سلیمانی
حج اور اسرائیل و امریکہ سے برآت
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک روز قبل پیر کی صبح امور حج کے منتظمین اور خانۂ خدا کے بعض زائرین سے ملاقات کی۔اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں حج کو مادّی اور معنوی لحاظ سے کثیر جہتی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کے عزم و ارادے اور فیصلوں کے حقیقی سرچشمے کی حیثیت سے ذکر خدا درونی اور باطنی پہلو سے حج کے تمام مراحل کا سب سے نمایاں نکتہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے باہمی رابطے کو حج کا نمایاں اجتماعی و سماجی پہلو بتایا اور کہا کہ ایک خاص مقام اور ایک خاص وقت میں تمام لوگوں کو اکٹھا ہونے کی الہیٰ دعوت کا فلسفہ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے آشنائی، ہمفکری اور مشترکہ فیصلے کرنا ہے، تاکہ حج کے مبارک اور ٹھوس نتائج عالم اسلام اور پوری انسانیت کو حاصل ہوں اور اس وقت عالم اسلام، مشترکہ فیصلہ کرنے کے میدان میں ایک بڑے خلا سے دوچار ہے۔
انھوں نے قومی، ملی اور مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیے جانے کو اتحاد کی لازمی تمہید بتایا اور کہا کہ تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں اور تمام اقوام کے لوگوں کا ایک عظیم، ایک جیسا اور ایک شکل والا اجتماع، حج کے سیاسی و اجتماعی چہرے کا نمایاں جلوہ ہے۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حج کا فریضہ، حضرت ابراہیم کے اسم گرامی اور ان کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے، دین خدا کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کو گرانقدر ابراہیمی تعلیمات میں سے ایک بتایا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے برائت، حج کا ایک مستقل رکن رہا ہے، لیکن اس سال غزہ کے عظیم اور المناک واقعات کے پیش نظر، جنھوں نے مغربی تمدن کے خون آشام چہرے کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اس سال کا حج، خاص طور پر برائت کا حج ہے۔
انھوں نے غزہ کے حالیہ واقعات کو تاریخ کے لیے ہمیشہ رہنے والی کسوٹی بتایا اور کہا کہ ایک طرف پاگل صیہونی کتے کے وحشیانہ حملے اور دوسری طرف غزہ کے عوام کی مزاحمت و مظلومیت تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی اور انسانیت کو راستہ دکھاتی رہے گی اور اس کی حیرت انگيز اور بے نظیر صدائے بازگشت غیر مسلم معاشروں اور امریکا اور کچھ دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں سنائی دے رہی ہے، جو ان واقعات کی تاریخ رقم کرنے اور معیار قائم کرنے کی نشانی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حج ابراہیمی کے موقع پر غزہ کے جرائم کے سلسلے میں امت مسلمہ کی ذمہ داری کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام ان پیغمبروں میں سے ہیں، جو انتہائی نرم اور مہربان دل کے مالک ہیں، لیکن یہی نبی خدا ظالم اور جنگجوو دشمنوں کے مقابلے میں پوری شدت سے اور کھل کر بیزاری اور دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔
انھوں نے قرآنی آيات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت کو مسلمانوں سے دشمن کا مکمل مصداق اور امریکا کو اس حکومت کا شریک جرم قرار دیا اور کہا کہ اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح کے حیوانیت والے سلوک کی طاقت اور ہمت ہوتی۔؟ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ مسلمانوں کو قتل اور بے گھر کرنے والا اور اس کا پشت پناہ دونوں ہی ظالم ہیں اور قرآن مجید کے صریحی الفاظ کے مطابق اگر کوئی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ بھی ظالم اور ستمگر اور اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا۔
انھوں نے عالم اسلام کے موجودہ حالات کے پیش نظر حج کے سلسلے میں ابراہیمی طرز عمل یعنی دشمنوں کے مقابل کھلم کھلا برائت و بیزاری کے اعلان کو ہمیشہ سے زیادہ ضروری بتایا اور کہا کہ اس بنیاد پر ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کو، فلسطینی قوم کی پشت پناہی کے سلسلے میں قرآنی فلسفے کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہیئے۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے دوسروں کا انتظار نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کرے گی، لیکن اگر مسلم اقوام اور اسلامی حکومتوں کے مضبوط ہاتھ مدد اور ہمراہی کے لیے آگے بڑھیں تو فلسطینی قوم کی المناک صورتحال جاری نہیں رہے گی۔
اس ملاقات کے آغاز میں حج و زیارت کے امور میں رہبر معظم کے نمائندے اور ایرانی حجاج کرام کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے ایک تقریر میں "حج؛ قرآن محوری، یکجہتی و اقتدار امت اسلامی و دفاع از فلسطین مظلوم" کو اس سال کا سلوگن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "حج ابراہیمی خود کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ بیرونی جبر سے لڑنے اور مظلوموں کے دفاع کا ایک پلیٹ فارم ہے۔" حج و زیارت کی تنظیم کے سربراہ سید عباس حسینی نے بھی اس سال 87,550 ایرانی عازمین حج کی ادائیگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 9 سال کی معطلی کے بعد خانہ خدا کی زیارت کے خواہشمندوں کے لئے صحت کی خدمات، رہائش، غذائیت اور نقل و حمل کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا اسلامی علوم کے فروغ میں کلیدی کردار
