
سلیمانی
خمس کیا ہے اور کیوں واجب ہے؟
دنیا کی حکومتیں اپنی عوام اورعوامی اداروں سے "ٹیکس" یا "محصولات" کے عنوان سے رقم وصول کرتی ہیں، اور ہرحکومت اس نظام کے ذریعے مختلف شعبوں، جیسے انفراسٹرکچر مثلا: پل، سڑکیں، اور ڈیم وغیرہ تعمیر کرتی ہیں، نیز تعلیم اور دیگر شعبوں کے تعمیر ترقی کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ماضی میں" ٹیکس "اجناس میں سے ہواکرتا تھا جیسا کہ کسان سے فصل کا ایک حصہ وصول کیا جاتا تھا لیکن اب معاملہ بالکل مختلف ہوچکا ہے، کیونکہ ہرریاست میں ایک خاص شعبہ (جسے جدید اصطلاح میں "وزارت خزانہ" کہا جاتا ہے) قائم ہے جو عام طور پر سول حکومتوں میں عوام اور عوامی اداروں سے ٹیکسوں اور محصولات کی وصولی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اسلام میں خمس ادا کرنا واجب ہے، جیساکہ ہرریاست ٹیکس کی ادائیگی کو لازمی قرار دیتی ہے۔ لیکن اسلام میں اس کی ایک روحانی جہت ہے۔ خمس کی ادائیگی سے جہاں دنیا میں اجر و ثواب ملتا ہے وہاں تزکیہ نفس اور مال کی پاکیزگی ہوتی ہے، جو قیامت کے دن کام آئے گی۔
پیغمبر اسلام صلیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عدی بن حاتم طائی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا) سے گفتگو کرتے ہوے لفظ "خمس" کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا: "انك لتأكل المرباع وهو لا يحل في دينك" ' تم اپنی قوم کی غنیمت (لوٹ) سے چوتھا حصہ وصول کرتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے مذہب کے مطابق تمھارے لیے حلال نہیں ہے" عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے زمان جاہلیت میں مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کیا اور اسلام میں خمس ادا کیا، اور جب اسلام آیا تومربع (غنیمت سے چوتھا حصہ) کے بجائے اللہ تعالی نے خمس کو واجب قرار دیا۔
خمس کیا ہے؟
لغت میں خمس سے مراد پانچ میں سے ایک حصے کو کہا جاتا ہے جیساکہ خمسة القوم یعنی میں نے ان کے اموال کا پانچواں حصہ لیا، اسی طرح پانچ میں سے ایک جزء کو بھی خمس کہا جاتا ہے۔
خمس کی اصطلاحی تعریف: صاحبِ "معجم الفاظ الفقہ الجعفری" نے خمس کی یوں تعریف بیان کی ہے: کہ خمس ایک شرعی فریضہ ہے اور ہرشخص مکلّف پرمخصوص شرائط کے ساتھ سالانہ بچت اوراس طرح کے بعض دیگر چیزوں کے پانچویں حصے 1/5 کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔
فقہاء کرام خمس کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ خمس مال مملوک میں سے وہ حصہ جو خدا کا ہے خواہ یہ انسان کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔ یہ (سادات) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے غریبوں کے لئے اور اس کا ایک حصہ دیگر اموردینیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
وجوب خمس پر کیا دلایل ہے؟
شیعہ مسلمان وجوب خمس پر سورہ انفال کی ایت 41 کے ذریعے استدلال کرتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فراماتے ہیں: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
اگرچہ یہ آیت ان اموال غنائم کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو مسلمان فوج نے جنگ بدر کے بعد حاصل کی تھی جو مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ پہلی جنگ تھی۔ تاہم یہاں پر بہت ساری ایسی متواتر اور صحیح السند روایات موجود ہیں جو دیگر اموال میں بھی وجوب خمس پردلالت کرتی ہیں۔
یہ شریعت اسلامی کا ایک معروف حکم ہے۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان احکامات کی طرف اشارہ کیا ہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے ان کی تفصلات بیان فرمائی ہیں۔ مثلا: قرآن مجید میں روزانہ کی پانچ نمازوں اور نماز طواف کے بارے میں ذکر ہوا ہے لیکن قرآن میں ان نمازوں کے طریقے، تفصیلات اور افعال کا ذکر نہیں ہوا ہے جو مسلمانوں میں رائج ہے۔ ان نمازوں کی تفصیلات، طریقے اور دیگر اعمال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام نے اپنی حدیثوں کے ذریعہ بیان فرمائی ہیں۔
حتی کی نماز آیات کا ذکر بھی قرآن میں نہیں ہوا ہے لیکن اس نماز کی وجوب پر تمام مسلماں متفق ہیں کیونکہ اس کا وجوب احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
وجوب خمس کا مسئلہ بھی یہی ہے خاص طور پر "مال غنیمت" یہاں تمام علماء شیعہ متفق ہے کہ ہر طرح کی آمدنی اور نفع پر مخصوص شرائط کے ساتھ خمس ادا کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام سے بہت روایات نقل ہوئی ہے کی جس کے مطابق ہر وہ آمدنی جو سالانہ اخراجات سے بچ جائے اور ضرورت میں استعمال نہ ہو اس پر خمس واجب ہے۔
حكيم مؤذّن بني عيس امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ جب میں نےاس آیت مبارکہ کی تلاوت کی:(وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم اس سے مراد روزانہ کے منافع ہیں جو انسان حاصل کرتا ہے۔
اسی طرح موثقہ سماعہ میں ہے کہ جب ابا الحسن علیہ السلام سے خمس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا " جو آمدنی انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اس پر خمس ہے۔
محمد بن حسن اشعری سے روایت ہے، کہ ہمارے کچھ اصحاب نے ابوجعفر ثانی (امام محمد تقی )علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا کہ جس میں استدعا کی کہ ہمیں بتائیے کہ انسان جو کچھ چھوٹی بڑی منفعت کماتا ہے اور ہر قسم کے ذریعہ معاش سے کماتا ہے، جائیداد کی امدنی بھی ہے۔ تو آیا خمس سب پر واجب ہے؟ اور کس طرح ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے اپنے دستخط سے لکھا کہ خمس اخراجات کے بعد ہے۔
اسی طرح علی بن مہز یار کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو علی بن راشد نے کہا کہ میں نے امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپکے فرمان پر عمل کروں اور آپ کا حق لوگوں سے حاصل کروں ۔ جب یہ خبر میں نے آپکے موالیوں کو دی تو ان میں سے بعض نے سوال کیا کہ ان کا ہم پر کون سا حق ہے ؟ چونکہ مجھے معلوم نہیں تھا لہذا میں انکا جواب نہیں دے سکا تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ان پر خمس واجب ہے۔ میں نے سوال کیا، کس چیز میں ؟ فقال فی امتعتھم و اضیاعھم'' انکے ساز و سامان میں'' پھر میں نے عرض کیا کہ تاجر اور کاریگر کیا کریں ؟ تو فرمایا: ان کے لئے سالانہ خرچ کے بعد جو بچے اس میں خمس ہے۔
