سلیمانی

سلیمانی

Sunday, 31 December 2023 19:05

شہادت کے پیغام

مزاحمت کے میدان اور حرم کے دفاع میں ایک اور عظیم انسان کی شہادت کی خبر سامنے ائی ہے۔ یہ شہید اپنے دور کے طاقتور ترین کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ مزاحمت کے میدان میں ان کی شہادت کے کئی پیغام موجود ہیں۔

صیہونی حکومت اور مزاحمت کا خوف
صیہونی حکومت کا مزاحمتی محاذ کی طاقت اور اثر و رسوخ سے مسلسل خوف شہید اسلام حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بھی کم نہیں ہوا۔غزہ کی جارحیت میں اس کی واضح ناکامی کے المیے نے اس کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ غزہ کے حالیہ زخم کو مندمل کرنے کے لیے اسے کسی مرہم کی تلاش ہے۔ وہ اپنی خام خیالی میں اس طرح کے اقدامات سے خطے کی بڑی طاقت یعنی مزاحمتی محاذ کے علم برداروں کو قتل کرکے اس بلاک کو شدید دھچکا پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی خام خیالی اور بےہودہ وہم و خیال میں اس کمانڈر کو حاج قاسم کی برسی کے موقع پر شہید کیا۔ جس نے  اس کے اپنے بقول اپنے کالے کپڑے یعنی حاج قاسم کے سوگ کا لباس بھی نہیں اتارہ تھا۔ وہ شہادت کا منتظر تھا، کیونکہ حاج قاسم نے اس سے شہادت کا وعدہ کیا تھا۔ غاصب اور مجرم صیہونی حکومت نے سید رضی موسوی کو ان کی رہائش گاہ پر تین راکٹ فائر کرکے شہید کر دیا، تاکہ یاد دلایا جا سکے کہ  ایک سخت انتقام انتظار کر رہا ہے۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صیہونی لیڈروں کو اب اپنے ہی سائے سے ڈرنا چاہیئے۔

سید رضی موسوی کون تھے؟
خبر یہ تھی کہ "ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر دمشق میں زینبیہ کے علاقے میں صیہونی حکومت کے حملے میں شہید ہوگئے اور دشمن نے سید رضی کو تین میزائلوں سے شہید کر دیا۔" سید رضی موسوی شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر مشیر تھے، جنہوں نے اس ملک میں جنگ کے تمام مراحل میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔ انہوں نے صحرائی علاقوں سے لیکر دمشق کے نواحی علاقوں کی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ وہ حلب میں مغرب کے حملے کو پسپا کرنے والے ثابت قدم لوگوں میں سے ایک تھے۔ شہید موسوی شام کے معاملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے سینیئر کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہیں صیہونی حکومت نے گذشتہ برسوں میں متعدد بار نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

 اس محترم شہید کا شمار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے بڑے اور ممتاز کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ وہ شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے پرانے مشیروں اور شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کے اہم ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ کو لیس کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کئی سالوں تک شام میں IRGC قدس فورس کے نمائندے رہے۔

صیہونی حکومت کے جرائم کا تجزیہ
صیہونی حکومت حاج قاسم اور ان کے ساتھیوں نیز مزاحمتی محاذ سے خوفزدہ ہے۔ وہ اس تحریک کے عظیم افراد کی شہادت کی تلاش میں ہے، تاکہ اپنے خوف کی سطح کو کم کرسکے اور غزہ میں اپنی ذلت آمیز شکست پر پردہ ڈال سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ سے آئے روز ایک خوفناک دھچکا لگتا ہے۔ اسے غزہ پر حالیہ حملے سے جو شکست ملی، وہ بہت بڑی رسوائی تھی، اس لیے صیہونی حکومت اس شکست سے رائے عامہ اور اپنے حامیوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سید رضی موسوی کو شہید کرنا اسی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ یہ جرم ایسے وقت ہوا، جب ایرانی مشیر کو 1973ء کے عالمی کنونشن کے مطابق استثنیٰ حاصل ہے، لیکن کیا غاصب حکومت کسی بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی پاسداری کرتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو غزہ کی جنگ میں 8 ہزار بے سہارا بچے شہید نہ ہوتے۔

مزاحمت جاری ہے
شہید سلیمانی، عراقی مزاحمت کے کمانڈر ابو مہدی المہندس، سید رضی موسوی نیز فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کے بعض دیگر رہنماؤں کا قتل نہ صرف صہیونیت کے بدنام زمانہ پیکر پر مزاحمت کے حملوں کی وسعت کو کم نہیں کرے گا بلکہ صیہونی حکومت اور اس کے امریکی حامیوں کو مزید چیلنجوں اور حملوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے چیلنجز جو اس نے گذشتہ آٹھ دہائیوں میں کہیں نہیں دیکھے ہوں گے۔ بلا شک و شبہ صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کو ایران اور اسلامی مزاحمت کے سخت انتقام کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ خوف صیہونی حکومت کی مکمل تباہی تک جاری رہے گا۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شیعہ نیوز: مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے جنرل سید رضی موسوی کو شہید کرکے ایک اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

شام میں اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے میں ایران کے فوجی مشیر سید رضی موسوی کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال نے غاصب صیہونی حکومت کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنون آمیز اقدام نہ صرف یہ کہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال نہیں کرسکتا بلکہ مزاحمت کے محور کے ذریعے اس کا محاصرہ مزید تنگ تر کرنے کا سبب بنے گا۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کا یہ اقدام شام کی ارضی سالمیت، اقتدار اعلی اور عالمی قوانین اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس اقدام نے ایک بار پھر اسرائیل کی دہشت گردانہ ماہیت کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیا ہے۔

 

میجر جنرل محمد باقری کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔

مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت غزہ کے خلاف جنگ میں تمام تر دعووں کے باوجود نسل کشی اور وحشیانہ کارروائیوں کے علاوہ کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

