سلیمانی

سلیمانی

امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے 24 اپریل 2025 کو مجلس عزا کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام جعفر صادق علیہ السلام اور مسئلہ امامت کے موضوع پر بڑی اہم گفتگو کی جس کے کچھ اقتباسات حسب ذیل ہیں؛

...امام صادق (علیہ السلام) کے زمانے میں 'تقدیر الہی' کی بنا پر، نہ کہ حتمی قضائے الہی کے طور پر، ائمہ ہدی (علیہم السلام) کے حق میں ایک تبدیلی واقع ہونے والی تھی۔ متعدد روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ ایک روایت امام صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "بے شک اللہ تعالیٰ نے اس امر (یعنی حقیقی معنوں میں امامت) کو اپنی تقدیر میں سن 70 ہجری کے لیے مقرر کیا تھا۔" (کافی جلد صفحہ 368 قدرے فرق کے ساتھ)

دیکھیے! جب امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے معاویہ کے ساتھ صلح کی تو کچھ لوگ آ کر شکایت اور اعتراض کرتے تھے۔ حضرت فرماتے تھے: "تم نہیں جانتے، شاید یہ تمہارے لیے ایک آزمائش ہے اور ایک وقت تک کے لیے مفید ہے" یعنی یہ ایک عارضی دور ہے۔ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے کلمات سے اشارہ ملتا ہے کہ کفر ونفاق کا یہ غلبہ دائمی نہیں ہے، بلکہ تقدیر الہی میں یہ عارضی ہے۔ لیکن کب تک؟ سن 70 ہجری تک۔ یعنی اس روایت کے مطابق سن 70 ہجری میں اہل بیت میں سے جو بھی زندہ ہو گا، قیام کرے گا اور حکومت سنبھالے گا، اور حقیقی امامت قائم ہو جائے گی۔

پھر حضرت فرماتے ہیں: "لیکن جب امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے، تو اہل زمین پر اللہ کا غضب شدت اختیار کر گیا اور اس نے اس تقدیر کو مؤخر کر کے سن 140 ہجری تک کے لیے ٹال دیا۔" یعنی واقعہ کربلا، لوگوں کی دینی اقدار سے بے اعتنائی اور ان کی روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تقدیر الہی مؤخر ہو گئی اور سن 140 تک کے لیے ملتوی ہو گئی۔ سن 140 ہجری امام صادق (علیہ السلام) کا زمانہ ہے کیونکہ آپ کی شہادت 148 ہجری میں ہوئی۔ شیعہ اس بات کو جانتے تھے، بلکہ شیعہ خواص کو اس کا علم تھا۔ اسی لیے ایک روایت میں ہے کہ زُرارہ جو امام کے قریبی اصحاب میں سے تھے، اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں: "تم اس تخت (خلافت) پر جعفر کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھو گے۔"( رجال کشّی، صفحہ 156) اس روایت میں "اعواد" سے مراد منبرِ خلافت کی بنیادیں ہیں، یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ جعفر (علیہ السلام) ہی اس منبر پر متمکن ہوں گے۔ بات یہ ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ زُرارہ نے ہی جو کوفہ میں رہتے تھے، امام صادق (علیہ السلام) کو پیغام بھیجا اور عرض کیا: "ہمارے ایک شیعہ دوست پر قرض چڑھ گیا ہے، اور قرض خواہ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شہر چھوڑ کر بے گھر ہو گیا ہے۔ اگر یہ معاملہ (یعنی خلافت کا قیام) ایک دو سال میں ہونے والا ہے — روایت کے الفاظ ہیں: 'هذا الأمر' یعنی اگر یہ واقع ہونے ہی والا ہے — تو وہ صبر کر لے، جب آپ حکومت سنبھال لیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ معاملہ طول پکڑنے والا ہے، تو دوست چندہ کر کے اس کا قرض ادا کر دیں۔" (رجال کشّی، صفحہ 157)

یعنی زُرارہ جیسے افراد کو توقع تھی کہ یہ واقعہ ایک دو سال میں رونما ہو جائے گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر بار بار پوچھتے تھے: "آقا! آپ قیام کیوں نہیں کرتے؟" یہ سب اس لیے تھا کہ وہ کسی چیز کے منتظر تھے — انہوں نے کوئی بات سن رکھی تھی، کوئی خبر ان تک پہنچی تھی۔

اس روایت کے بعد جس میں سن 140 ہجری کا تعین کیا گیا تھا، امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "تم لوگوں نے (اس راز کو) افشا کر دیا، تو اللہ نے اسے مؤخر کر دیا۔" یعنی اگر شیعہ اپنی زبانوں پر قابو رکھتے اور اس راز کو فاش نہ کرتے، شاید اسی وقت مقررہ پر یہ واقعہ پیش آ جاتا۔ غور کیجئے! تاریخ کتنی بدل جاتی! بنی نوع انسان کا راستہ ہی کچھ اور ہوتا اور آج کی دنیا بالکل مختلف ہوتی۔

یعنی ہماری کوتاہیاں، کبھی ہماری بے احتیاط گفتگو، کبھی ہمارا ساتھ نہ دینا، کبھی بے جا اعتراضات، کبھی ہمارا صبر سے کام نہ لینا، کبھی حالات کی غلط تشریح - یہ سب کبھی کبھی ایسے تاریخی اثرات مرتب کرتے ہیں کہ پورا راستہ ہی بدل جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔

بے شک امام صادق (علیہ السلام) کی زندگی ایک غیر معمولی، حیرت انگیز اور کامیاب زندگی تھی، خاص طور پر اللہ کے احکام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے۔ ہمارے پاس آپ (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب سے روایات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ البتہ جب آپ کے چار ہزار(4000) شاگردوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو سننے والے کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ گویا حضرت نے کوئی درس شروع کیا ہو اور چار ہزار افراد ایک ہی وقت میں بیٹھ کر سبق حاصل کر رہے ہوں۔ معاملہ درحقیقت یوں نہیں ہے۔

دراصل، امام صادق (علیہ السلام) کی پوری زندگی میں مختلف اوقات میں آپ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں کی مجموعی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے – جیسا کہ تاریخی کتابوں میں درج ہے۔ یعنی آپ کے چار ہزار راوی ہیں، یہی چار ہزار شاگردوں کا مطلب ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ہی وقت میں چار ہزار افراد آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے اور آپ انہیں تعلیم دیتے تھے۔

ہم ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی زندگی سے بہت کم واقف ہیں – نہ ہمیں ان کے کلمات کا مکمل علم ہے، نہ بیانات کا، نہ روایات کا اور نہ ہی ان کی زندگی کے حالات کا۔

جن روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) کو منصور کے سامنے پیش کیا گیا اور منصور نے آپ پر سخت غصہ کا اظہار کیا، پھر امام (علیہ السلام) نے کہا: "اے میرے چچا زاد! بڑے بڑے پیغمبر مظلوم واقع ہوئے، انہوں نے درگزر کیا، تم بھی ہمیں معاف کر دو" – میں بالکل واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں، قطعی طور پر یہ واقعات حقیقت نہیں رکھتے۔ امام (علیہ السلام) کسی سے بھی اس طرح گفتگو نہیں کرتے، چاہے قتل ہو جانے کا خطرہ ہو یا نہ ہو، کسی بھی صورت میں۔ امام (علیہ السلام) کا اندازِ کلام ہی ایسا نہیں ہوتا۔ یہ روایت کس نے نقل کی ہے؟ ربیع نے – جو منصور کا خادم اور اس کا ہرکارہ تھا، ایک درباری جھوٹا شخص جس نے یہ قصہ گڑھ لیا۔

یہ روایت دراصل شیعوں کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈہ ہے، اس لیے ایسی روایات کو نقل کرنے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ بعض لوگ بلاوجہ انہیں دہراتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح روایات نہیں ہیں۔ ائمہ (علیہم السلام) ہمیں استقامت، ثابت قدمی اور منطق کی تعلیم دیتے ہیں – وہ اپنی گفتگو میں دلیل اور برہان سے کام لیتے ہیں، مخالف کو اس کی ہی باتوں میں الجھا دیتے ہیں۔

آپ غور کریں کہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے ابنِ زیاد کے دربار میں اور یزید کے سامنے کیسے حق گوئی اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا! یہی سچا خطاب ہے، یہی ائمہ معصومین (علیہم السلام) کا اصل طریقہ ہے۔ جو کوئی بھی حق پر ڈٹ جاتا ہے، وہ درحقیقت ان ہستیوں کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔

آج بھی غزہ اور لبنان میں جو مجاہدین استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ عملاً انہی ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) کے راستے پر گامزن ہیں۔

Thursday, 24 April 2025 06:15

مذہب جعفریہ

شیعہ، اہل سنت کے بعد دین اسلام کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے خدا کے حکم سے حضرت علیؑ کو اپنا بلافصل جانشین اور امام مقرر فرمایا۔ امامت شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے جو اس مذہب کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز بناتا ہے۔ شیعوں کے مطابق امام کو خدا معین کر کے پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے تعارف کراتا ہے۔