شیخ طوسی علیہ الرحمہ باسناد عبد اللہ بن سنان سے اور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور فرمایا: ہر اس شخص پر جسے مال غنیمت ملے یا جو کسب سے مال حاصل کرے اس پر خمس لازم ہے۔ یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کی ذریت میں سے ان آئمہ اہل بیت علیھم السلام کا حق ہے جو لوگوں پر خدا کی حجت ہیں ۔ یہ ان کا خصوصی مال ہے۔ وہ جہاں چاہیں اسے صرف فرمائیں اور ان پر صدقہ حرام ہے۔ حتی کہ اگر درزی پانچ دانق میں کوئی کپڑا سیتا ہےتو اس میں سے ایک دانق ہمارا حق ہے۔ مگر یہ کہ ہم جسے چاہیں اس کے لئے حلال کردیں یعنی اپنے چاہنے والوں کو تاکہ ان کی ولادت پاکیذہ ہو۔ قیامت کے دن خدا کے نزدیک زنا سے بڑھ کر کوئی سنگین گناہ نہیں ہوگا جبکہ خمس کا ایک حق دار کھڑا ہوکر کہے گا: اے اللہ ان (خمس کھانے والوں) سے پوچھ کہ انہوں نے کس طرح اسے مباح سمجھاتھا۔
سید حسن نصر اللہ تمام عالمی تجزیوں کے برعکس اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے
فعال ثقافتی اور میڈیا کارکن رضا ایروانی نے سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ کی مناسبت سے ایک نوٹ میں لکھا کہ جب اسرائیل نے حزب اللہ کو غزہ کے مسئلے میں مداخلت نہ کرنے کا الٹی میٹم دیا تو اسی خاص تاریخی لمحے میں سید حسن نصر اللہ نے تنظیم پر ہدف کو ترجیح دی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ فلسطین تنہا رہ گیا، اسی زیتون کے باغوں اور بے گھر خیموں کے مکینوں کے درمیان،لیکن مزاحمت اور فلسطین مرے نہیں، یہاں تک کہ طوفان الاقصیٰ تک پہنچ گئے۔ ایسا آپریشن جو فلسطین میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا۔
اس تمام خون اور آگ کی جنگ کے درمیان ایک شخص سب سے مختلف تھا بلکہ یہ پوری تاریخ سے مختلف تھا وہ ایک شخص سید حسن نصر اللہ تھے۔ اس شخص نے تنظیمی مفادات ہی نہیں، اپنی جان بھی میدان کارزار میں رکھ دی۔ یعنی نہ صرف یہ کہا کہ میں حزب اللہ کو قربان کروں گا، بلکہ یہ بھی کہا کہ جب تک ہم یہاں ہیں، فلسطین کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے تنہا کھڑے ہوکر کہا کہ شیعیان علی ع اس دنیا کے تمام اندازوں اور تجزیوں سے ماورا ہیں اور وہ اپنے سنی بھائیوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، اس عظیم رہنما اور سید مقاومت نے مظلوں کی حمایت کی راہ میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا اور وہ یوں تاریخ مزاحمت میں امر ہو گئے۔
مسلم امہ کے اتحاد میں سید حسن نصراللہ کا کردار
سید حسن نصراللہ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت اور کردار کا نام ہے، جس کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں ہی معترف ہیں کہ انہوں نے دنیا کے حالات پر اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، اس وقت تک انہوں نے دو ایسی نسلوں کی تربیت کی ہے، جو ان کے راستے کو جاری رکھے گی اور اسی طرح اب ان کی شہادت کے بعد بھی دوستوں اور دشمنوں کا یہ ماننا ہے کہ وہ آنے والی کئی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ جو کہ لبنان کے علاقہ برج حمود میں ایک شیعہ گھرانے میں سنہ1960ء میں 31 اگست کو پیدا ہوئے اور جب آپ شہید ہوئے تو دنیا آپ کو لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ کی حیثیت سے جانتی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح سید حسن نصراللہ دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان شہرت اور عزت کا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، اسی طرح دشمن بھی ان کی ان صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔
صیہونی حکومت اور صیہونی میڈیا نے ہمیشہ سید حسن نصراللہ کو ایک ایسا انسان بیان کیا ہے کہ جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا، یعنی سچ کے سوا بولتا ہی نہیں ہے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جب پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار و مشرکین مکہ سے پوچھتے تھے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑی کے دوسری طرف سے ایک لشکر آ رہا ہے، جو تم لوگوں کو ختم کر دے گا تو کیا تم یقین کرو گے۔؟ کفار و مشرکین مکہ ہم زبان ہو کر کہتے تھے کہ آپ صادق ہیں، آپ سچ کے سوا بولتے ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ کی ذات بھی دشمنوں اور صیہونیوں کے لئے ایک ایسی ذات ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے سید حسن نصراللہ کے کردار کو اجاگر کرنا انتہائی اہم معاملہ ہے۔ لبنان میں 31 اگست سنہ1960ء کو آنکھ کھولنے والی سید حسن نصراللہ کی شخصیت اور ان کے مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی انتھک جدوجہد کے بارے میں بیان کرنے یا تحریر کرنے کے لئے اتنا کچھ مواد ہے کہ شاید راقم کے قلم میں اس قدر سکت نہ ہو۔
سید حسن نصراللہ صدی کی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے موجودہ زمانہ میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کے بارے میں قیامت تک آنے والی نسلیں مطالعہ کریں گی اور اس تاریخ سے سبق بھی حاصل کریں گی۔ حسن نصراللہ نے جس زمانے میں لبنان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا، جب ہر طرف ظلم کا دور تھا۔ جس وقت حسن نصراللہ جوانی کو پہنچے تھے، اس وقت تک لبنان کئی ایک داخلی جنگوں کے بعد آخرکار صہیونی غاصبانہ تسلط کا شکار ہوچکا تھا۔ سید حسن نصراللہ کہ جن کا تعلق ایک دینی اور علمی گھرانے سے تھا، ہرگز اس بات کو قبول نہ کرسکے کہ لبنان کی آزادی پر کوئی حرج آئے۔ حسن نصراللہ ابتدائی ایام میں لبنانی جوانوں کی متحرک تحریک امل میں شامل رہے اور امام موسیٰ صدر کی قیادت میں لبنان میں صیہونی دشمن کے قبضہ کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے۔ اسی طرح جب سنہ 1982ء میں باقاعدہ حزب اللہ قائم کی گئی تو سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کر لی۔
