
سلیمانی
ہفتہ وحدت اور وحدت کے جدید آفاق
ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیا یہ مقامِ تعجب نہیں کہ اپنے خون سے دفاع، مزاحمت اور قربانی کی لازوال داستانیں رقم کرنے والی مسلمان قوم کے جوان آج یہ نہیں جانتے کہ وہ اس جدید عہد میں کیسے زندہ رہیں۔ مذکورہ بالا عبارت میں نے اپنے حالیہ تجزیئے میں بیان کی تھی۔ راقم الحروف نے یہ تجزیہ حالیہ دنوں میں وائس آف نیشن کے پلیٹ فارم سے ایک آنلائن کانفرنس کے دوران پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ سیشن کے دوران ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنے کیلئے بنگلہ دیش (ڈھاکہ) سے مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب بھی آنلائن تھے۔ سیشن کا افتتاحی خطبہ محترم منظوم ولایتی صاحب نے بیان کیا اور نظامت کے فرائض منظور حیدری صاحب نے انجام دیئے۔
مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب نے اپنی گفتگو میں اہلِ سنّت اور اہلِ تشیع کی داخلی وحدت اور پھر باہمی وحدت کے حوالے سے بہت مفید گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کے بعد میں نے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر جو تجزیہ پیش کیا، اس میں ایک زاویہ یہ تھا کہ ہم مسلمانوں نے اپنے نوجوانوں کو دین کیلئے جان دینے اور شہید ہونے کیلئے تو تیار کیا ہے، لیکن دین کی بالا دستی کیلئے اپنے جوانوں کی زندگیوں کو منشیات، جہالت، بیروزگاری اور فحاشی سے محفوظ بنانے کا شعور ہم میں آج تک نہیں۔ ہمیں ہفتہ وحدت میں اس حوالے سے بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم سب نے مل کر اپنے اپنے ملک کے اندر مسلمان جوانوں کو جنت کے حصول کا مشترکہ خواب تو دکھایا، لیکن ہم نے اس دنیا کو جوانوں کیلئے جنت بنانے کی مشترکہ طور پر آرزو نہیں کی۔
آج ہمارے جوانوں کو دشمنوں کی گولیوں سے زیادہ سوشل میڈیا، منشیات، ملاوٹ شدہ غذاوں، زہریلے پانی اور جہالت سے خطرہ ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے لوگوں کو قبر میں جنت کے باغات تو بتائے، لیکن اس دنیا کی نعمتوں اور اس زندگی کی سرسبز وادیوں سے انہیں غافل کر دیا۔؟ ہم نے محض مرنے کے بعد جنّت کی تعلیم تو دی، لیکن جیتے جی اس دنیا کو ریاستِ مدینہ کی مانند جنت بنانے کی تعلیم کو نظرانداز کیا۔ دوسری طرف مجھے مختصراً یمن کا تذکرہ بھی کرنا تھا، چنانچہ میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ آج یمن کے سمندروں سے اٹھتی ہوئی آگ ہمیں یہ سمجھا رہی ہے کہ اسلام کا پیغام فرد کی روحانیت اور عبادات تک محدود نہیں بلکہ اسلام کا مقصد کمزور، مستضعف اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ گفتگو کا دوسرا زاویہ تھا۔ یہیں پر ہفتہ وحدت اور بلیک ستمبر کا ذکر بھی ضروری تھا۔
اس حوالے سے میں فقط اتنا ہی کہہ سکا کہ یہ ستمبر کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمیں بلیک ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے سلطانِ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کو تو ایمان کا تقاضا کہا، لیکن جہالت کے جبر کے خاتمے کو اپنے ایمان کا تقاضا نہیں سمجھا۔ یہ کیسی جہالت ہے کہ اس مہینے میں خود اُردن کے مسلمان فوجیوں نے ہی بیس ہزار فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا۔؟ اب گفتگو کا ایک اور باب کھلا اور وہ یہ کہ ہم ایک صادق اور امین نبیؐ کی اُمّت ہیں، لیکن اس کے باوجود سچائی سے آنکھیں چرانے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ سچائی تو یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے کشمیر و فلسطین کے اندر اپنے ہی بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کیلئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ہم نے ان کے دلوں میں شجاعت اور قربانی کی آرزو تو پیدا کی، مگر انہیں زندگی کی پیچیدہ راہوں کو طے کرنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہ دے سکے۔
ہم نے ساری دنیا میں نامحرم کو نہ دیکھنے کو تو اپنے ایمان سے جوڑا، لیکن جدید زمانے کے تقاضوں کو نہ دیکھنے کو بھی اپنا ایمان بنا لیا ہے۔ گویا جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی بھی ہمارے لئے نامحرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اب مسلمانوں کے موجودہ حالات کے حوالے سے مجھے فلسطین کا ذکر بھی کرنا تھا۔ مجھے اس امر کا اعتراف کرنا پڑا کہ ایک طرف تو "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" کے قرآنی حکم پر ہم عمل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہماری آنکھوں میں ان فلسطینی مہاجرین کیلئے کوئی آنسو نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 7 سے 8 ملین کے درمیان ہے۔ ان بے چاروں کو آخر کب تک یونہی مہاجر رہنا ہوگا۔ یہ مہاجرین 1948ء کے "نکبہ" (The Nakba) کے دوران فلسطین سے اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخل ہوئے تھے، اس وقت کی فلسطینی مہاجرین کی ابتدائی تعداد تقریباً 750,000 تھی۔