زیدیہ کے علاوہ شیعوں کے تمام فرقے امام کو معصوم سمجھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ مہدی موعود ان کے آخری امام ہیں جو اس وقت غیبت میں ہیں اور ایک دن دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ظہور فرمائیں گے۔

حسن و قبح عقلی، اَمر بَینَ الاَمرَین، تمام صحابہ کی عدالت کا قائل نہ ہونا، تقیہ، توسل اور شفاعت شیعوں کے بعض مخصوص اعتقادات ہیں۔

شیعہ مذہب میں بھی اہل سنت کی طرح شرعی احکام کے استنباط کے منابع قرآن، سنت، عقل اور اجماع ہیں۔ البتہ اہل‌ سنت کے بر خلاف شیعہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ساتھ ائمہ معصومین کی سنت کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔

شیعوں کے اہم فرقے امامیہ، اسماعیلیہ اور زیدیہ ہیں۔ ان میں امامیہ فرقہ شیعوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ امامیہ بارہ اماموں کی امامت پر اعتقاد رکھتے ہیں جن میں سے آخری امام، مہدی موعودؑ ہیں جو اس وقت غیبت میں ہیں۔

اسماعیلیہ مذکورہ بارہ اماموں میں سے چھٹے امام یعنی امام صادقؑ تک کی امامت کے قائل ہیں اور ان کے بعد آپؑ کے بیٹے اسماعیل اور ان کے بیٹے محمد کی امامت کے قائل ہیں اور انہی کو مہدی موعود سمجھتے ہیں۔

زیدیہ امام کو کسی خاص عدد میں منحصر کئے بغیر اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہرا(س) کی اولاد میں سے جو بھی عالم، زاہد، شجاع اور سخاوتمند ہو اور قیام کریں تو وہ امام ہوگا۔

آل‌ادریس، طبرستان کے علوی، آل بویہ، یمن کے زیدی، مصر کے فاطمی، اسماعیلیہ، سبزوار کے سربداران، صفویہ اور جمہوری اسلامی ایران تاریخ میں شیعہ حکومتیں گزری ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی 7 اکتوبر 2009ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مسلم آبادی کا 10 سے 13 فیصد شیعہ ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق شیعوں کی کل آبادی 154 میلین سے 200 میلین تک ہے۔ شیعوں کی اکثریت ایران، عراق، پاکستان اور ہندوستان میں آباد ہیں۔

اجمالی تعارف
شیعہ مسلمانوں کے اس فرقے کو کہا جاتا ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں پیغمبر اسلامؐ کے بعد حضرت علیؑ کو آنحضرتؐ کا بلافصل جانشین اور خلیفۃ المسلمین مانتے ہیں۔[1] شیخ مفید کے مطابق لفظ شیعہ جب الف اور لام کے ساتھ آئے ("الشیعۃ") تو اس سے مراد فقط اور فقط امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرمؑ کے بعد حضرت علیؑ کو بلافصل امام اور خلیفۃ المسلمین سمجھتے‌ ہیں۔[2] [یادداشت 1]اس کے مقابلے میں اہل‌‌ سنت کہتے ہیں کہ پبغمبر اکرمؐ نے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا اس بنا پر مسلمانوں نے بطور اجماع ابوبکر کی بیعت کر کے انہیں رسول کا جانشین اور مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ہے۔[3]

معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق ظہور اسلام کے بعد کی ابتدائی صدیوں میں لفظ شیعہ اہل‌ بیتؑ کے ماننے والوں اور عثمان پر حضرت علیؑ کو مقدم سمجھنے والوں پر بھی اطلاق ہوتا تھا۔[4] اصطلاح میں پہلے گروہ کو اعتقادی شیعہ[یادداشت 2] جبکہ آخری گروہ کو مودتی شیعہ (دوست‌دار اہل‌ بیت) کہا جاتا ہے۔[5]

لفظ شیعه لغت میں پیروکار، دوست اور گروہ کو کہا جاتا ہے۔[6]

شیعہ تاریخ کے آئینے میں
شیعہ کے عنوان سے ایک گروہ جو حضرت علیؑ کے پیروکار اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کا جانشین سمجھتا تھا، کی پیدائش کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض کہتے ہیں کہ خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ایک گروہ شیعہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے؛ بعض کہتے ہیں کہ شیعہ سقیفہ کے واقعے کے بعد وجود میں آیا ہے؛ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ شیعہ تیسرے خلیفہ عثمان کے قتل کے بعد وجود میں آیا ہے؛ اسی طرح بعض مورخین کے مطابق شیعہ حَکَمیت کے واقعے کے بعد وجود میں آیا ہے۔[7]

شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ پہلا قول ہے۔[8] شیعہ علماء ان احادیث اور تاریخی‌ استناد سے تمسک کرتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علی کو بشارتیں دی گئی ہیں اور بعض افراد شیعیان علی کے نام پہچانے جاتے تھے۔[9]

معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق خود امام علیؑ کے دور میں بھی شیعہ کی اصطلاح رائج تھی۔[10] البتہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مختصر گروہ تھا یہاں تک کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے دور امامت تک ان کی تعداد اتنی نہیں تھی جنہیں ایک فرقے کا نام دیا جا سکے۔[11] ان ادوار میں اکثر ائمہ معصومینؑ کے اصحاب ہی ان کے پیروکار سمجھتے جاتے تھے۔[12]

نظریہ امامت
امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریے کو تمام شیعہ فرقوں کا اشتراکی نقطہ سمجھا جاتا ہے۔[13] علم کلام میں نظریہ امامت شیعوں کا ایک اہم اور بنیادی نظریہ ہے۔[14] شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی احکام کی تفسیر کا واحد اور عالی ترین مرجع امامت ہے۔[15]
شیعہ احادیث میں امام کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی شخص امام کی شناخت کے بغیر مر جائے تو وہ کفر کی موت مرے گا۔[16]

پیغمبر اکرمؐ:«من مات ولم یعرف إمام زمانه مات میتة جاہلیة»
«جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت(کفر کی حالت میں) مرا ہے۔

«تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص239۔»

امامت پر نص کا ضروری ہونا
امامت پر نص
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ایک اہم اصل اور ایک الہی منصب ہے؛ یعنی امام کے انتخاب کو انبیاء لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اپنا جانشین خود معین کریں۔[17] اسی بنا پر شیعہ متکلمین (سوائے زیدیہ کے)[18] اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ "نصب امام" (یعنی پیغمبر یا پہلے والے امام کے توسط سے امام کو معین کرنا) واجب ہے،[19] اور "نص" (وہ کام یا بات جو مطلوبہ ہدف پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہو)[20] کو امام کی شناخت کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔[21]

ان کی دلیل یہ ہے کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے اور مقام عصمت سے خدا کے علاوہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا؛[22] کیونکہ عصمت انسان کی ایک باطنی صفت ہے اور انسان کے ظاہر سے اس کی عصمت کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔[23] پس ضروری ہے کہ خدا خود امام کو معین کرے اور پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے اسے لوگوں تک پہنچائے۔[24]

شیعہ کتب کلام میں معاشرے میں امام کی ضرورت پر کئی عقلی اور نقلی دلائل دئے گئے ہیں۔[25] آیہ اولوالامر اور حدیث مَن مات من جملہ امام کی ضرورت پر پیش کئے جانے والی نقلی دلائل میں سے ہیں۔[26] اسی طرح قاعدہ لطف اس سلسلے کی عقلی دلائل میں سے ہے۔ اس دلیل کی توضیح میں لکھتے ہیں:‌ ایک طرف سے امام کا وجود لوگوں کو خد کی طاعت کی طرف مائل کرنے نیز انہیں گناہوں سے دور رکھنے کا سبب ہے؛ دوسری طرف سے قاعدہ لطف کا تقاضا ہے کہ ہر وہ کام جو لوگوں کو خدا کی اطاعت سے قریب کرے اور گناہوں سے دور رکھنے کا سبب بنتا ہے ہو اسے انجام دینا خدا پر واجب۔ پس امام کو نصب کرنا خداپر واجب ہے۔[27]

عصمت امام
شیعہ اماموں کی عصمت کے قائل ہیں اور اسے امام کے شرائط میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔[28] شیعہ اس سلسلے میں مختلف عقلی اور نقلی دلائل[29] سے استناد کرتے ہیں من جملہ ان میں آیہ اولوالامر،[30] آیہ ابتلائے ابراہیم[31] اور حدیث ثَقَلین شامل ہیں۔[32]

شیعہ فرقوں میں سے زیدیہ تمام اماموں کی عصمت کے قائل ­نہیں ہیں۔ ان کے مطابق صرف اصحاب کِساء یعنی پیغمبر اکرمؐ، حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، امام حسنؑ اور امام حسینؑ معصوم‌ ہیں[33] ان کے علاوہ باقی ائمہ عام لوگوں کی طرح غیر معصوم ہیں۔[34]

پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کا مسئلہ
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین مقرر فرما کر لوگوں کے سامنے اس کا اعلان فرمایا۔ اسی طرح آپؐ نے امامت کے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی اولاد میں منحصر قرار دیا ہے۔[35] البتہ شیعہ فرقوں میں سے زیدیہ ابوبکر اور عمر کی امامت کو بھی قبول کرتے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود زیدیہ بھی امام علیؑ کو ان دو خلفاء سے افضل مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے مسلمانوں نے ابوبکر اور عمر کے انتخاب میں غلطی کی ہیں لیکن چونکہ خود امام علیؑ نے بھی اس سلسلے میں اپنی رضایت کا اظہار کیا ہے اس بنا پر ان دونوں کی امامت کو قبول کرتے ہیں۔[36]

شیعہ متکلمین پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کی بلافصل جانشینی کو ثابت کرنے کے لئے مختلف آیات اور روایات سے تمسک کرتے ہیں من جملہ ان میں آیہ ولایت، حدیث غدیر اور حدیث منزلت قابل ذکر ہیں۔[37]

فرقے
شیعہ فرقے
شیعہ مذہب کے اہم فرقوں میں امامیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ، غالی، کیسانیہ اور کسی حد تک واقفیہ شامل ہیں۔[38] ان میں سے بعض فرقوں کے ذیلی شاخیں بھی ہیں؛ جیسے زیدیہ جس کے دس ذیلی شاخیں کا تذکرہ ملتا ہے؛[39] اسی طرح کیسانیہ کو بھی چار ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔[40]
 انہی ذیلی شاخوں کی بنا پر بہت سارے فرقوں کو شیعہ فرقوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[41]
البتہ مذکورہ بالا فرقوں میں سے بہت سارے فرقے منقرض ہو چکے ہیں
 اور اس وقت صرف امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ کے ماننے والے موجود ہیں۔[42]

کیسانیہ
کیسانیہ محمد حنفیہ کے ماننے والے تھے۔ یہ فرقہ امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے بعد امام علیؑ کے بیٹے محمد حنفیہ کو امام مانتے تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ محمد حنفیہ وہی مہدی موعود ہیں اور کوہ رِضوا میں زندگی گزار رہے ہیں۔[43]

واقفیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی امامت پر متوقف ہوئے ہیں؛ یعنی آپ کو آخری امام سمجھتے ہیں۔[44]غالی اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو خاص کر شیعہ ائمہ کے حق میں حد سے تجاوز کرتے ہیں؛ یعنی ائمہ کے بارے میں الوہیت کا دعوا کرتے ہیں، ائمہ کو مخلوق نہیں سمجھتے بلکہ ان کو خدا سے تشبیہ دیتے ہیں۔[45]

نبو
شیعہ فرقوں کا شجرہ

صالحیہ                                                    امام علی
جارودیہ                                            امام حسن                                        بیانیہ            
نعیمیہ                                                    امام حسین                                خشبیہ    
یعقوبیہ                                            امام سجاد                        کیسانیہ            کربیہ
سلیمانیہ            زیدیہ                                    امام باقر                                راوندیہ
حسینیہ                                                امام صادق                                            حربیہ
اسماعیلیہ                                امام کاظم            فطحیہ
امام ٰرضا            
دروزیہ    مستعلویہ    قرامطہ    نزاریہ                امام جواد
امام ہادی
بہرہ        حافظیہ        آقاخانیہ                امام عسکری
امام مہدی    
شیخیہ        امامیہ
امامیہ یا اثنا عشری
شیعہ اِثناعَشَری یا امامیہ سب سے بڑا شیعہ فرقہ ہے۔[46] مذہب امامیہ کے مطابق پیغمبر اسلامؐ کے بعد آپؐ کی جانشینی میں بارہ امام ہیں جن میں سے پہلا امام، امام علیؑ اور آخری امام، امام مہدی(عج) ہیں[47] جو ابھی زندہ ہیں۔ امام مہدی غیبت میں ہیں اور ایک دن دنیا میں عدل و انصاف برقرار کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔[48]

رجعت اور بَداء شیعہ اثنا عشریہ کا مخصوص عقیدہ ہیں۔[49] رجعت کے عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد بعض اموات زندہ ہونگے۔ ان زندہ ہونے والوں میں نیکوکار اور گناہ کار دونوں قسم کے لوگ شامل ہونگے اسی طرح اہل بیت کے دشمن بھی دنیا میں لوٹ آئیں گے تاکہ وہ اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بگھتے۔[50] بداء یعنی خدا کبھی کبھار بعض مصلحتوں کی بنا پر کسی ایسی چیز کو انبیاء یا امام پر آشکار کر دیا گیا تھا کو تبدیل کر دیتا ہے اور اس کی جگہ کسی اور چیز کو تحقق بخشتا ہے۔[51]

امامیہ مذہب کے مشہور متکلمین میں شیخ مفید(336یا338-413ھ)، شیخ طوسی(385-460ھ)، خواجہ نصیرالدین طوسی(597-672ھ) اور علامہ حلی(648-726ھ) شامل ہیں۔[52] اسی طرح امامیہ کے برجشتہ فقہاء میں شیخ طوسی، محقق حلی، علامہ حلی، شہید اول، شہید ثانی، کاشف‌الغطاء، میرزای قمی اور شیخ مرتضی انصاری شامل ہیں۔[53]

شیعوں کی اکثریت ایران میں موجود ہیں۔ ایران کی کل آبادی کا 90 فیصد شیعہ اثنا عشری ہیں۔[54]

زیدیہ
مذہب زیدیہ امام سجادؑ کے فرزند زید سے منسوب ہے۔[55] زیدیہ کے مطابق صرف امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی امامت انتصابی اور پیغمبر کی طرف سے معین ہوئی ہے۔[56] ان کے مطابق ان تین اماموں کے علاوہ حضرت زہرا(س) کی نسل سے جوب بھی عالم، زاہد، شجاع، اور سخاوت مند شخص قیام کرے وہ امام ہوگا۔[57]

زیدیہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کے بارے میں دو طرح کے موقف رکھتے ہیں: ان میں سے بعض ان دونوں کے امامت کے قائل ہیں جبکہ بعض ان کو امام نہیں مانتے ہیں[58] یمن کے موجودہ زیدیوں کا نظریہ پہلے والے گروہ کے نزدیک ہے۔[58]

جارودیہ، صالحیہ اور سلیمانیہ زیدیہ کے تین اصلی فرقے ہیں۔[59] کتاب المِلَل و النِّحَل کے مصنف شہرستانی کے مطابق زیدیوں کی اکثریت کلام میں مُعتزلہ اور فقہ میں مذہب حنفیہ سے متأثر ہیں۔[60]

کتاب اطلس شیعہ کے مطابق یمن کی 20 میلین آبادی کا 30 سے 40 فیصد آبادی زیدیوں کی ہے۔[61]

اسماعیلیہ
اسماعیلیہ شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو امام صادقؑ کے بعد آپ کے فرزند اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں اور امام کاظمؑ اور دیگر شیعہ ائمہ کو امام نہیں مانتے ہیں۔[62] اسماعیلیہ اس بات کے قائل ہیں کہ امامت سات ادوار پر مشتمل ہے اور ہر دور کا آغاز ایک "ناطق" سے ہوتا ہے جو نئی شریعت لے آتا ہے اور ہر دور میں ان کے بعد سات امام ہوا کرتے ہیں۔[63]

ان کے مطابق امامت کے پہلے چھ ادوار کے "ناطق‌" اولو العزم انبیاء یعنی حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی اور حضرت محمدؐ ہیں۔[64] امام صادقؑ کی فرزند اسماعیل امامت کے چھتے دور کے آخری امام ہیں جس کا آغاز پیغمبر اسلامؐ سے ہوا تھا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل وہی مہدی موعود ہیں جب قیام کریں گے تو امامت کے ساتوں دور کا آغاز ہو گا۔[65] کہا جاتا ہے کہ فاطمی دور حکومت میں ان کے بعض اعتقادات میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔[66]

باطنی‌ گری اسماعیلیہ کی سب سے اہم خصوصیت ہے؛ کیونکہ یہ لوگ آیات، احادیث اور اسلامی تعلیمات اور احکام کی تأویل کرتے ہوئے ان کے ظاہری معنی کے برخلاف معنی لیتے ہیں۔ ان کے مطابق قرآن کی آیات اور احادیث کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوا کرتا ہے۔ امام ان کے باطنی معنی سے آگاہی رکھتے ہیں اور امامت کا فلسفہ ہی دین اور اس کے تعلیمات کی باطنی تفسیر بیان کرنا ہے۔[67]

