سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 10 September 2024 05:24

فوجی دباؤ کی پالیسی


نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں نے حماس کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی سمیت اسرائیل کے تمام جنگی اہداف حاصل کرنے کے لیے فوجی دباؤ کی پالیسی پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے نتائج بالکل برعکس نکلے ہیں اور کئی مزاحمتی محاذوں کی آگ نے اس حکومت کو گھیر لیا ہے۔ اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے صیہونی غاصب حکومت نے اس جنگ میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے "فوجی دباؤ" کا استعمال کرتے ہوئے ایک منظم پالیسی اپنا رکھی ہے، ان اہداف میں سرفہرست غزہ میں مزاحمت کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی ہے، وہ یہ کام فوجی کارروائیوں کے ذریعے انجام دینے کے خواہاں ہیں۔
 
صیہونی فوجی دباؤ کیخلاف مزاحمت کی جنگی حکمت عملی
اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت نے فلسطینی عوام اور اس کی مزاحمت بالخصوص تحریک حماس پر شدید فوجی دباؤ ڈالا اور اس فوجی دباؤ کے ساتھ ہی غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنی جنگی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں کیں۔ مزاحمتی بلاک نے اپنے جنگی طریقوں کو بٹالینز اور بریگیڈز میں فعال رکھنے کی بجائے انفرادی آپریشنز یا چھوٹی تعداد کے ساتھ گروپ آپریشنز کو اپنا کر اسے وسیع علاقوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ غزہ پٹی کے مختلف محوروں میں صیہونی فوجیوں کے خلاف مسلسل گھات لگانا مزاحمت کی اس جنگی حکمت عملی کے واضح نتائج میں سے ایک ہے اور اس کے علاوہ ہم غزہ سے باہر بالخصوص پورے مغربی کنارے نیز تل ابیب میں انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں توسیع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

مزاحمت نے اپنی کارروائیوں کو گروہی سطح سے انفرادی سطح پر جو منتقل کیا ہے، اس کا مطلب مزاحمت کی ناکامی یا زوال نہیں ہے بلکہ فلسطینی مزاحمت کے مختلف گروہ ایک ہی کمان کے تحت اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ فوجی، میڈیا اور سکیورٹی لاجسٹک خدمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت مزاحمت کے سیاسی اور فوجی فیصلوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

جنگی اہداف کے حصول میں اسرائیل کے فوجی دباؤ کی ناکامی
آیا اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی نے اس حکومت کو مطلوبہ نتائج دیئے یا نہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ صیہونی نہ تو غزہ میں مزاحمت کو ختم کرسکے اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو رہا کرسکے اور جب بھی اسرائیلی فوج نے آزادی کی تلاش میں فوجی آپریشن شروع کیا تو ان کارروائیوں میں ان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانیں گئیں۔ گزشتہ ہفتے 6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی دریافت، جس نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے خلاف صہیونی آباد کاروں میں شدید غم و غصے کی لہر کو جنم دیا، قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ غزہ کی جنگ کے 11 ماہ گزرنے کے بعد بھی صیہونی حکومت کا فوجی دباؤ اس علاقے میں سیاسی اور حکومتی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکا۔

صیہونی حکومت مختلف سازشوں اور امریکہ کی ہمہ جہت حمایت کے باوجود غزہ میں حماس کی جگہ دوسری حکومت نہیں لا سکی۔ غزہ کی پٹی میں ابھرنے والے مشکل اور پیچیدہ حالات کے باوجود اس پٹی پر اب بھی حماس کی حکومت ہے۔ دوسری جانب صیہونی حکومت غزہ پٹی کے شہری اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا کر غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بھڑکانے میں ناکام رہی، جس میں صحت کے بنیادی ڈھانچے اور دیگر بنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں، جو اس علاقے میں زندگی کے آثار کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ تقریباً ایک سال کی تباہ کن جنگ کے بعد، جو قابض صیہونی حکومت نے ان کے خلاف شروع کی تھی اور اس علاقے کو جہنم بنا دیا تھا، غزہ کے لوگ اب بھی اپنی سرزمین پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ اسرائیل ہی ہے، جو گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور مزاحمت نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے دفاع کا کردار ادا کیا ہے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، سیاسی سطح پر صیہونی حکومت کے فوجی دباؤ کی ناکامی اس حقیقت سے جنم لیتی ہے کہ اس حکومت کے حکام نے مسئلہ فلسطین اور اس سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کی حقیقت کو نظر انداز کرنے اور انکار کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیر قبضہ علاقے کی آزادی ممکن ہے اور گزشتہ دہائیوں سے جاری مزاحمت نے فلسطینیوں کی آزادی اور آزادی کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ فلسطینی عوام اس بات پر قائل ہیں کہ ایک آزاد ملک اور اس میں امن و استحکام کے ساتھ رہنے کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

فلاڈیلفیا کے محور میں نیتن یاہو کے فوجی دباؤ کا جھوٹ
گزشتہ ہفتوں کے دوران جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کی باتوں میں اضافہ ہوا، نیتن یاہو نے مصر اور غزہ کی سرحد پر فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے کے اصرار کو مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی سے جوڑ دیا۔ اس محور میں اسرائیلی فوج کی موجودگی حماس کی آکسیجن کی شریانوں کو منقطع کرنے کا باعث بنتی ہے اور اس تحریک کی ہتھیاروں تک رسائی کو روک کر غزہ میں مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی کو کارگر بنا سکتی ہے، لیکن سب سے اہم حقیقت جس سے نیتن یاہو گریز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت بالخصوص دو دہائیاں میں ہتھیاروں کی تیاری میں کافی طاقت حاصل کرچکی ہے اور مزاحمتی بلاک کی مدد سے اسے مسلح کرنے میں کافی حد تک طاقت ملی ہے۔

فلسطینی میزائل سمیت مختلف ہتھیاروں کی تیاری میں خود پر انحصار کرتے ہیں۔ 2008 کے بعد فلسطینی انجینئروں نے راکٹوں کے میدان میں نمایاں انداز میں کام کرنا شروع کیا اور مختلف رینج والے میزائل بنائے، جن میں اینٹی آرمر اور اینٹی فورٹیفیکیشن میزائل بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک یاسین 105 اینٹی آرمر میزائل ہے، جو کہ مکمل طور پر تباہ کن ہے۔ فلسطینی ہتھیار اور غزہ میں تیار کردہ 100% لانگ رینج سنائپر رائفلیں غزہ کے اندر بنائے گئے ہتھیاروں میں سے ہیں، جنہیں فلسطینی جنگجو قابض فوج کی زمینی افواج کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتے ہیں۔

اسی لیے نیتن یاہو کا حماس پر فوجی دباؤ ڈالنے کے لیے فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے پر اصرار جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسرائیلی فوج کے کمانڈر اور اس حکومت کی سکیورٹی سروسز اچھی طرح جانتے ہیں کہ صیہونی فوج کی موجودگی حماس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی ہے۔ فلاڈیلفیا محور فلسطینی مزاحمت کی مسلح صلاحیتوں کو زندہ کرنے کی تزویراتی حقیقت ہے۔ جو اس جنگ کے دوران یا بعد میں تبدیل نہیں ہوگا۔ اس بنا پر بعض کا خیال ہے کہ نیتن یاہو اور اتحادی کابینہ میں شامل ان کے اتحادیوں کا منصوبہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے اس پٹی میں فوجی حکمرانی قائم کرنا ہے اور اسی وجہ سے نیتن یاہو فلاڈیلفیا اور نیٹسرم کے محور سے کسی بھی انخلاء کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ان محوروں میں رہنے سے غزہ کے پورے جغرافیہ پر فوجی دباؤ کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔

اسرائیل مزاحمتی محاذوں کی آگ میں گھرا ہوا ہے
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں موجود اسرائیلی افواج کی تعداد اس حکومت کو مکمل طور پر غزہ پر قابض اور تسلط کے لیے کافی نہیں ہے۔ صہیونی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی حکمرانی کے قیام کے لیے اس پٹی میں کم از کم 5 فوجی ڈویژنوں کی تعیناتی کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت غزہ میں دو سے زیادہ ڈویژن فوجی موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کو غزہ کی جنگ کے ساتھ ہی حزب اللہ کے خلاف مختلف محاذوں بالخصوص شمالی محاذ سے ملنے والے خطرات سے نمٹنا ہے اور اس محاذ میں اپنی افواج کی بڑی تعداد کو تعینات کرنا ہے۔ دوسری طرف، مغربی کنارہ ایک اہم اور جلتا ہوا محاذ بن چکا ہے، اب مغربی کنارے میں صہیونی افواج کی تعداد غزہ میں ان افواج کی تعداد سے زیادہ ہے۔

ہمیں یہ بھی بتانا چاہیئے کہ اسرائیلی فوج نے اردن کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے ایک نیا فوجی ڈویژن بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، ان تشریحات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے دوسرے محاذوں کو ترک کرنا ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال مختلف محاذوں بالخصوص شمالی اور مغربی کنارے سے صیہونیوں کے خلاف ہوجائیگی۔ بہرحال ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ نیتن یاہو کی طرف سے اختیار کی گئی فوجی دباؤ کی پالیسی صرف ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات کو پورا کرتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت، جس سے صہیونی حکام اور آبادکار دونوں واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے جنگی اہداف فوجی دباؤ سے حاصل نہیں ہوں گے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
 