آج یہ مہاجرین مختلف ممالک اور پناہ گزینی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اردن میں سب سے زیادہ فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جہاں تقریباً 2.2 ملین فلسطینی آباد ہیں، جن میں سے کئی مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لبنان میں بھی تقریباً 450,000 سے 500,000 فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جنہیں مختلف پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور ان کی زندگی انتہائی دشوار ہے۔ مصر، شام اور دیگر عرب ممالک میں بھی فلسطینی مہاجرین کی موجودگی ہے اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNRWA) کے مطابق، 2021ء تک فلسطینی مہاجرین کی تعداد تقریباً 5.7 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ کیا ان مہاجرین کو واپس ان کے گھروں تک پہچانا بھی دعوت و اصلاح کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔؟ ہمیں آج سوچنا چاہیئے کہ ہم کیسے اے آئی کے ذریعے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔؟ کیا ہم آئندہ بھی دنیا سے کشمیریوں و فلسطینیوں کیلئے آزادی کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ یا ہم خود اپنی تقدیر بدلنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں گے؟
خصوصی طور پر، مصنوعی ذہانت (AI) جیسے جدید ٹولز کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم بھی کبھی اِن ٹولز کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے استعمال کرنا سیکھیں گے۔ ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ اے آئی کی مدد سے ہم مسلمانوں کی بہتر زندگی کے مواقع کیسے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم مسلمان جوانوں کے لیے کون سی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، انہیں روزگار کے کون سے مواقع دے سکتے ہیں اور جدید عہد میں انہیں انسانی اقدار کا پابند کیسے بنا سکتے ہیں۔؟ ہفتہ وحدت میں ہمیں مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کو اپنی وحدت و فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ منوانا ہوگا کہ ہمارے دین کی سچائی صرف آخرت کے افق پر نہیں چمکتی، بلکہ اس دین پر عمل کرکے ہم دنیا میں بھی ایک کامیاب زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا چاہیئے کہ ہم نے ہمیشہ دعوت و اصلاح کو صرف عبادات اور آخرت کے دائرے تک محدود سمجھا اور یہی ہماری ناسمجھی ہے۔
میرے تجزیئے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ہفتہ وحدت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کا دائرہ صرف عبادات تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کی نجات کے لیے مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وحدت کے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو ہم جہانِ اسلام میں ایک نئی وحدت کا آغاز کرسکتے ہیں اور اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو یاد رکھیں کہ کوئی بھی نظریہ چاہے وہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو وہ بے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے فلاح و بہبود کی نئی راہیں تب ہی کھل سکتی ہیں، جب ہم ٹیکنالوجی، دین اور اخلاقیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ اس سیشن میں ہم نے کچھ تجاویز پیش کرنی تھیں، جو وہاں تو پیش نہ کرسکے، البتہ اس وقت پیشِ خدمت ہیں۔
ہماری تجویز ہے کہ ہفتہ وحدت کی برکت سے مسلمان AI اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر میں جدید تعلیم تک اپنی رسائی کو بڑھانے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، اس سلسلے میں نوجوانوں کو سکالرشپ، آگاہی، شعور اور حوصلہ دیں۔ اسی طرح مسلم دنیا میں صحت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی جیسے AI اور بایوٹیکنالوجی کا استعمال بیماریوں کی تشخیص، علاج اور ادویات کی پیداوار میں انقلاب لا سکتا ہے۔ غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی AI کو معیشت میں بہتری لانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔ مزید براں کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی جیسے AI کو استعمال کرکے آلودگی اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ ضروری ہے۔ ہمیں گلوبل یونٹی اور امن کے قیام کے لیے، AI اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف قوموں اور مذاہب کے درمیان بات چیت اور تعاون بڑھانا چاہیئے۔ پائیدار ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں کسٹمر اور کنزیومر کے بجائے پروڈکشن کے میدان میں اپنا لوہا منوانا چاہیئے۔
یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب مسلمان جوانوں کو فرقہ واریّت، علاقائیت اور لسانیّت کے بجائے اجتماعی فلاح و بہبود کی سوچ اپنانے کی ترغیب دی جائے، اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ممالک کے وسائل آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رہیں گے۔ بصورت دیگر ہماری آئندہ نسلوں کو دینے کیلئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اے آئی میں مہارت کے بغیر ہماری آئندہ نسلوں کو ہر قدم پر ایک پاسورڈ کی ضرورت ہوگی اور وہ پاس ورڈ انہیں مفت میں نہیں ملے گا۔ حتی کہ انہیں ہر سانس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیئے کہ اس مرتبہ ہفتہ وحدت اپنے ہمراہ جدید دنیا کے ماڈرن چیلنجز کو لئے ہوئے ہے۔ ہمیں اسلامی دنیا کے درمیان وحدت، ہم آہنگی، تعاون، مواخات، ہمدردی اور اتحاد کے لئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وساطت سے وحدت کے نئے آفاق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں! ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
مسلمانوں کو اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا ہونگے، سید علی خامنہ ای
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا ہوں گے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے ایرانی صدر اور کابینہ سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیلی ریاست شرمناک جرائم کر رہی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات کا خاتمہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اسرائیل کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
