سلیمانی

سلیمانی

 حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں غزہ پر صیہونی حملوں اور وہاں عام شہریوں کے قتل عام کی امریکہ اور کچھ مغربی ملکوں کی جانب سے یک طرفہ حمایت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مزاحمتی محاذ بہترین پوزیشن میں ہے اور ہر طرح کی صورت حال کے لئے تیار ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کی صبح امام علی علیہ السلام آرمی آفیسرز یونیورسٹی میں مسلح فورسز کے کیڈٹس کی گریجوئیشن تقریب سے خطاب میں ان فورسز کو سیکورٹی، عزت اور قومی تشخص کا قلعہ بتایا اور فلسطینی جوانوں کے حالیہ معرکے میں صیہونی حکومت کو ہونے والی ناقابل تلافی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تباہ کن طوفان کے وجود میں آنے کا سبب، فلسطینی قوم کے خلاف غاصب اور جعلی حکومت کے لگاتار مظالم، جرائم اور سفاکیت ہے اور یہ حکومت جھوٹ بول کر اور خود کو مظلوم ظاہر کر کے غزہ پر حملے اور غزہ کے لوگوں کے قتل عام میں اپنے سفاک عفریتی چہرے کو نہیں چھپا سکتی اور ہرزہ سرائي کر کے فلسطینی جوانوں کی شجاعت اور ان کی ذہانت سے بھری منصوبہ بندی کو غیر فلسطینیوں کا کام نہیں بتا سکتی۔ 

 

انھوں نے فلسطین میں حالیہ عدیم المثال واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس اہم سیاسی و عسکری مسئلے میں ملک کے حکام کے موقف کو صحیح اور اچھا قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے میں پوری دنیا کی جانب سے صیہونی حکومت کی شکست کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور فوجی و انٹیلیجنس پہلوؤں سے یہ شکست، ناقابل تلافی اور ایک تباہ کن زلزلہ ہے اور بہت بعید ہے کہ غاصب حکومت مغرب والوں کی تمام تر مدد کے باوجود، اس واقعے سے اپنے اقتدار کی بنیادوں پر لگنے والی کاری ضربوں کا مداوا کر پائے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ صیہونی حکومت سنیچر 7 اکتوبر کو انجام پانے والے فلسطینی جوانوں کے شجاعانہ کارنامے کے بعد پچھلی صیہونی حکومت نہیں رہ گئي ہے اور اس بڑی بلا کا سبب خود صیہونیوں کی کارکردگي ہے کیونکہ جب آپ درندگي اور سفاکیت کی حد پار کر جاتے ہیں تو پھر آپ کو طوفان کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ انھوں نے فلسطینی مجاہدین کے شجاعانہ و فداکارانہ اقدام کو، غاصبوں کے برسوں سے لگاتار جاری جرائم اور حالیہ مہینوں میں ان میں شدت کا جواب بتایا اور کہا کہ اس معاملے میں قصوروار، غاصب حکومت کے موجودہ حکمراں ہیں جنھوں نے مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف ہر ممکن درندگي اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

 

انھوں نے غاصب حکومت کی شر انگیزیوں اور خباثت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں کسی بھی مسلمان قوم کو صیہونی حکومت جتنے کسی دوسرے بے حیا اور بے رحم دشمن کا سامنا نہیں رہا ہے اور فلسطینی قوم جتنا کسی بھی قوم نے دباؤ، محاصرے اور ہر طرح کے وسائل کی کمی کا سامنا نہیں کیا ہے، اسی کے ساتھ امریکا اور برطانیہ نے بھی اس جعلی حکومت جتنی کسی بھی دوسری ظالم حکومت کی حمایت نہیں کی ہے۔

 

مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر نے کہا کہ فلسطینی بچوں، عورتوں، مردوں اور سن رسیدہ افراد کا قتل عام، نمازیوں کو پیروں سے روندنا اور صیہونی کالونیوں میں رہنے والے مسلح افراد کو فلسطینی عوام پر حملے کی کھلی چھوٹ دینا، صیہونی حکومت کے جرائم کے چند نمونے ہیں اور کیا فلسطین کی غیور اور کئي ہزار سالہ قوم کے سامنے ان سارے مظالم اور جرائم کے مقابلے میں، طوفان کھڑا کر دینے کے علاوہ کوئي اور راستہ تھا؟

 

انھوں نے خبیث صیہونی حکومت کی جانب سے اپنے آپ کو مظلوم دکھانے کی کوشش اور دنیا کے سامراجی میڈیا کی جانب سے اس بات کو رائے عامہ میں پھیلانے کے لیے کی جا رہی مدد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ، یہ مظلوم نمائی سو فیصدی حقیقت کے برخلاف اور جھوٹ ہے اور کوئي بھی اس سفاک عفریت کو مظلوم ظاہر نہیں کر سکتا۔

 

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے مظلوم نمائي کا مقصد، غزہ پر جاری اس کے حملوں اور اس علاقے کے مظلوم عوام کے قتل عام کا جواز پیش کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مسئلے میں بھی جعلی حکومت اور اس کے حامیوں کے اندازے اور تخمینے غلط ہیں اور صیہونی حکومت کے حکام اور فیصلہ کرنے والوں اور ان کے حامیوں کو جان لینا چاہیے کہ اس طرح کے کام، ان پر زیادہ بڑی بلا نازل کریں گے اور فلسطینی قوم زیادہ ٹھوس عزم کے ساتھ ان جرائم کے ردعمل میں ان کے کریہہ چہرے پر زیادہ زوردار تھپڑ رسید کرے گي۔

