سلیمانی
سب انقلابی فاطمی و زاہرائی ہیں
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور استقامت و مقاومت کا نظریہ باہم جڑے ہوئے ہیں۔ استقامت و مزاحمت کے مفہوم کو سیرت فاطمہ (ع) سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ فاطمہ زہراء اسوہ استقامت و مقاومت ہیں۔ خداوند عالم نے مجھ حقیر پر بہت بڑا لطف فرمایا کہ زندگی کے شب و روز میں عصر حاضر کی استقامت و مقاومت کی بڑی بڑی شخصیات کو دیکھنے، ملنے اور ان سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ امام خمینی (رح) سے لیکر شہید سید حسن نصراللہ، شہید قاسم سلیمانی، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے نہ صرف بالمشافہ ملنے بلکہ ان کو درک کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سے ہر ایک دور حاضر کا استقامت و مقاومت کا مضبوط قلعہ اور بلند و بالا پہاڑ ہے۔ ان شخصیات کی زندگیوں کے سرسری مطالعہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ان کی زندگیاں طاغوتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت و استقامت کا استعارہ ہیں۔ آج استقامت و مقاومت کا نام آتا ہے تو ان شخصیات کے روشن و مقدس چہرے آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔
ایک اور حقیقت جس کو باآسانی درک کیا جاسکتا ہے، وہ ان شخصیات کے عمل و کردار میں اسوہ فاطمی (ع) کا گہرا عمل دخل ہے۔ ان میں سے ہر شخصیت کو کسی نہ کسی مرحلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے متوسل ہوتے دیکھا یا سنا ہے۔ مشکل ترین لمحات میں حضرت زہرا (س) کی پناہ لینا ان کا وطیرہ تھا۔ حاج قاسم سلیمانی کی تو یہ ویڈیو فلم بھی اکثر قارئین کی نظروں سے گزری ہوگی، جس میں آپ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ "جب بھی ہم جنگ کی سختیوں میں، شدید دباؤ میں آتے اور کچھ نہ کرسکتے تو ہماری پناہ حضرت زہرا (س) تھیں۔" یہی تشبیہ ہم نے سید حسن نصراللہ اور مزاحمتی کمانڈروں کے بارے میں کئی بار سنی ہے۔ ایک مشہور مثال 33 روزہ جنگ کی ہے، جس میں مجاہدین نے حضرت زہرا (س) کے وجود اقدس کو محسوس کیا اور حزب اللہ کے مجاہدین کو فتع و نصرت کی بشارت دی۔
حزب اللہ کے جنوبی علاقے کے کمانڈر جناب حاجی ابوالفضل بیان کرتے ہیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد میں تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کچھ دیر لیٹ گیا۔ میں نے خواب میں حضرت زینب (ع) کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ حزب اللہ کی افواج کی حمایت کے لیے کچھ کریں۔ آپ نے اپنی والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اپنا مسئلہ ان کو بتائیں۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں گیا اور ان سے شکایت کی۔ آپ نے کہا: "خدا تمہارے ساتھ ہے، ہم بھی آپکے لیے دعا کرتے ہیں۔" میں نے پھر اصرار کیا، آپ نے کہا: اچھا دیکھتے ہیں۔ تیسری بار اصرار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ دشمن کے کم از کم ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرائیں، جو فوج کو ہمارے علاقے میں اتار رہے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: "بہت اچھا!" اسی وقت آپ نے اپنی چادر کے نیچے سے ایک رومال نکال کر اوپر پھینکا اور فرمایا: "تمہاری خواہش پوری ہوگئی۔"
میں اٹھا، دوسرے کمرے میں گیا، جہاں کمانڈروں کا ایک گروپ موجود تھا اور خواب کا واقعہ بیان کیا۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی، وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے فون اٹھایا، چند الفاظ بولے اور وہ سجدے میں گر گیا۔ سجدے میں خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد کہا دشمن کا ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس لمحے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے رومال کو آسمان پر پھینکا، اسی لمحے دشمن کے ایک ہیلی کاپٹر کو حزب اللہ کے ایک دستے نے معجزانہ طور پر نشانہ بنایا۔ جس شخص نے ہیلی کاپٹر کو مار گرایا تھا، وہ اس کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: میں کمرے میں تھا اور میرے ذہن میں میزائل لے کر باہر جانے کا خیال آیا۔ میں باہر نکلا، مجھے لگا کہ میزائل سگنل دے رہا ہے، لیکن آسمان پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں نے فائر کیا، اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان پر کسی چیز نے آگ پکڑ لی اور وہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر تھا۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء میں ایران میں ایک شماریاتی مطالعہ یا دوسرے لفظوں میں سروے کیا گیا، جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جہاد کے لیے شہداء کا سب سے بڑا محرک امام حسین (ع) کی ذات تھی۔ لیکن مجاہدین کے لئے سب سے بڑا سہارا حضرت زہرا (س) تھیں، جن سے مجاہدین توسل کرتے تھے۔ اس تعلق کی انتہاء ہم رہبر معظم انقلاب کے اس بیان میں دیکھتے ہیں: "میں ہر سال اپنے ملک کے لئے آئندہ ایک سال کا رزق فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سوگ کے ایام میں حاصل کرتا ہوں۔" اس رشتے و تعلق کا راز کیا ہے۔؟ ہمارے مجاہدین، بزرگان اور روحانی پیشوا اتنے "زہرائی" و "فاطمی" کیوں ہیں۔؟ اس تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں قدرے گہرائی میں جانا ہوگا اور انقلاب اور حضرت زہرا (س) کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہوگا۔
