سلیمانی

سلیمانی

Wednesday, 13 December 2023 02:02

آیت حجاب کا شان نزول

مورخین نے صر اسلام کے حالات اور اس دور کی تاریخ کے باب میں یہ تحریر کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانہ میں خواتین پردہ کرتی تھیں البتہ ان کا حجاب اور پردہ ، کامل اور جس قسم کے پردہ کا حکم اسلام نے دیا ہے ویسا پردہ نہ تھا، عرب خواتین معمولا لمبے لمبے لباس پہنا کرتی تھیں مگر گلہ کھلا ہوتا تھا ، گردن اور سینہ کا بالائی کچھ حصہ قابل دید تھا، سر پر جو اسکارف اور دوپٹہ ڈالتیں اسے اپنی پشت پر ڈال دیتیں، جس کی وجہ سے انکا کان ، کان کی بالیاں ، گردن اور سینہ کا بالائی  حصہ قابل دید ہوجاتا ۔ (۱)

امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا : ایک دن گرمی کے موسم میں مدینہ کی گرم ہوا میں ایک خوبصورت عورت معمول کے مطابق سر پر اسکارف باندھے ، اسکارف کے سرے کو اپنی پشت پر ڈالے کہ جس کی وجہ سے ان کی گردن اور کان دِکھ رہا تھا، گلی سے گذر رہی تھی ، اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے ایک صحابی سامنے کی گلی سے ارہے تھے ، وہ اس حَسِین اور خوبصورت منظر کو دیکھنے میں اس قدر محو ہوگئے کہ اپنے اطراف سے غافل ہوگئے اپنے سامنے کا راستہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے ، وہ عورت گلی میں داخل ہوگئی مگر صحابی کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں کہ ناگہاں اپ کا چہرہ  دیوار سے  باہر نکلے ہوئے شیشہ کے ٹکڑے سے ٹکرایا اور اپ کی صورت زخمی ہوگئی ، جب وہ غفلت سے چونکے تو ان کے چہرہ خون سے لد پھد رنگین اور زخمی ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں رسول اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اور انہوں نے مرسل اعظم (ص) سے تمام ماجرا بیان کیا ۔ (۲)   

یہ وہ مقام ہے جس کے بعد رسول اسلام (ص) پر آیت حجاب نازل ہوئی « وَ قُلْ لِلْمُؤْمِناتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ إِلاَّ ما ظَهَرَ مِنْها وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ وَ لا یُبْدینَ زینَتَهُنَّ .... ؛  اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ۔ » (۳)

اس ایت کریمہ کے لب و لہجہ سے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ مذکورہ ایت حجاب اور پردہ کے دائرہ اور محدودہ کو بیان کررہی ہے کیونکہ صدر اسلام کی عورتوں کے بدن ، لمبے لباس اور پہناوے سے ڈھکے ہوئے تھے مگر گردن اور سینہ کا بالائی حصہ کھلا ہوا تھا ۔

اس ایت میں موجود اس ٹکڑے « لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلی جُیُوبِهِنَّ » کے سلسلہ میں راغب اصفھانی فرماتے ہیں کہ خمر کے لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور خمار اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو ڈھکا یا چھپایا جائے مگر عرف عام میں خمار اس کپڑے سے مخصوص ہے جس سے عورت اپنا سر چھپاتی اور ڈھکتی ہے (۴)

بیان کیا جاتا ہے کہ اس ایت کے نازل ہونے کے وقت عرب معاشرہ کی خواتین اپنے اسکارف کے چاروں کونے سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈال دیتی تھی جس کے نتیجہ میں ان کا گلا اور سینہ کا اوپری حصہ کھل جاتا تھا ۔ (۵) تو پھر ایت کے معنی اور اس کی تفسیر یہ ہوئی کہ عورتیں اپنا اسکارف سمیٹ کر اپنی پشت پر ڈالنے سے پرھیز کریں ، اس سے اپنی گردن اور اس کے نیچے کے حصہ کو بھی چھپائیں تاکہ ان کی گردن اور سینہ کا اوپری حصہ بھی ڈھکا رہے ۔

