سلیمانی

سلیمانی

صدر مملکت نے ملک کی ایٹمی صنعت کے اعلی عہدے داروں سے ملاقات کے دوران کہا کہ ہماری ایٹمی صنعت عوام کے مسائل کو حل کرنے اور شہری استعمال کے لیے ہے۔

انہوں نے ایران کے ایٹمی توانائی ادارے کے ہیڈکوارٹر کا معائنہ کرتے وقت کہا کہ دشمن یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے؛ لیکن رہبر انقلاب اسلامی کے فتوے کے مطابق، ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تعمیر کو حرام سمجھتے ہیں۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ ہمارے سائنسدانوں کے ذہن علم سے مالامال ہیں لہذا عمارتوں اور فیکٹریوں کو ختم کرکے ہمیں ایٹمی سائنس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے زور دیکر کہا کہ ہم ایک بار پھر اور پہلے سے کہیں زیادہ عزم و ارادے کے ساتھ ان مراکز کی تعمیر کریں گے۔

اس موقع پر نائب صدر اور ایٹمی توانائی کے قومی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے صدر مملکت کو ایٹمی شعبے میں ترقی اور اس سلسلے کی آخری صورتحال کی رپورٹ پیش کی۔

صدر پزشکیان نے اس کے علاوہ ریڈیو میڈیسن کی لیباریٹریوں اور ایٹمی شعبے میں ایران کی جدیدترین تحقیقات کا جائزہ لیا اور طبی مصنوعات کا معائنہ کیا۔


قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔

عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔

قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔  فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
  
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے

تحریر: ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. 

ایرانی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے نائب سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمد وحیدی نے کہا ہے کہ دشمن ایرانی سرزمین کی طرف میلی نظر ڈالنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے۔  

 بندرعباس میں بحری زون کے دورے کے موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر آج ایران کی آبی سرحدوں پر مکمل امن قائم ہے تو یہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بحری جوانوں کی شبانہ روز قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔  

جنرل وحیدی نے مزید کہا کہ دشمن ایرانی جوانوں سے خوفزدہ ہیں اور اس سرزمین پر بری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی بحریہ نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے بلکہ دشمنوں کے عزائم کو بھی ناکام بنا رہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ دشمن اس طاقتِ ایمانی اور دفاعی قوت کے سامنے بے بس ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فرانس میں گھریلو تشدد اور خواتین کے قتل کے واقعات نے ایک بار پھر یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے سماجی ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 107 خواتین اپنے شوہر یا سابق شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئیں، یعنی اوسطاً ہر تین دن بعد ایک عورت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مجموعی طور پر 138 افراد گھریلو تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئے جن میں 31 مرد بھی شامل ہیں۔  

یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ فرانس میں گھریلو تشدد محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی بحران ہے۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد قتل گھروں میں یا تو مشترکہ رہائش گاہ میں یا متاثرہ کے ذاتی مکان میں ہوئے۔ ان میں سے 49 وارداتوں میں چھری یا چاقو اور 34 میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا۔  

تشدد کی جڑیں اور محرکات

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 31 فیصد قتل کسی جھگڑے کے بعد ہوئے جبکہ 16 فیصد اس وقت پیش آئے جب ایک فریق نے تعلق ختم کرنے سے انکار کیا۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 47 فیصد خواتین پہلے ہی گھریلو تشدد کی شکایت پولیس کو کرچکی تھیں اور 81 فیصد نے باضابطہ مقدمات بھی درج کرائے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیاں محفوظ نہ ہوسکیں۔

حکومتی اقدامات اور ان کی ناکامی

فرانسیسی وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ ہنگامی فون لائنز اور حفاظتی اقدامات شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوئے۔ صرف ایک متاثرہ خاتون کو شدید خطرے کی ہاٹ لائن کے ذریعے تحفظ ملا اور صرف دو خواتین عدالتی حفاظتی احکامات سے مستفید ہوسکیں۔ حیران کن طور پر صرف ایک مجرم عدالتی نگرانی میں ہے۔  

