ لوگوں کو مامور کیا کہ میثم کے جنازہ کو تلاش کریں، لیکن تلاش و کوشش کے بعد بھی ان کا مزار نہیں مل سکا۔

شہید کا مزار

   شہادت کے بعد ایک مدت تک میثم کا پاک بدن دار پر تھا۔ ابن زیاد نے میثم کی بے احترامی کرنے کی غرض سے اجازت نہیں دی کہ ان کے جنازہ کو دار سے اتار کر دفن کریں۔ اس کے علاوہ اس منظر کو جاری رکھنے سے دوسرے لوگوں کو ڈرانا اور یہ دکھانا مراد تھا کہ علی (ع) کے پیرؤں اور دفاع کرنے والوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھا، کہ شہید، حتی کہ شہادت کے بعد بھی راہنمائی کرتا ہے، الہام بخشتا ہے، امید پیدا کرتا ہے اور ظلم و جبر کی حکومتوں کے لئے خوف اور زوال کا سبب بنتا ہے۔

 میثم کےسات ہم کار خرما فروش مسلمان تھے جوغیرتمند اور دیندارتھے، وہ اس منظر کو برداشت نہ کرسکے کہ شہید میثم بدستور دار پر رہیں، انھوں نے آپس میں عہد و پیمان کیا کہ شہید کے جنازہ کو اٹھا کر سپرد خاک کریں۔ انھوں نےجسد اور دار کی حفاظت میں مقرر کئے گئے مامورین کو غافل کرنے کی ایک تدبیر سوچی اور نقشہ کو اس صورت میں عملی جامہ پہنایا کہ: رات کی تاریکی میں اس جگہ کے قریب  آگ جلادی اور کچھ لوگ اس آگ کے پاس کھڑے رہے۔

   محافظ گرمی سے استفادہ کرنے کے لئے اس آگ کی طرف آئے، جبکہ شہید کے دوستوں میں سے چند افراد میثم کے جسد مقدس کو نجات دلانے کے لئے آگ سے دور بیٹھے ہوئےتھے۔ قدرتی طور پر جب مامورین آگ کی روشنی میں کھڑے تھے، ان کی آنکھیں تاریکی میں واقع دار کے منظر کو نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔ شہید کے دوستوں میں سے چند افراد نے اپنے آپ کو جسد کے پاس پہنچا دیا اور اسے دار سے اتار کر اس جگہ کی دوسری طرف ایک خشک شدہ تالاب میں سپرد خاک کیا۔

   صبح ہوئی تو، مامورین نے جنازہ کو دار پر نہیں پایا، ابن زیاد کو خبر پہنچی۔ ابن زیاد جانتا تھا کہ  میثم کا مدفن علی علیہ السلام کے پیرؤں کے لئے مرکز بن جائے گا۔ اس لئے مامورین کی ایک بڑی جماعت کو میثم کا جنازہ تلاش کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر تفتیش اور جستجو کرنے کا حکم دیا۔ لیکن بڑی تلاش و کوشش کے باوجود انھیں جنازہ کا کہیں سراغ نہیں ملا اور مایوس ہوکر لوٹ گئے۔

میثم تمار کا مزار

   اس وقت شہید میثم تمار کا مرقد عاشقان نبی (ص) و اہل بیت (ع) کے لئے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

   میثم تمار کا مرقد، مسجد کوفہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر کوفہ۔۔۔ نجف کی اصلی سڑک کے کنارے پر واقع ہے۔ میثم تمار کی قبر پر ایک چھوٹی ضریح اور اس کے اوپر ایک نیلے رنگ کا گنبد ہے ، جوحق کی کامیابی اور باطل کی رسوائی اور نابودی کاےگواہ ہیں۔ ان کے سنگ قبر پر میثم کا نام علی علیہ السلام کے صحابی کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔

حواشی:



[i]۔ عسقلانی، احمد بن علی بن حجر؛ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار المکتب العلمیہ، 1415، طبع اول: ج6، ص 249
[ii]۔ میثم تمار، ص 10
[iii]۔ وہ علم جو بلاؤں اور مستقبل کی خبر دیتا ہے۔
[iv]۔ ثقفی کوفی، ابو اسحاق ابراھیم بن محمد ؛ الغارات، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، بیجا، عطارد، 1373، ص 572۔
[v]۔ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج 6، ص 251۔ 250 والارشاد، ج 1، ص 325۔ 324۔

 
[vi]۔ بعض نقلوں میں آیا ہے کہ عبیداللہ کے حکم سے ان کے منہ میں لگام لگادی گئی۔ ( کشی،ج 1، ص 295۔ منتھی الامال۔ ج 1، ص 404)
[vii]۔ ایک قول کے مطابق دفن کے بعد جنازہ پر پانی جاری کیا گیا تاکہ دیکھا نہ جائے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے ہفتے کے روز ارنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت نے ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت کی ہے اور اس وقت وہ، ویانا مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے اور ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان اچھے اور حتمی سمجھوتے پر دستخط ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں- پاکستان کی شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے کہا کہ اسلام آباد صرف اس سمجھوتے کو تسلیم کرے گا جو ملت ایران کے مطالبات کی بنیاد پر ہوگا اور اس میں قومی و ایٹمی حقوق کی ضمانت دی گئی ہو گی- انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ایسا سمجھوتہ علاقے اور عالمی برادری کے لئے بھی مفید ثابت ہو گا- علامہ ساجد علی نقوی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے مغربی فریقوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ، ایران کے حقوق کو نظر انداز کرکے یہ چاہیں کہ ہٹ دھرمی کے ذریعے اپنے مطالبات ایران پر مسلط کر دیں تو پھر یہ جان لیں کہ مذاکرات کے تعلق سے ان کی کئی برسوں کی کوششیں شکست سے دوچار ہو جائیں گی- پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کے قائد نے عالمی یوم القدس کے حوالے سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح کسی بھی ملک نے فلسطینی امنگوں کی حمایت نہیں کی ہے اور یہ ایران ہی ہے کہ جس نے فلسطین کے مظلوم عوام کی آواز کو اقوام عالم کے گوش گذار کیا-

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ نے شب قدر کی مناسبت تقریر کرتے ہوئے کہا: حالیہ برس عالم عرب اور امت اسلامیہ کے لئے بدترین سال رہا ہے ۔

انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ خدا نے ہمیں دشمن سے جہاد کا حکم دیا ہے اس لئے دعا کے ساتھ ساتھ جہاد کی بھی ضرورت ہے کہا : دشمن کے خطرے کو دور کرنے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے اور دعا اس اقدام کو مکمل کرتی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جس کی سرزمین زیر قبضہ ہو یا پھر دشمن اسے دھمکی دے رہا ہو، اسے خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے کہا: حالیہ برس عالم عرب اور امت اسلامیہ کے لئے بدترین سال رہے ہیں ۔

انہوں نے عرب دنیا اور عالم اسلام کی صورت حال کو انتہائی تشویشناک بتاتے ہوئے کہا: مسائل اور بحرانوں کا حل دعا اور عملی اقدامات کے ذریعے ممکن ہے ۔