نماز کے ذریعے ایک جوان کا دل روشن ہو جاتا ہے
تمام شرعی واجبات کی ادائیگی اور تمام حرام کاموں سے دوری کا حکم، انسان کی روحانی جڑوں کی تقویت اور اس کے دنیا و آخرت کے تمام امور کی اصلاح کے لیے، چاہے وہ انفرادی اصلاح ہو یا اجتماعی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس میں بعض عناصر کلیدی ہیں چنانچہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ان عناصر میں نماز سب سے بنیادی عنصر ہے۔ ملک کے جوان طبقے میں دوسروں سے زیادہ نماز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ نماز کے ذریعے ایک جوان کا دل روشن ہو جاتا ہے، امیدوں کے دریچے کھل جاتے ہیں، روح تازہ ہو جاتی ہے، سرور و نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ حالات زیادہ تر جوانوں کا خاصہ ہیں۔
امام خامنہ ای
حضرت خدیجہ: قریش کی ملکہ سے ام المؤمنین تک کا سفر
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں جنہوں نے اپنی بے پناہ دولت، بے مثال پوزیشن اور ذاتی آرام کو چھوڑ دیا تاکہ رسول اللہ کی پہلی اور سب سے مضبوط و پائیدار مددگار بن سکیں۔ وہ مکے کے معاشرے میں ایک چمکتے ہوئے موتی کی طرح رہ سکتی تھیں لیکن انھوں نے ایک نئے تمدن کا بنیادی ستون بننے کا راستہ چنا۔ انھوں نے "ملکۂ قریش" سے "ام المؤمنین" بننے تک جو راستہ طے کیا، وہ ریشم اور سونے سے نہیں بلکہ بھوک، ایثار اور درخشاں ایمان سے ہموار ہوا۔
جاہلیت کے خلاف استقامت
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جسے قرآن "جاہلیت" کہتا ہے؛ ایسا زمانہ جب لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور بیوی کو ایک بے وقعت چیز سمجھا جاتا تھا۔ تاہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے ان رسوم کو چیلنج کیا۔ انھوں نے اپنی تجارت کو بے انتہا فروغ دیا اور ان کے تجارتی قافلے پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئے۔(2) کہا جاتا ہے کہ ان کے قافلے، پورے قریش کے دوسرے تمام قافلوں کے برابر تھے۔ اس کامیابی نے انھیں "ملکۂ قریش" کا خطاب دلایا اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات تھی کہ اپنی پاک دامنی کی وجہ سے وہ "طاہرہ" کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ تجارت کے ماحول میں جہاں مُنافع سب سے اہم تھا، اخلاقی اصولوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور رشوت کا لین دین عام تھا، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا انصاف، سچائی اور امانت داری کے لیے جانی جاتی تھیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے، وہ ان حقوق کی پاسداری کرتی تھیں جن کی بعد میں اسلام نے توثیق کی: ملکیت میں خواتین کا حق، تجارت اور خودمختاری اور عزت و وقار کے ساتھ انتظامی ذمہ داری۔ وہ امیر تھیں، لیکن دولت انھیں اپنا قیدی نہ بنا سکی بلکہ یہ ان کی خدمت اور خیر خواہی کا وسیلہ بنی۔ ان کی خود مختاری اور کامیابی نے عورت کی کمزوری اور دوسروں پر انحصار کے عام خیال کو باطل کر دیا اور ایک مسلمان عورت کا نیا آئیڈیل پیش کیا: پوری عفت و عزت اور ترقی و پیشرفت کے ساتھ معاشرے میں سرگرم ایک عورت۔، لیکن ساتھ ہی پاکدامن اور بلند مرتبہ۔
پاکدامنی اور بصیرت کا نتیجہ، سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف
پہلی وحی کے نزول کا واقعہ، انسان اور آسمان کی ملاقات کی داستان ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، وہ دیانتدار تاجر جو "امین" کے نام سے مشہور تھے، غار حرا میں طویل خلوت نشینی اور پہلی آیات کے نزول کے بعد ایک بدلی ہوئی کیفیت میں گھر لوٹے۔ یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا قلب مبارک تھا جو رسول اللہ کی پہلی پناہ گاہ بنا۔ انھوں نے صرف بیویوں والی تسلی پر اکتفا نہیں کیا اور آنحضرت پر وحی کے نزول کے واقعے کو خواب و خیال نہیں سمجھا، انھوں نے پورا ماجرا غور سے سنا اور پھر ان کی تصدیق کی۔ ان کا ایمان ایک شعوری اور سوجھ سمجھ کر کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ پندرہ سال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گزاری گئی زندگی نے ان پر یہ بات ثابت کر دی تھی کہ جس شخص نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، وہ اللہ کے بارے میں بھی ہرگز جھوٹ نہیں بولے گا۔
امام خامنہ ای کہتے ہیں: "انھوں نے اپنی پاکیزہ فطرت کے ساتھ، بات کی سچائی اور حقانیت کو فوراً سمجھ لیا ... ان کا قلب مبارک حقیقت کی طرف مجذوب ہو گیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ پھر ہمیشہ اس ایمان پر ڈٹی رہیں۔"(3) اس یقین اور پشت پناہی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی رسالت جاری رکھنے کے لیے قوت بخشی کہ جب سبھی ان کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔
فتح سے پہلے، اپنی دولت و ثروت اور جان کا تحفہ