 

انھوں نے حالیہ واقعات میں ایران سمیت غیر فلسطینیوں کا ہاتھ ہونے پر مبنی بعض صیہونی عہدیداروں اور ان کے حامیوں کی ہرزہ سرائي کے بارے میں کہا کہ ہم فلسطینی جوانوں اور ذہین فلسطینی منصوبہ سازوں کی پیشانی اور ان کے بازو چومتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں لیکن یہ ہرزہ سرائي بے بنیاد اور یہ اندازے کی سخت غلطی ہے اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کی یہ ضرب، غیر فلسطینیوں کی جانب سے ہے، انھوں نے عظیم فلسطینی قوم کو نہیں پہچانا ہے اور اس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونیوں کے جرائم کے مقابلے میں عالم اسلام کے ردعمل کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یقینا پورے عالم اسلام کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی قوم کی حمایت کرے لیکن یہ زبردست کارنامہ، فلسطین کے اسمارٹ منصوبہ سازوں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے والے جوانوں کا کام تھا اور ان شاء اللہ یہ عظیم کارنامہ، فلسطینیوں کی نجات کی راہ میں ایک بڑا قدم ثابت ہوگا۔

 

انھوں نے اسی طرح اس پروگرام میں اپنے خطاب کے آغاز میں مسلح فورسز کے کام کو ایک بڑا افتخار اور ایران کی عزیز سرزمین کا انتظام چلانے میں سب سے اہم اور حیاتی کاموں میں سے ایک بتایا۔ انھوں نے سیکورٹی فورسز کو سیکورٹی، عزت اور قومی تشخص کا قلعہ بتایا اور کہا کہ قومی سلامتی، ان تمام اہم سافٹ وئيرز کا بنیادی ڈھانچہ ہے جن کا ملک کی پیشرفت میں کردار ہے، چنانچہ اگر سیکورٹی نہ ہو توکچھ بھی نہیں ہوگا۔

 

 

 

 

 -اسلامی جمہوریہ ایران حکومت نے فلسطینی محاذ استقامت کے الاقصی آپریشن کو غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کا دنداں شکن جواب قرار دیا ہے۔

 

   ارنا کی رپورٹ کے مطابق حکومت ایران کے ترجمان علی بہادری جہرمی نے فلسطینی استقامتی محاذ کے الاقصی جنگی آپریشن کو صیہونی حکومت کے جرائم کا منھو توڑ جواب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس آپریشن نے ثابت کردیا ہے کہ بچوں کی قاتل صیہونی حکومت آج ہمیشہ سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے اور فلسطینی نوجوانوں کو بالادستی حاصل ہے۔

 

 یاد رہے کہ فلسطین کے اسلامی استقامتی محاذ نے سنیچر کی صبح غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ہمہ گیر زمینی، سمندری اور فضائي حملے شروع کئے اور تل ابیب سمیت، مقبوضہ فلسطین کے سبھی شہروں اور فوجی مراکز کو حملوں کا نشانہ بنایا ۔

 

 حماس کے فوجی بازو القسام بریگیڈ نے طوفان الاقصی کے نام سے ہمہ گیر فوجی آپریشن شروع کیا اور جہاد اسلامی فلسطین کے فوجی بازو سرایا القدس نے اس آپریشن میں اپنی بھرپور شرکت کا اعلان کیا ۔

 

 فلسطینی مجاہدین کے اس آپریشن میں آخری اطلاع ملنے تک ڈیڑھ سو سے زائد صیہونیوں کی ہلاکت اور تقریبا ساڑھے پانچ سو کے زخمی ہونے کی صیہونی حکومت کے ذرائع تصدیق کرچکے تھے۔

 

فلسطینی استقامتی محاذ کے سپاہیوں نے اسی کے ساتھ درجنوں صیہونی فوجیوں کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔  

 

 

 

 

ارنا نے سما خبررساں ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ جنگ، الاقصی، مقدسات اور فلسطینی قیدیوں کی جنگ ہے ۔

 

 حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے ، مجاہد اور بہادر فلسطینی قوم ، عرب اور اسلامی اقوام اوردنیا کے سبھی حریت پسندوں کو مخاطب کرکے اعلان کیا ہے کہ فلسطین کے استقامتی محاذ کے سپاہی ان تاریخی لمحات میں دلیری اور شجاعت کے ساتھ اس جنگی آپریشن میں مصروف ہیں جو مسجدالاقصی، دیگر اسلامی مقدسات اور فلسطینی قیدیوں کے نام پر شروع کیا گیا ہے ۔

 

 انھوں نے کہا ہے کہ اس جنگ کا اصلی محرک، مسجد الاقصی پر صیہونیوں کی جارحیت اور حالیہ دنوں میں اس میں آنے والی وسعت ہے۔   

 

  حماس کے رہنما نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہزاروں جرائم پیشہ صیہونی آبادکاروں اور فاشسٹوں نے قدم گاہ پیغمبراسلام پر یلغار کی اور وہاں اپنی دینی رسومات ادا کیں اور اس اقدام کا مقصد، اس مقدس جگہ پر صیہونیوں کا تسلط ہے ۔

 

  اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ ہمیں اس بارے میں صیہونی حکومت کے مخصوص اہداف کا علم تھا، لیکن اگر پوری دنیا صیہونی دشمن کی اس نیت اور توہین آمیز اقدام پر خاموشی اختیار کرتی ہے توکرے، ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

 

 حماس کے رہنما نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک، پوری امت اسلامیہ، دنیا میں جہاں بھی ہو، مسجدالاقصی کے دفاع کی جںگ کا حصہ بنے گی ۔

 

  انھوں نے کہا کہ ہم دنیا کے سبھی مسلمانوں اور حریت پسندوں سے اس مقدس مرکز (مسجد الاقصی ) کے دفاع کے لئے اس عادلانہ جنگ میں مشارکت کی اپیل کرتے ہیں۔   

 

 اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ اب صرف دیکھنے اور انتظار کرنے کا وقت نہیں ہے اور اسی طرح صرف دلی حمایت کا بھی وقت نہیں ہے بلکہ یہ عمل کا وقت ہے۔

 

  حماس کے رہنما نے کہا ہے کہ دشمن نے کشیدگی اور غزہ کے محاصرے کے لئے منصوبہ بندی کی تھی، اس کے علاوہ دشمن مسلسل غرب اردن پر جارحیت اورغیر قانونی صیہونی کالونیوں کی توسیع میں مصروف تھا اور فلسطینی عوام کو ان کی اپنی سزمین سے نکالنے کی کوشش کررہا تھا ۔

 

   انھوں نے 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونیوں کے جرائم کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ صیہونیوں نے بعض فلسطینیوں کو دس سال سے قیدی بنا رکھا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے سمجھوتوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

 

 اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ ہم نے ان وجوہات کی بنا پر مسجد الاقصی کے دفاع میں اس شرافتمدانہ جنگ کا آغاز کیا ہے اور جیسا کہ ہمارے کمانڈر برادرابو خالد الضیف نے اعلان کیا ہے، اس جنگ کا نام طوفان الاقصی ہے، یہ جنگ غزہ سے شروع ہوئی اور غرب اردن ، اس سے باہر اور ہر اس نقطے تک پہنچے گی جہاں ہماری قوم اور اس کے افراد رہتے ہیں ۔

 

مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مقدسات اور مسلمان فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد فلسطینی مجاہدین نے سنیچر کی صبح سے صیہونیوں کے خلاف ہمہ گیر، زمینی، سمندری اور فضائی جنگ شروع کردی ہے۔

 

رپورٹوں کے مطابق فلسطینی مجاہدین نے ابتدائي بیس منٹ میں مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے مراکز پر پانچ ہزار راکٹ داغے اور استقامتی محاذ کے ڈرون طیاروں نے بھی کئی صیہونی ٹھکانوں پر حملے کئے۔

 

 اس کے ساتھ ہی استقامتی محاذ کے کئی جانبازسپاہی پیرا گلائڈر کے ذریعے مقبوضہ فلسطین میں اتر گئے ۔

 

اس جںگ میں اب تک بہت سے صیہونی ہلاک اور زخمی اور کم سے کم 35 صیہونی فوجی گرفتار کئے جاچکے ہیں

 

 

    صدر مملکت کے پیغام کا متن اس طرح ہے :

 

" ملک کے ماہرین کی مدد سے ایرانی لانچر قاصد کے ذریعے نور-3 سٹیلائٹ کو زمین سے 450 کیلو میٹر کے فاصلے پر مدار میں بھیجے جانے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ دھمکیوں اور پابندیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی کے لئے ملک کے نوجوان سائنس داں کے عزم و ارادے پر کوئي اثر نہيں پڑنے والا ہے ۔ میں اس قومی کامیابی کی، جو " ہم کر سکتے ہيں " کے ہمارے یقین اورخلائی شعبے پر حکومتی توجہ اور اعلی خلائی کونسل کی جانب سے منظور ہونے والے قوانین کا ثمرہ ہے، ایرانی عوام، خلائی صنعت کے محنتی ماہرین، ملک کے خلائي ادارے خاص طور پر پاسداران انقلاب اسلامی فوج کے ماہرین کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مواصلات و آئي ٹی کی وزارت نیز ملک کے خلائي ادارے سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ خلائي شعبے میں ملک کی تیز رفتار ترقی کی راہ پہلے سے زیادہ محنت سے ہموار کریں۔"

پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کے روز ملک کے عہدیداران، ایران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں، وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور مختلف عوامی طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔

 

اس ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ قرآن مجید سے منہ زور طاقتوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب الہی کی بے حرمتی کے لیے وہ سازشیں رچتی ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا اور جابر قوتوں سے مقابلے کا راستہ، اسلامی ملکوں کا اتحاد اور بنیادی مسائل میں واحد لائحۂ عمل اختیار کرنا ہے، کہا کہ صیہونی حکومت سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کی طرح ہے جوکبھی کامیاب نہیں ہوگي کیونکہ فلسطین کی تحریک آج ہمیشہ سے زیادہ پرجوش اور تازہ دم ہے جبکہ غاصب حکومت جانے والی ہے اور وہ جانکنی کی حالت میں ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر اکرم اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت کی عظیم اور نورانی عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم کے درخشاں سورج کا انسانیت کی ہر فرد کی گردن پر حق ہے اور سبھی ان کے مقروض ہیں کیونکہ پیغمبر نے ایک ماہر طبیب کی طرح غربت، جہل، ظلم، امتیازی سلوک، نفسانی خواہشات، بے ایمانی، بے مقصدیت، اخلاقی برائيوں اور سماجی مشکلات جیسے تمام اصل آلام کے علاج کا عملی نسخہ انسان کو عطا کیا ہے۔