حجت الاسلام و المسلمین سید حسن نصر اللہ نے امت اسلامیہ اور عربیہ کی نجات کو فکری اور ثقافتی جد و جہد، عملی اقدامات، جہاد، تعاون اور ثابت قدمی نیز دعا کے ذریعے ممکن قرار دیا اور کہا:  لبنان کے خلاف تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی دشمن پر کامیابی، لبنان اور دیگر ممالک کے عوام کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا۔

Tuesday, 07 July 2015 04:23

مسجد کوفہ - عراق

   عراق کے شہر نجف ا شرف کا ایک اہم زیارتی مقام مسجد کوفہ ہے، جو شہر کوفہ اور نجف اشرف کے جوار میں واقع ہے۔

   یہ مسجد، شائد پہلی عمارت ہے جو اس شہر کے تشکیل پانے کے وقت تعمیر کی گئی ہے، کیونکہ جب سعد بن وقاص نے اس علاقہ کو مسلمان سپاہیوں کو مستقل طور پر مستقر کرنے کے لئے منتخب کیا، تو پہلا اقدام عبادت کے لئے ایک مسجد تعمیر کرنا تھا۔

   انہوں نے پہلے ایک مسجد تعمیر کرنے کے لئے ایک مفصل اور جامع نقشہ کھینچا اور اسی بنا پر شہر کے مرکز میں مسجد کی سنگ بنیاد ڈالی۔ اس مسجد کی مساحت کو ایک تیر اندآز کی تیر اندازی سے معین کیا گیا اور اس نے چاروں طرف تیر پھینکے۔ اس کام کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس مسجد کے لئے ایک بڑا رقبہ مخصوص کرنا چاہتے تھے تاکہ اس علاقہ کے ساکن اور سپاہی ، جن کی تعداد چالیس ہزار افراد پر مشتمل تھی، نماز ادا کرنے کے لئے اس میں سما سکیں۔

مسجد کوفہ کی سنہ 1915 میں لی گئی ایک تصویر

   یہ مسجد مربع شکل میں تعمیر کی گئی ہے اور اس کی دیواریں پست ہیں۔ اس کے اکثر حصہ پر چھت نہیں تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کے دن سے سنہ 41ہجری تک ، عراق کے حاکم زیاد بن ابیہ نے اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اقدام کیا ہے، لیکن مسجد میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ اس دوران مسجد کی دیواریں مضبوط اور بلند تر کی گئیں اور اس کو تھوڑا بڑھا یا گیا، اس کے لئے ایک چھوٹا محراب تعمیر کیا گیا اور اس کے فرش پر ریت ڈال دی گئی ہے۔

   مختلف ادوار میں، اس مسجد میں تعمیر نو اور مرمت ہوتی رہی ہے اور اس کی مساحت تھوڑی سی بڑھ گئی ہے، اس مسجد کی موجودہ عمارت چالیس ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے کہ اس کے ضلعے بالترتیب 110، 116، 109اور116 میٹر لمبے ہیں اور مسجد کے تین اطراف میں زائرین کے لئے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ مسجد کی عمارت شمال سے جنوب کی طرف مستطیل شکل میں ہے اور تقریباً 21درجہ قبلہ، یعنی مغرب کی طرف ٹیڑھی ہے۔

   مسجد کے دروازے

   اس مسجد کی تعمیر کے دن سے ہیاس میں داخل ہونے کے لئے متعدد دروازے بنائے گئے ہیں:

1۔ باب السدہ: حضرت علی(ع) اس دروازہ سے مسجد میں داخل ہوتے تھے۔

2۔ باب کندہ: یہ دروازہ مغرب کی طرف واقع ہے۔

3۔ باب الانماط: یہ دروازہ باب الفیل کے موازی ہے۔

4۔ باب الفیل یا باب الثعبان: یہ دروازہ شمال کی طرف واقع ہے، آج صرفیہی ایک دروازہ ہے جو اس زمانہ سے باقی بچا ہے۔ باب الفیل کے پاس ہی مسجد کا میناربھی ہے۔

مسجد کوفہ میں تعلیم و تربیت

   مسجد کوفہ، اس کی داغ بیل ڈالنے کے دن سے ہی شہر کا ایک ثقافتی مرکز شمار ہوتی تھی۔ جب سنہ 36ھ میں امام علی (ع)کوفہ میں داخل ہوئے، سب سے پہلے مسجد کوفہ میں تشریف لئے گئے اور وہاں پر لوگوں سے خطاب کیا۔امام علی علیہ السلام نے کوفہ میں مستقر ہونے کے بعد مسجد کوفہ میں تفسیر قرآن اور دوسرے علوم کا درس دینا شروع کیا۔ کمیل بن زیاد اور ابن عباس جیسے بہت سے شاگرد آپ (ع) کے درس سے مستفید ہوتے تھے۔

مسجد کوفہ کے محراب اور مقا مات:      

محراب امیرالمؤمنین:

مسجد کوفی کا یہ محراب، وہ جگہ ہے، جہاں پر امام علی علیہ السلام کے فرق مبارک پر جہل و ستم کی تلوار کا ایک بزدلانہ وار کیا گیا کہ جس کے نتیجہ میں امام شہید ہوئے۔ مسجد کے اندر مذکورہ محراب کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ جو بھی اس مسجد میں داخل ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اس جگہ کی طرف دوڑتا ہے، جہاں پر حضرت علی (ع) عبادت کرتے تھے اور جہاں پر آپ (ع) نے شہادت پائی ہے۔ یہ محراب مسجد کے اندر دوسرے چھ محرابوں کے پاس زائرین کی خاص توجہ کا مرکز ہے۔ محراب امیرالمؤمنین (ع) جس کی حال ہی میں تعمیر نو کی گئی ہے، شبستان کی جنوبی دیوار میں واقع ہے۔ آج وہاں پر ایک دروازہ نصب کیا گیا ہے، جس کے اوپر یہ عبارت لکھی گئی ہے: " ھذا محراب امیرالمؤمنین"۔

یہ محراب قبلہ کی طرف دیوار پر واقع ہے۔

محراب و مقام امام زین العابدین (ع):

   یہ امام زین العاابدین (ع) کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہ محراب صحن کے اندر دوسرے محرابوں اور مقامات کے پاس واقع ہے ۔

محراب امام صادق (ع)

   یہ امام صادق علیہ السلام کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔

مقام خضر(ع)

   یہ مقام حضرت خضر نبی (ع) کی عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔

دکة المعراج

مقام ابراھیم (ع)

سفیینة نوح

دکة القضاء: یہ چبوترہ مربع شکل میں ہے اور مسجد کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہاں پر امام علی (ع) لوگوں کے فیصلے کرتے تھے۔ خاص مواقع پر اس جگہ پر بٹھ کر فیصلے سناتے تھے۔

بیت الطشت:

   یہ وہ جگہ ہے جہاں پر امام علی (ع) نے ایک کرامت دکھائی ہے۔ بیت الطشت ایک سرداب ہے جہاں تک پہنچنے میں دو سیڑھیاں طے کرنی ہوتی ہیں۔ بعض اہل ریاضت افراد اس سرداب میں وقت گزارتے تھے۔

مقام حضرت آدم (ع)

   ایسا لگتا ہے کہ یہ مقامات مسجد کے ستونوں کی جگہ پر واقع ہیں۔

مسجد کوفہ کے جوار میں مقبرے:

مسلم بن عقیل:

   مسجد کوفہ کی مشرق میں، امام حسین علیہ السلام کے سفیر حضرت مسلم بن عقیل کی قبر ہے، حقیقت میں یہ قبر دار الامارہ کے پاس مسجد کوفہ کی دیوار سے متصل واقع ہے۔ پہلے شخص جس نے اس قبر پر ایک عمارت تعمیر کی، وہ مختار بن ابی عبیدة ثقفی تھے۔

   سنہ 368 ھ میں، آل بویہ کے زمانہ میں،عضد الدولہ نے بھی اس مقبرہ کو وسعت دیدی۔ سلطان اویس جلایری نے سنہ 767ھ میں اور صفوی بادشاہوں نے سنہ 1055 ھ میں اور قاجار بادشاہوں نے سنہ 1232ھ میں وہاں پر کچھ تعمیرات کی ہیں۔ دوسرے لوگوں میں، جنہوں نے اس مقبرہ کی تعمیر نو کی ہے، ان میں شیخ محمد حسین المعروف صاحب جواہر قابل ذکر ہیں، انھوں نے سنہ 1263ھ میں، لکھنو کے سلطان کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجی گئی ایک مخصوص رقم سے اس پر ایک وسیع تعمیری کام انجام دیا۔ انھوں نے مسلم کی قبر پر ایک ضریح نصب کی۔

   اس کے قریب ہی امام حسین (ع) کی دو بیٹیوں عاتکہ اور سکینہ کی قبریں بھی واقع ہیں، حالیہ برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ حکیم اور بعض نیکو کاروں کی ہمت سے اس پر ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے جو حرم اور رواق پر مشتمل ہے۔

ہانی بن عروة

   ہانی بن عروہ امام علی (ع) کے صحابی ہیں، جنھوں نے امام (ع) کے زمانہ میں واقع ہوئی جنگوں میں شرکت کی ہے، انھوں نے مسلم بن عقیل کو پناہ دیدی تھی۔ سنہ 60 ہجری میں مسلم بن عقیل کے ہمراہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھوں شہید کئے گئے۔ امام حسین (ع) کے اس یار باوفا کی قبر مسلم بن عقیل کے حرم کے نزدیک واقع ہے کہ ان دونوں کی ایک مشترک عمارت اور مشترک صحن ہے۔ ہانی کی قبر پر ضریح کو ہندوستان کے مسلمانوں نے بنایا ہے۔ اس پر نیلے رنگ کی ٹائیلوں کا بنا ہوا ایک بڑا گنبد بھی ہے۔

مختار بن ابی عبیدہ ثقفی

   قبلہ کی طرف، مسجد سے متصل، مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کا بقعہ اور مزار واقع ہے۔ مختار وہ شخصیت ہیں، جو عبیداللہ بن زیاد کی سپاہ سے کربلا کے شہیدوں کا انتقام لینے میں کامیاب ہوئے اور کوفہ کو ایک مدت کے لئے اپنے تسلط میں قرار دیا۔

   مختار کا مقبرہ، مسلم بن عقیل کے حرم کے اندر واقع ہے اور دونوں پر ایک مشترک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔

   مختار کی قبر پر لکڑی کی بنی ہوئی ایک ضریح نصب کی گئی ہے اور اس کے مشرقی زاویہ میں مسجد کوفہ کی جنوب کی طرف ایک پنجرہ کھلتا ہے۔ ان کی قبر پر ایک پتھر ہے، جو دوسری صدی ہجری سے ہے اور اس پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے: " ھذا قبر مختار بن ابی عبیدہ الثقفی الآخذ بثارات الحسین"۔

   آٹھویں صدی ہجری کے مشہور سیاح، ابن بطوطہ کہتے ہیں: " قبرستان کوفہ کے مغرب کی طرف، مختار کی قبر کے قریب، سفید زمین پر ایک تیز سیاہ رنگ کی چیز نے ہماری توجہ کو جلب کیا، کہ لوگ کہتے تھے کہ یہاں پر ابن ملجم معلعون کی قبر ہے  اور کوفہ کے لوگ ہرسال لکڑی جمع کرکے سات دن تک اس قبر پر آگ جلاتے تھے"۔

   مسجد کوفہ کے حدود کے باہر امام علی (ع) کی بیٹی اور حضرت عباس (ع) کی بہن خدیجہ کی قبر ہے۔ 

                  

فاطمہ کلابیہ کا نام اوران کا شجرہ نسب :

   ان کا نام فاطمہ اور کنیت ام البنین ( بیٹیوں کی ماں) تھی۔ ان کے ماں باپ بنی کلاب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اجداد تھے۔ ان کے باپ حزام اور ماں ثمامہ یا لیلی ہیں۔ ان کے شوہر علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولاد عباس علیہ السلام ، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں کہ چاروں بیٹے سرزمین کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید ہوئے۔ حضرت ام البنین (ع) کی آرام گاہ، مدینہ منورہ میں قبرستان بقیع میں ہے۔

   فاطمہ ایک پاک دامن اور باتقوی لڑکی تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔

   حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب، ام البنین (ع) کے والد ہیں، وہ ایک شجاع بہادر اور راست گو شخص تھے اور ان کی مخصوص صفتوں میں شجاعت تھی۔ وہ عربوں میں شرافت کا مجسمہ سمجھے جاتے تھے اور عفو و بخشش، مہمان نوازی، دلاوری، شرافت،جوانمردی اور قوی استدلال میں مشہور تھے۔ ام البنین کی ماں، ثمامہ( لیلی) بنت سہیل بن عامر بن کلاب ( رسول خدا اور امام علی کے اجداد) تھیں۔ وہ اپنی اولاد کو تربیت دینے میں کافی کوشش کرتی تھیں اور تاریخ میں ان کا چہرہ درخشاں ہے۔ اس خاتون کی خصوصیت میں گہری سوچ ، اہل بیت (ع) سے دوستی، ماں کا فریضہ ادا کرنے کے ضمن میں اولاد کو ایک ہمدرد معلم کی حیثیت سے اعتقادی امور اور ہمسرداری کے مسائل اور دوسروں سے معاشرت کے آداب سکھانا قابل ذکر ہے۔ بہت سی تاریخ کی کتابوں میں ان کے خاندان کی گیارہ ماؤں کا ذکر کیا گیا ہے، جو سب کی سب شریف اور اصلی عرب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ حقیقت میں شجرہ طیبہ کی مصداق تھیں، جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس پاک درخت کا پھل بیشک عباس بن علی اور عثمان بن علی وغیرہ تھے۔

   اس خاتون کا خاندان ایک بنیادی اور جلیل القدر خاندان تھا جس کے افراد بہادری اور دستگیری میں مشہور تھے اور ان میں سے ہر ایک عظمت اور شرافت میں مشہور تھا اور ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر ان کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

   ام البنین کے شجرہ نسب کی شرافت کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں: " تاریخ نے ام البنین کے آباء و اجداد اور ماموں کو ایسے متعارف کرایا ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربوں میں ایک شجاع اور شہسوار تھے اور ان کی شرافت اور عظمت اس حد تک تھی کہ وقت کے بادشاہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔" حضرت ابو الفضل العباس(ع) کی والدہ گرامی کے شجرہ نسب کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت سے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ شائد ایک جملہ سے " ام البنین" کے خاندان کی عکاسی کی جاسکتی ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاط سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔

ام البنین(س) اور ایک نورانی تولد

   حزّام بن خالد،" بنی کلاب" کے بعض افراد کے ہمراہ سفر پر گئے تھے۔جب وہ سفر سے واپس لوٹے، تو ان کی باوفا شریک حیات، ثمامہ بنت سہیل، جو حاملہ تھیں، نے وضع حمل کیا تھا اور موتی جیسی درخشان ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ حزّام نے اپنی بیٹی کی پیدائش کے بارے میں باخبر ہونے کے بعد اس کا نام " فاطمہ" رکھا اورعربوں کی رسم کے مطابق اس کے لئے ایک کنیت کا بھی انتخاب کیا اور یہ کنیت "ام البنین" تھی۔

   فاطمہ، یعنی فضیلتوں کی ماں نے دوسرے بچوں کے مانند بچپن کا دور گزارا اور ایک مہربان اور پاک دامن ماں اور شجاع باپ کے دامن میں پرورش پائی، جو بہت سے اخلاقی اوصاف کے مالک تھے۔

   فاطمہ کیماں کے بارے میں مورخین یوں لکھتے ہیں:" ثمامہ، ام البنین کی ماں، ایک ادیب ، مکمل اور عاقل خاتون تھیں ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو عربوں کے آداب سکھائے اور ایک لڑکی کی ضرورت کے مطابق اسے زندگی میں خانہ داری، شوہر کے حقوق جیسے امور کی تربیت دی۔"

ام البنین (س)کی پیدائش کی تاریخ:

   حضرت ام البنین کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی صحیح اطلاع دستیاب نہیں ہے اور تاریخ نویسوں نے ان کی پیدائش کی تاریخ کو درج نہیں کیا ہے، لیکن اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے، حضرت ابو الفضل علیہ السلام کی پیدائش سنہ 26ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ بعض مورخین نے ان کی پیدائش کے بارے میں ہجرت کے تقریبا پانچ سال بعد ( کوفہ کے آس پاس) کا اندازہ لگایا ہے۔

ام البنین کے خاندان کی نمایاں خصوصیات:

   حضرت ام البنین کے خاندان میں کئ اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو سب کی سب حضرت عباس ( علیہ السلام) کی صورت میں واضح اور روشن ہوئی ہیں:

الف) شجاعت اور دلاوری، جس کا انہوں نے کربلا میں خوبصورت ترین انداز میں مظاہرہ کیا۔

ب) ادب، سنجیدگی، خود اعتمادی اور ضبط نفس کا ان کی 34 سالہ زندگی میں واضح مشاہدہ کیا جا سکتاہے۔

ج) ہنر اور ادبیات کو ام البنین نے اپنے ادیب اور شاعر ماموں " لبید" سے وراثت میں پایا تھا اور حضرت ابوالفضل العباس نے اپنی ادیبہ ماں سے۔

د) ایثار و قربانی اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا، ان کے عشق امامت و ولایت میں ظاہر ہوا۔

ھ) وفاداری اور عہد و پیمان کی پابندی۔

حضرت علی علیہ السلام کا شادی کرنے کا فیصلہ:

   عقیل، علم انساب میں یدطولی رکھتے تھے اور ان کی بات اس سلسلہ میں حجت مانی جاتی تھی۔ ان کے لئے مسجد النبی (ص) میں ایک چٹائیبچھائی جاتی تھی جس پر وہ نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد عرب قبائل علم انساب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لئے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک حاضر جواب شخص تھے۔ اسی لئے حضرت علی بن ابیطالب نے جب ازدواج کا ارادہ کیا تو اپنے ماہر انساب بھائی سے مخاطب ہوکر فرمایا: میرے لئے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیجئے، جو شجاع اور دلیرمرد عربوں کی نسل سے ہو تاکہ میں اس کے ساتھ شادی کروں اور وہ میرے لئے ایک بہادر اور شہسوار بیٹے کو جنم دے۔"

   حضرت عقیل بن ابیطالب نے ، بنی کلاب کے خاندان سے ام البنین کا انتخاب کیا،جوشجاعت میں بے مثال خاندان تھا، اوراپنے بھائی کے جواب میں کہا:" آپ ام البنین کلابیہ سے شادی کیجئے، کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے شجاع تر عربوں میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عقیل نے بنی کلاب خاندان کی دوسری خصوصیات بھی بیان کیں اور امام (ع) نے اس انتخاب کو پسند فرمایا اور عقیل کو خواستگاری کے لئے ام البنین (ع) کے باپ کے پاس بھیجا۔

دلاور عرب خاندان سے ایک خاتون

   حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ کلابیہ کی تائید کرنے اور انھیں پسند کرنے کے بعد اپنے بھائی عقیل کو خواستگاری کے لئے فاطمہ کے باپ کے پاس بھیجا۔

   حزّام ، چونکہ ایک مہمان نواز شخص تھے، اس لئے انہوں نے حضرت عقیل کی مکمل طور پر خاطر مدارات کی اور دل کھول کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کے لئے قربانی کی۔ عربوں کی رسم یہ تھی کہ مہمان کی تین دن تک مہمان نوازی کرتے تھے اور تیسرے دن ان کی حاجت کے بارے میں سوال کرتے تھے اور ان کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ چونکہ ام البنین کا خاندان مدینہ سے باہر زندگی گزارتا تھا، اس لئے انہوں نے بھی اسی رسم و رواج پر عمل کیا۔ چوتھےدن حضرت عقیل کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں سوال کیا اور حضرت عقیل نے جواب میں کہا : میں دینی پیشوا اور عظم اوصیاء،امیرالمومنین علی بن ابیطالب کی طرف سے آپ کی بیٹی فاطمہ کی خواستگاری کے لئے آیا ہوں۔ حزام ، چونکہ اس قسم کی تجویز کے بارے میں تصور نہیں کرتے تھے، اس لئے متحیّرہوگئے، اور اس کے بعد پوری صداقت سے کہا: کس شریف نسل اور عظمت والے خاندان سے ! لیکن اے عقیل! امیرالمؤمنین کے لئے ایک صحرا نشین عورت شائستہ نہیں ہے، جو صحرا نشینوں کی ابتدائی تہذیب و تمدن میں پلی ہو۔" انھیں ایک بلند مرتبہ تمدن والی عورت سے ازدواج کرنا چاہئے اور ان دو تمدنوں کے درمیان فرق ہے۔" عقیل نے ان کے کلام کو سننے کے بعد کہا:" جو کچھ آپ کہتے ہیں، اس سے امیرالمؤمنین باخبر ہیں اور ان اوصاف کے باوجود وہ ان سے رشتہ ازدواج قائم کرنا چاہتے ہیں۔" اس کے بعد ام البنین کے والد نہیں جانتے تھے کہ کیا کہیں، اس لئے حضرت عقیل سے مہلت چاہی تاکہ بیٹی کی ماں ثمامہ بنت سہیل اور خود بیٹی سے پوچھ لیں اور جناب عقیل سے مخاطب ہوکر کہا:" عورتیں اپنی بیٹیوں کے جذبات اور حالات سے زیادہ واقف ہوتی ہیں اور ان کی مصلحتوں کے بارے میں زیادہ جانتی ہیں۔"