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے "اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کر دیا" لیکن یہ عبارت ان کے ایثار و قربانی کی گہرائی کو پوری طرح بیان نہیں کرتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے: "تم میں سے جنھوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنھوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی، برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے۔" (سورۂ حدید، آیت 10) حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس آیت کی روشن مصداق ہیں۔ انھوں نے اس وقت اپنی ساری دولت و ثروت خدا کے دین پر قربان کی جب اسلام کا پرچم نہیں لہرایا تھا بلکہ یہ کام اس وقت کیا جب مسلمان تھوڑی تعداد میں تھے اور استہزاء اور ایذا رسانی کا نشانہ تھے۔ اس ایثار و قربانی کا اوج شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے تین سال کے محاصرے کے دوران سامنے آيا، یہ وہ زمانہ تھا جب بھوک اور عسرت پورے خاندانوں پر چھائی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مسلمانوں کے لیے غذا فراہم کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ نثار کر دیا اور خود بھوکی رہیں، یہاں تک کہ ان کے پاس ایمان کے سوا کچھ نہ بچا۔ انھوں نے اپنی دولت، آرام اور آخر میں اپنی جان کو رسالت پر قربان کر دیا۔ امام خامنہ ای نے اس ایثار کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سخاوتوں سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے بارہا اپنی آدھی یا پوری دولت صدقے میں دے دی۔ اس درجے کا ایثار، سنّت اسلامی میں سب سے بڑی فضیلتوں میں سے ہے۔(4)
پیغمبر کے گھر کی ماں
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی والدہ اور گیارہ اماموں کی نانی کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ رہبر انقلاب کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا گھر، اہل بیت علیہم السلام کا گہوارہ تھا۔ انھوں نے برسوں تک امام علی علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی طرح پالا اور اس عظیم خاتون کی والدہ بنیں جن کی نسل سے باقی امام ہیں۔ اس معنی میں، وہ نہ صرف گیارہ اماموں کی ماں بلکہ سبھی بارہ اماموں کی روحانی ماں ہیں۔(5) امیرالمومنین علیہ السلام کے بچپن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ان کی ہم نشینی کا ماحول فراہم کر کے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے نبوت اور امامت کے رشتے کی راہ ہموار کی۔ ان کا گھر روحانی پناہ گاہ اور معرفت الہی کا سرچشمہ بنا۔ حضرت خدیجہ اور پیغمبر کے گھر کی عظمت و منزلت صرف شیعوں ہی میں بلند نہیں ہے۔ اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی بھی قرآن کی آیت اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْھِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَيْتِ (سورۂ احزاب، آيت 33) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اہل بیت علیہم السلام کی اصل اور جڑ حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں۔ اس لیے کہ حسنین علیہما السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت خدیجۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں اور علی علیہ السلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں پلے بڑھے، پھر ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی علی علیہ السلام سے ہوئی۔ اس طرح واضح ہے کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اصل اور بنیاد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں۔"(6)
محبت و احترام سے لبریز شادی
قرآن مجید فرماتا ہے: "اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔" (سورۂ روم، آیت 21) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی مشترکہ زندگی، اس آیت کی مجسم تصویر تھی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پناہ گاہ اور ان کی مہربانی کا سرچشمہ تھیں۔
ان کا رشتہ شروع سے ہی حیرت انگیز تھا اور اس زمانے کے عرب معاشرے کی سماجی رسومات کو چیلنج کرتا تھا۔ یہ ایک معزز خاتون اور طاقتور تاجر، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں، جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلیٰ سیرت کو پہچان کر ان کو شادی کا پیغام بھیجا۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی سہیلی "نفیسہ" کے سامنے اپنے دل کا راز کھولا اور ان کو واسطہ بنایا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جائیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی مالی تنگدستی پر تشویش کا اظہار کیا تو نفیسہ نے یہ پیغام پہنچایا کہ خدیجہ ایسی خاتون ہیں جنھیں کوئی مالی تنگی نہیں ہے اور اپنے معاشی امور کے لیے انھیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت کے نام نہاد معاشرتی اقدار کی یہ خلاف ورزی، جس کے تحت ایک مالدار خاتون نے ایک غریب مرد کو شادی کا پیغام دیا تھا، ایک ایسے تعلق کی بنیاد بنی جو معاشرتی توقعات پر نہیں بلکہ باہمی احترام پر قائم تھا۔ اپنی پچیس سالہ مشترکہ زندگی میں، جو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے وقت تک جاری رہی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ اس دور کو ایک گہرے پیار، سکون اور رفاقت سے بھرپور دور قرار دیا جا سکتا ہے جو بعد میں رسالت کے سامنے آنے والے مشکل برسوں کے مقابلے کی بنیاد بنا۔(7)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھوٹا کہا، انھوں نے تب اپنے مال سے میری مدد کی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مجھے اولاد عطا کی جبکہ دوسری بیویوں سے نہیں دی۔"(8) ان دونوں کی محبت اور باہمی احترام تمام جوڑوں کے لیے ایک مثال ہے؛ ایمان اور ایثار پر مبنی ایک رشتہ۔ وہ طوفانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ایک مضبوط قلعہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی ان کو فراموش نہیں کیا۔
عورتوں اور مردوں کے لیے ایک جاوداں نمونۂ عمل