انہوں نے غاصب صیہونی حکومت اس غزہ کی دلدل سے نکلنے اور اپنے جنگی جرائم سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی غرض سے جنگ کا دائرہ پورے خطے میں پھیلانے اور اپنے اتحادیوں کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسرائیل کو حتمی نابودی سے بچایا جاسکے۔

ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کہی کہ صیہونی حکومت نے شام میں ایرانی فوجی مشیر کو دہشت گردانہ حملے میں شہید کرکے اسٹرٹیجیک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔

 

شیعہ نیوز: شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے اس سال "شہید القدس” کے شعار کے ساتھ برسی کے انعقاد کا اعلان کیا۔

رپورٹ کے مطابق شہید جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر شہید میموریل سینٹر کے ترجمان سید مجتبی ابطحی نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سال شہید کی برسی کا عنوان "شہید قدس” طے پایا ہے۔ یہ اقدام فلسطین کی بہادر قوم کی استقامت اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے اس عظیم سورما کو "شہید القدس” کا خطاب دینے کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک نئی دنیا وجود میں آرہی ہے جس میں شریف اور باوقار لوگ سربلند ہوں گے جب کہ امریکہ، جبر، سامراج اور اسرائیلی رجیم کا خاتمہ اور نابودی یقینی ہے۔

 

 

شہید قاسم سلیمانی میموریل سینٹر کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران ہم نے شہید کی برسی میں مختلف شخصیات کی موجودگی کا مشاہدہ کیا اور اس سال یہ برسی عالمی منظرنام

 

اس سال شہید قاسم سلیمانی کی برسی کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ شہید کا یوم شہادت حضرت زہرا (س) کی ولادت کے ساتھ آرہا ہے اور یہ انتہائی اہم مناسبت ہے جو ہمارے لیے بہت سے پیغامات رکھتی ہے۔ دوسری جانب شہید کی برسی حضرت امام خمینی (رح) کی ولادت کے ساتھ آرہی ہے جب کہ شہید سلیمانی بھی امام خمینی (رہ) کے سپاہی تھے۔

ابطحی نے طوفان الاقصی آپریشن کے ساتھ شہید کی برسی کے اتفاق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج اس آپریشن کو تقریباً 73 دن گزر چکے ہیں اور تمام مزاحمتی محاذ استکبار کے ساتھ میدان جنگ میں ہیں۔ یہ آپریشن اسکتباری تسلط کے خلاف ایک اسٹریٹجک جست تھی جو مختلف سطحوں پر عوامی مزاحمت میں بدل گئی اور اس نے فلسطینی عوام کا باوقار اور مزاحمت پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی بار امریکہ اور یورپی ممالک کے عوام کو مسلسل 10 ہفتوں سے سڑکوں پر دیکھا ہے اور شہید سلیمانی کی روح اقوام عالم کے جذبے سے گھل مل گئی ہے۔

مجتبی ابطحی نے کہا کہ آج ہم خطے میں ہر جگہ اور خاص طور مزاحمتی محاذ پر شہید سلیمانی کا پرتو دیکھ رہے ہیں اور امریکی اڈوں میں موجود ہمارے بزدل دشمنوں کو ہر روز شہید کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

7 اکتوبر کے دن غزہ پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے ساتھ ہی مغربی کنارے پر بھی صیہونیوں کے حملوں میں شدت آ گئی اور اسی دن سے مغربی کنارہ بھی فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان محاذ جنگ میں تبدیل ہو گیا اور حتی ایک دن بھی یہ جنگ کم نہیں ہوئی۔
بچوں کا قتل عام، غاصب فورسز کا انسان سوز جرم
اس بارے میں الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مغربی کنارے میں غاصب صیہونیوں کی طرف سے انجام پانے والے جرائم کی کچھ مثالیں ذکر کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 29 نومبر کی صبح فلسطینی بچہ "بصال سلیمان ابولوفہ" اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کی غرض سے جنین شہر میں اپنے گھر سے باہر نکلا۔ اس کے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی اس محلے میں گولی چلنے کی آواز سنائی دی جہاں یہ 15 سالہ فلسطینی بچہ زندگی بسر کرتا تھا۔
 
جب باسل کے اہل خانہ فائرنگ کی آواز سن کر گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو خون میں لت پت پایا اور دیکھا کہ اس کے سینے میں کئی گولیاں لگ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ باسل کو ہسپتال پہنچاتے وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ ایک خاتون صیہونی فوجی نے یہ منظر اپنے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا۔ اسی دن اسی علاقے، جینین میں ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ صہیونی فوجیوں نے "آدم سامر" نامی 8 سالہ فلسطینی بچے کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ قابل ذکر ہے کہ دو بچوں کے خلاف یہ 2 پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت انجام پانے والے جرائم ایسے وقت پیش آئے جب غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے تبادلے کیلئے ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی برقرار تھی۔ باسل اور آدم سامر ان 275 فلسطینیوں میں سے دو ہیں جو غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
 
مغربی کنارے پر صیہونی قبضے کا آغاز
غزہ کی پٹی کی طرح مغربی کنارہ بھی 1967ء سے صیہونیوں کے قبضے میں ہے لیکن 2005ء سے غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے شدید محاصرے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔ اگرچہ دونوں علاقوں کے درمیان محض 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن آمدورفت ختم ہو جانے کے باعث وہ ایکدوسرے سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود مغربی کنارے نے صیہونی دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت ہر گز ترک نہیں کی اور خود صیہونی بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مغربی کنارہ نئے فلسطینی انتفاضہ کا نقطہ آغاز بنے گا۔ 1993ء میں غاصب صیہونی رژیم اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کی روشنی میں مغربی کنارے اور غزہ میں محدود فلسطینی انتظامیہ قائم کی گئی تھی۔ ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ 5 سال بعد صورتحال تبدیل کر دی جائے گی۔
 
