سلیمانی

سلیمانی

مغربی ممالک کی اسلام مخالف پالیسی کے تسلسل میں یورپی یونین کے قوانین سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے اس یونین کے رکن ممالک میں ملازمین کے لیے حجاب پر پابندی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ یورپی یونین کے قانون سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین اتھارٹی یورپین کورٹ آف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک اپنے ملازمین کو ایسے لباس پہننے سے منع کرسکتے ہیں، جو مذہبی عقائد کی عکاسی کرتے ہوں۔ یہ حکم بیلجیئم کی ایک خاتون کے دعویٰ کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے آجر نے اسے یہ کہہ کر اس کی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ کام پر حجاب نہیں پہن سکتی۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں یورپی ممالک میں اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور فرانس سمیت بہت سے یورپی ممالک میں بہت سے مسلمانوں خصوصاً خواتین پر نہ صرف دباؤ ڈالا گیا بلکہ ہراساں کرکے ان کے مقدسات کی توہین کی گئی۔ البتہ حالیہ مہینوں میں اس عمل میں  زیادہ تیزی آئی ہے۔

درحقیقت حالیہ مہینوں میں مغربی ممالک نے مختلف قوانین منظور کرکے اپنی اسلام مخالف پالیسیوں کو باضابطہ طور پر قانونی شکل دی ہے۔ اس تناظر میں ہم فرانس کے سرکاری سکولوں میں مسلم لڑکیوں کے عبایا پہننے پر پابندی کے قانون کی منظوری اور سویڈن میں قرآن پاک کو جلانے کی اجازت کے اجراء کا ذکر کرسکتے ہیں۔ دریں اثناء، یورپی ممالک نے اسلام مخالف پالیسیوں کو اپناتے ہوئے اس میں شدت پیدا کی ہے، جالانکہ یہ ممالک کئی دہائیوں سے آزادی اور مختلف عقائد اور مذاہب کے احترام کے دعوے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان ممالک نے بہت سے معاملات میں دوسرے ممالک کو آزادی کی خلاف ورزی کرنے اور انسانوں کا احترام نہ کرنے کی مذمت بھی کی ہے اور ان ممالک کے خلاف اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

مغربی ممالک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ حجاب کا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک کے حکمران سرکاری طور پر حجاب اور مسلم مذہبی علامات کو مختلف وجوہات کی بنا پر ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ وہ حجاب پہننے کو سیکولر قوانین کی خلاف قرار دیتے ہیں۔ شائع شدہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ فرانس مسلمانوں، خاص طور پر حجاب پہننے والی مسلم خواتین کے خلاف انتہائی نسل پرستانہ سلوک کر رہا ہے۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے، جیسا کہ جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین کے "مذہبی علامات" پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ہنگری میں، مسلم خواتین پر کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم خواتین کے خلاف زبانی بدسلوکی کا سلسلہ جاری ہے اور ان لوگوں سے شدید نفرت کی ایک وجہ ان کا غیر ملکی ہونا بھی ہے۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے حال ہی میں اس حوالے سے کہا: "مسلمانوں کے خلاف نفرت اور صنفی عدم مساوات ناقابل برداشت ہے۔ مسلم خواتین کے خلاف تین حوالوں سے مثلاً رنگ، نسل اور عقیدہ، کے حوالے سے متعصبانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" اب یورپی عدالت انصاف نے اسلام دشمنی اور مسلمانوں پر دباؤ بڑھانے کی سمت میں ایک اور قدم اٹھایا ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 9 میں کہا گیا ہے: "ہر کسی کو سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے اور اس میں اظہار رائے سمیت مذہب، عبادت، تعلیم اور کوئی بھی عقیدہ رکھنے کی آزادی شامل ہے۔"

عدالتِ انصاف نے عملی طور پر یورپی ممالک کو اجازت دی ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کے انتخاب کی آزادی سے محروم کر دیں اور ان کی ملازمت اور جاب کرنے کی پوزیشن کو خطرے میں ڈالیں۔ مغربی ممالک کے قانونی ادارے مختلف جواز اور تاویلات کے ساتھ مسلم خواتین بالخصوص ان کے لباس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، حالانکہ حجاب صرف ایک مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ مسلم خواتین کی شناخت کا بنیادی حصہ بھی ہے۔ درحقیقت مغربی حکام یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو ان کی جاب اور سماجی حیثیت کو نقصان پہنچائیں۔ جرمنی کی اسلامی کونسل کے سربراہ برہان کاسیجی نے کہا ہے کہ ہم حکام سے مسلمانوں کی حفاظت کی توقع رکھتے ہی

