سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے اپنے پیام میں فرمایا ہے کہ شہادت جہاد کا ثمر ہے، چاہے آٹھ سالہ دفاع ہو، چاہے 12 روزہ دلیرانہ جنگ، چاہے لبنان، غزہ ہو یا فلسطین، جہاد ملی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے روز "مهمانی لاله‌ها" یعنی جنت کے پھول یا پھولوں کی دعوت کے عنوان سے دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ یہ جہاد اور شہادت کا جلوہ ہے، جس سے اقوام کو جلا ملی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام جو ملک بھر میں شہداء کی قبروں کی صفائی، عطر چھڑکنے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی تقاریب میں "جنت کے پھول" کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ اس پیغام کو شہداء و ایثار گران کی فاونڈیشن میں رہبر انقلاب کے نمائندہ حجت الاسلام موسوی مقدم نے گلزار شہداء، بہشت زہراؑ تہران میں پڑھ کر سنایا۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم
اس سال مختلف مقامات پر اسلامی مزاحمت کی راہ پر چلنے والی سرکردہ شخصیات اور بہادر جوانوں کی شہادت کی بدولت ہفتہ دفاع مقدس ایک نئی جہت اختیار کرچکا ہے۔ شہادت جہاد کا صلہ و ثمر ہے، چاہے 8 سالہ دفاع میں، 12 روزہ جنگ ہو یا لبنان، غزہ اور فلسطین میں جدوجہد، قومیں انہی کاوشوں سے ارتقا پاتی اور انہی شہادتوں سے جلا حاصل کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ حق کی فتح اور باطل کے زوال کے بارے میں خدائی وعدے پر یقین رکھیں اور خدا کے دین کی نصرت کے لئے اپنے فریضے کو انجام دیتے رہیں۔
سید علی خامنہ ای
2 مہر 1404
 
 
 

مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۞ "مومنوں میں کچھ ایسے (ہمت والے) مرد ہیں، جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر پوری کردی اور ان میں سے بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنے وعدہ میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔" وہ جب گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ وارث منبر سلونی کی صدا ہے، جو دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کے الفاظ، ان کا انداز، ان کی حرکیات، ان کے گفتگو کے اشارے ہر ایک تو بغور دیکھے، سمجھے جاتے اور ان کے مطالب نکالے جاتے، ان کی تشریحات کی جاتیں، ان کی ہر ایک بات، ہر ایک جملہ کی تفسیریں کی جاتیں۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے گریہ کی کیفیت میں دکھائی دیتے، جبکہ ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر ان کا آنسو بہانا شاید بہت سوں کے نزدیک دشمن کو خوش کرنے کا موقع دینا سمجھا جاتا ہے، مگر یہ ان کی فکر باطل ہے، اس لیے کہ وہ جن کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے تھے، وہ خود کئی ایک بار شہدائے کربلا کا تذکرہ گریہ کیساتھ کرتے اور سنتے ہیں۔

ان کی شخصیت کا اس سے بڑا اثر اور کیا ہو کہ وہ دنیا میں رہبر معظم امام خامنہ ای کے بعد دوسری شخصیت تھے، جن کے الفاظ کی قدر، ان کی منزلت، ان کی ارزش، ان کی اہمیت اور اثر پذیری تھی۔ ایسی ہی اثرپذیری و صداقت و سچائی جیسی ولی امر المسلمین کے الفاظ کی ہے، وہ ولی امر المسلمین کی طرح ایک آس تھے، ایک امید تھے، ایک اعتماد تھے، ایک آسرا تھے۔۔۔ جن لوگوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی۔۔۔ کیساتھ کام کیا ہے، ان سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس دور کو یاد کریں تو میری اس بات کو بخوبی سمجھ اور درک کرسکتے ہیں۔ شہید مقاومت کی شخصیت پوری دنیا کے مقاومین کیلئے ایک اعتماد، ایک قرار، ایک امید، ایک یقین کی مانند تھی۔ اللہ نے انہیں جو عزت و شرف عطا کیا تھا، وہ کسی اور کے حصہ میں شاید ہی آئے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ" ﴿۲۹﴾انفال "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"

سید حسن نصراللہ نے اپنا عہد نبھایا، وہ عہد نبھانے والوں میں سے تھے، ان کا خالص ہونا، وہ تقویٰ کی اس منزل پہ فائز تھے، جہاں پر اللہ کریم اپنے متقی بندوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز، یعنی غلط و صحیح کا ادراک۔ لوگ ساری عمر گزار دیتے ہیں اور انہیں حق کے رستے کی پہچان و معرفت نہیں ہوتی، وہ اس راستے کی نا فقط معرفت رکھتے تھے بلکہ اس پر گامزن تھے اور اسی کے داعی تھے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر تقریر، ہر خطاب میں ولایت فقیہ کا درس، اس سے تمسک، اس سے توسل اور اس سے برملا مرتبط ہونا ظاہر ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں بلکہ ولی فقیہ کے اختیارات، ان کے مختلف ایشوز پر انہیں مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ سید مقاومت ایسے نا تھے، وہ ولی امر المسلمین کے مطیع تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت اور لبنانی قوم کو جس مقام پر پہنچایا، اس کی بدولت انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

بلا شبہ ان کی قربانی اہل فلسطین کیلئے تھی، وہ ہمیشہ ارض مقدس فلسطین کی ناجائز قابض اسرائیل سے آزادی کے متمنی اور اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے تھے اور اسی پر گامزن تھے۔ جو شخص اسرائیل، جسے دنیا ایک عالمی طاقتور فوجی ریاست سمجھتی ہے، جس کے سامنے عرب و عجم لیٹ چکے ہوں، اس کی حیثیت مکڑی کے کمزور جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کو عملی طور پر سید نے ثابت بھی کیا۔ کئی ایک ایسے مواقع ان کی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب انہوں نے اپنے اس خیال و قول کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ بالخصوص قیدیوں کی رہائی کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے وقت تو اسرائیل کی بے بسی کا تماشا بارہا دیکھا گیا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی عجیب شخصیت تھی کہ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نا تھے، مگر جب ان کا بیروت میں خطاب ہونا ہوتا تو اعلیٰ حکومتی عہدیدار، بعض ممالک کے سفیر، دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ و سیاسی شخصیات فرنٹ لائن میں تشریف فرما ہوتے۔ در حالی کہ یہ خطاب اکثر اوقات کسی خفیہ مقام سے لائیو ہوتا تھا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہو کس قدر موثر و موثق تھے۔سید حسن نصراللہ شہید جنہیں آج بھی شہید لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے، عالم جوانی میں جب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، تب سے وہ اسرائیل و معاون ممالک و ایجنسیز کے نشانہ پر تھے۔ اللہ نے انہیں بارہا قاتلانہ حملوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد و شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کیلئے شہادت کا تاج سر پر سجانا ہمیشہ زندگی کا اولین مقصد و خواہش ہوتی ہے۔ اس راہ کے راہی اس کیلئے تڑپتے ہیں، دعا و مناجات کرتے ہیں۔ نا وہ گھبراتے ہیں، نا ڈرتے ہیں، نا راستہ سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصیات کا چلے جانا تحریکوں، تنظیموں اور انقلابوں کیلئے کسی بھی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بعض شخصیات اس مقام و منزلت پر فائز ہوتی ہیں کہ ان کا وجود مبارک ہی بہت سی برکات و الطاف الہیٰ کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا نورانی وجود ہر ہر لمحہ تاریک راہوں میں روشن دیئے کی مانند راستہ بھٹکنے سے بچاتا ہے۔