 

گذشتہ ماہ غاصب صیہونی رژیم نے یمن، لبنان اور ایران میں چند دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیں جن کے بعد اسلامی مزاحمتی بلاک نے اسے سخت انتقامی کاروائی کی دھمکی دی۔ اس دھمکی کے نتیجے میں امریکہ بھی سرگرم عمل ہو گیا اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اپنے جنگی بحری بیڑے خطے کی جانب روانہ کر دیے۔ امریکہ کے طیارہ بردار جنگی بحری جہاز مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی طرف حرکت کرنے لگے۔ اس نقل و حرکت کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار کر کے ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر گروہوں کو ڈرا دھمکا کر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ممکنہ انتقامی کاروائی سے باز رکھنا تھا۔ چونکہ امریکہ کا تصور یہ تھا کہ ماضی کی طرح ایران اس بار بھی اسرائیل پر میزائل حملہ کرے گا لہذا امریکہ، برطانیہ اور صیہونی رژیم کے دیگر اتحادی مغربی و عرب ممالک نے ایک فضائی دفاعی زون ایجاد کرنے کی کوشش کی۔
 
ایک خطہ جہاں امریکہ نے اپنے جنگی بحری بیڑے روانہ کئے پیسفک سمندر تھا۔ اس اقدام نے امریکہ نواز حکومتوں نیز امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ دیگر مغربی استعماری طاقتوں کی طرح امریکہ بھی ایک بحری طاقت ہے۔ امریکہ کی بحریہ دنیا بھر میں اس کے اثرورسوخ اور طاقت کا سرچشمہ تھی اور اس نے واسنگٹن کو اس قابل بنایا کہ وہ جہاں چاہے طاقت کا اظہار کر سکے، دنیا بھر کے سمندری راستوں پر اپنا کنٹرول قائم کر سکے اور دنیا کے جس حصے میں چاہے لشکر کشی کر کے پوری طاقت سے جنگ کا آغاز کر سکے۔ درحقیقت امریکہ کی بحریہ اس کے فوجی، سیاسی (سفارتی) اور اقتصادی تسلط کی بنیاد اور اساس شمار ہوتی ہے۔ امریکی بحریہ میں بھی طیارہ برداری جنگی بحری جہاز مرکزی اہمیت کے حامل ہیں جن کی بدولت امریکہ اپنی جنگوں کی زیادہ سے زیادہ پشت پناہی کرنے پر قادر ہے۔
 
یوں طیارہ بردار جنگی بحری جہاز امریکہ کے پاس اپنی طاقت کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ اس طرح طاقت کا اظہار کر کے اپنی خاص قسم کی سفارتکاری انجام دیتا ہے جسے اصطلاح میں "توپ دار کشتیوں" والی سفارتکاری کہا جاتا ہے۔ یہ طیارہ بردار جنگی جہاز مدمقابل پر رعب ڈالنے اور اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ امریکہ کو عالمی سطح پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی بحری طاقت دیگر ممالک سے برتر ہو تاکہ دیگر ممالک اس کی بحری طاقت سے مرعوب ہو کر مختلف سمندری راستوں، آبناوں اور اسٹریٹجک مقامات پر اس کا کنٹرول تسلیم کر لیں۔ لیکن اس وقت زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں اور صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔
 
ایک طرف چین دنیا میں کشتیاں بنانے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آ چکا ہے جبکہ دوسری طرف کشتیاں بنانے والے ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نام پہلے 15 ممالک میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کی اکثر بندرگاہیں بیرونی کمپنیوں کے پاس ہیں جبکہ دیگر ممالک کی بندرگاہوں پر امریکی مالکیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح کشتیوں کی مالکیت کے لحاظ سے امریکہ کا نمبر عالمی سطح پر چوتھا ہے۔ سمندری تجارت اور اس سے متعلقہ میدانوں میں امریکہ کی متزلزل صورتحال سے چشم پوشی کرتے ہوئے بحری فوجی طاقت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو امریکہ شدید تزلزل کا شکار ہے۔ امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں کی پریشانی پیسفک سمندر میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے اور یہ امریکی بحری طاقت کے زوال کا واضح ثبوت ہے۔
 
امریکہ برتر بحری طاقت ہونے اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول کا حامل ہونے کے دعویدار ہونے کے ناطے یمن میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ حملے بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب، بحیرہ عرب اور بحر ہند میں انجام پا رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اس مقصد کیلئے ایک بحری فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور یمن پر کئی فضائی حملے بھی کئے لیکن انہیں حوثی مجاہدین کے خلاف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی اور مقبوضہ فلسطین جانے والی اسرائیلی اور اسرائیل کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ انصاراللہ یمن روزانہ کی بنیاد پر ان کے بحری جہازوں کو میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش جنگی کشتیوں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ جنگ کی ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی بحریہ انصاراللہ یمن کے خلاف جنگ میں شکست کھا چکی ہے۔
 
امریکی کی بحری فوج اس کی مرعوب کرنے پر مبنی سفارتکاری کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی جانب طیارہ بردار جنگی جہاز روانہ کر کے ایران اور اسلامی مزاحمت کو مرعوب کرنے کے درپے تھا۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اربعین آپریشن اور یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے خلاف فضائی حملوں کے نتیجے میں یہ مقصد ناکامی کا شکار ہو گیا ہے۔ درحقیقت امریکہ کی جانب سے مرعوب کرنے والی سفارتکاری اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں بے اثر ہو چکی ہے۔ پیسفک سمندر امریکہ کیلئے اسٹریٹجک اور سکیورٹی کے لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے۔ یہ خطہ، بحر ہند، مغربی ایشیا، صحرائی علاقے، مشرقی یورپ اور قطب شمالی سے ملا ہوا ہے اور یہ تمام علاقے امریکہ کیلئے فوجی اہداف شمار ہوتے ہیں۔ غزہ جنگ کے نتیجے امریکہ پیسفک سمندر سے نکلنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے باعث امریکی اور مغربی تجزیہ کار اسٹریٹجک نقصانات کا عندیہ دے رہے ہیں۔

تحریر: ابوالفضل صفری

Monday, 02 September 2024 07:54

سیاسی راہ حل یا فوجی حیلہ

 
قاہرہ میں جاری جنگ بندی مذاکرات کا خاتمہ اسی قدر مایوس کن تھا جو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی سلسلے کا خاتمہ تھا۔ وہاں سے ملنے والی خبروں میں بدستور بند گلی کی صورتحال میں جنگ بندی معاہدے کے حصول کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک خاص طور پر مصر اور قطر سیاسی راہ حل باقی رکھنے کیلئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جو چیز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم امریکہ کی جانب سے حمایت پر مطمئن ہے چاہے وہ خود کو جنگ بندی کا حامی ہی ظاہر کیوں نہ کر رہا ہو لہذا زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کیلئے جنگ بندی کے حصول میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ امریکہ نے فلسطین کے بارے میں دوغلے رویے اختیار کر رکھے ہیں۔
 
وائٹ ہاوس ایک طرف خود کو خطے میں تناو کم کرنے کا حامی ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف صیہونی حکمرانوں کو روکنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا جس کے باعث نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند کابینہ کسی پریشانی کے بغیر پوری جرات سے مزید جنگی جرائم اور غیر انسانی اقدامات انجام دیتی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں صیہونی حکمرانوں نے خطے میں نئی وسیع جنگ شروع کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں صیہونی رژیم نے مغربی کنارے کے شمال میں واقع پناہ گزین کیمپوں پر وسیع فوجی جارحیت کا آغاز کر رکھا ہے جن میں طول کرم، جنین اور طوباس شامل ہیں۔ صیہونی وزیر خارجہ یسرائیل کاتس نے ان نئے مجرمانہ اقدامات کا مقصد ان پناہ گزین کیمپوں میں مسلح فلسطینیوں کو کچلنا بیان کیا ہے اور حتی دعوی کیا ہے کہ اردن کے راستے ان گروہوں کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کیا جاتا ہے۔
 
یسرائیل کاتس نے واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کو "غزہ کی طرح" مغربی کنارے میں بھی تمام ضروری اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اوسلو میں فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا اور اس میں مغربی کنارے کے انتظامی امور بھی طے کئے گئے تھے۔ اس کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمت نے زور پکڑا اور وہاں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ تب سے صیہونی رژیم مغربی کنارے میں بارہا جارحانہ اقدامات انجام دیتی آئی ہے لیکن اس نے کوشش کی ہے کہ یہ اقدامات میڈیا میں نہ آئیں کیونکہ وہ مغربی کنارے کو ایک مثالی علاقہ پیش کرنا چاہتی تھی اور یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ فلسطینی اور صیہونی آبادکار پرامن طور پر ایک ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اس طرح صیہونی رژیم نے اپنی پوری توجہ غزہ پر مرکوز کر رکھی تھی اور اپنی پوری طاقت سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھی۔
 