آئیے رہبر انقلاب کے بیان کا حوالہ دیتے ہیں۔ جہاں وہ کہتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے حضرت زہرا (س) کا نام محفلوں میں تھا، لیکن اتنا گہرا، وسیع اور دلوں سے اٹھنے والا نہیں تھا۔ عراق ایران جنگ یعنی اس دفاع مقدس کے دوران، کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپریشن کا کوڈ "یا زہرا" یا ہیڈ بینڈ "یا زہرا" ہونا چاہیئے؛ لیکن لوگوں نے خود ایسا کیا۔ یہ ایک خدائی سلسلہ اور واقعہ تھا۔ مجاہدین کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے عقیدت کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا۔ اس تعلق کا راز ایک لفظ میں ہے: "کوثر،" سورہ کوثر کفار کے اس طعنے کے جواب میں کہ "تم ابتر ہو۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ہم نے تمہیں کوثر دیا ہے۔" یعنی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو وسعت و عظمت بخشی۔ کوثر کا مطلب ہے، وہ جو ضرب کرتا ہے، بڑھاتا ہے، جاری رکھتا ہے اور بہاؤ پیدا کرتا ہے۔
حضرت زہرا (س) "کوثر ہدایت" ہیں۔ اسلامی انقلاب بھی کوثر ہے۔ یہ ایک قوم کو بڑھاتا، بلند کرتا، زندہ کرتا اور سربلند کرتا ہے۔ عظیم انقلابی کوثر ہیں۔ کوثری و فاطمی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ حاج قاسم، سید حسن، شہداء۔۔۔۔ سب کی ایک مشترک خصوصیت ہے: سخت گرفتاری اور مشکلات میں دین کی ترویج، ولی حق کا ساتھ دینا، مظلوم کا دفاع کرنا اور ظالم کے مقابلے میں کھڑا ہونا۔ شہداء کو حضرت زہراء کا سب سے زیادہ سہارا تھا، کیونکہ شہداء نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو درک کیا۔ ہر شہید ہدایت کی شمع ہے، جس طرح حضرت زہرا ؑ ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ مقاومت و استقامت کی ثقافت حضرت زہراء کی ثقافت ہے۔ مجاہد و شہداء کا مطلب ہے "کوثر بننا": پھیلنا، بڑھنا، بلند ہونا۔ لیکن یہ ایک شخص میں کیسے شکل اختیار کرتا ہے؟ اس کا جواب سورہ کوثر کی دوسری آیت میں ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور اپنے آپ کو قربان کرو۔" محبت اور نفرت کا مطلب ہے، ولایت سے محبت اور دشمن سے نفرت۔
جب ایک مجاہد ان دو مقدس احساسات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو وہ زہرائی بن جاتا ہے۔ وہ ہدایت یافتہ اور رہنمائی کرتا ہے۔ وہ قیام کرتا ہے، اٹھتا ہے اور وسعت اختیار کر جاتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔ بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیاء اور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرہون منت ہے، اسی طرح حضرت فاطمہ زہراء کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اور حضرت فاطمہ زہراء کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔
بھائیو، جو ہمارا فریضہ ہے، وہ یہ ہے کہ خود کو اس خاندان کے (محب ہونے کے) لائق بنائیں۔ یقیناً خاندان رسالت اور اس خاندان سے وابستہ افراد سے منسوب ہونا اور ان کے عقیدت مند کے طور پر معروف ہونا دشوار ہے۔ ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت اور آپ کی دوستی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ خیر کثیر جس کی خوش خبری خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس سورہ مبارکہ میں دی اور فرمایا کہ "انّا اعطینک الکوثر" جس سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں، درحقیقت تمام نیکیوں اور خیر کا مجموعہ ہے کہ دین نبوی کے سرچشمے سے پوری بشریت اور تمام خلائق کے لئے جاری ہے۔
بہت سوں نے اس کو چھپانے اور اس کی نفی کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ "واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون" ہمیں خود کو اس مرکز نور سے قریب کرنا چاہیئے اور مرکز نور سے قریب ہونے کے لئے نورانی ہونا شرط ہے۔ صرف محبت کے دعوے سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے خود کو نورانی بنائیں۔ وہ عمل جو محبت، ولایت اور ایمان کا لازمہ اور تقاضا ہے۔ اپنے عمل کے ذریعے اس خاندان سے خود کو وابستہ کریں۔ آئیے اس مقدس محبت اور نفرت کو اپنے قلب و ذہن اور روح و رواں میں زندہ اور محفوظ رکھیں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
شکست خوردہ امریکہ کو پیچھے چھوڑتی دنیا اور اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ سے دور ہوتا امریکا
ایک امریکی اخبار نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ "دور ما بعد امریکہ" (Post-American Era)، جس کی پیشگوئی پہلے تجزیہ کار پہلے ہی کر رہے تھے، اب اس کا وقت آ چکا ہے۔ اپنی رپورٹ میں امریکی جریدے نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دور ما بعد امریکہ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس تجزیے کی بنیاد اس بات کو قرار دیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت ایک ایسے سالانہ اجلاس سے مکمل غیر حاضر رہی جو ہمیشہ سے مغربی جمہوریتوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو مضبوط کرنے کا اہم ترین فورم سمجھا جاتا ہے۔