ابن عباس اس ایت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «تغطی شعرها، و صدرها، و ترائبها و سوالفها» یعنی عورت اپنا بال ، اپنا سینہ، گردن کے اطراف اور گردن کے نیچہ کا حصہ چھپائے رکھے ۔ (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: شھید مطهری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 19، ص 484- 485
۲: فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج 5، ص 230 اور شھید مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 19، ص 485
۳: قران کریم، سورہ نور، ایت 31
۴: راغب اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن، لفظ خمر
۵: قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 2، لفظ حجب
۶: طبرسی، مجمع البیان، ج 4، ص 138

 


 

فاطمیہ کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے ، رحلت پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کیا حالات پیش آئے ، ان حالات اور واقعات کا ہمارے عقائد اور ہمارے دین سے کیا تعلق ہے ، اور کیوں بعض حضرات مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ فاطمیہ کو ختم کردیں یا حداقل ان ایام کی اہمیت کو کم اہمیت یا کم فروغ بنادیں ؟ کیونکہ فاطمیہ تشیع کی بنیاد اور عقائد کے ایک اہم مسٔلہ کو حل کر رہی ہے اور اس مسٔلہ کا تعلق امامت و ولایت اہلبیت طاہرین علیہم السلام جیسے عظیم ، اہم اور بنیادی مسٔلہ سے ہے جس کے بارے میں نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن دوسرے میری عترت جو میرے اہلبیت ہیں اور جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہونچے۔ (۱)

حدیث ثقلین میں نبی گرامی اسلام ، امت کی نجات کا ذریعہ قرآن اور اہلبیت کو پہچنوا رہے ہیں اور امت کو قرآن اور ان ذوات مقدسہ سے متمسک ہونے کا دستور دے رہے ہیں اور اس بات پر تاکید فرما رہے ہیں کہ میرے بعد گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان قرآن اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے دامن کو تھام لے ان سے متمسک ہوجائے اور جب تک انسان ان کا دامن تھامے ہوئے ہے گمراہی سے بچا ہوا ہے اور جہاں ان کا دامن ہاتھ سے چھوٹا انسان گمراہی کے دلدل میں گرتا چلا جائے گا۔

اسی طرح آپ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (۲)

امام حسین علیہ السلام بھی اسی مطلب کی جانب ایک حدیث میں اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللہ جل ذکرہ نے انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ اس کی شناخت حاصل کریں اور جب اس کو پہچان لیں گے تو اس کی عبادت کریں گے اور اگر اس کی عبادت کریں گے تو اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا : اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے بتائیے اللہ کی معرفت کیا ہے ؟ امام نے فرمایا : ہر عصر کے لوگوں کا اپنے زمانہ کے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔ (۳)

جاری ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: صحیح ترمذی ، ج ۵ ، ص ۶۶۲ و ۳۲۸ ؛ مستدرک حاکم ، ج ۳ ، ص ۱۰۹ ، ۱۱۰ ، ۱۴۸ ، ۵۳۳ ؛ سنن ابن ماجه ، ج ۲ ، ص ۴۳۲ ؛ مسند احمد بن حنبل ، ج ۳ ، ص ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ ، ۵۹ ، ج ۴ ، ص ۳۶۶ ، ۳۷۲–۳۷۰ ؛ فضائل الصحابه ، احمد بن حنبل ، ج ۲ ، ص ۵۸۵ ؛ خصایص نسایی ، ص ۲۱، ۳۰ ؛ صواعق المحرقه ، ابن حجر هیثمی ، فصل ۱۱، بخش ۱ ، ص ۲۳۰ ؛ کنزالعمال ، متقی هندی ، ج ۱، ص ۴۴ ؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۴، ص ۱۱۳ ؛ طبقات الکبری ، ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۹۴؛ مجمع الزوائد ، هیثمی ، ج ۹، ص ۱۶۳ ؛ تاریخ ابن عساکر، ج ۵، ص ۴۳۶ ؛ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ؛ ینابیع الموده ، قندوزی حنفی ، ص ۳۸ ، ۱۸۳ ، مختلف عبارتوں کے ساتھ ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ۔