اگر طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے تک غاصب صیہونی رژیم غیر اعلانیہ طور پر مغربی کنارے کے باسیوں کے خلاف ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے تھی تو اب صیہونی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد مغربی کنارے پر وسیع پیمانے پر فوجی چڑھائی کر کے اس نے اپنا اصلی چہرہ عیاں کر دیا ہے اور اپنی شیطانی نیت ظاہر کر دی ہے۔ لہذا اب ثابت ہو گیا ہے کہ غاصب صیہونی حکمرانوں کی نظر میں غزہ اور مغربی کنارے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا اور فلسطین اتھارٹی سے امن مذاکرات اور متعدد معاہدے صرف لفظوں کا کھیل تھا اور ان کا مقصد فلسطینیوں کو دھوکہ دے کر زیادہ سے زیادہ مقبوضہ سرزمینوں پر قبضہ جمانا تھا۔ گذشتہ 11 ماہ کے دوران صیہونی فورسز سے جھڑپوں میں مغربی کنارے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ صیہونی حکمرانوں کی جانب سے حماس کے بغیر اچھی زندگی کا تصور پیش کرنے کا مقصد فلسطینیوں کو دھوکہ دینا تھا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی کنارے پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت اور ہر حملے میں شہداء کی تعداد میں اضافہ ان چند دنوں تک محدود نہیں رہے گا۔ مغربی کنارے پر حکمفرما فلسطین اتھارٹی بھی گذشتہ 11 ماہ کی طرح عملی طور پر نیوٹرل بلکہ اکثر مواقع پر صیہونی رژیم سے تعاون کرنے میں مصروف ہے۔ مغربی کنارے میں یہ رویہ عام ہو چکا ہے جس کے باعث یہ علاقہ صیہونی جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں کم ترین دفاعی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ مغربی کنارے میں حد سے زیادہ سیاسی راہ حل پر توجہ دینے کا نتیجہ غزہ میں جنگ بندی میں رکاوٹ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں جنگ بندی کیلئے جن زیادہ سے زیادہ مراعات کے درپے ہے وہ اس نے مغربی کنارے میں پہلے سے ہی حاصل کر لی ہیں لیکن یہ علاقہ پھر بھی اس کی جارحانہ کاروائیوں اور مجرمانہ اقدامات سے محفوظ نہیں ہے۔ لہذا صیہونی رژیم کو مراعات دینا غزہ میں جاری مجرمانہ اقدامات بند ہو جانے کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا۔
 
ثالثی کرنے والے عرب ممالک کی طرح فلسطین اتھارٹی بھی اسرائیل کی جانب سے نیا محاذ کھولنے پر غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ نے مختلف شخصیات اور افراد کے ذریعے ایران کو پیغامات بھیجے ہیں جن میں خطے میں تناو کی شدت مزید بڑھ جانے اور علاقائی جنگ شروع ہو جانے کی وارننگ دی گئی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل امریکہ کی بھرپور حمایت سے شدت آمیز اقدامات کا سلسلہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ اسلامی مزاحمت نے جنگ بندی کی خاطر انتقامی کاروائی موخر کی جبکہ حماس نے جنگ بندی کا خیرمقدم بھی کیا لیکن اسرائیل ہے جو امریکہ کی غیر مشروط مدد سے تمام مذاکرات پر پانی پھیرتا آیا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ اگر حزب اللہ لبنان کے اربعین آپریشن کے بعد ایران بھی انتقامی کاروائی انجام دے دیتا ہے تو اسرائیل کی بدمعاشی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ دوسری صورت میں بے سود سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور اسرائیل کو مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کا موقع ملتا رہے گا۔
 
 
 

حجاب اسلام کی تعلیمات میں سے ہے۔حجاب میں عورت اپنا جسم مردوں سے چھپاتی ہے تاکہ اپنی عفت و طہارت کی حفاظت کرے۔عورت اپنے جسم کے تمام اعضاء کا پردہ کرے گی صرف چہرے اور ہتھیلی کو ظاہر کر سکتی ہے۔ زیورات،بھڑکیلے کپڑے ،پاوڈر ،کریمیں اور میک کا ہر طرح کا ایسا اظہار جو نامحرم مردوں کو متوجہ کرے اور اس کی عزت کو خطرے میں ڈالے اس کا اظہار منع ہے اور یہ پردے میں داخل ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)) (النور ـ 31)

اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبا، شوہر کے آبا، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔

سورہ نور کی یہ آیت کریمہ مسلمان عورت کے لیے بڑے اہم پیغام کی حامل ہے اس میں پروردگار نے یہ بتا دیا ہے کہ ایک مسلمان عورت کو کیسا ہونا چاہیے ؟بالخصوص اس کے لباس،اس کے میک اپ اور اس کے طرز زندگی کی وضاحت کر دی ہے۔مسلمان عورت اپنی نگاہ کو جھکائے گی،اپنی عزت کی حفاظت کرے گی،وہ اپنی زینت کو سوائے اپنے چند قریبی رشتہ داروں اور بچوں کے سب سے چھپائے گی۔

پردہ کی شرعی شرائط:

۱۔پردہ میں عورت تمام بدن اور سر کو ڈھانپے گی فقط چہرہ اور ہتھیلی کو ظاہر کر سکتی ہے۔

۲۔عورت کا لباس کھلا ہونا چاہیے اتنا تنگ نہ ہو کہ جسم کے اعضاء کو ظاہر کر رہا ہو۔

۳۔لباس کو اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ جسم کو چھپا رہا ہو ،ایسا لباس نہ ہو کہ اس سے جسم نظر آ رہا ہو۔

۴۔لباس بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیےکہ وہ ایسے رنگوں کا امتزاج ہو جو لوگوں کو متوجہ کرے  جیسے بعض لباس ایسے رنگوں اور جانوروں وغیرہ کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں جس سے لوگ جلد متوجہ ہو جاتے ہیں۔

۵۔لباس پر ایسی خوشبو نہ لگائی جائے جو نامحرموں کو متوجہ کر رہی ہو۔

۶۔عورت مردوں والا لباس نہ پہنے ۔

۷۔لباس ایسا نہ ہو کہ عورت اسے دکھا دکھا کر نامحرم مردوں میں شہرت حاصل کر رہی ہو ۔

یہ سب شرائط کس لیے ؟

خواتین قیمتی جوہر ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں نفاست و حسن سے نوازا ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ نزاکت بھی عطا کی۔ہر صاحب عقل یہ جانتا ہے کہ قیمتی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے بدقماش لوگوں کے ہاتھوں، نظروں اور حرص سے بچایا جاتا ہے اور چھپا کر رکھا جاتا ہے۔اس سے صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا قیمتی چیزوں تک پہنچنا مشکل ہو اور ان کو بدنظروں اور نقصان پہنچانے والے ہاتھوں سے بچایا جا سکے۔اسی طرح ایسا نہ ہو کہ ہر بد نظر آسانی سے عورت تک پہنچ کر اسے نقصان پہنچائے۔خواتین جب میک اپ کر کے خوشبو لگا کر نامحرم لوگوں کے سامنے آئیں گی تو لوگوں کی غلط نگاہیں ان کی طرف متوجہ ہوں گی اور ان کے دل ان کی طرف مچلیں گے ، ایسا وہی کرتے ہیں جن کے دلوں میں پہلے سے ٹیڑھا پن موجود ہوتا ہے وہ ایسا کرتے ہیں۔ایک صاحب حکمت کا قول ہے عورت کی مثال مٹھائی کی سی ہے اگر اسے کھول کر رکھ دیا جائے تو اس پر مکھیاں بیٹھ جائیں گی اور اگر اسے ڈھانپ لیا جائے تو وہ محفوظ رہے گی۔

پردہ عورت کی عزت و احترام میں اضافے کا باعث بنتا ہے کہ اس کے وقار اور خوبصورتی کو بھی زیادہ کر دیتا ہے۔کچھ کج فہم پردے کوعورت کی شخصی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے عورت کی اہانت سمجھتے ہیں حقیقت میں پردہ عورت کی عزت،وقار اور پاکیزگی کا محافظ ہے اور عور ت کی آزادی کو محدود نہیں کرتا یہ بس کچھ غلط فکر رکھنے والوں کا وہم ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ)) (الأحزاب ـ53)

جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔

ہیرے راہوں پر نہیں رکھے جاتے

کوئی بھی صاحب عقل ہیرے و جواہرات راہ پر سڑک کنارے  میز لگا کر اس پر نہیں رکھتا بلکہ ہیرے و جواہرات خزانوں میں  رکھے جاتے ہیں تاکہ بد قماش لوگوں کی نگاہوں سے محفوظ رہیں او ربدنیتوں کے ہاتھ بھی ان تک نہ پہنچیں۔

جب کبھی ایسے جواہرات کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے تو انہیں اتنہائی قیمتی اور مناسب ڈبوں میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی حفاظت اور لوگوں سے ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔اللہ نے عورت پر کرم فرمایا اور اسے بدفطرت لوگوں کی نظروں سے بچایا کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائیں اور عورت کو عزت و وقار عطا کیا۔اس طرح عورت کی شان اور مرتبے کو بڑھا دیا اس میں عورت کو مقید کرنے والی کوئی بات نہیں ہے پردے میں عورت کی عافیت اور حفاظت ہے۔

پردہ اور تہذیب جدید:

امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالبہ نے اپنی ایک باحجاب پروفیسر سے پوچھا کہ آپ پردہ کیوں کر تی ہیں؟

اس پر باپردہ مسلمان پروفیسر خاتون نے جواب دیا عریانیت و بے پردگی پتھر کے دور میں زندگی کرنے والے قدیم انسان سے تعلق رکھتی ہے ہم ترقی یافتہ اور تہذیب کے حامل دور میں رہ رہے ہیں اس لیے پتھر کے دور والی طرز زندگی میں نہیں جانا چاہیے۔

