سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز کے مطابق، علی اکبر ولایتی، جو رہبر معظم کے بین الاقوامی امور کے مشیر ہیں، نے پاکستان کے وزیر داخلہ سید محسن نقوی سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات نہایت گہرے، مستحکم اور برادرانہ ہیں، اور ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اس ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیر داخلہ نے پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کا پیغام رہبر معظم انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ڈاکٹر ولایتی کو سپرد کیا۔

دونوں فریقین نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ پذیر رجحان پر اطمینان کا اظہار کیا اور مختلف شعبوں میں وسیع تر تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

ولایتی نے علاقائی تبدیلیوں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت یافتہ صہیونی حکومت کے ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات اور غزہ میں اس کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے مابین ہم فکری اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستان کے وزیر داخلہ نے بھی اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کیا۔

اربعین کے موقع پر ایران، پاکستان اور عراق کے درمیان سہ فریقی تعاون کے حوالے سے دونوں فریقین نے اس موضوع کا خیرمقدم کیا اور باہمی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ولایتی نے اربعین کے موقع پر پاکستانی زائرین کی بھرپور شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مسلمان عوام ایران کے راستے عراق جاتے ہیں اور اس عظیم اجتماع میں شامل ہوتے ہیں؛ یہ عمل نہ صرف رسمی تعاون کو فروغ دیتا ہے بلکہ تینوں ممالک کے درمیان وسیع تر تعلقات کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔

ولایتی نے اپنی گفتگو کے ایک حصے میں ہندوستان کے عوام کی برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی انقلاب سے پہلے اسی موضوع پر ایک کتاب تصنیف اور شائع کی ہے۔/

شام میں جاری حالیہ جنگ درحقیقت دو بڑے منصوبوں کے مابین جنگ ہے۔

ایک طرف اسرائیلی منصوبہ اور دوسری طرف ترکی و اخوانی منصوبہ۔

اسرائیلی منصوبہ کیا ہے ؟

اسرائیلی منصوبہ یہ ہے کہ شام کو اور خطے کے ممالک کو چھوٹے چھوٹے اور کمزور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ شام کے کچھ علاقوں پر کردوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر علویوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر درزیوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر سنی حکومت ہو اور ان تمام چھوٹی چھوٹی حکومتوں کی پناہ گاہ اسرائیل ہو اور کوئی اسرائیل کے سامنے سر بھی نہ اٹھا سکے؛ سب بے بس، ذلیل اور تسلیم شدہ ہوں۔

ترکی کا منصوبہ کیا ہے ؟

خطے کے تمام تر علاقے جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ رجب طیب اردغان اور انکے اتحادی تکفیری مسلح گروہوں کا منصوبہ ، ان سب علاقوں کو ترکی کے زیر تسلط لانا۔ اور تمام دینی و مذہبی اقلیات کا قلع قمع کرنا ۔ انہیں جینے اور زندگی گزارنے کے حق سے محروم کرنا۔ انہیں عبید اور غلام بنا کر رکھنا ۔ انکی تحقیر و تذلیل کرنا۔ انہیں قتل وغارت کے ذریعے اور یا ہجرت پر مجبور کر کے انہیں ختم کر دینا۔

اس کا عملی نمونہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر حاکم موجودہ حکمرانوں کا رویہ ہے۔ علوی علاقوں کو پہلے نہتہ کیا گیا اور عوام کو تکفیری دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر وہاں پر قتل وغارت شروع کی گئی ۔ عزتیں لوٹیں اور لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ بچے بوڑھوں اور خواتین کو معاف نہیں کیا۔ ماؤں کے سامنے انکے بچوں کو ذبح کیا ۔ جس علاقے میں حکومت کے حمایت یافتہ یا کارندے جاتے وہاں سب جوانوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرتے۔ پھر انکے کپڑے اتار کر ان پر طرح طرح کا تشدد کرتے ۔ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے تمام حربے آزماتے ، کتوں گدھوں ودیگر حیوانات کی بولیاں بلواتے ۔ ننگی گالیاں دیتے اور انکے دن ومذھب پر سب وشتم کرتے۔ پھر آخر میں کچھ نوجوان اور خواتین کو گرفتار کر کے لے جاتے ، اور کچھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے۔ اور ایسے واقعات علویوں اور عیسائیوں اور بعض شیعہ نشین علاقوں میں گذشتہ چند ماہ سے مسلسل ہو رہے ہیں۔ جیلیں علوی و شیعہ و عیدائی مذھب کے لوگوں سے بھر چکی ہیں ۔ فقط شیعہ علماء نہیں انکی فکر کے مخالف سنی علماء کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ ہزاروں پروفیسرز سائنسدان وڈاکٹر و افیسرز قتل ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شیعہ وعلوی و عیسائی ہجرت کر چکے ہیں؛ وہ ہمسایہ ممالک یا پھر دنیا بھر میں جہاں جا سکتے تھے وہاں کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔

اب ایک علاقہ سوریہ میں بچا تھا جہاں پر اکثریتی آبادی درزی مسلمانوں کی ہے۔ یہ سوریہ کے جنوب مشرق میں واقع سویداء نامی صوبہ ہے۔ درزی مذہب کے لوگ فلسطین و لبنان اور شام کے علاقوں میں آباد ہیں۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد انکے روحانی لیڈر حکمت ھجری نے نئی حکومت کے سربراہ احمد الشرع الجولانی سے دمشق جا کر ملاقات کی ۔ اور حکومت کو تسلیم کیا لیکن انکی شرط تھی کہ جب تک ملک کا نیا دستور و آئین نہیں بنتا اور انتخابات کے ذریعے آئینی وقومی حکومت نہیں آتی ۔ اور نئی فوج تشکیل نہیں پاتی اور جب تک ملک کے عوام ان تکفیری مسلحہ گروھوں کے رحم وکرم پر ہیں ہم اپنا اسلحہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اور اپنی جان و مال و ناموس کی حفاظت خود کریں گے۔ کیونکہ وہ باقی اقلیتوں کا حشر دیکھ چکے تھے۔

علوی ساحلی علاقوں میں قتل وغارت و تباہی اور جلانے کے بعد حکومت نے سویداء صوبہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے عرب بدو سنی قبائل کو پہلے بھیجا پھر اس کے بعد حکومتی فورسز بھی پہنچنا شروع ہوگئیں ۔ تکفیری لشکروں نے اس صوبے کے خلاف جنگ کے لئے پورے ملک سے اس کی طرف رخ کیا ۔ شمال وجنوب و مشرق ہر طرف سے جنگجو تکفیری رجز خوانی کرتے ہوئے اس درزی علاقے کو فتح کرنے کے لئے روانہ ہوئے۔ مقبوضہ فلسطین کے درزیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی فوج کا حصہ بھی ہے۔ درزیوں نے اسرائیل سے مدد مانگی۔ اسرائیل نے جولانی حکومت کو تنبیہ کی کہ وہ درزی علاقوں پر چڑھائی نہ کرے، لیکن جب سویداء کے اندر دونوں فریقین کے مابین جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل بھی میدان جنگ میں عملی طور پر آ گیا اور اسرائیلی فضائیہ نے دمشق کی وزارتِ دفاع اور قصر جمہوری و دیگر مختلف علاقوں پر وحشیانہ بمباری کی جو مسلح فورسز مختلف علاقوں سے سویداء کی طرف جا رہی تھیں ان پر بھی شدید اسرائیلی حملے ہوئے۔

آخر کار جولانی حکومت نے پسپائی اختیار کی اور اپنی فورسز کی واپسی کا اعلان کیا۔

تحریر : ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 16 جولائی 2025 کی صبح عدلیہ کے سربراہ، اعلی عہدیداران اور پورے ملک کی اعلی عدالتوں کے ججوں سے ملاقات میں حالیہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی قوم کے عظیم کارنامے کو سراہتے ہوئے جارحین کے اندازوں اور سازشوں کے ناکام ہو جانے کا ذکر کیا۔
     

آپ نے ایران عزیز کے دفاع کے لیے ہر طرح کے اختلاف کو درکنار کرتے ہوئے عظیم اتحاد قائم کرنے کی ملت ایران کی دانشمندی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس قومی اتحاد کی حفاظت کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ بارہ روزہ جنگ میں عوام کا عظیم کارنامہ، قومی عزم و اعتماد جیسا تھا کیونکہ امریکا جیسی  طاقت اور اس کے پالتو کتے صیہونی حکومت سے مقابلے کی تیاری اور جذبہ ہی بہت گرانقدر ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کسی بھی میدان میں کمزور فریق کی طرح سامنے نہیں آئے گی، کہا کہ ہمارے پاس منطق اور عسکری طاقت جیسے تمام ضروری وسائل ہیں اس لیے چاہے وہ سفارتکاری کا میدان ہو یا فوجی میدان ہو، ہم جب بھی اس میدان میں آئیں گے، اللہ کی توفیق سے مضبوطی کے ساتھ آئیں گے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ اگرچہ ہم صیہونی حکومت کو کینسر اور امریکا کو اس کی پشت پناہی کی وجہ سے مجرم مانتے ہیں لیکن ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تاہم جب دشمن نے حملہ کیا، ہمارا جواب منہ توڑ اور بہت ٹھوس تھا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کو ایران کے ٹھوس اور دنداں شکن جواب کی واضح دلیل، اس کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنا بتایا اور کہا کہ اگر صیہونی حکومت جھک نہ جاتی اور زمیں بوس نہ ہوتی اور اپنا دفاع کر پاتی تو اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی لیکن وہ سمجھ گئي کہ اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔

انھوں نے امریکا کے حملے پر ایران کے جوابی حملے کو بھی بہت حساس ضرب بتایا اور کہا کہ ایران نے جس جگہ حملہ کیا وہ خطے میں امریکا کا انتہائی حساس مرکز تھا اور جب بھی خبری سینسر ہٹے گا تو پتہ چل جائے گا کہ ایران نے کتنی گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ البتہ امریکا اور دوسروں کو اس سے بھی بڑی چوٹ پہنچائی جا سکتی ہے۔