 

انھوں نے قرآن مجید کی ایک آيت کا حوالہ دیتے ہوئے پیغمبر کے قرض کی ادائيگي کی راہ، خدا کی راہ میں بھرپور جہاد کرنا بتایا اور کہا کہ جہاد کے معنی صرف ہتھیار سے جہاد نہیں بلکہ جہاد کے مصادیق تمام میدانوں میں ہیں چاہے وہ علم کا میدان ہو، سیاست کا میدان ہو یا معرفت و اخلاق کا میدان ہو اور ان میدانوں میں جہاد کے ذریعے ہم کسی حد تک اس ذات گرامی کا قرضادا کر سکتے ہیں۔

 

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج اسلام سے دشمنی، پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے، اس دشمنی کا ایک نمونہ قرآن مجید کی جاہلانہ بے حرمتی کو بتایا اور کہا کہ ایک جاہل احمق بے حرمتی کرتا ہے اور ایک حکومت اس کی حمایت کرتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ، ظاہری طور پر دکھائي دینے والا اور قرآن کی بے حرمتی کا نہیں ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ اس بے وقوف اور جاہل انسان سے ہمیں کوئي مطلب نہیں ہے جو پس منظر میں موجود عناصر کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو سب سے بڑی سزا اور سزائے موت کا مستحق بنا رہا ہے، بلکہ اصل بات اس طرح کے جرائم اور نفرت انگیز کاموں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی حرکتوں سے قرآن مجید کو کمزور کرنے کے خیال کو ذلت آمیز اور قرآن کے دشمنوں کے بے نقاب ہونے کا سبب بتایا اور کہا کہ قرآن مجید حکمت، معرفت، انسانسازی اور بیداری کی کتاب ہے اور قرآن سے دشمنی درحقیقت ان اعلی اقدار سے دشمنی ہے۔ البتہ قرآن بری طاقتوں کے لیے خطرہ ہے کیونکہ وہ ظلم کی بھی مذمت کرتا ہے اور ظلم و ستم سہنے والے اس انسان کی بھی مذمت کرتا ہے جو ظلم و ستم سہنا گوارا کر لیتا ہے۔

 

انھوں نے اظہار خیال کی آزادی جیسے گھسے پٹے، جھوٹے اور غلط دعووں کی آڑ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کو اس طرح کے دعوے کرنے والوں کی فضیحت کا سبب بتایا اور کہا کہ کیا ان ملکوں میں، جو اظہار خیال کی آزادی کے بہانے قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دیتے ہیں، صیہونی مظاہر پر حملے کی بھی اجازت دی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ واضح اور کون سی زبان کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ، ظالم، مجرم اور دنیا کے لٹیرے صیہونیوں کے پٹھو ہیں؟

 

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ہفتۂ وحدت کی مناسبت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اسلامی ممالک کے حکام اور سیاستدانوں اور عالم اسلام کے مفکرین اور موثر افراد کو اس سوال پر غور کرنے کی دعوت دی کہ اسلامی ممالک کے اتحاد کا دشمن کون ہے، مسلمانوں کا اتحاد کن لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے اور کن لوگوں کو لوٹ مار اور مداخلت سے روک دیتا ہے؟

 

انھوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے علاقے کے اسلامی ممالک کا اتحاد امریکا کی منہ زوری، چوری اور مداخلت کو روک دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج امریکا خطے کے ممالک کو سیاسی اور معاشی چوٹ پہنچاتا ہے، شام کا تیل چراتا ہے، ظالم، وحشی اور خونخوار داعش کی اپنے کیمپوں میں حفاظت کرتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے دوبارہ میدان میں لے آئے، ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے لیکن اگر ہم سبھی متحد ہو جائيں اور ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک بنیادی مسائل میں ایک مشترکہ اور واحد لائحۂ عمل اختیار کریں تو منہ زور 

طاقتیں ان کے داخلی امور اور خارجہ

پالسی میں نہ 

تو مداخلت کر سکتی ہیں اور نہ ایسا

 کرنے کی ہمت کر سکتی ہیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے، ہم کسی کو بھی جنگ اور فوجی اقدام کی ترغیب نہیں دلاتے اور اس سے اجتناب بھی کرتے ہیں بنابریں ایک ساتھ رہنے اور اتحاد کی دعوت، امریکہ کے جنگ بھڑکانے کے اقدامات کو روکنے کے لیے ہے کیونکہ امریکی جنگ بھڑکاتے ہیں اور خطے میں تمام جنگوں کا اصل سبب، غیر ملکی ہاتھ ہے۔

 