سید حسن نصراللہ کے مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کردار کو بیان کرنے کے لئے یوں تو بہت سے پہلو ہیں اور بہت ساری خدمات ہیں، لیکن اس مقالہ میں راقم مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سید حسن نصراللہ کے کردار اور کوشش کا ذکر کرے گا اور اسی ذکر میں ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے کس قدر مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جان بھی فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر قربان کر دی۔ سید حسن نصراللہ نے مسلم امہ کے اتحاد کو بچانے اور پائیدار بنانے کے لئے فلسطینی مظلوم عوام کی طرف پھینکے گئے ان سارے تیروں اور گولوں کو اپنے جسم پر سہہ لیا کہ جو معصوم اور مظلوم فلسطینی بچوں اور خواتین کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سید حسن نصراللہ کی فلسطینی عوام کی خاطر قربانی ان کے مسلم امہ کے مابین اتحاد کی ایک بے نظیر قربانی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق کوشش اور کردار کو سمجھنا ہو تو ہم حماس کے رہنماء اسامہ حمدان کے ان حالیہ بیانات کو دیکھ سکتے ہیں، جن میں انہوں نے سید حسن نصراللہ کو مسلم امہ کا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سید حسن نصراللہ کی جدوجہد و کوشش اور فلسطینی عوام کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو سنہرے الفاظ سے تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ یہ کلمات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ مسلم امہ کے باہمی اتحاد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر چلے، لیکن یہ برداشت نہیں کیا کہ فلسطین پر ہونے والے ظلم اور جارحیت پر خاموشی اختیار کئے رکھیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے اس سے بڑی شاید ہی کوئی اور مثال ہمیں ملے گی۔
مسئلہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے، جو پوری امت مسلمہ کے لئے متفقہ مسئلہ ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کے ذریعے مسلم امہ کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے چاہے کس قدر اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بات قبلہ اول بیت المقدس کی آتی ہے تو سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے بھی القدس کی آزادی کے راستے میں عملی جدوجہد کی اور یہاں تک کہ اپنی جان قربان کرکے ثابت کیا کہ مسلمان ایک ہیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک زبان اور ایک جان ہیں۔ مسلم امہ کے اتحاد کے لئے حسن نصراللہ کا کردار اس طرح بھی عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ فلسطین کاز کے لئے صف اول میں کھڑے رہ کر غاصب صیہونی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔ چاہے لبنان پر صیہونی جارحیت ہو یا فلسطین کے کسی علاقہ میں صیہونی جارحیت ہو، سید حسن نصراللہ ہمیشہ اپنی زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ کے راستے پر گامزن رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کا دفاع کیا ہے۔
لبنانی عوام کا دفاع کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم نے لبنان اور شام میں عیسائی گھروں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو سید حسن نصراللہ نے مسیحی عوام کو بھی ایک مسیحا کی طرح نجات عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج شام و لبنان اور فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی عوام بھی سید حسن نصراللہ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شخصیت نے فلسطین کاز کے لئے سرگرم تحریکوں کو باہمی یکجہتی کے رشتہ میں جوڑنے میں اہم کردار کیا۔ انہوں نے سنہ 2006ء میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مسلم دنیا میں ان کو مزید عزت اور حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں نے فلسطین کی تمام مزاحمتی تنظیموں کو باہمی ارتباط کی لڑی میں پرو ہنے کا کام انجام دیا اور ایک ایسا رابطہ اور تعلق قائم کیا، جس میں وحدت اور یکجہتی قائم تھی۔
ان کی یہ تمام تر کوششیں اور جدوجہد وحدت اسلامی کا پیغام دیتی ہے، کیونکہ انہوں نے فلسطین جیسے اہم مسئلہ پر مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کروایا کہ ہم سب کے اتحاد او وحدت کے بغیر قبلہ اول آزاد نہیں ہوگا۔ یہ سید حسن نصراللہ ہیں کہ جنہوں نے اپنی تقریروں اور اپنے عمل سے مسلم دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ القدس کی آزادی کی چابی مسلم امہ کے اتحاد میں ہے۔ سید حسن نصراللہ چونکہ لبنان کے ایک ایسے معاشرے میں موجود رہے کہ جہاں سنی، شیعہ، عیسائی، دروز اور اسی طرح مسلمانوں کے متعدد فرقوں پر مبنی سوسائٹی موجود ہے۔ ایسے معاشرے میں انہوں نے حزب اللہ کی 32 سال تک قیادت سنبھالی اور سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اپنی جان بھی فلسطین کاز کے لئے قربان کر دی۔
انہوں نے ہمیشہ اپنی تقریروں میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ لبنان میں اہلسنت اور اہل تشیع علماء کے مابین ہم آہنگی کے لئے تجمع العلماء نامی ادارے کی ہمیشہ حمایت جاری رکھی کہ جس نے ہمیشہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو فروغ دیا۔ سید حسن نصر اللہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ مسلم امہ کو داخلی انتشار اور اختلافات سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی، کیونکہ سید حسن نصراللہ اس بات پر مضبوطی سے یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں الجھنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے متحد ہو کر مسلمانوں کے مشترکہ دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ انہوں نے ہمیشہ اس اتحاد کو فلسطین کی آزادی کی کلید سے تشبیہ دی۔ سید حسن نصراللہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کو قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو انتہائی نوعیت کی اہمیت دیتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری وحدت اور اتحاد کے بغیر انجام نہیں دی جا سکتی۔