قاضی نُعمان کو اسماعلیہ کا سب سے بڑا مجتہد[68] اور اس کی کتاب دعائم الاسلام کو اس فرقے کا اصلی فقہی منبع قرار دیا جاتا ہے۔[68] ابوحاتم رازی، ناصر خسرو اور اِخوان الصَّفا نامی گروہ کو اسماعیلیہ کے برجستہ دانشمندوں میں شمار کیئے جاتے ہیں۔[69] ابو حاتم رازی کی کتاب رسائل اِخوان الصفا اور اَعلام النبوّہ ان کے اہم فلسفی کتابوں میں شمار ہوتے ہیں۔[70]

اس وقت اسماعیلیہ کو آغاخانیہ اور بُہرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے جو مصر کے فاطمی یعنی نزاریہ اور مستعلویہ کے باقیات میں سے ہیں۔[71] آغاخانیوں کی آبادی تقریبا ایک میلین ہے جو عمدتا ایشائی ممالک جیسے ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران میں مقیم ہیں۔[72] جبکہ دوسرے گروہ کی آبادی تقریبا 500 نفوس پر مشتمل ہے جن کی تقریبا 80 فیصد آبادی ہندوستان میں مقیم ہیں۔[73]

مہدویت
مہدویت تمام اسلامی مذاہب کا مشترکہ عقیده سمجھا جاتا ہے؛[74] لیکن یہ عقیدہ شیعوں کے یہاں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں بہت ساری احادیث، کتابیں، اور مقالات لکھے گئے ہیں۔[75]

تمام شیعہ فرقوں کا اس عقیدے کی اصل ماہیت میں اتفاق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ مہدی موعود امام حسن عسکریؑ کے فرزند ارجمند ہیں اور اس وقت غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔[76] اسماعیلیہ محمد مکتوم جو کہ امام صادقؑ کی فرزند اسماعیل کے بیتے ہیں کو مہدی موعود قرار دیتے ہیں۔[77] اسی طرح زیدیہ چونکہ قیام کرنے کو امام کے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں اس لئے غیبت اور انتظار پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔[78] زیدیہ ہر امام کو مہدی اور مُنجی قرار دیتے ہیں۔[79]

اہم کلامی نظریات
اصول دین یعنی توحید، نبوت اور معاد میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ امامت اور مہدویت جن کا ذکر پہلے ہوچکا، کے علاوہ یہ اعتقادات میں کچھ یوں ہیں: حُسن و قُبح عقلی، تَنزیہ صفات خدا، اَمرٌ بَینَ الاَمرَین، تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا، تقیّہ، توسل اور شفاعت۔

شیعہ علماء معتزلہ کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔[80] حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔[81] اشاعرہ اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛[82] یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔[83]

"تنزیہ صفات" کا نظریہ، "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ تمام صفات میں خدا کو بھی دوسرے مخلوقات کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔[84] شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔[85] مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتا ہے اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں لیکن خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔[86]

اَمرٌ بَینَ الاَمرَین کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح اہل‌ حدیث خیال کرتے ہیں؛[87] بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔[88] شیعوں میں سے زیدیہ بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔[89]

اہل‌ سنت کے برخلاف شیعہ متکلمین [90] پیغمبر اکرمؐ کے تمام اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے[91] کیونکہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔[92]

زیدیہ کے علاوہ[93] دیگر شیعہ فرق تقیہ کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔[94]

اگرچہ دیگر مسلمان فرقوں میں بھی توسل کا مفہوم رائج ہے لیکن شیعوں کے یہاں توسل ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔[95] شیعہ بعض اہل سنت فرقوں من جملہ وہابیوں کے برخلاف[96] اپنی دعاؤوں کی قبولیت اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے اولیائے خدا کو واسطه قرار دینے کو شائستہ اقدام قرار دیتے ہیں۔[97] توسل اور شفاعت ایک دوسرے کے ساتھ محکم رابطہ رکھتے ہیں۔[98] شیخ مفید کے مطابق شفاعت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین قیامت کے دن گناہکاروں کے شفیع بنتے ہیں اور خدا ان ہستیوں کی شفاعت کی وجہ سے ان گناہگاوں کو بہت سارے گناہوں سے نجات دیتے ہیں۔[99]

فقہ
قرآن و سنت کو تمام شیعہ فرق احکام شرعی کے معتبر منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں؛[100] لیکن احکام کے استنباط میں دیگر فقہی منابع کی طرح ان دونوں کے استعمال میں اختلاف‌ رکھتے ہیں۔

اہل‌ سنت کی طرح امامیہ اور زیدیہ قرآن و سنت کے علاوہ عقل اور اجماع کو بھی حجت مانتے ہیں؛[101] لیکن اسماعیلیہ اس مسئلے میں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسی طرح اسماعیلیہ کسی بھی مجتہد کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ احکام شرعی کو براہ راست قرآن، سنت اور ائمہ کی تعلیمات سے اخذ کرنا چاہئے۔[102]

زیدیہ سنت میں صرف پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو حجت مانتے ہیں اور اہل‌ سنت حدیثی منابع جیسے صِحاح سِتّہ کی طرف رجوع کرتے ہیں؛[103] لیکن امامیہ اور اسماعیلیہ ان احادیث کو بھی فقہی منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں جو ائمہ معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔[104]

اسی طرح زیدیہ اہل‌ سنتْ کی طرح قیاس اور استحسان کو بھی حجت مانتے ہیں؛[105] جبکہ امامیہ اور اسماعیلیہ ان کو معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔[106] البتہ امامیہ اور اہل‌ سنت کے درمیان بعض اختلافی مسائل میں زیدیہ بھی امامیہ کا ساتھ دیتے ہیں؛ مثلا زیدیہ بھی حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمِل کو اذان کا جزء سمجھتے ہیں اور اذان میں "الصلاۃ خَیرٌ مِن النَّوم" (نماز نیند سے بہتر ہے) کہنے کو حرام سمجھتے ہیں۔[107]

جبکہ متعہ کے سلسلے میں اسماعیلیہ اور زیدیہ اہل‌ سنت کا ساتھ دیتے ہیں؛[108]
اور امامیہ کے برخلاف متعہ کو حرام سمجھتے ہیں۔[109]

آبادی اور جغرافیائی حدود اربعہ

سنہ 2014ء کی مردم شماری کے مطابق ایران، آذربایجان، بحرین، عراق اور لبنان میں آبادی کے 50فیصد سے زیادہ شیعہ ہیں۔[110]
پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی 7 اکتوبر 2009ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مسلم آبادی کا 10 سے 13 فیصد شیعہ ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق شیعوں کی کل آبادی 154 میلین سے 200 میلین تک ہے۔[111]
البتہ بعض ان اعداد و شمار کو غیر معبر قرار دیتے ہوئے شیعوں کی آبادی کو 300 میلین سے بھی زیادہ یعنی دنیا کی مسلم آبادی کا 19 فیصد سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔[112]

پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی رپورٹ کے مطابق شیعہ آبادی کا 68 سے 80 فیصد آبادی ایران، عراق، پاکستان اور ہندوستان میں آباد ہیں۔
 ایران میں 66 سے 70 میلین شیعہ آباد ہیں جو دنیا کی شیعہ آبادی کا 37 سے 40 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور عراق میں 16 میلین سے بھی زیادہ شیعہ موجود ہیں۔[113]

ایران، عراق، آذربایجان اور بحرین کی اکثریت شیعہ ہیں۔[114] براعظم ایشیاء، شمالی افریقہ، امریکہ اور کینڈا میں بھی شیعہ موجود ہیں۔[115]

حکومتیں
آل ادریس، علویان طبرستان، آل بویہ، یمن کے زیدی، فاطمیان، اَلَموت کے اسماعیلیہ، سبزوار کے سربداران، صفویہ اور جمہوری اسلامی ایران‌ دنیا میں شیعہ حکومتیں ہیں۔

مراکش اور الجزایر کے بعض حصوں پر قائم ہونے والی آل‌ ادریس کی حکومت[116] کو دنیا میں شیعوں کی پہلی حکومت تصور کی جاتی ہے۔[117] یہ حکومت سنہ 172ھ امام حسن مجتبیؑ کے پوتے ادریس کے ذریعے قائم ہوئی اور تقریبا دو صدیاں تک باقی رہی۔[118]

حکومت علویانْ زیدی مذہب تھے۔[119] اسی طرح زیدیوں نے سنہ 284ھ سے سنہ 1382ھ تک یمن پر بھی حکومت کی ہیں۔[120] الموت میں فاطمیوں اور اسماعیلیوں کی حکومت اسماعیلیہ مذہب تھی۔[121] آل بویہ کے بارے میں اختلاف‌ ہے۔ بعض انہیں زیدی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ لوگ امامیہ تھے۔ اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ یہ لوگ ابتداء میں زیدی مذہب تھے لیکن بعد میں انہوں نے امامیہ مذہب اختیار کئے تھے۔[122]