اس سے پتہ چلا کہ حیا عورت کے لیے ایک اعلی خوبی ہے بے حیائی ایک برائی ہے۔اسی لیے ہر سلیم الفطرت انسان بے حیائی سے روکتا ہے اور تمام آسمانی مذاہب نے بے حیائی سے روکا ہے اور اسلام نے بھی بے حیائی سے منع فرمایا ہے۔

آسمانی ادیان میں پردہ، راہبہ و حریدیم

یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہود و نصاری کی خواتین پردہ کیوں نہیں کرتیں؟کیونکہ یہودیت اور عیسائیت آسمانی مذاہب ہیں؟

ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب میں پردے اور وقار کا حکم دیا گیا ہے کسی بھی آسمانی مذہب میں بے پردگی کی اجازت نہیں ہے۔حضرت مریم ؑ باپردہ خاتون تھیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی اس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں کر سکتا۔اسی طرح آسیہ بنت مزاحم ؑ اور دوسری مومنہ خواتین باپردہ خواتین تھیں۔المیہ یہ ہوا کہ جدید معاشرے ان آسمانی تعلیمات سے دور ہو گئے۔یہ بات پیش نظر رہے کہ ابھی تک ان آسمانی ادیان میں کچھ خواتین ایسی ہیں جو پردہ کرتی ہیں مسیحیوں میں راہبات ہیں ان کا لباس اسلامی حجاب کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح یہودیوں میں کچھ خواتین جنہیں حریدیم کہا جاتا ہے وہ بھی پردہ کرتی ہیں اور ان کا پردہ شرعی پردے کی طرح ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ادیان میں اصل میں پردہ ہے اور ان ادیان میں بے پردگی سے منع کیا گیا ہے۔

جنسی تشدد اور ریپ:

بہت سے معاشروں میں جنسی تشدد بہت زیادہ بڑھ چکا ہےہر کچھ عرصے بعد دنیا بھر میں اس کی خبریں سرخیوں میں ہوتی ہیں ہم نوجوان لڑکوں کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے لیکن ریپ کی ایک بڑی وجہ لڑکیوں کے وہ لباس ہیں جن کا جنسی ہیجان جنسی تشدد کی وجہ بنتا ہے اسی طرح حد سے بڑھا میک اپ اور لباس جو عوامی مقامات پر جنسی اشتعال کا کام کرتے ہیں اسکولوں اور یونیورسٹیز میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔بے پردگی اور بناو سنگھار ایسے آ گئے ہیں کہ نوجوانوں کی خواہشات کو بھڑکاتے ہیں۔مختصر اور جسم سے چپکا ہوا لباس جسم کے تمام اعضا کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔جب نوجوان اس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں تو ان کی جنسی خواہشات بھڑک اٹھتی ہیں جس سے معاشرے میں جنسی تشدد اور ریپ بڑھتا ہے۔اس لیے ایک مہذب لباس جس میں خاتون نے حجاب کر رکھا ہو معاشرے میں یہ ہیجان بھی پیدا نہیں کرتی اور خود حجاب کرنے والی خاتون کا بھی تحفظ کرتا ہے۔

خاندان بیٹی کے لیے پہلا سکول:

خاندان تربیت کا مرکز ہے کسی بھی انسان کی اخلاقی،دینی اور معاشرتی تربیت کا بنیادی مرکز اس کا خاندان ہے۔ بیٹیاں اپنی زندگی کے پہلا سبق اپنے خاندان سے حاصل کرتی ہیں وہ حلال،حرام،اخلاقیات اور جو کچھ ان پر فرض ہے وہ سب گھر سے سیکھتی ہیں۔اسی طرح یہیں سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں کن امور سے پرہیز کرنا ہے اور اس کے بعد وہ سکول جاتی ہیں تاکہ ان کی تربیت مکمل ہو سکے۔

کچھ خاندان بیٹی کی تربیت کرتے وقت اس تک اسلامی معلومات پہنچانے میں کوتاہی کرتے ہیں اور بالخصوص حجاب اور پردے کا نہیں بتاتے۔بیٹی یہ گمان کرتی ہے کہ مجھے جو گھر والوں نے بتایا ہے یہی درست ہے اور وہ اس کے مطابق جو کچھ کر رہی ہے وہ ٹھیک ہے۔اس لیے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو حجاب کی پرواہ نہیں کرتی،میک کرتی ہے،بالوں کو نہیں ڈھانپتی اور انتہائی تنگ لباس پہنتی ہے۔اس کا روزانہ ایسا کرنا اس کا عقیدہ بنا دیتا ہے کہ جو وہ کر رہی ہے وہی درست ہے اورایسا کرنا اسلامی تعلیمات اور اخلاق کے خلاف نہیں ہے۔

تمام گفتگو کا خلاصہ کیا جائے تو یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت اپنے جسم کو اجنبی مردوں سے چھپائے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے اور وہ فضول کاموں میں نہ پڑے۔اس کے کپڑے کھلے ہونے چاہیں وہ تنگ کپڑے نہ پہنے تاکہ اس کے جسم کی معاشرے میں نمائش نہ ہو ،اسے ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہیے کہ اہل حوس کی نگاہیں اس کی طرف متوجہ ہو جائیں،اسی طرح جو لباس بدنام ہو جاتے ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے،اسی طرح نامحرموں کے لیے میک اپ نہیں کرنا چاہیے  اور نہ ہی خوشبو لگانی چاہیے،اسے نامحرموں سے دل لبھانے کی طرز پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے،ایسی جگہوں پر جہاں مرد بھی ہوں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے صرف اس وقت جانا چاہیے جب اس کی ضرورت ہو،ہر وقت بازار میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ صرف ضرورت کے وقت بازار جانا چاہیے۔مسلمان عورت کو اپنی حفاظت کرتی چاہیے ،ہر وقت اپنے رب کی اطاعت کی سعی میں لگے رہنا چاہیے اور اپنے شوہر کی عزت کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ ان کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمیاں جنم نہ لیں۔جو اللہ کی اطاعت کرے اور باپردہ عزت و عظمت والی زندگی گزارے اس کے لیے خوشخبری ہے۔

 


 
 
 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے  فورا بعد اسلامی معاشرے میں بہت سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگئے، اور ان لوگوں کی طرف سے جن کو پانچواں ستون کہا جاتا ہے اسلامی معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنے اور معاشرے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی بہت بڑی کوششیں ہوئیں، خاص طور پر عہد رسالتِ محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں جو سازشین چل رہی تھیں وہ نہایت ہی خطرناک تھیں۔

یہ کام  مسلسل اورمنظم طریقےسے پے در پے رونما ہونے والے واقعات کے ذریعے شروع ہوا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخالف گروہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منتخب شدہ افراد کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنے کے لیے مختلف نشستوں اور میٹینگز کرتا رہا،اور نتیجتا ان نشستیں کے بعد ایک اہم میٹینگ سقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر منعقد ہوئی ہے جسے سقیفہ کانفرنس بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں مخالفین نے آپس میں متحد رہنے اور باہمی مشورے کی ضرورت پر اتفاق کیا، اگرچہ اس کے نتیجے میں انھیں پاک پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز، تکفین اور تدفین میں شرکت سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ  انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آخری وصیت کرنے سے بھی روکا، جب کہ یہ رسالت الٰہیہ کا تسلسل بلکہ رسالت الٰہیہ کا ایک اہم حصہ اور جزء تھا۔ یہ وصیت اس لیے بھی اہم تھی کہ اسی کے ذریعے اس دین مقدس اسلام کے استمرار کا طریقہ کار، اس میں واقع ہونے والے مختلف ادوار، اور اس کے لیے موزون رہبر ورہنما (جن کو امام وقت کہا جاتا ہے) کا انتخاب اور ان کے نام کا اعلان بھی ہونا تھا

ثقیفہ بنی ساعدہ پر ہونے والی کانفرنس جو حقیقت میں ایک بڑی سازش تھی اور یہ پانچویں کالم، منافقین، کمزور ایمان والے اور بے ایمان لوگوں کے ارادوں کو واضح کرتی تھی، اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیاسی خلیفہ نامزد کردیا گیا۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کے شرکاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صف اول کے تربیت یافتہ افراد جنہوں نے اسلام کو طلوع ہوتے دیکھا تھا، اورجنہوں نے اسلام کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں، نیز وہ کہ جو علم و فضل اورتقوی وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ ہونے کے علاوہ  شجاعت بہادری اور دیگر کمالات میں سب سے افضل تھے وہ شریک ہی نہیں تھے جن میں سر فہرست امام علیؑ کی ذات گرامی ہے، اسی طرح اس میں عمار یاسرؓ، عباسؓ، فضل بن عباسؓ، مقدادؓ، سلمانؓ، ابوذر غفاریؓ اور دیگر بنی ہاشم کے افراد سرے سے موجود ہی نہیں تھے ۔

باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں امامت کے منصب اور اماموں کو واضح کردیا تھا، اور یہ بتا چکے تھے کہ امامت ایک منصب الٰہی ہے جو نبوت کا تسلسل ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور دین کی بقاء امامت کی ذمہ داری ہے، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو نظر انداز کیا جب کہ ابتداٗ ہی سے لوگوں کے ذہنوں میں امامت، اس کا مفہوم، اس  کی اہمیت،اور ضرورت کو ڈال دیا گیا تھا اور وہ ان کے ذہنوں میں موجود تھی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں پر بھی اور جس طرح بھی ممکن تھا لوگوں پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اس نکتے کو واضح کردیا تھا۔  