رہبر انقلاب نے حالیہ جنگ میں قومی یکجہتی کے بھرپور طریقے سے سامنے آنے کو بہت اہم اور دشمن کی سازش کے سامنے بڑی رکاوٹ بتایا اور کہا کہ جارحین کا اندازہ اور سازش یہ تھی کہ ایران کی بعض شخصیات اور حساس مراکز پر حملے سے نظام کمزور پڑ جائے گا اور پھر وہ منافقین اور سلطنتی نظام کے حامی افراد سے لے کر غنڈوں اور اوباشوں جیسے اپنے زرخرید سلیپر سیلز کو میدان میں لا کر عوام کو ورغلا سکتے ہیں اور انھیں سڑکوں پر لا کر نظام کا کام تمام کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ عملی میدان میں جو ہوا وہ دشمن کی پلاننگ کے بالکل برخلاف تھا اور یہ بھی واضح ہو گيا کہ سیاسی اور دوسرے میدانوں کے بعض افراد کے بھی بہت سے اندازے صحیح نہیں ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایران کے سبھی لوگوں کے لیے جارح دشمن کے حقیقی چہرے، پلان اور پوشیدہ اہداف کے واضح ہو جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم نے ان کی سازش کو باطل کر دیا اور عوام کو حکومت اور نظام کی پشت پناہی میں میدان میں اتار دیا اور لوگ، دشمن کی سوچ کے برخلاف نظام کی جانی اور مالی حمایت اور پشت پناہی میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

انھوں نے مختلف مذاہب اور گوناگوں یہاں تک کہ متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے افراد کے ایک ساتھ کھڑے ہونے اور بات کرنے کو عظیم قومی اتحاد پیدا ہونے کا باعث بتایا اور اس عظیم اتحاد کی حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عہدیداروں کو پوری طاقت اور بھرپور جذبے کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے، کہا کہ سبھی کو جان لینا چاہیے کہ وَ لَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہ کی آيت کے مطابق خداوند عالم نے اسلامی نظام کے تحت اور قرآن و اسلام کے سائے میں ایرانی قوم کی نصرت کو یقینی بنا دیا ہے اور یہ قوم یقینا فتحیاب ہوگی۔

انھوں نے حالیہ جنگ میں صیہونی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری بتایا اور کہا کہ عدلیہ کو چاہیے کہ حالیہ جرائم کو سنجیدگی اور پوری ہوشیاری کے ساتھ اور تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے عالمی اور ملکی عدالتوں میں اٹھائے۔

اس ملاقات کی ابتداء میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی اژہ ای نے عدلیہ کی کارکردگي کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

ایران کی عزیز اور عظیم قوم پر بے شمار درود و سلام ہو۔ سب سے پہلے میں حالیہ واقعات کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شہید کمانڈرز، شہید سائنسداں جو حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ کے لیے گرانقدر تھے اور انھوں نے بڑی خدمات سر انجام دیں اور آج پروردگار عالم کے یہاں اپنی نمایاں خدمات کا صلہ حاصل کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔

میں ایران کی عظیم قوم کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں قوم کو کئی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں:

پہلی، جعلی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد ہے۔ اتنے زیادہ شور ہنگامے، اتنے زیادہ دعووں کے باوجود صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ کی ضرب سے تقریباً زمیں بوس ہو گئي اور اور کچل دی گئي۔ ان کے تصور میں اور ان کے ذہن میں کبھی یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے اس حکومت کو ایسی ضرب پڑے، لیکن ایسا ہوا۔

ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری مسلح فورسز کی مدد کی اور وہ صیہونیوں کے پیشرفتہ ڈیفنس کے کئی لیئرز کو عبور کر گئیں اور انھوں نے ان کے بہت سے شہری اور فوجی علاقوں کو اپنے میزائيلوں کے ذریعے اور اپنے پیشرفتہ ہتھیاروں کے مضبوط حملے سے مٹی میں ملا دیا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف جارحیت کی اسے قیمت چکانی پڑے گي، قیمت ادا کرنی پڑے گی، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگي اور بحمد اللہ یہ کام بھی ہوا۔ اس کا افتخار مسلح فورسز اور ہمارے عزیز عوام سے متعلق ہے جنھوں نے اپنے درمیان سے ان مسلح فورسز کو پیدا کیا، ان کی پرورش کی، ان کی حمایت کی اور اس طرح کے ایک بڑے کام کے لیے ان کے بازو مضبوط کیے۔

دوسری مبارکباد، امریکی حکومت پر ہمارے عزیز ایران کی فتح سے متعلق ہے۔ امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ جنگ میں شامل نہ ہوئی تو صیہونی حکومت پوری طرح سے نابود ہو جائے گي۔ وہ جنگ میں اس لیے شامل ہوئی کہ اسے نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہمارے ایٹمی مراکز پر حملہ کیا، جو علیحدہ طور پر کسی عالمی عدالت میں قانونی مقدمے کے لائق ہے لیکن وہ کوئي اہم کام نہیں کر سکے۔ امریکی صدر نے جو کچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جو بھی ان باتوں کو سنتا وہ سمجھ جاتا کہ ان ظاہری باتوں کے پیچھے ایک الگ حقیقت پائي جاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکے، جو ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، اسے حاصل نہیں کر سکے۔ اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپائيں اور اسے پوشیدہ رکھیں۔ یہاں بھی اسلامی جمہوریہ فتحیاب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ نے جواب میں امریکا کے رخسار پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ اس نے خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید بیس پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اُس مسئلے میں جن لوگوں نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، انھوں نے اِس مسئلے میں بات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش کی، یہ کہا کہ کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ مستقبل میں بھی یہ واقعہ دوہرایا جا سکتا ہے، اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت، جارح کو یقینی طور پر بہت بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