سلطان محمد خدابندہ جو اولجایتو(حکومت 703-716ھ) کے نام سے مشہور تھے، نے ایک عرصے تک شیعہ اثناعشریہ کو اپنی حکومت کا سرکاری مذہب قرار دیا؛ لیکن ان کے حکومتی ارکان جن کی اکثریت اہل‌ سنت کی تھی، کے دباؤ میں آکر دوبارہ مذہب اہل سنت کو سرکاری مذہب قرار دیا۔[123]

سبزوار میں سربداران کی حکومت کو بھی شیعہ حکومت قرار دیا جاتا ہے۔[124] البتہ معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق سربداران کے حاکموں کا اصل مذہب کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛‌ لیکن ان کے مذہبی رہنما صوفی مذہب تھے جو شیعہ مذہب کے طرف مائل تھے۔[125] سربدارن کے آخری حاکم خواجہ علی مؤید[126] نے امامایہ مذہب کو سرکاری مذہب قرار دیا۔[127]

سلسلہ صفویہ جسے سنہ 907ھ میں شاہ اسماعیل نے تشکیل دیا، شیعہ اثناعشریہ تھا۔[128]
 اس حکومت نے ایران میں مذہب امامیہ کو ترویج دے کر ایران کو مکمل طور پر ایک شیعہ ملک میں تبدیل کیا۔[129]

جمہوری اسلامی ایران‌ کےقانون میں اصول دین اور فقہ دونوں اعتبار سے شیعہ اثناعشریہ رائج ہے۔[130]
حوالہ جات
1.    شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص35؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔
2.    شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص35؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131.
3.    ملاحظہ کریں: شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص354۔
4.    ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص22و27۔
5.    جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص28.
6.    فراهیدی، العین، ذیل «شیع و شوع».
7.    محرمی، تاریخ تشیع، 1382ہجری شمسی، 43و44؛ گروہ تاریخ پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، تاریخ تشیع، 1389ہجری شمسی، 20تا22؛ فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص49تا53۔
8.    ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص18تا20۔
9.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص20۔
10.    ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص29و30۔
11.    ملاحظہ کریں: فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص63تا65۔
12.    فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص61۔
13.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔
14.    انصاری، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، ص137؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص256و257۔
15.    دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص213۔
16.    ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص21۔
17.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔
18.    امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص13۔
19.    امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص29؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص105؛‌ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص40و41۔
20.    امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص13۔
21.    امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص11؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص38 و ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔
22.    ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔
23.    ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312۔
24.    ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔
25.    ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص28و29؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص260تا263۔
26.    ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص28۔
27.    ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص491۔
28.    ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص492؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص105۔
29.    اس سلسلے میں مزید مطالعہ کیلئے رجوع کریں:علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص492تا494 و سبحانی، الالہیات، 1384ش/1426ھ، ص26تا45۔
30.    علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص493؛ سبحانی، الالہیات، 1384ش/1426ھ، ص125تا130۔
31.    سبحانی، الالہیات، 1384ہجری شمسی/1426ھ، ص117تا125۔
32.    ملاحظہ کریں: سبحانی، اضواء علی عقائد الشیعہ الامامیہ، 1421ھ، ص389تا394۔
33.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص278۔
34.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص279۔
35.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131؛ ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص497۔
36.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص141تا143۔
37.    ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص498تا501؛ شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص32، 33، 134
38.    ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص32۔
39.    ملاحظہ کریں صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص95تا104۔
40.    ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص132تا136۔
41.    ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131تا171۔
42.    طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص66۔
43.    طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص64۔
44.    طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص65۔
45.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص154ہ
46.    جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ہجری شمسی، ص46؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص66۔
47.    علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص197تا199۔
48.    علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص230، 231۔
49.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، 1392ہجری شمسی، ص273؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص106۔
50.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، 1392ہجری شمسی، ص273۔
51.    طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج11، ص381؛ شیخ مفید، تصحیح الاعتقاد، 1413ھ، ص65۔
52.    کاشفی، کلام شیعہ، 1387ہجری شمسی، ص52۔
53.    مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص260تا264۔
54.    تقی‌زادہ داوری، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان، 1390ہجری شمسی، ص29۔
55.    هاینس، تشیع، 1389ہجری شمسی، ص357۔
56.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص287و288؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص86۔
57.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص137و138۔
58.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص95
59.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص102۔
60.    ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص143۔
61.    ملاحظہ کریں: رسول جعفریان،اطلس شیعہ، 1387ہجری شمسی، ص466۔
62.    شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص170و171۔
63.    دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165۔
64.    دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165؛‌ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص151۔
65.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص151و152؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165۔
66.    ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص162۔
67.    ملاحظہ کریں: برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389ہجری شمسی، ص95۔
68.    دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212۔
69.    ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص153۔
70.    ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص154و161
71.    مشکور، فرہنگ فرق اسلامی،1372ہجری شمسی، ص53.
72.    دفتری، «اسماعیلیہ»، ص701۔
73.    دفتری، «بہرہ»، ص813۔
74.    صدر، بحث حول المہدی، 1417ق/1996م، ص15؛ حکیمی، خورشید مغرب، 1386ہجری شمسی، ص90۔
75.    حکیمی، خورشید مغرب، 1386ہجری شمسی، ص91۔
76.    طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص230و231۔
77.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص152۔
78.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص291۔
79.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص294۔
80.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص296؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص88۔
81.    مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔
82.    مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔
83.    مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔
84.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص172و173۔
85.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص172؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص125و126۔
86.    طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص125و126۔
87.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص277۔
88.    ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص173۔
89.    سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص216۔
90.    ابن‌اثیر، اُسدالغابہ، 1409ھ، ج1، ص10؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1992م/1412ھ، ج1، ص2۔
91.    شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، 1408ھ، ص343؛ امین، اعیان‌الشیعۃ، 1419ق/1998م، ج1، ص161؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص209و210۔
92.    شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، 1408ھ، ص343؛ امین، اعیان‌الشیعة، 1419ق/1998م، ج1، ص161.
93.    صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص87.
94.    سبحانی، «تقیہ»، ص891و892؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص87۔
95.    پاکتچی، «توسل»، ص362۔
96.    سبحانی، «توسل»، ص541۔
97.    سبحانی، «توسل»، ص540۔
98.    پاکتچی، «توسل»، ص362۔
99.    ملاحظہ کریں: مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص47۔
100.    ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212؛ مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، 51؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔
101.    ملاحظہ کریں: مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، ص51؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔
102.    دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص214۔
103.    رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔
104.    دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212؛ مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، 51۔
105.    رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔
106.    دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص213و214۔
107.    رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔
108.    دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص214؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98
109.    رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔
110.    FT_14.06.17_ShiaSunni
111.    انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19۔
112.    ملاحظہ کریں:انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص11۔
113.    ملاحظہ کریں: انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19۔
114.    انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص20۔
115.    انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19، 20۔
116.    سجادی، «آل‌ادریس، ص561.
117.    سجادی، «آل‌ادریس، ص564.
118.    سجادی، «آل‌ادریس، ص561و562۔
119.    چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص51۔
120.    رسول جعفریان، 1387ہجری شمسی، اطلس شیعہ، ص462.
121.    چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص155تا157۔
122.    چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص125تا130۔
123.    جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390ہجری شمسی، ص694۔
124.    جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص776۔
125.    ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص777تا780۔
126.    جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390ہجری شمسی، ص778۔
127.    جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص781۔
128.    ہاینس، تشیع، 1389ہجری شمسی، ص156و157۔
129.    چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص276، 277۔
130.    قاسمی و کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، ص765و766۔
131.    نوٹ
132.    فأما إذا أدخل فیه علامة التعریف فهو علی التخصیص لا محالة لا تباع أمیر المؤمنین - صلوات الله علیه - علی سبیل الولاء والاعتقاد لإمامته بعد الرسول - صلوات الله علیه وآله - بلا فصل ونفی الإمامة عمن تقدمه فی مقام الخلافة… شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ص35
133.    وہ لوگ جو اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ خدا کی طرف سے امام مقرر ہونے ہیں


مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، دارالفکر، بیروت، 1409ق/1989ء۔
  • ابن‌عبد‌البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1992م/1412ھ۔
  • امیرخانی، علی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، امامت‌پژوہی، ش10، 1392ہجری شمسی۔
  • امین، سیدمحسن، اَعیان‌الشیعۃ، تحقق حسن امین، بیروت، دارالتعارف، 1419ق/1998ء۔
  • انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ترجمہ محمود تقی‌زادہ داوری، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • انصاری، حسن، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج10، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
  • ایجی، میرسیدشریف، شرح‌المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانى‌، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
  • برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، قم، کتاب طہ، چاپ چہارم، 1389ہجری شمسی۔
  • پاکتچی، احمد، «توسل»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج16، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • تقی‌زادہ داوری، محمود، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان براساس منابع اینترنتی و مکتوب، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعہ، دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیر طوسی، تہران، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ پنجم، 1396ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، چاپ پنجم، 1391ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، تہران، نشر علم، چاپ چہارم، 1390ہجری شمسی۔
  • چلونگر، محمدعلی و سیدمسعود شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1395ہجری شمسی۔
  • حکیمی، محمدرضا، خوشید مغرب، قم، دلیل ما، چاپ بیست و ہشتم، 1386ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، «اسماعیلیہ»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج8، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، «بہرہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج4، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، فروزان روز، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، دارالفکر، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ چہارم، 1392ہجری شمسی۔
  • رحمتی، محمدکاظم و سیدرضا ہاشمی، «زیدیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج22، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1396ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، اضواءٌ علی عقائد الشیعۃ الامامیہ و تاریخہم، تہران، مشعر، 1421ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، بہ‌قلم حسن مکی عاملی، قم، موسسہ امام صادق، چاپ ششم، 1386ش/1426ھ۔
  • سبحانی، جعفر، «تقیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج7، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، «توسل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج8، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • سجادی، صادق، «آل‌ادریس، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج1، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • سلطانی، مصطفی، تاریخ و عقاید زیدیہ، قم، نشر ادیان، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح‌اللہ بدران، قم، الشریف الرضی، 1375ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الرعایۃ، فی علم الدرایۃ، تحقیق عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، 1408ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1406ق/1986ء۔
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، سمت، چاپ پنجم، 1384ہجری شمسی۔
  • صدر، سیدمحمدباقر، بحثٌ حول المہدی، تحقیق عبدالجبار شرارہ، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1417ق/1996ء۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ شانزدہم، 1383ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، کشف‌المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق و تعلیق حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ ہفتم، 1417ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، نشر ہجرت، 1410ھ۔
  • فیاض، عبداللہ، پیدایش و گسترش تشیع، ترجمہ سیدجواد خاتمی، سبزوار، انتشارات ابن‌یمین، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • قاسمی ترکی، محمدعلی و جواد کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، دانشنامہ جہان اسلام، ج10، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • کاشفی، محمدرضا، کلام شیعہ ماہیت، مختصات و منابع، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ سوم، 1387ہجری شمسی۔
  • محرمی، غلامحسن، تاریخ تشیع از آغاز تا پایان غیبت صغری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، چاپ دوم، 1372ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمدرضا، اصول‌الفقہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1430۔
  • مفید، محمد بن محمد، الافصاح، فی امامۃ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، قم، مؤسسۃالبعثہ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیہ، تحقیق حسین درگاہی، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃالمعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
  • ہالم، ہاینس، تشیع، ترجمہ محمدتقی اکبری، قم، نشر ادیان، چاپ دوم، 1389ہجری شمسی۔

 

 

Thursday, 24 April 2025 05:59

مہمانداري

مہمانداري

ايك چيز جس كا ہر خاندا كو كم يا زيادہ سامنا كرنا پرتا ہے وہ مہماندارى ہے بلكہ يوں كہنا چاہئے كہ مہماندارى زندگى كے لوازمات ميں سے ہے _ مہمان نوازى ايك اچھى رسم ہے اس كے ذريعہ دلوں ميں باہمى تعلق و ارتباط پيدا ہوتا ہے _ محبت و الفت ميں اضافہ ہوتا ہے _ نفرت و كدورت دور ہوتى ہے دوستوں اور عزيزوں كے يہاں آمد و رفت اور كچھ دير مل بيٹھنا ايك مفيد اورسالم تفريح شمار كى جاتى ہے _
پيغمبر اكرم (ص) فرماتے ہيں : مہمان كا رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے اس كو كھلانے سے ميزبان كى گناہ بخش ديئےاتے ہيں'' _
امام على رضا (ع) فرماتے ہيں سخى لوگ دوسروں كے كھانے ميں سے كھاتے ہيں تا كہ ان كے كھانے ميں سے وہ كھائيں ليكن كنجوس دوسروں كے كھانے ميں سے نہيں كھاتے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ اس كے كھانے ميں سے وہ كھاليں _ 
حضرت رسول خدا (ص) كا رارشاد گرامى ہے : دوستوں كے ساتھ بيٹھنے سے ، محبت پيدا ہوتى ہے _ امام محمد تقى (ع) فرماتے ہيں : دوستوں كے پاس بيٹھنا ، دل كو تروتازہ اور عقل كو بار آور كرتا ہے ، خواہ تھوڑى دير ہى بيٹھا جائے _
زندگى كى اس متلاطم سمندر ميں انسان كے دل و دماغ كوآرام و سكون كى ضرورت ہوتى ہے _
اس سے بہتر سكون وآرام كس طرح مہيا ہوسكتا ہے كہ كچھ وفادار دوستوں اور رشتہ داروں كى محفل ميں بيٹھيں _ كچھ اپنا حال دل كہيں كچھ ان كى سنيں _ پر لطف گفتگو سے محبت و الفت كى محفل كو سجائيں _ اور وقتى طور پر زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں كو بھلاديں_ تفريح بھى كرليں اور كھولى ہوئي طاقت بھى بحال كرليں ، دل بہلائيں اور دوستى كے رشتوں كو بھى مستحكم كرليں _
جى ہاں _ مہماندارى بہت عمدرہ رسم ہے اور شايد ہى كوئي اس كى خوبى سے انكار كرے _ البتہ اس سلسلے ميں دوبڑى مشكلات سامنے آتى ہيں كہ جس كے سبب اكثر لوگ جہاں تك ہوسكتا ہے اس سے بچنے كو كوشش كرتے ہيں اور انتہائي ضرورى حالات ميں ہى اس كو قبول كرتے ہيں _
پہلى مشكل : زندگى كى چمك دمك اور ايك دوسرے سے آگے بڑھ جانے كى بيجا ہوس نے زندگى كو دشوار بناديا ہے _
گھر كے ضرورى ساز وسامان جو ضرورتوں كو پورا كرنے كے لئے اور آرام كى خاطر ہوتے تھے ، اپنى حقيقى صورت سے خارج ہوكر خودنمائي اوراشياء ے تجمل كى شكل اختيار كرگئے ہيں _ اسى چيز نے مہماندارى اور دوستوں كى آمد و رفت ميں كمى پيدا كردى ہے _ شايد كم ہى لوگ ہوں گے جو دوستوں اور رشتہ داروں كے آنے جانے كو پسند نہ كرتے ہوں _ ليكن چونكہ حسب دلخواہ شان و شوكت كے اسباب فراہم كرنے اور معيار زندگى اونچا كرنے پر قادر نہيں ہيں اور اپنے معيار زندگى كو سطحى سمجھتے ہيں اس لئے دوستوں سے ميل جول ركھنے سے بھاگتے ہيں _ ايك غلط خيال انسان كے ہاتھ پاؤں باندھ كر اس كى دنيا و آخرت كو تباہ كرديتا ہے _
خاتون عزيز كيا دوست احباب آپ كے گھر كى شان و شوكت اور سجاوٹ كو ديكھنے كے لئے آپ كےگھر آتے ہيں _ اگر يہى مقصد ہے تو بہتر ہے كہ دو كانوں ، شوروم اور ميوزيم جائيں _ كيا آپ نے اشيائے تجمل كى نمائشے لگاركھى ہے اور اپنے خودنمائي كے لئے ان كو اپنے گھرآنے كى دعوت ديتى ہيں؟ ايك دوسرے كے يہاں آمدو روفت ، آپسى تعلقات اور محبت كى خاطر اور تفريح كى غرض سے كى جاتى ہے نہ كہ فخر و مباہات اور خودنمائي كے لئے _ مہمان اپنا شكم پركرنے اور خوبصورت مناظرہ كا نظارہ كرنے كے لئے آپ كے گھر نہيں آتے ہيں بلكہ دعوت كو ايك قسم كى عزت افزائي سمجھتے ہيں _ وہ خود بھى اس قسم كى رقابتوں اور تجمل پرستى سے تنگ آگئے ہيں اور سادگى كو پسند كرتے ہيں ليكن ان ميں اتنى ہمت نہيں ہے كہ اس غلط رسم كا خاتمہ كرسكيں اور خود كو اس اختيارى قيد و بند سے آزاد كرليں _ اگر آپ ان كى سادگى كے ساتھ خاطر تواضع كريں تو نہ صرف يہ كہ ان كو برا نہيں لگے گا بلكہ خوش ہوں گے اور بعد ميں اس سادہ روش كى پيروى كركے بغير كسى تكلف اور پريشانى كے آپ كى بھى پذيرائي كريں گے _ ايسى صورت ميں آپ نہايت سادگى كے ساتھ دوستوں كے يہاں آمد ورفت كا سلسلہ جارى ركھ سكتى ہيں اور انس و محبت كى نعمت سے بہرہ مند ہوسكتى ہيں _ لہذا اس مشكل كو آسانى كے ساتھ حل كيا جا سكتا ہے البتہ كسى قدرہمت و جرات كى ضرورت ہے