مگر افسوس کہ خلافت کے دعویٰ داروں نے ان تمام تر حقائق کے باوجود اپنی مرضی کے فیصلوں کو تھوپنے، اور اپنی مصلحتوں کو ہی فوقیت دینے کو ترجیح دی، یہاں تک کہ  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکی زندگی کے آخری لمحات میں وصیت بھی لکھنے نہیں دی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی جانب نعوذ باللہ نسیان اور ہذیان کی  نسبت دی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی نجات اور فلاح کے لئےجو کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے آپ کو ایسا کرنے نہیں دیا، اس کے ساتھ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد صف اول کے اصحاب کو سیاست اور دیگر اہم امور میں شرکت کرنے سے روکا گیا، اور بہت عجلت میں خلافت کا اعلان کردیا گیا۔

مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے لیے صرف زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ قبلہ اول کا مسئلہ ہے، مسلمان پچھلے ایک ہزار سال سے مسلسل مغربی یلغاروں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ صلیبی لشکر فرانس اور جرمنی سے چلتے تھے، قسطنطنیہ سے طاقت میں اضافہ کرتے، فلسطین پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ یہ مقدس جنگوں کے نام پر فلسطین پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ان کا مقصد یہاں سے مسلمانوں اور اسلام کو نست و نابود کرنا ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے دو وجہ سے فلسطین کھونے کا کوئی آپشن نہیں تھا، ایک تو یہ کہ فلسطین مسلمانوں کا گھر تھا اور وہ جاتے تو کہاں جاتے؟ دوسرا قبلہ اول عقیدے کا مسئلہ تھا، جہاں سے نبی اکرمﷺ معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یوں صدیوں یہ جنگیں چلتی رہیں اور آخر کار زیادہ تر مسلمانوں کا قبضہ ہی مستحکم رہا۔ آج مغرب نے بڑی چالاکی سے یہودیوں کو سامنے کر دیا ہے اور خود پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ یہودی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ تاریخ میں ان کے ساتھ بڑی بھلائی کی گئی ہے۔ حقیقت اس کے خلاف ہے، انہیں جلتی آگ پر لا کر بٹھا دیا گیا ہے، آج نہیں تو کل یہاں مسلمانوں کا اقتدار بحال ہونا ہے۔

یہودیت کا غالب حصہ اب صیہونیت میں تبدیل ہوچکا ہے، اس لیے وہ کسی صورت میں مسلمانوں یا مسلمانوں کی کسی یادگار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آپ دیکھیں یہ غزہ میں چھ سو سے زائد مساجد، ہسپتال اور پارلیمنٹ کی بلڈنگ کو گرا دیتے ہیں۔بہت سے مقامات سے انہیں کسی قسم کا کوئی فوجی خطرہ نہیں تھا، انہیں صرف اس لیے گرایا گیا کہ فلسطینی عظمت رفتہ کی یاد کرانے والی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ یہ جگہوں کے نام تبدیل کرتے ہیں، آپ گوگل پر بیت المقدس لکھیں، وہ اردو میں اس کا ترجمہ یروشلم کرے گا۔ یہ ہمہ جہتی لڑائی ہے، جو بارود برسانے سے لے کر ترجمہ تک کو شامل ہے۔ صیہونی اور ان کے اتحادی چاہتے ہیں کہ تھکا تھکا کر فلسطینیوں کو مارا جائے۔ ان کے دماغوں سے ہی فلسطین کا نام محو کر دیا جائے۔اتنی مشکلات ان پر مسلط کی جائیں کہ یہ مذہب کا نام بھی بھول جائیں۔ مگر یہ تو ان کے ارادے ہیں، ہر بیس سال بعد یہاں ایسی تحریک جنم لیتی ہے، جو اگلے بیس سالوں کے لیے ایک نسل کو پروان چڑھا جاتی ہے کہ فلسطین اور مذہب سے ان کا عشق برقرار رہتا ہے۔ یہ مرتے بھی ہیں تو فلسطین زندہ باد اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

اب تازہ کارستانی ملاحظہ ہو، اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر Itamar Ben-Gvir نے اعلان کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے اندر ایک یہودی عبادت گاہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ اعلان جنگ کو مزید مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہے۔ شیخ الازہر نے کہا کہ ایک انتہاء پسند صہیونی اہلکار کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے اندر یہودیوں کی عبادت گاہ کے قیام کی بات اشتعال انگیز ہے، ایسے بیانات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ شیخ الازہر احمد طیب الازہر نے مزید کہا کہ یہ اشتعال انگیز بیانات صرف ان لوگوں کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں، جو انتہاء پسند ذہنیت رکھتے ہیں۔ جو مذاہب، دوسروں کے تقدس یا بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کا احترام نہیں کرتے اور جو صرف جنگل کا قانون جانتے ہیں۔ حماس نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے "خطرناک اضافہ" قرار دیا ہے اور خبردار ایسا کچھ بھی کیا، اس سے خطے میں مذہبی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی حصے پر شدید حملے کیے ہیں، جس میں کم از کم نو فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اس دراندازی میں سینکڑوں زمینی فوجی اہلکار شامل تھے، جن کی مدد لڑاکا طیاروں، ڈرونز اور بلڈوزروں نے کی، بیک وقت تین علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی اسرائیل جنگ کو وسعت دیتا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مغربی کنارے میں دو دہائیوں کے بعد ایسے شدید حملے کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی پر باقی ہے۔ اس نے شمالی غزہ میں اہل فلسطین کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ پوری اسرائیلی ٹیم ہی یہ چاہتی ہے کہ جنگ کے شعلے بھڑکتے رہیں۔ اسرائیلی پارلیمان کے ڈپٹی سپیکر نے ایکس پر لکھا "اب غزہ کو جلا دو، اس سے کم کچھ نہیں!" یعنی ہر صورت میں غزہ کی زمینیں فلسطینیوں کو جلا کر خالی کرا لی جائیں۔ یہ سوچی سمجھی پالیسی، جس پر اسرائیلی فوجیں عملدر آمد کر رہی ہیں۔

سنہ 2023ء کے اواخر میں ایک یوٹیوب ویڈیو میں اسرائیلی فورسز کو یہ نعرے لگاتے سنا جا سکتا ہے کہ "قبضہ کرو، نکالو، آباد کرو۔" یعنی غزہ پر قبضہ کرکے اہل فلسطین کو نکال دو اور صیہونیوں کو آباد کر دو۔ اسرائیلی فوجیوں کی مذہبی تربیت بھی اسی پر کی جاتی ہے۔ یہودی عالم مالی ایک ایسے یشیوا کے سربراہ ہیں، جو ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے، جسے اسرائیل کی وزارتِ دفاع سے فنڈنگ ملتی ہے۔ اس میں پڑھنے والے طلباء تورات کی پڑھائی کے ساتھ فوجی سروس بھی کرتے ہیں۔ مالی نے 12ویں صدی کے ایک یہودی عالم کے مذہبی جنگوں (متزوا وارز) کے بارے میں بیان کو بنیاد بنا کر کہا کہ "(اگر ایسا ہے) تو جو بنیادی اصول ہمارے سامنے ہے، جب ہم ایک مذہبی جنگ لڑ رہے ہوں، جیسا کہ غزہ، تو وہ مذہبی کتابوں کے مطابق یہ ہے کہ "تمھیں کسی روح کو زندہ نہیں رہنے دینا۔"

اس کا مطلب بہت واضح ہے، اگر تم کسی کو قتل نہیں کرو گے، وہ تمھیں قتل کر دے گا۔" یعنی غزہ وہ مقام ہے، جہاں یہ ہر انسان کو قتل کرسکتے ہیں۔ ان کے صیہونی ربائی ہاتھ میں تورات پکڑ کر ان کی اسی پر تربیت کرتے ہیں۔ آج جب ہم اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینیوں کی لاشوں پر سلفیاں لیتے اور ان کے مال و اسباب لوٹتے دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے نظریئے میں بہت واضح ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کافی لوگ بہت شوق سے شیئر کر رہے ہیں کہ سعودیہ دنیا کی نویں اور عرب امارات دسویں بڑی دفاعی قوت بن گیا ہے۔ سبحان اللہ، اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے، کہیں تو نعرہ بھی لگا دیتے ہیں۔اس نویں یا دسویں نمبر کا امت کو کیا فائدہ ہے؟ اہل فلسطین کو کیا فائدہ ہے؟اسلحے کے یہ ڈھیر ان کے سٹوروں میں ضرور ہیں، یاد رکھیے گا، یہ انہیں چلا بھی نہیں سکیں گے۔ جب وقت آئے گا یا ان کے پاس تربیت ہی نہیں ہوگی یا ان کا کنٹرول واشنگٹن، پیرس یا لندن میں ہوگا۔

اربعین کی مشی اس وقت انسانی شرکت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا واقعہ بن چکا ہے جس میں ہر نسل، قومیت اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوتے ہیں۔ وہ عظیم اہداف جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام، ان کے اہلبیت اور اصحاب نے قیام کیا اور جام شہادت نوش کیا، اس قدر موثر تھے کہ 1400 سال گزر جانے کے بعد بھی ہر سال کروڑوں انسان کربلا کی جانب سفر کرتے ہیں اور ایثار اور مزاحمت کی اس عظیم مثال کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ تاریخی واقعہ دنیا بھر کے اہل تشیع کیلئے اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن ایسی اسلام دشمن طاقتیں، خاص طور پر امریکہ جو مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ تصور کرتی ہیں شدید پریشانی اور تشویش کا باعث ہے۔ لہذا کچھ سال پہلے ایک اعلی سطحی امریکی فوجی عہدیدار نے اربعین واک کو "سیاہ اژدہا" کا نام دیا تھا اور خطے میں مغربی مفادات پر اس کے منفی اثرات سے خبردار کیا تھا۔
 