انھوں نے خطے کے ایک دوسرے مسئلے یعنی صیہونی حکومت کے لگاتار جاری جرائم کے بارے میں کہا کہ آج یہ حکومت نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران سے بلکہ مصر، شام اور عراق جیسے اپنے اطراف کے تمام ممالک کے خلاف کینے اور غیظ سے بھری ہوئي ہے۔ انھوں نے اس کینے اور غصے کا سبب، مختلف اوقات میں ان ممالک کی جانب سے صیہونیوں کے نیل سے فرات تک کے علاقے پر غاصبانہ قبضے کے منصوبے کو ناکام کر دینا بتایا اور کہا کہصیہونی، کینے اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں لیکن قرآن مجید کے بقول، جو کہتا ہے کہ "غصے میں رہو اور اسی غصے میں مر جاؤ" وہ جانکنی کی حالت میں ہے اور خداوند عالم کی مدد سے یہ آیت صیہونی حکومت کے سلسلے میں عملی جامہ پہن رہی ہے۔

 

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کا حتمی نظریہ یہ ہے کہ جو حکومتیں صیہونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کا جوا کھیل رہی ہیں، وہ نقصان اٹھائيں گي کیونکہ اس حکومت کا دم نکل رہا ہے اور وہ حکومتیں ہارنے والے گھوڑے پر شرط لگا رہی ہیں۔

 

انھوں نے فلسطینی نوجوانوں اور فلسطین کی، غاصبانہ قبضے اور ظلم کے خلاف تحریک کو آج ہمیشہ سے زیادہ بانشاط اور تازہ دم بتایا اور کہا کہ ان شاء اللہ یہ تحریک کامیاب ہوگي اور جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس غاصب حکومت کو کینسر کا پھوڑا بتایا ہے، خود فلسطینی عوام اور پورے علاقے میں استقامتی فورسز کے ہاتھوں اس حکومت کی جڑ کاٹ دی جائے گي۔انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں امید ظاہر کی کہ امت اسلامی پوری سربلندی اور عزت کے ساتھ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اپنی بے مثال قدرتی اور انسانی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گي۔

 

اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے انسان کی صحیح تربیت اور توحید و عدل پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجاہدتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، دشمنیوں کے مقابلے میں استقامت اور اسی طرح ہدف کی راہ میں ڈٹے رہنے کو ان کی سب سے اہم تعلیمات بتایا اور کہا کہ اتحاد و استقامت اور تکفیر و سازباز کی نفی کے نظریے کے محور پر عالم اسلام کی یکجہتی، نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کی نوید سنائے گي۔پالیسی میں نہ

 

 

 

 

 

 

 

 

بین الاقوامی تقریب مذاہب اسمبلی اور عالمی اسلامی فقہ فورم جدہ کے درمیان تعاون کا معاہدہ

تہران - ارنا- تہران میں سینتیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے موقع پر بین الاقوامی تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی اور جدہ کے عالمی اسلامی فقہ فورم کے درمیان تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے ۔

 

  ارنا کی رپورٹ کے مطابق اس معاہدے پر دستخط ک موقع پر تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین حمید شہریاری نے کہا کہ تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی اور عالمی فقہ فورم جدہ کے درمیان یہ پہلا معاہدہ ہے۔

 

 انھوں نے بتایا کہ جدہ کے عالمی فقہ فورم میں نو مختلف مذاہب شامل ہیں اور اس فورم میں نئے درپیش مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان مسائل کے بارے میں کیا فتوا جاری کیا جائے

 

  بین الاقوامی تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کے سربراہ نے بتایا کہ نئی ٹیکنالوجی اور ماڈرن میڈیکل سائنس سے متعلق موضوعات ان مسائل میں شامل ہیں جن پرعالمی اسلامی فقہ فورم جدہ میں بحث ومباحثہ ہوتا ہے، بہترین دلائل کے ساتھ ان پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اوران کے سبھی پہلوؤں کا دقت کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

 حجت الاسلام والمسلمین حمید شہریاری نے کہا کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد اس عالمی اسلامی فقہ فورم کی میٹنگوں میں ہماری شرکت ماضی کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہوگی۔  

 

 انھوں نے بتایا کہ آیت اللہ محمد علی تسخیری، جدہ کے عالمی فقہ فورم کے بانیوں میں تھے ۔

 

 بین الاقوامی تقریب مذاہب اسلامی اسمبلی کے سربراہ نے کہا کہ اب اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد عالمی فقہ فورم جدہ کی میٹنگوں میں شیعہ مکتب کے نمائندوں کی شرکت کی سطح بڑھ جائے گی  

 

 جدہ کے فقہ اسلامی عالمی فورم کے سربراہ قطب مصطفی سانو نے اس موقع پر کہا کہ حکمت نبوی میں مسلمین پیکر واحد ہیں جس کے ایک عضومیں درد ہو تو دیگر اعضا بھی سکون سے نہیں رہتے ۔ انھوں نے کہا کہ امت اسلامیہ پیکر واحدہ ہے اور اسلامی ممالک اور اقوام اس کے اعضا ہیں۔

 

 

 

المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کی تقریب اور عالم اسلام کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کا تبادلہ

ارنا- اصفہان – المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کی تقریب کے موقع پر عالم اسلام کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی میں تجربات کا تبادلہ بھی عمل میں آیا۔

 

ارنا کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر اسلامی ملکوں کی تنظیم ڈی ایٹ کی اقتصادی یونین کے ڈائریکٹر احمر اسماعیل نے بتایا ہے کہ المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لئے آنے والے اسلامی ملکوں کے سائنسدانوں اور دانشوروں نے طب سمیت، سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف موضوعات پر منعقد ہونے والے اجلاسوں میں شرکت اور اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کئے ۔

 