دوسرى مشكل

مہماندارى كوئي آسان كام نہيں ہے _ بلكہ خواتين كے مشكل كاموں ميں سے ہے _ كبھى ايسا ہواہے كہ بيوى چند گھنٹوں كے اندر اندر كچھ مہمانوں كى خاطر تواضع كا انتظام كرنے پر مجبور ہے اسى سبب سے كھانے مرضى كے مطابق تيار نہيں ہوسكے ايسى حالت ميں ايك طرف مياں ناراض ہوتا ہے كہ ميں نے پيسہ خرچ كيا اور اس كے باوجود ميرى عزت مٹى ميں مل گئي _ دوسروں طرف بيوى ناراض ہے كہ ميں نے اتنى زحمت اٹھائي اس كے باوجود مہمانوں كے سامنے ميرى بے عزتى ہوگئي وہ لوگ مجھے بد سليقہ اور پھر ہٹز سمجھيں گے _ ان سب سے بدتر يہ كہ شوہر كى جھك جھك كے جواب ميں كيا كہوں ان ہى ، اسباب كى بناء پر كم ہى ايسى محفليں ہوتى ہيں جو بغير كسى ہنگامے اور الجھن و پريشانى كے اختتام پذيرہوں _ اور يہ امر باعث بنتا ہے كہ بہت سے لوگ مہماندارى سے گريز كرتے ہيں اور اس كے تصور سے ہى لرزتے ہيں _