تجزیئے کے مطابق اس سال ہالیفاکس بین الاقوامی سلامتی کانفرنس ایک بالکل مختلف ماحول میں منعقد ہوئی، جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت اور امریکی فوج کی مکمل غیر موجودگی، اور امریکی صدر ٹرمپ کی امریکہ سب سے پہلے جیسی پالیسیوں سے واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کی گہری مایوسی اور نا امیدی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال نہ ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ اہلکار اور نہ ہی پینٹاگون کا کوئی جنرل یا ایڈمرل ہالیفاکس میں دکھائی دیا۔ امریکہ کی واحد باضابطہ نمائندگی سینیٹ کے دو جماعتی وفد نے کی، لیکن ان ریپبلکن اراکین کو بھی شرکاء کی جانب سے ٹرمپ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ کینیڈین مصنوعات پر پہلے سے نافذ 35 فیصد محصولات میں مزید 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا، یوں اب کینیڈا اپنے ایک اہم ترین اتحادی کی جانب سے 45 فیصد تک ڈیوٹی کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ شرح یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان پر عائد 15 فیصد محصولات سے کہیں زیادہ ہے اور اس نے کینیڈا کو معاشی کساد بازاری کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جواب میں اوٹاوا نے جوابی محصولات لگائے، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، اور یہاں تک کہ امریکی ایف-35 جنگی طیاروں کی خرید منسوخ کرنے اور انہیں سویڈش گریپن طیاروں سے بدلنے پر بھی غور کیا۔ اس کے بعد امریکہ کا سفارتی میدان سے غائب ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نہ صرف ہالیفاکس اجلاس سے غیر حاضر رہی بلکہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی-20 کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا۔
مصنف سوال کرتا ہے کہ جب امریکہ خود ہی میدان میں موجود نہیں تو اسے سفارتی کامیابی کی امید کیسے ہو سکتی ہے؟۔ گروپ 20 اجلاس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی غیر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا مختلف معاملات میں واشنگٹن کے بغیر بھی پیش رفت کر سکتی ہے۔ واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ جی-20 اجلاس کے دوران امریکہ کی غیر حاضری میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کیا جائے، لیکن جنوبی افریقہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مکمل اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ امریکی اتحادیوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لئے ہالیفاکس کی سالانہ سلامتی کانفرنس میں کینیڈا اور یورپ کے شرکاء نے واضح طور پر کہا کہ اب وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں بہت سے لوگ اسے ایک عارضی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اب کوئی بھی ایسی امید نہیں رکھتا۔ اب ایک نیا سناریو شروع پو چکا ہے۔ یعنی امریکہ کے بغیر مغرب میں سامنے آتا نیٹو۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ "بعد از امریکہ دنیا" جس کی فرید زکریا نے 2008 میں پیشگوئی کی تھی، اب واقعی سامنے آ چکی ہے۔ وہ عالمی جمہوری اتحاد کا خواب جسے جان مکین برسوں تک اسی ہالیفاکس فورم میں فروغ دیتے رہے، اب غالباً امریکہ کی عدم موجودگی میں، یورپ اور ایشیائی جمہوریتوں کی قیادت میں آگے بڑھایا جائے گا۔
اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ سے دور ہوتا امریکا:
کینیڈا کے وزیرِاعظم نے جی-20 اجلاس کے حاشیے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ بھی امریکا سے دور ہو رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی افریقہ پر سفید فام کسانوں کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا تھا اور اپنی غیرحاضری کی وجہ بھی یہی بیان کی تھی۔ واشنگٹن نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ امریکہ شریک نہیں ہوگا، لہٰذا اجلاس کے بعد صرف گروپ کے سربراہ کی رپورٹ کا خلاصہ ہی جاری کیا جانا چاہیے۔ تاہم، جی-20 نے اتوار کے روز ایک باضابطہ اعلامیہ جاری کیا کہ عالمی مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کارنی نے کہا کہ اجلاس میں وہ ممالک شریک تھے جو دنیا کی تین چوتھائی آبادی، دو تہائی عالمی جی ڈی پی اور دنیا کی تین چوتھائی تجارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
لیکن امریکہ کے بارے میں انہون نے کہا کہ یہ سب امریکا کی رسمی غیر موجودگی کے باوجود جاری ہے اور جاری رہیگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاد دہانی ہے کہ عالمی معیشت کا مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیرِاعظم کے مطابق جی-20 ممالک کے وہ فیصلے جو اس اجلاس میں کیے گئے، امریکا کے بائیکاٹ کے باوجود بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا جنوبی افریقہ، بھارت اور چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی صدر کے معاون ماکسیم اورشکین نے اس اجلاس کو کامیاب قرار دیا کہ ہم نے دوست ممالک کے ساتھ بہت سے مفید رابطے قائم کیے اور یہاں تک کہ ’’غیر دوست‘‘ ممالک سے بھی اقتصادی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے حوالے سے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔
شام، فرقہ واریت کے خلاف علوی مسلمانوں کا پرامن احتجاج، جولانی کی فورسز کا پرتشدد جواب
منگل کے روز شام کے مختلف علاقوں میں علوی مسلمان وسیع پرامن مظاہروں میں شرکت کرکے جولانی کی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر ہی رہے تھے کہ انہیں سیکورٹی عناصر کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
یہ مظاہرے شام کے علوی مذہب کی مجلس اعلی کے صدر شیخ غزال غزال کی اپیل پر شام کے مختلف شہروں میں ابومحمد جولانی کی حکومت کے فرقہ وارانہ قتل عام اور گرفتاریوں کے خلاف کیے گئے۔