اس اعلی سطحی امریکی فوجی کمانڈر کی یہ پیشن گوئی بہت جلد حقیقت کا روپ دھار گئی اور اربعین اور اسلامی مزاحمتی سوچ کے فروغ نے تہران اور بغداد میں گہرے دوستانہ تعلقات کا زمینہ فراہم کر دیا جس کے نتیجے میں آج اسلامی مزاحمتی بلاک کی زمینی راہداری مکمل ہو چکی ہے اور یہ بلاک خطے کے موثر ترین اتحاد کی صورت میں ابھر کر سامنے آ چکا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک اس وقت خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے ناجائز مفادات کیلئے زہر قاتل بنا ہوا ہے جبکہ اسلامی مزاحمت پر مبنی خطے کے جیوپولیٹیکل آرڈر نے عالمی نظام کو بھی متاثر کیا ہے اور عالمی سطح پر سپر پاورز کا کھیل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا اسلامی مزاحمتی بلاک دراصل ایک جیوکلچرل (طاقت، ثقافت اور جغرافیائی علاقے پر مشتمل پیچیدہ عمل) عمل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اربعین خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تزویراتی گہرائی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
 
اسلامی مزاحمتی بلاک کی تشکیل میں اربعین کا مرکزی کردار
شوق شہادت اور حق پرستی پر مبنی اربعین کی روح اسلامی مزاحمتی بلاک میں پھونکی جا چکی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ ایک عشرے کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے امت مسلمہ کے حقیقی دشمنوں یعنی امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی منحوس سازشوں کو ناکام بنا ڈالا ہے جبکہ اسلامی مزاحمتی بلاک غاصب صیہونی رژیم کی مکمل نابودی اور قدس شریف کی آزادی کیلئے اگلے مورچے کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی اور اکیسویں صدر کے آغاز میں اسے جنوبی لبنان سے نکال باہر کرنے کے بعد علاقائی سطح پر اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر متوقع اور ناقابل یقین کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔ یہ ایسے وقت ہوا جب دنیا کے تمام بڑے بڑے سیاسی اور فوجی تجزیہ کار اس خطے میں صیہونی فوج کے خلاف گوریلا گروہوں کی کامیابی کو ناممکن قرار دے بیٹھے تھے۔
 
یہ عظیم کامیابی آئندہ کامیابیوں جیسے 33 روزہ جنگ میں تلوار پر خون کی فتح کا پیش خیمہ بن گئی اور آئندہ برسوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان رابطہ زیادہ مستحکم اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کی ایک مثال تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں ان کی فتح ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اہلبیت اطہار علیہم السلام کے حرم اور مزاروں کے دفاع کیلئے شام اور عراق میں داعش کے خلاف میدان جنگ میں قدم رکھا اور مکتب عاشورا سے سبق لیتے ہوئے اس شیطانی ٹولے کو عبرتناک شکست سے روبرو کیا۔ اس طرح انہوں نے حق اور باطل کے درمیان ٹکراو کی عکاسی کرنے والے میدان کربلا کی تصویر دنیا والوں کے سامنے دوبارہ پیش کر دی۔ یوں یہ عبری مغربی فتنہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گیا اور خطے میں کربلا والوں کا بول بالا ہو گیا۔
 
اربعین، طوفان الاقصی اور مزاحمتی جیوپولیٹیکل بنیادوں پر خطے کا نیا آرڈر
جس طرح امام حسین علیہ السلام کے قیام نے ثقافتی اور انسانی حدود پار کر کے دنیا والوں کے سامنے ظلم سے مقابلے کی نئی روایت پیش کر دی تھی اسی طرح اسلامی مزاحمت نے بھی اربعین سے سبق حاصل کرتے ہوئے مختلف ثقافتی، اقتصادی اور فوجی میدانوں میں امت مسلمہ کی پوزیشن مضبوط بنانا شروع کر دی۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں کا مقصد آزادی اور خودمختاری کا حصول اور مختلف قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر مغربی اور مشرقی استعماری طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی دنیا کی طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔ اس نئے جیوپولیٹیکل محاذ کا علمبردار اسلامی انقلاب، اسلامی بیداری اور اسلامی مزاحمت کی طاقتیں ہیں۔ ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے خطے میں امریکہ اور صیہونی رژیم پر حملوں کا مقصد انہیں اسلامی معاشروں سے نکال باہر کرنا ہے جن کا واحد کام فتنہ انگیزی کرنا ہے۔
 
دوسری طرف طوفان الاقصی آپریشن نے اسلامی مزاحمتی جیوپولیٹیکس کی بنیاد پر نیا علاقائی آرڈر تشکیل دے دیا ہے۔ اربعین حسینی کی پرتو میں اس نئے علاقائی آرڈر کا ایک اہم اور بنیادی مقصد مظلوم فلسطینی قوم پر انجام پائے تاریخ ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور یوں اسرائیل نامی سرطانی غدے کا مکمل خاتمہ ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن نے مقبوضہ فلسطین کے اندر ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ علاقائی مساواتوں کو بھی بنیادی تبدیلی کا شکار کر دیا ہے۔ فلسطینی مجاہد اپنی پوری طاقت سے غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت اور بدمعاشی کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کی فوجی طاقت پر کاری ضربیں لگانے میں مصروف ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے مغربی حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ خطے میں کوئی بھی تبدیلی اسلامی مزاحمت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہذا اب امریکہ اسلامی مزاحمت کے سامنے بے بس ہو چکا ہے اور خطے میں اس کا اثرورسوخ روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔
 
 
خ
Saturday, 24 August 2024 21:54

مسجد الصخرۃ

مسجد صَخْرہ یا صَخرۃ مقدس بیت المقدس میں "موریا" نامی بلندی پر واقع مسجد ہے۔ یہ مسجد اور اس کا گنبد جو قبۃ الصخرہ کے نام سے مشہور ہے ایک بہت بڑی چٹان پر بنایا گیا ہے۔اس مسجد کو "مسجد صخرہ " اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مسجد شہر بیت المقدس میں موریا کی بلندی پر ایک چٹان پر بنائی گئی ہے جو تینوں آسمانی آدیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مقدس شمار کی جاتی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب معراج کو اسی مقام سے آسمان کی طرف عروج کیا تھا۔

مسجد اقصی اور مسجد صخرہ انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے بعض لوگ اس مسجد کے گنبد کو جو کہ مذکورہ چٹان کے اوپر بنایا گیا ہے،مسجد الاقصی کا گنبد خیال کرتے ہیں جوکہ خلط اور اشتباہ ہے کیونکہ مسجد الصخرہ کا گنبد گولڈ کلر میں جبکہ مسجد الاقصی کا گنبد سرمئی کلر میں ہے

مسجد صخرہ پہلی صدی ہجری میں عبد الملک بن مروان کے دور میں بنائی گئی اور بعد کے مختلف ادوار میں اس کی مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔ مسجد الصخرہ یا قبۃ الصخرہ مسجد الاقصی کے علاقے میں بیت المقدس کے "موریا" نامی بلندی پر واقع ہے۔ مسجد الصخرہ کے گنبد کا رنگ سونے (گولڈ کلر) کا ہے جو ایک آٹھ ضلعی عمارت کے اوپر بنایا گیا ہے۔

اس عمارت کے ہر چاروں سمت ایک دورازہ کھلتا ہے۔ مسجد صخرہ کے جنوب مغربی حصے میں سنگ مرر کے ایک ستون کے نزدیک "قدم محمد" نامی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش پا ہے جو شب معراج کو آپ نے یہاں سے آسمانی کی طرف عروج فرمایا تھا۔ اسی طرح قبۃ الصخرہ کے نزدیک ایک مشہور مقام "قبۃ النبی" کے نام سے موجود ہے جہاں قدس شریف کے مکینوں کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام نے نماز پڑھی ہیں۔ تزئین کے اعتبار سے قبۃ الصخرہ غنی‌ ترین اسلامی عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

جس  چٹان پر  "قبۃ الصخرہ" بنایا گیا ہے  یہ مسجد حرم سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ شمار ہوتا تھا۔

اس مسجد کی تعمیر کا کام سنہ 66 ہجری میں عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں بیت المقدس کے موریا نامی بلندی پر شروع ہوئی اور سنہ 72 ہجری میں مکمل ہوئی ۔ پھر اس کی مزید تعمیر بعد کے ادوار میں جاری رہی یہاں تک کہ سنہ 216 ھ میں عباسی خلیفہ مامون عباسی کے دور میں قبۃ الصخرہ کی دوبارہ  مرمت ہوئی۔سنہ 407 ھ میں قدس شریف میں شدید زلزلہ آیا اور قبۃ الصخرہ ویران ہو گیا، سنہ 413 ھ یعنی خلافت فاطمیہ کے دور میں مسجد صخرہ دوبارہ تعمیر کی گئی۔ سنہ 460 ھ میں ایک اور زلزلے میں مسجد دوبارہ ویران ہو گئی جسے سنہ 467 ھ میں عباسی خلیفہ القائم بامراللہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی۔