سید حسن نصراللہ شہید کیلئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سب راہ استقامت، راہ القدس، راہ مقاومت کے راہی ان کے قدموں کے نشانوں پر چلتے ہوئے تاریک راستوں میں چل رہے تھے کہ ان کے وجود کو ناپید پایا ہے۔ ایک بار تو ہمیں ایسا لگا کہ منزل کھو دینگے، راستہ سے بھٹک جائیں گے، تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں مارتے مارتے ہمیں قرآن مجید کی آیہ مبارکہ کانوں میں پڑتی ہے۔ فرمان الہیٰ ہے: "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ" ﴿۳۲﴾ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا، مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔" اور پھر دوسری آیہ کریمہ۔۔ "وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏"، "اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (سورہ آل عمران) اور یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔۔
قتل کرنا سہل سمجھے ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے، دو عالم خوں بہا ہو جائے گا

بھلا کربلا کے اس حقیقی وارث کے جسم پر ٹنوں کے حساب سے بارود ڈالنے سے کیا ان کو دفن کرسکے ہیں، ہرگز نہیں، جس شان کے ساتھ سید کا جنازہ اٹھا، جس عظمت و سربلندی کیساتھ انہیں رخصت کیا گیا، جس محبت کیساتھ ان کی تدفین و تشیع ہوئی، بھلا وہ کسی کو نصیب ہوئی ہے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 ہندوستانی حکام نے ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کی ریفائنریوں کی جانب سے روسی تیل کی درآمد میں نمایاں کمی کی وجہ سے  واشنگٹن  کی یہ ذمہ داری ہے کہ  وہ نئی دہلی کو ایران اور وینزویلا سے خام تیل خریدنے کی اجازت دے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک باخبر ذریعہ نے بلومبرگ کو بتایا کہ اس ہفتے امریکہ کا دورہ کرنے والے ہندوستانی وفد نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اس درخواست کو دہرایا۔

باخبر ذرائع کے مطابق، ہندوستانی وفد نے زور دیا ہے کہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک  روس، ایران اور وینزویلا سے ہندوستانی ریفائنریوں کو تیل کی فراہمی ایک ساتھ بند ہونے سے  تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب روسی تیل کی خریداری پر گزشتہ چند مہینوں میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور واشنگٹن کا الزام ہے کہ دہلی حکومت ، روس سے تیل خرید کرکے  یوکرین جنگ  اس کا ساتھ دے رہی ہے۔

ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔
     

12 اگست 2025 کو صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا ایک انٹرویو آئی-24 نیٹ ورک پر نشر ہوا جس میں انھوں نے واضح طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خیال کا ذکر کیا اور اسے اپنا روحانی اور تاریخی مشن قرار دیا۔ یہ واضح بیان درحقیقت مزاحمت کے حامیوں کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے کہ صیہونی حکومت زمینی اور سیکورٹی کی توسیع کے درپے ہے اور یہ توسیع محض 1948 اور 1967 کے مقبوضہ علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے جبک کئی عرب اور غیر عرب گروہ اور ممالک دو ریاستی حل اور صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے خیال کے حامی ہیں تاکہ مغربی ایشیا کے خطے میں ثبات و استحکام پیدا ہو سکے اور وہ اس بنیاد پر مزاحمت کو خطے کے لیے ایک مہنگی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس معاملے کی صحیح سمجھ، خطے کے حالات کے زیادہ درست تجزیے پر منتج ہو سکتی ہے۔

'گریٹر اسرائیل' کا خیال ایک مرکزی نظریے کے طور پر، اسرائیل کی زمینی توسیع پسندی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیال، جس کی جڑیں "ارض اسرائیل" (سرزمین اسرائیل) کے تصور کی غلط مذہبی اور تاریخی تشریحوں میں پیوست ہیں، توسیع پسندی کے دائرۂ کار اور جغرافیا کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اس خیال کی ترویج کرنے والے، پیدائش، اعداد، تثنیہ اور حزقیایل جیسی کتابوں کے حوالوں کی بنیاد پر نیل سے فرات تک کے علاقوں پر دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نظریاتی تناظر، توسیع پسندانہ اقدامات کو روحانی اور تاریخی جواز فراہم کرتا ہے اور اسے ایک خالص سیاسی پروگرام سے ایک تشخصی مشن میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مغرب، یہاں تک کہ عالم اسلام کی بیشتر تحریروں میں اس بات کی کوشش کی گئي ہے کہ اس نظریے کو دائیں بازو کے انتہا پسند صیہونی دھڑوں سے جوڑا جائے جو صیہونی حکومت کے سیاسی اقتدار پر حاکم اصل دھڑے سے الگ ہیں۔ تاہم اگر بغور دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ اسرائیل کے اسٹریٹجک فیصلوں اور عملی اقدامات کا محرّک رہا ہے۔ اسی سوچ کے ذریعے عسکریت پسندی، وسیع پیمانے پر سیکورٹی اداروں کی تشکیل، مختلف طرح کے سیکورٹی بفر زونز کی تعمیر، علاقائی سیکورٹی آرڈرز کی تشکیل، صیہونی کالونیوں کی تعمیر اور مقبوضہ علاقوں پر فوجی کنٹرول جیسی پالیسیوں کو نہ صرف جائز ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کی راہ میں ضروری قدم قرار دیا جاتا ہے۔