لیکن غاصب صیہونی رژیم نے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی کنارہ عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ جنین، طولکرم اور نابلس کے شہر مکمل طور پر فلسطینیوں کے کنٹرول میں ہیں لیکن ان علاقوں پر صیہونی فوج کے حملے کبھی نہیں رکے اور 1967ء میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم اس علاقے میں تقریباً 1 لاکھ 70 ہزار فلسطینیوں کو شہید یا گرفتار کر چکی ہے۔ صرف اس سال صیہونی فورسز نے جنین میں 137 فلسطینی، نابلس میں 88 فلسطینی اور طولکرم میں 55 فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ہے۔
مغربی کنارے کا خونریز ترین سال
2023ء کا سال مغربی کنارے میں سب سے زیادہ شہادتوں کا سال ہے۔ غاصب صیہونیوں نے یکم جنوری سے 6 اکتوبر تک 48 بچوں سمیت 208 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
 
مغربی کنارے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت
10 دسمبر تک غاصب صیہونی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد 106 تک پہنچ چکی تھی جو 2022ء میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ مغربی کنارے میں شہید ہونے والا سب سے کم عمر فلسطینی بچہ، 3 سالہ "ہیثم التمیمی" تھا جسے اس کے اہلخانہ کے ہمراہ رام اللہ میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ فلسطین میں بچوں کے دفاع کی بین الاقوامی تحریک کے سربراہ عید ابو قطیش نے اعلان کیا ہے کہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی فوجی جان بوجھ کر آبادی والے علاقوں میں گولیاں چلاتے ہیں جبکہ ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے پرتشدد اور وحشیانہ حملوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
 
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صیہونی آبادکار یہ حملے غاصب صیہونی فوج کی زیر نگرانی اور اس کی حمایت سے انجام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے اب تک صہیونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر کم از کم 6022 حملے انجام دیے ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کی پالیسی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1967ء میں مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے کے بعد صیہونی رژیم نے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان تمام علاقوں سے بے دخل کر دیا اور ان کے 50 ہزار سے زائد گھر اور دیگر عمارتیں مسمار کر دیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم نے 2009ء سے 2023ء کے درمیان مغربی کنارے میں 10 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ کیں جس کے نتیجے میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی جلاوطن ہو گئے۔

تحریر: محمد علی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزه علمیه قائم چیذر تہران کے مؤسس آیت اللہ ہاشمی علیا نے اپنے ہفتہ وار درس اخلاق میں، صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں دعا کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ صبر، انسانوں کیلئے ایک الہٰی امتحان ہے اور انسان کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں ایک اہم کردار مصیبتوں میں صبر کا ہے۔ انسان عبادات، اطاعت اور ترک گناہ میں صبر کا مظاہرہ کر کے اپنے لئے ایک اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ صبر مختلف معاملات میں الٰہی امتحان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسان مذکورہ تین مراحل میں، اس طرح سے عمل کرے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں سرخرو ہو اور مکمل نمبر لے، اس صورت میں وہ قیامت کے دن حساب وکتاب کے بغیر بہشت میں داخل ہو جائے گا۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اگر انسان کی عقل اور درک و تفکر میں کوئی کمزوری نہ ہو تو انسان اپنی سعادت کی راہ خود پیدا کرتا ہے، کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو انسان جہل و جہالت کا شکار ہو گا اور نتیجتاً انسان کا دل سخت ہو جائے گا۔

انہوں روایت کی رو سے انسانی زندگی میں صبر کی اہمیت اور کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابی بصیر امام صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: «إِنَّ اَلْحُرَّ حُرٌّ عَلَی جَمِیعِ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَ إِنْ تَدَاکَّتْ عَلَیْهِ اَلْمَصَائِبُ لَمْ تَکْسِرْهُ وَ إِنْ أُسِرَ وَ قُهِرَ وَ اُسْتُبْدِلَ بِالْیُسْرِ عُسْراً کَمَا کَانَ یُوسُفُ اَلصِّدِّیقُ اَلْأَمِینُ...؛ آزاد انسان، تمام حالات میں آزاد ہے، اگر اس پر کوئی مصیبت آئے تو صبر کا مظاہرہ کرے اور اگر مصیبت اسے چاروں طرف سے گھیر بھی لے تو اسے شکست دے نہ پائے، اگرچہ حضرت یوسف علیہ السّلام کی مانند اسیر اور مغلوب ہو اور سختیاں آسائشوں کی جگہ لیں۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے مزید کہا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام نے غلامی کے دوران اپنے اوپر آنے والی تمام سختیوں اور الٰہی امتحانات میں صبر کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس کی پاداش میں خدا نے ستمگر اور سرکش مالک کو حضرت یوسف علیہ السّلام کا غلام بنا دیا۔ حقیقت میں واقعی حر وہ ہے جو تمام امور میں آزاد ہو یعنی بلاؤں میں آزاد ہو اور شیطان کا اسیر نہ ہو اور گناہ کے مقابلے میں آزاد ہو اور گناہ اور فانی دنیا کا اسیر نہ ہو۔

حوزہ علمیہ تہران کے استادِ اخلاق نے رضائے الٰہی کے حصول کے طریقہء کار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید الساجدین علیہ السّلام صحیفہ سجادیہ کی آٹھویں نورانی دعا میں، خدا کی بارگاہ میں استغاثہ کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی پناہ مانگتے ہیں، لہٰذا انسان کو صبر و استقامت میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وعظ و نصیحت سنے، اچھے لوگوں کو دوست بنائے، خدا کی قرب حاصل کرے اور دنیا اور اس کی جلد ختم ہونے والی لذتوں کا بندہ نہ بنے، تاکہ سعادت ابدی کا مستحق قرار پائے۔