سید حسن نصراللہ نے فلسطین کاز کی حمایت صرف اس لئے انجام دی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ فلسطین کی حمایت کو کسی ایک فرقہ یا قوم و مسلک کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔ سید حسن نصراللہ نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو مسلمانوں کی طاقت قرار دیا اور اس بات کی کوشش کی کہ مسلمان متحد ہو کر عالمی استعماری قوتوں کا مقابلہ کریں۔انہوں نے مسلم دنیا میں سامراجی نطام سے تسلط اور نجات کا واحد راستہ مسلمانوں کا اتحاد قرار دیا اور ہمیشہ اس کاز کے لئے سرگرم رہے۔ فلسطین کاز کے لئے سید حسن نصراللہ کی عملی جدوجہد ایسے ہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سید حسن نصراللہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن ان کے افکار پوری دنیا میں جگہ بنا چکے ہیں، آج دنیا بھر میں سید حسن نصراللہ کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ آج غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے اپنے گھروں میں سید حسن نصراللہ کی تصاویر لگا رکھی ہیں، جو سید حسن نصراللہ کی مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ایک ثمر ہے۔
سید حسن نصراللہ کی زندگی بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کی جانے والی کوششیں یقیناً قابل قدر ہیں۔ ایک اور اہم کوشش یہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کی عسکری تنظیموں کی معاونت کی اور فلسطینی تنظیموں تک جدید ٹیکنالوجی اور عسکری مدد پہنچانے کو ہمیشہ اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا۔ ان کی یہ مدد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ فرقوں اور مسالک کی قید سے آزاد ایک بلند و بالا مقام کے انسان تھے کہ جن کی پوری زندگی مسلم امہ کی ترقی اور کامیابیوں کے لئے صرف ہوئی اور اسی لئے آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ کا مسلم امہ کے اتحاد کے لئے کردار ایک بے مثال کردار ہے، جس کو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی عملی جدوجہد اور اپنے کلمات سے مسلم امہ کے اندر یہ احساس بیدار کیا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتحاد کی راہ پر چل پڑیں تو مسلم دنیا اپنی کھوئی ہوئی حیثیت، عزت اور وقار کو دوبارہ حاصل کر لے گی۔
سید حسن نصراللہ نے اپنی اس عملی جدوجہد سے اور شہادت کے عظیم رتبہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلم امہ کے اتحاد اور خاص طور پر ہمارے مشترکہ مسئلہ فلسطین کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے خود اپنی جان کو قربان کرکے دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو سوگوار کیا ہے، لیکن اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سید حسن نصراللہ دنیا بھر کی باعزت اور حریت پسند اقوام کے درمیان ایک چمکتا ہوا ستارہ رہیں گے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرتے رہیں گے اور مسلم امہ کے اتحاد کے لئے جہاں ان کی زندگی میں کوشش جاری رہی، اب ان کی شہادت کے بعد آنے والی نسلوں کے ذریعے یہ مشن اور کاز جاری رہے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد آج اسلامی تعلیمات کے مطابق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد قرآنی تعلیمات کے مطابق دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مسلم دنیا کو آج فرقہ واریت، استعماری طاقتوں کی غنڈہ گردی، داخلی تنازعات اور دیگر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے حالات میں سید حسن نصراللہ جیسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے اور اب چونکہ وہ شہید ہوچکے ہیں تو ان کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے سید حسن نصراللہ کے مشن اتحاد بین المسلمین کو زندہ رکھا جائے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
14 صدیاں پہلے امام علی علیہ السلام کے قائم کردہ "انسانی حقوق
امیر المومنین حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت کا ملاحظہ کیا جائے تو آپ کا پورا زمانہ ہی جنگوں سے بھرا ہوا ہے۔آپ کے مختصر عہد حکومت میں تین بڑی جنگیں ہوئی ہیں۔ پہلی جنگ ناکثین کے ساتھ تھی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے،دوسری قاسطین کے ساتھ تھی جسے جنگ صفین کہا جاتا ہے جو لشکر شام کے ساتھ ہوئی اور تیسری جنگ مارقین یعنی خوارج کے ساتھ نہروان میں ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب حکومتیں جنگوں میں مشغول ہوتی ہیں تو عوامی آزادیوں پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔یہ حضرت امیر المومنینؑ ہیں جو ان جنگی حالات میں آج کے زمانے کی اصطلاح میں انسانی حقوق کے پہلے داعی بنے۔ یہ اتنے بڑے مسائل ہیں کہ ان میں سے کچھ کو حل کرنے کے لیےآج کا انسان بھی کوشاں ہے۔آج کی دنیا میں اسے بین الاقوامی قانون کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے مختلف اعلامیے اور چارٹر ہیں جیسے انسانی حقوق کا چارٹر،شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے وغیرہ کہا جاتا ہے ہم انسانی حقوق کا مختصر جائزہ لیتے ہیں اور دیکھیں گے کہ حضرت علیؑ نے کیسے اپنے دور حکومت میں یہ حقوق عام لوگوں کو فراہم کیے:
برابری اور مساوات
بین الاقوامی قانون کا مشاہدہ کیا جائے تو انسانوں کے درمیان مساوات اور برابری اس کی بنیاد ہے۔دنیا کا ہر انسان قانون کے سامنے برابر ہے،دنیا کے تمام انسانوں کو بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے برابری کا تحفظ حاصل ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا آرٹیکل ۷ اسی کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ "تمام لوگ قانون کے سامنے برابر ہیں، اور انہیں بلا امتیاز قانون کے تحفظ سے مستفید ہونے کا مساوی حق حاصل ہے۔ انہیں کسی بھی امتیازی سلوک سے تحفظ کا بھی مساوی حق حاصل ہے۔یہ قانون ہر اس رویے اور اشتعال کو بھی شامل ہے جس میں کوئی امتیازی سلوک پر ابھارے، یہ بھی منع ہے۔"