۲: کلینی ، کافی ، ج۳، ص۵۸ ؛ شیخ صدوق ، کمال الدین ،‌ ج۲، ص۴۰۹۔ ابن حنبل ، مسند احمد ، ج ۲۸، ص ۸۸۔  ابوداؤد ، مسند ، ج ۳ ، ص ۴۲۵۔ مَنْ ماتَ وَ لَمْ یعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیة۔

۳: الشيخ الصدوق ، علل الشرائع ،   ج ۱ ،  ص ۹ ، حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ۔

مصنف: سید باقری

فساد، بدعنوانی ، رشوت، سود خوری، ظلم و جنایت یہ تمام چیزیں اسلام کی نگاہ میں حرام عمل ہیں، اسلام نے کسی بھی صورت انہیں قبول نہیں کیا کیوں کہ ان میں سے بعض کی حالت فتنہ کے مانند ہے کہ اگر معاشرہ میں پھیل گیا تو پورا کا پورا معاشرہ فاسد ہوجائے گا ، جیسا کہ قران کریم نے فرمایا: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ؛ اور اس فتنہ سے بچو جو صرف ظالمین (جن لوگوں نے فتنہ پروری کی ہے) کو پہنچنے والا نہیں ہے (دوسروں کے بھی دامن گیر ہوگا)۔ (۱)  

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام رشوت لینے اور دینے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: و قد عَلِمتُم أنَّهُ لا يَنبَغِي أن يكونَ الوالِي على الفُرُوجِ و الدِّماءِ و المَغانِمِ و الأحكامِ و إمامَةِ المسلمينَ البَخِيلُ ··· و لا المُرتَشِي في الحُكمِ ؛ فَيَذهَبَ بالحُقوقِ ، و يَقِفَ بِها دُونَ المَقاطِعِ ۔ (۲) اور اپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناموس ، جان ، غنمیت، احکام اور رہبریت کے ذمہ دار، ہرگز بخیل انسان کو نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مسند قضاوت پر رشوت لینے والا ہو کہ اس حالت میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے اور حق حقدار تک نہیں پہونچے گا۔

یا مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سود خوری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَ كَاتِبَهُ وَ شَاهِدَيْهِ ؛ خداوند عزوجل نے سود خور ، سود دینے والے اور سود لکھنے والے پر لعنت کی ہے ۔ (۳) چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا: دِرْهَمُ رِبا أَعْظَمُ عِنْدَ اللّه مِنْ سَبْعينَ زِنْيَةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فى بَيْتِ اللّه الْحَرامِ وَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُونَ جُزْءاً فَأَيْسَرُهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ اَلرَّجُلُ أُمَّهُ فِي بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ ؛ سود کا ایک درہم خداوند متعال کے نزدیک ۷ بار محارم کے ساتھ خانہ خدا میں زنا کرنے سے بدتر ہے اور فرمایا : سود کے ستر اجزاء ہیں کہ ان میں سے سب سے کم، مرد کا اپنی ماں کے ساتھ خانہ خدا میں نکاح کرنا ہے ۔ (۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظلم و جنایت کے سلسلہ میں فرمایا : اَلظُّلْمُ ثَلاثَةٌ: فَظُلْمٌ لايَغْفِرُهُ اللّه ُ وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ وَظُلْمٌ لايَتْرُكُهُ، فَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لايَغْفِرُ اللّه ُ فَالشِّرْكُ قالَ اللّه ُ: «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى يَغْفِرُهُ اللّه ُفَظُلْمُ الْعِبادِ أَنْفُسَهُمْ فيما بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الظُّلْمَ الَّذى لا يَتْرُكُهُ اللّه ُ فَظُلْمُ الْعِباد ِبَعْضُهُمْ بَعْضا ؛ ظلم کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے ، دوسرے وہ ظلم جو قابل بخشش ہے اور تیسرے وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے ۔ وہ ظلم جو قابل بخشش نہیں ہے وہ خدا کو شریک قرار دینا ہے اور اس سلسلہ میں فرمایا : «إنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظيمٌ» اور وہ ظلم جو قابل بخشش ہے وہ بندے کا خود پر ظلم ہے اور وہ ظلم جو قابل گذشت نہیں ہے وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے ۔ (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: قران کریم ، ، سورہ انفال ، ایت ۲۵ ۔