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی زندگی عورت کے بارے میں ہر غلط تصور کو توڑ دیتی ہے: وہ ایک ہی وقت میں پاکدامن اور طاقتور، مالدار اور متواضع بیوی اور ماں ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک بااثر خاتون تھیں۔ انھوں نے دکھا دیا کہ حقیقی عزت ایمان، خدمت اور اخلاص میں ہے۔
امام خامنہ ای زور دے کر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظمت زیادہ تر طاق نسیاں کی زینت بنتی رہی ہے حالانکہ وہ ایک ایسا نمونۂ عمل ہیں جو زمانے سے بالاتر ہے، وہ عورت کی دو غلط تصویروں کا جواب ہیں: ایک قدیم جاہلیت میں جہاں عورت کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اور لڑکی کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، اور دوسری جدید جاہلیت میں جہاں عورت کو ایک سامان اور استعمال کی چیز میں بدل دیا گیا تھا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا "تیسری راہ" کی نمائندگی کرتی ہیں: ایمان اور خدمت کی بنیاد پر پاکیزگی اور خود مختاری کی راہ۔ اسی وجہ سے وہ تاریخ کی چار بہترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں؛ حضرت مریم سلام اللہ علیہا، حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ۔(9) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے خدیجہ کے لیے جنت میں ایک ایسے محل کا وعدہ کیا ہے جس میں نہ کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف۔"(10) ان کی وراثت خاموش حمایت نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد رکھنے میں ایک فعال اور فیصلہ ساز کردار کی تھی، انھوں نے اپنی عقل، اثر و رسوخ اور بے پایاں دولت و ثروت کو خدا کے پیغام کی خدمت میں لگا دیا۔ یہ قربانی کسی بھی تلوار سے زیادہ بلند آواز تھی؛ ایک ایسا انتخاب جس نے نومولود اسلام کو تباہی سے بچایا اور ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی۔
1. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
2. https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-2-early-life Bihar al-Anwar, Vol. 16, pp. 21-22
3. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
4. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
5. https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746
6. فتح الباری بشرح صحیح الامام البخاری، ج 7، ص 169
7. https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-4-marriage
8. بحارالانوار، ج 16، ص 12
9. اصول کافی، ج. 1، ص 458
10. بحارالانوار، ج 16، ص 12
ایران اور چین کے درمیان اہم سجھوتے طے پائے ہیں: ایرانی وزیر خزانہ
ایران کے وزیر خزانہ سید علی مدنی زادہ نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے دورہ چین کے دوران مختلف اقتصادی شعبوں میں اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔
انہوں نے صدر کے دورہ چین کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور تہران اور بیجنگ نے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا۔
علی مدنی زادہ کا کہنا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان طے پانے والے سمجھوتوں کا جائزہ لینے اور انہیں حتمی شکل دینے کے لیے خصوصی ورکنگ گروپ قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایران اور چین کا ایک مشترکہ ورکنگ گروپ ان سجھوتوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔
ایران کے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون کو بڑھانے کی غرض سے انجام پانے والے اس دورے نے شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ بھی ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔
ایران کی چوھویں حکومت کی سفارتکاری کے 12 مہینے
سلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ ملی وفاق کی حکومت کا پہلا سال سیکورٹی بحران، پابندیوں کے دباؤ اور تیز رفتاری علاقائی تغیرات کا سال تھا مگر اس کی کثیر جہتی فعال سفارتکاری، جارحیتوں کے خلاف عالمی اجماع وجود میں لانے میں کامیاب رہی۔ اس حکومت نے گزشتہ ایک برس میں،معیشت اور پڑوسیوں کے تعلق سے بھی موثر اقدامات انجام دیئے اور اپنی سفارتی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کرکے، دنیا کے سامنے ایران کی ایک نئی شبیہ پیش کرنے میں کامیاب رہی۔
وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے
المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے حوزہ نیوز کے نمائندے کو ”قرآن مجید میں امت کے اتحاد کی اہمیت اور ضرورت“ کے موضوع پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو خیر امت سے یاد کرتا ہے جو معاشرہ سازی اور انسان سازی کے لیے خلق ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:"كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّه. (سورہ آل عمران، آیت 110) امت کا الله تعالٰی پر ایمان کے بعد خودسازی امت کی اصل اور بنیاد ہے۔ امت کا دوسرا اہم کام، دوسروں کو نیک بنانا اور برائی سے روکنا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے ہمیں خیر امت سے یاد کیا ہے، کیونکہ ہمارا کام، دوسروں کو اچھائی اور برائی، نیک و بد سمجھانا ہے اس لیے ہم خیر امت کہلائیں۔