تیسری مبارکباد ایرانی قوم کے غیر معمولی اتحاد اور اتفاق رائے کی ہے۔ بحمد اللہ قریب نو کروڑ کی آبادی والی ایک قوم، متحدہ طور پر، ایک آواز ہو کر، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، مطالبات اور اہداف میں بغیر کسی اختلاف کے ڈٹ گئی، نعرے لگائے، بیان دئے، مسلح فورسز کی کارروائيوں کی حمایت کی، آئیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

ایرانی قوم نے اس مسئلے میں اپنی عظمت کو، اپنی نمایاں اور ممتاز شخصیت کو دکھا دیا اور بتا دیا کہ ضروری موقع پر اس قوم سے ایک ہی آواز سنائی دے گي اور بحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔

میں اپنے معروضات میں ایک بنیادی نکتے کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ایرانی قوم کو سر جھکانا ہوگا، سرینڈر کرنا ہوگا، اب یورینیم کی افزودگي کی بات نہیں ہے، ایٹمی صنعت کی بات نہیں ہے، بات ایران کے سرینڈر ہونے کی ہے۔ امریکی صدر کی یہ بات، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہے۔ اتنی عظمت والے ایران، تاریخ رکھنے والے ایران، ثقافت رکھنے والے ایران، ایسا فولادی قومی عزم رکھنے والے ایران اور ایسے ملک کے لیے سرینڈر ہونے کی بات ان لوگوں کی نظر میں مضحکہ خیز ہے جو ایرانی قوم کو پہچانتے ہیں لیکن ان کی اس بات نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ امریکی، انقلاب کی ابتداء سے ایران اسلامی سے جنگ کر رہے ہیں، متصادم ہیں۔ وہ ہر بار کوئي نہ کوئي بہانہ لے آتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق ہے، کبھی جمہوریت کا دفاع ہے، کبھی خواتین کے حقوق کی بات ہے، کبھی یورینیم کی افزودگي ہے، کبھی ایٹمی مسئلے کی ہی بات ہے، کبھی میزائیل بنانے کا مسئلہ ہے، وہ مختلف بہانے پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ ہے ایران کا سر جھکا دینا، سرینڈر ہو جانا۔ پہلے والے یہ بات نہیں کہتے تھے کیونکہ یہ قابل قبول نہیں، کسی بھی انسانی منطق میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ایک قوم سے کہا جائے کہ وہ سرینڈر کر دے۔ لہذا وہ اسے دوسرے ناموں کے پیچھے چھپا دیا کرتے تھے۔ اس شخص نے اسے برملا کر دیا، اس حقیقت کو عیاں کر دیا، اس نے سمجھا دیا کہ امریکی صرف ایران کے سرینڈر ہونے پر ہی راضی ہوں گے، اس سے کم پر نہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایرانی قوم جان لے کہ امریکا سے ٹکراؤ اسی بات پر ہے۔ امریکی، ایرانی قوم کی اتنی بڑی توہین کر رہے ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے، ایران ایک مضبوط اور وسیع و عریض ملک ہے، ایران قدیم تمدن کا مالک ہے، ہمارا ثقافتی اور تمدنی سرمایہ، امریکا اور امریکا جیسوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ کوئي ایران سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، یہ پوری طرح سے بکواس اور ہرزہ سرائی ہے جس کا یقینی طور پر عقلمند اور دانا افراد مذاق اڑائيں گے۔ ایرانی قوم، صاحب وقار ہے اور صاحب وقار رہے گی۔ وہ فاتح ہے اور اللہ کی توفیق سے فاتح ہی رہے گي۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم سے اس قوم کو ہمیشہ باعزت اور باشرف رکھے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات بلند کرے، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کو اس قوم سے راضی و خوشنود رکھے اور ان کی مدد، اس قوم کی پشت پناہ رہے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 
 


اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف صیہونی اور امریکی جارحیت کے دوران نفسیاتی جنگ اور موساد سے وابستہ روایتی اور جدید نشریاتی و اشاعتی ذرائع ابلاغ، انقلاب اسلامی کا چراغ خاموش دکھانے کی سعی میں رہبریت کا خلا ظاہر کرنے اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی سلامتی اور حضور کے بارے میں افواہیں پھیلانے کی پوری کوشش کر رہے تھے، اس دوران دس محرم کی رات کو مجلس امام حسین علیہ السلام میں رہبر انقلاب کی حاضری کی ایک ویڈیو نے دشمن کے تمام حربے ناکام بنا دیئے، جیسے صہیونیوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہوں۔