شیعہ نیوز: یمن میں حکمفرما انصاراللہ تحریک نے گذشتہ چند ہفتوں سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ اس دوران یمن نیوی دسیوں ایسی تجارتی کشتیوں کو ضبط یا انہیں میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے مربوط تھیں۔ اس میدان میں انصاراللہ یمن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عالمی سطح پر فوجی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی اور اسرائیل کیلئے تجارتی سامان لے کر جانے والی کشتیوں پر پابندی کے باعث اسرائیل کی ایلات بندرگاہ مکمل طور پر بند ہو چکی ہے اور اسے روزانہ کئی ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

امریکہ اور چند مغربی ممالک کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کیلئے یکطرفہ، دو طرفہ اور چند طرفہ گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انصاراللہ یمن کی کاروائیوں کے باعث میرسک اور ہاپاگ لویڈ جیسی بڑی کمپنیاں بھی بحیرہ احمر میں تجارتی سرگرمیاں روک دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس بارے میں جو چیز قابل توجہ ہے اور اسے بیان کرنا ضروری ہے وہ انصاراللہ یمن کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی سرگرمیوں سے لے کر غاصب صیہونی رژیم کی ایلات بندرگاہ پر اس کے میزائل اور ڈرون حملوں تک اور چالیس ممالک کے ہمراہ امریکہ کا انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کی خبر سے لے کر یمن میں انصاراللہ کی مخالف نگران کونسل کی جانب سے تل ابیب سے خود کو تسلیم کرنے کی درخواست تک۔

 

یمن میں انصاراللہ کے مخالف دھڑے نگران کونسل نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو خود کو تسلیم کرنے کے عوض بحیرہ احمر میں اس کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور یمن میں انصاراللہ کے علیحدگی پسند مخالفین مستقبل میں اپنے مفادات خطرے میں پڑ جانے کے خوف سے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انصاراللہ یمن نے علاقائی سطح پر بین الاقوامی پانیوں میں موجودگی برقرار رکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ یمن میں انارکی اور بے امنی کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور اب یمن کی مسلح افواج کی نگاہیں ملکی امور سے بالاتر ہو کر علاقائی امور پر لگی ہیں۔

 

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران انصاراللہ یمن کی جانب سے مختلف میدانوں میں فعالیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس کی پوشیدہ توانائیاں اور صلاحیتیں سب کیلئے واضح ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں جارح طاقتوں کے دل خوف اور وحشت سے پر ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے انصاراللہ یمن خود کو علاقائی طاقت کے طور پر منوا کر موجودہ حالات تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا مدمقابل نہ صرف اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے بلکہ اپنی پوزیشن اور مفادات کھو دینے کے خوف میں بھی مبتلا ہو چکا ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ انصاراللہ یمن کی جانب سے ملک کے اندر اور علاقائی سطح پر نئی جنگی پالیسی اختیار کئے جانے کا امکان بھی ہے۔ لہذا امریکی طاقتوں سمیت مغربی ممالک کی تمام تر کوشش فوجی اقدامات کے ذریعے انصاراللہ یمن کو مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے روکنا ہے۔

 

امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لا کر ایسے اقدامات کرنے کے درپے ہیں جن کے ذریعے مستقبل قریب میں انصاراللہ یمن کے اچانک حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ان کا ایک اور مقصد یمن کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنا ہے اور ممکنہ تلخ نتائج سے بچنا ہے۔ جس چیز نے انصاراللہ یمن کو جارح قوتوں، مغربی طاقتوں، علیحدگی پسند عناصر اور تل ابیب کیلئے ڈراونا خواب بنا دیا ہے اور وہ اس سے مقابلے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، وہ توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جنہیں اب تک انصاراللہ نے ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اندرونی سطح پر کچھ حد تک کشمکش کم ہونے کے نتیجے میں انصاراللہ یمن نے بھرپور انداز میں علاقائی سطح پر سرگرم ہو کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔

امریکہ میں حکمفرما عیسائی صیہونی ہر گز اسرائیل پر حکمفرما صیہونیوں سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے 7 اکتوبر کے روز طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد سے ہی اپنی نسل پرستانہ اور انسان مخالف مجرمانہ خصلت کا اظہار کر دیا تھا اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پوری طرح نابود ہو جائے اور تمام اسرائیلی یرغمالی آزاد کروا لئے جائیں گے۔ دوسری طرف گذشتہ 18 برس سے شدید ترین محاصرے کا شکار غزہ کی پٹی کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی انتقامی کاروائی اور اس میں بروئے کار لائی گئی انتہائی درجہ بربریت اور عام شہریوں کے قتل عام کو مسلسل 77 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیل کچھ حاصل نہیں کر پایا۔
 
اب تک غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ بیگناہ شہریوں کی قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہے۔ غزہ میں ایک ساتھ دو جنگیں چل رہی ہیں۔ اصلی جنگ صیہونیوں کی نگاہ سے غزہ کی عوام کے خلاف جاری ہے جبکہ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی جنگ اسلامی مزاحمت کے خلاف ہے۔ غزہ کی عوام کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ حق طلب ہیں، اپنی غصب شدہ سرزمین واپس چاہتے ہیں اور اس راستے میں استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی بے مثال مظلومیت کے باوجود عالمی سطح پر ایک ایسا معجزہ کر دکھایا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا بھر کی عوام ان پر جاری ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ عرب حکومتیں بھی چیلنج کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
عالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج نے وائٹ ہاوس کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے جو غزہ جنگ کو شعلہ ور کرنے کے علاوہ روز بروز اس کی شدت میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی حکمران ابھی سے ہی خود کو آئندہ الیکشن میں شکست خوردہ دیکھ رہے ہیں اور خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عالمی سطح پر گوشہ گیری اور اجتماعی نفرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکمران غزہ میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وسیع قتل عام کے منصوبے رکھتے ہیں لیکن وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں غزہ کی مکمل نابودی پر بات ختم نہیں ہو گی اور اس کے بعد اصل مسئلہ مغربی نظریات کا کھوکھلا پن اور جھوٹے نعروں کی حقیقت فاش ہو جانے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ وہ اسے مغربی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی اسٹریٹجک شکست سمجھتے ہیں۔
 