تحریر: اتوسا دیناریان

اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیؐ کراچی کے تحت "وحدت امت و یکجہتی فلسطین کانفرنس" کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ کانفرنس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام، مذہبی جماعتوں کے سربراہان، مشائخ عظام و اکابرین شریک ہوئے۔ شرکاء کانفرنس میں مولانا شکیل اختر جدون جمیعت علماء اسلام ایبٹ آباد، پروفیسر عبدالغفور راشد (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)، شیخ الحدیث مفتی مولانا محمد زبیر فہیم (صدر اتحاد المدارس العربیہ پاکستان)، قاری محمد یعقوب شیخ (مرکزی رہنما تحریک حرمت رسول)، مفتی علامہ سید قوی اللہ شاہ ترمذی، ڈاکٹر سید مہدی رضا شاہ سبزواری (سجادہ نشین آستانہ عالیہ شہباز قلندر سہیون شریف)، کراچی میں متعین ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان، پیر سید عثمان شاہ راشدی (فرزند صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا)، پیر سید محمد فرحان، علامہ ناظرعباس تقوی (ایڈیشنل سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان)، پروفیسر شمس الدین شگری، مفتی محمود الحسینی(رہنما جمعیت علماء اسلام پاکستان)، پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی، مفتی محمود مکرم (ناظم سندھ منہاج القرآن انٹرنیشنل)، مسلم پرویز، ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، اسد اللہ بھٹو (مرکزی رہنما جماعت اسلامی)، مولانا منظر الحق تھانوی، مولانا ازہر شاہ ہمدانی، علامہ نثار قلندری (صدر مجلس ذاکرین امامیہ)، ایڈوکیٹ عامر علی، مفتی محمد داؤد (بین المذاہب ہم آہنگی فورم)، علامہ بدر الحسنین (عابدیہ مشن)، علامہ ضیغم عباس، مفتی رحمن و دیگر شامل تھے۔

علامہ سید جواد نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ قرآن مجید کے نصائح اور فرامین، کفار اور دشمنوں کی صفوں کی حد بندی کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو آپس میں محبت، رحم دلی اور شفقت سے پیش آنے کی وصیت کرتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ مسلمان حبل اللہ کے سائے میں اتحاد کے مرکز پر قائم رہیں، پیغمبر اسلام (ص)، اہلبیت اطہار علیہم السلام اور آپکے اصحابؓ کی سیرت بھی اسی راہ و روش پر دلیل ہے، چنانچہ آغاز تاریخ سے ہی یہ بات واضح ہے کہ سیاست الٰہی توحید کے ستون پر استوار ہے اور طاغوتی سیاست کی عمارت شرک، تفرقہ جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی ہے، ہماری بقاء کی بنیاد توحید اور قرآن کے محور پر اتحاد ہے۔ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے فیصلہ کن وار سے زمیں بوس ہوجانیوالی قابض و غاصب صیہونی حکومت، مجاہدین سے پڑنے والی کاری ضرب کا انتقام غزہ کے عوام، عورتوں اور معصوم بچوں سے لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غاصب صیہونیوں کو انکے جرائم میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر شرپسندوں کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل ہے، سامراجی طاقتیں، مادی و عسکری وسائل اور ذرائع ابلاغ کی وسیع تبلیغات کے باوجود حماس کی اس عظیم مزاحمت کے مقابلے میں مغلوب ہوکر رہ گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کے ہاتھ کہنیوں تک غزہ کے بچوں، عورتوں اور دیگر شہداء کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، ان جرائم پر تمام اسلامی سرزمینوں اور حتی امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے دل کانپ اٹھے ہیں، یورپ میں آزادی اور انسانی حقوق کے دعوے کرنیوالوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے اقدامات پر قدغن لگا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنایت کو روکنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ مسلمان ممالک کے عوام، بے حس، مصلحت پسند اور خیانت کار حکمرانوں کی منتظر نہ رہیں اور فلسطین، کشمیر اور تمام اسلامی سرزمینوں کی آزادی کیلئے ان حکمرانوں سے اپنے راستے الگ کرلیں جو غاصب حکومت کیساتھ سفارتی، عسکری، معاشی روابط رکھتے ہوئے ان جرائم پر فقط مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں لیکن مسلمان سرزمینوں کے تمام وسائل اس استکباری سیاست کیلئے وقف کر رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالم اسلام کے پاس اپنے تحفظ کیلئے واحد راستہ اسلام کے محور پر اتحاد قائم کرنا ہے اور غاصب ریاست اسرائیل جو کسی کی سوچ اور تخیل سے بعید جرائم کا ارتکاب کرتی ہے کے مقابلے کا واحد ذریعہ پرعزم اور مسلح مقابلہ ہے۔ علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ امت کے پاس دفاع کا واحد راستہ اسلام کے محور پر اتحاد اور امریکی اہداف کا انکار ہے۔
 
