سلیمانی

سلیمانی

تاریخِ اسلام کے اوراق پر چند ایسے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے، جن کی گونج صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایمان والوں کے دل و دماغ میں تازگی پیدا کرتی ہے اور جن کے انکار سے نہ صرف حق کی روشنی ماند پڑتی ہے بلکہ امت گمراہی کی دھند میں بھٹکنے لگتی ہے۔ واقعۂ غدیر کا شمار سرفہرست انہی واقعات میں ہوتا ہے۔ اس واقعے کا اجمال یہ ہے کہ 18 ذی الحجہ کو رسولِ خدا (ص) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لاکھوں کے مجمع میں اعلانِ ولایت فرمایا۔ یہ صرف سیاسی رہنمائی نہیں، بلکہ دین کی بقاء اور امت کی رہبری کا اعلان تھا، مگر افسوس! مسلمانوں کی اکثریت نے واقعہ غدیر کو فقط ایک تاریخی واقعہ سمجھا اور اس کی معنویت سے چشم پوشی کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ ایسی پستی میں جا گِری، جہاں فرقہ واریت، ظلم اور باطل پرستی نے جڑیں پکڑ لیں۔ غدیر کا انکار صرف ایک شخصیت کا انکار نہیں، بلکہ اُس الہیٰ نظامِ ہدایت کا انکار ہے، جو رسول (ص) کے بعد امت کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لیے معین کیا گیا تھا۔

روز غدیر تاریخِ اسلام کا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا اعلان پیغمبر مکرم اسلام کی 23 سالہ زحمتوں پر بھاری ثابت ہوا۔ اس حقیقت کا اظہار خالق دو جہاں کی طرف سے نہ کنائے کی صورت میں ہوا اور نہ اشارے کی شکل میں، بلکہ نص قرآن کے ذریعے ہوا۔ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔۔"، "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔" تفسیر الکوثر کی نقل کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع 10 ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی، جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔
 
چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا: "ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔"، "اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔" پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا۔ بقول امام حنابلہ احمد بن حنبل کے چار مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد فرمایا: "اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب۔"، "اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کو ترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے، جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔"

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے 80 طریق سے، علامہ ابن عقدہ نے 105 طریق سے، علامہ ابن سعید سجستانی نے 120 طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے 125 طریق سے روایت کیا ہے۔ ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں 110 اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے ۔۔موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے
1) زید بن ارقم: ان کی روایت کو امام طبری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں۔
2) ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔
3) عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔

4) عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲: ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
5) جابر بن عبداللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
6) ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
7) براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 2، صفحہ 559) روز غدیر پیغمبر اکرم (ص)یہ فرمان کہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" فقط ایک سیاسی بیعت یا ذاتی محبت کا اظہار نہ تھا، بلکہ یہ ایک ربانی منصوبے کی تکمیل تھی۔ علیؑ کی ولایت کا اعلان، دین کی بقاء کا سامان تھا، مگر صد افسوس! بعض نادان اور مغرض افراد نے اس اعلان کو تاریخ کے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔

قارئین کرام؛ غدیر کا انکار وہ المیہ ہے، جس کی گونج ہر صدی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کی بازگشت کربلا کی صحراؤں میں سنائی دیتی ہے، جہاں پیاسے حلقوں نے حق کی گواہی دی اور اس امام کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، جس کے نانا نے غدیر میں اعلانِ ولایت فرمایا تھا۔ غدیر وہ نظریہ ہے، جو قیادت، خلافت اور روحانیت کے معیار متعین کرتا ہے۔ اس دن یہ بات واضح ہوئی کہ امامت و قیادت کسی قبائلی فخر یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم، تقویٰ، عدل اور قربِ الہیٰ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ علیؑ کی ذات، نبی کے بعد وہ واحد شخصیت تھی، جس میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی تلوار صرف معرکہ جنگ میں نہیں، بلکہ جہل، تعصب اور باطل نظریات کے خلاف بھی چمکتی تھی۔ ان کا علم صرف فتووں تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ فکری جہات کو روشن کرنے والی روشنی تھی۔

مسلمانوں کی اکثریت نے غدیر کے چراغ کو بجھا کر خود اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ جب غدیر کو بھلا دیا تو پھر نہ عدل باقی رہا، نہ علم کی حرمت، نہ صداقت کی بقا۔ خلافت حکومت میں بدل گئی اور سیاست دین کے جسم پر مسلط ہوگئی۔ جنہوں نے اہل بیتؑ کو نظر انداز کیا، انہوں نے حقیقت میں قرآن کو بوسیدہ اور دین کو مجروح کر دیا ہے۔ جب غدیر کو دبا گیا تو طرح طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا اور امت کے جسم میں فرقہ واریت کے خنجر پیوست ہونے لگے۔ اگر امت نے غدیر کے پیغام کو سینے سے لگا لیا ہوتا تو نہ یزید جیسا فاسق برسرِ اقتدار آتا، نہ کربلا کی ہولناک داستان رقم ہوتی، نہ امت اتنی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی۔ اہل بیتؑ کی علمی، روحانی اور اخلاقی رہنمائی اگر معاشروں کا حصہ بن جاتی تو آج امت تہذیب و تمدن کے اوج پر ہوتی۔

غدیر کی فراموشی کے اثرات صرف ماضی تک محدود نہیں۔ آج بھی ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ قیادت کا تصور اب دولت، طاقت اور لسانی و نسلی وابستگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ قومیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں، مسالک کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک مخصوص ٹولہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہہ کر دین کا پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ قرآن جو ہدایت کی روشن کتاب ہے، اب محض قاری کی تلاوت اور حافظ کی یادداشت تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کی روح، اس کا پیغام اور اس کی انقلابی قوت ہماری فکری روایت سے اوجھل ہوچکی ہے۔ دین کے حقیقی نمائندے، یعنی اہل بیتؑ، اب صرف مجالس اور چند مخصوص ایام کا حصہ بن چکے ہیں، نہ کہ روزمرہ کی فکری، اخلاقی اور سیاسی زندگی کا۔ یہ روحانی زوال اسی وقت شروع ہوا، جب غدیر کے عہد کو بھلا دیا گیا۔

آج امت کو جس زوال، انتشار اور پسماندگی کا سامنا ہے، وہ اسی ایک بنیادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یعنی غدیر کو نظرانداز کرنے کا۔ یہ وہ بھول تھی، جس نے ہماری معنوی اساس کو کمزور کر دیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو منتشر۔ ہم نے وحدتِ اسلامی کے اس مرکز کو بھلا دیا، جو سب کے لیے سایۂ رحمت بن سکتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر واپس آئیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو حاضر کریں۔ ہمیں غدیر کی صداؤں کو دل سے سننے کی ضرورت ہے، اس اعلانِ نبوت کو اپنانے کی ضرورت ہے، جو علیؑ کی ولایت میں مضمر ہے۔ قیادت کو دوبارہ عدل، تقویٰ، علم اور روحانیت کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں سیاست کو دین کا تابع بنانا ہوگا، نہ کہ دین کو سیاست کا خادم۔

اگر آج بھی ہم غدیر کے چراغ کو اپنے دلوں میں روشن کریں تو وہ صبح ضرور طلوع ہوسکتی ہے، جس کی روشنی میں امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہو جائے، جہاں کوئی فقہی، لسانی یا جغرافیائی حد ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرے، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی رشتہ قائم ہو جائے، جو محبت، اخوت اور عدل پر مبنی ہو۔ غدیر کا پیغام ایک ازلی صدا ہے، جو صرف ایک مخصوص مکتبِ فکر یا مسلک کا اثاثہ نہیں، بلکہ ہر اُس دل کی پکار ہے، جو حق کا متلاشی، عدل کا پیاسا اور روحانیت کا طالب ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جو تاریخ کے ہر موڑ پر مظلوم کی آہ، محروم کی پکار اور محبِ علیؑ کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتی ہے۔ غدیر ہمیں صرف علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں سکھاتا، بلکہ وہ طرزِ قیادت عطا کرتا ہے، جس میں خودی مٹ جاتی ہے اور خدا کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ پیغام، ہمیں اصولوں سے جڑے رہنے، سچائی پر استقامت اختیار کرنے اور مصلحت کے پردوں کو چاک کرکے حق کی ترجمانی کرنے کا درس دیتا ہے۔