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا تاکہ بنجمن نیتن یاہو کے سامنے اپنی جنگ پھیلانے کی پیاس پر تاکید کے ساتھ ساتھ اسے اس بات سے بھی خبردار کر سکے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں کارکردگی تقریباً صفر ہے جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی امریکہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ لہذا اس نے بنجمن نیتن یاہو کو دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے اور وہ اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو جو اپنی محدود سیاسی بقا کیلئے جنگ جاری رہنے کو ضروری سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنی کابینہ سے شدت پسند وزیروں کو نکال باہر کیا تو حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔
 
بنجمن نیتن یاہو یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد دو ریاستی راہ حل قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب اسرائیل میں تمام دائیں بازو کی اور شدت پسند جماعتوں کی سیاسی موت ہو گا۔ اگرچہ یہ دو ریاستی راہ حل محض دھوکہ اور فریب ہے اور اس کا واحد مقصد عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور دنیا کے دیگر ممالک کو فریب دینا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدت پسندی اور ہر قسم کی فلسطینی ریاست کی نفی اور غزہ میں مکمل نسل کشی پر اصرار جیسی بنیادوں پر استوار ہے۔ لہذا جک سیلیوان کے مطالبات نے اسرائیلی حکمرانوں کو ایک تضاد کا شکار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمانڈوز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ صیہونی رژیم کے اعلان کردہ جنگی مقاصد سے کوئی مقصد اب تک حاصل نہیں ہو پایا۔
 
دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کے سامنے صیہونی رژیم اور مغربی حکمرانوں کی عزت بھی داو پر لگتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی رژیم کی لاجسٹک سپورٹ اپنے ذمے لے رکھی ہے لیکن بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی مزاحمتی کاروائیوں نے صیہونی کابینہ سے طویل جنگ کی امید چھین لی ہے۔ لہذا ان دنوں مغربی حکمرانوں اور صیہونی رژیم کی جانب سے ایک اور جنگ بندی کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس جنگ بندی کا مقصد تازہ دم ہونا اور عالمی سطح پر غم و غصے کی شدت کم کرنا ہے۔ غزہ جنگ امریکہ کو بند گلی اور اسرائیل کو تضاد کا شکار کر چکی ہے۔ چاہے وہ جنگ بند کر دیں یا چند ہفتوں کیلئے مزید جاری رکھیں جس دلدل میں انہوں نے قدم رکھا ہے اس سے نکلنا ممکن نہیں۔
تحریر: ہادی محمدی
 
 
 

ایران کی نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او جعفر سالاری نسب نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ملک میں فیول اسٹیشنوں کی تازہ ترین حالت کے بارے میں کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے تمام پیٹرول اسٹیشنوں کو دستی طور پر فعال کردیا گيا تھا تاکہ ایندھن کی فراہمی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا مرحلہ فیول کارڈ کو بحال کرنا تھا اور پیر کی رات تک ٪ 40 پیٹرول اسٹیشنوں کا سسٹم بحال کردیا گیا تھا۔

نیشنل پیٹرولیم ڈسٹری بیوشن کمپنی کے سی ای او نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج رات تک تمام فیول اسٹیشن کارڈ سسٹم کے ذریعے دوبارہ کام کرنا شروع کردیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرقی آذربائيجان صوبے کے دس ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کانفرنس کا اہتمام کرنے والے منتظمین نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 6 دسمبر 2023 کو ہوئی جس میں خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ ہدایات دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر 14 دسمبر 2023 کو کانفرنس ہال میں دکھائی گئی۔(۱)

خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللّہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید

میں اس ضروری اور بہت مفید کام کا بہت شکر گزار ہوں جسے آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں نے انجام دیا اور آذربائيجان اور تبریز کے شہیدوں کے نام اور ان کی یاد کو، جو یقینی طور پر ناقابل فراموش ہے، آپ نے زیادہ اعلی سطح پر اور زیادہ واضح انداز میں پیش کیا، یہ بہت ہی اچھا اور مناسب اقدام ہے۔ البتہ خراج عقیدت پیش کرنے کی پچھلی کانفرنس، جو کئي سال پہلے منعقد ہوئي تھی اور اس کانفرنس کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ ہو گيا، مناسب ہوگا کہ اس طرح کے اقدامات اور خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنسیں، یاد منانے کے پروگرام جلدی جلدی دوہرائے جائیں، جس طرح سے کہ ہم ہر سال محرم میں شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں، اس وقت مثال کے طور پر تیرہ سو سال ہو گئے ہیں اور یہ کام ہر سال دوہرایا جاتا ہے لیکن یہ دوہرایا جانا، تھکانے والے کاموں کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید کاموں میں سے ہے۔