 احمر اسماعیل نے پی کو اصفہان میں آٹھ ترقی پذیر اسلامی ملکوں کی اقتصادی یونین ایچ ایم سی کے اجلاس کے بعد ارنا کے نامہ نگار سے بات چیت میں المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کی تقریب کے موقع پرسائنس و ٹیکنالوجی کے موضوعات پر منعقد ہونے والے اجلاسوں کی اہمیت پر زور دیا۔

 

 انھوں نے کہا کہ ان اجلاسوں میں اسلامی ملکوں کے سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرکے ، اسلامی ملکوں کی پیشرفت میں مدد کرسکتے ہیں۔

 

 ترقی پذیر اسلامی ملکوں کے گروپ ڈی ایٹ کی اقتصادی تعاون کی یونین کے سربراہ احمر اسماعیل نے المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کے مثبت اور تعمیری اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوارڈ کی تقریب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ شعبہ طب اور صنعت سمیت سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کے ماہرین اور ممتاز سائںسداں اس میں شرکت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

 

 انھوں نے کہا کہ " میں جب بھی ایران آیا ہوں ، تو پابندیوں کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی و پیشرفت نے مجھے حیرت زدہ کیا ہے۔

 

آٹھ ترقی پذیر اسلامی ملکوں کے گروپ ڈی ایٹ میں ایران، ترکیہ، پاکستان، بنگلادیش، انڈونیشیا، ملیشیا، مصر اور نائیجیریا، شامل ہیں

 

 پانچویں المصطفی بین الاقوامی ایوارڈ کی تقریب شہر اصفہان میں جمعرات 28 ستمبر کو شروع ہوئی اور پیر2 اکتوبرکی شام ختم ہوئ

 اس تقریب میں عالم اسلام کے 40 ملکوں کے 100 سے زآئد سائنسدانوں نے شرکت کی

 

 

 

 

اسلام آباد میں عشق پیغمبر اعظم(ص) مرکز وحدت کانفرنس منعقد؛

امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت قرآنی حکمت عملی کے تحت منانے کا اعلان کیا تھا

امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت قرآنی حکمت عملی کے تحت منانے کا اعلان کیا تھا

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں عظیم الشان عشق پیغمبر اعظم مرکز وحدت مسلمین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں عظیم الشان عشق پیغمبر اعظم مرکز وحدت مسلمین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام و مشائخ عظام اور عاشقان رسول اکرم (ص) مرد و خواتین حضرات کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

 

پیغمبراعظم کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ دشمن نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے، پہلے دشمن سے لڑنا ہوگا، دشمن ہماری دہلیز تک پہنچ گیا ہے، اب چترال بھی محفوظ نہیں رہا، میانوالی میں لشکر حملے کر رہے ہیں، مگر میڈیا خاموش ہے، یہاں جنازہ اٹھانا ایک روٹین کی بات بن گئی ہے، ہمارے وفود کو ان کے گھر جانا چاہیے، یہ صرف مستونگ کے لوگ نہیں مرے، ہمارے بھائی مرے ہیں، ہمارے بیٹے اور بیٹیاں مرے ہیں، جو ایک انسان کو قتل کرے، وہ خدا کی نگاہ میں تمام انسانوں کا قاتل ہے، 70 قتل ہوئے تو مطلب انسانیت ستر مرتبہ قتل ہوئی ہے، ہم سب کو مل کر اس پر اسٹینڈ لینا ہوگا۔

 

امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت قرآنی حکمت عملی کے تحت منانے کا اعلان کیا تھا

 

انہوں نے کہا کہ شیعہ اور سنی کی وحدت کی اس وقت کی ضرورت ہے، امام خمینی نے ہفتہ وحدت قرآنی حکمت عملی کے تحت منانے کا اعلان کیا تھا تاکہ امت مسلمہ کی وحدت سے دشمن کی سازشیں ناکام ہوجائیں، پاکستان 26 کروڑ آبادی کا ایٹمی ملک ہے، پاکستانی قرآن اور دین محبت کرنے والے ہیں، پاکستان کو مفلوج کیا گیا، امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر ملک میں کس حیثیت سے دورہ جات کر رہے ہیں، کیا یہ ملک کے آقا بنے ہوئے ہیں، دہشتگرد سن لیں، وہ ہمارے دلوں سے عشق رسول (ص) و اہلبیت (ع) کو نہیں نکال سکتے، نبی کریم حضرت محمد (ص) کی سیرت طیبہ ہمارے لیے نمونہ حیات ہے، ہم متحد ہوکر ہی اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

 

امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت قرآنی حکمت عملی کے تحت منانے کا اعلان کیا تھا

 

پیغمبر اعظم کانفرنس سے خطاب میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ چھڑی اور بندوق کی طاقت سے نہیں، جمہور کی طاقت سے ملک سنورے گا، بروقت اور شفاف انتخابات آج وقت کی اشد ضرورت ہیں، آج نظام مصطفیٰ کے غلبے کی بات کرنیوالی دینی قیادت کو ملکر سب کا مقابلہ کرنا ہوگا، آج دینی بنیادوں پر قومی ترجیحات کیلئے دینی جماعتوں کو اکٹھے ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔

 