مظاہرین لاذقیہ، طرطوس، حمص اور حماہ صوبوں کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے علوی مذہب اور دیگر فرقوں کے ماننے والوں کی بلاوجہ گرفتاریوں کے خلاف نعرے لگائے اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر جولانی حکومت کے سیکورٹی کارندوں نے احتجاج کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور بعض کو سرکاری گاڑیوں سے کچل دیا۔
بتایا گیا ہے کہ حمص کے الزہرا اسکوائر پر مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
مظاہرین کی تعداد دسیوں ہزار تک بتائی گئی ہے جنہیں گزشتہ ایک سال سے حکومت کے فرقہ وارانہ اور غیرمنصفانہ رویے کا سامنا ہے۔
طرطوس، بانیاس، لاذقیہ، جبلہ، قرداحہ اور اطراف کے قصبوں میں مظاہرین کی بڑی تعداد دیکھی گئی ہے۔
مختلف ویڈیو فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جولانی سے وابستہ عناصر مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ادھر شام کی ہیومن رائٹس واچ تنظیم نے بتایا ہے کہ شام کی عبوری حکومت ساحلی علاقوں کی جانب مزید سیکورٹی فورس روانہ کر رہی ہے جس کا مقصد ہر طرح کی عوامی تحریک کو کچلنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سیکورٹی فورس کو خاموشی کے ساتھ عوام کو کچلنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
بعض ذرائع کے مطابق حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔
ایران کے ساتھ یکجہتی جاری رہے گی: ڈاکٹر علی لاریجانی سے ملاقات کے موقع پر صدر پاکستان
ڈاکٹر علی لاریجانی نے منگل کے روز پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر آصف علی زرداری نے صیہونی حکومت کی ایران پر جارحیت کے دوران اور اس کے بعد پاکستان کی اظہار یکجہتی پر زور دیا اور کہا کہ اسلام آباد، سیاسی اور سفارتکاری کے میدانوں میں تہران کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اور تہران کے مابین تعلقات میں فروغ کا تسلسل، دونوں ملکوں کے مثبت رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان کے صدر نے فلسطینی اور کشمیری عوام کی حمایت پر مبنی ایران کے اصولی موقف کا بھی خیرمقدم کیا۔
انہوں نے پاکستان میں سیلاب کے موقع پر ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کی جانب سے بھیجی گئی امدادی کھیپ کا شکریہ ادا کیا۔
آصف علی زرداری نے کہا ایران اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد مشترکہ تاریخ، ایمانی جذبے اور ثقافت پر ہے اور یہ تعلقات دونوں ملکوں کے لیے ضروری اور انتہائی فائدہ مند ہیں۔
پاکستان کے صدر نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی عوام کی شاندار مزاحمت کو سراہا اور کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اس جنگ کے دوران جس قیادت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔
انہوں نے علی لاریجانی سے کہا کہ ان کے سلام اور احترام کے پیغام کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای تک ضرور پہنچائيں۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے حالیہ واقعات میں پاکستان کی مسلح افواج کی کامیابیوں اور شجاعت کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کی کامیابی، ایران کی کامیابی ہے۔
انہون نے کہا کہ صدر ایران نے دورہ پاکستان کے بعد، پاکستانی پیداوار کے لیے ٹیرف ریلیف کے کئی احکامات جاری کیے ہیں جو 10 ارب ڈالر کی مشترکہ تجارت کے ٹارگیٹ کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
اس موقع پر خطے کے حالات، بین الاقوامی منظرنامہ، سیکورٹی تعاون اور دہشت گردی کے مقابلے پر بھی بات چیت ہوئی۔
غاصب صیہونی آبادکاروں نے فلسطینیوں کے مویشیوں کو زہر دیکر مار ڈالا
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، صیہونی آبادکاروں نے رام اللہ کے مشرقی علاقوں کے رہنے والوں کے مویشیوں کو زہر دیکر مار دیا ہے۔
بتایا گيا ہے کہ صیہونی آبادکاروں نے ہفتے کی صبح المغیر فلسطینی قصبے پر میں واقع رزق ابونعیم نام کے فلسطینی شہری کے گھر پر دھاوا بول دیا، ان کے گھروالوں کو زد و کوب کا نشانہ بنایا اور ان کے مویشیوں کی بڑی تعداد کو زہر دیکر مار دیا۔
علاقے کے دیگر فلسطینیوں نے بتایا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات میں شدت آرہی ہے۔
یاد رہے کہ صیہونی آبادکار اس گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کرکے فلسطینی شہریوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند مہینے کے دوران المغیر قصبے پر صیہونی آبادکاروں کے حملوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
غاصب آبادکار فلسطینیوں کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیتے ہیں اور قصبے کی دیواروں پر نسل پرستانہ نعرے لکھتے ہیں۔
ہفتے کی صبح کو بھی فلسطینی شہریوں کی زرعی مشینریوں کو چرایا گیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ غاصب آبادکاروں کو صیہونی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
غزہ، صیہونی فوج کے حملے میں 5 عام شہری شہید
صیہونی فوج کے ریڈیو نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اس گاڑی میں القسام بریگیڈ کے ہتھیاروں کے امور کے سربراہ علاء الحدیدی موجود تھے۔
صیہونی فوج کے ریڈیو نے بتایا کہ یہ حملہ امریکہ کو اعتماد میں لیکر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ صیہونی فوج نے وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دیرالبلح میں واقع "مسجد بلال" اور اس کے اطراف واقع ایک رہائشی عمارت اور روٹی کی دکان کو میزائل مار کر تباہ کردیا۔