امام عالی مقام، امام حسین علیہ السلام کے دربار میں ایک حاضری نے دشمن کے تمام تر پروپیگنڈا کو تہس نہس کر دیا۔ رہبر معظم انقلاب تحسین انگیز، پرسکون اور بے مثال وقار کے ساتھ، شب عاشور کو حسینیہ امام خمینی تہران میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور نہ ہی  کوئی تردید جاری کی، لیکن مجلس امام حسیؑن میں ان کی حاضری، تمام جھوٹی افواہوں کا فصیح و بلیغ جواب تھا۔ وہ لوگ جو پے در پے مواد تیار کر کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرکے رہبریت کی عدم موجودگی کا جواز بنانا چاہتے تھے، اب صرف ایک تصویر، ایک قدم اور ایک فاتحانہ حاضری سے رسوا ہو چکے ہیں۔

میڈیا کے اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ تصویروں کے دور میں، لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا ان کے ذہنوں پر کسی بھی تجزیئے یا تقریر سے زیادہ اثر پڑتا ہے، دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ "جعلی تصاویر،" "بصری افواہوں،" اور "قیادت و رہبری کی عدم موجودگی" کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر عام افراد کو قیادت کی عدم موجودگی یا دوری کا احساس دلایا جائے۔ لیکن اس بار ایک حقیقی ویڈیو نے بغیر کسی ہنگامے کے، ان تمام منصوبوں کو بے اثر کر دیا۔

غیر ملکی خدمات کے لئے جاری انٹیلی جنس پراجیکٹس میں براہ راست کردار ادا کرنے والے "مملکتہ" اور "وحید آن لائن" جیسے میڈیا آؤٹ لیٹس نے جعلی اور خودساختہ انداز میں اپنی تمام تر توجہ قیادت کی حیثیت کو کم کر کے دکھانے پر مرکوز کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت کہیں چھپ نہیں سکتی، رہبر انقلاب ایک سچائی کے طور پر حسینیہ امام خمینی میں داخل ہوئے۔ رہبر معظم انقلاب اپنے معمول کے مطابق سکون کے ساتھ، لیکن انتہائی حساس لمحے میں وارد میدان ہوئے۔ یہ صرف ایک افواہ کا جواب نہیں تھا، یہ پوری قوت و اقتدار کی رونمائی تھی۔

یہ ا؎ایک ایسا پیغام تھا جس نے ظاہر کیا کہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ میں کہیں کوئی خلا ایجاد نہیں ہوا، بلکہ طاقت کے ستون پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں، یہ موجودگی امن و سلامتی کا پیغام بھی تھا۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا کے کونے کونے میں مجلس، ماتم، جلوس ہائے عزا میں لبیک یا حسیؑن اور یاحسیؑن یاحسیؑن پکارنے والوں کو یقین ہو گیا کہ اب دشمن جنگ کے ہر میدان میں شکست کھا چکا ہے، سب کی توجہ پردہ غیبیت میں موجود فرزند زہراؑ سلام اللہ علیھا کی جانب گئی اور ظہور ایک قدم نزدیک محسوس ہونے لگا۔ 

غزہ جنگ اور بالخصوص ایران کے کامیاب حملوں کے بعد تقریباً تین چوتھائی اسرائیل میں کام کرنیوالے ورکرز ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ سروے گروپ نے پوچھا کہ ورکرز اسرائیل میں رہنا اور کام کرنا کیسا سمجھتے ہیں؟ مقبوضہ فلسطین میں کام کرنیوالے ایک چوتھائی ورکرز نے اس کے جواب میں  کہا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی وجہ سے اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والوں میں یہ نمایاں اضافہ صیہونی معاشرے میں بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

حال ہی میں کیے گئے اس سروے کے نتائج کے مطابق تقریباً 73 فیصد اسرائیلی کارکن بیرون ملک ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں، یہ معاملہ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے ہوئے خدشات، عدم استحکام اور صیہونی رجیم پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیلی ایمپلائمنٹ پلیٹ فارم فرسٹ جابز کے ذریعے ہونیوالے سروے کی رپورٹ میں ایود احرونوت اخبار کی طرف سے شائع کیے جانے والے گزشتہ سال کے سروے کے مقابلے میں ہجرت کی خواہش میں 18 فیصد کا نمایاں اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ پانچ سالوں میں پہلی بار 70 فیصد سے زیادہ اسرائیلی کارکنوں نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر بھی اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تشویش اور ہجرت کی وجوہات
ملک چھوڑنے کے حوالے سے اگرچہ روایتی محرکات جیسے کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا (59%)، بین الاقوامی تجربہ حاصل کرنا (48%) اور کیریئر میں ترقی (38%) اب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان وجوہات میں نئے اور پریشان کن عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ سروے میں تقریباً 30% شرکاء نے ذاتی تحفظ سے متعلق خدشات کی بات کی، 24% نے سیاسی عدم استحکام کا حوالہ دیا اور 24% نے "حکومت سے مایوسی" کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔ وی پی آف کریئر ڈیولپمنٹ اینڈ ریکروٹمنٹ فرسٹ جابز کے لیئٹ بین ٹورا شوشن کہتے ہیں کہ "ہم ہجرت کے بارے میں ملازمین کے رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں؛ یہ اب صرف ایک اسٹریٹجک پیشہ ورانہ فیصلہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا فیصلہ جو جذبات، سلامتی اور معاشی خدشات سے زیادہ کارفرما ہے"۔
 