   ام البنین کے باپ جب اپنی بیوی اور بیٹی کے پاس گئے، تودیکھا کہ ان کی بیوی، ام البنین کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔حزام بن خالد کمرے میں داخل ہوئے اور ان سے علی علیہ السلام کو قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا اور کہا:"کیا تم ہماری بیٹی کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شریک حیات بننے کے لائق جانتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر مرکز وحی و نبوت ہے اور علم و حکمت اور آداب کا گھر ہے اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کی خادمہ بننے کے لائق جانتی ہو تو ہم اس رشتہ کو قبول کرلیں گے اور اگر اس کے لائق نہیں جانتی ہو تو انکار کردیں گے۔"

   ان کی بیوی نے جواب میں کہا:" اے حزام! خدا کی قسم میں نے اس کی بہتر صورت میں تربیت کی ہے اور خداوند متعال و قدیرسے دعا کی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں سعادتمند ہو جائے اور میرے مولا امیرالمؤمنین ( علیہ السلام) کی خدمت کےلائق اور صالح ہو، پس آپ اسے میرے مولا امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب کے ازدواج میں قرار دیجئے۔"

   عقیل نے ام البنین کی اجازت سے ان دو بزرگ شخصیتوں کے درمیان نکاح پڑھا۔ ان کا مہر، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق قرار دیا جو آپ (ص) نے اپنی بیٹیوں اور ہمسروں کے لئے معین کیا تھا اور وہ پانچ سو درہم تھے، جبکہ ام البنین کے باپ کہتے تھے:

   " وہ ایک تحفہ ہے، ہماری طرف سے، رسول خدا (ص) کے چچیرے بھائی کی خدمت میں اور مالو دولت کی ہمیں کوئی لالچ نہیں ہے۔"

حضرت علی علیہ السلام سے ام البنین کے ازدواج کی تاریخ

   علی علیہ السلام نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد ام البنین سے شادی کی ہے۔ امیرالمؤمنین کی ام البنین سے شادی کی صحیح اورحتمی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ لیکن مورخین نے حضرت ابو الفضل العباس کی عمر میں اختلاف نظر کے پیش نظر کہ شہادت کے وقت وہ 32 یا 39 سال کے تھے، ان کی تاریخ پیدائش سنہ 24 ھ یا سنہ 26ھ بتائی ہے۔ اس لئے ان کا اعتقاد ہے کہ ام البنین کی شادی، تحقیقا سنہ 23 ہجری سے پہلے واقع ہوئی ہے، لیکن بعض مورخین نے کئی دوسری تاریخیں بھی ذکر کی ہیں۔

ام البنین کا علی (ع) کے گھر میں داخل ہونا:

   فاطمہ کلابیہ، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا: " جب تک نہ فاطمہ زہراء(س) کی بڑی بیٹی اجازت دیں، میں اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی۔"

   یہ خاندان رسالت کے تئیں ان کا انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہتھا۔ جس دن حضرت ام البنین نے علی علیہ السلام کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔ ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اوراہل بہشت کےجوانوں کے سرداروں کےسراھنے پر پہنچیں۔اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔"

حضرت زہراء(س) کی اولاد سےام البنین کی بے لوث محبت:

   ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بچوں کے لئے ان کی ماں کی رحلت سے پیدا ہوا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں کمال جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے تھے۔

   فاطمہ زہراء سلام اللہ کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پارہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔

   جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔

فاطمہ سے ام البنین تک

   فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیرالمؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنین" خطاب کریں تاکہ" فاطمہ" (س)اور " کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔

حضرت علی (ع) کے ساتھ ام البنین کےازدواج کا ثمر

  حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چارشجاع اور بہادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا۔ حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبیداللہ سے جاری رہی۔

شجاع بیٹے کی پیدائش

   حضرت ام البنین کے پہلے بیٹے حضرت ابوالفضل العباس تھے۔ بعض محقیقین کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام 4 شعبان سنہ 26 ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ جب حضرت عباس کی ولادت کی خوش خبریامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو دی گئی، وہ فورا اپنے گھر گئے اور بیٹے کو آغوش میں لےلیا، اس کے بوسے لئے اور اسلامی سنت اور رسم کے مطابق پیدائش کے ساتویں دن ایک بھیڑ کو عقیقہ کے عنوان سے ذبح کیا اوراس کے گوشت کو فقراء کے درمیان صدقہ کے طور پر تقسیم کیا۔ امام علی علیہ السلام نے اس کا نام عباس ( خشمگین: کچھارکاشیر) رکھا، کیونکہ وہ باطل اور گمراہیوں کے مقابلے میں خشمگین اورجری تھے اور نیکیوں کے مقابلے میں ہنس مکھ تھے۔

امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس کو ام البنین کی فہمائش:

   جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور اس کے بعد عراق ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین، امام حسین (ع) کے ہمراہیوں کو یہ نصیحت کرتی تھیں:"میرے نور چشم امام حسین (ع) کی فرماں برداری کرنا،"

حضرت عباس(ع) کے بارے میں امام صادق(ع) کا ارشاد:

   امام صادق (ع) نے فرمایا:" رحم اللہ عمی العباس لقد اثر وابلی بلاء حسنا۔ ۔ ۔" خدا ہمارے عباس پررحمت کرے، کتنا بہتر امتحان دیا، جاں نثاری کی اور شدید ترین امتحانات پاس کئے ۔ ہمارے چچاعباس کے لئے خدا کے پاس ایک ایسا مقام ہے کہ تمام شہداء اسپر رشک کرتے ہیں۔"

شب عاشور

   شب عاشور عباس، ابا عبداللہ الحسین(ع) کے پاس بیٹھے ہیں۔ اسی دوران دشمنوں کا ایک سردار آتا ہے اور فریاد بلند کرتا ہے:" عباس بن علی اور ان کے بھائیوں سے کہدو کہ ہمارے پاس آجائیں۔ عباس اس آواز کو سنتے ہین لیکن سننے کے باوجود ان سنی کرتے ہیں، اس کی طرف کوئی اعتنا نہیں کرتے ہیں۔ امام حسین (ع) کے سامنے اس طرح با ادب بیٹھے ہیں کہ امام نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: " اس کا جواب دیدو، اگر چہ وہ فاسق ہے"۔ حضرت عباس آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ شمر ذی الجوشن ہے۔ شمر، حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ان کی ماں کی طرف سے ایک دور دراز رشتہ کے پیش نظر کہ دونوں ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ سے آتے وقت حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائیوں کے لئے اپنے خیال خام میں امان نامہ لے کر آیا تھا اور اسے اپنے خیال میں ان کے حق میں ایک خدمت جانتا تھا۔