اس نظریے کی حامل جماعتیں اور تحریکیں اسے سرکاری پالیسی میں تبدیل کر کے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سیاسی عزم فراہم کرتی ہیں اور اسے زمین پر ناقابل تردید آبادیاتی اور جغرافیائی حقائق کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ یقیناً یہ نقطۂ نظر زیادہ عمیق اور گہرا ہے اور گریٹر اسرائیل کے نظریے کو محض انتہا پسند اور ذیلی گروہوں سے متعلق سمجھنا ایک سطحی اور گمراہ کن تجزیہ ہے جو زمینی حقائق اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 27 مارچ 1992 کو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں فرمایا: "صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے 'نیل سے فرات تک' کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں! البتہ، صیہونیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے دھوکے اور مکر و فریب سے اپنے قدم مضبوط کریں اور جب ان کا قدم جم جائے تو دباؤ، حملے، قتل و غارت اور تشدد کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھیں! جب بھی ان کا سامنا کسی سنجیدہ مقابلے سے ہوتا ہے، خواہ وہ سیاسی مقابلہ ہو یا فوجی تو وہ رک جاتے ہیں اور دوبارہ فریب اور سازش کی راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مکر کے ذریعے ایک قدم اور آگے بڑھ سکیں! جب وہ ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں تو دوبارہ وہی دباؤ اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو وہ ساٹھ ستر سال سے آج تک کرتے آ رہے ہیں۔"

اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صیہونی حکومت کے اقدامات

یہ نظریہ، چاہے خفیہ اور چاہے اعلانیہ، صیہونزم کی اسٹریٹیجی پر حاکم ایک بڑے نظریے میں تبدیل ہو چکا ہے جو اس حکومت کے اصل سیاسی اور عسکری دھڑوں کے اقدامات کا تعین کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں کو اس کے مصادیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

  1. سرکاری عہدے داروں کے بیانات: نیتن یاہو کے علاوہ دیگر سرکاری عہدے داروں نے بھی گریٹر اسرائیل کے بارے میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں سب سے اہم بن گورین کا بیان ہے۔ اس حکومت کے بانی اور پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کا، اپنے بیٹے آموس کو 5 اکتوبر 1937ء کو پیئل کانفرنس کے بعد لکھا گیا خط سب سے واضح دستاویزات میں سے ایک ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کا خیال ایک ذیلی آرزو نہیں تھی بلکہ شروع ہی سے صیہونی منصوبے کے اصل معماروں کے ذہنوں میں موجود ایک منصوبہ تھا جس نے ان کے روڈ میپ کو طے کر دیا تھا۔ بن گورین نے اس خط میں لکھا تھا: "(پیئل کمیشن کی تجویز کے مطابق) ایک جزوی یہودی ریاست، ہماری منزل نہیں ہے، بلکہ اس راہ کا محض آغاز ہے ... ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور طاقت میں کسی بھی طرح کا اضافہ، پوری سرزمین کو اپنی ملکیت میں لینے میں ہماری مدد کرے گا ... ہم (سرحدوں کی) تقسیم کا خاتمہ اور پورے فلسطین میں اپنا پھیلاؤ بند نہیں کریں گے۔"

ایہود اولمرٹ نے بھی 29 مارچ 2006 کو الیکشن کے بعد کھل کر کہا تھا: "ہزاروں سال سے ہم گریٹر اسرائیل کے خواب کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ سرزمین ہمیشہ کے لیے، اپنی تاریخی سرحدوں کے ساتھ ہماری روح کے ساتھ جڑی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اپنے دلوں کو ان جگہوں سے جدا نہیں کریں گے جو ہماری ثقافت کا گہوارہ ہیں اور جہاں سے ایک قوم کے طور پر ہماری سب سے قیمتی یادیں وابستہ ہیں۔"

ان بیانوں سے پتہ چلتا کہ صیہونی حکومت کے سرغنہ، چاہے ان کی سیاسی اور مذہبی سوچ جیسی بھی ہو، آخر کار گریٹر اسرائیل کے خیال کو خطے پر تسلط کے لیے یہودیوں کے بڑے نظریے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا دعویٰ صیہونیوں کے درمیان کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے۔

  1. فلسطینی علاقوں کو صیہونی حکومت میں ضم کرنے کے منصوبے: غرب اردن اور جولان کی پہاڑیوں کو 55 سال سے زیادہ عرصے سے غاصبانہ فوجی قبضے میں باقی رکھنا اور انھیں سرکاری طور پر باقاعدہ ضم کرنے کی کوششیں اس بات کی گواہ ہیں۔ یہ غاصبانہ قبضہ صرف ایک عارضی سیکورٹی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زمین، وسائل (خاص طور پر پانی) اور لوگوں پر کنٹرول کا ایک انٹگریٹیڈ سسٹم ہے جو صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ منصوبے کو نافذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیبر پارٹی کے ایک اہم وزیر، یگال آلون نے 1967 کی جنگ کے فوراً بعد غرب اردن کو اسرائيل میں شامل کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت وادئ اردن کو "اسرائیل کی سلامتی کی سرحد" کے طور پر مستقل طور پر اسرائیل کی سرزمین میں شامل کیا جانا تھا۔ اسٹریٹیجک زاویے سے یہ وادی، مشرق اور بین النہرین (موجودہ عراق) کی طرف پہلا قدم سمجھی جاتی تھی۔
  2. عسکری اور سیکورٹی اقدامات: علاقائی توسیع والے فوجی اور سیکورٹی اقدامات، جیسے 1956 اور 1967 کی جنگوں میں صحرائے سینا پر غاصبانہ قبضے کے لیے سیکورٹی اقدامات اور شام میں "ڈیوڈ کوریڈور" بنانے کے لیے فوجی کارروائیاں، 'نیل سے فرات تک' کے ہدف کو عملی شکل دینے کے سب سے واضح اقدامات سمجھے جا سکتے ہیں۔
  3. صیہونی کالونیوں کی تعمیر: صیہونی حکومت میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کو تمام پارٹیوں سے بالاتر ایک قومی منصوبے کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ دائیں بازو کی جماعتیں ان کالونیوں کی سب سے زیادہ تشہیر کرتی ہیں لیکن غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر "بائیں بازو" یا لیبر پارٹی جیسی نام نہاد "اعتدال پسند" جماعتوں کے برسر اقتدار ہونے کے زمانے میں بھی وسیع پیمانے پر جاری رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 1967 کی جنگ کے بعد صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی سب سے بڑی لہر لیبر پارٹی کی لوئی اشکول حکومت کے دور میں شروع ہوئی۔ اسحاق رابین، جو بظاہر امن پسند شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، خود کئی صیہونی کالونیوں کے بانیوں میں سے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی کالونیوں کی تعمیر، جغرافیائی اور آبادیاتی حقائق کو بدلنے اور "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کو تدریجی طور پر آگے بڑھانے کا ایک اسٹریٹیجک ذریعہ ہے، چاہے حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔

گریٹر اسرائيل کے نظریے کے ممکنہ نتائج

اگر "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا گیا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی گئی تو یہ علاقائی اور اسلامی اور عرب ممالک میں داخلی سطح پر بحرانوں اور چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہیں:

  1. خطے کے حقائق پر مبنی علاقائی سسٹمز کی تباہی: اس نظریے کے عملی جامہ پہننے کا مطلب موجودہ سرحدوں اور متعدد ممالک کی قومی خودمختاری پر اثرانداز ہونا ہے جن میں فلسطین، اردن، شام، لبنان اور مصر اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ صورتحال خطے کو عدم تحفظ کے ایک مستقل گرداب میں دھکیل دے گی اور ایران اور ترکی جیسے اطراف کے علاقے وسیع پیمانے پر غیر ملکی مداخلت میں گھر جائیں گے۔ اس منصوبے کا نفاذ خطے کے تمام ممالک اور یہاں تک کہ عالمی طاقتوں کی بلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے آغاز کے مترادف ہوگا۔
  2. عدم استحکام میں اضافہ: 'گریٹر اسرائيل' کے نظریے کے عملی جامہ پہننے کا کم ترین اثر اطراف کے ممالک کی خودمختاری کی کمزوری کی شکل میں سامنے آئے گا۔ قومی حکومتوں کا خاتمہ اور ان کی جگہ صیہونیوں کے پٹھو افراد کا آنا اقتدار میں شدید خلا پیدا کرے گا۔ اس کے نتیجے میں داخلی جھڑپیں، بغاوتیں اور نسلی و مذہبی جنگیں ہوں گی جن کا محور ملک کے اندر اور ملک کے باہر کی قوتوں کے نیٹ ورک ہوں گے۔
  3. انسانی المیہ: اس منصوبے کے عملی جامہ پہننے کے لیے نسلی تصفیے، جبری جلا وطنی اور نسل کشی کی ضرورت ہوگی جو، اس وقت جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگی۔ یہ چیز دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دے گی۔ اس سے پناہ گزینوں اور آوارہ وطنوں کا ایک عظیم سیلاب آ جائے گا جو نہ صرف خطے بلکہ یورپ اور پوری دنیا کو ایک عدیم المثال بحران سے دوچار کر دے گا۔
  4. ثقافتی ورثے کی تباہی: گریٹر اسرائيل کا منصوبہ خطے کے سب سے مالامال ثقافتی ورثے اور قدیم تمدنوں کے خاتمے کا باعث بنے گا اور قوموں کی تاریخی شناخت مٹا دے گا۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر کی گئی تحریفوں کو پیش کیا جا سکتا۔

کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ نظریہ، جس کی صیہونی حکام نے واشگاف لفظوں میں تایید کی ہے، علاقائی سسٹمز کی تباہی، انسانی المیے اور ثقافتی ورثے کی نابودی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ بنابریں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔

 

تحریر: حسین آجر لو، بین الاقوامی روابط کے محقق

رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 23 ستمبر 2025 کی رات عوام سے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم کی وحدت و یکجہتی، یورینیم کی افزودگي کی اہمیت، امریکا کی دھمکیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم اور نظام کے مضبوط اور عاقلانہ موقف جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی۔
     

انھوں نے اپنے خطاب کے ابتدائي حصے میں زراعت، صنعت، ماحولیات، قدرتی ذخائر، حفظان صحت، علاج، غذائی اشیاء اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں افزودہ یورینیم کے گوناگوں استعمال کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے ملک میں یورینیم کی افزودگي کی صنعت کے بارے میں بتایا کہ ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی اور دوسرے ممالک بھی ہماری ضرورتیں پوری نہیں کر رہے تھے، اسی لیے کچھ باحوصلہ عہدیداروں اور سائنسدانوں کی کوششوں سے تیس پینتیس سال قبل ہم نے اس راہ پر قدم بڑھائے اور اس وقت ہم اعلی سطح پر یورینیم کی افزودگی کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بعض ممالک کی جانب سے یورینیم کی 90 فیصد تک افزودگي کا مقصد، ایٹمی ہتھیار بنانا بتایا اور کہا کہ چونکہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہے اور ہم نے اس ہتھیار کو نہ بنانے اور نہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے ہم نے یورینیم کی 60 فیصد تک افزودگي کی جو بہت عمدہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران، دنیا کے 200 سے زیادہ ملکوں کے درمیان یورینیم کی افزودگي کی صنعت رکھنے والے دس ممالک میں سے ایک ہے اور اس پیشرفتہ ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے علاوہ ہمارے سائنسدانوں کا ایک اہم کام، افراد کی ٹریننگ بھی رہا ہے چنانچہ آج دسیوں ممتاز سائنسداں اور پروفیسر، تحقیق میں مصروف سیکڑوں اسٹوڈنٹس اور ایٹمی موضوع سے جڑے ہوئے سبجیکٹس میں ہزاروں تعلیم یافتہ افراد کام میں مصروف ہیں اور مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور دشمن کو لگتا ہے کہ بعض تنصیبات پر بمباری کر نے یا بمباری کی دھمکی دینے سے یہ ٹیکنالوجی ایران سے ختم ہو جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے اور یورینیم کی افزودگی ختم کر دینے کے لیے منہ زور طاقتوں کے کئي عشروں کے دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یورینیم کی افزودگي کے معاملے میں نہ جھکے تھے اور نہ جھکیں گے اور کسی دوسرے معاملے میں بھی ہم دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی پہلے کہتے تھے کہ آپ کو یورینیم کو اونچی سطح پر افزودہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے افزودہ یورینیم کو ایران کے باہر منتقل کر دینا چاہیے تاہم اب وہ اس بات پر بضد ہیں کہ آپ کو یورینیم کی افزودگی کرنی ہی نہیں چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس منہ زوری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس عظیم کارنامے کو جو بہت زیادہ سرمایہ کاری اور مسلسل کوششوں سے حاصل ہوا ہے، نابود کر دیجیے لیکن ایران کی غیور قوم، ہرگز اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی اور ایسا کہنے والے کے منہ پر تھپڑ رسید کرے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فریق نے اپنی رائے کے مطابق پہلے ہی مذاکرات کے نتائج کو طے کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جن کا نتیجہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں اور ایران کے اندر یورینیم کی افزودگي کے بند ہونے کی صورت میں نکلے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب فریق مقابل کے ڈکٹیشن، مطالبات تھوپنے اور منہ زوری کو تسلیم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے یورینیم کی افزودگي بند کرنے کی بات کہی ہے لیکن ایک امریکی عہدیدار نے کچھ روز قبل کہا ہے کہ ایران کے پاس میڈیم اور شارٹ رینج کے میزائیل بھی نہیں ہونے چاہیے، مطلب یہ کہ ایران کے ہاتھ اس طرح باندھ دیے جائیں کہ اگر اس کے خلاف جارحیت ہو تو وہ امریکیوں کے اڈے پر بھی جوابی حملہ نہ کر سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی عہدیداروں کی اس طرح کی توقع اور بیانات کو، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ان کی عدم شناخت اور ایران اسلامی کے فلسفے، بنیاد اور روش سے ان کی لاعلمی کی نشانی بتایا اور کہا کہ اس طرح کی باتیں، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہیں اور ان کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔

انھوں نے امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کے بعد اس کے نقصانات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ فریق مقابل نے دھمکی دی کہ اگر آپ نے مذاکرات نہ کیے تو ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے، بنابریں اس طرح کے مذاکرات کو ماننے کا مطلب، دھمکی سے مرعوب ہو جانا، خوفزدہ ہو جانا اور دھمکی کے مقابلے میں ایران اور ایرانی قوم کا گھٹنے ٹیک دینا ہے۔ انھوں نے امریکا کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کو، اس کے منہ زوری پر مبنی اور کبھی نہ ختم ہونے والے مطالبات کے جاری رہنے کا سبب بتایا اور کہا کہ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے یورینیم کی افزودگی کی تو ہم ایسا اور ویسا کر دیں گے اور کل وہ میزائيل رکھنے یا فلاں ملک سے تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کو دھمکی دینے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کا بہانہ بنائيں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ کوئي بھی عزت دار اور غیرت مند قوم، دھمکی کے ساتھ مذاکرات کو تسلیم نہیں کرے گی اور کوئي بھی عقلمند سیاستداں اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔ انھوں نے فریق مقابل کی جانب سے اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے کی صورت میں پوائنٹس دینے کے وعدے کو جھوٹ بتایا اور ایٹمی معاہدے (JCPOA) کے تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دس سال پہلے امریکیوں سے ایک معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر ایٹمی بجلی پیدا کرنے والا ایک مرکز بند کیا جائے اور افزودہ یورینیم ملک سے باہر بھیجا جائے یا رقیق کر دیا جائے تاکہ اس کے عوض پابندیاں اٹھا لی جائيں اور آئي اے ای اے میں ایران کا مسئلہ معمول کی حالت پر آ جائے تاہم آج دس سال پورے ہونے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ہمارا ایٹمی مسئلہ معمول پر نہیں آیا ہے بلکہ آئی اے ای اے اور سلامتی کونسل میں اس کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

انھوں نے تجربات کو فراموش نہ کیے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ فی الحال میں یورپ کے ساتھ کوئي مسئلہ اٹھانا نہیں چاہتا تاہم فریق مقابل یعنی امریکا نے ہر معاملے میں وعدہ خلافی کی ہے، وہ جھوٹ بولتا ہے اور کبھی کبھی فوجی دھمکی بھی دیتا ہے اور اگر اس کا بس چلتا ہے تو وہ عزیز قاسم سلیمانی جیسی ہماری شخصیات کو قتل کر دیتا ہے یا ہمارے مراکز پر بمباری کرتا ہے۔ کیا ایسے فریق کے ساتھ اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کیے جا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ایٹمی مسئلے اور شاید دیگر مسائل کے لیے امریکا سے مذاکرات، اپنے آپ کو پوری طرح سے بند گلی میں پہنچانا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کو اس کے موجودہ صدر کے لیے مفید اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان کی دھمکیوں کے کارگر ہونے کی بات کے پرچار کا ذریعہ بتایا۔ انھوں نے ملک کے علاج اور اس کی پیشرفت کی واحد راہ، سبھی عسکری، علمی و سائنسی، سرکاری اور انفراسٹرکچر کے میدانوں میں مضبوطی بتایا اور کہا کہ مضبوط اور طاقتور ہونے کی صورت میں فریق مقابل دھمکی تک نہیں دیتا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں قوم کے اتحاد کو بارہ روزہ جنگ میں دشمن کی مایوسی کا اصل سبب بتایا اور کہا کہ کمانڈروں اور بعض دیگر بااثر شخصیات کا قتل، ایک وسیلہ تھا تاکہ دشمن ملک میں اور خاص طور پر تہران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہنگامے اور آشوب شروع کر دے اور ملک کے امور کو مختل کر کے نظام کو نشانہ بنائے اور اگلی سازشوں کے تحت اس ملک سے اسلام کا ہی خاتمہ کر دے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے شہید کمانڈروں کے جانشینوں کو فوری طور پر منصوب کیے جانے، مسلح فورسز کے استحکام اور قوی جذبہ اور نظم و نسق کے ساتھ ملک کا انتظام چلائے جانے کو دشمن کی شکست کے مؤثر عناصر میں شمار کیا تاہم اس بات پر زور دیا کہ قوم کی وحدت و یکجہتی، دشمن کی ناکامی کا سب سے مؤثر عنصر تھی۔ انھوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ فیصلہ کن اتحاد، بدستور باقی ہے اور بہت مؤثر ہے۔

انھوں نے اس وقت کے ایران کو، رواں سال کے تیرہ اور چودہ جون کا ایران بتایا اور کہا کہ ان دنوں لوگوں سے بھری سڑکیں اور صیہون ملعون اور مجرم امریکا کے خلاف فلک شگاف نعرے قوم کی وحدت و یکجہتی کے عکاس تھے اور یہ اتحاد بدستور قائم ہے اور قائم رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں شہید سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس عظیم مجاہد کو عالم اسلام، تشیع اور لبنان کے لیے ایک بے پایاں ثروت بتایا اور کہا کہ حزب اللہ سمیت جو ثروت سید حسن نصر اللہ نے تیار کی وہ باقی ہے اور اس اہم ثروت کی جانب سے لبنان اور دوسری جگہوں پر غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر آرمی ہیڈ کوارٹرز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل محمد پاکپور سے ملاقات کے دوران کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی جارحیت کی صورت میں دشمن کو ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جوان  مشترکہ، فوری، اسمارٹ اور طاقتور جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بری فوج کے سربراہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور پاسداران انقلاب اسلامی کے درمیان موجود اتحاد اور ہم آہنگی قومی سلامتی کا ایک ٹھوس ستون ہے اور فتح کی کلید ہے۔


دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ یورپی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے کو خون میں نہلا دیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساحلوں سے لے کر شہروں کے قلب تک لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ہر طرف آگ اور خون کا بازار گرم تھا، لیکن اس تباہی کے باوجود انسانیت کے دشمن مطمئن نہ تھے۔ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن چکے تھے، مگر جنگی جنون رکھنے والے افراد پلک جھپکنے میں لاکھوں اور انسانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ اور جرمنی دونوں ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے۔ دونوں جانب جان لیا گیا تھا کہ جو فریق یہ ہلاکت خیز ہتھیار پہلے بنائے گا اور استعمال کرے گا، وہی اس جنگ کا فاتح ٹھرے گا۔

ہٹلر کی نگاہوں میں جرمنی کے یہودی دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں  ۳ جون ۱۹۳۳ء کو ۲۶ ممتاز جرمن سائنسدانوں میں سے ۱۴ نے ملک چھوڑ دیا۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں ایٹمی تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ٹیم میں میکس بورن، جیمز فرانک، ماریا گوپرٹ مایر اور دیگر اہم سائنسدان شامل تھے۔ یوں دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کو کامیاب بنانے اور عالمی طاقت بنانے میں ان سائنسدانوں، خصوصاً یہودی سائنسدانوں  کا اہم کردار رہا۔ جرمنی سے ہجرت کرنے والے بعض یہودی سائنسدان برطانیہ اور بعض فرانس چلے گئے۔ یہودی سائنسدانوں کی اس خدمات  اور اتحاد   کا اثر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب، ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں فزکس کے ممتاز سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد، ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے لاکھوں جاپانی شہری لقمہ اجل بنے اور پورا شہر تباہ ہوگیا۔ تین دن بعد، ۹ اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا، جس نے مزید لاکھوں جانیں لیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اب تک تیس کے قریب ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، اور آج خود کو "عالمی امن کا علمبردار" قرار دیتا ہے جبکہ امن عالم کو انہیں سے سب سے ذیادہ خطرہ رہا ہے اور رہے گا۔

امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ وقت ہے کہ عالمی برادری جاگے، اس سے پہلے کہ سب کچھ کچلا جائے۔ امریکہ و اسرائیل عالمی قوانین کی سب سے ذیادہ خلاف ورزی کرنے والے لاپرواہ  ممالک ہیں۔

دونوں ممالک خود کئی ایٹم بم بنا رکھے ہیں اور ایٹم بم سمیت انتہائی کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کر کے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام اور حق قبول نہیں ہے۔ آج سے سات سال قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں یہ رپورٹ عام تھی جس کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد ۹ ہے، جن کے پاس مجموعی طور پر ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق: امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں، جن کی تعداد بالترتیب تقریباً ۳۳۰ سے زائد ہے۔ چین کے پاس تقریباً ۲۸۰، برطانیہ کے پاس ۲۲۵ کے قریب، پاکستان کے پاس ۱۵۰ کے لگ بھگ، بھارت کے پاس ۱۴۰ کے قریب، شمالی کوریا کے پاس ۳۰ سے ۴۰، اسرائیل کے پاس بھی تقریباً ۴۰ سے ۹۰ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

پاکستان، ایران اور دیگر ۳۵ ممالک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے رکن ہیں، جو عالمی قوانین کے مطابق اپنی جوہری پالیسیز کو پُرامن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف IAEA کا رکن نہیں ہے، بلکہ اُس پر کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ظاہر کرے یا پُرامن رویہ اختیار کرے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ چاہے غزہ پر حملہ کرے یا شام و لبنان اور یمن پر، کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دوسری طرف ایران، جو IAEA کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲ جون کو امریکہ نے IAEA میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو "دنیا کے لیے خطرہ" قرار دیا گیا۔ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان پر بھی ایران کے خلاف ووٹ دینے کے لیے شدید دباؤ تھا، تاہم پاکستان نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے شماری میں شرکت نہ کرنے کو مناسب سمجھا۔

امریکہ، مغربی طاقتوں اور بعض مسلم ممالک کے دباؤ کے باوجود پاکستان کا مؤقف اس موقع پر نہایت متوازن، حقیقت پسندانہ اور باوقار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے اور شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ جون کو امریکی قرار داد کے بعد، اسرائیل نے رات کی تاریکی میں ایران پر ایک بڑا حملہ کیا۔ داخلی و خارجی حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ پوری طاقت سے جواب دینا بھی شروع کر دیا۔ دنیا اس وقت حیران ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بیلسٹک میزائل، ہائپرسونک میزائلز اور کروز میزائلز کس طرح امریکی، برطانوی، اردنی اور فرانسیسی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا مشہور دفاعی نظام آئرن ڈوم بھی کئی مرتبہ مکمل ناکام ہوا، اور ایران نے تل ابیب اور حیفا جیسے شہروں میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔

یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ بعض دعووں کے مطابق متعدد F-35 جیسے جدید جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں البتہ اس کی ابھی تک باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی و اسرائیلی ڈرونز کو گرانا ایرانی دفاعی نظام کے لیے اب معمول بن چکا ہے۔ اب تو ڈرون حملا کرنا اور دشمن کا ڈرون گرانا یمنیوں کا معمول بن چکا ہے۔ ان تمام صورت حال میں، امریکہ جو خود کو عالمی امن کا محافظ کہتا ہے، اس جنگ میں براہِ راست شامل ہوچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس تنازع کا مرکزی فریق ہے۔ یہ دونوں ممالک، اپنے اقدامات کی بنیاد پر، عالمی سطح پر امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چاہیئے کہ مل کر ان ظالم ملکوں کو لگام دیں اور عملی میدان میں ایران کا ساتھ دیں تاکہ دنیا ایک پرامن جگہ بن سکے اور یہاں سب برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جی سکیں۔