 
 

شیعہ نیوز: لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب‌ الله” کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ "سید هاشم صفی الدین” نے کہا کہ حزب‌ الله وہ عنصر ہے جو لبنان کو دشمن کی جارحیت سے بچاتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار حزب‌ الله کے شہید "عباس محمد رعد” کی رسم قل سے خطاب میں کیا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ غزہ میں امریکی و صیہونی منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو پھر اس پٹی سے لوگوں کی جبری نقل مکانی حتمی تھی۔ امریکہ و اسرائیل اب بھی غزہ کا اسٹرکچر تبدیل کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ انہوں نے حزب‌ الله کی طاقت اور اسلحے کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک مقاومتی اسلحہ اسرائیل کو درست طریقے سے نشانہ بنا سکتا ہے تب تک لبنان صیہونی جارحیت سے محفوظ ہے۔ غزہ کی تباہی اور قتل و غارت گری نے لبنان میں مقاومت کے مسلح ہونے کی اہمیت کو ناقدین پر واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ 50 روز میں صیہونی ٹھکانوں پر حزب‌ الله کے حملوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی سرحد پر مقاومت کے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اب فلسطین میں 20,000 شہداء و غزہ کی تباہی کے بعد مقاومت لبنان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

حزب‌ الله کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ نے کہا کہ غزہ میں ہونے والا جانی و مالی نقصان مقاومت کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا منظر نامہ کسی چیز کی بشارت دے رہا ہے، قربانی اور جانی نقصان بہت زیادہ ہے لیکن ثابت ہو گیا ہے کہ اس خطے کی عوام کے پاس مقاومت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ شہیداء کی اس تقریب میں حزب‌ الله کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم” بھی موجود تھے۔ اس موقع پر شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کے لئے مجبور ہو گیا تھا۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ اگر مقاومت ثابت قدم نہ رہتی تو ہرگز قیدیوں کو تبادلہ ممکن نہ ہوتا اور نہ حماس کی شرائط پر یہ معاہدہ لکھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ محاذ کے منظر نامے پر نگاہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مقاومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اس کی طاقت میں کوئی کمی آئی ہے۔ عراق و یمن کے علاوہ ہمیں لبنان میں بھی دشمن کا سامنا ہے اور ہماری یہی بنیادی کوششیں رنگ لے کر آئیں گی۔

شیعہ نیوز:مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کی جانب سے رہا کی گئی اسرائیلی خاتون دنیال اور ان کی ننھی بیٹی ایمیلیا کا خط سامنے آگیا۔ مغربی طاقتوں کی ایما پر اسرائیل نے محصور غزہ پر بمباری کی اور یہ فضائی، بری اور بحری حملے 44 روز سے زائد جاری رہے۔ اسرائیلی حملوں میں 14 ہزار 500 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کئی روز کی بمباری کے بعد 3 روز قبل اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور آج اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا آخری روز تھا، لیکن عارضی جنگ بندی میں مزید 2 دن کی توسیع کردی گئی ہے۔

اس دوران حماس نے اب تک 39 اسرائیلی شہریوں سمیت 58 قیدیوں کو رہا کیا ہے، جبکہ اسرائیل کی جانب سے 117 قیدی فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا گیا۔ حماس کی جانب سے رہا کی گئی اسرائیلی ماں بیٹی کا شکریہ کا خط سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیلی قیدی خاتون دنیال نے دوران قید القسام بریگیڈز کے جنگجوؤں کے حسن سلوک کی تعریف کی ہے۔ عبرانی زبان میں تحریر خط میں خاتون نے لکھا کہ "مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے، لیکن میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا مظاہرہ کیا۔”