فرانسیسی وزیرِ داخلہ لوران نونے نے اس صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور ژاندارمری پوری طرح متحرک ہیں اور حکومت ہر محاذ پر سرگرم ہے۔ تاہم خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق حکومتی اقدامات انتہائی ناکافی ہیں اور اصل مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔  

سول سوسائٹی اور عوامی ردعمل

خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مردوں کو مناسب سزا نہ ملنے کے باعث وہ بار بار تشدد دہراتے ہیں۔ مئیل نوار نامی حقوق نسواں کے ایک کارکن نے کہا کہ بجٹ میں کٹوتیاں دراصل جرم کے مترادف ہیں اور حکومت قتل کے ان واقعات میں شریک ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ فرانس میں خواتین کے خلاف تشدد پر آواز بلند ہوئی ہو۔ نومبر 2019 میں ہزاروں افراد نے پیرس میں مارچ کیا تھا تاکہ گھریلو تشدد کے خلاف احتجاج کیا جاسکے۔ اس کے باوجود، حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس اور مؤثر پالیسی نہیں اپنائی۔ 

خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ 22 نومبر کو انسداد تشدد نسواں کے عالمی دن کے موقع پر ملک گیر احتجاج میں شریک ہوں۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت اس مسئلے کو قومی ترجیح قرار نہیں دیتی اور بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

صدر میکرون پر تنقید

حقوق نسواں کی تنظیموں نے صدر امانوئل میکرون سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کو قومی مسئلہ قرار دیں اور اس کے لیے خاطر خواہ بجٹ مختص کریں۔ لیکن صدر میکرون اپنی پالیسی کو عیوب سے مبرا قرار دیتے ہیں، جس پر سول سوسائٹی اور متاثرہ خاندانوں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق فرانس جیسے ملک میں، جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتا ہے، خواتین کے خلاف اس قدر سنگین جرائم کا تسلسل سے ہونا ریاستی ناکامی کی علامت ہے۔ ایک طرف حکومت عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، دوسری طرف اپنے ہی ملک میں خواتین کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔

فرانس میں ہر تین دن بعد ایک عورت کا قتل محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ریاستی ادارے اور عدالتی نظام مؤثر کردار ادا نہ کریں تو ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والے معاشرے بھی خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوسکتے ہیں۔ فرانس میں حقوق نسوان کی گھمبیر صورتحال پر سول سوسائٹی کی آواز بڑھ رہی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا میکرون حکومت اس بحران کو محض بیانات سے سنبھالے گی یا عملی اقدامات بھی کرے گی۔ 

اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوڈان کے شہر فاشر میں شہریوں کے قتل عام پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔

انہوں نے سوڈانی وزیر خارجہ محی‌الدین سالم سے ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کی جانب سے گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا۔

عراقچی نے کہا کہ دہشت گردی اور بے گناہ افراد کے خلاف تشدد خواہ کسی بھی شکل میں ہو اور دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، قابلِ مذمت ہے۔

انہوں نے مغربی ممالک پر دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بعض قوتیں اپنے مفادات کے لیے دہشت گردوں کو اچھے اور برے میں تقسیم کرتی ہیں، اور ان سے گندے کام کرواتی ہیں۔

وزیر خارجہ نے اس موقع پر سوڈان کی علاقائی سالمیت اور عوامی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا اور کہا کہ ایران ہر سطح پر سوڈانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔

گفتگو کے دوران سوڈانی وزیر خارجہ نے ایران کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران کی یکجہتی سوڈانی عوام کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

رنا کے مطابق قنیطرہ کے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ 2 ٹینکوں، 1 بلڈوزر اور 7 فوجیوں گاڑیوں پرمشتمل  صیہونی فوج کا ایک دستہ قنیطرہ کے مضافات میں واقع الصقری چیک پوسٹ پر پہنچا اور پھر السلام ہائی وے کی طرف جانے والی سڑک پر آگے بڑھ گیا۔  