Saturday, 24 August 2024 21:45

فقر اور تنگدستی کی حقیقت

مشہور مفکر اور بوسنیا کے سابق صدر علی عزت بیگووچ نے اپنی مشہور کتاب(الإسلام بين الشرق والغرب) میں فقر وتنگدستی کی حقیقت پر گفتگو کی ہے۔وہ انسان کے دو پہلو، مادی اور روحانی کی بیان کرنے کے بعد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان دونوں پہلوؤں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اگر توازن نہ ہو تو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بات ایسی ہو تو یہیں سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ جب انسان اپنی زندگی میں مادی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسی کو بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ کبھی بھی خوش نہیں رہتا، حالانکہ اس کے پاس زندگی گزارنے کی تمام آسائشات موجود ہوتی ہیں۔

فقر کا قرآنی تصور

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فقر کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے:

(وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ)، طه: 124

اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

فقر یہ نہیں ہے کہ انسان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ،بلکہ فقر یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اس سے راضی نہیں ہے۔

آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر کا سبب یاد خدا سے دوری ہے۔ہم یہاں پر اس معنی کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس آیت مجیدہ میں ذکر خدا سے کیا مراد ہے؟ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے پاس مال و اسباب نہیں ہوتا تو وہ غم و خوف کا شکار ہو جاتا ہے یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں کچھ اسباب کا فقدان ہے۔جب انسان کے پاس مال و دولت اور اسباب کی فروانی ہوتی ہے تو وہ مطمئن ہوتا ہے۔جب انسان کی نظر میں مادی اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو گی تو ایسی صورت میں جب اس کے پاس یہ نہیں ہوگا تو اسے کسی قسم کے رنج،غم،افسوس،اضطرات،تکلیف اور پریشانی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔جس نے اپنا عقیدہ اس بات پر بنایا کہ یہ سب وسائل دراصل اللہ کے رزق تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں جب وہ نہیں ہو ں گے تو اسے کوئی دلی پریشانی نہیں ہو گی۔کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر قادر کہ وہ کسی دوسرے طریقے سے اس تک رزق پہنچا دے گا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا)، الطلاق: 3

اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے، اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔

اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں: (وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو.۔ یعنی اللہ ایسے وسیلے سے رزق دے گا جسے انسان جانتا بھی نہیں ہو گا۔

(إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی اور چیز کا سبب بنا کر رزق عطاکر دے۔

اس طرح ایمان رکھنا انسان کو زندہ اور مطمئن بناتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)، يونس: 62 ۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ پس اسباب کے چلے جانے سے بھی اسے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوتا۔اسی طرح جب یہ مال لانے کے اسباب موجود ہوتے ہیں تو بھی وہ خوش نہیں ہوتا۔اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ میں ارشاد ہوتا ہے:(لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ)، الحديد: 23 ۔ تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔

آیت مجید کہ  جس آیت شریفہ میں ذکر کی طرف اشارہ کیا گیا ، اس کی  وضاحت اللہ تعالی کا یہ فرمان کرتا ہے:

(اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)، الطلاق: 12 ۔

 وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔

اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ اس نے اس کائنات کو کیوں بنایا؟ اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اس حقیقت کو جان لے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی بھی صاحب اختیار نہیں ہے،ہر طرح کی قوت و طاقت اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:(لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)

تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ انسان اس مقام تک پہنچے کہ وہ جان لے کہ ہر معاملہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔

کسی کو یہ گمان نہ ہو جائے کہ ہم ہر طرح کے مادی اسباب کی نفی کر رہے ہیں کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا،ایسا ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ وہ عام ذرائع اور وسائط ہیں جن کو اختیار کرنے کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے۔تاہم، ہمیں یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے کہ ان کا اثر اللہ کے بغیر ہوتا ہے، بلکہ جو بھی ان میں طاقت اور اثر ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے۔علم کلام میں اس موضوع کو استطاعت کی بحث کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔لیکن ضرورت کے تحت ہم صرف اس کی طرف فقط اشارہ ہی کریں گے۔اسباب کی تاثیر کی بارے میں حضرت علیؑ کے قول کے ذکر کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جس میں اسباب کی تاثیر کی مقدار کی وضاحت کی گئی ہے۔عبایہ بن ربعی نے استطاعت (اسباب اور وسائل کے اثر)کے بارے میں سوال کیا اس سوال کے جواب میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:آپ نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا ہے،کیا تمہاری استطاعت اللہ کے بغیر ہے یا اللہ کے ساتھ تم بھی مالک ہونے میں شریک ہو؟ عبایہ خاموش رہا،امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:اگر تم کہو کہ تم اللہ کے ساتھ اس کے مالک ہو تو میں تمہیں قتل کر دوں گا، اور اگر تم یہ کہو کہ تم اللہ کے بغیر اس کے مالک ہو تو بھی میں تمہیں قتل کر دوں گا۔عبایہ نے عرض کیا تو پھر میں کیا کہوں؟آپؑ نے فرمایا: آپ خدا کے ذریعے اس کے مالک ہیں، وہ آپ کے بغیر اس کا مالک ہے۔جس کے تم مالک ہو وہ اس کی عطا ہے۔اگر وہ اسے چھین لے تو یہ اس کی طرف سے مصیبت ہو گی،وہ تمہاری ہر چیز کا مالک ہے،وہ اس پر بھی قادر ہے جس پر تمہیں قدرت دی ہے۔

سماجی اثرات

یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو صاحبان ایمان نہیں ہیں ان کو ڈپریشن اور افسردگی زیادہ ہوتی ہے۔روحانی اور اخلاقی کمزوری یہ دو بڑے اسباب ہیں جو ان اہل مغرب میں پائے جاتے ہیں اور ان لوگوں میں جو اپنا عقیدہ چھوڑ چکے ہیں،بالخصوص ملحدین ایسے ہی ہیں۔مشہور سیاح سلوین ٹیسن نے عصری انسانی نفسیات میں اس خطرناک تضاد پر روشنی ڈالی ہے ، جب اس نے فرانس پر بات کی وہاں اس کی وضاحت کرتے ہوئے طرح بیان کیا:" ایک جنت جس میں ایسے لوگ آباد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہیں۔"یہ چونکا دینے والی تفصیل ہے۔یہ ایک بڑے گہرے بحران کی نشاندہی کرتی ہےجس سے جدید دور کا انسان دو چار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس مادی آسائش کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن روحانی اور اخلاقی بیچارگی کا شکار ہے۔

اس بات کی تصدیق مشہور نفسیاتی تجزیہ کار اور فروئیڈ کے شاگرد کارل گستاو یونگ کے الفاظ سے ہوتی ہے، اس نے کہا:" وہ تمام مریض جو اپنی زندگی کا نصف حصہ گزار چکے ہیں(35 سال سے زیادہ)۔ان کے مشاہدے کے دوران مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو اپنے مذہبی تصور کے بارے میں مشکل کا شکار نہ ہو۔۔۔ایسے شخص کو اس وقت تک شفاء نہیں مل سکتی جب تک وہ مذہب کو دوبارہ دریافت نہ کر لے۔

انسان کی شخصیت میں موجود معنویت کا بحران انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کے لیے دوسرے ذرائع کو تلاش کریں، ان کے ذریعے نفسیاتی توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔وہ جنسی بے راہ روی،نشہ آور اشیاء کا استعمال اور باطنی ادیان جیسے بدھ ازم ،ہندو ازم اور اس طرح کے دیگر مذاہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔آسٹریا کی متصوفہ ماریہ سما کہتی ہیں: سیکولر دنیا کا دعویٰ ہے کہ روحانیت کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ واضح اور بڑے حقائق کے سامنے منہدم ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو بتائیں کیوں ہزاروں لاکھوں لوگ گنگا کے کنارے مراقبہ کے لیے ہندوستان آتے ہیں؟ اور شہر کیوں فرقوں اور روحانی گرو حضرات سے بھرے ہوئے ہیں، یقینا ان میں سے کچھ قابل اعتراض بھی ہیں؟

انسان کی روح اس کے جسم کی طرح ہے،اسے بھی تازگی اور زندگی کے لیے پانی اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے،وہ جہالت اور گمراہی جس میں آج کی دنیا مبتلا ہو چکی ہے۔انسان کا بڑا مسئلہ جس کا وہ شکار ہے وہ اس کا روحانی اور دینی مسئلہ ہے۔وہ اس کے عجیب غریب متبادل لانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ نشہ آور اشیاء،شراب اور شباب میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی کبھی وہ نام ،عہدہ،اقتدار اور مال میں اس کا حل ڈھونڈتا ہے۔کبھی وہ کچھ ایسے گروں سے متاثر ہو جاتا ہے جن کے بارے میں وہ اس وہم کا شکار ہوتا ہے کہ ان سے اسے سکون اور امن ملے گا۔ جبکہ حقیقت میں یہ لوگ  اسے شیطانی اور گمراہ کن قوتوں کے چنگل میں لے جاتے ہیں۔"

الحاد پر ایک عالمی مطالعہ میں، ماہر عمرانیات فل زکرمین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جن ممالک میں ملحدانہ رجحانات غالب ہیں وہاں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