اسلام نے انسانیت کو یہ برابری اور مساوات بہت پہلے دے دی تھی۔ایک دن امیر المومنینؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اللہ کی حمد ہو اور اسی کی ثنا ہو،اے لوگو:آدمؑ نے کسی غلام اور لونڈی کو پیدا نہیں کیا،تمام کے تمام انسان آزاد ہیں۔ لیکن خدا نے تمہیں ایک دوسرے پر اختیار دیا ہے۔ جسے کوئی تکلیف پہنچے وہ اس پر اچھی طرح صبر کرے اور اللہ تعالی پر منت نہ چڑھائے۔آگاہ رہو جب کوئی مال آٹا ہے تو اس میں سب برابر کے شریک ہیں۔
مروان نے طلحہ اور زبیر سے کہا حضرت علیؑ نے اس فرمان سے تم دونوں کا ارادہ کیا ہے(یعنی یہ فرمان تم دونوں کے خلاف ہے)۔
حضرت امیر نے ان دونوں(طلحہ و زبیر) کو تین دینار دیے،ایک انصارکا آدمی آیا اسے بھی تین دینار دیے پھر ایک سیاہ غلام آیا اسے بھی تین دینار دیے۔اس انصاری نے کہا:اے امیر المومنینؑ یہ وہ غلام ہے، جسے میں نے کل شام کو آزاد کیا تھا آپ نے مجھے اور اسے برابر بنا دیا؟امام ؑ نے فرمایا:میں نے اللہ کی کتاب میں اسماعیلؑ کی اولاد کی اسحق کی اولاد پر کوئی فضیلت نہیں دیکھی۔(الكافي، ج ٨، ص٦٩)
آپ کا وہ خط بہت مشہور ہے جو آپ نے مصر کے گورنر مالک اشترؒ کے نام لکھا،اس میں آپ نے انہیں مصر کی تمام اقوام کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو اور خبردار ان کے حق میں سے کاٹ کے کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہوجانا کہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سمجھنے گوکہ مخلوقات خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں ،جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انہیں خطاوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔لہذا انہیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگذر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمہارا ولی الامر تم سے بالاتر ہے اور پروردگار تمہارے ولی سے بھی بالاتر ہے اور اس نے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اور اسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنا دیا ہے اور خبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پر نہ اتار دیناکہ تمھارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اور تم اس کے عضو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔ خبر دار کسی کو معاف کردینے پرنادم نہ ہونا اور کسی کو سزادے کراکڑ نہ جانا۔ غیط و غضب کے اظہار میں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو۔(موسوعة الإمام علي بن أبي طالب (ع) في الكتاب والسنة والتاريخ، محمد الريشهري، ج ٤، ص٢٣٤)
محمد ابن ابی بکر ؒ کے نام جب انہیں مصر کی حکومت سپرد کی تو یہ نامہ تحریر فرمایا:
لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا، تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے بڑے، کھلے ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔ (شرح نهج البلاغة، ابن أبي الحديد، ج ١٥، ص١٦٣)
جب مال کی تقسیم میں آپؑ کے برابری و مساوات کا اصول برتنے پر کچھ لوگ بگڑ اٹھے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم! جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے، میں اس چیز کے قریب بھی نہیں بھٹکوں گا۔ اگر یہ خود میرا مال ہوتا تب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا، چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے۔ (نفس المصدر، ج ٨، ص ١٠٩۔)
آزادی اظہار کا حق
امیر المومنین حضرت علیؑ نے اپنی حکومت میں ہر چیز کے بارے میں آزادی اظہار کا کھلا موقع دیا ۔آپ نے خود سے اختلاف کرنے اور آزادی رائے کا پورا پورا حق دیا۔خوارج بحث مباحثہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کا یہ عمل نماز میں بھی جاری رہتا تھا۔آپ ؑ نے اپنی عادلانہ حکومت میں یہ اصول بنایا تھا کہ جب بھی کوئی حق بات کرے اسے قبول کیا جائے۔ جب کوئی فیصلہ آئے تو اس میں عدل کیا جائے اگرچہ ایسا کرنا بظاہر مشکل ہی کیوں نا ہو۔ان دونوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہے آپ کے فرمان میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے: مجھ سے ایسے بات نہ کرو جیسے جابر بادشاہوں سے بات کرتے ہو، اور مجھ سے ایسے احتراز نہ کرو جیسے اہل بادرہ یعنی مغضوب الغصب لوگوں سے احتراز کرتے ہو، اور میرے ساتھ چاپلوسی کے ساتھ بھی نہ ملو،
امام علیؑ لوگوں کی طرف سے نصیحت اور مشورے کا استقبال کرتے تھے آپ نے فرمایا: تم کبھی نہ روکنا اپنے آپ کو کسی بھی بات میں حق کہنے سے یا کسی بھی مشورے میں عدل سے ،بے شک میں اپنے آپ کو خطاء سے بےخوف نہیں سمجھتا اور نہ ہی اپنے عمل کے اندر خطا کے حوالے سے میں بےخوف ہوں، ہاں یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے بچا لے جو میری جان پر میرے سے زیادہ قدرت رکھتا ہے ،یقینا میں اور تم سب بندے مملوک ہیں اس رب کے جس کے علاوہ کوئی رب نہیں،وہ ہم پر اتنی قدرت رکھتا ہے جتنی ہم اپنی جانوں پر قدرت نہیں رکھتے،اس نے ہمیں ان معاملات سے نکالا جن میں ہم سے پہلے مبتلا تھے اور ہمیں ان معاملات تک پہنچایا جن میں ہمارے لیے خیر ہے، پھر اس نے ہمیں گمراہی کے بعد ہدایت دی اور اندھیرے کے بعد بصیرت دی۔ (الكافي الجزء الثامن ص356 – 357, بحار الأنوار للمجلسي الجزء27 ص253۔)
اجتماع کا حق
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کا 2020 کا آرٹیکل نمر 37 کہتا ہے: "پرامن اجتماع کا بنیادی حق حاصل ہے، افراد کو اجتماعی طور پر اظہار خیال کرنے اور اپنے معاشرے کی تشکیل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔" شہری اور سیاسی آزادیوں کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 21 کا پہلا جملہ کہتا ہے: "پرامن اجتماع کے حق کو تسلیم کیا جائے گا۔"