چھٹے امام، جعفر ابن محمد الصادق (ع) 17 ربیع الاول 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ان کی امامت کی مدت 34 سال تھی۔
امام جعفر صادق (ع) پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی فاطمہ الزہرا (س) کے نسب سے آپ کی براہ راست اولاد ہیں اور آپ امام محمد باقر (ع) کے فرزند ہیں۔
امام صادق ع کی خصوصیات
امام صادق علیہ السلام ان معصوم ہستیوں میں سے تھے جنہیں خدا نے بندوں کی ہداہت کے لئے اخلاقی کمالات کا نمونہ بنایا۔ امام کے خاص فضائل جو مورخین نے قلمبند کیے ہیں ان میں مہمان نوازی، خیرات، رازداری کے ساتھ ضرورت مندوں کی مدد، غریب رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، عفو و درگزر، صبر اور استقامت قابل ذکر ہیں۔
اس وقت کے خلفاء کی طرف سے امام حسن (ع) کی اولاد پر تمام مظالم کے باوجود امام صادق (ع) خاموشی سے اہل بیت کی تعلیمات کی تبلیغ کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے بھی آپ کے علم و فضل کو تسلیم کرتے ہوئے زانوئے ادب تہہ کیا جو آپ کو امام معصوم نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی آپ کی شان اور اعلی نسب کو جانتے تھے، تاہم آپ کے علمی کمالات کو دیکھ کر آپ کے شاگردوں میں شمار ہونے پر فخر کرنے لگے۔
سیاسی حالات
آپ کی امامت کا دور اسلامی تاریخ کے سب سے زیادہ شورش انگیز ادوار میں تھا کہ جس میں اموی سلطنت کے زوال اور عباسی خلافت کے عروج کی اندرونی جنگیں اور سیاسی ہلچل حکومت میں تیزی سے تبدیلیاں لا رہی تھیں۔
امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش کی وجہ سے امام صادق ع کو اسلام کی درست تصویر اور رسول اللہ کی تعلیمات کو صحیح شکل میں پھیلانے کے اپنے مشن کو پرامن طریقے سے جاری رکھنے کے لیے فرصت میسر آئی۔
منصور دوانیقی (دوسرے عباسی خلیفہ) نے اپنے ناجائز مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علماء کو ملازمتوں سے نوازا تاکہ وہ لوگوں کو جبر کے مذہب پر یقین دلائیں۔ یعنی مسلک جبر کو وہ لوگوں کے عقیدے میں ڈھالنا چاہتے تھے اور انہیں یہ خیال دلانا چاہتے تھے کہ جو کچھ غربت و افلاس، ظلم و ستم اور زیادتیاں چل رہی ہیں، یہ سب خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی تشکیل میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایسے غلط اور خطرناک عقیدے کی تبلیغ کو برداشت نہیں کر سکتے تھے جو لوگوں کو اسلامی ثقافت اور عقائد کے نام پر سکھایا جارہا تھا۔
چنانچہ آپ نے نے لوگوں کو اسلام کی سچی تعلیمات کی تبلیغ کے مقصد سے پڑھانا شروع کیا۔ اسی لئے شیعہ فقہی مکتب کا نام امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب ہو فوہ جعفریہ پڑ گیا ہے۔
امام صادق (ع) نے جو فقہ پڑھائی وہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات پر مبنی فقہ تھی۔ چونکہ الصادق (ع) اپنے زمانے میں اسلام کی حقیقی تعبیر یعنی مکتب اہل بیت ع کے علوم کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے اس لیے مکتب اہل بیت ان کے نام سے مکتب جعفریہ کے طور پر شہرت پا گیا۔
تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے چار ہزار سے زیادہ بالواسطہ اور بلاوسطہ شاگرد تھے جو آپ سے مختلف مضامین سیکھتے تھے۔ جن میں مذہبی علوم جیسے فقہ، تفسیر، اور حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم جیسے کیمیا، طب، ریاضی اور فلکیات شامل تھے۔ آپ کے شاگردوں میں مشہور کیمیا دان جابر ابن حیان کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کی اہم شخصیات جیسے ابو حنیفہ، فقہ حنفی کے بانی شامل تھے اور فقہ مالکی کے بانی مالک ابن انس نے بھی ان کی تعریف اپنے وقت کے سب سے زیادہ علم اور متقی عالم کے طور پر کی تھی۔
امام کی شہادت
منصور دوانیقی مختلف ذرائع اور طریقوں سے اپنی خلافت کا قانونی جواز ڈھونڈنے میں ناکام ہو چکا تھا، اس نے عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی وارث اور اسلامی خلافت کے لیے موزوں شخص ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
اگرچہ منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے قریب لانے یا انہیں دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ چنانچہ اس نے امام جعفر الصادق علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ 25 شوال 148 ہجری کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ آپ مدینہ منورہ کے قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔
آج امام جعفر صادق علیہ السلام کی میراث اسلام کی روحانی، فکری اور ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کا شمار تاریخ اسلام کی ان برجستہ شخصیات میں ہوتا ہے جن کا کردار اسلامی علوم کی ترویج اور مسلم ثقافت کے فروغ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ کی تعلیمات آج بھی 1.5 بلین سے زیادہ مسلمانوں کے لئے حکمت و دانائی اور دینی رہنمائی کا ذریعہ اور گراں بہا اسلامی میراث ہیں۔
مہر نیوز
غزہ میں شکست درپیش، نتن یاہو ذاتی مفادات کے لئے جنگ پر اصرار کررہے ہیں، سابق صہیونی وزیراعظم
مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی جنگ میں بالکل کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ تل ابیب کی سڑکوں پر مظاہرین کا ہجوم بڑھ رہا ہے۔ نتن یاہو اسرائیلی عوام کے مطالبات کے برعکس جنگ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اولمرٹ نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ ہی اسرائیل کے حق میں بہترین آپشن ہے۔
انہوں نے وزیراعظم نتن یاہو کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ صہیونی یرغمالیوں کی نجات کی فکر میں نہیں ہیں بلکہ اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کا جاری رکھنے سے نتن یاہو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس دو آپشن ہیں؛ فوری جنگ بندی کے ذریعے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے یا حماس کو تباہ کرنے کے نام پر بے فائدہ جنگ جاری رکھے۔
غصہ پينا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگزر كرنا، اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے۔ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134)
ترجمہ: وہ پرہیزگار جو خوشحالی اور بدحالی (غرضیکہ ہر حال میں راہِ خدا میں مال) خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کے قصور) معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بھلائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تفســــــــیر قــــرآن:
1️⃣توانگرى و تنگدستى ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
2️⃣ معاشرے كے رفاہ و آسائش اور رنج و مشكلات ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
3️⃣ غصہ پينا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگزر كرنا، اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
4️⃣ايمانى معاشرے كى ضروريات پورى كرنا، صبر اور اجتماعى معاملات ميں درگزر كرنا اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
5️⃣ نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے
6️⃣ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں
7️⃣معاشرہ ميں افراد كے درميان سالم باہمى روابط برقرار ركھنے كيلئے ،اسلام اہميت كا قائل ہے
8️⃣ خدا كى محبت كا حصول نيك اعمال كو بہ نحو احسن انجام دينے كا مرہون منت ہے
آیت اللہ جوادی آملی: زائرین بیت اللہ اور حج کے ذمہ داران کو چاہئے کہ ’دعوت اتحاد‘ کو سرلوحہ عمل قرار دیں
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے بروز جمعہ حضرت آیت اللہ جوادی آملی کے گھر پر ان سے ملاقات کی۔
انہوں نے کہا: حجاج اور حج کے ذمہ داران دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رفتار و گفتار سے اتحاد کی دعوت دیں تاکہ دوسرے حجاج آپ کے قول و فعل سے اتحاد کا احساس کریں۔
انہوں نے کہا: حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے، قرآن جو ایک بین الاقوامی کتاب ہے تین طرح کے خطاب موجود ہیں: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی، اور قرآن کریم﴿یا ایها الذین آمنوا﴾ یعنی مسلمانوں سے زیادہ تمام عالم انسانیت سے بات کرتا ہے ﴿نَذِیراً لِلْبَشَرِ﴾، ﴿کَافَّةً لِلنَّاسِ﴾، ﴿لِلعالَمینَ نَذیرًا﴾ ، اور قرآن نصیحت کرتا ہے کہ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی معاشرے کو پر زیادہ سے زیادہ امن بنایا جائے اور حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے،لہذا اس بین الاقوامی پروگرام کو ہمیں علم کی نشر و اشاعت کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: فتح خیبر کا دن مسلمانوں کی نجات کا دن تھا جس سے مسلمانوں کو بے پناہ خوشی ملی،فتح خیبر کے دن ہی امیر المومنین علیہ السلام کے بھائی جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آئے، رسول اکرم (علیہ و علی آله آلاف التّحیة و الثناء) نے فرمایا آج دو پیارے اور خوشگوار واقعات پیش آئے: پہلا یہ جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آگئے ہیں، اور دوسرا یہ کہ آج خبیر کو فتح کر لیا گیا ہے، اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے۔
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:اب ذرا آپ سوچیں کہ فتح خیبر کجا؟ اور جناب جعفر طیار کا حبشہ سے واپس آنا کجا؟ کیوں رسول اکرم (ص)نے فرمایا کہ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے؟ اس کا راز یہ ہے کہ جناب جعفر طیار ایک عالمانہ ، محققانہ، اور ثقافتی کام کر کے واپس آئے تھے، یعنی اگر ایک عالم ایک ایسا ثقافتی کا انجام دے سکتا جو فتح خیبر کے مترادف ہو، اس لیے میں حج کے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتےہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے ثقافتی کام انجام دیں جس دین اسلام کی شان و منزلت دنیا کے سامنے عیاں ہو۔
امام صادق علیہ السلام کی اپنے پیروکاروں اور محبوں کے لیے 6 نصیحتیں
25 شوال المکرم امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے، اس موقع پر اپنے قارئین کے لئے امامؑ کی ایک روایت پیش کرنے جا رہے ہیں جس میں امامؑ نے اپنے چاہنے والوں کو چھ نصیحتیں فرمائی ہیں:
قالَ مولانا الامام جعفر بن محمد الصّادِقُ علیهما السلام:
إنَّ اللّه َ تَبارَکَ وَ تَعالی أَوجَبَ عَلَیْکُمْ حُبَّنا وَ مُوالاتَنا وَ فَرَضَ عَلَیکُمْ طاعَتَنا.