اسرائیلی قیدی خاتون نے مجاہدین کیلئے لکھا کہ آپ نے اسے والدین کی طرح سلوک کیا، اسے اپنے کمروں میں بلاتے اور اسے یہ احساس دلایا کہ آپ سب اس کے صرف دوست نہیں بلکہ محبت کرنے والے ہیں، آپ کی شکر گزار ہوں، اس سب کیلئے جب آپ گھنٹوں دیکھ بھال کرتے۔ خط کے متن کے مطابق صبر کرنے اور ساتھ ساتھ مٹھائیوں، پھلوں اور جو کچھ بھی میسر تھا، اس سے ہمیں نوازنے کیلئے شکریہ، بھل وہ دستیاب نہ بھی ہوں، بچے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، لیکن آپ اور دوسرے ملنے والے اچھے لوگوں کا شکریہ۔

قیدی خان نے مزید لکھا کہ "میری بیٹی خود کو غزہ میں ملکہ سمجھتی تھی اور سب کی توجہ کا مرکز تھی، اس دوران مختلف عہدوں پر موجود لوگوں سے واسطہ رہا اور ان سب نے ہم سے محبت، شفقت اور نرمی کا برتاؤ کیا، میں ہمیشہ ان کی مشکور رہوں گی، کیونکہ ہم یہاں سے کوئی دکھ لیکر نہیں جا رہے۔ اسرائیلی خاتون کے خط کے متن کے مطابق میں سب کو آپ کے حسن سلوک کا بتاؤں گی، جو غزہ میں مشکل حالات اور نقصان کے باوجود ہم سے کیا۔ اسرائیلی خاتون نے خط کے آخر میں مجاہدین اور ان کے اہلخانہ کی صحت اور تندرستی کیلئے دعا کی۔

خبروں کے مطابق فلسطینیوں کی بڑی تعداد رہا ہونے والی فلسطینی خواتین اور بچوں کے استقبال کے لئے سڑکوں پر جمع ہوئے تھے۔ یہ لوگ صیہونی جیلوں سے رہا ہوکر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ گئے ہیں۔

فلسطین میں واقع بیوتنیا کالونی بھی ان علاقوں میں سے ہے جہاں بہت سے فلسطینی جمع ہوئے تاکہ رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کا استقبال کریں ۔

یاد رہے فلسطین میں قیدیوں کے امور کے ذمہ دار ادارے نے جمعہ کی رات تصدیق کی ہے کہ صیہونی فوج نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق فلسطین میں قیدیوں کے امور کے ذمہ دار ادارے نے ایک بیان جاری کرکے بتایا ہے کہ یہ فلسطینی قیدیوں کا  پہلا  گروپ ہے جنہیں جنگ بندی کے بعد رہا کیا گيا ہے۔

ذرائع کے مطابق ان قیدیوں میں 24 خواتین اور 15 بچے ہیں۔

الجزیرہ نے بھی بتایا ہے کہ اسرائیلی جیل کے حکام نے ان قیدیوں کی رہائي کے مقدمات فراہم کئے۔

اس سے پہلے ان 39 لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا گيا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں عوفر جیل پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

ان قیدیوں کو ریڈ کراس سوسائٹی کے حوالے کیا گیا تھا ۔

ارنا نے الجزیرہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ فلسطینی کی عظیم قوم نے اپنی استقامت سے رزمیہ داستان رقم کردی اور ہمارے مجاہدین نے دشمن  پر کاری وار لگائے۔  

انھوں نے کہا کہ ہم نے عزت اور وقار کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اس کا ارادہ توڑ دیا اور اس کے منصوبوں کو ناکام بنادیا۔

 اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ شہدا آزادی اور خود مختاری کی قیمت ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ دشمن نے شرط لگائی تھی کہ جنگی قیدیوں کو اسلحے سے ، قتل و غارتگری اور نسل کشی کے ذریعے واپس لے گا لیکن استقامت کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگیا اور ہماری بہادر قوم کا عزم محکم  جنگ بندی پر منتج ہوا۔    

 حماس کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے اپنے قطری اور مصری بھائیوں کی نگرانی میں سخت مذاکرات شروع کئے اور ذمہ داری  اور توازن کے ساتھ انہیں آگے بڑھایا۔

انھوں نے کہا کہ ہم واضح  کررہے ہیں کہ جب تک دشمن سمجھوتے کا پابند رہے گا ہم بھی اس معاہدے کی پابندی کریں گے۔

اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ " ہم قطر اور مصر کی قدردانی کرتے ہیں، ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور فلسطینی قوم کے برحق حقوق کے حصول کے لئے بین الاقوامی کوششیں جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں۔