نئے ٹھکانے
امریکہ اسرائیلی تارکین وطن کے لیے سب سے زیادہ مقبول مقام ہے، جہاں 44 فیصد شرکاء نے امریکہ کا انتخاب کیا وہاں نیویارک شہر 17 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول ہے، اس کے بعد 11 فیصد کے ساتھ لاس اینجلس اور 8 فیصد کے ساتھ میامی ہے۔ جبکہ یورپ کا حصہ صرف 26 فیصد ہے، یہ تعداد پچھلے سالوں سے کم ہے، ممکنہ وجوہات میں "یہود دشمنی" اور یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات ہیں۔ کچھ جواب دہندگان نے قریب ترین مقامات جیسے یونان اور قبرص (11 فیصد) میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ (6 فیصد)، مشرقی ایشیا (8 فیصد) اور افریقہ (1 فیصد) کم مقبول تھے۔

خدشات اور چیلنجز
اگرچہ امیگریشن ایک پرکشش آپشن لگتا ہے، لیکن بہت سے اسرائیلی اس کے ساتھ جڑے چیلنجوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ 56 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا ہے کہ امیگریشن کا عمل، اس کی کشش کے باوجود، آسان نہیں ہے، پہلے کی نسبت اس بار سروے میں خدشات کا اظہار زیادہ کیا گیا ہے۔ یہ سروے پورے اسرائیل سے 22 سال سے زیادہ عمر کے 611 اسرائیلی کارکنوں کو شامل کر کے کیا گیا۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار صیہونی معاشرے کی نازک صورتحال اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ طویل المدتی جنگ، علاقائی کشیدگی، خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی رجیم کے سیاسی اور سلامتی کے ماحول کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ اسرائیلی معیشت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال ایران، یمن، لبنان اور فلسطینی گروہوں کی طاقت اور مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے، صیہونی رجیم کے زیر سایہ معاشرے کی ناپائیداری اس کا ثبوت ہے۔
 
 
 

صدر ایران نے بدھ کی رات یورپی کونسل کے صدر ایٹونیوکوسٹا سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے تازہ ترین بین الاقوامی معاملات بالخصوص ایران کے خلاف 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے بعد کی صورتحال نیز تہران اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کے امکان کا جائزہ لیا۔

صدر پزشکیان نے دنیا کے ساتھ تعمیری تعاون اور مذاکرات کے  بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھی تہران  علاقائی اور بین الاقوامی امن، استحکام اور سلامتی کے حوالے سے  اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔    

انہوں نے صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو عالمی امن و سلامتی کے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ  صیہونی حکومت اور امریکہ نے ایران کو اس وقت جارحیت کا نشانہ بنایا ہم مذاکرات کر رہے تھے۔

صدر کا کہنا تھا جب امریکہ اور اسرائيل کو ایران کی جانب سے فیصلہ کن جواب کا سامنا کرنا پڑا تو وہ امن اور جنگ بندی کی دھائي دینے لگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی اجازت کے بغیر اسرائيل ایران پر جارحیت نہیں کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایران اور آئي اے ای اے کے درمیان تاریخی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعاون کا انحصار ایران کے تنئيں اس عالمی ادارے کے رویئے میں تبدیلی پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئي اے ای اے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں رپورٹوں کی تیاری میں غیر جانبداری کے اصولوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے۔

صدر نے کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کھلی جارحیت کا نوٹس نہ لینا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہنا ایسی مثالیں ہیں جن کے نتیجے میں آئی اے ای اے کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچا ہے اور ایرانی پارلیمنٹ کو عالمی ادارے کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا بل پاس کرنا پڑا۔

 ایران کے صدر نے واضح کیا کہ آئی اے ای اے جیسے بین الاقوامی اداروں  کی جانب سے  متوازن حمایت اور رکنیت کے فوائد سے مستفید ہونا ان اداروں میں شمولیت کی بنیادی وجہ ہے بصورت دیگر، ان اداروں کا رکن ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے اس موقع پر موجودہ مسائل کے حل کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے یورپی یونین کی خواہش کا اظہار کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ بین الاقوامی اداروں کو کسی بھی دوہرے معیار سے گریز کرنا چاہیے۔

ایٹونیو کوسٹا نے مزید کہا کہ یورپی یونین ایرانی قوم کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا گہرا احترام کرتی ہے اور بات چیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عالمی برادری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا، بس فلسطین میں نسل کشی کا منظر دیکھنے میں مصروف ہے۔

اپنے تازہ خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس ہفتے دنیا کی نظروں کے سامنے قاتل صیہونی حکومت نے متعدد وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل، تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے شرمناک تنزلی اور ضمیروں کی اجتماعی موت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔

لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔

سید عبدالملک بدرالدین حوثی نے کہا کہ غاصب صیہونیوں نے حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو ایسے حال میں قتل کیا کہ وہ بھوکے تھے اور یہ دنیا ایسی حالت میں ترقی یافتہ ہونے کے دعوے کر رہی ہے کہ لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔

انصاراللہ کے رہبر نے زور دیکر کہا کہ اسرائیلی دشمن فلسطینیوں کو جبری طور پر کوچ کرانے کے لیے انہیں ابتدائی ترین وسائل سے محروم کیے ہوئے ہے اور عینی شاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق، بھوک کے ذریعے بھی فلسطینیوں کا قتل ہو رہا ہے اور اشیائے خورد و نوش کے مراکز پر انہیں نشانہ بناکر بھی ان کی جان لی جا رہی ہے۔

سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ صیہونی حکومت غزہ کو 9 حصوں میں بانٹ کر اپنے کرائے کے فوجی وہاں تعینات کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی مدد سے ان کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا۔

صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاہد غزہ میں مزاحمت جاری رکھتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو بے اثر کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ 21 مہینے سے امریکہ کی مکمل حمایت کے ساتھ غزہ کا شدید محاصرہ کیا گیا ہے۔

انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ دشمن کی کمزوریاں بہت زیادہ اور اہم ہیں لیکن صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جو ان کی نفسیاتی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اگر امریکہ اور مغربی دنیا کی حمایت اور مسلمانوں کی لاپرواہی نہ ہوتی تو صیہونی حکومت فلسطین، لبنان اور ایران پر جارحیت نہ کرپاتی۔

ایلات بندرگاہ پر صیہونیوں کو سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی: سید عبدالملک الحوثی

سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ سرزمینوں کو 45 ہائیپرسونک میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا گیا اور بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت سے وابستہ یا اسرائیل کی بندرگاہوں کی جانب جانے والے جہازوں کو ڈرون بوٹس کے ذریعے نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔

انصاراللہ یمن کے سربراہ نے اعلان کیا کہ بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ عرب میں غاصب صیہونی حکومت کی بحری نقل و حمل اور تجارت پر پابندی بدستور برقرار ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت ام الرشراش (ایلات) بندرگاہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم یمن کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بندرگاہ کی سرگرمیوں کو بحال ہونے نہیں دیا جائے گا۔

انہوں نے انتباہ دیا کہ گزشتہ دنوں کے واقعات تمام شپنگ کمپنیوں کے لیے ایک کھلا پیغام ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون پر پابندی ہے اور ہر اس جہاز کو نشانہ بنایا جائے گا جو اس پابندی کی خلاف ورزی کرے۔

سلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی"نے  آج جمعرات کو سریبرینیکا میں ہونے والی نسل کشی کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ اگر دنیا نے واقعی سریبرینیکا کے سانحے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم غزہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے 11 جولائی کو Srebrenica میں ہونے والی نسل کشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دن ان لوگوں کے لیے شرم کی بات ہے جنہوں نے یا تو اس وحشیانہ جرم میں حصہ لیا یا پھر خاموشی اختیار کر کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا راستہ ہموار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس دردناک سانحے کی 30ویں سالگرہ پر، اسلامی جمہوریہ ایران اس نسل کشی کے بے گناہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جب کہ زندہ بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں سید عباس عراقچی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا نے واقعی Srebrenica کے المیے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم مسلمانوں کے خلاف غزہ میں ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہے گا، خواہ وہ بوسنیا میں ہوں یا ہرزیگووینا میں یا فلسطین میں۔

Thursday, 10 July 2025 19:25

قیام کربلا، درس حریت

واقعہ کربلا بنی نوع انسان کی تاریخ کا انوکھا سانحہ ہے، جو 10 محرم الحرام 61 ہجری سے پہلے رونماء ہوا اور نہ ہی بعد میں ہوگا۔ بڑی جدوجہد اور قربانی کے واقعات تو موجود ہیں، مگر ایسے نہیں، جیسے فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام نے لازوال قربانی پیش کی۔ صدیوں سے کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی پر تبصرے ہو رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کربلا کے موضوع پر تشنگی آج بھی باقی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
تحریک پاکستان کے رہنماء، معروف شاعر اور صحافی مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا:
قتل حسین ؑاصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

روزنامہ ہمدرد کے ایڈیٹر مولانا محمد علی جوہر نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ جب اسلام پر مشکل وقت آجائے اور مسند اقتدار پر بیٹھے افراد اپنی مرضی کرنے لگیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے، حق کی حمایت میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ ہو تو قربانی دینا واجب ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ دین مبین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ معاشرے میں ایک گروہ واقعہ کربلا میں یزید کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جبکہ اسلام کے ماننے والوں کی غالب اکثریت کربلا کے شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو کربلا کو برپا کرتے رہنا ہوگا، یعنی قربانی دیتے رہنا ہوگی۔ تاریخ انسانیت میں کربلا جیسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ امام حسین علیہ السلام نے کمال انتظامات کیساتھ یزید کیخلاف قیام کیا اور کربلا میں وارد ہوئے، جس میں ہر صنف انسانیت کا کوئی نہ کوئی کردار موجود ہے۔

چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغرؑ سے لیکر 80 سال کے ضعیف حبیب ابن مظاہرؓ جیسے انسان بھی کربلا میں مردوں کی نمائندگی کرتے اور شہادت کا درجہ پاتے نظر آتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے رشتوں کے حوالے سے بہن، بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور سیاہ فام جون جیسے غلام سے لیکر حرؓ جیسے کمانڈر بھی واقعہ کربلا میں قربان ہوگئے۔ آج دنیا کے اندر کہیں بھی آزادی کیلئے کوئی سماجی یا مذہبی تحریک ہو یا آمریت کیخلاف سیاسی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس کے لیڈر تحریک کربلا سے متاثر ہو کر یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی طرح جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ کربلا کے شہداء کی اقتداء میں جان دینے کو بھی تیار ہیں۔

تصور کریں کہ عاشورہ محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کا کوئی ساتھی نظر نہیں آتا تھا، سب یزید کیساتھ کھڑے تھے، جبکہ اب صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے، آج کربلا کی یاد منانے اور اسے زندہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی یزید کے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آتا، وہ جو یزید کیلئے کوئی تھوڑا بہت نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں، وہ بھی اس کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے حق میں مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ کربلا نے انسان کو اتنا بیدار کیا ہے کہ حسینیت کا پیروکار ہونے کیلئے مسلمان نہیں، انسان ہونا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام صرف مسلمانوں ہی کیلئے نہیں، غیر مسلموں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں، وہ محسن انسانیت ہیں۔ ہر انصاف پسند اور غیرت مند انسان امام عالی مقام کی مظلومیت اور قربانی سے متاثر ہے۔ تکریم انسانیت اور آزادی کی جو بھی تحریکیں چلتی ہیں یا کہیں بنی نوع انسان کے شعور اور انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے، مذہب و دین کے حوالے سے تشنہ فکر افراد کی رہنمائی صرف کربلا ہی سے ہوتی ہے۔

چھٹے تاجدار امامت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ”ہر دن عاشور ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔ ان کے جد بزرگوار امام حسین ؑنے جس انداز سے قربانی دی، وہ آج بھی آزادی کی تحریک چلانے والے گروہوں، جماعتوں اور اقوام کو کربلا سے منسلک کرتی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فکر کربلا سے حاصل کی ہے۔ کرہ ارض پر نظر دوڑائیں کہ آج کے دور میں جتنی بھی تحریکیں دنیا میں چل رہی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جب امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے اس لمبے سفر میں جہاں امام رُکے تو بہت سے قبائل نے آپ کیساتھ ملاقاتیں کیں، مگرآپ نے کسی سے نہیں کہا کہ ٓاپ میرے ہمسفر بنیں، آپ کو اقتدار میں آکر فلاں عہدہ دوں گا، بلکہ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے تھے کہ مجھے دین محمدی (ص) کو بچانا ہے اور یہ بھی کہا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور یہ درس پوری دنیا کیلئے ہے، یعنی بندگان خدا حق کی حفاظت کیلئے باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔

امام عالی مقام کربلا کی طرف سفر کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے اور ساتھیوں کو حالات سے آگاہی دیتے رہے کہ یزیدی فوج کے ہاتھوں ہماری شہادت یقینی ہے، جو واپس جانا چاہے، چلا جائے۔ شب عاشور تو آپ نے اپنے اصحاب باوفا کو اکٹھا کرکے پھر حالات سے آگاہی دی اور چراغ بجھا دیا اور کہا کل ہم شہید ہو جائیں گے، جو جانا چاہتا ہے، چلا جائے، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا، مگر حیرت ہے کہ امام کے جانثاروں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ حتیٰ کہ مسلم ابن عوسجہ کا جواب تاریخی تھا  ”اے امام! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ 70 مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا“ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کی کہ دنیا یاد کرتی ہے۔

آج حماس کی مزاحمتی تحریک کو دیکھ لیں، جس کے نوجوان امام حسین علیہ السلام کی راہ کو اپناتے ہوئے شہادت قبول کر رہے ہیں، مگر اسرائیل کی بالادستی اور اس کا قبضہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بار بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ وہ آج کے یزید اور شمر کیخلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اسی طرح لبنانی فلسطینی یمنی اور عراقی مزاحمتی تحریکیں مکمل طور پر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کے ہر طبقے کیلئے ہے۔ مختلف مکاتب فکر اور مذاہب خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، نواسہ رسول سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے لوگ بھی امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے اور ان سے درس حریت لیتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ جو کربلا سے رہنمائی لیکر جدوجہد کرتا ہے، وہ فکر حسینؑ سے دور نہیں، بلکہ منسلک ہے۔ حماس اور حزب اللہ لبنان کی شہید قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح عصر حاضر میں فکر حسینیؑ کے قافلہ سالار ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ یزید وقت نے انہیں قتل کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کے دعوے کئے مگر ناکام رہے۔
 
 
تحریر: سید منیر حسین گیلانی