آج، جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور روحانی خلا کا شکار ہے تو ہمیں اسی غدیر کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وحدت کا خواب صرف تقاریر، قراردادوں یا جلسوں سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو غدیر کے اصولوں پر استوار نہ کریں۔ غدیر ہمیں علیؑ جیسی قیادت کی تلاش کا شعور دیتا ہے، جو محراب میں شہید ہو، مگر عدل سے پیچھے نہ ہٹے؛ جو یتیم کے آنسو کو بھی اپنی ریاست کی پالیسی کا مرکز بنائے؛ جو بیت المال کو امانت سمجھے اور اپنی تلوار صرف دشمنِ دین پر اٹھائے، نہ کہ اقتدار کے حریصوں پر۔یہ پیغام ہمیں قرآن کو صرف تلاوت سے آگے لے جا کر، اس کے فہم، تدبر اور معنوی تاثیر کو اپنانے کا کہتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کو عبادات کی قید سے نکال کر ایک ہمہ گیر، حیات افروز نظامِ فکر میں تبدیل کریں۔ ایسا نظام جو مسجد سے عدالت، بازار سے ایوانِ حکومت اور فرد سے معاشرہ تک عدل، تقویٰ، علم اور محبت کا پرچار کرے۔

اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔
تحریر: محمد حسن جمالی
پروپیگنڈا جنگ کے دوران اہم ترین ہتھیار ہوتا ہے اور سادہ لوح عوام بڑی آسانی سے اس ہتھیار کا شکار ہو کر دشمن کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جدید دنیا میں جنگوں کا انداز یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا میدانی جنگ کی بجائے نفسیاتی جنگ کے حربے زیادہ استعمال کرتی ہے۔ ہم بہت جذباتی اور جلد باز لوگ ہیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جہاں ہر قسم کی مستند اور غیر مستند خبروں کا ایک بے انتہا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، جس کی دسترس ہر کہ و مہ تک ہوتی ہے، جس وجہ سے ہر کوئی بزعم خود دفاعی تجزیہ کار بنا ہوتا ہے۔ بعض بلکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی ادھوری معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے انجانے میں اپنے ہی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تین قسم کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جو ایران کے اندھے حامی ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی تحقیق کے جنگ سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی خبر اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایسی خبروں کی بہتات ہوتی ہے کہ ایران نے دھاوا بول دیا ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا گروہ ایران کے اندھے دشمنوں کا ہے، جن کا موقف یہ ہے کہ ایران کے مخالف خواہ یزید ہی کیوں نا ہو، وہ یزید کا ساتھ دیں گے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مستضعف، متعصب، تنگ نظر اور انتہائی جاہل ہیں، سو لائقِ ذکر نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک بڑا بزرگ کہہ گیا تھا کہ "ایہہ وچوں رلے ہوئے ہن جدوں ایران حملہ کرے یا مخالف تے میری قبر تے۔۔۔۔" شہری حفاظت کے پیش نظر اس وصیت پر تو عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔

بہرحال تیسرا گروہ خاصا معتدل تو ہے مگر وہ بھی اکثر و بیشتر جذبات کا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس گروہ میں کئی دانشوران موجود ہیں، جو اپنی فہم و دانش کے مطابق جنگی حکمت عملی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جنگ ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر طعن و تشنیع اور مختلف انداز میں طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں، جو صرف اٹینشن سیکنگ اور زیادہ سے زیادہ آڈینس کے لیے کبھی کبھار چول تک بھی مار دیتے ہیں کہ اس سے فالوورز میں اضافہ ہوگا۔ بعض حمایت میں ان سے آگے نکل جاتے ہیں اور خود کو ان کے دفاعی ماہرین وغیرہ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں۔ لگے ہوتے ہیں کہ یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یہ ہو جاتا اور اس جیسی کئی بے تکی باتیں۔

یہاں ایک نکتے کا ذکر بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کے لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جنگ ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی اور نا ہی جن پر جنگ مسلط ہوئی ہے، وہ ان چیزوں سے واقف نہیں، جن سے ہمارے دانشور آگاہ ہیں۔ فیلیر ہے یا پھر جو کچھ، ایسے وقت میں دشمن کی زبان بولنا دشمن کو مضبوط کرنا، اسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اس حساس ترین وقت میں اپنی دانش جھاڑ کر دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنے برادر اسلامی ملک کا کم از کم اخلاقی سطح پر تو ساتھ دیں۔ جذباتیت سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر بھی اگر غیر جانبداری سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو ماضی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک خواہ کوئی بھی ہو، اگر وہ انسان دشمن عناصر کے خلاف مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہو تو پھر کامیاب ہو کر رہتی ہے۔

اسرائیل کی غزہ پہ جاری جارحیت کس سے عیاں ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آج کس صاحب عقل سے ڈھکی چھپی ہے، سو ایسے میں ایران حق پر ہے اور اس کا ساتھ دینا ہر باشعور شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ ایران کا مخالف خطے بھر میں بدامنی کا باعث ہے اور یہ آگ اگر آج نا روکی گئی تو پھر کئی بلکہ سارے گھر زد میں آئیں گے اور ہمارا مکان بھی یہیں ہے۔ لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آگ کے بھڑکنے سے پہلے ہی اس پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنے ہمسایہ ملک کی حمایت اور جارح ملک کی مذمت کی ہے۔ رہی بات ایران کی مضبوطی کی تو ساشے پیک تجزیہ کار اور سستے دانشوروں کی کل معلومات کا حدود اربعہ سوشل میڈیا ہے اور ان کی دوڑ ایک سائٹ سے دوسری سائٹ تک ہے۔

یہ ہرگز نہیں جانتے کہ جس ملک میں انقلاب کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھماکہ ہوا اور تمام اراکین شہید ہوگئے، جن میں انقلاب کے اولین لوگ بھی شامل تھے، کہنے والے کہتے رہے کہ اب انقلاب ختم، اس پر مجھے جمی کارٹر کا جملہ یاد آرہا ہے کہ "لیکن خدا خمینی کے ساتھ تھا" انقلاب مزید مضبوط ہوا اور اتنا زیادہ مضبوط ہوا کہ خمینی جیسے مرد درویش کا نعرہ "لا شرقیہ ولا غربیہ سپر پاور ہے خدا" آج ہمیں عملی صورت میں نظر آتا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت پر پھر مجھ ایسے نوجوان انقلابیوں نے یاسیت کا اظہار کیا اور ابراہیم رئیسی و دیگر شہداء کی مرتبہ بھی ایک طبقے کا یہی رویہ رہا کہ اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو فلاں ڈھمکاں۔۔۔ اسی طرح باقی شہادتوں پر بھی یہی رویہ اور اب بھی یہی کہ کیڑے نکال رہے ہیں، گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جبکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ اخلاقی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سطحی طور سے دیکھنے کے عادی ہیں اور فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں، جبکہ تحریک اور پھر الہیٰ تحریکوں میں جیت اور ہار کے پیمانے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو درس انقلاب دیا تھا، اس کے ماننے والے اپنی کامیابی و ناکامی اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں، ایسے میں افراد کے جانے سے نظام یا نطریہ دھڑام سے گر نہیں جاتا بلکہ زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لیڈر یا بڑی شخصیات بننے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور ان نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا، مگر ایسے میں برادر بزرگوار ارشاد حسین ناصر کا ایک خوبصورت ترین جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر یہ لوگ شہید نہ ہوں تو باعث حیرت ہے، شہادت کے متلاشی، شہادت کیلئے تڑپنے والے اپنے مقصد کو پاگئے۔ اپنے رفقاء کے بغیر جینا دشوار ہوتا ہے۔"