انھوں نے فلسطینی قوم کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام  غزہ، مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین کے سبھی علاقوں میں جنگ آزادی میں سرگرم ہیں۔

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے  لبنان  ، یمن اور عراق کے استقامتی گروہوں کا بھی شکریہ ادا  کیا اور ان کی قدردانی کی ۔

 

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" ثَلَاثَۃ مِنَ الذُّنُوب تَعَجَّلُ عُقُوبَتُھٰا وَ لٰاتوَخِّرُ اِلی الٰآخِرَۃِ عُقُوقُ الوَالِدَین وَ البَغیِ عَلیٰ النَّاسِ وَ کُفرُ الِاحسٰان"(۱)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ھیں:تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا ھی میں فوراَ مل جاتی ھے خدا اس کوقیامت پر نھیں چھوڑتا :

۱۔والدین کی نا فرمانی اور ان کو اذیت دینا ۔

۲۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنا ۔

۳۔ لوگوں کے احسان اور نیکیوں کو بھلا دینا۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" فِی رِضیَ اللّٰہِ فِی رِضیَ الوٰالِدَینِ وَ سَخَطُہُ فِی سَخَطِھِمٰا "(۲)

ماں باپ کی خوشنودی میں خداوند عالم کی خشنودی ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" نَظَرُ الوَلَدُ اِلیٰ وٰالِدَیہِ حُبّاً لَھُمٰا عِبٰادَۃ"(۳)

پیغمبر اکرم (ص) فرمارتے ھیں:فرزند کا محبت آمیز نگاھوں سے ماں باپ کو دیکھنا عبادت ہے۔

عَنِ البٰاقِرِ عَلَیہِ السَّلاٰم قٰالَ:" سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ مَن اَعظَمُ حَقّاً عَلَی الرَّجُلِ؟ قٰالَ: وٰالِدٰاہُ"(۴)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کہ رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: کس کا حق انسان کی گردن پر سب سے زیادہ ہے؟ فرمایا: ماں ، باپ کا ۔

قٰالَ الصّٰادِقُ عَلَیہِ السَّلاٰم: "بَرُّوا آبٰائَکُم تَبَرَّکُم اَبنٰائُکُم"(۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمھارے فرزند بھی اس اچھی سنت پر عمل کرتے ھووئے تمھارے ساتھ نیکی کریں۔

قٰالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم:" ثَلاٰثَۃ  لَیسَ لِاَحَدٍ فِیھِنَّ رُخصَۃ : الوَفٰائُ لَمُسلِمٍ کٰانَ اَو کٰافِرٍ، وَ بِرُّ الوٰالِدَینِ مُسلِمَینِ کٰانٰا اَو کٰافِرَینِ وَ اَدٰائُ الاَمٰانَۃِ لِمُسلِمٍ کٰانَ اَو کٰافِرٍ"(۶)

رسول خدا (ص)نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی بھی صورت میں انحراف جائز نھیں ہے:

۱۔ عھد و پیمان پورا کرنا چاھئے کافر کے ساتھ ھو یا مسلمان کے ساتھ۔

۲۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا چاھئے مسلمان ھوں یا کافر۔

۳۔ امانت ادا کرنا چاھئے مسلمان کی ھو یا کافر کی۔

قال الامام صادق علیہ السلام :"عُقُوقُ الوٰالِدَینِ مِنَ الکَبٰائِرِ"

حضرت امام صادق علیہ السلام فرما تے ھیں: ماں باپ کو اذیت پھچاناگناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتاھے۔

قال الامام علی علیہ السلام :"بِرُّ الوٰالِدَینِ اَکبَرُ فَرِیضَۃٍ"

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا سب سے بڑا فریضہ ہے۔

قال الامام علی علیہ السلام :"اَلجَنَّۃُ تَحتَ اَقدٰامِ الاُمَّھٰات"

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جنت تمھاری ماؤں کے پیروں کے نیچے ہے۔

حوالہ:

۱۔امالی شیخ ظوسی /ج ۲/ص۱۳۔

۲۔ مستدرک ،ج۲،ص۷۲۶۔

۳۔تحف العقول،ص۴۶۔

۴۔مشکوٰۃ الانوار،ص۸۱۵۔

۵۔بحار،ج۱۷،ص۴۸۱۔

۶۔مجموعہ والرام،ج۲،ص۱۲۱۔

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 
 
 
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