خود پر نگرانی رکھنا، ہر شخص، قوم اور گروہ کے لیے ضروری

تبریز اور آذربائیجان کے بارے میں تعریفی باتیں کم نہیں ہیں، ہم نے بھی ہر سال آپ کے ساتھ اپنی سالانہ ملاقات میں، مسلسل اس سلسلے میں بات کی ہے۔ شہیدوں کے بارے میں آج کی اس نشست میں محترم امام جمعہ اور سپاہ کے محترم کمانڈر نے جو باتیں بھی کہی ہیں وہ بہت اچھی اور مکمل تھیں، وہ ساری سفارشیں جو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں اور عام طور پر عرض کرتے ہیں، ان پر بحمد اللہ آپ حضرات کی توجہ تھی اور ان میں سے بہت سی باتوں پر آپ نے عمل بھی کیا ہے۔ میں بس اتنا عرض کروں کہ ہماری ایک ذمہ داری یہ ہے کہ خود پر، اپنے آپ پر نظر رکھیں۔ قوم اپنے تشخص کو فراموش نہ کرے، اگر اس نے اپنے تشخص کو بھلا دیا تو وہ نقصان اٹھائے گي، اسے چوٹ پہنچے گي، وہ پچھڑ جائے گي۔ خداوند عالم ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی یاد کو بھلا چکے ہیں، فرماتا ہے: "نَسُوا اللَّہَ فَاَنساھُم اَنفُسَھُم"(2) انھوں نے خدا کو بھلا دیا، خدا نے انھیں خود ان ہی کی طرف سے غافل کر دیا اور انھیں ان کی طرف سے فراموشی میں مبتلا کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود پر توجہ، اپنے تشخص پر توجہ، اپنی خصوصیات پر توجہ، ہر شخص، ہر قوم اور ہر گروہ کے لیے ایک ضروری کام ہے۔

صوبۂ آذربائيجان، ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل، بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ

آذربائیجان کو اس تشخص پر، جس نے اسے ممتاز بنا رکھا ہے، پوری توجہ رکھنی چاہیے۔ حقیقی معنی میں، جس علاقے کو ہم "آذربائيجان" کہتے ہیں، وہ ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل ہے۔ آذربائيجان بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ ہے۔یہ چیز مقدس دفاع سے مختص نہیں ہے، پہلے سے ہی ایسا رہا ہے، اب بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک اسلامی انقلاب کی بات ہے، اگر ہم حساب کرنا چاہیں، انقلاب سے پہلے، یعنی امام خمینی اور ایرانی قوم کی تحریک کے آغاز سے، آذربائیجان میں شہادت کا کردار اور شہادت کا آہنگ شروع ہو چکا تھا جو اب تک ہے۔ دفاع حرم میں آذربائيجان کے خطے کے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ البتہ ان قربانیوں کا نقطۂ عروج اور آذربائيجان کی اس اعلی قدر کے مظاہرے کا نقطۂ عروج، مقدس دفاع تھا اور یہی شخصیات جن کا جناب نے نام لیا: شہید آقا مہدی باکری، شہید حمید باکری، شہید تجلائي، شہید یاغچیان یہی نمایاں افراد تھے جو شہید ہوئے، ان میں سے بہت سے عزیز اور نمایاں افراد بحمد اللہ آج بھی حیات ہیں، یعنی شہادت پسندی اور ایثار و فداکاری کی یہ خصوصیت مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سے لے کر آج تک جاری رہی ہے۔ اس شہر کے دو امام جمعہ شہید ہوئے ہیں(3) یعنی پورے ملک میں شہید ہونے والے پانچ ائمہ جمعہ میں سے، جو علمائے دین کے افتخارات کا حصہ ہیں،(4) دو ائمہ جمعہ تبریز شہر کے ہیں۔ یہ باتیں اہم ہیں، یہ بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔

معاشرے میں شہیدوں کی اخلاقی خصوصیات کو نمونۂ عمل بنا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے پر تاکید

جو بات میں نصیحت اور سفارش کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے تو شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، یعنی شہیدوں کی یاد صرف ان کے واقعات کو بیان کرنا نہیں ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تقوی، وہ ایثار، وہ شجاعت اور وہ وجود کا درخشاں گوہر جو شہید باکری جیسے افراد کو میدان میں کھینچ لاتا ہے، اسے بیان کیا جائے، پہنچایا جائے تاکہ وہ نئی نسل کو آئيڈیل دے۔ ہمارے جوان کو آئيڈیل کی ضرورت ہے اور سب سے اچھے آئيڈیل یہ ہیں۔ بعض قومیں، جن کے ہاتھ اس لحاظ سے بالکل خالی ہیں یا بڑی حد تک خالی ہیں، وہ آئيڈیل بناتی ہیں، بغیر وجود کے آئيڈیل گڑھتی ہیں۔ ہمارے سامنے تو یہ آئيڈیل موجود ہیں۔ شہید باکری کو صرف میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہیے، محاذ کے پیچھے بھی دیکھنا چاہیے، تبریز یونیورسٹی میں بھی دیکھنا چاہیے، ان کی انقلاب سے پہلے کی سرگرمیوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اس جذبے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ میں انقلاب سے پہلے مشہد میں شہید آقا مہدی باکری سے ملا تھا، جوشیلے، سمجھدار، دلچسپی لینے والے، واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے۔ یہی باتیں سبب بنیں کہ بعد میں وہ جنگ میں، مقدس دفاع کے میدان میں اس طرح سے نکھرے، ابھر کر سامنے آئے اور دلوں کو اپنی طرف مائل کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ ہم اگر کوئي فلم بناتے ہیں، کوئي نظم لکھتے ہیں، کوئي کتاب تحریر کرتے ہیں، یادگار واقعات کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں نشر کرتے ہیں، شائع کرتے ہیں تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ جذبہ دوسروں تک پہنچے، یہ تعمیری جذبہ ہے۔ یہ پہلی بات ہوئي کہ شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کی طرح، یعنی جس طرح ہر سال محرم میں ہوتا ہے، جب عاشورا کا دن آتا ہے تو گويا آپ سنہ اکسٹھ ہجری کے عاشورا کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں، واقعات آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، سننے والے کی نظروں کے سامنے شخصیتیں مجسم ہو جاتی ہیں، یہی چیز دفاع مقدس کے شہیدوں اور ان دس ہزاروں شہیدوں کے بارے میں بھی ہونی چاہیے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔

شہیدوں کے حالات و واقعات کو رقم اور محفوظ کرنے کے لیے ان کے اہل خانہ، رفقائے کار اور دوستوں سے استفادہ