۲: نہج البلاغۃ ، خطبة ۱۳۱ ۔

۳: شیخ صدوق، من لایحضره الفقیۃ ج۴ ، ص۸ ، ح ۴۹۶۸ ؛ و شیخ صدوق، امالى، ص۴۲۵، ح۱ ۔

۴: مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۱۱۷، ح ۱۳؛ و حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیرنورالثقلين، ج ۱، ص۲۹۵، ح۱۱۷۷۔

۵: پاینده ، ابوالقاسم، نہج الفصاحۃ، ح۱۹۲۴۔

اسلام ٹائمز۔ حماس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے کے امریکی اقدام کی شدید مذمت کی ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کے خلاف امریکی ویٹو، جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف ہے۔ تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے رکن نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بند کرنے کی قرارداد کے اجراء میں واشنگٹن کی رکاوٹ فلسطینی قوم کو قتل کرنے اور ان کی نسلی تطہیر میں مزید جرائم کے ارتکاب میں قابضین کے ساتھ براہ راست شرکت ہے۔

13 ممالک کی منظوری، امریکہ کی مخالفت اور ویٹو اور برطانیہ کی عدم شرکت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواستوں کی حمایت نہیں کرتا۔ سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہم ایسی قرارداد کو ووٹ نہیں دے سکتے، جس میں اسرائیلی شہریوں کے خلاف حماس کی دہشت گردی کی مذمت نہ ہو۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ نے اس قرارداد کے مسودے کے بارے میں ووٹ دینے سے پرہیز کیا اور کونسل کے دیگر ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

سلامتی کونسل میں چین کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ امریکہ نے غزہ میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف اپنا ویٹو استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکی اقدام پر تنقید کی۔ امریکہ ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی میں رکاوٹ بن گیا اور جنگ بندی کو نہ روکنے کا مطلب ہزاروں اور شاید لاکھوں فلسطینیوں کے لیے امریکہ کی جانب سے سزائے موت کا حکم صادر کرنا ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق امریکا کی جانب سے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کرنے پر حماس کا ردعمل آگیا۔ حماس کے رہنماء عزت الرشق کا کہنا ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی مؤقف اپنایا،  امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے سکیورٹی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کی قرارداد پر 15 میں سے 13 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ غیر حاضر رہا۔ اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس قرارداد سے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اس مسئلے میں دیرپا قیام امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے، جس سے دونوں فریق یعنی اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔ رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ ہم اس قرارداد کی حمایت نہیں کرسکتے، جو غیر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، اس سے صرف ایک نئی جنگ کا بیج بویا جا سکتا ہے۔ امریکی نمائندے نے قرارداد میں ترامیم تجویز کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کو بہتر بنانے کے لیے اس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے، جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنالیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل امریکا نے رواں برس اکتوبر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ جنگ بندی کیلئے برازیل کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔

Sunday, 10 December 2023 19:22

نقل مکانی

غاصب اسرائیل کی آبادی کے مسئلے کی دو جہتیں ہیں، ایک جذب اور امیگریشن اور دوسری ریورس مائیگریشن۔ اگرچہ یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں، لیکن ان میں مختلف حالات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ جب بھی بحران اور جنگیں کم ہوئیں، قدرتی طور پر یہودیوں کو زیادہ جذب اور قبول کیا گیا، لیکن جب بھی بحران سنگین اور جنگیں ملک گیر اور انتفاضہ شروع ہوا تو الٹی ہجرتیں زیادہ ہوئیں۔ صیہونی حکومت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ایک جو سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، وہ آبادی کا مسئلہ ہے۔ درحقیقت فلسطین پر قبضے اور فرضی حکومت کے قیام کے لیے زمین کی تشکیل کے بعد سے آبادی کا مسئلہ اور دنیا بھر سے یہودیوں کی اس سرزمین پر آمد ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اپنی آبادی میں قدرتی اضافے کے باوجود، یہودی مقبوضہ سرزمین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے، جن کی آبادی میں اضافہ قابل ذکر ہے۔

اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی انتظامیہ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کو لایا جائے۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے بھی یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور بہت سے مذہبی اور صیہونی یہودی رہنماء یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ہجرت کی پہلی لہر تقریباً 140 سال قبل 1880ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب صیہون سے محبت کرنے والوں کی شکل میں ایک آبادی روس سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی۔ یہ تھیوڈور ہرزل کی سرگرمیوں سے پہلے کی بات ہے۔ ہرزل کے کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں اہم شخصیت بننے کے بعد دیگر منظم صہیونی تنظیمیں بھی اس میدان میں داخل ہوئیں۔

حالیہ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی کوششوں میں سے ایک وزارت ہجرت اور جذب کے نام سے ایک وزارت قائم کرنا ہے، یعنی ایک ایسی وزارت جو پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ بلاشبہ، امیگریشن اور جذب کی وزارت نے یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور صہیونی تنظیموں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ صورت حال نے ریورس مائیگریشن کو تیز تر کر دیا ہے۔ اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 63 دن گزر چکے ہیں۔ صیہونی حکومت کے لیے جنگ کے ٹھوس نتائج میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی لہر میں شدت آنا ہے۔
 
صہیونی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے شمالی مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے چھوڑنے والے ان افراد میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ حالیہ الٹی ہجرت یا معکوس نقل مکانی7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔ پرتگال کی امیگریشن سروس نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک 21,000 اسرائیلیوں نے شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے پرتگال میں اسرائیلیوں کی درخواستیں سب سے زیادہ تھیں۔ اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز مقبوضہ زمینوں سے ریورس ہجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے قبل مقبوضہ زمینوں سے معکوس نقل مکانی کے پیچھے بہت سے معاشی مسائل اور چیلنجز تھے، لیکن طوفان الاقصیٰ کے بعد اس میں سکیورٹی کے عوامل بھی شامل ہوگئے۔ جنگ کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہوا ہے، جبکہ معاشی مسائل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔الاقصیٰ طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کچھ دن قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے اعداد و شمار جو بلاشبہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
 
اقتصادی اور معاشی مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مقبوضہ سرزمین کے باشندے نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی گوگل سرچ میں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ "اسرائیل سے کیسے نکلا جائے" اور اس سے متعلق طریقے تلاش کرنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرا‎ئیلی تارکین وطن امیگریشن کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی پریشانی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کسی غیر ملک کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ، تارکین وطن یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن  کی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
 
مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے پرتگال، جرمنی اور پولینڈ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تل ابیب میں یورپی یونین کے دفتر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہجرت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کابینہ کو جنگ کے ساتھ الٹی ہجرت اور مقبوضہ علاقوں کو ترک کرنے والے باشندوں کو روکنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر غور کرنا ہوگا۔ البتہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کے قلیل مدت میں مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

(105 انبیا) اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران نے خلائی صنعت میں ایک اور اہم کامیابی اپنے نام کرتے ہوئے آج علی الصبح سلمان نامی مقامی لانچر کے توسط سے جدید ترین حیاتیاتی کیپسولز کو مکمل کامیابی کے ساتھ خلاء میں بھیج دیا ہے۔

ایران کی خلائی صنعت میں ایک اور اہم کامیابی؛ جدید ترین "حیاتیاتی کیپسول" مکمل کامیابی کے ساتھ لانچ کر دیا