غاصب صیہونی حکومت کی فوج یہ دستہ شام کے صوبہ  قنیطرہ کے مضافات میں ایسی حالت میں داخل ہوا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے گزشتنہ روز الصمدانیہ نامی علاقے کے اندرایک سڑک پر لوہے کا دروازہ نصب کردیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے شام کے اس علاقے مں ایک چیک پوسٹ بنالی ہے جس پر علاقے کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور اس کو شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ایران کے صوبہ خراسان رضوی میں نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سید احمد علم الہدی نے اپنے دفتر میں سمنان کے ائمہ جمعہ کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا: ہماری عزت اور سرفرازی امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت سے وابستہ ہے۔ آپ حضرات جو دین کی خدمت کی توفیق رکھتے ہیں یہ برکتیں آپ کی خانگی زندگی میں بھی شامل ہیں، خصوصاً آپ کی زوجات کی محنت اور صبر کے سبب۔ اگر وہ ساتھ نہ ہوتیں تو یہ کامیابیاں بھی نصیب نہ ہوتیں۔

انہوں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم «جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کو حسنِ اخلاق، بردباری اور خلوص کے ساتھ نبھائے۔

آیت اللہ علم الہدی نے مزید کہا: یہ روایت اسماء بنت عمیس سے نقل ہوئی ہے کہ جب وہ شہداء اور مجاہدین کے اہل خانہ کے ساتھ خدمت کے جذبے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "عورتوں کا یہ صبر و خدمت اور ایثار، مردوں کے میدانِ جنگ میں جہاد کے برابر ہے"۔

انہوں نے کہا: خواتین جب مشکلات، تنگی حالات، سماجی دباؤ اور خانگی ذمہ داریوں کو صبر و وقار کے ساتھ نبھاتی ہیں، یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہیں، بے سہارا خاندانوں کی مدد کرتی ہیں اور گھر کے محاذ کو مضبوط رکھتی ہیں تو یہ سب اعلیٰ ترین درجات کے جہاد میں شمار ہوتا ہے اور آخرت میں اس کا اجر و مقام بہت عظیم ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات:
ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں:
چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔
 
سفارتی اثرات:
اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات:
اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔
 
ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 
اسلام ٹائمز

اسلامی علمِ کلام کے علما اور عیسائی الہیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں پائی جانے والی خوبصورتی، نظم اور کمال خدا کے وجود کی سب سے مضبوط دلیلیں ہیں۔ یہ حقیقت بعض مشہور ملحد سائنس دانوں نے بھی تسلیم کی ہے، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ کوانٹم میکینکس پروفیسر ڈیوڈ ڈوئچ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں موجودہ دور کے ملحدوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کائنات اور اس کے قوانین میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظم و ضبط پر کوئی تعجب نہیں ہوتا تو وہ دراصل حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سی حیرت انگیز اور ناقابل یقین مخلوقات ہیں۔" (دی گارڈین، جمعرات 8 جنوری 2009)

یہ بات ایک ایسے شخص نے کی ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ کہنا اس الجھن اور بے بسی کو ظاہر کرتاہے جو ملحدانہ سوچ کائنات کے حیرت انگیز نظم اور ہم آہنگی میں محسوس کرتی ہے۔

قرآنِ کریم نے بھی اس حقیقت کو کئی آیات میں بیان کیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: 88)

اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (السجدة: 7)

جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔

یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ کمال و حسن کوئی اتفاقی وصف نہیں ہےبلکہ ایک ایسا آفاقی قانون ہے جو پوری کائنات کو محیط ہے۔