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم وحدت مسلمین کو پارہ پارہ کرنے والی قوتوں کا مقابلہ کریں گے، ملی یکجہتی کونسل نے ملک میں تمام مسالک کی وحدت کو یقینی بنایا، تمام مکاتب فکر کے علماء کا ہر طرح کے حالات میں ملی یکجہتی کو قائم رکھنا بڑا جہاد ہے، آج پاکستان کی معیشت ہاتھوں سے نکل رہی ہے، خود انحصاری اور خود اعتمادی ہی پاکستان کے معاشی بحرانوں کا علاج ہے، آج پاکستان میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، آج عدلیہ کے فیصلوں کی قدر و قیمت نہیں، آئین کی حکمرانی ہی مسائل کا واحد حل ہے۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے خورشید میڈیا فیسٹیول کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ ہمیں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پیغمبر اسلام کی پیروی کریں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ انسان رول ماڈل کی تلاش میں ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ص کی زندگی ہے۔ 

 

صدر رئیسی نے کہا کہ پیغمبر اکرم ص کی زندگی کے درخشاں پہلووں میں سے ایک پہلو عورتوں اور حقوق نسواں کی طرف آپ کی خصوصی توجہ ہونا ہے۔ یہ توجہ اس حد تک خوشگوار ہے کہ خداوند متعال نے حضرت زہرا جیسی خاتون کو کوثر اور تمام بھلائیوں کے مظہر کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

 

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبرانہ روایت اور پیغمبر کی تعلیمات پر توجہ دینا ایک اہم اصول ہے کہا کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ انقلاب کی فتح میں، دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں، دفاع مقدس میں، تعمیرات اور کھیلوں کے میدانوں میں خواتین کا کردار نمایاں اور قابل تعریف ہے۔ 

 

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مغرب کا خواتین سے متعلق نقطہ نظر انہیں ایک آلے کےطور پر تشہیر کا ذریعہ بنانا ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے جس طرح خدا نے مردوں کے لیے صلاحیتیں فراہم کی ہیں اسی طرح خواتین میں

 

 

ایران

 

 

 

 

ایرانی صدر نے خورشید میڈیا فیسٹیول کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ مغرب میں خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں فلسطینیوں کے ساتھ 70 سالوں سے جاری ظلم و ستم اور افغانستان میں 20 سال تک جو بربریت اور جرائم امریکیوں نے انجام دئے۔

 

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے خورشید میڈیا فیسٹیول کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ ہمیں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پیغمبر اسلام کی پیروی کریں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ انسان رول ماڈل کی تلاش میں ہیں اور زندگی گزارنے کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ص کی زندگی ہے۔ 

 

صدر رئیسی نے کہا کہ پیغمبر اکرم ص کی زندگی کے درخشاں پہلووں میں سے ایک پہلو عورتوں اور حقوق نسواں کی طرف آپ کی خصوصی توجہ ہونا ہے۔ یہ توجہ اس حد تک خوشگوار ہے کہ خداوند متعال نے حضرت زہرا جیسی خاتون کو کوثر اور تمام بھلائیوں کے مظہر کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

 

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پیغمبرانہ روایت اور پیغمبر کی تعلیمات پر توجہ دینا ایک اہم اصول ہے کہا کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ انقلاب کی فتح میں، دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں، دفاع مقدس میں، تعمیرات اور کھیلوں کے میدانوں میں خواتین کا کردار نمایاں اور قابل تعریف ہے۔ 

 

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مغرب کا خواتین سے متعلق نقطہ نظر انہیں ایک آلے کےطور پر تشہیر کا ذریعہ بنانا ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے جس طرح خدا نے مردوں کے لیے صلاحیتیں فراہم کی ہیں اسی طرح خواتین میں بھی صلاحیت موجود ہیں۔ 

 

انہوں نے کہا کہ مغربی معاشروں کے برعکس جو خواتین کو ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں یا کچھ رجعت پسندانہ خیالات جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو گھر میں رہنا چاہیے، خواتین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کا نظریہ ایک تیسرا اور ترقی پسند نظریہ ہے کیونکہ خواتین معاشرے میں بہت سے اہم امور کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ 

 

آیت اللہ رئیسی نے خواتین کے بارے میں مغربی نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغرب والے خواتین اور خواتین کے حقوق کو آزاد ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ خواتین کے انسانی حقوق کے لئے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور مغرب دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اسے جواب دینا ہوگا کہ وہ کس طرح انسانی حقوق کو تباہ کر رہا ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ مغرب میں خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں فلسطینیوں کے ساتھ 70 سالوں سے جاری ظلم و ستم اور افغانستان میں 20 سال تک جو بربریت اور جرائم امریکیوں نے انجام دئے جس کے نتیجے میں 35 ہزار افغانستانی بچے معذور ہوئے۔ 

 

افغانستان میں امریکی موجودگی کا جنگ، خونریزی اور تباہی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلا

 

صدر رئیسی نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی ممالک کے پاس جامع طاقت ور میڈیا ہے جس کی وجہ سے ان کی آواز عالمی ایوانوں میں گوجتی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا آزاد، مستقل میڈیا اور آپ صحافی مل کر حقائق کو کھول کر بیان کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے آپ صحافیوں کی ہم

 

آخر میں صدر ابراہیم رئیسی نے تاکید کی کہ اگرچہ میں آپ کی تمامباتیں سننے کے لئے فرصت نہ کر سکا لیکن اسی محدود فرصت کو بھی غنیمت سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آج کی یہ نشست، درست اور آزادانہ رپورٹنگ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔

 

آہنگی اور یکجہتی کے ذریعے حل کیا جاسکتا اور اسے دنیا بھر میں پورے زور و شور کے ساتھ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لہذا اپنے آپ اور آزاد میڈیا کو  بالکل بھی کم نہ سمجھیں۔

 

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا ہاوسز اور ذرائع ابلاغ کا تسلط یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ صحیح خبر دے رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جب کہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ مختلف مقامات پر بیداری اور امید افزائی کے لیے کام کریں اور درست، موثر اور شفاف خیالات کی ترجمانی کریں۔

 

انہوں نے تاکید کی کہ بیانئے کی جنگ میں صحیح اور بروقت بیانیہ جو ادراک کو تشکیل دیتا ہے بہت اہم ہے خاص طور پر نوجوان نسل میں۔ 

 

صدر مملکت نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم فلسطینی صحافی کی حمایت کرتے ہیں جس نے صیہونیوں کے قتل اور جرائم کی خبریں پھیلانے کے لیے اپنا خون بہایا، کہا کہ مغرب والے دنیا کی آنکھوں کے سامنے معاہدے لکھتے ہیں اور پھر پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ 

 

آیت اللہ رئیسی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں آج کل ہونے والے بہت سے جرائم کو برملا کرنے کے لئے آپ صحافیوں کا اتحاد اور تعاون بہت ضروری ہے۔

 

 انہوں نے مزید کہا کہ مغرب والے جرائم  کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر نہایت بے شرمی کے ساتھ اسے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا نام دیتے ہیں، وہ ہماری مقدس ترین کتاب قرآن مجید کی توہین کر رہے ہیں جو آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی خود مغربی تعریف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

 

 صدر رئیسی نے کہا کہ وہ بنی نوع انسان کے تمام عقائد اور مقدس کتابوں کی توہین کرتے ہیں۔

 

انہوں نے کانفرنس میں موجود غیر ملکی صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اور یہ صورت حال آپ اور  آزاد میڈیا اور ہم سب کے فرائض منصبی اور مشن کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔

 

آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ صحیح کام یہ ہے کہ خبر کو درست انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے اور کرائے کے جبر نگاروں اور غلط رپورٹوں کی تشہیر نہ کی جائے تاکہ لوگوں کے اذہان میں فہمی پیدا نہ ہو۔ لوگوں کو تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت بڑھانی چاہئے، پیغمبر اکرم (ص) اور اسی طرح امام صادق (ع) اور ہمارے مکتب کی دیگر بزرگ شخصیات لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دینے کے ہی دنیا میں تشریف لائے۔

 

 انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہبی رہنماوں کہ ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ غور و فکر سے کام لیں، جب کہ مغربی معاشروں میں وہ لوگ فکری آذادی نہیں چاہتے، بلکہ ایک ایسی فکر چاہتے ہیں جو ان کے زیر اثر ہو اور آزاد نہ ہو۔ 

 

صدر رئیسی نے کہا کہ مغرب اپنے میڈیا کی مدد سے جعلی خبریں اور الزامات انسانی معاشروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے جب کہ میڈیا انسانی معاشرے تک حقائق کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن امریکہ اور مغرب نہیں چاہتے کہ لوگوں تک حقائق پہنچیں، وہ لوگوں کی لاعلمی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جابرانہ تسلط کو دوام دینا چاہتے ہیں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ مغرب والے چاہتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں استدلال اور شعور کے بجائے جہالت کو فروغ ملے اور طلباء، ماہرین تعلیم اور عوام کو تجزیہ و تحلیل کی طاقت حاصل نہ ہوجائے۔

 

آیت اللہ رئیسی نے مزید کہا کہ ہمارے شہداء یہی چاہتے تھے کہ لوگ اپنے تجزیے کی قوت میں اضافہ کریں اور حق و باطل میں تمیز کریں۔ حق کو غلط سے الگ کرنا اور انسانی حقوق کے حقیقی حامی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے سے ممتاز کرنا سیکھیں۔

 

ابراہیم رئیسی نے مقبوضہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے بارے میں کتنے معاہدوں پر مغربیوں کی حمایت سے دستخط ہوئے اور دشمنوں اور غاصبوں نے ان تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کی جب کہ یہ تمام معاہدے امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔

 

صدر رئیسی کے بیانیے کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکایات کی جنگ میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح بیانیہ ہو اور بروقت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں اور نوجوان نسل میں صحیح ادراک پیدا ہو، اس لیے واقعات کو درست طریقے سے بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ 

 

انہوں نے تاکید کی کہ ہم صہیونیوں کے قتل کی رپورٹنگ کرنے پر فلسطین میں جاں بحق ہونے والی خاتون صحافی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس خاتون کی بھی حمایت کرتے ہیں جسے جرمنی میں عدالتی ٹرائل کے دوران اپنے حجاب اور اپنی اقدار کے تحفظ کے باعث قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہم میڈیا میں لکھنے والی باخبر خاتون کی حمایت کرتے ہیں اور آج میڈیا سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنے والی تمام خواتین کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔

 

 صدر رئیسی نے اعتراف کیا کہ ہمارے انقلاب کے بانی اور انقلاب کی موجودہ قیادت نے ہمیں جو کچھ سکھایا وہ یہ ہے کہ آزاد اور مستقل افکار معاشرے میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