سو ان لوگوں کا نقصان اپنی جگہ، مگر انہوں نے اپنا کام کر دیا، منزل حاصل کر لی اور اپنی جگہ جانشین بھی تیار کر گئے۔ سید حسن کی شہادت سے بظاہر حزب کمزور لگ رہی ہوگی ہمیں، مگر وہ اپنے نظریات پر پختگی سے کاربند کھڑے ہیں۔ اسی طرح اب کی شہادتوں سے بھی گھبرا کر مزاحمت کی کمزوری کا رونا الاپ کر اپنی مایوسی کا اطلاق مقاومت پر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مقاومت کے تمام بلاکس ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر ہم جو نادانستگی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، آخر کب عقل کا استعمال کریں گے۔؟ آخر میں فیسبکی دانشوروں کے لیے جن کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کرنا ہے، آیت اللہ خمینی کا فرمان اگر سمجھ آجائے تو افاقہ ہوگا۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کہا تھا کہ بھلے ایران یا میں ختم ہو جاوں تو کیا!!!!!! اسلام ختم ہو جائے گا۔؟ کیا راہِ شہادت ختم ہو جائے گی۔؟ ہم سے بہتر ایمان، عقیدہ اور جذبہ رکھنے والے آجائیں گے۔ ہم سب یا تو الہیٰ وعدہ کو مان لیں کہ آخری فتح حق کی ہے۔ یا باطل کی بیعت کرلیں اور زندہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
 تحریر: سید محمد تعجیل مہدی
 
 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت پر رہبر مسلمین جہان حضرت الله "سید علی خامنه‌ای" نے ایک پیغام جاری کیا۔ پیغام کا متن کچھ یوں ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم  
عظیم ایرانی قوم!  
آج صبح صیہونی رژیم نے ہمارے پیارے ملک کے خلاف اپنے خون آلود ہاتھوں سے جرم کا ارتکاب کیا اور رہائشی مراکز پر حملہ کر کے اپنے نجس وجود کو  مزید بے نقاب کیا۔ صیہونی رژیم سخت سزا کی منتظر رہے۔ انشاءاللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مضبوط مسلح افواج، جارحین کو سبق سکھائے گی۔ دشمن کے حملے میں کئی کمانڈروں اور سائنسدانوں نے شہادت حاصل کی۔ انہی شہداء کے جانشین اور ساتھی انشاءاللہ فوری طور پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ صہیونی رژیم نے یہ بھیانک اقدام اٹھا کر اپنے لئے دردناک اور تلخ انجام کو دعوت دی ہے، جو یقیناً اسے مل کر رہے گا۔  

سید علی خامنه‌ای

رپورٹ کے مطابق، مارچ کے وسط (18 مارچ 2025) میں غزہ پر دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے اب تک 18 فوجی اور غاصب آباد کار ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 8 گزشتہ ہفتے مارے گئے تھے۔

اس حوالے سے، صیہونی فوج نے کل رات باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ مشرقی خانیونس کے محلے بنی سھیلا میں ایک عمارت میں بم دھماکے کے نتیجے میں 4 صیہونی فوجی ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے۔

عید قربان (عید الاضحیٰ) دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس عظیم قربانی کی یادگار ہے، جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی صورت میں پیش کی۔ یہ قربانی نہ صرف ایک جسمانی عمل تھا بلکہ اس میں بے مثال اطاعت، ایمان، ایثار اور خلوص شامل ہے۔

عظیم قربانی کا اشارہ:
عید قربان درحقیقت اللہ کی رضا کے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کرنے کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سچ جان کر عمل کیا۔ اس قربانی کا ذکر قرآن مجید میں سورہ الصافات میں آیا ہے: "فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ"، "پھر جب دونوں (باپ بیٹا) نے (اللہ کے حکم کے آگے) سر جھکا دیا اور (ابراہیم نے) اسے ماتھے کے بل لٹا دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 103)

اس قربانی کو عظیم قربانی کی طرف لوٹا دینے کا خدا کا وعدہ
جب 61 ہجری میں مولا حسین نے کربلا میں پورا کر دیا، جوان بیٹے کو راہ خدا میں پیش کرکے اسلام کو زندہ کردیا، "دیا ہے اکبر کی راہ میں اکبر"

حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، اطاعت کی معراج
انہوں نے خواب کی تعبیر کے تحت بیٹے کی قربانی دی، جو اللہ کے حکم پر تھی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ بھیج دیا۔۔۔ یہ اللہ کی رحمت تھی۔
 
حضرت امام حسینؑ کی قربانی، شعور و حق کی معراج
انہوں نے ظلم، باطل اور جبر کے خلاف قیام کیا۔ یزید کے نظامِ فسق و فجور کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنے نانا محمدﷺ کے دین کی بقا کے لیے کربلا میں جان، بیٹے، بھائی، بھتیجے، اصحاب سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا۔
 
"عظیم قربانی" کا مفہوم امام حسینؑ کے ذریعے مکمل ہوا
 قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ"، "اور ہم نے اس (ابراہیمؑ) کے بیٹے کا فدیہ ایک عظیم قربانی سے دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 107) علمانے کہا ہے کہ یہ "ذبح عظیم" کا کامل مظہر کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت ہے، قربانی صرف جسمانی نہیں تھی، بلکہ حق کے لیے قربانی تھی۔ وہ قربانی صبر، بصیرت، بصیرتی قیادت اور روحانی شعور کا انتہا تھی۔ وہ قربانی دینِ محمدیﷺ کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئی۔۔

امام حسین نے ہمیں جو سبق دیا، آج کے حالات میں فلسطین، غزہ، لبنان کے غیور مسلمانوں نے تو اس کو ثابت کر دیا کہ مسلمان کبھی باطل کے خلاف سرنگوں نہیں ہوتا، لیکن کیا باقی دنیا کے مسلمانوں کو بھی امام حسین کا یہ سبق یاد ہے۔؟ جب فلسطین، خاص طور پر غزہ، اس قدر تباہی، قتل عام، نسل کشی اور ظلم کا شکار ہے کہ انسانیت چیخ اٹھے، تو مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر، غیرت اور جذبۂ جہاد سوالیہ نشان بن گیا ہے۔؟

دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اطلاع رسانی مرکز کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح امام خمینی (رح) کے روضہ مبارک میں عوام کے ایک عظیم اور پُرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے موجودہ عالمی تبدیلیوں پر نمایاں اثرات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: عظیم امام راحل نے ایمان سے پیدا ہونے والی حکمت اور عقلانیت کے ساتھ، انقلاب اور ملک کی پُرعزت اور طاقتور پیشرفت کی راہ میں "قومی خودمختاری" جیسے بنیادی اصولوں کو سمو دیا، اور ایران انہی اصولوں کے سائے میں ترقی، عوامی خوشحالی، پائیدار سلامتی، بین الاقوامی مقام میں بہتری اور روشن مستقبل حاصل کرے گا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے قومی ایٹمی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے، ایران کا مکمل اور قابلِ فخر ایٹمی ایندھن سائیکل حاصل کرنا "ہم کر سکتے ہیں" پر عوام اور نوجوان سائنسدانوں کے ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ صنعت دیگر علوم و ٹیکنالوجیز کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ایٹمی منصوبے کو "ہم کر سکتے ہیں" جیسے امیدافزا اصول کے سراسر منافی قرار دیا اور زور دیا: "ایٹمی صنعت، اگر غنی سازی نہ ہو، تو عملاً بے فائدہ ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت جان لے کہ وہ ایران میں ایٹمی صنعت کو ختم کرنے کے اپنے مقصد میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔"