دریں اثنا صیہونی فوج نے العودہ ہسپتال کے قریب واقع النصیرات کیمپ کو بھی فضائی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ حملے ایسی حالت میں جاری ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوئے بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے لیکن غاصب اسرائیلی حکومت ہر بہانے سے غزہ کو شانہ بنا رہی ہے اور امدادی سامان پہنچنے میں رکاوٹیں بھی پیدا کر رہی ہے۔
ایران ہماری فوجی چھاؤنیوں کی رگ رگ سے واقف ہے: صیہونی ذرائع ابلاغ
چند روز قبل صیہونی ذرائع نے 21 سالہ اسرائیلی فوجی "رافائل روونی" کی گرفتاری کا اعلان کیا اور بتایا کہ یہ فوجی ایران کے لیے حساس معلومات اکٹھا کر رہا تھا۔
اس شخص کی گرفتاری کے بعد صیہونی حلقوں میں صیہونی فوج اور انٹیلی جنس کے سسٹم میں ایران کے نفوذ پر گہما گہمی بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ جمعرات کو ٹائمز آف اسرائیل اخبار میں ایک صیہونی نوجوان کی گرفتاری کی خبر شایع ہوئی جس میں اس شخص پر الزام عائد کیا گيا تھا کہ اس کا ایک ایرانی انٹیلی جنس کے افسر سے رابطہ تھا اور اس نے مقبوضہ علاقوں من جملہ بس اسٹاپس اور شاپنگ سینٹروں کی تصاویر اور ویڈیو ایرانی افسر کے لیے بھیجی ہیں۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ اس شخص نے اپنے فوجی شناختی کارڈ کی تصویر اور اس فوجی مرکز کی معلومات ایرانی افسر کو فراہم کی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ یہ شخص صیہونی فوج کے انتہائی حساس اور خفیہ مرکز "ہاتزاریم" میں تعینات تھا جس کے نتیجے میں صیہونی فوجی اور انٹیلی جنس مراکز میں ایران کے نفوذ کے بارے میں حساسیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
اسرائیل کے چینل 15 نے اعتراف کیا ہے کہ "ایران کے انٹیلی جنس ادارے صیہونی فوج کے انتہائی حساس مراکز، من جملہ اسٹریٹیجک ایئربیسز میں نفوذ کرچکے ہیں۔"
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ چند مہینے کے دوران، صیہونی فوجی عدالتوں میں 50 سے زیادہ اسرائيلیوں کے خلاف ایران کے لیے جاسوسی کے جرم میں کیسز کھل چکے ہیں جن میں سے 5 کا تعلق صیہونی فوج سے ہے۔
حضرت فاطمہ(س)کی معنوی و اخلاقی شخصیت تاریخی منابع کی روشنی میں
یہ سلسلہ اہل بیت (ع) کی طرزِ زندگی سے آشنائی کے مقصد سے مرتب کیا گیا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ معصومین (ع) کی عملی و اخلاقی تعلیمات کو آج کی زندگی میں قابلِ استفادہ بنایا جائے۔
مصنف نے کتاب "خاطرِ نازک گل" کی تدوین کے لیے ۵۰۰ سے زائد مآخذ کا مطالعہ کیا اور ۲۲۹ مآخذ کو متن میں استعمال کیا ہے۔ یہ وسیع تحقیقی دائرہ مصنف کی تاریخی و روائی مطالب کو صحیح اور معتبر انداز میں پیش کرنے پر خاص توجہ کو ظاہر کرتا ہے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی، فضائل اور اخلاقی سیرت کا جامع تجزیہ پیش کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔
کتاب کے آغاز میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ظاہری شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں آراستگی، نظافت، حفظانِ صحت، کھانے کے آداب اور بعض ذاتی رویوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے بعد ان کی معنوی زندگی اور شخصی فضائل پر بحث کی گئی ہے اور قرآن کی آیات و معتبر احادیث کی بنیاد پر حضرت زہرا (س) کا مقام و منزلت بیان کیا گیا ہے۔
کتاب "خاطرِ نازک گل" میں مختصر کہانیوں اور عملی مثالوں کے ذریعے حضرت زہرا (س) کی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں ادب، احترام، عفت، حیاء، ولایت مداری، ایثار، صبر، عصمت، زہد، فروتنی، سخاوت، پاکدامنی، دوراندیشی، حکمت، شجاعت، علم، تدبیر، مظلومیت، نیکوکاری، عبادت، مہمان نوازی اور تقویٰ جیسے اوصاف کا تفصیلی ذکر ہے۔
یہ کتاب اس سلسلے کا تیسرا جلد ہے جو 80 کی دہائی میں "کتاب سال" کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعہ "سیرتِ عملی چہاردہ معصومین (ع)" اس سوال کا جواب دینے کے لیے مرتب کیا گیا ہے کہ معصومین (ع) کس طرح اکیسویں صدی کے انسان کے لیے نمونہ بن سکتے ہیں اور ان کی تعلیمات روزمرہ مسائل کے حل میں کس طرح مددگار ہو سکتی ہیں۔
یہ مجموعہ ۵۰ سے زائد موضوعات پر مشتمل ہے؛ جن میں ظاہری و باطنی شخصیت، فردی، خاندانی، سماجی و سیاسی طرزِ زندگی، دفاعِ ولایت، انقلابی خطبات، واقعۂ فدک، خدا، انسان اور فطرت سے تعلق، حتیٰ کہ مخالفین اور حیوانات کے حقوق بھی شامل ہیں۔ اس کتاب کے مخاطب عام لوگ بالخصوص نوجوان اور طلبہ ہیں، اور مصنف نے معتبر تاریخی و روائی مآخذ کی بنیاد پر معصومین (ع) کی سیرت کو قابلِ فہم اور عملی زبان میں پیش کیا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی آراستگی اور نظافت
کتاب "خاطرِ نازک گل" کے ابتدائی حصے میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ظاہری شخصیت اور آراستگی کا بیان کیا گیا ہے۔ ان کی نمایاں خصوصیات میں ذاتی نظافت اور مناسب لباس شامل ہیں۔ شادی جیسے مواقع پر، رسول اکرم (ص) نے اپنی ازواج کو ہدایت دی کہ فاطمہ (س) کو آراستہ کریں۔ حضرت زہرا (س) بھی نبی اکرم کے حکم کے مطابق سرمہ اور خوشبو استعمال کرتی تھیں اور پہلی شبِ ازدواج اور نماز کے وقت خوشبو لگانے کا اہتمام کرتی تھیں۔