اسلام صدیوں پہلے اس حق کو تسلیم کرتا ہےامام علیؑ نے خوارج کو نہروان میں جمع ہونے کی آذادی دی،انہیں صرف مخالفت کی وجہ سے آنے جانے سے نہیں روکا۔اسی طرح طلحہ اور زبیر کو مدینہ سے مکہ جانے کی اجازت دی حالانکہ آپ جانتے تھے کہ یہ دونوں بیعت سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ابن ابی الحدید کہتا ہے:ہمارے شیخ ابو عثمان نے روایت کی ہے کہ جب طلحہ اور زبیر مکہ روانہ ہوئے ان دونوں نے لوگوں کو وہم میں رکھا کہ وہ عمرہ کی نیت سے جا رہے ہیں۔حضرت علیؑ نے اپنے اصحاب سے کہا خدا کی قسم یہ عمرہ کا ارادہ نہیں رکھتے یہ غدر کا ارادہ رکھتے ہیں۔) شرح نهج البلاغة،ج11، ص17(
اس سے بڑھ کر یہ کہ حضرت علیؑ نے کبھی بھی کسی کو اپنی طرف سے لڑنے پر مجبور نہیں کیا۔۔لوگ خود سے جہاد میں شریک ہوتے تھے۔
حق ملکیت اور اسمیں تصرف درست نہیں
اس حق کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں منظور کیا گیا جبکہ امام علی علیہ السلام نے اس سے بہت پہلے اپنے فوجی کمانڈروں کو جنگ کے دوران لوگوں کی املاک پر قبضے سے روکا،یہ ملکیت غیر مسلم ہی کی کیوں نہ ہو، انہیں حکم دیا:آپ نے مقامی شہروں کے رہنے والوں کو اپنے لشکر پر فوقیت دیں۔آپ نے اپنے لشکر کو کنووں سے پانی لینے پر بھی مقامی لوگوں کو مقدم قرار دیا۔آپ نے جاریہ بن قدامہ سعدی کو وصیت فرمائی وہ آپ کے اس لشکر کے قائد تھے جسے آپ نے معاویہ کے لشکر سے لڑنے کے لیے بھیجا معاویہ کے لشکر کی قیادت بسر بن ارطاہ کر رہا تھا،جس نے عام انسانوں پر بہت مظالم کیے اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔آپ نے وصیت میں فرمایا:اے جاریہ میں تجھے اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں۔یہ بھلائی کی بنیاد ہے، اللہ کی مدد کا راز ہے،تم اس دشمن سے لڑو جس کی طرف تمہیں حکم دیا گیا ہے اور اسی سے لڑو جو تم سے لڑے۔زخمی آدمی کو قتل نہ کرو،کسی کے جانور کو اپنے استعمال میں نہ لاو اگرچہ تم اور تمہارےساتھی پیدل چل رہے ہوں۔پانی کے مالکوں سے ان کا پانی ضبط نہ کرو،وہ استعمال کر لیں جو بچ جائے اسے اچھے طریقے سے استعمال کرو۔کسی مسلمان مرد اور عورت کی توہین مت کرو۔کوئی ایسا کام نہ کروجو ادب کے خلاف ہو۔کسی بھی غیر مسلم معاہد مرد اور عورت پر ظلم نہ کرو۔ (نهج السعادة، ج ٨، ص٣٦٧۔)
امیر المومنین ؑ کی اسی انصاف پسندی کی وجہ سے 2002 میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی، جو کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے انسانی حقوق، ماحولیات، زندگی اور تعلیم کی بہتری کے لیے تیار کی تھی۔اس میں امام علی علیہ السلام کو عالمی برادری نے ایک رول ماڈل قرار دیا۔اس رپورٹ میں امام علیؑ کو سماجی اور انسانی انصاف کے لیے ایک مثالی شخصیت کے طوپر پیش کیا گیا۔اس رپورت میں نہج البلاغہ سے امیر المومنینؑ کے ارشادات سے اقتباسات شامل ہیں۔ان میں وہ فرامین شامل ہیں جو آپ نے احکامات کی صورت میں اپنے عہدیداروں،کمانڈروں اور لشکریوں کو دیے تھے۔اس رپورٹ میں حضرت علیؑ کے احکامات کو انصاف پھیلانے والے،علم کی رویج کرنے والے اور انسانی حقوق کے لیے باعث فخر قرار دیا۔
شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ
آج مقاومت مذہب اور تشیع کی سرحدوں میں قید نہیں ہے: حجت الاسلام حسینی کوہساری
حوزہ علمیہ کے مواصلاتی اور بین الاقوامی امور کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے اہواز میں منعقدہ "کلمہ المقاومہ" کے پہلے بین الاقوامی سمینار میں کہا کہ آج "مقاومت" مذہبی اور شیعہ سرحدوں سے آگے بڑھ چکی ہے اور پوری دنیائے اسلام کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔
حوزہ علمیہ کے مواصلاتی اور بین الاقوامی امور کے سربراہ نے خوزستان کو "مرکز مقاومت، تاریخ اور ثقافت" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اہم تقریب کا شہید سید حسن نصراللہ کی تدفین کے قریب منعقد ہونا ایک قابل قدر اقدام ہے۔
حجت الاسلام کوہساری نے مزید کہا کہ آج ہم شہید سید حسن نصراللہ اور حاج قاسم سلیمانی جیسے عظیم شخصیات کی پیروی کرتے ہوئے اقتصاد اور میڈیا کے میدانوں میں بھی مزاحمت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان شہداء کو ایک مکتب اور آزادی کے لیے ایک مثالی نمونہ قرار دیا، جن سے انسانیت بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی استکبار اور صہیونی ریاست محاذ مقاومت کو ختم نہیں کر سکتے، اور دنیا جلد بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرے گی۔
ہر بیرونی خطرے کا مقابلہ کرنیکی قوت رکھتے ہیں، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے مشرقی آذربائیجان کے عوامی وفود نے ملاقات کی۔ تہران میں آذربائیجان کے لوگوں سے گفتگو میں رہبر انقلاب نے فرمایا کہ تبلیغی امور انجام دینے والے اداروں، صاحبان تقریر و تحریر ،علوم و فنون کے حامل افراد، سرکاری میڈیا کے حکام اور سائبر اسپیس سے جڑے نوجوانوں کو اپنی توجہ دشمن کی طرف سے درپیش خطرے کا مقابلہ کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ 29 ویں بہمن تبریز کے عوامی قیام کی سالگرہ کے موقع پر مشرقی آذربائیجان صوبے کے ہزاروں افراد نے رہبر معظم انقلاب اسلامی سے حسینیہ امام خمینی (رہ) تہران میں ملاقات کی۔
.jpg)
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمد مسعود پزشکیان نے بھی عوامی ملاقات میں شرکت کی۔ حسینیہ امام خمینی کو نہج البلاغہ میں سے امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام سے مزین گیا تھا کہ بعض اوقات دشمن توجہ ہٹانے کے لیے قریب آتا ہے، تو دور اندیشی کا مظاہرہ کرو۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں فرمایا کہ دشمن کی زبانی دھمکیوں کا مقصد رائے عامہ کے ساتھ کھیلتے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینا ہے، یعنی انقلاب اسلامی کے متعلق یقین کو شکوک پیدا کر کے متزلزل کرنا ہے، دشمن کے مقابلے میں عوامی استقامت میں شک و تردد کو ایجاد کرنا ہے، لیکن خدا کے فضل سے وہ آج تک کامیاب نہیں ہوئے۔
.jpg)