آپ نے امام خمینی کو اسلامی جمہوریہ کے ایک مستحکم، ترقی پذیر اور طاقتور نظام کے معمار کے طور پر یاد کرتے ہوئے فرمایا: "36 سال بعد بھی، ان کی شخصیت اور انقلاب کے اثرات واضح ہیں — جیسے بڑی طاقتوں کا زوال، کثیر قطبی نظام کا قیام، امریکہ کے اثر و رسوخ کا زوال، صہیونیت سے نفرت کا بڑھنا یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں، اور مختلف اقوام کا بیدار ہونا اور مغربی اقدار کی نفی۔"

رہبر انقلاب نے فرمایا کہ جب ایک دینی عالم کی قیادت میں ایرانی قوم نے خالی ہاتھ، تا دندان مسلح اور مغرب کے تابع پہلوی حکومت کو شکست دی، اور امریکہ و صہیونیت کو ملک سے باہر نکالا، تو مغرب حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا: "امام نے اسلامی حکومت کے قیام کے نظریے کے ساتھ امریکہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور یہیں سے دشمنوں کی سازشوں کا آغاز ہوا۔"

انہوں نے مزید کہا: "اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ اور مغرب کی سازشوں کی شدت، وسعت اور تنوع جدید تاریخ کی دیگر انقلابات میں بے مثال ہے — جیسے قومیت پرستی کو ہوا دینا، مسلح بغاوتیں، صدام جیسے خونخوار کی ایران پر مسلط جنگ، اور انقلاب کے رہنماؤں و ایٹمی سائنسدانوں کا قتل۔"

انہوں نے فرمایا کہ "تمام ان سازشوں کے پیچھے استکباری حکومتیں، خاص طور پر امریکہ، صہیونی حکومت اور ان کے خفیہ ادارے جیسے سی آئی اے، ایم آئی 6، اور موساد شامل تھے۔"

آپ نے زور دیا: "یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لیے کیا گیا، لیکن قوم اور نظام نے صبر و استقامت کے ساتھ ان ہزارہا سازشوں کو ناکام بنایا اور انقلاب کمزور ہونے کے بجائے زیادہ طاقتور ہو کر آگے بڑھا۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عقلانیت پر جذبات کی فوقیت کو انقلابوں کی انحرافی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ "امام راحل نے ایمان و عقلانیت سے انقلاب کو اس مہلک آفت سے محفوظ رکھا۔"

انہوں نے ولایت فقیہ اور قومی خودمختاری کو امام کی عقلانیت کے دو بنیادی ستون قرار دیا اور فرمایا: "ولایت فقیہ انقلاب کی دینی بنیادوں کی محافظ ہے اور قومی خودمختاری امام کے افکار و اہداف کی جامع عکاسی ہے۔"

رہبر معظم نے فرمایا کہ "قومی خودمختاری کا مطلب دنیا سے کٹ جانا یا تنہائی اختیار کرنا نہیں بلکہ خودانحصاری اور غیر وابستگی ہے۔"

انہوں نے امام خمینی کے بیان کردہ اصول "ہم کر سکتے ہیں" کو انقلاب کی بنیادی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: "پہلوی دور میں 'ہم نہیں کر سکتے' کی سوچ قوم پر مسلط کی گئی تھی، لیکن امام نے 'ہم کر سکتے ہیں' کی روح کو زندہ کیا۔"

انہوں نے امریکہ کی حالیہ ایٹمی مذاکراتی تجاویز کو "ہم کر سکتے ہیں" کے اصول کے خلاف قرار دیا اور کہا: "استقلال کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنی دفاعی طاقت بڑھائیں۔ ابتداء میں ہمارا دفاعی سازوسامان تقریباً صفر تھا، لیکن آج دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ ہم دفاعی لحاظ سے خطے کے سرفہرست ممالک میں ہیں۔"

رہبر معظم نے امام کے اصول تبیین (تشریح) اور استقامت (ثابت قدمی) پر زور دیا اور فرمایا: "امام کا کلام دل و دماغ دونوں کو قانع کرتا تھا۔ امام نے جوانوں کو استقامت کا درس دیا اور انقلاب کی راہ کو محفوظ رکھا۔"

انہوں نے ان لوگوں پر تنقید کی جو "عقلانیت" کو امریکہ کے سامنے جھکنے کا نام دیتے ہیں اور کہا: "امام کی عقلانیت کا نتیجہ ایک باوقار، ترقی یافتہ ایران ہے، اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھیں گے۔"

ایٹمی صنعت کے بارے میں آپ نے فرمایا: "یہ صنعت صرف سستی بجلی کے لیے نہیں بلکہ سائنسی، طبی، زرعی، ماحولیاتی اور دفاعی شعبوں میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔"

انہوں نے فرمایا کہ: "غنی‌سازی ایٹمی صنعت کا کلیدی نکتہ ہے؛ اگر ہم غنی‌سازی نہ کر سکیں، تو ہمیں دوسروں کے در پر جانا ہوگا — جیسے تیل رکھتے ہوئے بھی ہمیں کہا جائے کہ آپ ریفائنری نہیں لگا سکتے۔"

انہوں نے کہا کہ: "اگر ہمارے پاس سو ایٹمی بجلی گھر بھی ہوں، مگر غنی‌سازی نہ ہو تو ہم مجبور ہوں گے اور امریکہ جیسے دشمن درجنوں شرائط عائد کریں گے۔"

انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: "جب ہم نے یورینیم کے بدلے 20 فیصد ایندھن کی شرط رکھی، تو امریکہ نے وعدہ توڑا؛ لیکن ہمارے سائنسدانوں نے اسی دوران وہ ایندھن خود تیار کر لیا۔"

آپ نے امریکیوں کے دعوے کو ایران کو ایٹمی صنعت سے مکمل محروم کرنے کا ارادہ قرار دیا اور فرمایا: "یہ نہ صرف صنعت کا نقصان ہے بلکہ ہزاروں جوان محققین کو مایوس کرنے کی کوشش ہے۔"

رہبر معظم نے کہا: "امریکی دعویٰ کہ ایران غنی‌سازی نہ کرے، قانونی بنیاد سے محروم ہے — ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو جو ہمارے فیصلوں میں دخل دو؟"

غزہ کے مظالم پر آپ نے فرمایا: "صہیونی حکومت غزہ میں غذائی مراکز بنا کر لوگوں پر گولیاں چلا رہی ہے — یہ ظلم، پستی، اور خباثت حیرت انگیز ہے۔"

آپ نے امریکہ کو ان مظالم کا شریک جرم قرار دیا اور فرمایا: "اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس خطے سے نکل جانا چاہیے۔"

آپ نے اسلامی حکومتوں کو خبردار کیا: "آج خاموشی، غیر جانب داری، یا تعلقات کی معمول پر واپسی ناقابل قبول ہے — جو حکومت بھی صہیونیوں کی حمایت کرے گی، اس پر ابدی ننگ چسپاں ہو جائے گا۔"

آپ نے زور دیا: "اللہ کی طرف سے بھی ایسے اعمال کی سخت سزا ہے — اور اقوام بھی ان خیانتوں کو کبھی نہیں بھولیں گی۔ صہیونی حکومت کا زوال یقینی ہے، اور ان شاء اللہ جلد ہوگا۔"

آخر میں، آپ نے روز عرفہ کو دعا، تواضع، اور توجہ کا موسم قرار دیا اور نوجوانوں کو "دعائے عرفہ" اور صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر 47 کی تلاوت کی بھرپور تلقین کی۔

تقریب کے آغاز میں، حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا: "اسلامی انقلاب تاریخ کا سب سے زیادہ عوامی انقلاب تھا۔ عزت، قومی شناخت کا جوہر ہے، اور ہمیں امام اور رہبر کے بار بار تاکید کردہ اصول — اسلامی اور قومی عزت — کو کسی حال میں مجروح نہیں ہونے دینا چاہیے۔"

 قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عیدالاضحی کے موقع پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا: انسان کا اپنے خالق کی رضا اور مرضی کا علم ہونے کے بعد اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا قربانی ہے۔ چونکہ یہ عمل خداوندکریم کے احکام اور اس کی منشاءکے تحت انجام پاتا ہے اس لئے اس کا ہدف انتہائی اعلی و ارفع ہے۔ اگر ہر قربانی کے وقت یہی اعلی ہدف پیش نظر ہو تو قربانی قبول ہوتی ہے اور اس کے فوائد و اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں ورنہ یہی قربانی جان، مال، عزت اور وقت کا ضیاع تصور ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا: اگرچہ قربانی کا مظہر انسان کے فطری اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر کوئی نہ کوئی رسم ہی ہوتی ہے لیکن یہ رسوم اصل ہدف نہیں ہوتیں بلکہ قربانی کے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں لہذا قربانی اور اس جیسے دیگر صالح اعمال کو فقط رسموں تک محدود کردینے سے اصل ہدف اوجھل ہوجاتا ہے جس سے اس قربانی کی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا: قربانی کے اہداف کا شعور رکھ کر اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی بھی ضروری ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے یہ کہ خدا کے حضور ہمارے قربان کردہ جانور کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا بلکہ ہمارا ہدف، ہماری نیت، ہمارا ایثار، ہمارا خلوص اور ہمارا تقویٰ پیش ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس جانب اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ ہم کتنے اخلاص اور ایثار کے ساتھ یہ قربانی پیش کررہے ہیں۔

علامہ ساجد نقوی کے مطابق عید قربان کے موقع پر ہمیں دنیائے اسلام میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دینے والوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اور خاص طور پر غزہ، فلسطین، لبنان، کشمیر اور دیگر خطوں میں عالم اسلام اور انسانیت پر جاری سامراجی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے مظلومو ں کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔اس کے ساتھ اپنے گردو پیش میں نادار افراد کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا چاہیے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: عید الاضحی کے نیک اور بابرکت موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم انبیاءکرام، ائمہ اطہار علیہم السلام، شہدائے اسلام کی قربانی سے بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی سے سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک راہ متعین کریں گے ۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور ترقی میں رکاوٹ بننے والے عوامل، بحرانوں، چیلنجز اور مشکلات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں گے۔

 حج 2025 کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ العظمی خامنہ ای ایک پیغام جاری کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے پیغام حج کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خیر خلق اللّہ محمدٍ المصطفی وآلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین و مَن تبعہم بِاحسانٍ الی یوم الدین.

حج، مومنوں کی آرزو، اشتیاق رکھنے والوں کی عید اور سعادت مند لوگوں کا روحانی رزق ہے اور اگر یہ باطنی رموز کی معرفت کے ساتھ انجام دیا جائے تو امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کی زیادہ تر بیماریوں کا مداوا ہے۔

حج کا سفر، تجارت، سیاحت یا دوسرے مختلف مقاصد سے انجام پانے والے سفر جیسا نہیں ہے جس کے دوران ممکنہ طور پر کوئی عبادت یا کوئي نیک کام بھی انجام دے دیا جاتا ہے، حج کا سفر، معمولی زندگي سے مطلوبہ زندگي کی طرف ہجرت کی مشق ہے۔ مطلوبہ زندگی وہ توحیدی زندگی ہے جس میں حق کے محور کے گرد دائمی طواف، مشکل چوٹیوں کے درمیان مسلسل سعی، شر پسند شیطان کو پتھر مارنا، ذکر و دعا سے مملو وقوف، زمین گیر مسکین اور سفر میں مجبور ہو جانے والے راہگیر کو کھانا کھلانا، رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے فرق کو یکساں سمجھنا، ہر حال میں خدمت کے لیے تیار رہنا، خدا کی پناہ لینا اور حق کے دفاع کا پرچم بلند کرنا اس زندگی کے بنیادی اور دائمی اجزاء ہیں۔

حج کے مناسک نے اس زندگی کی علامتی مثالیں اپنے اندر سمو رکھی ہیں اور حج گزار کو اس سے روشناس کراتے اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

اس دعوت کو سننا چاہیے۔ دل کو اور ظاہر و باطن کی آنکھوں کو کھولنا چاہیے۔ سیکھنا چاہیے اور ان دروس کو استعمال کرنے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس راہ میں ایک قدم بڑھا سکتا ہے، اور علماء، دانشور، سیاسی منصب دار اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد دیگروں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

دنیائے اسلام کو آج پہلے سے کہیں زیادہ ان دروس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دوسرا حج ہے جو غزہ اور مغربی ایشیا کے المناک واقعات کے دوران انجام پا رہا ہے۔ فلسطین پر قابض مجرم صیہونی گینگ نے ناقابل یقین درندگي اور عدیم المثال بے رحمی اور شر انگيزی کے ساتھ غزہ کے المیے کو ایک ناقابل یقین حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت فلسطینی بچے بموں، گولوں اور میزائيلوں کے علاوہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ اپنے عزیزوں، جوانوں اور ماں باپ کو کھونے والے غم رسیدہ گھرانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس انسانی المیے کے سامنے کسے کھڑا ہونا چاہیے؟

بلاشبہ یہ فریضہ سب سے پہلے اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتا ہے اور پھر اقوام پر جو اپنی حکومتوں سے اس فریضے کی انجام دہی کا مطالبہ کریں۔ مسلم حکومتیں شاید مختلف مسائل میں آپس میں سیاسی اختلاف رکھتی ہوں لیکن یہ اختلافات غزہ کے المناک مسئلے پر متفقہ موقف اپنانے اور آج کی دنیا کے سب سے مظلوم انسانوں کے دفاع میں تعاون کے سلسلے میں ان کے آڑے نہ آئیں۔ مسلم حکومتوں کو صیہونی حکومت کی امداد رسانی کی تمام راہوں کو بند کر دینا چاہیے اور اس مجرم کو غزہ میں اپنی بے رحمانہ کارروائی جاری رکھنے سے باز رکھنا چاہیے۔ امریکا، صیہونی حکومت کے جرائم کا یقینی شریک ہے، اس خطے میں اور دیگر اسلامی علاقوں میں امریکا سے وابستہ لوگ، مظلوم کے دفاع کے سلسلے میں قرآن مجید کی آواز سنیں اور امریکا کی سامراجی حکومت کو اس ظالمانہ رویے کو روکنے پر مجبور کریں۔ حج میں برائت کا اعلان، اس راہ میں ایک قدم ہے۔

غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت نے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مظلوم قوم کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ مسئلۂ فلسطین کا نام اور اس کی یاد کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کی سامراجیوں اور صیہونی حکومت کے حامیوں کی کوششوں کے باوجود اس حکومت کے حکمرانوں کی شر پسند ماہیت اور ان کی احمقانہ پالیسی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آج فلسطین کا نام ہمیشہ سے زیادہ درخشاں ہے اور صیہونیوں اور ان کے حامیوں سے نفرت، ہمیشہ سے زیادہ ہے اور یہ عالم اسلام کے لیے ایک اہم موقع ہے۔

اہل سخن اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوام کو آگاہ کریں، انھیں حساس بنائیں اور فلسطین سے متعلق مطالبات کو مزید پھیلائيں۔ آپ باسعادت حجاج بھی، حج کے مناسک کے دوران دعا اور خدا سے مدد طلب کرنے کے موقع سے غفلت نہ کیجیے اور خداوند متعال سے ظالم صیہونیوں اور ان کے حامیوں پر فتح کی دعا کیجیے۔

خداوند عالم کی صلوات و سلام ہو پیغمبر اکرم، ان کی پاکیزہ آل پر اور سلام و درود ہو بقیۃ اللہ حضرت مہدی 'عجل اللہ ظہورہ' پر۔