دوسری بات یہ ہے کہ شہیدوں کے اہل خانہ کو نہ بھولیے۔ افسوس کہ بہت سے والدین دنیا سے گزر چکے ہیں، اپنے شہیدوں سے ملحق ہو چکے ہیں، اب جو لوگ ہیں، چاہے وہ شہیدوں کی بیویاں ہوں یا ان کے والدین ہوں، ان کی یادوں سے، ان کی باتوں سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح شہیدوں کے رفقائے کار اور دوستوں سے بھی، مثال کے طور پر جنگ کے دوران شہید باکری کے کافی رفقائے کار تھے جن میں سے بعض بحمد اللہ اس وقت حیات ہیں، صحت مند ہیں، آمادہ ہیں، انھوں نے میدان جنگ میں ان کی زندگي کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دیکھی ہے۔ شجاعت صرف جنگ کرنے میں نہیں ہوتی، شجاعت اپنے نفس پر کنٹرول میں، شجاعت بات کرنے میں، شجاعت بات نہ کرنے میں، شجاعت اقدام کرنے میں اور اقدام نہ کرنے میں بھی ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں اہم ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے، پہچانا ہے، ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے، ان سے انٹرویو لیا جائے، بات کی جائے، شہیدوں کے حالات حقیقی دستاویز کے طور پر ریکارڈ ہوں اور پہچانے جائيں۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

شہیدوں کے عروج کی راہوں کی شناخت کی ضرورت

ایک اور بات یہ ہے کہ جب شہیدوں کی بات کی جائے تو ان چیزوں کو بھی متعارف کرایا جائے جنھوں نے ان کے عروج کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر لوگ یا وہ افراد جنھوں نے ابتدائي چنگاریوں کو وجود عطا کیا، جیسے شہید قاضی طباطبائي نے انقلاب کے معاملات میں، مثال کے طور پر 18 فروری 1978 کو وہ تھے جنھوں نے پہلی چنگاری پیدا کی، سب سے پہلے اقدام کیا، لوگوں کو اپنے مکان اور اپنی مسجد میں آنے کی دعوت دی اور اس دن کی باقی باتیں؛ مطلب یہ کہ وہ چیزیں واضح ہوں جنھوں نے راہ ہموار کی۔ قم کے واقعے کے بعد سب سے پہلا اقدام فلاں شہر اور فلاں شہر میں نہیں بلکہ تبریز میں کیا گيا، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہاں کے لوگوں میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ اس طرح کے جوانوں کو معرض وجود میں لاتے ہیں، اس طرح پرورش کرتے ہیں، اس طرح شہیدوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، یعنی قومی تشخص، ملی تشخص اور دینی تشخص۔ میں نے ایک بار ان ہی آذربائیجانی بھائيوں اور بہنوں کے اجتماع میں کہا تھا(5) کہ جب مرحوم ستار خان نے 'تحریک مشروطہ' میں اور اس دوران جو اقدامات انھوں نے کیے تھے، اس وقت ان کی جیب میں علمائے نجف کی تحریر موجود تھی، یعنی انھوں نے علمائے نجف سے استفتاء کیا تھا، سوال پوچھا تھا اور انھوں نے بھی انھیں جواب دیا تھا، وہ اس نیت سے آگے بڑھ رہے تھے، یہ بہت اہم ہے۔ آگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے، محرّک کیا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے، یہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہ کام ہو گيا تو پھر قدم بڑھتے رہیں گے۔

مقدس دفاع کے مؤثر اور نادر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنے کی اہمیت

31 عاشورا ڈویژن کا کردار تو واضح ہے، ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے واقعی اپنی چمک دکھائي، میں سیکنڈ ٹیکٹکل ایئر بیس(6) کے رول کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا: جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہمارے جنگي طیاروں کے اس عظیم اقدام نے، جنھوں نے سیکنڈ ایئر بیس اور دوسرے بیسز سے، تھرڈ(7) اور فورتھ ایئر بیس(8) سے اڑان بھری تھی اور وہ بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں یہ کام کر دیا تھا اور میں نے اسی وقت پارلیمنٹ میں جا کر اراکین پارلیمنٹ کو اس کی تفصیلات بتائي تھیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قابل توجہ اور بہت اہم ہیں اور ان شاء اللہ انھیں ذہنوں میں باقی رہنا چاہیے، ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت ہو جانا چاہیے، مطلب یہ کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان اہم واقعات کو، ان مؤثر اور نادر اور بعض مواقع پر بے نظیر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنا چاہیے اور ہمارے جوانوں اور بچوں کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ البتہ اب تک ہم نے کسی حد تک تساہلی دکھائي ہے نتیجتا ہمارے بہت سے جوان، ہمارے بہت سے بچے، نمایاں شخصیات کو نہیں پہچانتے اور بہت سے اہم واقعات کا علم نہیں رکھتے، ہمیں ان چیزوں کو ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے اور اسی طرح کے دوسرے سرکاری تشہیراتی اداروں سے بھی اور ان وسائل کے ذریعے بھی جو آج لوگوں کے پاس اور ان کی دسترس میں ہیں، نشر اور شائع کرنا چاہیے۔

میں دعاگو ہوں کہ خداوند عالم آپ سبھی کو توفیق عطا کرے اور آپ اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائيں اور ان شاء اللہ مستقبل میں، خراج عقیدت کی ان کانفرنسوں اور نشستوں کے درمیان کا وہ فاصلہ، جو آج اور پچھلی کانفرنس کے درمیان کا ہے، مزید کم ہو۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں مشرقی آذربائيجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم اور مشرقی آذربائيجان صوبے میں سپاہ عاشورا کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری بریگیڈیر جنرل اصغر عباس قلی زادہ نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) سورۂ حشر، آيت 19، وہ اللہ کو بھول گئے تواللہ نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا۔

(3) شہید آيت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائي اور شہید آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی

(4) شہید آیت اللہ محمّد صدوقی، شہید آیت اللّہ عطاء اللّہ اشرفی اصفہانی، شہید آیت اللّہ سیّد عبد الحسین دستغیب، شہید آیت اللّہ سیّد محمّد علی قاضی طباطبائی اور شہید آیت اللّہ سیّد اسد اللّہ مدنی

(5) مشرقی آذربائيجان صوبے کے عوام سے خطاب (16/2/2013)

(6) شہید فکوری سیکنڈ ایئر بیس، تبریز

(7) شہید نوژہ تھرڈ ایئر بیس، ہمدان

(8) شہید وحدتی فورتھ ایئر بیس، دزفول


امریکہ نے صیہونی حکومت کے اہم حامی کے طور پر غزہ جنگ کے دوران نہ صرف صیہونی حکومت کی وسیع سیاسی اور فوجی مدد کی ہے بلکہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے حامیوں اور اسرائیل کے جرائم پر تنقید کرنے والوں کے خلاف بھی دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے حامیوں بالخصوص یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور اسٹوڈینٹس کو ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بعض پروفیسروں کو اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے یا استعفیٰ دینے پر مجبور ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستہائے متحدہ کانگریس کی تعلیم اور افرادی قوت سے متعلق کمیٹی نے 5 دسمبر کو یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگل"، ہارورڈ یونیورسٹی کی صدر "کلاؤڈین گی" اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی صدر "سیلی کورن بلوتھ" کو تفتیش کے لئے بلایا۔ یہ کارروائی کانگریس کی جانب سے غزہ کی پٹی کے لیے حمایت کا اعلان کرنے کے لیے بعض امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے اقدامات کی مذمت میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد ہوئی ہے۔

اس قرارداد کے مطابق حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حمایت مبینہ "دہشت گردی" کی حمایت سمجھی جائے گی۔ اگرچہ مذکورہ قرارداد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ محض ایک علامتی اقدام ہے، لیکن امریکی یونیورسٹی کے صدور کے تفتیشی پروگرام نے اس دعوے کے برعکس ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ قرارداد کے مواد پر امریکی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی یونیورسٹی کے طلباء کی سیلف سنسر شپ اور اس کی وجوہات کے بارے میں شائع ہونے والا ڈیٹا اس معاملے کی سچائی کو ثابت کررہا ہے۔

امریکی کانگریس کے مطالبے کے بعد یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی صدر "لِز میگیل" جنہیں اس یونیورسٹی کے کیمپس میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حامیوں کے مظاہرے کے بعد امریکی کانگریس میں طلب کیا گیا، ریاستی دھمکیوں کی وجہ سے پیر کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی کے طلباء نے اس سے قبل صیہونی حکومت کے جرائم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں شہریوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہرے میں "Liz Magill" کو اسرائیل کے حامیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

 ایک اور تقریب میں ہارورڈ یونیورسٹی کے چار طلباء کو غزہ کے عوام کی حمایت اور احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے پر یونیورسٹی کی تادیبی کمیٹی میں بلایا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس یونیورسٹی میں فلسطین کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں کو ایک ناقابل قبول رویہ قرار دیکر اسے تعلیم  اور تعلیمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں گذشتہ ماہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والے طلباء کو خبردار کیا جائے گا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم "کوجو اچمپونگ" کا کہنا ہے کہ: تادیبی کارروائیوں میں طلباء کی پڑھائی کی معطلی بھی شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ (یونیورسٹی حکام) ہمیں نہیں روک سکتے اور یہ اقدامات ہمیں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے نہیں روک سکتے۔

 اسرائیل کے لیے انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی بائیڈن کی جمہوری حکومت کی وسیع حمایت کے باوجود، امریکہ کے اندر عوام، اشرافیہ، خاص طور پر طلباء اور پروفیسرز غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مخالفت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی یونیورسٹیاں فلسطینی قوم کے حامیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تصادم کا مرکز اور 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد کے ہفتوں میں مختلف احتجاجی ریلیوں کا مرکز بن چکی ہیں۔ صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت میں یونیورسٹی کے پروفیسرز کے موقف اور اسرائیلی جرائم کے خلاف طلباء کے احتجاج ن کی وجہ سے ان کے خلاف  ریاستی دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔

 یہود دشمنی کے الزامات کے ذریعے امریکی ماہرین تعلیم پر لایا جانے والا دباؤ اس حقیقت کا باعث بنا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ خود سنسر شپ کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان تنازعات کے بارے میں علمی رائے دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ امریکہ میں مشرق وسطیٰ کے 80 فیصد پروفیسرز اور طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی جرائم کے بارے میں سیلف سنسر کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت میں وسعت اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت نے امریکی انتظامیہ کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ امریکی یونیورسٹیوں کی سطح بالخصوص یونیورسٹی کے مراکز کی انتظامیہ نیز طلباء اور پروفیسروں کو ڈرا دھمکا اور انہیں نکالنے کی دھمکیاں دے کر خاموش کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے صدر کے حوالے سے تادیبی کارروائی نے ایک بار پھر مغرب اور خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی اظہار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 اہل مغرب ان لوگوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں، جو ان کے نقطہ نظر سے مقدس اور ناقابل اعتراض معاملات میں غیر روایتی یا غیر مجاز موقف اختیار کرتے ہیں۔ مغرب کے حکمران ان کے خلاف ہر قسم کے دباؤ اور سزائیں لاگو کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اظہار رائے کی آزادی صرف اس وقت تک موجود ہے، جب تک کہ کوئی ان کی سرخ لکیروں یا ان ممالک کے نام نہاد ممنوعات، مثلاً صیہونی حکومت یا ہولوکاسٹ کی مکمل حمایت پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا۔ جیسے ہی اس ایشو پر یا فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے جرائم کی مذمت کے بارے میں کوئی چھوٹا سا بھی سوال اٹھائے تو اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جاتی ہے۔

تحریر: سید رضا میر طاہر