   جب شمر نے اپنی بات ختم کی، حضرت عباس(ع) غیض و غضب میں اس کی طرف رخ کرکے بولے:" خدا تمھیں اور اس آمان نامہ کو تیرے ہاتھ میں دینے والے پر لعنت کرے، تم نے مجھے کیا سمجھا ہے؟ میرے بارے میں کیا خیال کیا ہے؟ کیا تم نے یہ سمجھا ہے کہ میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنی جان بچانے کے لئے، اپنے امام اور بھائی امام حسین (ع) کو تنہا چھوڑ کر تیرے پیچھے آئے گا؟ جس دامن میں ہم نے پرورش پائی ہے اور جس پستان سے ہم نے دودھ پیا ہے، اس نے ہمیں اس طرح تربیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے امام اور بھائی کے ساتھ بے وفائی کریں۔"

   مورخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا:

" یا بشیر اخبرنی عن ابی عبداللہ الحسین، اولادی و تحت الخضری کلھم فداء لابی عبداللہ الحسین"

"اے بشیر! مجھے ابی عبدا للہ الحسین  کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔"

   جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا:" قد قطعت نیاط قلبی"،" اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔

   حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا مدینہ میں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت اداکی۔

   رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی، امام حسین علیہ السلام کی شریک تحریک اور قیام حسینی (ع) کے دھڑکتے دل، یعنی زینب کبری سلام اللہ علیہا کے، ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے بیٹوں کی شہادت پرکلمات تسلیت و تعزیت کہنے سے اہل بیت (ع) کی نظر میں ام البنین کے بلند مقام و منزلت کا پتہ معلوم ہوتا ہے۔

   حضرت زینب کبری(س) عیدوں وغیرہ کے مانند دوسری مناسبتوں پر بھی احترام بجالانے کے لئے ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔

چار شہیدوں کی ماں 

 ام البنین کے چار بیٹوں کے کربلا میں شہید ہونے سے، اس صبر و شکیبائی کی مجسمہ خاتون کو چار شہید بیٹوں کی ماں کا شرف اور افتخار ملا اس کے ساتھ ہی شہید شوہر کی بیوی ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل تھا۔ انھوں نے مذکورہ جذبات کی روشنی میں کچھ اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

   " اے وہ جس نے میرے کڑیل جوان بیٹے کو اپنے باپ کے مانند دشمنوں پر حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے دیکھا۔ علی علیہ السلام کے بیٹے سب کے سب کچھار کے شیروں کے مانند شجاع اور بہادر ہیں۔ میں نے سنا کہ میرے عباس کے سرپر آہنی گرز سے وار کیا گیا، حالانکہ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے تھے، اگر میرے بیٹے کے بدن میں ہاتھ ہوتے تو کون اس کے پاس آکر جنگ کرنے کی جرات کرتا؟"

   امام حسین علیہ السلام سے ان کی اس قدر محبت ان کی معنویت میں کمال کی دلیل ہے کہ انھوں نے تمام مصائب کو ولایت کی راہ میں فراموش کیا اور صرف اپنے امام اور رہبر کی بات کرتی تھیں۔

ام البنین ، عاشورا کی یاد کی محافظ:

   ام البنین کی اہم خصوصیات میں سے، زمانہ اور اس کے مسائل کی طرف ان کا توجہ کرنا ہے۔ انھوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی سے استفادہ کیا تاکہ کربلا والوں کی مظلومیت کی آواز کو آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبیداللہ، جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے، کے ہمراہ بقیع میں جاکر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہو زاری کرتے تھے۔

   امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:" وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا ۔

وفا کے ساحل پر

   جذبات اور محبتکا ایک نتیجہ،اپنے عزیزوں کے تئیں وفاداری کا احساس ہے، اور یہ احساس حضرت ام البنین کی زندگی میں مولائے متقیان کی شہادت کے بعد ان کے کلام میں مشہود تھا۔ ام البنین کی اپنے شوہر کے تئیں وفاداری اس حد تک تھی کہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد، جوان ہونے کے باوجود اپنی عمر کے آخری لمحات تک اپنے شوہر کے احترام میں دوسری شادی نہیں کی اور امام علی علیہ السلام کے بعد، بیس سال سے زیادہ کی طولانی مدت تک زندہ رہیں۔ جب حضرت علی علیہ السلام کی ایک بیوی " امامہ" کے بارے میں ایک مشہور عرب " مغیرة بن نوفل" سے خواستگاری ہوئی اور اس سلسلہ می‏ ام البنین سے صلاح و مشورہ کیا گیا تو، انھوں نے جواب میں فرمایا:" سزاوار نہیں ہے کہ علی کے بعد ہم کسی دوسرے مرد کے گھر میں جاکر اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کا عہدو پیمان باندھیں۔"

   ام البنین کے اس کلام نے صرف " امامہ" کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس نے لیلی، تمیمیہ اور اسماء بنت عمیس پر بھی اثر ڈالا اور حضرت علی علیہ السلام کی ان چاروں بیویوں نے زندگی بھر، علی (ع) کے بعد شادی نہیں کی۔

ہنر کے آئینہ میں:

   ام البنین کی دوسری بلند صفات میں سے ان کی فصاحت و بلاغت کی صفت ہے جو ان کے خوبصورت اور لافانی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے لافانی اشعار، جن کی عربوں کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے، ان میں ان کے وہ دلسوز اشعار ہیں جو انھوں نے اپنے  بیٹے حضرت  ابو الفضل العباس کی شہادت کے بعد کہے ہیں۔

لاتدعونی ویک ام البنین      تذکرینی بلیوث العرین

کانت بنون لی ادعی بھم      والیوم اصبحتُ ولا من بنین

اربعة مثل نسور الرّبی        قد و اصلواالموت بقطع الوتین

" مجھے ام البنین نہ کہئے، مجھے اپنے دلاور شیر یاد آتے ہیں۔ میرے کئی بیٹے تھے، جن کی وجہ سے مجھے ام البنین کہا جاتا تھا، لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ میرے چار بیٹے شکاری بازوں کے مانند تھے، وہ سب شہید ہوئے۔"

   مورخین لکھتے ہیں :" ام البنین اپنے بیٹوں، خاص کر امام حسین (علیہ السلام) کے لئے ایسی دلسوز نوحہ خوانی کرتی تھیں اور آنسو بہاتی تھیں کہ، مروان بن حکم جیسے دشمنان اہل بیت (ع) بھی ان کی مرثیہ سن کر گریہ وزاری کرتے تھے۔

   حضرت عباس کے بارے میں ان کے دوسرے اشعار میں " عظیم مجسمہ شجاعت" نامی اشعار ہیں کہ فرماتی ہیں:

یامن رای العباس کرّ علی جماھیر النقد   ووراہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد

نبئت انّ ابنی اصیب براسہ مقطوع ید     ویلی علی شبلی امال براسہ ضرب العمد

لو کان سیفک فی یدیک لما دنا منہ احد

" اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور حیدر کے بیٹے ان کے پیچھے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کے بازو کاٹے گئے اور ان کے سر پر آہنی عمود سے وار کیا گیا، اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک آنے کی جرات نہ کرتا!"