تحریر: محمد بشیر دولتی 

برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا، اور آنے والے وقتوں میں دیگر ممالک بھی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ کربلا فلسطین نے ثابت کر دیا ہے کہ آخر کار خون تلوار پر غالب آ کر رہے گا۔ فلسطینیوں کی مظلومیت نے اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی مسلسل قربانیاں اور مظلومیت نے عالمی سطح پر ایک واضح اثر ڈالا ہے۔ کربلا کی طرح، فلسطین سے اٹھنے والی آواز اور ان کی فریاد نے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ طاقتور ہونے کے باوجود بھی جارحانہ اقدامات کے خلاف مظلومیت کی صدا زیادہ اثر ڈال سکتی ہے۔

آج یہ کہنا بجا ہے کہ فلسطینیوں کی قربانی نے اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن اس وقت اس کا مقصد صرف فلسطینیوں کو دبانا نہیں، بلکہ اپنی بقا اور قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت اور شہداء کا خون عالمی سطح پر اسرائیل کی بنیادوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اور آنے والے مستقبل میں اس کے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔

تاریخی حقیقت
تاریخی زاویے سے دیکھا جائے تو فلسطینیوں کی مظلومیت اور قربانیاں وہ عنصر ہیں جنہوں نے اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ اور جواز کو کمزور کیا ہے۔ فلسطینی عوام نے اپنی مظلومیت کے ذریعے عالمی توجہ حاصل کی، جس نے اسرائیل کی فوجی طاقت کے باوجود دنیا میں اس کے خلاف رائے قائم کی۔ ہر نئی جنگ اور ہر انسانی نقصان عالمی میڈیا اور عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف دلیل بنتا ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا بھی اسی مظلومیت کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔

اسرائیل کے وجود پر اثر
اسرائیل کی طاقت کا اصل ستون مغرب کی اخلاقی اور سیاسی حمایت تھی، لیکن فلسطینی مظلومیت نے اس جواز کو کمزور کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل اپنی legitimacy (قانونی و اخلاقی حیثیت) کیسے برقرار رکھے گا، نہ کہ یہ کہ فلسطین وجود میں آئے گا یا نہیں۔ بین الاقوامی عدالتیں اور مغربی پارلیمانیں اسرائیل کے خلاف کھڑی ہو چکی ہیں، اور یہ اسرائیل کی بنیادوں کو عالمی سطح پر چیلنج کر رہی ہیں۔

فلسطینی مظلومیت اور مزاحمت نے اسرائیل کے وجود پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ یہ دباؤ فوجی سطح پر نہیں، بلکہ سفارتی، اخلاقی اور قانونی سطح پر زیادہ ہے۔ اسرائیل جتنا زیادہ طاقت کے ذریعے فلسطین کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اپنی بین الاقوامی ساکھ کو کمزور کرتا ہے، اور یہی طویل المیعاد بقا کے لیے اصل چیلنج ہے۔ آج فلسطین مظلوم ہے، لیکن اس کی ریاستیت کا تصور عالمی برادری میں مضبوط ہو رہا ہے۔ اسرائیل طاقتور ہے، لیکن اس کے وجود کا اخلاقی اور قانونی جواز کمزور ہو رہا ہے، اور اصل existential crisis (وجودی بحران) اس کے لیے ہے، فلسطین کے لیے نہیں۔ بقول ساحر لدھیانوی:
خون پھر خون ہے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

تحریر: ایس این سبزواری

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا۔ یہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ کل کائنات، جملہ مخلوقات اور ہر عالم پر حضور اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم اہلِ ایمان اس سعادت پر نازاں ہیں کہ ہمیں اُس ہستی کی اُمت میں شامل کیا گیا، جس کے بغیر کائنات کی تکمیل ممکن نہ تھی۔ ان ایام میں جہاں ہم ولادتِ رسول اکرمﷺ کی خوشی مناتے ہیں، وہاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی اسی ہفتے میں آتی ہے، جو اس حقیقت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے کہ میلادِ رسولﷺ کا پیغام دراصل محبت، اخوت اور وحدتِ امت کا پیغام ہے۔ اگر ہم واقعی حضور اکرمﷺ اور اہلِ بیت اطہارؑ کی سیرت کو اپنے عمل کا حصہ بنا لیں تو ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔

افسوس کہ آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اونچے طاقوں میں رکھ کر صرف تبرک سمجھ لیا اور نبی کریمﷺ کی سیرت کو جذباتی وابستگی تک محدود کر دیا۔ حالانکہ اصل محبت یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ نبی پاکﷺ کیساتھ حقیقی تعلق یہ ہے کہ ان کے فرامین کو زندگی کا عملی حصہ بنایا جائے۔ جھوٹ، ناانصافی، بے نمازی، دھوکہ دہی اور ظلم، یہ سب نافرمانیاں دراصل حضورﷺ کی تعلیمات سے انحراف ہیں اور یہی ان کی خوشنودی سے محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ ان مبارک دنوں میں جب ہم درود و سلام کی محافل اور نعتیہ اجتماعات دیکھتے ہیں تو دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور وحدت کا منظر روح کو مسرت بخشتا ہے۔ اگرچہ رسول اکرمﷺ کی تاریخِ ولادت کے تعین میں اُمت میں اختلاف موجود ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کے قائل ہیں، لیکن حضرت امام خمینیؒ نے اس اختلاف کو اتحاد میں بدلنے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اس بحث میں نہ الجھیں بلکہ 12 سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو "ہفتۂ وحدت" کے طور پر منائیں۔ یہ تجویز آج عالمِ اسلام کے لیے ایک شاندار عملی نسخہ ہے۔ یہی وہ ایام ہیں، جن میں اُمتِ مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کا حکم واضح ہے: "(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت ڈالو)۔

اس حکم کی روح یہی ہے کہ مسلمان صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اللہ کی رسی کو تھامیں۔ یہی اجتماعی قوت اُمت کا اصل سرمایہ ہے۔ اگر مسلمان واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ فلسطین سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے: "(وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ"، "اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے۔")

اگر آج ہم باوجود وسائل کے کمزور ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں، توکل اور تقویٰ کو اپنا زادِ راہ بنائیں۔ "آئیے اس میلاد النبیﷺ پر عہد کریں کہ ہم قرآن و سیرت کو اپنی اصل طاقت بنائیں گے اور وحدت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے، یہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔" دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے، حضور نبی کریمﷺ کی حقیقی محبت اختیار کرنے اور اُمت کو وحدت کی ڈور میں باندھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