کمالِ تخلیق کے شاہکاروں پر غور و فکر

جب انسان مخلوقات کی دقیق ترین معلومات پر غور کرتا ہے تو وہ تخلیق کے عظیم الشان نظام پر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ اسی کی ایک مثال آرکیڈ کا پھول ہے۔ یہ پھول صرف اپنی دلکش خوبصورتی ہی سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حیرت انگیز طور پر مادہ مکھی کی شکل کی مشابہت بھی رکھتا ہے تاکہ نر مکھی کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ نر مکھی یہ سمجھ کر اس پر بیٹھتی ہے کہ یہ اس کی ساتھی ہے اور اسی عمل کے دوران وہ پولن (جراثیمِ نر) کو ایک پھول سے دوسرے پھول تک منتقل کر دیتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آرکیڈ کا پھول صرف شکل کی نقل نہیں کرتا بلکہ بالکل وہی خوشبو خارج کرتا ہے جو مادہ مکھی خارج کرتی ہے۔یوں یہ حیاتیاتی فریب مکمل ہوتا ہے اور پھول کا تخم ریزی کا عمل یقینی بن جاتا ہے۔ یہی وہ منظر تھا جس نے چارلس ڈارون جو نظریۂ ارتقاء کے بانی ہیں کو وفات سے ایک سال قبل یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ یہ کیفیت اس کے ذہن کو ہلا دینے والی ہے کیونکہ اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس  تخلیق کے پیچھے ایک باقاعدہ منصوبہ اور مقصد کارفرما ہے۔

دوسری جانب، اگر ہم انسانی جسم پر غور کریں تو اس میں بھی اتنی ہی حیرت انگیز باریک بینیاں پائی جاتی ہیں جتنی باریکیاں نباتات کی دنیا میں ہیں۔ مثال کے طور پر ہرمونِ نمو (Growth Hormone) کو لیجیے، جو خون میں نہایت معمولی مقدار میں جو تقریباً5 نینوگرام کے تناسب سے خارج ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی معمولی مقدار ہے مگر صرف ایک گرام ہرمون تین ہزار انسانوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے توازن میں ذرا سا بھی فرق آ جائے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ مثلاً اگر اس کا تناسب ایک سو ملین میں سے صرف ایک حصےکے برابر بڑھ جائے تو انسان عظمتِ جسم (Gigantism) کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اتنا ہی کم ہو جائے تو بونا پن (Dwarfism) کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز توازن اور درستگی اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ کوئی حکمت و تدبیر رکھنے والی ذات اس نظام کو نہایت باریکی سے سنبھالے ہوئے ہے؟

قدرت کے کمالات بہت زیادہ ہیں یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ پوری کائنات خواہ وہ کوانٹم ذرات کی باریک دنیا ہو یا عظیم کہکشاؤں کا پھیلا ہوا نظام ہو سب ایک نہایت درست اور متوازن قانون کے تابع ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک قانون معمولی سا بھی بدل جائے تو کائنات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ یہی حقیقت مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عظمت کو اورپختہ کر دیتی ہے:

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا  مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِنْ فُطُورٍ (الملك: 3)

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

کمالِ تخلیق کی یہ نشانیاں کہ جن میں انسانی ہارمونز کی نازک ترتیب، قدرتی پھولوں کی حیرت انگیز کاریگری، فزکس کے قوانین کی ہم آہنگی اور ستاروں سے سجی آسمان کی خوبصورتی شامل ہیں سے یہ  حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ کائنات گویا ایک کھلی ہوئی کتاب ہےجسے ہر منصف مزاج انسان پڑھ سکتا ہے۔ تخلیق کا یہ کمال کسی اتفاق یا بے ترتیبی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایمان کے دروازے کھولتا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ سارا حسین و منظم نظام اسی خدا کی صناعت ہے جس نے ہر چیز کو کمال کے ساتھ بنایا۔

لہٰذا الحاد کا دعویٰ، چاہے اس کے ماننے والے اسے کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں پیش کریں، آخرکار ایک ایسی حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔وہ یہ ہے کہ اس مکمل اور منظم کائنات کے پیچھے ایک حکمت و علم والا رب موجود ہے اور صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