الا فَمَنْ کانَ مِنّا فَلْیَقتَدِ بِنا فَإنَّ مِن شَأنِنا: ألوَرَعُ وَالإجتِهادُ
و أداءُ الأمانَةِ إلَی البِرِّ وَالفاجِرِ وَ صِلَةُالرَّحِمِ وَ إقْراءُ الضَّیْفِ وَالعَفوُ عَنْ المُسی ءِ.
و مَنْ لَمْ یَقْتَدِ بِنا فَلَیسَ مِنّا.
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
خدا نے ہماری محبت، ولایت اور اطاعت کو تم پر فرض کر دیا ہے۔
لہذا جو بھی ہمارا ہوگا وہ ہماری پیروی کرے گا ، ہمارا طریقہ اور شیوہ یہ ہے: تقویٰ اور پرہیزگاری، کوشش اور محنت، امانت واپس لوٹانا چاہے امانت رکھوانے والا نیک آدمی ہو یا گنہگار، صلہ رحم ، مہمان نوازی، خطا کرنے والے کو معاف کر دینا، لہذا جو ہماری پیروی نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
کتاب: الاختصاص: ۲۴۱
ایران کا حملہ یا انتباہ
14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر انتباہی حملہ کرکے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ نہ کرکے اس کے کسی قونصل خانہ کو نشانہ بنائے گا، جس طرح اسرائیل نے براہ راست ایران پر حملہ نہ کرکے دمشق میں موجود اس کے قونصل خانہ پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے یہ حملہ اندھیرے میں نہیں کیا بلکہ دشمن کو آگاہ کرکے اس کی پوری توانائی کو ناکام بناتے ہوئے کیا۔جس وقت اسرائیل کی اتحادی فوجیں اسرائیلی فضائی حدود کا محاصرہ کئے ہوئے تھیں، ایران نے حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نیٹو افواج کی طاقت سے خوف زدہ نہیں ہے۔ البتہ بعض اس حملے کی تعریف کر رہے ہیں اور بعض تنقید۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے مجموعی طور پر تقریباً ایک سو ستّر ڈرونز، تیس سے زائد کروز میزائل اور ایک سو بیس سے زائد بیلسٹک میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب فائر کئے۔
ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو نیٹو افواج نے مشترکہ طور پر روکنے کی کوشش کی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر نیٹو افواج کی حمایت حاصل نہ ہو تو اسرائیل کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مطابق انہوں نے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کر دیا لیکن وہ بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایرانی میزائلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈیوڈ ہگاری نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران نے اسرائیل کی طرف 170 ڈرونز اور 30 کروز میزائل داغے، جن کو اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیلی فضائی حدود میں پہنچنے سے پہلے تباہ کر دیا۔ ان میں سے بعض نے نواٹیم ائیر بیس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اس ائیربیس کو معمولی نقصان پہنچا۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کبھی اپنے نقصان کی صحیح معلومات فراہم نہیں کرے گا، جیسا کہ حماس کے حملوں میں ہوئے نقصان کی صحیح معلومات کو مسلسل چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسرائیل نے میڈیا کو بھی محدود پیمانے پر کوریج کی اجازت دے رکھی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو ہونے والے نقصان کی صحیح جانکاری نہیں ہوپاتی۔ اس لئے حماس، حزب اللہ، انصاراللہ اور ایران کے حملے میں ہوئے نقصان کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک امریکی چینل "اے بی سی" نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ایران کے کم از کم 9 میزائلوں نے دو اسرائیلی ائیربیس کو نشانہ بنایا، جس میں تل ابیب کو کافی نقصان پہنچا۔ اس چینل کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ 4 ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے نیگیو ائیربیس کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 5 مزید میزائل نواٹیم ائیربیس پر گرے، جس کے نتیجے میں ایک c-130 ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے کم از کم 9 میزائل داغے اور ان میزائلوں نے دو فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا اور کافی نقصان پہنچایا۔
ایرانی فوج کے ترجمان نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ان کا مقصد شہروں یا عوامی مقامات کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ اسرائیلی فوجی مراکز کو ہدف بنایا گیا تھا، جس میں انہیں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ خاص طور پر اس ائیربیس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے ذریعے دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ ہوا تھا۔بعض وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا گیا اور ایران نے انتہائی کم درجے کے میزائیل اور ڈرونز استعمال کئے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ کم از کم کسی ملک نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرأت کا مظاہرہ تو کیا۔ اس سے پہلے ایران نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی ائیربیس پر حملہ کرکے یہ بتلا دیا تھا کہ خطے میں امریکی فوجی مراکز محفوظ نہیں ہیں، جبکہ اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے زیادہ نقصان نہیں پہنچا، جبکہ عین الاسد ائیربیس اور دیگر فوجی مراکز کی سیٹلائٹ تصویروں نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا تھا۔