سید علی خامنہ ای

3 ذی الحجہ 1446 ہجری قمری

30 مئی 2025

امام محمد باقر علہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) 

لقب باقر العلوم (علیہ السلام) کے مفہوم میں غور وفکر

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق باقر العلوم کے لقب سے ملقب ہونے کے سلسلہ میں فرمایا : یقینا انہوں نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقاید، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث ، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں (٢) ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت

شیعوں کے عظیم الشان مرجع تقلید نے ائمہ علیہم السلام خصوصا امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل شدہ احادیث کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں ، ہم تک نہیں پہنچی ہیں ، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی (٣) ، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے ، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث کو اپنے آبائو اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں (٤) ۔

معظم لہ نے امام باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے متعلق اس طرح فرمایا :  اس وقت فقہی، اصولی،تفسیری، عقایدی ، اخلاقی جس کتاب کا بھی مطالعہ کریں اس میں قال الباقر (علیہ السلام) اور قال الصادق (علیہ السلام) ملتا ہے اور ان دو راہنمائوں نے ہمیں اسلامی علوم کی عظیم میراث عطا کی ہے ۔

فقہ شیعہ ، امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی مرہون منت ہے

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فقہ شیعہ کی وسعت اور ترقی کو امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی تعلیمات کا نتیجہ شمار کیا ہے اور فرمایا : اگر آج ہماری فقہ کو قیاس کی ضرورت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی احادیث ہیں جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے سامنے علم کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، جبکہ دوسروں کے سامنے ان علوم کا دروازہ بند ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ قیاس اور ظنون کی طرف چلے گئے ہیں ۔

لہذا علم کی اس شکوفایی کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ہم شیعہ اور اہل تسنن کی جو کتاب بھی کھولتے ہیں اس میں انہی دو اماموں کی احادیث سے روبرو ہوتے ہیں ، ان دونوں اماموں نے اصول دین کی بنیادوں کو بہت ہی اچھے طریقہ سے بیان کیا ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مناظرات

امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور شیعی معارف کو وسعت دینے کیلئے دوسرے توحیدی ادیان سے علمی مناظرات انجام دئیے ہیں ۔

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام علیہ السلام کے مناظرات کی تشریح کرتے ہوئے شام میں عیسائی اسقف سے مناظرہ کو بہت اہم شمار کیا اور فرمایا : جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جب امام کو شام کے سفر پر مجبور کیا گیا اور آپ شام پہنچ گئے اور پھر شہر دمش سے واپس روانہ ہونے لگے تو لوگوں کے افکار کو بیدار کرنے اور اپنے علم کو آشکار کرنے کا بہت اچھا موقع فراہم ہوا جس کی وجہ سے شام کے لوکوں کے افکار تبدیل ہوگئے (٥) ۔

معظم لہ کے کلام میں عیسائی اسقف سے امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ کی شرح و تفسیر

معظم لہ فرماتے ہیں : واقعہ یہ تھا کہ ہشام کے پاس ا مام محمد باقر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا ، لہذا وہ امام کے مدینہ واپس جانے پر راضی ہوگیا جس وہ امام اپنے فرزند کے ساتھ قصر خلافت سے خارج ہوئے تو ناگاہ راستہ میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے ،راہب جوانتہائی ضعیف تھا، مقررہ وقت پربرامدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکربولا:

١۔ کیا آپ ہم میں سے ہیں، فرمایا: میں امت محمدیہ سے ہوں۔

٢۔آپ علماء سے ہیں یاجہلاء میں سے ہیں ، فرمایا : میں جاہل نہیں ہوں۔

٣۔  آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں؟ فرمایا : نہیں۔

٤۔  جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، فرمایا: ضرورپوچھیے ۔

یہ سن کر راہب نے سوال کیا:

 ١۔  شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے ،جس کاشمارنہ دن میں ہے اورنہ رات میں ، فرمایا : وہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں ،وہ وقت جنت کے اوقات میںسے ہے اورایسامبترک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے ، دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے ۔

٢۔  آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی ؟کیا دنیامیں اس کی مثال ہے ؟ فرمایابطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔

٣۔  مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہیں ہوتی۔

٤۔  وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا''عزیز اورعزیرپیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانے عزیرنبی کومارڈالا(جس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے) اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔

یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا۔

یہ بات بہت تیزی سے دمشق میں پھیل گئی اور شام کے لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے ، ہشام کو امام باقر علیہ السلام کی افتخار آمیز کامیابی سے خوش ہونا چاہئے تھا لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ امام سے ڈرنے لگا اور اس نے ظاہر سازی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے ہدایا اور تحائف بھیجے ، ساتھ ہی ساتھ حکم دیا کہ آج ہی دمشق سے چلے جائیں (٦) ۔

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پرروشنی ڈالنی بہت دشوارہے ،کیونکہ معصوم اورامام زمانہ کوعلم لدنی ہوتاہے، وہ خداکی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتاہے،حضرت امام محمدباقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات،علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم میں ان واقعات میںسے مستثنی ازخروارے،لکھتاہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔

علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کاخودارشادہے کہ'' علمنامنطق الطیرواوتینامن کل شئی '' ہمیں طائروں تک کی زبان سکھاگئی ہے اورہمیں ہرچیزکاعلم عطاکیاگیاہے (مناقب شہرآشوب جلد٥ ص١١) ۔

روضة الصفاء میں ہے کہ بخداسوگندکہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ خداکی قسم ہم زمین اورآسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اورفرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ظاہری ارباب اقتدارہم سے جلتے اورحسدکرتے ہیں ،لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کاکہناہے کہ میںایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہواکہ :

١۔ مولاکونسااسلام بہترہے جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے   ٢۔  کونساخلق بہترہے فرمایاصبراورمعاف کردینا   ٣۔ کون سامومن کامل ہے فرمایاجس کے اخلاق بہترہوں  ٤۔  کون ساجہادبہترہے ، فرمایا س میں اپناخون بہہ جائے  ٥۔ کونسی نمازبہترہے ،فرمایاجس کاقنوت طویل ہو، ٦۔ کون سا صدقہ بہترہے، فرمایاجس سے نافرمانی سے نجات ملے،  ٧۔ بادشاہان دنیاکے پاس جانے میں آپ کی کیارائے ہے، فرمایامیں اچھانہیں سمجھتا، 

٨۔ پوچھاکیوں؟ فرمایاکہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیداہوتی ہیں  :  ١۔ محبت دنیا، ٢۔ فراموشی مرگ،  ٣۔ قلت رضائے خدا۔

پوچھاپھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیاسے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتاہوں ۔

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہداورشرف میں ساری دنیاسے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایاتھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرافرزند''باقرالعلوم'' ہوگا،علم کی گتھیوں کوسلجھائے گا کہ دنیاحیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص١٥٧،علامہ شیخ مفید۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیرقرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمدباقرعلیہ السلام سے ظاہرہوئے اتنے امام حسین اورامام حسین کی اولادمیں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص٢٨٦،نورالابصار ص١٣١،ارجح المطالب ص٤٤٧۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کادماغ خراب ہوگیاہواورجس کی طینت وطبیعت فاسدہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ ''باقرالعلوم'' علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کادل صاف ،علم وعمل روشن وتابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے ۔

عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارراسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے ،جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجزوماندہ ہیں آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص١٢٠) ۔

علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے  (وفیات الاعیان جلد١ ص٤٥٠) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کواچھی طرح سمجھ لیاتھا(تذکرةالحفاظ جلد١ص١١١) ۔

علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرکے علمی تذکرے دنیامیں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں:  جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرناچاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجزرہے گا،کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص٥٢،وتاریخ الائمہ ص٤١٣) ۔