انہوں نے امت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امت، یعنی جن کا رہبر ایک ہو، جن کا ہدف ایک ہو اور ایک ہی امام کے پیچھے چلنے والے ہوں تو ان کو اس مقدس عنوان ”امت“ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے ہم وحدت پر ہی خلق ہوئے ہیں فکری اختلاف اور عملی اختلاف، فطرت انسانی سے بغاوت ہے؛ اگر اختلاف کریں گے تو خیر امت کی منزلت سے گر جائیں گے جب اس مرتبے سے گر جائیں گے تو پھر خودسازی و جہاں سازی کے عمل میں سست پڑ جائیں گے۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اختلاف انسان کو اپنے آپ سے الجھاتا ہے اور اسی طرح دوسروں سے بھی الجھاتا ہے؛ یوں ایسا انسان تخلیق کے مقصد سے پیچھے رہ جاتا ہے جو کہ توحید پرستی کے ساتھ معاشره سازی کا عمل ہے۔
انہوں نے اتحاد و وحدت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایمان کفر سے بدل جائے؛ نیکی برائی سے اور برائی نیکی سے تو یہاں سے معاشرہ تنزلی کی جانب بڑھ جاتا ہے، ایسے میں کمال طلبی کا عمل رک جائے گا؛ اسی لیے قرآن اختلاف سے بچنے کے لیے وحدت کا فارمولہ پیش کرتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران، آیت 103)
المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے امت سازی کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امت سازی کے نتیجے میں ہم دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہ عمل رک جائے تو ہماری نسلیں بھی برباد ہو جائیں گی؛ اسی لیے اللہ حبل اللہ سے مضبوط رابطہ کی سفارش کر رہا ہے اور باقاعدہ طور پر مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ ایک مرکز سے جڑے رہے اور وہ مرکز حبل اللہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف سے روک رہا ہے، کیونکہ اختلاف سے امت ٹوٹ جاتی ہے اور اغیار کا غلبہ ہوتا ہے۔
شیخ محمد یعقوب بشوی نے اتحاد و وحدت کی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے لیے بنیادی شرائط، دلوں کا آپس میں مل جانا ہے، دلوں میں محبت کا پیدا ہونا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ملنا ہے، ایک دوسرے سے دلی ہمدردی ہے اور یہ کام بھی خدائی ہے: فالف بین قلوبکم... دلوں کی الفت، الله تعالٰی کی نعمتوں میں سے ہے۔ جب دل میں الفت پیدا ہوگی تو عمل میں بھی اختلاف نہیں ہوگا اور اس طرح عداوت، الفت میں بدل جائے گی، معاشرے میں اخوت کا بول بالا ہوگا اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ قرآن کہتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ... (سورہ حجرات، آیت 10) سگے بھائیوں کی طرح برادرانِ ایمانی کا رشتہ بھی مقدس ہے؛ خونی رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن ایمانی رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔ اختلاف، وہ نامطلوب عنصر ہے جو ایمانی رشتے کو پارہ کر سکتا ہے اور انسان کو حکم خدا کا باغی بنادے گا اور مسلمانوں کی اجتماعی شوکت ختم ہوجائے گی۔ قرآن نے کہا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَع الصَّابِرِينَ. (سورہ أنفال، آیت 46)
ڈاکٹر بشوی نے اختلاف کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف کا سب سے بڑا نقصان، الله تعالٰی سے رشتہ ٹوٹ جانا ہے، خدا کی اطاعت سے باہر نکلنا ہے جو بندہ اللہ تعالٰی کی اطاعت نہیں کرتا وہ خود بخود شیطان کی اطاعت میں چلا جائے گا۔ اختلاف کا اجتماعی نقصان، اجتماعی سوچ اور عمل کا مفلوج ہوجانا ہے؛ اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے عاجز رہے گا، ہر میدان میں شکست سے دوچار ہوگا، اجتماعی ناامیدی پیدا ہوگی، ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے دوسروں کی طرف دیکھے گا اور حسد، کینہ، پست سوچ اور سست ارادہ ایسے معاشرے کی عام عادت ہوگی۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع انداز میں تذھب ریحکم... استعمال کیا ہے، تاکہ مردہ ضمیر، مردہ ارادے اور مردہ قوم جاگ جائے۔
انہوں نے اختلافات سے دوری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف سے بچنے کے لیے صبر ایک بہت بڑا ہتھیار ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ صبر کا پھل اور اس کا فائدہ بھی بیان فرما رہا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی عنایت اور اس کی معیت اور سرپرستی ہے، لہٰذا ہمیں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم کر کے وحدت کی فضاء کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ امت دوبارہ خیر امت کی مصداق بن سکے۔
اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی جسم میں خون کی روانی، مولانا مراد رضا رضوی
ہفتہ وحدت اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے بہار کی راجدھانی عظیم آباد پٹنہ میں شب 12 ربیع الاول کو قدیمی جلوسِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ نکالا گیا۔ اس جلوس میں معروف عالم دین مولانا مراد رضا رضوی کی موجودگی نے اتحاد بین المسلمین کی فضا کو مزید تقویت بخشی۔
اس موقع پر نوجوانوں کے سینوں پر ’’فری فلسطین‘‘ کے اسٹیکر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیے جو مسلمانوں کی یکجہتی اور مظلوموں کی حمایت کی علامت تھے۔
رپورٹ کے مطابق مولانا مراد رضا جلوس میں شریک ہوئے اور تقریباً تین گھنٹے تک آنے والے مختلف قافلوں کا پرجوش استقبال کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے شرکاء کو ہار پہنائے، معطر کیا اور شیرینی تقسیم کر کے سب کو اپنے قریب لگایا۔
اس موقع پر مولانا مراد رضا رضوی نے اپنے خطاب میں کہا: اتحاد بین المسلمین وقت کی اتنی ہی اہم ضرورت ہے جتنی کہ جسم میں خون کی روانی۔ آج دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو فرقہ واریت اور انتشار کے ذریعہ کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے سبق لینا ہوگا۔ جس طرح رسول خدا (ص) نے مدینہ میں اخوت و برادری کی بنیاد رکھی تھی، اسی طرح آج بھی ہمیں باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ وقت مسلمانوں کے درمیان نفرتیں ختم کرنے اور اخوت و محبت کے رشتے کو مضبوط کرنے کا ہے۔ اگر ہم ایک امت بن کر کھڑے ہو جائیں تو نہ کوئی طاقت ہمیں کمزور کرسکتی ہے اور نہ ہی فلسطین و دیگر مظلومین پر ہونے والے مظالم باقی رہیں گے۔