یہی صورتحال اسرائیل پر حملے کے بعد معرض وجود میں آئی۔ ناقدین کا یہ کہنا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے اس حملے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اول تو ان کے دعوے بغیر دلیل کے ہوتے ہیں اور بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایران نے اطلاع دے کر حملہ کیا ہے تو کیا اس حملے کو حملہ نہیں مانا جائے گا؟ یہ اطلاع امریکہ کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے نہیں تھی، جس کی طرف ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی اشارہ کیا۔ بعض کا یہ کہنا کہ یہ حملہ ایران نے اپنے قونصل خانہ پر ہوئے حملے کے جواب میں کیا تھا، اس کا فلسطین کے دفاع، بیت المقدس کی بازیابی اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ دمشق میں موجود ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیل نے حملہ کیوں کیا تھا۔؟
اگر وہ اس سوال کا صحیح جواب تلاش کر لیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ ایران کے قونصل خانہ پر اسرائیل کا حملہ غزہ کی حمایت کی بنیاد پر تھا۔ غزہ میں حماس کی مقاومت، لبنان کی سرحدوں پر حزب اللہ کی جانفشانی، بحر احمر میں حوثیوں کی دلیرانہ کارروائیاں اور شام و عراق میں مزاحمتی گروپوں کی استقامت، تنہاء ایران کی مرہون منت ہے۔ حماس اور مزاحمتی محاذ علیٰ الاعلان ایران کی حمایت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حقیقت کو دیکھنا نہیں چاہتے، وہ اب بھی مسلکی عناد کے بھنور میں الجھے ہوئے ہیں، جبکہ وہ اردن اور دیگر نام نہاد مسلمان ملکوں کی مذمت نہیں کرتے، جنہوں نے ایرانی حملوں کو روکنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا۔ ایران کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اب تک اسرائیلی حماس اور حزب اللہ سے عاجز تھے، کیونکہ غزہ اور لبنان اسرائیلی سرحدوں پر واقع ہیں۔
انہیں ایران کے براہ راست حملے کی توقع نہیں تھی۔ انہیں اسرائیل کے دفاعی نظام اور اپنی فوج کے بلند بانگ دعووئوں پر بہت اعتماد تھا، لیکن ایران نے ان کے بھرم کو پاش پاش کر دیا۔ اس وقت اسرائیل داخلی انتشار کا شکار ہے اور اس کے شہری اپنی فوج اور حکومت پر عدم اطمینان میں مبتلا ہیں۔ اس کو بھی ایران کی نمایاں کامیابی تصور کرنا چاہیئے کہ اس نے اسرائیل کے سیاسی اور سماجی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ اب تک اسرائیل اپنے جاسوسوں کے ذریعہ ایران میں داخلی انتشار کو فروغ دیتا رہا ہے، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب اسرائیل کے شہری اپنی فوج کی طاقت اور حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہیں باور کرا دیا گیا ہے کہ اب اسرائیل ان کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ جس طرح فلسطین کو اس کے شہریوں کے لئے غیر محفوظ بنا دیا گیا، بالکل وہی صورتحال اسرائیل میں رونما ہوچکی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کا حملہ اندھا دھند اور انتہائی خطرناک تھا، جبکہ ابتدا میں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک بالکل برعکس بیان دے رہے تھے۔ یہ تمام بیانات اور صورتحال اسرائیلی شہریوں کے سامنے ہے۔ اگر ایران کا حملہ کمزور اور ناکام ہوتا تو اسرائیل کے اتحادی ممالک کب کا ایران پر حملے کا فیصلہ کرچکے ہوتے، اس بات کو دنیا سے زیادہ اسرائیلی شہری سمجھ رہے ہیں۔ آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کا یہ حملہ اسرائیل کے لئے ایک انتباہ تھا۔ ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی فضائی حدود کو چھید کرسکتا ہے اور مختلف سمتوں سے اسرائیل پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسرائیل کسی بھی سطح پر محفوظ نہیں ہے۔ اب تک یہ بھی سوال کیا جاتا تھا کہ کیا ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ کرسکتا ہے۔؟اس نے عالمی طاقتوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا اور حملہ کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو واضح انتباہ بھی۔ کیونکہ ایران کے حملوں کے روکنے کے لئے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا۔
یعنی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے بوتے پر ایرانی حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے اس کے تمام اتحادیوں نے مل کر اسرائیل کا دفاع کیا۔ دوسرے ایران نے اپنے سستے اور سست ڈرونز کا استعمال کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق تنہاء اسرائیل کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، جس کی بنیاد پر اس کے اقتصادی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو میزائل ایران نے داغے، وہ بھی جدیدترین میزائل نہیں تھے، کیونکہ انتباہی حملے میں اپنی پوری توانائی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے۔ حماس جس نے بہت پہلے اسرائیلی دفاعی نظام کا پول کھول دیا تھا، ایران نے مختلف سمتوں سے حملہ کرکے اس کے اتحادیوں کو ہائی الرٹ پر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام اتحادیوں نے متفقہ طور پر اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرنے سے منع کیا، کیونکہ اس کے نتائج سنگین ثابت ہوں گے، جس کا اندازہ اسرائیل سے زیادہ اس کے اتحادیوں کو ہے، کیونکہ جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ملک مل کر ایران کے سستے ڈرونز اور میزائلوں کو اسرائیل پہنچنے سے نہیں روک سکے، تو پھر اندازہ کیجیے، جب ایران اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوگا تو انجام کیا ہوگا۔
تحریر: عادل فراز
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
امریکی طلباء میدان میں
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اس دعوے کی واضح وجوہات ہیں۔ غزہ جنگ کے 200 سے زائد دنوں میں اطلاعات کے مطابق صیہونی حکومت نے اجتماعی قتل کے 3,025 واقعات کا ارتکاب کیا ہے، جن میں 41,000 سے زیادہ شہید یا لاپتہ ہوئے ہیں، جن میں سے 34,000 شہداء کی لاشوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور 7,000 تاحال لاپتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 77 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہداء میں سے 14 ہزار 778 بچے ہیں اور 30 بچے قحط سے جاں بحق ہوئے۔ شہداء میں 9752 خواتین ہیں۔