دومحققین سارہ زممور اور لی این کاسکوٹا، جو نفسیات اور نشے کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہبی عقائد کسی بھی انسان کو نشے سے روکنے کے لیے ایک حفاظتی بند کا کردار ادا کرتے ہیں۔

ان دونوں محققوں کی تحقیق کی تصدیق بہت سے ملحدوں کے اعترافات سے ہوتی ہے معروف مصنف اور ملحد "Boualem Sansal" کو اپنے الحاد پر افسوس ہوا، اس نے 28 دسمبر 2021 کو اخبار "L'Express" کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ وہ ملحدین جو ایسے جذبات (یعنی مذہبی جذبات) نہیں رکھتے ان کی زندگی غمگین ہوتی ہے۔‘‘آندرے کاؤنٹ آف سیون ویل، ایک بنیاد پرست ملحد فلسفی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا:"ایک لمحہ آتا ہے جب ملحد مکمل طور پر عاجز ہوتا ہے۔ اسے جن سے زیادہ پیار تھا ان میں: اس کا باپ، اس کا ہمکار، اس کا بیٹا، اس کا سب سے اچھا دوست،موت کی وجہ سے یہ سب اس سے چھین لیتی ہے۔ اس طرح کے لمحات میں،ہم خدا پر یقین کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں،ہم ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اس (ایمان)سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آئیے مان لیتے ہیں کہ مذاہب کی یہی طاقت ہے کہ  جسے شکست دینا مشکل ہے۔ کیا یہی وجہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے؟ بعض لوگوں کے لیے تو یقینا ایسا ہی ہے۔بعض دوسرے جن میں ،میں خود بھی شامل ہوں وہ اسی سے ایمان کا انکار کریں گے،اس کی وجہ تکبر،غصہ،اور ناامیدی ہو گی۔تکلیف کے باوجود وہ اپنے الحاد میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ بدترین حالت میں بھی یہ باغی رہیں گے ایسا کرنا نماز سے زیادہ بہتر ہے۔انہیں وحشت تسلی سے زیادہ پسند ہے۔"

اختتامیہ

فرانسیسی فلسفی لوئس مائیکل بلانک نے اپنی کتاب (الكتاب الأسود للإلحاد) میں لکھا ہے:"جب خدا مر چکا ہے،جیسا کہ نطشے نے دعوی کیا ہے۔جدید دور کے انسان کی روحانی پیاس ابھی تک زندہ ہے۔جیسے معاشرے میں پچاریوں اور پادریوں کا کردار کم ہو رہا ہے۔ہم معاشرے میں چڑیلوں اور قدیم دیوتاوں کی پرستش کو واپس آتا دیکھ رہے ہیں۔سینما،ادبی کتب اور ان پر بنی ٹی وی سیریز زبردست کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اس سے ان موضوعات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔اس رجحان کو سمجھنے کے لیے بڑی لائبریریوں کا دورہ کرنا یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو براؤز کرنا ہی کافی ہے۔ انسان فطرتاً ایک مذہبی مخلوق ہے اور اس کی روحانی پیاس صرف مذہب یا متبادل مذہبی نظام کے ذریعے ہی بجھائی جا سکتی ہے۔

شیخ مقداد  ربیعی

اسرائیلی فوج کے سابق میجر جنرل نے غزہ میں حماس کے ہاتھوں اپنی ناکامی کو تسلیم کر لیا ہے۔ سابق اسرائیلی میجر جنرل نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ سابق میجر جنرل یزہاک برک نے کہا ہے کہ ہم ایسی جگہ پھنس چکے ہیں جہاں ایک طرف حماس کیساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری جانب ایران کیساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ سابق میجر جنرل نے خبردار کیا کہ اگر غزہ جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو خطے میں نہ ختم ہونیوالی جنگ چھڑ سکتی ہے، اور اسرائیل ہر جانب سے شدید خطرات میں گھیر جائے گا۔ یزہاک برک نے مزید کہا کہ وزیر دفاع نے غزہ کے حوالے سے جو اہداف مقرر کیے تھے اُن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا، اگر یہی صورتحال رہی اور اسرائیلی وزیراعظم اور ان کے اتحادی تبدیل نہ ہوئے تو اسرائیل آئندہ ایک سال میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائیگا۔

اسرائیل کے حوالے سے یہ پیشگوئی صرف یزہاک برک کی نہیں، بلکہ اسرائیلی سیاستدان، مبصرین، سینیئر تجزیہ کار اور دفاعی ماہرین بھی ایسی متعدد پیش گوئیاں اور تجزیے پیش کر چکے ہیں، جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس گیا ہے، تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا، اس کے باوجود حماس کا نقصان نہیں کر سکا۔ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے سے ملک فتح نہیں ہوتے، مخالف کی دفاعی قوت کو زائل  کرنا پہلی ترجیحی ہوا کرتی ہے، مگر اسرائیل اس میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل مکمل طور پر نرغے میں ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی حکام کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر میں اسرائیل کی لائف لائن پر پاوں رکھا ہوا ہے۔ ایران کا خوف صہییونیوں کو راتوں کو سونے نہیں دے رہا ہے۔ ایران اسمائیل ہانیہ کا بدلہ لینے میں جتنی تاخیر کر رہا ہے، صہیونی اتنی زیادہ ذہنی کوفت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ میں ایران نے اسرائیل پر فتح حاصل کر لی ہے۔

اسرائیل پر حملے کی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب مبصرین نے یہ دیتے ہیں کہ ایران اگر براہ راست اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔ چونکہ برطانیہ اور امریکہ کیساتھ ساتھ کچھ ’’غدارانِ امت‘‘ عرب حکمران بھی اسرائیل کا ساتھ دیں گے، جس کیلئے ایران اس ممکنہ شدید ردعمل سے نمٹنے کیلئے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے جنگی مشقیں کر رہا ہے۔ جس روز ایران کا دفاع مضبوط تر ہوگیا، ایران ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرے گا اور اسرائیل پر بھرپور حملہ ہوگا۔ اسرائیل کے سابق میجر جنرل یزہاک برک کی یہ پیشگوئی زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پہلی بار باقاعدہ اپنے فورسز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لیں۔ یہ بدلہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے بڑھ کر ہوگا کیونکہ اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہوئے تہران میں حملہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایران چاہتا ہے کہ جتنا بڑا حملہ ہو، اتنی زیادہ تیاری بھی ہو، یہی وجہ ہے کہ ایران حملے میں تاخیر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے روس کیساتھ بھی دفاع تعاون کے معاہدے ہوئے ہیں۔ روس سے بھی اسلحہ لیا جا رہا ہے جبکہ ایران کی اپنی ڈورن ٹیکنالوجی اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اس سے وہ کسی بھی ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ ڈرون کے ساتھ ساتھ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کی بھی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی رجیم نفسیاتی طور پر اتنی پریشان ہے کہ اسی پریشانی کے باعث وہ اپنا کوئی نقصان بھی کر بیٹھیں گے۔

اب خود اسرائیلی فوج کے اندر بھی کافی پریشانی پائی جا رہی ہے۔ اعلیٰ افسران مستعفی ہو رہے ہیں۔ جس سے حکومت کو ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہیلیوا نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس پر حملوں میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس نے اسرائیل پر جو 7 اکتوبر کو حملہ کیا تھا، اس میں ہماری ناکامی ہے کہ ہم اس حملے کا ادراک نہیں کر سکے۔ اہارون ہیلیوا کا کہنا تھا کہ حماس نے جب حملہ کیا اور جنوبی اسرائیلی آبادیوں، فوجی اڈوں اور ایک کلب میں ہونیوالی پارٹی پر حملہ کیا تو وہ میرے لئے ایک سیاہ دن تھا اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے کہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا، یہ ملامت مجھے سونے نہیں دیتی، میں قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ اس پر انہوں نے حماس کے اس حملے کو اپنی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔

ان کے علاوہ بھی اعلیٰ فوجی حکام تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور اسرائیل کے دفاع کا پول پوری دنیا میں کھل گیا۔ جو فرضی رعب و دبدبہ بنایا گیا تھا، وہ حماس نے تارِ عنکبوت کی طرح برباد کرکے رکھ دیا۔ حماس کے اس عبرتناک حملے پر ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن تیتن یاہو کی جانب سے حکومت اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی پر معافی نہیں مانگی گئی۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطاقب حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1199 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جن میں عام شہری  بھی شامل تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی فورسز  نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کر دی تھی۔ جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جبکہ خود اسرائیلی وزیراعظم بینکر میں چھپا ہوا ہے، اور اسرائیلی عوام کی زندگیاں اس نے داو پر لگائی ہوئی ہیں۔

اس جنگ میں امریکہ کا دوہرا معیار ہے، امریکہ ایک جانب اسرائیل کا اسلحہ بھی دے رہا ہے، اس کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے اور ساتھ ہی جنگ بندی کیلئے کوششیں کرنے کا ڈرامہ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے مختلف عرب حکمرانوں سے ملاقاتیں اور جنگ بندی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی بات کی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ امریکہ جو خود تو اسرائیل کا اسلحہ اور دیگر دفاع سامان دے کر جنگ کی آگ کو بڑھاوا دے رہا ہے، اس کو کیسے  تسلیم کر لیا جائے کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ یہ دوہرا معیار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے کہ امریکہ منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اب زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابق اسرائیلی میجر جنرل کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ اسی سال ہو جائے گا۔

تحریر: تصور حسین شہزاد