علامہ ابن شہرآشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد٥ ص١١) ۔

آپ کے بعض علمی ہدایات وارشادات

علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتوآپ نے فرمایا اے جابرمیں دنیاسے بالکل بے فکر ہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا، اورتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ دنیاچھوڑی ہوئی سواری اتارا ہوا کپڑا اور استعمال کی ہوئی عورت ہے، مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاہئے کہ وہ ہروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے نزلت بہ وارتحلت منہ '' اس میں آناجانالگارہتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں …

آپ نے فرمایا تکبربہت بری چیزہے ،یہ جس قدرانسان میں پیداہوگا اسی قدراس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کاحربہ گالیاں بکناہے ۔

 ایک عالم کی موت کوابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہترسمجھتاہے ایک ہزارعابدسے وہ ایک عالم بہترہے جواپنے علم سے فائدہ پہنچارہاہو۔

میرے ماننے والے وہ ہیں جواللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والابخشاجاتاہے اورجس رخسارپر آنسوجاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔

سستی اورزیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔

خداکے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کوچاہئے کہ اپنے پیٹ اوراپنی شرمگاہوں کومحفوظ رکھیں۔

دعاسے قضابھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے

بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کواپنی آنکھ کی شہتیردکھائی نہ دے،اوردوسرے کی آنکھ کاتنکانظرآئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظرآئیں اورخودعمل نہ کرے، صرف دوسروں کوتعلیم دے ۔

جوخوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دوررہے ،وہ تمہارابھائی اوردوست نہیں ہے (مطالب السؤل ص٢٧٢) ۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے توکہوالحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے توکہو''لاحول ولاقوة الاباللہ'' اورجب روزی تنگ ہوتوکہواستغفراللہ ۔

دل کودل سے راہ ہوتی ہے،جتنی محبت تمہارے دل میں ہوگی ،اتنی ہی تمہارے بھائی اوردوست کے دل میں بھی ہوگی ۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب میں شیعوں کی اہم خصوصیات

امام محمد باقر علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں : قال الامام الباقر علیہ السلام : '' قال الامام الباقر عليه السلام: «يَا مُيَسِّرُ أَلَا اخْبِرُكَ بِشِيعَتِنَا؟ قُلْتُ: بَلى‏ جُعِلْتُ فِداكَ قَالَ: إِنَّهُمْ حُصُونٌ حَصِينَةٌ و صُدُورٌ أمِيْنَةٌ وَ أَحْلَامٌ وَزِيْنَةٌ لَيْسُوا بالمَذِيعِ البَذِرِ وَلَا بِالجُفَاتِ المُرَاعِيْنَ رُهْبَانٌ بِالْلَيلِ اسُدٌ بِالْنَهارِ'' (٧) ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : اے میسر (٨) کیا میں تمہارے سامنے شیعوں کی خصوصیات بیان کروں ، میسر کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجائوں بیان فرمائیے ، امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ محکم قلعے ، امانتدار سینے اور صاحبان عقل ہیں (٩) ۔ یہ لوگوں کے درمیان غلط باتیں شایع نہیں کرتے ، رازوں کو فاش نہیں کرتے، خشک و خشن اور نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں ، یہ رات میں عبادت اور دن میں شیر ہیں ۔ آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اس اہم روایت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : یہ حدیث بہت مختصر ہے جس میں شیعوں کے سات صفات بیان ہوئے ہیں اور اس میں بہت سارے مطالب پوشیدہ ہیں ۔

١ ۔  محکم قلعے

دشمنوں کے مقابلہ میں شیعوں کو محکم اور مستدل ہونا چاہئے ، آج کے زمانہ میں جب دنیا کی تہذیبی اور ثقافتی حالت بہت خراب ہوگئی ہے اور ہماری جوان نسل پریشان ہے ، کیا ہم نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس سے اپنے جوانوں کو قوی کرسکیں ؟ اگر ہم جراثیم کو ختم نہیں کرسکتے تو اپنے آپ کو قوی کرنا چاہئے ۔

٢ ۔ امانتدار ، ٣ ۔ عاقل اور ٤ ۔ راز دار

ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں آپ کو ایک اہم شکایت یہ تھی کہ بعض شیعہ ہمارے رازوں کو فاش کرتے ہیں ۔ راز سے مراد وہ مقام مرتبہ ہے جو ائمہ علیہم السلام کو  ہے جیسے علم غیب، قیامت کے روز شفاعت، علوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے امانتدار، شیعوں کے اعمال کے شاہد و ناظر اور معجزات ۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کو عام لوگ اور دشمن درک کرنے پرقادر نہیں تھے ، لیکن بعض سادہ لوح شیعہ جس جگہ بھی بیٹھتے تھے ، سب چیزیں بیان کردیتے تھے (١٠) اور اس کی وجہ سے اختلاف اور عداوت ایجاد ہوتی تھی ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کے سینوں میں امانتیں پوشیدہ ہیں ، وہ جو باتیں بیان کرتے ہیں ان کی وجہ سے اختلاف ایجاد نہیں ہوتا (١١) ۔

ان سے بدتر وہ غلو کرنے والے ہیں جو ہمارے زمانہ میں پیدا ہوگئے ہیں جو ولایت کے بہانہ سے کفر اور غلط تعبیریں ہمارے (اہل بیت علیہم السلام ) کے بارے میں بیان کرتے ہیں جن سے ائمہ ہرگز راضی نہیں ہیں ، ہمیں ان غلو کرنے والوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ،ان گروہ میں دو عیب پائے جاتے ہیں ،ایک عیب یہ ہے کہ اپنے آپ کو نابود کررہے ہیں ، یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم خدا کے صفات کو ائمہ علیہم السلام یا حضرت زینب علیہا السلام یا شہدائے کربلا کیلئے بیان کریں گے تو یہ عین ولایت ہے اور ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ہمارا زمانہ میڈیا اور شوشل میڈیا کا ہے ، اگر آج صبح کوئی خبر صادر ہوتی ہے ، ایک گھنٹہ بعد پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ، یہ ان غلو آمیز کلمات اور غلط باتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتشر کرتے ہیں اور شیعوں کے دامن پر بہت بڑا داغ لگاتے ہیں ، یہ شیعوں کو کافر کہلواتے ہیں اور پھر وہ شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیتے ہیں ، یہ نادان لوگ نہیں جانتے کہ ان کی باتوں سے دوسری جگہ پر شیعوں کا قتل عام ہوتا ہے ۔

افسوس ان نادان اور جاہل انسانوں پر ، افسوس ہے اس زمانہ پر جب جاہل، بے خبر اور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں مجالس کی مہار آجائے ،ہمیں مجالس کے افتخارات ان جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہئے (١٢) ۔

٥ ۔  محبت

شیعہ شدت پسند نہیں ہیں ،بلکہ مہر و محبت اور حسن سلوک سے کام لیتے ہیں ، شیعوں میں علی بن ابی طالب اور تمام ائمہ ہدی کی روح پائی جاتی ہے ، یہاں تک کہ یہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت سے کام لیتے ہیں (١٣) ۔

٦ و ٧ ۔ راتوں میں بیدار اور شجاع ہیں

شیعہ ریا کار نہیں ہیں اور ان میں دو مختلف حالتیں جمع ہوگئی ہیں ، اگر کوئی ان کی راتوں کی عبادت کو دیکھے تو سمجھیں گے کہ یہ زاہد دنیا ہیں اور امور زندگی میں ضعیف ہیں ، لیکن دن میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ اجتماعی میدان میں شیروں کی طرح حاضر ہوتے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے اپنی اس حدیث میں شیعوں کو صاحبان عقل اور وزین اشخاص بیان کئے ہیں ،لہذا معظم لہ نے اپنے نظریات میں شیعوں کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے :

١ ۔  جغرافیائی شیعہ

جو لوگ شیعہ نشین ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور مردم شماری کے لحاظ س وہ اس ملک کے لوگ شمار ہوتے ہیں ۔

٢ ۔  میراث کے لحاظ سے شیعہ

جن کے ماں اور باپ شیعہ تھے اور اپنے شیعہ والدین کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں (١٤) ۔

٣ ۔  لفظی شیعہ

جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم علی بن ابی طالب کے شیعہ ہیں ، لیکن عمل میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں (١٥) ۔

٤ ۔  سطحی شیعہ

وہ شیعہ جن کے اعمال بہت نیچے ہیں اور وہ شیعوں کی گہرائی تک نہیں پہنچے ہیں ، شیعوں سے انہوں نے عزاداری، توسلات اور اسی طرح کی چیزیں حاصل کی ہیں ، کہاں سے معلوم کہ یہ شیعہ ہیں ؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ ایام محرم میں سینہ زنی کرتے ہیں ، مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور شیعوں کی مسجدوں میں جاتے ہیں ؟ البتہ ہمارا قصد یہ نہیں ہے کہ ہم ان کاموں کو کم اہمیت بتائیں ، لیکن شیعوں کا یہ گروہ فقط اسی کو سمجھا ہے ، لیکن ''رھبان باللیل'' ، اسد بالنھار، احلام وزینة و صدور امینة '' جیسے صفات ان کے پاس سے بھی نہیں گزرے ہیں (١٦) ۔

٥ ۔  واقعی شیعہ ،اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو حاصل کرنے والے ہیں

حقیقی شیعہ وہ ہیں جو الہی معارف اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے آشنا ہیں اور ان کے صفات وہ ہیں جو اس روایت میں بیان ہوئے ہیں (١٧) ۔

اہل تسنن کے بزرگ علماء بھی امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب اور شاگردوں کے شاگرد ہیں جیسے ابواسحاق، ابراہیم بن محمد بن ابویحیی وغیرہ اور وہ جو ہمیشہ تعصب سے بہت دور رہے ہیں جیسے شافعی ، ابن صبھانی اور دیگر علماء (١٨ و ١٩) ۔

آخری بات

معظم لہ نے فرمایا : بعثت اور نبوت کی بنیاد علم و ادنش ہے ، وہ بھی تاریک اور جاہلیت کے ماحول میں خداوندعالم نے پیغمبر اکرم کو مبعوث کیا تاکہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور نفوس کا تزکیہ اور دلوں کو پاک و صاف کریں ،خداوندعالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : خداوندعالم نے زمین و آسمان کوخلق کیا تاکہ انسان علم و دانش کو ان سے حاصل کریں اور خدا کی عظمت کو حاصل کرسکیں ۔

طلاب علوم دینی کو خداوندعالم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کویہ توفیق نصیب ہوئی ہے کہ وہ علوم دینی حاصل کرسکیں ، یہ طلاب ، امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ ) کے سپاہی اور امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے شاگرد ہیں ، ہم ہمیشہ انہی کے علوم کے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں اور علم و دانش سے استفادہ کرتے ہیں (٢٠) ۔

ہمیں امید ہے کہ خداوندعالم ان کا سایہ ہمارے سروں پر باقی رکھے گا تاکہ ہم ان کے پروگراموں کو آگے بڑھا سکیں اور آخرت میں بھی ہمیں ان کی شفاعت حاصل ہوگی (٢١) ۔

منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق   ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
حوالہ جات:

١ ۔  فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔

٢۔  فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔

٣ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

٤ ۔  اعتقاد ما ، صفحہ ١٢٢ ۔

٥ ۔  شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔

٦ ۔  شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔

٧ ۔  بحار الانوار ، جلد ٦٥ ،صفحہ ١٨٠ ۔

٨ ۔  '' میسر بن عبدالعزیز'' ،امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی تھے جن کی رجالی کتابوں میں بھی توصیف بیان ہوئی ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کے بارے میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ہے جو میسر کے حالات میں ذکر ہوا ہے ، امام فرماتے ہیں :  ائے میسر کئی مرتبہ تمہاری موت آئی لیکن خداوندعالم نے تمہاری موت کو آگے بڑھا دیا ، کیونکہ تم نے صلہ رحم کیا تھا اور ان کی مشکلات کو حل کردیا تھا ۔

٩ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ ١٥ ۔

١٠ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ١٦ ۔

١١ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

١٢ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ ١٧ ۔

١٣ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ ١٧ ۔

١٤ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ ١٨ ۔

١٥ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ١٩ ۔

١٦ ۔  مشکات ہدایت ، صفحہ١٩ ۔

١٧ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

١٨ ۔  رجال نجاشی ،جلد ١ ، صفحہ ٨٥ ۔

١٩ ۔  دایرة المعارف فقہ مقارن ، جلد ١ ،صفحہ ٢٤٢ ۔

٢٠ ۔  اصفہان کے بعض طلاب سے ملاقات کے دوران حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان ( ١٣/١٢/١٣٨٥) ۔

٢١ ۔  گزشتہ حوالہ ۔

سورہ حج کی آیت 28 میں فرمایا گیا ہے: "لِیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِی أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ..." یعنی: "تاکہ وہ اپنے فائدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں۔" یہ آیت حج کے عظیم مقاصد کی وضاحت کرتی ہے، جو صرف عبادتی پہلو تک محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر پہلو بھی شامل ہیں؛ ایک طرف ذکرِ الٰہی ہے تو دوسری طرف فائدہ حاصل کرنا۔

اس آیت کے مطابق انسانوں کو خانۂ خدا کی طرف بلایا گیا ہے تاکہ وہ "اپنے منافع کے گواہ بنیں"۔ حضرت امام رضاؑ کے مطابق یہ منافع صرف حاجیوں تک محدود نہیں بلکہ تمام اہل زمین کے لیے ہیں، خواہ وہ حج پر آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔

یہ منافع مطلق طور پر بیان کیے گئے ہیں اور کسی ایک پہلو تک محدود نہیں۔ بعض مفسرین جیسے حضرت ابن عباسؓ نے ان منافع کو مادی اور تجارتی مفاد کے طور پر بیان کیا ہے، جس کی تائید سورہ بقرہ کی آیت 198 سے بھی ہوتی ہے: "لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ" یعنی: "تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔"

دوسرے مفسرین نے ان منافع کو صرف روحانی قرار دیا ہے، لیکن درحقیقت یہ فوائد دونوں پہلوؤں — دنیاوی اور اُخروی — کو شامل کرتے ہیں۔ ان میں فردی اور اجتماعی فائدے، روحانی برکتیں، مادی نتائج، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی پہلو سب شامل ہیں۔ اس بات کی بنیاد خود آیت کا مطلق اندازِ بیان ہے جو منافع کو کسی خاص حد میں مقید نہیں کرتا۔

حج کا یہ عظیم موسم ان انسانوں کے لیے بیداری کا مرکز بن سکتا ہے جو ظلم و استبداد کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سفر میں مسلمان نہ صرف وحدتِ اسلامی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرکے مختلف ممالک کے حالات اور سیاسی خبروں سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ، مشرکین سے برائت کا اعلان بھی حج کے سیاسی پہلو کی غمازی کرتا ہے، جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت 3 میں ارشاد ہے: "وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ" یعنی: "اور حجِ اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہ اللہ مشرکین سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔"

یہ اعلان موسمِ حج کو امتِ مسلمہ کی جامع سیاسی پالیسیوں کے اظہار کا ایک موزوں موقع بناتا ہے۔

بہر حال حج ایسی عبادت ہے جس میں روح اللہ کے ذکر سے جلا پاتی ہے، عقل عبرت سے سیکھتی ہے، جسم ریاضت سے مضبوط ہوتا ہے، اور امت اسلامی وحدت، بیداری اور دشمن‌شناسی سے قوت حاصل کرتی ہے۔