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ فتنہ گر دشمن ہمارے عوام کے دلوں کو نہ ہلا سکا ہے اور نہ ہی ہمارے باعزم نوجوانوں کے پائے استقامت میں لغزش پیدا کر سکا ہے، اس کی ایک مثال 11 فروری کو ہونے والا بہت بڑا مارچ ہے، ایسی چیز دنیا میں کہاں ہے؟، انقلاب کی فتح کے چالیس سال گزرنے کے بعد انقلاب کی فتح کا جشن عوام کو ہی منانا چاہیے نہ کہ مسلح افواج کو، نہ حکام کو، بلکہ لوگوں کو، ملت کو اس سے بڑے پیمانے پر تمام دستیاب وسائل کیساتھ میدان میں اترنا چاہیے۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ لوگوں کے مسائل ہیں، ان کی توقعات ہیں، ان کی جائز توقعات ہیں، لیکن یہ مشکلات اور توقعات انہیں انقلاب کا دفاع کرنے سے نہیں روک سکتی ہیں، یعنی درپیش نرم خطرہ آج تک اس ملک اور قوم کیخلاف کارگر ثابت نہیں ہوا۔
.jpg)
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب اپنے آپ کو آزاد تشخص کیساتھ خطے اور دنیا کی قوموں کے لیے ایک عظیم اور امید افزا مرکز کے طور پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دنیا کی استکباری طاقتوں اور عالمی استعمار کی پریشانی کی وجہ ان کے خلاف ایرانی قوم کی استقامت اور قیام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں ہرقسم کے بیرونی خطرے کے حوالے سے کوئی پریشانی یا مشکل نہیں ہے، جنگی خطرات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت بہترین سطح پر ہے، لوگ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
عالمی استکبار کے غصے کی بنیادی وجہ ایران کی مقاومت ہے، رہبر معظم
، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا ہے کہ انقلاب اسلامی نے خود کو ایک آزادانہ شناخت دینے کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی قوموں کے لئے ایک عظیم اور امید بخش مرکز کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔
مشرقی آذربائجان کے عوامی وفد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار ایران سے اس لئے خائف اور غضبناک ہے کہ ایران نے ان طاقتوں کے سامنے مقاومت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی توقعات جائز ہیں، لیکن 22 بہمن کی عظیم ریلیوں نے ثابت کر دیا کہ دشمن کی سرد جنگ اور نفسیاتی حربے کارگر نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سرد جنگ اور نفسیاتی حملوں کا مطلب عوام کی سوچ کو بدلنا، اختلاف پیدا کرنا، اسلامی انقلاب کی مضبوط بنیادوں میں شک ڈالنا اور دشمن کے خلاف استقامت میں شک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ یہ کام دشمن کر رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے آج تک کامیاب نہیں ہوئے؛ آج تک دشمن کی وسوسے ہمارے عوام کے عزم کو کمزور نہیں کرسکے اور ہمارے نوجوانوں کو ان کی ارادے اور حرکت سے نہیں روک سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی مثال 22 بہمن کی عظیم ریلی ہے۔ دنیا میں کہاں ایسی چیز دیکھنے کو ملتی ہے؟ انقلاب کی کامیابی کے چالیس سال بعد عوام کی اکثریت اس طرح انقلاب کی فتح کا جشن مناتی ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود لوگوں کا جم غفیر میدان میں آتا ہے ہیں۔
رہبر معظم نے کہا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مالکان اور قلمکاروں کو چاہئے کہ دشمن کے نفسیاتی حملوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ دیں۔
ایک قوم کی حقیقی طاقت
طاقتور قوم کی ۳ خصوصیات!
حقیقی طاقت اس قومی طاقت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اس بات کی آگاہی بھی ہو کہ اس کے گرد و پیش کیا کچھ ہو رہا ہے، دوسرے یہ کہ اپنے حق اور اپنی راہ پر ایمان رکھتی ہو، تیسرے یہ کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس راہ پر گامزن رہے گی، اگر کوئی قوم ان تین خصوصیتوں کی حامل ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس سے زیادہ قوی نہیں ہو سکتی۔
ایمان و آگہی، کامیابی کی کنجی!
ہم اپنی حیثیت، اپنی عزت و شرافت، اپنے دین، اپنے انقلاب، اپنے انسانی حقوق اور اپنی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں، ہر قوم جو اپنے ان حقیقی حقوق کے بارے میں ایمان و آگاہی کے ساتھ فیصلہ کر لے قطعی طور پر کامیاب ہوگی، لہذا ہم اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہیں …
قومی اتحاد، قومی اقتدار کی بنیاد!
ہماری یہ قوت اور اقتدار اس وقت سے ہے کہ جب ہم متحد اور ایک ہوں، ایک قوم جو متحد ہو … اختلاف در اصل پوری حیات کو، آبرو کو اور اقتدار کو ملت سے چھین لیتا ہے۔ قوم کے اس اتحاد کی اگر آپ نے حفاظت کی آپ کا یہ اقتدار باقی رہے گا۔
عہد بصیرت ، رہبر معظم
منجی موعود؛ تمام ادیان کی مشترکہ اقدار اور عقیدہ
حجتالاسلام حمیدالله رفیعی، مدیر ادیان و مذاهب مرکز پاسخگویی به شبهات نے موعودگرائی کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عقیدہ تمام بڑے ادیان میں مشترک ہے۔ ان کے مطابق، موعودگرائی کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک الہی شخصیت کا ظہور ہوگا، جو عدل و انصاف قائم کرے گی اور دنیا میں امن و صلح کا نظام نافذ کرے گی۔
یہ عقیدہ یہودیت، مسیحیت، اسلام، زرتشتیت اور حتیٰ کہ غیرالہی ادیان جیسے بدھ مت میں بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا، تمام ادیان کے پیروکار ایک نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔
اسلام اور دیگر ادیان میں منجی کے تصور کی مماثلتیں
حجتالاسلام رفیعی کے مطابق، اسلام اور دیگر مذاہب میں منجی موعود کے حوالے سے تین اہم مشترکات پائے جاتے ہیں:
الہی شخصیت: تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ منجی کو خداوند کی طرف سے چُنا گیا ہے اور وہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آئے گا۔
ظہور در آخرالزمان: تمام ادیان میں یہ تصور موجود ہے کہ منجی آخری زمانے میں ظاہر ہوگا۔
عالمی حکومت: منجی ایک عالمی حکومت قائم کرے گا، جو عدل و انصاف پر مبنی ہوگی۔