رپورٹ کے مطابق، یہ بائیو کیپسولز انسانوں کو خلاء میں بھیجنے کے روڈ میپ کو سمجھنے کیلئے ایک سائنسی، تحقیقی اور تکنیکی کارگو ہے، جسے زمین کی سطح سے 130 کلومیٹر کی بلندی پر لانچ کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے جدید ترین بائیو اسپیس کیپسولز کو وزارتِ دفاع اور مسلح افواج کے اشتراک سے تیار کردہ سلمان نامی مقامی لانچر کے ذریعے کامیابی کے ساتھ خلاء میں بھیج دیا گیا ہے۔

500 کلو گرام وزنی کیپسولز کے کامیاب لانچ کے ساتھ ہی خلائی مشن کے منصوبے کی مختلف ٹیکنالوجیز بشمول لانچنگ، ریکوری کی ترقی اسپیڈ کنٹرول سسٹمز اور امپیکٹ شیلڈز، کیپسول اور چھتری کے ایروڈائنامک ڈیزائن، حیاتیاتی حالات کے کنٹرول اور نگرانی سے متعلق نظام وغیرہ کا بھی کامیابی سے تجربہ کیا گیا۔

"سلمان" نامی یہ کیپسول لانچر، اس دور کا پہلا ورژن ہے، جو آدھا ٹن وزنی حیاتیاتی کیپسولز لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے مکمل طور پر ایران نے ہی بنایا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ کامیاب تجربے کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران اب بائیولوجیکل کیپسولز کے حامل 6 ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ”جمعیت علمائے مسلمان لبنان“ کے ایک وفد نے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے سربراہ آیت اللہ حسینی بوشہری سے ملاقات اور مسئلہ فلسطین سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، وفد میں جمعیت علمائے مسلمان لبنان کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ شیخ غازی حنینہ، شہر صیدا میں مسجد حمزہ سید الشہداء کے امام و خطیب، شیعہ محقق اور رائٹر علی حسن خازم اور مجمع جہانی تقریب مذاہبِ اسلامی کے رکن سمیت اہم شخصیات شامل تھے۔

اس ملاقات میں جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے سربراہ نے کہا کہ جب عالم سے گفتگو ہوتی ہے تو وہ "عالم امور" یعنی ایک ذمہ دار عالم دین مراد ہوتی ہے، جس کے عمل اور بیان ایک ہوں، لہذا یہ اوصاف جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے وفد میں نمایاں ہیں۔

انہوں نے لبنان میں شیعہ سنی علماء کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے مزید کہا کہ دنیا میں عالم کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ عالم جو زمان شناس ہو اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آپ علماء نے لبنان میں ان تمام داخلی اور بیرونی مسائل کے باوجود، شہید دیئے اور میدان دشمن کیلئے نہیں چھوڑا۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا کہ آپ علماء، دور حاضر کے با بصیرت علماء ہیں اور آپ دور حاضر اور آنے والی نسلوں کیلئے نمونہ ہیں۔ لبنان میں شیعہ اور سنی علماء غاصب صہیونی ریاست کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔

واضح رہے کہ اس ملاقات کے آغاز میں جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے رکن شیخ حسان عبداللہ نے امام جمعہ قم اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے سربراہ آیت اللہ حسینی بوشہری کو جمعیت کی تاسیس اور مختلف سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔

Thursday, 07 December 2023 04:55

ڈراؤنا خواب

فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں جبالیہ کیمپ پر فاسفورس بموں سے بمباری اور غزہ پٹی کے جنوب میں مزاحمتی قوتوں اور جارحین کے درمیان شدید جھڑپیں شامل ہیں۔ غزہ پٹی کے مختلف علاقوں بشمول النصیرات کیمپ، خان یونس اور دیر البلح میں فلسطینی شہریوں کے گھروں پر آج (بدھ) صبح اسرائیلی بمباروں نے بمباری کی۔ فلسطینی ذرائع نے "کمال عدوان" اسپتال، جبالیہ کیمپ اور خان یونس شہر پر صیہونی حکومت کے حملوں کے تسلسل کی بھی اطلاع دی۔ ان ذرائع نے اعلان کیا کہ صیہونی قابض فوج کی جانب سے گذشتہ رات کو کمال عدوان اسپتال کی جانب 70 توپوں کے گولے داغے گئے۔