واضح رہے کہ اس قدیمی جلوس میں دو سو سے زیادہ قافلے شریک ہوئے جو آخرکار علاقے کے منگل تالاب میں موجود تاریخی خانقاہ پر اختتام پذیر ہوئے۔ اس پروگرام کا اہتمام شہر کی قدیم تنظیم ’’انجمن پیغام کربلا‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔
جنگل کا قانون
"اس دنیا میں ہم کس سے قتل عام کی مذمت کرنے کے لیے مدد مانگیں؟! جس طرح چاہو اس کی مذمت کرو، اس کی کیا قیمت اور کیا فائدہ ہے۔۔۔۔ مذبح خانے (slaughter house) میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کا کیا نتیجہ؟! مذمت کرنے سے بارود کی طاقت کم نہیں ہوتی۔۔۔۔"، یہ اشعار اس ترانے کا حصے ہیں، جسے مصری گلوکار "امیر عید" نے غزا کے ایک تہوار میں صیہونی حکومت کی جنگی مشینری کے قتل عام کے تناظر میں ایک تقریب میں پیش کیا ہے۔ اسی ترانے کے ایک اور حصے میں، وہ مخصوص انداز میں شعر پڑھتا ہے اور کہتا ہے "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دنیا کیا کہتی ہے، آزادی سے مرو اور ذلت میں نہ جیو اور نسل در نسل متاثر کرتے رہو اور انہیں آئندہ آنے والی نسلوں کو پیغام دو کہ شکست نہیں ماننی۔
اور اس مقصد (فلسطین) کے لیے کیسے جینا اور مرنا ہے۔۔۔۔"، 41 سالہ مصری گلوکار کوئی سیاسی شخصیت نہیں، لیکن اس نے ثقافتی اور فنکارانہ انداز میں بین الاقوامی نظام کو درست سمجھا ہے۔ اس نے اسرائیلی حکومت اور عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی ماہیت و کارکردگی کا صحیح ادراک کیا ہے۔ اس کا یہ ادراک درست ہے کہ دنیا اور اس پر حکمرانی کرنے والے موجودہ نظام ایک جنگل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر آپ کے پاس طاقت نہیں ہے تو آپ کو انسان نما بھیڑیوں کے ذریعے چیر پھاڑ کر ختم کر دیا جائے گا۔ ایسے منظر میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرے انسان بھیڑیوں کے ہاتھوں چیر پھاڑ کے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں یا نہیں۔
مغرب اور امریکہ کے سائے میں صیہونیت نے غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک مختلف طریقوں سے تقریباً 60,000 لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ توپوں، ٹینکوں، ہتھیاروں، فاقہ کشی اور مسلط کردہ قحط سے لے کر لائیو ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے امدادی کارکنوں اور صحافیوں پر حملوں تک کی کارروائی کسی سے پوشیدہ نہیں. یورپیوں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی، امریکیوں نے اسرائیل سے حملوں کی تیز رفتاری کو کم کرنے کا مطالبہ کیا، ان تمام مذمتوں اور پابندیوں کے درمیان صہیونی فوج کی قتل عام کرنے والی مشین مسلسل چل رہی ہے اور کی سپلائی چین اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ سپلائی چین بھی مذمت کرنے والے انہی ممالک کے صنعتی اور ہتھیاروں کے بطن سے وابستہ ہے۔
بعض اسرائیل کی شدید مذمت کرتے ہیں یا اسے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں بعض کی انسانی اور انسانیت کی رگوں میں ہلچل پیدا ہوتی ہے تو وہ صیہونیوں کی رضامندی کے ساتھ فضا سے خوراک کی چند کھیپیں غزہ کے بھوکے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ کیا یہ ممکن ہے کہ 1.9 ملین لوگوں کی ضروریات کو چند ٹرانسپورٹ پروازوں کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے سامنے محض ایک یادگار تصویر کے لیے یہ اقدام کارآمد ہوسکتا ہے، ورنہ حقائق سے انسان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ ایسے جنگل میں انسان کے لئے صرف مضبوط ہونا لازم ہے، شیطان کے سر کو کچلنا ضروری ہے۔ قاتل کے پرو بازو کو کاٹنا وقت کا تقاضا ہے۔ زندگی اور بقا کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے حملہ آور کو لگاتار زخم لگانا اہم ہے۔
زخم کے بعد زخم، اس حکمت عملی کا ایک مصداق وہی اقدام ہے، جو اس وقت یمنی مسلمان بھائی انجام رہے ہیں۔ مشہور مصری گلوکار نے ایک فیسٹیول کے اسٹیج پر بالکل صحیح گایا ہے۔ جو چاہو مذمت کرو؛ مذبح خانے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مذمت کرنے کی کیا قیمت اور کیا حیثیت ہے۔؟! مذمتوں سے بارود کی طاقت کم نہیں ہوتی۔" تاہم اب یمن کے آزاد مسلمان اس منطق کو جنگل کے قوانین کے ساتھ دنیا کے اسٹیج پر پرفارم کر رہے ہیں۔ صہیونیت کے پیکر پر ایک کے بعد ایک زخم لگانا ضروری ہے۔ صیہونیت کی جنگی مشینری کو ایک کے بعد ایک دھچکا اور کاری ضرب لگانا وقت کی پکار ہے۔ زبانی کلامی مذمت کافی نہیں، طاقت اور بھرپور جوابی کارروائی ہی دشمن کی بارود کی طاقت کو کم کرسکتی ہے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
صیہونزم کے ہاتھوں لہولہان صحافت
غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف مجرمانہ اقدامات جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر فلسطینی رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو براہ راست جارحیت کا نشانہ بنایا ہے۔ خان یونس شہر میں واقع ناصر اسپتال پر صیہونی بمباری میں پانچ فلسطینی رپورٹرز شہید ہو گئے ہیں اور یوں غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے صحافیوں کی کل تعداد 244 تک جا پہنچی ہے۔ الجزیرہ چینل کے رپورٹر نے بریکنگ نیوز کا اعلان کرتے ہوئے کہا: "الجزیرہ نیوز چینل کا کیمرہ مین محمد سلامہ، فلسطینی کیمرہ مین حسام المصری، رپورٹر مریم ابودقہ اور معاذ ابوطہ ناصر اسپتال پر اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئے ہیں۔ اس حملے میں کچھ دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے ہیں۔" الجزیرہ نے اسی طرح اعلان کیا کہ اب تک ناصر اسپتال پر حملے میں 20 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں پانچ صحافی بھی شامل ہیں۔