   وہ اپنے ان اشعار سے کربلا کے رزم نامہ کو زندہ کرتی تھیں اور عزاداری کی صورت میں وقت کی حکومت پر اعتراض بھی کرتی تھیں اور ان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو بنی امیہ کے مظالم سے آگاہ بھی کرتی تھیں۔

ام البنین کا علم اور ان کی دانائی

   ام البنین کی زندگی ہمیشہ با بصیرت اور علم و دانش کے نور سے منور تھی اور ان کی یہ بلند فضیلت تاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ پر ذکر کی گئی ہے، جس سے ہمیں اس عالمہ و فاضلہ خاتون کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اہل بیت (ع) کے ساتھ ان کی محبت اور امامت کے بارے میں ان کی دینی بصیرت اس قدر تھی کہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:" ام البنین کی عظمت و معرفت اور بصیرت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ: " جب وہ امیرالمؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں اور حسنین(ع) بیمار ہوتے تو وہ ہمدردی اور مہربانی کے ساتھ پیش آتی تھیں اور ان کے ساتھ ہم کلام ہوتی تھیں اور حد درجہ محبت سے ان کے ساتھ برتاؤ کرتی تھیں، جیسے ایک ہمدرد اور مہربان ماں پیش آتی ہے۔"

   ان کے اور ان کے عظمت والے بیٹے میں ان کا علم متجلی ہے۔ وہ ایک محدثہ ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹیوں کی علم و دانش سے تربیت کی ہے۔ اگر چہ ان کے بیٹے " باب علم نبی" کے فرزند تھے، لیکن اپنی ماں کے علم و دانش سے بھی بہرہ مند تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں:

" انّ ولدی العباس زقّ العلم زقا" " بیشک میرے بیٹے عباس نے بچپن میں ہی علم سیکھا ہے اور جس طرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے پانی اور غذا حاصل کرتا ہے، اسی طرح اس نے مجھ سے معارف کی تربیت پائی ہے۔

حضرت ام البنین (ع) کی رحلت

   حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔

   تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے،اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سنہ 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔

   ام البنین کی مہر و محبت اور مبارزہ سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، ام البنین کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ہوکردرخواست کی کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بہترین جملہ سکھائے ۔ ام البنین نے ایک تبسم کے بعد گنگناہٹ کی حالت میں فرمایا:" السلام علیک یا ابا عبداللہ"

   اس کے فورا بعد فضہ نے ام البنین کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد کو بلایا۔

   تھوڑی ہی دیر بعد اماں! اماں ! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔

   حضر فاطمہ زہراء (س)کے بیٹے اور نواسے ام البنین کو ماں کہکر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع نہیں کرتی تھیں، شائد اب اس میں یہ کہنے کی طاقت باقی نہ رہی تھی کہ:" میں فاطمہ (س) کی کنیز ہوں۔"

   حضرت امام زین العابدین آنسو بہاتے تھے۔ ۔ ۔

   بہر حال ام البنین (ع) کو جنت البقیع میں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو پھپھیوں : صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن علیہ السلام اور فاطمہ بنت اسد علیہا السلام کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

ام البنین (ع) کی زیارت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:

" السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیرالمؤمنین، السلام علیک یا ام البنین، السلام علیک یا ام العباس ابن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، رضی اللہ تعالی عنک وجعل منزلک وما واکِ  الجنہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ۔ ۔

 

۲۰۱۵/۰۷/۰۵ - حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران بھر سے آئے ہوئے یونیورسٹیوں کے ہزار سے زیادہ اساتذہ اور پروفیسرز سے ملاقات میں مومن و پیشقدم اور  محنتی جوان نسل کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اور تعلیمی اداروں میں حاشیہ سازی سے پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں علمی ترقی و پیشرفت میں کسی بھی صورت کمی نہیں آنی چاہئے۔
دو گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے بعض اساتذہ اور پروفیسروں کی گفتگو اور انکی آراء سننے کے بعد فطری طور پر استاد کی جانب سے طالبعلم کے قلب و روح پر نفوذ اور موثر واقع ہونے کو ایک نادر موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نادر موقع سے ان جوانوں کی تربیت کے لئے فائدہ اٹھائیں کہ جو دین دار، ملی غیرت کے حامل، با حوصلہ، انقلابی، محنتی، با اخلاق، شجاع، اعتماد بنفس کے حامل اور اچھے مستقبل کے امیدوار ہیں اور ایران عزیز کی ترقی و پیشرفت کے لئے انہیں تعلیم دیں اور انکی تربیت کریں۔
آپ نے اغیار سے خود انحصاری، ملک کی صحیح سمت اور مقام کے درست ادراک، اور ملکی سالمیت کو خدشہ دار کرنے والے امور کے مقابلے میں ڈٹ جانے کو جوان نسل کی  اہم خصوصیت بتاتے ہوئے فرمایا کہ محترم اساتذہ اپنے طور طریقے کے زریعے اس جوان نسل کی پرورش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اساتذہ کو سافٹ وار کا سپہ سالار خطاب کرتے ہوئے فرمایا آٹھ سالہ مقدس دفاع کے کمانڈروں کی طرح آپ بھی اس حساس اور اہم جنگ کے میدان میں بنفس نفیس، سافٹ وار کے جوان افسروں کی کمانڈ اور انکی ہدایت کے فرائض انجام دیں کیونکہ یہ میدان بھی مقدس دفاع کا میدان ہے۔
آپ نے یونیورسٹیوں میں ستر ہزار اساتذہ کی موجودگی پر نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مومن، دیندار، اور انقلاب کے مبانی کی معتقد ہے اور یہ بات ہمارے ملک کے لئے فخر کا باعث ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایجوکیشن، ریسرچ اور ٹیکنالوجی اور میڈیکل، صحت عامہ اور طبی تعلیم کی وزارتیں ان انقلابی اور مومن اساتذہ کی اہمیت کو سمجھیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ افراد کہ جو نقصاندہ پروپیگنڈوں کی یلغار سے نہیں گھبراتے جو اکثر اوقات مخفی طور پر انجام دی جاتی ہیں اور اپنے اہم وظیفے کو انجام دینے میں مشغول رہتے ہیں، ان پر توجہ کئے جانے اور انکی قدر دانی کئے جانے کی ضرورت ہے۔