فلسطینی ذرائع نے اسرائیلی بمبار طیاروں کی طرف سے جبالیہ کیمپ پر بمباری کی بھی اطلاع دی، جس میں سو سے زائد خاندان آباد ہیں۔ غزہ پٹی میں رہائشی مکانات پر صیہونی حکومت کے فضائی حملوں میں دس سے زائد دیگر شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ تازہ ترین شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو الاقصیٰ طوفانی آپریشن کے آغاز سے لے کر منگل 5 دسمبر تک صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کی وجہ سے غزہ کے 16 ہزار 248 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کے اسپتال کے ذرائع نے بھی اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں قابض افواج کے خطرے کے پیش نظر غزہ کے شمال کو تنہا چھوڑ کر جنوب کی طرف چلی گئی ہیں۔

صیہونی حکومت کا غزہ کے خلاف جنگ میں اپنے منصوبے کو تبدیل کرنے اور اس پٹی کے جنوب میں جنونی حملے شروع کرنے کا ایک اہم ترین مقصد خان یونس شہر پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ ایک شہر جس کا نام حماس اور قسام سے جڑا ہوا ہے۔ میدان جنگ کو شمال سے جنوب کی طرف تبدیل کرکے صیہونی حکومت کئی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے: سب سے پہلے، شمال میں پیشرفت کے تعطل پر قابو پانا اور میڈیا کی توجہ جنوب میں پیشرفت پر مرکوز کرنا ہے۔ دوسرا ہدف حماس اور قسام کے اہم شہروں میں سے ایک کے طور پر خان یونس تک پہنچنا اور آخری اور تیسرا ہدف یہ ہے کہ صہیونی غزہ مین حماس کے خلاف عوام کے سماجی دباؤ کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ صیہونی حکومت انسانی آفات اور نقصانات میں اضافہ کرکے نیز بم دھماکوں اور حملوں سے اسلامی مزاحمت کے خلاف عوام کو حماس وغیرہ کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں۔

تاہم جیسا کہ قیدیوں کے تبادلے کے دوران دیکھا گیا، ہمہ گیر حملوں اور وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کے باوجود نہ صرف حماس اور مزاحمت کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس اسے استحکام حاصل ہوا ہے۔ ان حالات میں  فلسطینیوں کی قومی یکجہتی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میدانی منظر نامے میں موصول ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی فورسز نے غزہ کے جنوب میں قابضین کی پیش قدمی کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ کھڑی کر دی ہے، جس نے خان یونس کی طرف صیہونی افواج کی پیش قدمی کو بری طرح سست کر دیا ہے۔

فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کا عسکری ونگ سرایا القدس گذشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فوج کی گاڑیوں اور ساز و سامان کو تباہ کرنے کے علاوہ 9 دیگر اسرائیلی افسروں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس طرح طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے اب تک ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 408 افسروں اور سپاہیوں تک پہنچ گئی ہے۔ صیہونی تجزیہ نگاروں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غزہ کے علاقے شجاعیہ میں متوقع سخت لڑائی کی خبر دی ہے۔ صیہونی حکومت کے چینل 12 کے تجزیہ کار "ایہود بن ہیمو" نے تاکید کی ہے کہ جو کوئی بھی "السنوار" اور اس کے ساتھی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا سوچ رہا ہے، وہ کسی دوسری دنیا میں رہ رہا ہے اور اس کی یہ خواہش وہم و خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسری جانب فلسطین سے باہر بھی صیہونی حکومت کے خلاف آئے روز نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق شام کے صوبہ درعا کے مغربی مضافاتی علاقوں سے مزاحمتی گروہوں نے مقبوضہ علاقے کی سرحدوں کے قریب حملہ کیا ہے۔ مزاحمتی گروہوں نے صیہونی حکومت کے ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کیا اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میزائل حملے کی شدت حالیہ برسوں میں بے مثال ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے اتحاد کا ڈراؤنا خواب وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ صیہونیوں کی شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا

تحریر: احمد کاظم زادہ

 رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے الاقصی طوفان آپریشن کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ اقدام نے مغربی تہذیب و تمدن کی ساکھ برباد کردی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسینہ امام خمینی (رہ) میں ملک بھر سے آئے ہوئے عوامی رضاکار فورس بسیج کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ بسیج امام کی ایک قیمتی یادگار ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن اگرچہ صیہونی حکومت کے خلاف ہے، لیکن یہ ڈی امریکنائزیشن ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ آپریشن طوفان الاقصی نے خطے میں امریکی پالیسیوں کا شیڈول درھم برھم کردیا ہے اور انشاء اللہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ شیڈول ہیمشہ کے لیے نابود ہوجائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ اقدام کے نتیجے میں نہ صرف خود صیہونی حکومت کی ساکھ بلکہ امریکہ کی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس (صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات ) نے نہ صرف مشہور یورپی ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی ساکھ بھی برباد کردی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ مغرب کی تہذیب و تمدن ایسی ہے کہ جب وہ (اسرائيل) فاسفورس بموں سے 5 ہزار بچوں کو شہید کرتا ہے تو ایک مخصوص مغربی ملک کی حکومت کہتی ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے۔ کیا یہ اپنا دفاع ہے؟ مغربی ثقافت یہ ہے؛ اس معاملے میں مغربی ثقافت کی آبرو برباد ہوگئی ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں بعض لوگ خطے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کے نظریات کی بات کرتے ہوئے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ایران کہتا ہے کہ یہودیوں اور صیہونیوں کو سمندر میں پھینک دیا جائے، آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں یہ بات بعض عرب کہا کرتے تھے لیکن ہم نے یہ بات کبھی نہیں کہی، ہم کسی کو سمندر میں پھیکنے کے قائل نہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح کیا کہ ہم کہتے ہیں کہ اصل رائے فلسطینی عوام کی رائے ہے اور فلسطینی عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت وہاں (آکر آباد ہونے والے) لوگوں کے بارے میں فیصلے کرے گی۔ اب ممکن ہے کہ یہ (فلسطینی عوام کی منتخب) حکومت دنیا کے دیگر ملکوں سے آنے والے تمام لوگوں کو یہاں رہنے کی اجازت دے دے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ لبنان کے معاملے میں امریکیوں نے کہا تھا کہ وہ ایک "نئے مشرق وسطیٰ" کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ جو مغربی ایشیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خطے کو، جسے انہوں نے مشرق وسطیٰ کا نام دیا، اسے امریکہ کے ناجائز اہداف اور مفادات کی بنیاد پر، نئے جغرافیاسی سیاسی سیٹ میں تبدیل کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کہ یقیناً وہ جو چاہتے تھے وہ نہیں ہوا، وہ اپنے نئے منصوبے کے تحت حزب اللہ کو تباہ کرنا چاہتے تھے، لیکن حزب اللہ 10 گنا مضبوط ہو گئی۔ بعد ازاں انہوں نے عراق کو نگلنے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکے، پھر وہ شام پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی پراکسیوں یعنی داعش اور جبہۃ النصرہ کو شامی حکومت کے گلے ڈال دیا ، 10 سال تک ان کی (پراکسیوں) مسلسل مدد کرتے رہے اور پیسہ اور وسائل فراہم کرتے رہے لیکن وہ ناکام رہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نیا مشرق وسطی جو وہ بنانا چاہتے تھے وہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ اس مشرق وسطیٰ کے اجزاء میں سے ایک یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین کو غاصب حکومت کے حق میں ختم کیا جائے اور فلسطین نام کی کوئی چیز بھی باقی نہ رہے  اور دو ریاستی حل جسے خود انہوں نے پاس کیا تھا کہ اس پر عملدآمد نہیں کیا۔