اس بنیاد پر غزہ کے 72 فیصد شہداء خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ پٹی میں 17 ہزار بچے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو کھو چکے ہیں۔ شہداء میں سے 485 طبی عملہ کے افراد ہیں۔ اس دوران 140 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ 11 ہزار زخمیوں کو ضروری طبی خدمات حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر بھیجنا ہوگا اور غزہ میں کینسر کے 10 ہزار مریض موت کی کشمکش میں ہیں۔ نقل مکانی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے ایک لاکھ 90 ہزار باشندے متعدی امراض میں مبتلا ہیں اور غزہ کی پٹی میں 60 ہزار حاملہ خواتین بھی طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ 350 ہزار لاعلاج مریض ہیں، جنہیں میڈیسن کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے خطرے کا سامنا ہے۔
ان تمام جرائم میں سے صرف ایک بھی جرم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (جس کی عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے)، کے لیے ایکشن لینے کے لیے کافی تھا، اقوام متحدہ نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کے جرائم کے خلاف رکاوٹ نہیں بنی، بلکہ اس کی بے عملی ان جرائم کے تسلسل کا بنیادی عنصر بن گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی چار قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس کارروائی کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کو اپنی وسیع سیاسی، مالی اور یقیناً فوجی حمایت کے ساتھ، امریکہ نے ان جرائم کے تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس جنگ میں بائیڈن نیتن یاہو کا اہم ساتھی بن گیا ہے۔
ان جرائم کی وسیع تر کوریج نے عالمی رائے عامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کے 95 فیصد سے زیادہ لوگ اس محاذ آرائی میں فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگرچہ عالمی طاقت کی راہداریوں میں مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن انسانی ضمیر کی بیداری نے بالخصوص امریکہ میں ایک الگ مرحلہ طے کیا ہے اور اس نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک تبدیلی کا ایک بے مثال واقعہ دیکھ رہی ہے۔ امریکہ میں فلسطینی قوم کے کاز کی حمایت اور "فلسطین کو آزاد ہونا چاہیئے" اور "فلسطین سمندر سے دریا تک" امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں خصوصاً اس ملک کی فرسٹ کلاس یونیورسٹیوں کے طلباء کا بنیادی مطالبہ بن چکا ہے۔
اس حوالے سے کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ نے ویتنام جنگ کے بعد طلبہ کی تحریک کی سب سے بڑی لہر دیکھی ہے۔ ڈرانے، دھمکانے، یونیورسٹیوں کو بند کرنے، ورچوئل کلاسز کا انعقاد اور درجنوں طلباء کو گرفتار کرنے سمیت کئی اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن یہ تمام دباؤ نہ صرف اس لہر کے خلاف رکاوٹ نہیں بنے ہیں بلکہ اسرائیل کے جرائم کے خلاف امریکہ کے عملی اور علمی حلقوں میں ہونے والے مظاہروں اور بائیڈن حکومت کی اس تحریک کے خلاف احتجاج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
گارڈین اخبار کے مطابق "کولمبیا" یونیورسٹی میں طلباء پر جبر اور درجنوں طلباء کی گرفتاری کے بعد امریکہ بھر میں طلباء نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج شروع کیا اور یونیورسٹی حکام سے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کریں۔ تاہم، رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج صرف طلباء تک محدود نہیں ہے، گارڈین کے مطابق، ایک نیا کیمپ قائم کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کے سینکڑوں فیکلٹی ممبران احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس کے خلاف بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ہیں۔ اسی میدان میں ایک اور پیش رفت میں امریکن قلم ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب اس وقت منسوخ کر دی گئی، جب اس انجمن کے درجنوں ادیبوں اور نامزد افراد نے غزہ جنگ میں امریکی شرکت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ سالانہ تقریب 29 اپریل کو منعقد ہونی تھی۔ جن 10 مصنفین کو امریکن پین ایسوسی ایشن کے بک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، ان میں سے نو انجمن کی جانب سے فلسطینی مصنفین کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے تقریب میں شرکت سے دستبردار ہوگئے۔ ایک ایسے ملک میں جس کا بنیادی نصب العین آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی حمایت ہے اور اس ملک کی حکومتوں نے اس بہانے کئی ممالک پر حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا ہے، اب وہ فلسطین کی حمایت نہیں کرتا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں جنگ کے خلاف لہر شدت پکڑ رہی ہے۔۔ امریکی حکومت کا ان مظاہروں کی مخالفت کا بہانہ یہود دشمنی قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ مظاہرین یہودی مذہب اور یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ صہیونی حکومت کے جرائم کے خلاف ہیں اور موسیٰ کے قانون کے نام پر انتہاء پسند ربیوں کے نظریئے کے خلاف ہیں۔
صہیونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انتہاء پسند ربی جنگی علاقوں میں موجود رہ کر اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیل کے جرائم اور فلسطینی بیانیے کے ساتھ ملوث ہونے کی مذمت کیوں کرتی ہیں۔؟ اس سوال کے جواب میں شاید غزہ میں انسانی تباہی کی شدت اور انسانی ضمیر کے بیدار ہونے کو اس لہر کے شروع ہونے کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب صحیح اور غلط کی دو قسموں کا ساتھ ساتھ سامنا ہو جائے تو عقل سچ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔
امریکہ کے مین سٹریم میڈیا کی طرف سے غزہ جنگ کے بارے میں ایک بیانیہ تیار کرنے اور ظالم اور مظلوم کو مخلوط کرنے کے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے باوجود امریکی علمی طبقے کا ضمیر حکومتی بیانیے کے ساتھ نہیں چلا اور تاریخ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ اس ملک کے علمی و دانشگاہی حلقوں میں پیدا ہونے والی وسیع لہر کو اس مسئلے کا بہترین ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔غزہ میں گذشتہ 200 دنوں سے جاری جنگ نے اچھی طرح ظاہر کیا ہے کہ گذشتہ برسوں کی بظاہر خاموشی کے باوجود امریکی معاشرہ اس ملک کے مرکزی دھارے کے سیاسی اور میڈیا سے بالکل مختلف راستے پر گامزن ہے اور جبر کے خلاف حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلسطین کا دفاع کر رہا ہے۔
مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف اس ملک میں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے موقع ملا تو یہ ایک طاقتور لہر بن سکتی ہے۔ اس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی سیاسی، تجارتی، فوجی، سکیورٹی اور تکنیکی اشرافیہ نے "کولمبیا" جیسی باوقار یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور اگر اسرائیل آنے والے سالوں میں امریکہ کی علمی و سائنسی برادری میں اپنی حمایت کھو دیتا ہے تو اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔
صیہونی مخالف تحریک امریکی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تکنیکی اداروں تک پھیل سکتی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا حامی آنے والے سالوں میں اسرائیلی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی موجودہ نسل آنے والے سالوں میں امریکہ کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی اداروں میں داخل ہوگی، اس طرح یونیورسٹی کے ادارے میں صیہونیت مخالف تحریک کی تشکیل کا براہِ راست اثر امریکی سوسائٹی پر مرتب ہوسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کے حوالے سے امریکہ میں آنے والے عشرے میں یقیناً منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر اس وقت تک اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
تحریر: سید محمد امین آبادی
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان
اسلامی جمہوریہ ایران کے صد ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اور اس پر مختلف زاویوں سے تبصرے، تنقید اور ستائش جاری ہے۔ کچھ ٹی وی چینلز میں منفی پروپیگنڈہ کی آوازیں بھی سنائی دیں، جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ رواں سال کی ابتدا میں ایران کی طرف سے پاکستان کے اندر میزائل مارے گئے اور اس کا فوری ردعمل پاکستان نے ایران کے اندر حملہ کرکے دیا، بلاشبہ دونوں ممالک کا عمل اور ردعمل انتہائی تشویشناک تھا۔ اس وقت بھی، ہم نے ہر دو اسلامی قوتوں کو ہوشمندی اور دانشمندی کے مظاہرے کا مشورہ دیا تھا۔ پھر دونوں ممالک کی سیاسی قیادت نے حالات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا۔ فوری طور پر ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان پاکستان آئے۔
حالات کو معمول پر لانے کیلئے خداوند قدوس کے فضل و کرم سے دونوں اطراف سے معذرت خواہانہ اور تنبیہانہ انداز اختیار کرنے پر معاملہ رفع دفع ہوا۔ کچھ تجزیہ کار حضرات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان حالات کو معمول پر لانے کے اسی عمل کی کڑی ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے پاکستان اپنے قریب ترین ہمسایہ ملک کو ایرانی قیادت نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین پر دونوں ممالک کا موقف ایک ہے، تو پاکستان کو اسرائیل کیخلاف ایران کا کھل کر ساتھ دینا چاہیئے۔ یہاں پر پاکستان کے عوام اور اداروں کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی کوئی نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو مشترکہ مفادات تاریخی برادرانہ تعلقات کے باعث امت مسلمہ کے دو اہم بازو سعودی عرب اور ایران کے دوروں کو ہمیشہ اہمیت اور اولیت حاصل رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ 1988ء میں پہلی بار وزیراعظم بنیں، تو انہوں نے ایران کے دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے بھی دعوت دی گئی، اپنی چند شرائط کی وجہ سے اس دورے میں محترمہ کیساتھ نہ جا سکا۔ اس کے بعد 1993ء میں محترمہ بینظیر بھٹو جب دوبارہ وزیراعظم بنیں، تو ترجیحی بنیادوں پر انہوں نے پھر مجھے کہا تو میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین، وفاقی مشیر معاشی امور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور مصطفیٰ کھر بھی اس دورے میں ہم سفر تھے۔ ایران کے صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے پاکستانی وفد کا بڑا اچھا استقبال کیا۔ تمام معاملات میں تبادلہ خیال ہوا۔ اس وقت پاک ایران گیس پائپ لائن پر بھی بات ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے واپسی پر ایرانی گیس کی زیادہ قیمت کو کم کرانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے میں نے وزارت گیس و پٹرولیم کی بریفنگ میں شرکت کی اور اپنے ایرانی دوست قونصل جنرل ایران آغا علی قمی سے مدد لی۔ لیکن 1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی۔ آصف علی زرداری پہلی بار صدر پاکستان بنے، تو انہوں نے ایران کا دورہ کیا۔ حکومت کے عرصہ اقتدار پورا ہونے سے پہلے 2013ء میں انہوں نے معاہدہ کیا۔ آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے منصوبے کی بنیاد رکھی۔ لیکن بین الاقوامی دباو خاص طور پر یورپ اور امریکہ کی وجہ سے ہم منصوبے کو آگے بڑھا نے کیلئے عملی اقدامات نہ کرسکے، جبکہ معاہدے کے مطابق ایران نے اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن بچھا دی ہے، جو کہ امریکہ کو ناگوار گزری اور پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