حضرت زہرا (س) نظافت اور ہاتھ دھونے کو خاص اہمیت دیتی تھیں اور جسم و روح کی پاکیزگی کو لازمی سمجھتی تھیں۔ روایات میں آیا ہے کہ وہ پشمی چادر اور ریشمی کپڑا استعمال کرتی تھیں اور لباس کے انتخاب میں سادگی اور وقار کو ملحوظ رکھتی تھیں۔
معنوی سیرت اور اخلاقی فضائل
کتاب کے اگلے حصوں میں حضرت زہرا (س) کے معنوی اور اخلاقی فضائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آیہ تطہیر، جو اہل بیت (ع) کی طہارت اور عصمت پر زور دیتی ہے، مصنف کے تجزیے کا بنیادی محور ہے۔ اس آیت میں اہل بیت کی روحانی و اخلاقی پاکیزگی کو واضح کیا گیا ہے اور حضرت زہرا (س) کو اس مقامِ الٰہی کی نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
مصنف نے واقعۂ فدک کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد، ابوبکر نے حضرت زہرا (س) کے کارندوں کو فدک سے بے دخل کر دیا اور زمین ضبط کر لی، بغیر اس کے کہ ان کے دعوے کو سنا جائے۔ حضرت علی (ع) نے اس اقدام کے جواب میں حضرت زہرا (س) کی عصمت اور طہارت پر زور دیا اور یاد دلایا کہ اس حقیقت کا انکار دراصل کتابِ خدا کی تکذیب ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اخلاقی فضائل اور شخصی خصوصیات
کتاب "خاطرِ نازک گل" میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اخلاقی رویوں اور شخصی خصوصیات کے متعدد نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں ادب، احترام، عفت، حیاء، ولایت مداری، ایثار، صبر، عصمت، زہد، فروتنی، سخاوت، پاکدامنی، دوراندیشی، حکمت، بزرگواری، شجاعت، علم، تدبیر، مظلومیت، نیکوکاری، خداباوری، عبادت اور مہمان نوازی شامل ہیں۔ مصنف نے ان اوصاف کو معتبر تاریخی و روائی مآخذ کی بنیاد پر مختصر کہانیوں اور عملی مثالوں کے ذریعے بیان کیا ہے تاکہ قاری حضرت زہرا (س) کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہو سکے۔
حضرت زہرا (س) قرآن کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کو خاص اہمیت دیتی تھیں۔ ان کی تاکید سورۂ حدید، واقعہ اور الرحمن کی قراءت اور ان پر عمل کرنے پر تھی۔ مصنف نے قرآن کو انسانیت کی ہدایت کے لیے دائمی نسخہ قرار دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل دنیا و آخرت میں سکون اور نجات کا ذریعہ ہے۔
کتاب کا ایک اہم حصہ واقعۂ فدک ہے۔ فدک خیبر کے قریب ایک بستی تھی جو سات ہجری میں رسول اکرم (ص) کے اختیار میں آئی۔ رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد، ابوبکر کے کارندوں نے حضرت زہرا (س) کے نمائندے کو وہاں سے بے دخل کر دیا اور زمین ضبط کر لی۔ یہ واقعہ حضرت زہرا (س) کی مظلومیت اور ان کے حقوق و اہل بیت کے دفاع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ مصنف نے معتبر تاریخی و روائی منابع کی بنیاد پر اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا اور اس کے اثرات کو تاریخِ اسلام میں تجزیہ کیا ہے۔
کتاب "خاطرِ نازک گل" ایک جامع اور مستند تجزیہ پیش کرتی ہے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی طرزِ زندگی اور اخلاقی فضائل کو معاصر قاری کے لیے قابلِ فہم انداز میں بیان کرتی ہے۔ یہ اثر بالخصوص نوجوانوں اور طلبہ کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اہل بیت (ع) کی سیرت سے الہام لے کر اخلاقی و معنوی اقدار کو اپنی زندگی میں نافذ کریں۔
یہ جلد، مجموعہ "سیرتِ عملی چہاردہ معصومین (ع)" کا تیسرا حصہ ہے جو حضرت زہرا (س) کی زندگی پر مرکوز ہے۔ پہلے دو جلدیں رسول اکرم (ص) اور امام علی (ع) کی زندگی پر مشتمل تھیں۔ یہ مجموعہ معتبر منابع اور مستند روایات کی بنیاد پر معصومین (ع) کی تعلیمات کو روزمرہ زندگی کے لیے عملی زبان میں پیش کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود حضرت زہرا (س) کی تعلیمات دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں اور اہل بیت کے چاہنے والوں کی زندگی پر اثرانداز ہیں۔ کتاب "خاطرِ نازک گل" نہ صرف حضرت زہرا (س) کی عظیم شخصیت اور اخلاقی فضائل کو واضح کرتی ہے بلکہ موجودہ معاشرے کی معنوی و اخلاقی ضرورتوں کا جواب بھی فراہم کرتی ہے اور فرد، خاندان اور سماج کے لیے عملی رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہے۔
کتاب "خاطرِ نازک گل" سید حسین سیدی کی تصنیف ہے، ۳۰۲ صفحات پر مشتمل ہے اور "نشر معارف" سے شائع ہوئی ہے۔
اسلامی جمہوریہ اور امریکا کا اختلاف ماہیتی اور دو نظریات کے مفادات کا ٹکراؤ ہے
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کے بعض امریکی عہدیداروں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون اور مدد سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت سے نفرت اور اس کی مذمت کے باوجود امریکا کی جانب سے اس حکومت کی مدد، پشت پناہی اور حمایت جاری رہنے کے بعد بھی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست کو لایعنی اور ناقابل قبول بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکا صیہونی حکومت کی پشت پناہی پوری طرح سے چھوڑ دے، خطے سے اپنے فوجی اڈوں کو ختم کر دے اور اس علاقے میں اپنی مداخلت بند کر دے تو اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت اور مستقبل قریب میں نہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے ماضی اور اسی طرح 4 نومبر 1979 کو امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے کا، تاریخی اور ماہیتی پہلو سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تاریخی پہلو سے اسٹوڈنٹس کے اس شجاعانہ اقدام کو ایرانی قوم کے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور کہا کہ ایران کی تاریخ میں، فتح کے دن بھی ہیں اور کمزوری کے بھی اور دونوں کو قومی حافظے میں محفوظ رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس بڑے واقعے کے ماہیتی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے نے، امریکی حکومت کی ماہیت اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی حقیقی ماہیت کو عیاں کر دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کے معنی میں قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ "استکبار" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں برطانیہ جیسی اور آج کل امریکا جیسی کوئی حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اقوام کے حیاتی مفادات کو لوٹ کر ان پر حکم چلائے یا کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت اور ہوشیار عوام نہیں ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اقوام کے تیل اور دیگر ذخائر کو لوٹے اور یہ وہی استکبار یا سامراج ہے جس کے ہم دشمن ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ انھوں نے ایران میں دسیوں سال پہلے مصدق کی حکومت کو گرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، برطانیہ سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنے میں ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی یاددہانی کرائی اور کہا کہ امریکیوں نے مصدق کو بھروسہ دلایا لیکن ان کی پس پشت انھوں نے انگریزوں سے ہاتھ ملا کر بغاوت کرائي اور ایران کی قومی حکومت کو گرا کر ملک سے فرار ہو چکے شاہ کو ایران میں واپس لوٹایا۔
انھوں نے امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پاس ہونے والے معاندانہ بل کو اسلامی انقلاب سے امریکا کا پہلا ٹکراؤ بتایا اور محمد رضا کو امریکا میں آنے دینے پر ایرانی رائے عامہ کے غیظ و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کو محسوس ہوا کہ امریکی اپنے ملک کو شاہ کو بسا کر، ایک بار پھر ایران میں بغاوت کرانا اور شاہ کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ طیش میں سڑکوں پر آ گئے اور ان کے اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کا ایک حصہ، امریکی سفارتخانے پر قبضے پر منتج ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ابتدا میں اسٹوڈنٹس صرف دو تین دن سفارتخانے میں رہنا اور دنیا کے سامنے صرف ایرانی قوم کے غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں سفارتخانے میں ایسے دستاویزات ملے جن سے پتہ چلا کہ معاملہ تصور سے کہیں آگے کا ہے اور امریکی سفارتخانہ، انقلاب کو ختم کرنے کی سازشوں کا مرکز ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں سفارتخانوں کے معمول کے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا مسئلہ، معلومات اکٹھا کرنے کا نہیں تھا بلکہ امریکی سازشوں اور چالوں کا ایک مرکز بنا کر انقلاب کے خلاف کارروائی کے لیے شاہ کی حکومت کی باقیات، فوج کے بعض افراد اور کچھ دوسرے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے اور جب اسٹوڈنٹس کو یہ پتہ چلا تو انھوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کو ایران اور امریکا کے درمیان مسائل کی شروعات بتائے جانے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979 کو نہیں بلکہ 19 اگست 1956 کو شروع ہوا تھا جب برطانیہ اور امریکا نے مصدق کے خلاف بغاوت کرائي تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی وجہ سے انقلاب کے خلاف بہت گہری سازش اور خطرے کا پتہ چلا اور اسٹوڈنٹس نے یہ اہم کام کر کے اور دستاویزات کو اکٹھا کر کے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب سے دشمنی اور اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی اصل وجہ، امریکا کے منہ سے ایک شکار کا نکل جانا اور ایران کے ذخائر پر سے امریکا کا تسلط ختم ہو جانا بتایا اور کہا کہ وہ اتنی آسانی سے ایران کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسی لیے انھوں نے شروع سے ہی نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی لگاتار دشمنی کو امام خمینی کے اس جملے کی حقانیت کی نشانی بتایا کہ "آپ جتنا بھی برا بھلا کہنا چاہتے ہیں، امریکا کو کہیں۔" انھوں نے کہا کہ امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی بلکہ امریکیوں نے ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندی، سازش، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی مدد، ایران پر حملے کے لیے صدام کو ترغیب دلانے اور اس کی حمایت، تین سو افراد کے ساتھ ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے، پروپیگنڈوں کی جنگ اور براہ راست فوجی حملے جیسا ہر کام کیا کیونکہ امریکا کی ماہیت، اسلامی انقلاب کی خودمختارانہ ماہیت سے میل نہیں کھاتی اور امریکا اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی ٹیکٹکل اور جزوی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اور وجودی اختلاف ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے بعض لوگوں کی طرف سے "امریکا مردہ باد" کے نعرے کو ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی وجہ قرار دیے جانے کو تاریخ کو الٹا لکھنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ نعرہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی وجہ سے امریکا ہماری قوم سے ٹکرا جائے، اسلامی جمہوریہ سے امریکا کا اصل مسئلہ، ماہیت کا اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے لیکن کیا ابد تک ہمارے اس سے تعلقات نہیں ہوں گے؟ کہا کہ امریکا کی سامراجی ماہیت، فریق مقابل کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کو نہیں مانتی اور یہ چیز سبھی امریکی سربراہان مملکت چاہتے تھے لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے تاہم ان کے موجودہ صدر نے یہ بات کھل کر زبان سے کہہ دی اور امریکا کے باطن پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اتنی زیادہ توانائی، ثروت، فکری و نظریاتی ماضی اور ذہین و پرجوش نوجوان رکھنے والی ایرانی قوم سے سرینڈر ہو جانے کی توقع رکھنے کو فضول بتایا اور کہا کہ مستقبل بعید کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس وقت سبھی جان لیں کہ بہت سے مسائل کا علاج، طاقتور بننا ہے۔ انھوں نے اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب علیہا السلام کے ایام شہادت کی مناسبت سے جوانوں کو ان درخشاں مناروں کی عملی پیروی کی نصیحت کی اور کہا کہ آپ اپنے اطراف کے لوگوں کو ان عظیم ہستیوں کی سیرت پر توجہ دینے اور اس سے سبق سیکھنے کی ترغیب دلائیے۔
ملک کا سب سے بڑا سرمایہ امن ہے، اتحاد سے ہی کمزوریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے: حجۃ الاسلام حکیم الہی
ہندوستان میں نمائندۂ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عبدالمجید حکیم الہی نے جماعت اسلامی مہاراشٹرا کے اراکین سے ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی پسماندگی کا بڑا سبب اندرونی کمزوریاں اور غفلت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن صرف باہر سے حملہ نہیں کرتا بلکہ قوم کی اپنی بے توجہی بھی اس کی طاقت کو کمزور کرتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی داخلی کمزوریوں کو پہچانیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلمانوں پر تاریخ میں ظلم ہوا، وسائل لوٹے گئے اور انہیں کمزور کیا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ امت کے اندر موجود کمزوریاں بھی اتحاد کے راستے میں رکاوٹ بنیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمان عملی میدان سے غیر حاضر تھے اور انہی حالات میں عالمی طاقتوں نے مسلم زمینوں کی تقسیم کر لی، اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو اپنی سر زمین کی تقسیم کبھی قبول نہ کرتے، مگر یہ ہماری تاریخ کا ایک تلخ باب ہے۔
نمائندۂ ولی فقیہ نے کہا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں اور ملک کے تمام شہریوں پر لازم ہے کہ وہ غیر حاضر نہ رہیں بلکہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو پہچانیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی سب سے بڑی نعمت امن و امان ہے، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی صحت اور امن کو ایسی نعمتیں قرار دیا ہے جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے امن کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے اور شرپسند عناصر کو موقع نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ محبت، احترام، پرامن بقائے باہمی اور سماجی تعاون ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد ہیں، خصوصاً کمزور اور محروم طبقات کی مدد کرنا ہم سب کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ علمی و فکری نشستیں، تربیتی مجالس اور وحدتِ امت کے موضوعات پر مشترکہ پروگرام زیادہ منظم انداز میں منعقد ہوں گے تاکہ نوجوان نسل کو صحیح راستہ دکھایا جا سکے۔
ڈاکٹر حکیم الہی نے قرآن کریم میں بیان کردہ امانت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انسان ایک عظیم ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے، اسی لیے اسے امین کہا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بعثت سے پہلے "محمد الامین" کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امت کی ذمہ داری موجودہ دور تک محدود نہیں بلکہ آنے والی نسلوں اور انسانیت تک پھیلتی ہے۔ "دنیا کے آٹھ ارب انسان اس پیغام کے منتظر ہیں، ہمیں اپنی آواز وہاں تک پہنچانی ہوگی۔"
اس موقع پر ڈاکٹر سلیم خان، نائب صدر جماعت اسلامی مہاراشٹر، نے اپنے خطاب میں انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ اپنی تاریخی وابستگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انقلاب کے ابتدائی ایام میں حیدرآباد میں ایک عظیم پروگرام منعقد ہوا تھا جس میں امام خمینیؒ کی آمد کی خواہش ظاہر کی گئی تھی، لیکن امام نے آیت اللہ خامنہ ای کو نمائندہ بنا کر بھیجا، جن کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ "آج ہمیں خوشی ہے کہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نمائندے کا ممبئی میں استقبال کرنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔"
اسی طرح جناب ظفر انصاری، سیکرٹری جماعت اسلامی ہند، نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچپن سے جماعت اسلامی کے ماحول سے وابستہ رہے اور نوجوانی کے دور میں انقلاب اسلامی کے لیے منعقدہ احتجاجات اور تحریکوں میں سرگرم رہے۔
انہوں نے کہا کہ علامہ مودودی کے افکار نے ان کی فکری تربیت میں اہم کردار ادا کیا، اور انہیں امام خمینیؒ کے نظریات میں اس کی زیادہ مضبوط اور عملی شکل نظر آئی، جو آج بھی امت کے لیے رہنما ہیں۔






















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