آپ نے علمی میدان کی عالمی رینکنگ میں ایران کی جانب سے سولہواں مقام حاصل کئے جانے کو علمی مراکز اور یونیورسٹیوں کی دس پندرہ سالہ مستقل جد وجہد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ علمی ترقی اور پیشرفت کے جوش و جذبہ کے لئے کی جانی حوصلہ افزائی کہ جس کی وجہ سے ایران کو یہ مقام اور افتخار حاصل ہوا آج کم ہو چکا ہے اور اعلی حکام کو چاہئے کہ اس سلسلے میں  زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں تاکہ یہ علمی پیشرفت اپنا تسلسل برقرار رکھ سکے اور ملکی ضرورتوں کے مطابق ترقی کرتی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں علمی ترقی و پیشرفت کے عوامل پر گفتگو کرتے ہوئے علمی مراکز میں سیاست بازی اور حاشیہ سازی پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یونی ورسٹیوں کا ماحول سیاسی فہم و شعور پیدا کرنے اور سیاست سے آگاہی اور اسکا شعور پیدا کرنے کے لئے سازگار ہونا چاہئے لیکن یونیورسٹیوں میں سیاست بازی اور حاشیہ سازی کی وجہ سے اصلی ہدف یعنی علمی جدوجہد اور پیشرفت پر کاری ضرب لگتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے کو اعلی حکام کی جانب سے انسانی علوم میں ارتقا کے سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کرنے کی تاکید سے مختص کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اہم اور ضروری ارتقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں اور دوسرے علمی مراکز منجملہ انسانی علوم میں ارتقا کی کونسل اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں اندرونی جوش و ولولہ پیدا ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ مختلف مربوط ادارے بھی انکی مدد کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ الحمد اللہ اندرونی جوش و ولولہ موجود ہے اور ضروری ہے کہ مربوط ادارے انسانی علوم کے ارتقا کے سلسلے میں انجام دی جانے والی تھیوری کو عملی جامہ پہنائیں اور انسانی علوم میں ارتقا کی کونسل کے فیصلوں کو تحقق بخشیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اعلی تعلیم کے میدان میں طالبعلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو وزارت تعلیم کے لئے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا وزارت تعلیم کو چاہئے کہ صحیح منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کی محنت، جد وجہد اور کوشش کو ملکی مسائل کے حل کی جانب گامزن کرے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں موجود وسائل اور امکانات ضائع ہو جائیں گے۔
آپ نے دشمن کی منصوبہ بندیوں کے مقابلے میں اساتذہ اور علمی مراکز کے اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پابندیوں سے دشمن کا ہدف ایٹمی مسائل یا دہشتگردی اور انسانی حقوق کے مسائل ہرگز نہیں ہیں کیونکہ یہ ممالک خود ہی دہشتگردی کی پرورش گاہ اور انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ بلکہ ان پابندیوں سے انکا ہدف یہ ہے کہ وہ ملت ایران کو اس کے شایان شان تہذیبی اور تمدنی مقام تک پہنچنے سے روک سکیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مقام و منزلت کے کامل فہم و ادراک کے ساتھ باعث فخر ملکی ترقی کا سفر جاری رکھیں اور اس سفر میں علمی مراکز اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہے

 

شیخ الازهر مصر احمد الطیب نے شیعوں اور محبان اهل بیت عصمت و طهارت(ع) کی شان میں رافضی جیسے توھین آمیز الفاظ استعمال کئے جانے پر اپنی مخالفت کا اظھار کیا ۔

احمد الطیب نے ماہ مبارک رمضان کے موقع پر مصر کے سٹلایٹل چائنلوں سے نشر ہونے والے اپنے پروگرام میں کہا: امت اسلامیہ میں اتحاد و یکجہتی کا راستہ ڈھونڈنا ہمارا مقصد ہے تفرقہ اندازی نہیں ، الازھر ھرگز مسلمانوں کے درمیان فتنہ پروری یا اختلافات کو اجاگر کرنے کا مرکز نہیں رہا ہے ۔

شیخ الازهر نے مزید کہا: یہ مرکز ماضی میں شیعہ اور  اھل سنت کے درمیان اتحاد و ھمدلی کا منادی رہا ہے ، آج ہم جس سے روبرو ہیں کہ جو ہمارے لئے اذیت ناک ہے وہ شیعہ و سنی برادری کے مابین آپسی اختلافات ہیں ۔

 احمد الطیب نے شیعوں اور محبان اهل بیت عصمت و طهارت(ع) کے خلاف کہی جانی والی باتوں من جملہ تکفیر کو فتہ انگیزجانا اور کہا : شیعوں کی تکفیر اور انہیں رافضی کے نام سے یاد کیا جانا ناجائز ہے ۔

انہوں نے مزید کہا : ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں مذاھب کے علمائے کرام بیٹھ کر پڑی ہوئی اس دراڑوں کو پر کریں تاکہ قتل و غارت گری کا گرم بازار بند ہو سکے ۔

پاکستان کے الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی شرکت کے لئے ان کے اثاثوں کے گوشواروں کے اعلان کو ضروری قرار دے دیا-

ذرا‏ئع کے مطابق الیکشن کمیشن نے پیر کے روز ایک بیان جاری کرکے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات پیش کریں- بیان کے مطابق جو سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں کا تفصیل کے ساتھ اعلان نہیں کریں گی انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی- اس بیان کے مطابق پاکستان الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے لئے اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنے کے لئے مقررہ وقت کا بھی اعلان کر دیا- الیکشن کمیشن نے کھل کر اعلان کیا کہ سیاسی جماعتیں اپنے اثاثوں کی تفصیلات، اپنے نمائندوں کے ذریعے الیکش کمیشن میں حاضر ہو کر پیش کریں- جن افراد کے اثاثوں کے گوشوارے، فیکس یا پوسٹ وغیرہ کے ذریعے بھیجے جائیں گے وہ قابل قبول نہیں ہوں گے- پاکستان الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق جو سیاسی جماعتیں یا افراد اپنے اثاثے پیش نہیں کریں گے انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی- اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تین سو سات رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں فعال ہیں-

سعودی عرب کے شہر قطیف کے اہل سنت اور شیعہ مسلمانوں نے ایک ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔

العالم نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز قطیف شہر کے شیعہ اور اہل سنت مسلمانوں نے مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی اور تمام مسلمانوں کے مابین اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ نماز مغرب کی امامت، اہل سنت عالم دین شیخ فرحان الشمری نے کی جبکہ نماز عشاء، شیعہ عالم دین لؤی الناصر کی امامت میں ادا کی گئی۔ شیخ فرحان الشمری نے اس نماز کو شیعہ اور اہل سنت مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا نمونہ قرار دیا جس کے ذریعے فتنوں کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب لؤی الناصر نے کہا کہ دہشت گرد گروہ، شیعہ اور اہل سنت مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا چاہتے ہیں جبکہ ایک ساتھ نماز ادا کئے جانے سے وہ اپنے منصوبے میں ناکام ہو گئے۔ یاد رہے کہ تکفیری دہشت گردوں نے سعودی عرب، کویت اور بحرین میں شیعہ مسلمانوں کی مسجدوں پر حملہ کرکے مسلمانوں کے مابین تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ کویت اور بحرین کے مسلمانوں نے بھی اس سے قبل مشترکہ طور پر نماز جمعہ ادا کی تھی۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے گوجرانوالہ کے قریب ہیڈ چھنانواںپل ٹوٹنے سے سپیشل فوجی ٹرین کے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائیں اور جرم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک حادثہ پر جاں بحق ہونیوالے فوجی افسران ، جوانوں اور دیگر ہم وطنوں کی شہادت پر ان کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتے ہیں ۔

حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے کہا : یہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا اور المناک حادثہ ہے جبکہ انتہائی تشویش کا بھی باعث ہے ،اس لئے اس کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جائیں ، کیونکہ ارض وطن ایک عرصے سے دہشت گردی و تخریب کاری کا شکار ہے ۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : جبکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ حادثہ کس کی غفلت و لاپرواہی کے سبب پیش آیا ، اس بات پر زور دیا کہ جرم کے مرتکب افراد کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔ 

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے بھی اظہار تعزیت و ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں ، جاں بحق افراد کی بلندی درجات اور لواحقین کیلئے صبر جمیل کی دعا بھی کی ۔