تحریر: شبیر احمد شگری

ایسے وقت جب غزہ کی پٹی انسان سوز محاصرے اور غاصب صیہونی رژیم کی مسلسل بربریت کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے کے دہانے پر کھڑی ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا نے بحیرہ روم میں غزہ کی جانب اپنے تاریخی سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کے لیے غزہ کی جانب رواں کشتیوں کے اس قافلے کو دنیا کے 44 مختلف ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے اہم شخصیات سمیت شہری سوار ہیں۔ یہ ایک عظیم اقدام ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سب سے بڑی سمندری کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ اس بیڑے میں فلسطینیوں کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیاء اور انسانی امداد بھی منتقل کی جا رہی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا درحقیقت دنیا بھر سے ایسے مظلوم فلسطینی عوام کی عوامی حمایت کا اعلان ہے جو گذشتہ 700 سے زائد دنوں سے صیہونی ظلم اور نسل کشی کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 
"صمود" عربی کا لفظ ہے جس کا معنی استقامت اور ثابت قدمی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز یکم ستمبر 2025ء کے روز اسپین کی بندرگاہ بارسلونا سے کیا تھا۔ یہ ایک عظیم کاروان ہے جس میں 70 کے قریب کشتیاں اور سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے جن میں قانون دان سے لے کر فنکار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ غزہ کا ظالمانہ محاصرہ توڑ کر مظلوم فلسطینیوں تک کھانے پینے کی اشیاء، ادویہ جات، خشک دودھ اور دیگر میڈیکل سامان پہنچانا ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف 2007ء سے جاری ظالمانہ محاصرہ توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس محاصرے نے 20 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اسیر بنا رکھا ہے۔ سویڈن سے ماحولیات کے سرگرم رکن گرتا ٹانبرگ، آئرلینڈ سے معروف فنگار لیام کننگ ہام اور جنوبی افریقہ سے نیلسن مینڈیلا کے نواسے نیکوسی زویلیلا مینڈیلا  کی موجودگی نے اس فلوٹیلا کو عالمی رنگ دے دیا ہے۔
 
غزہ، بشریت کے دل میں زخم
اکتوبر 2023ء میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ کے خلاف محاصرہ شدید سے شدیدتر ہوتا گیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کے بقول غزہ اس وقت "تباہی کی ایک دنیا" میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: اب تک 64 ہزار فلسطینی جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، غاصب صیہونی رژیم کے بے رحمانہ حملوں کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 61 ہزار فلسطینی زخمی ہیں۔ وسیع پیمانے پر قحط پھیل چکا ہے جسے اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر نے "جنگی جرم" قرار دیا ہے اور اس سے سینکڑوں فلسطینیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ صرف گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران صیہونی حملوں میں 84 فلسطینی شہید اور 338 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی بڑی تعداد اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہے اور ریسکیو آپریشن کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں۔
 
امید کی لہروں پر خطروں کا سایہ
غاصب صیہونی رژیم نے ابتدا سے ہی گلوبل صمود فلوٹیلا کے خلاف دشمنی پر مبنی موقف اختیار کیا ہے۔ صیہونی رژیم کے وزیر سیکورٹی امور اتمار بن غفیر نے دھمکی دی ہے کہ اس فلوٹیلا میں شامل افراد کو گرفتار کر کے انہیں "دہشت گرد" قرار دیا جائے گا۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رژیم ہر قیمت پر گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ پہنچنے سے روکے گی۔ ایسی رپورٹس ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی اسرائیلی ڈرون اس فلوٹیلا پر پرواز کر رہے ہیں اور اس کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے جتنے بھی بین الاقوامی فلوٹیلا گئے ہیں ان پر صیہونی فوج نے حملہ کیا ہے لہذا اس تناظر میں بھی گلوبل صمود فلوٹیلا کو درپیش خطرات کا احساس کیا جا رہا ہے۔ صمود فلوٹیلا کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اس فلوٹیلا میں یورپی کشتیاں اور معروف عالمی شخصیات موجود ہیں لہذا اگر اس پر فوجی حملہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سفارتی بحران کی صورت میں نکلے گا اور حتی اسرائیل کے روایتی اتحادی بھی اس سے دور ہو جائیں گے۔
 
ایسی لہر جو ختم نہیں ہو گی
گلوبل صمود فلوٹیلا محض ایک سمندری اقدام نہیں ہے بلکہ اس وقت ایک بین الاقوامی سمفنی بن چکا ہے۔ مشرقی ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ اور یورپ تک 44 ممالک کی کشتیاں اور افراد اس میں شامل ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت کس قدر گہری ہے۔ تیونس کی سات کشتیاں، یونان نے جزیرہ سیروس سے ایک کشتی جبکہ اٹلی نے انسانی امداد کی تنظیم ایمرجنسی کی کشتی "لائف اسپورٹ" کے ذریعے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان تمام کشتیوں سے یہ پیغام ملتا ہے کہ غزہ کی خاطر جدوجہد درحقیقت عالمی انصاف کی خاطر جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئرلینڈ کے فنکار لیام کننگ ہام کے بقول "یہ محاصرہ جو قرون وسطائی تہذیب کی یاد تازہ کرتا ہے ختم ہونا چاہیے۔ ہم یہاں یہ کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ بشریت ابھی زندہ ہے۔"
 
امید یا ایک بار پھر رونما ہوتا سانحہ؟
گلوبل صمود فلوٹیلا تمام تر خطرات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اقدام انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی برادری کے عزم و ارادے کا امتحان ہے۔ اگر صمود فلوٹیلا کامیابی سے غزہ کے ساحل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ مظلوم فلسطینیوں کے درد و رنج اور مشکلات میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور صیہونی رژیم نے فوجی طاقت کے ذریعے اس فلوٹیلا پر حملہ کیا تو اس کے شدید سفارتی نتائج ظاہر ہوں گے اور اسرائیل ہمیشہ سے بڑھ کر گوشہ نشینی کا شکار ہو جائے گا۔ صمود فلوٹیلا کی کامیابی عالمی سول تحریکیں مضبوط ہونے اور حکومتوں پر غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے دباو میں اضافہ ہونے کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ راستہ بہت زیادہ خطرات کے ہمراہ ہے۔ یہ فلوٹیلا غزہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی عوام کی آواز کی گونج ایک بار پھر دنیا بھر سے سنائی دی ہے۔

تحریر: مہدی سیف تبریزی