بدھ مت میں، اگرچہ یہ ایک غیر الہی مذہب ہے، موعود کا نام "میتریا" بتایا گیا ہے، جو ظالم حکومت کو ختم کرکے دنیا کو "نیروانا" (امن و سکون) کی طرف لے جائے گا۔
مختلف ادیان میں منجی کے نام
اسلام: حضرت مہدی (عج)، جو حضرت فاطمہ (س) کے فرزند ہیں۔
یہودیت: "ماشیح" (Messiah)۔
مسیحیت: حضرت عیسیٰ (ع)، جنہیں صلیب پر چڑھانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرالزمان میں واپسی پر ایمان رکھا جاتا ہے۔
زرتشتیت: "سوشیانت"۔
بدھ مت: "میتریا" یا "پانچواں بدھا"۔
شیعہ و سنی عقائد میں مهدویت کا تصور
رفیعی کے مطابق، مهدویت کا تصور شیعہ اور اہل سنت دونوں میں موجود ہے۔ اہل سنت میں بھی حضرت مہدی (عج) کی غیبت، ان کے ظہور، عدل و انصاف کی حکومت اور حضرت عیسیٰ (ع) کے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1976ء میں عربستان میں ایک اہل سنت فقهی مجمع نے فتویٰ دیا تھا کہ مهدویت سے متعلق احادیث متواتر ہیں اور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح وهابی عالم شیخ عبدالمحسن نے مدینہ یونیورسٹی میں مهدویت پر تفصیلی خطبہ دیا اور بعد میں "عقیدۃ اہل السنہ و الاثر فی المهدی المنتظر" کے عنوان سے ایک جامع کتاب شائع کی۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مهدویت کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے اور اسے تمام اسلامی فرقوں میں قبولیت حاصل ہے۔
غلو کی حقیقت : مختصر تحقیق
لغت میں غلو یہ ہے کہ کسی کے حوالے سے انسان افراط کا شکار ہوجائے، زیادہ روی کرے اور اس کے حوالے سے حد سے بڑھ جائے۔ جن کا وہ مستحق نہیں ان باتوں کی نسبت اس کی طرف دی جائے۔
غلو کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی غیر خدا کو خدا سے ملایا جائے، خدا کی خاص صفات کو کسی انسان کے لیے قائل ہونا بھی غلو ہے۔ کسی انسان کے لیے اس کی صفات اور فضائل کو مستقل ثابت کرنا بھی غلو کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اعتقاد بھی غلو ہے کہ خدا کی روح کسی انسان میں حلول کر گئی ہے۔
اگر شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں بہت ساری صفات کے قائل ہیں مثلاً یہ کہ وہ واسطہ ہیں فیض خدا کے حوالے سے، انہی کے صدقے میں خدا نے کائنات بنائی ہے، یہ لوگ ولایت تکوینی کے مالک ہیں، آخرت میں ائمہ شفاعت فرمائیں گے وغیرہ تو ان میں سے کوئی ایک بات بھی ہرگز غلو کے زمرے میں نہیں آتی۔
چونکہ شیعہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ان تمام صفات کے باوجود سارے ائمہ حتی افضل ترین مخلوق حضرت رسول خدا ﷺ، اللہ کے عبد اور بندے ہیں۔ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں، عبادت کرتے ہیں۔ توبہ واستغفار کرتے ہیں۔ ان ہستیوں کو جتنی خصوصیات حاصل ہیں سب اللہ کی طرف سے عطا شدہ ہیں۔ لہذا ہر نماز میں دوران تشہد یہ گواہی دے کر کہ: محمد ﷺ اللہ کے عبد اور رسول ہیں، غلو سے اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں۔
ائمہ معصومین علیہم السلام نے غلات سے انتہائی بیزاری اور برائت کا اظہار کیا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے: یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔
امام صادق علیہ السلام کی روایت کے جملے ہیں: "يا اسماعيل! لاترفع البناء فوق طاقته فينهدم اجعلونا مخلوقين و قولوا فينا ما شئتم۔" (بحارالانوار، ج 25، ص 279) اے اسماعیل! کسی بھی عمارت کو اس کی طاقت سے زیادہ بلند مت کرنا، ورنہ وہ گر جائے گی۔ ہمیں اللہ کی مخلوق قرار دو اور پھر ہمارے بارے میں جو چاہو کہو۔
ایک اور روایت میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں: "فواللَّه ما نحن الا عبيد الذى خلقنا و اصطفانا، مانقدر على ضر و لانفع ... ويلهم ما لهم لعنهم اللَّه لقد آذوا اللَّه و آذوا رسوله فى قبره و اميرالمومنين و فاطمه و الحسن و الحسين و على بن الحسين و محمد به على صلوات اللَّه عليهم." (بحارالانوار، ج 35، ص 289) خدا کی قسم ہم اس خدا کے عبد ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں چن لیا۔ ہم (مستقل طور پر خدا کی اجازت کے بغیر) نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ... ان پر افسوس ہے، ان کے لیے کیا ہے؟ اللہ ان پر لعنت کرے، انہوں نے اللہ کو اذیت دی اور اس کے رسول کو ان کی قبر میں اذیت دی اور امیرالمومنین، فاطمہ، حسن، حسین، علی بن حسین اور محمد بن علی کو اذیت دی۔
یہ بات عقلی طور پر ثابت ہے کہ کسی بھی انسان کی جتنی بھی فضیلت ہو، ہے تو وہ مخلوق اور محدود۔ جبکہ خدا کی ذات لا محدود اور نا متناہی ہے۔ متناہی اور لا متناہی کے درمیان فاصلہ بھی نا متناہی ہوگا۔ ہاں البتہ یہ ہستیاں وہ ہیں جو تمام مخلوقات میں اللہ تعالی کے نزدیک ترین اور کامل ترین ہستیاں ہیں۔
اس عقیدے کے مقابلے میں مسیحیت حضرت عیسی ؑ کے بارے میں غلو کا شکار ہو گئی۔ ان کے ہاں عیسی ؑ کے حوالے سے عبد خدا ہونا، یا خدا کے سامنے جھکنا اور تضرع و عبادت کی باتیں مطرح نہیں ہیں، بلکہ خدا کا بیٹا ہونا مطرح ہے۔ چونکہ عیسی کا کوئی باپ نہیں، لہذا خدا ان کے باپ ہیں اور وہ خدا کے بیٹے۔ یہ بات عین غلو ہے۔
پس مقام توحید میں غالی وہ ہے جو کسی بھی انسان کو عبودیت اور بندگی کے مقام سے بڑھا چڑھا کر ان کو خدا یا خدا کے افعال کا مصدر قرار دے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق صرف خدا ہے جو حقیقی معنی میں خالق، مدبر، شارع، رازق، حاکم... ہے۔ ہاں خدا نے بعض موارد میں ائمہ ؑ کو بعض اختیارات ایسے عطا کیے ہیں جن کی بنا پر وہ کائنات میں مختلف قسم کے تصرفات کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ سب خدا کے اذن اور اجازت سے ہے۔ جیسے حضرت عیسی ؑ، خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے، بیماروں کو شفا دیتے تھے۔ یا جیسے قرآن کی آیت کے مطابق جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا (آصف بن برخیا) اس نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے فلسطین میں حاضر کر دیا۔ یہ سب کچھ خدا کے فضل وکرم اور خاص عنایات سے ممکن ہیں اور بندہ ان کاموں میں مستقل ہرگز نہیں۔
لکھاری: عباس حسینی، 8 مارچ 2017، 11:26 PM