اس بارے میں فلسطینی حکومت کے دفتر نشریات نے بھی اپنے بیانیے میں کہا ہے کہ ناصر اسپتال پر حملے میں پانچ صحافیوں کی شہادت کے بعد اب تک شہید صحافیوں کی تعداد 244 ہو چکی ہے۔ اس بیانیے میں غاصب صیہونی رژیم، امریکی حکومت اور برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت کچھ یورپی ممالک کو بھی اس وحشیانہ اور انسان سوز جرم میں صیہونی رژیم کا شریک قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ صیہونی رژیم نے صحافیوں کی ٹیم کو براہ راست حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے 11 اگست کے دن بھی صیہونی فوج نے صحافیوں کے کیمپ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا۔ یہ کیمپ غزہ شہر میں شفا میڈیکل کمپلکس کے مین گیٹ کے سامنے نصب کیا گیا تھا۔ اس حملے میں 6 فلسطینی صحافی شہید ہو گئے تھے۔ غزہ میں صیہونی رژیم کی جانب سے صحافیوں کو براہ راست نشانہ بنانے پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام کو "بین الاقوامی انسان پسندانہ قوانین کی واضح خلاف ورزی" قرار دیا اور تاکید کی کہ اسرائیل صحافیوں سمیت تمام عام شہریوں کا احترام کرے اور انہیں نقصان پہنچانے سے باز رہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ ہم غزہ تک تمام صحافیوں کی فوری اور محفوظ رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر آئرین خان نے آزادی اظہار کے بارے میں بیانیہ جاری کرتے ہوئے کہا: "صیہونی فوج حقیقت کو نابود کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ ہر گز اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو گی۔" فلسطینی ذرائع ابلاغ کی انجمن کے سربراہ محمد یاسین نے غزہ میں صحافیوں کو درپیش شدید مشکل حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "غاصب صیہونی صحافیوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "صیہونی حکمران چاہتے ہیں کہ حقیقت کی آواز بند ہو جائے اور عام شہریوں کے خلاف ان کے مجرمانہ اقدامات پوشیدہ رہ جائیں۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحافی ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے افراد کے حقیقی گواہ اور آواز ہیں لہذا ان کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں۔" محمد یاسین نے کہا: "صحافی بہت ہی سخت اور مشکل حالات میں اور کسی قسم کی حمایت کے بغیر غزہ میں فعالیت انجام دے رہے ہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ نہ ہونے، اپنے دسیوں دوست صحافیوں کی شہادت اور اپنا گھر مسمار اور اہلخانہ شہید ہو جانے کے باوجود وہ اپنی فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام کی آواز دنیا والوں تک پہنچا رہے ہیں۔" فلسطین میڈیا انجمن کے سربراہ نے صیہونی رژیم کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ داخلے سے روکنے کے بارے میں کہا: "یہ اقدام واضح طور پر غزہ کا میڈیا بائیکاٹ کرنے اور اپنے جرائم چھپانے کی غرض سے انجام پا رہا ہے۔"
انہوں نے کہا: "بین الاقوامی آزاد صحافیوں کی غزہ میں موجودگی صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کو آواز اور تصاویر کے ذریعے فاش کر سکتی ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے اسرائیل روک رہا ہے۔" انہوں نے آخر میں عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اور صحافیوں پر حملے روکنے اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے غزہ می فوری داخلے کے لیے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالیں۔ غزہ میں فلسطین کی وزارت صحت نے بھی اپنے بیانیے میں صیہونی رژیم کی جانب سے ناصر اسپتال کو فضائی حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی شدید مذمت کی اور اسے جنوبی غزہ میں واحد فعال اسپتال کے خلاف ہولناک جرم قرار دیا ہے۔ اس وزارت کے بیانیے میں کہا گیا ہے: "یہ حملہ صحت کے نظام کی نابودی اور سسٹمٹک نسل کشی کا تسلسل ہے اور تمام انسانی اقدار اور عدالت چاہنے والوں کی بے حرمتی ہے۔"
فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے بھی اس بزدلانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا: "صیہونی فوج نے ناصر اسپتال پر بمباری کر کے 20 افراد کو شہید کر دیا جن میں صحافی اور امدادی کارکن بھی تھے۔ جرائم پیشہ نازی رژیم نے غزہ کے تمام علاقوں میں جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور عام بے گناہ شہریوں کا وسیع قتل عام کر رہی ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کی دہشت گرد کابینہ نے ایک بار پھر جان بوجھ کر تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتال پر حملہ کیا ہے اور حسام المصری، محمد سلامہ، مریم ابودقہ اور معاذ ابوطہ نامی صحافیوں کو شہید کر دیا ہے۔ یہ افراد عرب اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان پر حملہ ایک جنگی جرم ہے جس کا مقصد غزہ کے حقائق پر پردہ ڈالنا ہے۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیمیں صیہونی جنگی جرائم روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام دیں۔"
تحریر: علی احمدی