سالہا سال گزرنے اور اس وقت جبکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑی بنیادی وجہ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ بنے تو اس وقت بھی میں نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کو شروع کیا جائے، تاکہ پاکستان کا توانائی بحران حل ہوسکے۔ اب جبکہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت تشکیل پا چکی ہے۔ آصف علی زرداری دوسری دفعہ صدر مملکت اور میاں شہباز شریف وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیں۔ دونوں کی خواہش پر ایرانی صدر کو دورے کی دعوت دی گئی۔ الحمدللہ !ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کی سرزمین میں انتہائی کامیاب اور مفید رہا ہے۔ اس دورے میں ہونیوالے معاہدوں کے ایک ایک ایشو پر بات ہوسکتی ہے۔
قصہ مختصر، پاکستانی حکومت نے بڑی گرم جوشی کیساتھ ایرانی صدر کو خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لیکر لاہور اور کراچی کے دوروں میں اہم مقامات پر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے اپنے خطابات میں مظلوم فلسطینی عوام اور مزاحمتی تحریک حماس سے جس ہمدردی کا اظہار کیا، وہ قابل فخر ہے۔ انہوں نے فلسطین میں بچوں عورتوں بیماروں سمیت 34 ہزار سے زائد افراد کی شہادت، مکانات، مارکیٹوں، ہسپتالوں تعلیمی اداروں کی تباہی کے حوالے سے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور یہ بھی واضح پیغام دیا ہے کہ اسرائیل بہت جلد ختم ہوگا۔ ہم فلسطینی عوام کیساتھ ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں کھڑے ہو کر عوام اور افواج کے اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی حمایت میں موقف کو سراہا۔ ایران کے فلسطین پر موقف اور ابراہیم رئیسی کے دورے کو پاکستان کے ہر مکتبہ فکر نے خوش آئند قرار دیا ہے۔
حقیقت ہے کہ جناب ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان نے عوام کے دلوں میں جوش و جذبہ موجزن کر دیا ہے۔ اس کے نتائج ان شاء اللہ بہت جلد عملی پیشرفت اختیار کریں گے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے مزار قائد کراچی اور مزار اقبال لاہور پر حاضری دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان، اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال جسے ایرانی ’’اقبال لاہوری‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای انہیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں، کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی کہ اقبال کے کلام کی وجہ سے انقلاب اسلامی ایران کیلئے زمینہ ہموار ہوا۔ کیونکہ ان کے کلام کی وجہ سے نوجوانوں میں استعمار مخالف انقلابی فکر پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے وہ علماء کی قیادت میں اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔
یہاں یہ بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ کراچی اور اسلام آباد میں مختلف مکاتب فکر کے علماء سے ایرانی صدر کی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ قابل تعریف ہیں، خاص طور پر قائد ملت اسلامیہ علامہ سید ساجد علی نقوی، مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس، ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور تحریک انصاف کے رہنماء نورالحق قادری اور دیگر شیعہ سنی علماء کی محفل اتحاد امت کا حسین گلدستہ تھی۔ کراچی میں ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے نماز کی امامت بھی کروائی۔
بلاشبہ ایرانی صدر کے دورے سے امت مسلمہ کے ہر غیور شخص کے دل میں ایران کی قدر و منزلت بڑھی ہے۔ خاص طور پر اسرائیل پر حملے کے بعد تصور کیا جا رہا تھا کہ شاید پاکستانی حکومت دورہ ملتوی کر دے گی، لیکن یہ افواہیں اور قیاس آرائیاں بھی دم توڑ گئیں اور دورہ کامیاب رہا۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ دونوں ممالک کے درمیان ہونیوالے معاہدوں کو پایا تکمیل تک پہنچائے اور ہمیں امریکی دھمکیاں مسترد کرتے ہوئے ایران گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف اوہائیو یونیورسٹی کے طلبا کا احتجاج
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اوہائیو یونیورسٹی کے طلبا نے احتجاج کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق اوہائیو یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
اوہائیو یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے کی وارننگ دی،انکار پر گرفتار کیا گیا، ’صیہونیوں کو جینے کا حق نہیں‘ کا نعرہ لگانے والے طلبا کو جامعہ سے نکال دیا جائے گا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم خیمانی جیمز نے کہا تھا صیہونیوں کو جینے کا حق نہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق طالب علم جیمز خیمانی نے کہا تھا اسرائیل صیہونیوں کا منصوبہ ہے جو امن کے خلاف ہے، کولمبیا یونیورسٹی کی سینیٹ نے انتظامیہ کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