ہم مانتے ہيں كہ مہماندرى آسان كام نہيں ہے ليكن اصل مشكل اس وجہ سے پيدا ہوتى ہے كہ ميزبان خاتون ، مہماندارى كے طور طريقوں سے اچھى طرح واقف نہيں اور چاہتى ہے كہ صرف دوتين گھنٹے كے اندر بہت سے مشكل اور دشوار كاموں كوانجام دے لے _ اگر مدبر اورتجربہ كارہے تو بہت خوبى اور آسانى كے ساتھ بہترين طريقے سے دعوت كا انتظام كرسكتى ہے _ اب ہم آپ كے سامنے مہماندارى كے دو نمونے پيش كررہے ہيں ، ان ميں سے جو آپ كہ بہتر معلوم ہوا سے منتخب كرسكتى ہيں :_
پہلا نمونہ : مياں گھر ميں داخل ہوتا ہے اور بيوى سے كہتا ہے شب جمعہ دس آدمى رات كے كھانے پر آئيں گے _ بيوى جسے گہ گزشتہ دعوتوں كى تلخياں ياد ہيں مہمانوں كا نام سن كرہى اس كا دل دھڑكنے لكتاہے اور وہ اعتراض كرتے ہيں _ مرد دلائل كے ذريعہ اور خوشامد كركے اس كوراضى كرتا ہے كہ يہ دعوت كرنا ضرورى تھا_ جس طرح بھى ہو اس دعوت كا انتظام كرو _ اس وقت سے جمعرات تك پريشانى اور اضطراب ميں گزرتے ہيں _ يہاں تك كہ جمعرات كادن آپہونچا _ اس روز دعوت كاانتظام كرنا ہے مياں يا بيوى سامان خريد نے كے لئے گھر سے باہر جاتے ہيں _ راستے ميں سوچتے ہيں كہ كيا كيا چيزيں خريد نا چاہئے _ آخر كاركئي طرح كى چيزيں خريد كردو پہر تك گھر آتے ہيں _ بيوى كا كام دوپہر كے بعد شروع ہوتاہے _ دوپہر كا كھانا بھى كھايا يا نہيں كھايا ، اٹھ كر كام ميں مشغول ہوجاتى ہے _ ليكن كام كوئي ايك دوتوہيں نہيں _ اپنے آپ كوگوناگوں كاموں كے انبار ميں گھر اپاتى ہے _ كيا كيا كرے اور كيانہ كرے _ مثلاً سبزياں صاف كرنا اور كاٹنا ہے_ آلو اور پياز سرخ كرنا ہے _ دال چننا ہے _ چاول چن كے بھيگنے كو ركھنا ہے _ گوشت كو صاف كركے قيمہ بنانا ہے _ دو تين قسم كے كھانے پكانا چاہتى ہے _ مرغ بھوننا ہے _ كباب بنانا ہے _ سالن پكانا ہے _ پلاؤ پكانا _ چائے كا سامان ٹھيك كرنا ہے _ برتن دھونا ہے _ ڈرائنگ روم كو ٹھيك ٹھاك كرنا ہے _ يہ سارے كام يا تو خود تنہا انجام دے يا كسى كى مدد لے بہر حال عجلت اور پريشانى كى حالت ميں كاموں ميں مشغول ہے _ مگر چھرى نہيں مل رہى ہے ادھر تلاش كرتى ہے _ سالن ہے تو ديكھتى ہے پياز نہيں _ چاول چڑھا ديا تو معلوم ہوانمك ختم ہوگيا ہے كسى كو نمك اور پياز خريدنے بھيجتى ہے _ كھانا پكانے كے لئے جس چيز كى ضرورت ہوتى ہے اس كو ڈھونڈنے ميں كچھ وقت صرف ہوتا ہے _ كبھى نوكر پر چيختى چلاتى ہے _ كبھى بيٹى كو ڈانٹتى پھٹكارتى ہے _ كبھى بيٹے كو برا بھلا كہتى ہے _ كھانا پكانے كے دوران اسٹو كاتيل يا گيس ختم ہوجاتى ہے _ اے خدا اب كيا كرے ؟
اسى حالت ميں دروازے كى گھنٹى بجتى ہے اور ايك ايك كركے مہمان آنا شروع ہوجاتے ہيں بيچارہ شوہر جو اپنى بيوى كى پريشانى اور اضطراب سے آگاہ ہے ، دھڑكتے دل سے مہمانوں كا استقبال كرتا ہے _ دعا سلام كے بعد چائے لانے جاتا ہے تو ديكھتا ہے ابھى تو چائے كا پانى بھى پكنے كو نہيں ركھا گيا ہے _ بيٹے يا بيٹى كو ڈانٹتا ہے كہ ابھى تك چائے كا پانى ابلنے كو كيوں نہيں ركھا گيا _ چائے تيار ہوئي تو معلوم ہوا كہ ابھى دودھ نہيں پكايا گيا ہے يا چائے كہ برتن نہيں نكالے گئے ہيں _ خداخدا كركے چند بار اندر باہر كے چكّر لگانے كے بعد چائے كى چند پيالياں مہمانوں كے سامنے ركھى جاتى ہيں _ نظريں مہمانوں پر ہيں ليكن دل باورچى خانے ميں لگا ہوا ہے كيونكہ معلوم ہے كہ باورچى خانہ ميں كيا ہنگامہ برپا ہے _
دوستوں كى پر لطف باتوں كا جواب پھيكى مسكراہٹ سے ديا جاتا ہے ليكن دل اس دعوت كے انجام سے خوفزدہ ہے _ سب سے بدتر توجب ہوتا ہے كہ مہمانوں ميں عورتيں بھى ہوں _ يا مدعو حضرات رشتہ داروں ميں سے ہوں ايسى حالت ميں ہر ايك مہمان پوچھتا ہے كہ آپ كى بيگم كہاں ہيں؟ شوہر جواب ديتا ہے كام ميں مشغول ہيں ، ابھى آتى ہيں _ كبھى بيوى مجبوراً كاموں كے بيچ ميں سے اٹھ كر ذرا دير كے لئے مہمانوں كے پاس چلى آتى ہے _ لرزتے دل اور خشك ہونٹوں كے ساتھ سلام اور مزاج پر سى كرتى ہے ليكن كيا كچھ دير ان كے پاس بيٹھ سكتى ہے ؟ فوراً عذركركے واپس آجاتى ہے _ آخر كار كھانا تيا رہوتا ہے ليكن وہ كھانے جو اس صورت سے تيار كئے گئے ہوں ان كا حال تو ظاہرہى ہے _ كھانا پكانے سے فرصت ملى تو اب سلام بنانے كا كام باقى ہے _ دہى كى بورانى بنانى ہے _ چٹنى اچاربرتنوں ميں نكالنا ہے _ كھانے كے برتنوں كو صاف كرنا ہے _ بدبختى تو يہ ہے كہ سامان اور برتنوں كى بھى كو ئي خاص جگہ نہيں ہے ہر چيز كوادھر ادھر سے تلاش كرنا ہے _ خير صاحب كھانا لگايا جاتا ہے _ مہمان كھانا كھاكررخصت ہوتے ہيں _ ليكن نتيجہ كيا ہوتا _ كسى چيز ميں نمك تيز ہے كسى ميں نمك پڑاہى نہيں ہے _ كوئي چيز جل گئي _ كچھ كچارہ گيا _ گھبراہٹ كے مارے بعض ڈشنر كو لانا ہى بھول گئيں _ بيوى تقريباً بارہ بجے رات كو كاموں سے فراغت پاتے ہے ليكن تھكى پريشان _ دو پہر سے اب تك ايك لمحہ بھى سر اٹھانے كاموقعہ نہيں ملا _ اتنى بھى فرصت نہيں ملى كہ مہمانوں كے پاس بيٹھ كر ان سے ذرا دير باتيں كرتى _ حتى كہ ٹھيك سے سلام اور احوال پرسى بھى كرسكى ليكن مرد كو سوائے پريشانى اور غم و غصہ كے كچھ ہاتھ نہ لگا _ اتنا پيسہ خرچ كرنے كے بعد بھى كھانا ٹھيك سے نہيں پكا _ دعوت كركے پشيمانى اٹھانى پڑى ، ممكن ہے غم و غصہ كى شدت سے جھگڑا كرے اور تھكى ہارى بيوى كو سخت سست كہے _ اس طرح كى دعوت سے نہ صرف يہ كہ مياں بيوى كو كوئي فائدہ نہيں ہوتا بلكہ اكثر اوقات شديد اختلاف اور كشمكش كا باعث بنتا ہے اگر خيريت گزرگئي توطے كرليتے ہيں كہ آئندہ كبھى ايسا شوق نہيں كريں گے _
مہمان بھى چونكہ ميزبانوں كى پريشانى اور اضطرابى كيفيت سے باخبر ہوجاتے ہيں ان كو بھى اچھا نہيں لگتا اور كھانے پينے ميں ذرا بھى لطف نہيں آتا _ اپنے دل ميں كہتے ہيں كاش ايسى محفل ميں نہ آئے ہوتے بلاوجہ ہى ميزبان كو ہمارى وجہ سے پريشانى اٹھانى پڑى _
يقين سے قارئين كرام ميں سے كسى كو بھى ايسى دعوت اچھى نہيں لگے گى جو درد سر بن جائے اور آپ بھى اس ميں شركت سے گريز كريں گے _
كيا آپ جانتى ہيں ان تمام پريشانيوں كى وجہ كيا ہے ؟
اس كى وجہ صرف زندگى بدنظمى اور مہماندارى كے فن سے عدم واقفيت ہے ورنہ مہماندارى اتنا بھى دشوار كام نہيں ہے _
اب ايك اور نمونہ پر توجہ فرمايئے
مرد گھر ميں داخل ہوتا ہے بيوى سے كہتا ہے ميں نے جمعہ كى رات كو دس افراد كو كھانے كيدعوت دى ہے _ بيوى جواب ديتى ہے بہت اچھا كيا _ كيا كيا چيزيں تياركروں ؟ اس كے بعد دونوں باہم مشورہ كركے كھانے كى فہرست تيار كرتے ہيں اس كے بعد نہايت صبر و حوصلہ كے ساتھ دعوت كے لئے جن چيزوں كى ضرورت ہے اس كو مع مقدار كے ايك كا غذ پرنوٹ كرليتے ہيں _ ايك مرتبہ پھر اچھى طرح اس فہرست كو پڑھ ليتے ہيں كہ كہيں كوئي چيز رہ تو نہيں گئي _ دوبارہ اس كا جائزہ لينے كے بعد ان ميں سے جو چيزيں گھر ميں موجود ہيں ان كو كاٹ كر جن چيزوں كو خريدنا ہے اس كو ايك الگ كاغذ پر لكھ ليتے ہيں _ اولين فرصت ميں ان چيزوں كو خريد كرركھ ليتے ہيں ، جمعرات كے دن كہ ابھى مقررہ دعوت ميں ايك روز باقى ہے ، بعض كام انجام دے لئے ، مثلاً مياں بيوى اور بچوں نے فرصت كے وقت تعاون سے كام ليتے ہوئے گھر كى صفائي كر ڈالى _ سبزياں صاف كركے ركھ ليں _ چاول، دال كو چن ليا نمك دان ميں نمك بھر كے اس كى جگہ پر ركھ ديا _ ضرورت كے برتنوں كو نكال كے دھوليا _ مختصر يہ كہ جو كام پہلے سے انجام ديئےا سكتے ہيں ان كو تفريح كے طور پر سب نے مل كركرليا _ (بعض ڈشنر مثلاً فرينى يا دوسرى كوئي ميٹھى ڈش ايك دن پہلے تيار كركے فريج ميں ركھى جا سكتى ہے _ كبابوںكا قيمہ پيس كر فريج ميں محفوظ كيا جا سكتاہے ) جمعہ كى صبح كوناشتے سے فراغت كے بعد بعض كام انجام دے لئے مثلاً گوشت كے ٹكڑے كاٹ لئے _ مرغ كوصاف كركے بھوں ليا _ پياز كاٹ كے سرخ كرلى _ كھانوں كے مصالحے پيس لئے چاول بھكوديئے مختصر يہ كہ كچھ كام دو پہر سے پہلے انجام دے لئے _ ظاہر ہے ، جب يہ سارے كام صبر و حوصلے كے ساتھ انجام ديئےائيں گے تو بيوى كيلئے چنداں مشكل نہ ہوگى كہ باقى كاموں كو بھى انجام دے اور امور خانہ دارى كے دوسرے كاموں كو بھى آسانى سے كرسكے _ دو پہر كا كھانا كھانے كے بعد تھوڑا سا آرام كركے بقيہ كاموں ميں مشغول ہوگئيں _ كام زيادہ نہيں ہے كيونكہ اكثر كاموں كو توپہلے ہى كركے ركھ ليا ہے _ ساراسامان بھى ترتيب و سليقہ ہے ركھا ہے _ ايك دو گھنٹے كے اندر بغير كسى چيخ پكار اور دوڑبھاگ كے باقى كام انجام دے لئے _ اس طرح سے كہ رات كے لئے كوئي كام باقى نہ بچا _ اس كے بعد خود صاف ستھرے كپڑے پہن كرتيار ہوگئيں _ مہمانوں كے آنے كا وقت ہواتو پہلے سے چائے كا پانى ابلنے كو ركھديا _ اگر مہمان رشتہ دار اور محرم ہيں تو ان كے استقبال كيلئے خود آگےبڑھيں اور بغير كسى فكر و تردد كے ان كى خاطر مدارات ميں لگ گئيں _ بيچ ميں كبھى كبھى باورچى خانہ كا بھى ايك چكر لگاليا _ كھانے كے وقت نہايت اطمينان كے ساتھ سارا كھانا تيار ہے اگر ضرورى ہواتو شوہر اور بچوں سے بھى اس وقت مدد لے لى _ جلدى سے آسانى كے ساتھ كھانا چن ديا گيا _ مہمان بھى انتہائي خوشى و سكون كے ساتھ كھانا كھانے ميں لذت محسوس كريں گے اور اس طرح مسرت و انبساط كے ماحول ميں دعوت ختم ہوگئي _
نتيجہ : مہمان لذيذ اور مزيدار كھانوں كى لذت كے ساتھ ساتھ ، انس و محبت كى نعمت سے بھى لطف اندوز ہوں گے اور پر مسرت ماحول ميں فرحت حاصل كريں گے _ اس رات كى خوشگوار يادوں اور ميزبان كے بشاش چہرہ كو فراموش نہيں كريں گے _ ميزبانوں كى گرمجوشى اورخاتون خانہ كے سليقے كى تعريف كريں گے _ مياں بھى نہايت اطمينان و سكون كے چند گھنٹے مہمانوں كے ساتھ گزاركرسالم اور بہترين تفريح كرليتا ہے ،چونكہ اپنے دوستوں كى اچھى طرح سے خاطر مدارات كر سكاہے اس لئے خوش و خرّم ہے اور ايسى باسليقہ بيوى كے وجود پر جس نے اپنے ذوق و سليقہ سے ايسى عمدہ دعوت كا اہتمام كيا ہے فخركرتا ہے اور ايسى لائق بيوى اور گھر سے اس كى دلچسپى اور زيادہ بڑھ جاتى ہے _
بيوى نے بھى چونكہ صبر و سكون كے ساتھ دعوت كا انتظام كيا تھا اس لئے وہ بھى تھكن سے چور، چور نہيں ہے غصہ اور پريشانى كے عالم ميں نہيں ہے اپنے شوہر اور مہمانوں كے سامنے سربلند ہے اور خوش ہے كہ بغير كسى پريشانى اور الجھن كے مہمانوں كى اچھى طرح سے خاطر تواضع كى گئي _ اپنى لياقت اور سليقے كا ثبوت دے كر اپنے شوہر كے دل كو اپنے بس ميں كرليتى ہے _ ان دونوں نموں كو ملاحظہ كرنے كے بعد آپ غور كريں كہ كون سا طريقہ كا رد رست تھا اور آپ كس كا انتخاب كريں گى _

امين خانہ

گھر كے اخراجات كا انتظام عموماً مرد كے ذمہ ہوتا ہے _ مرد شب و روز محنت كركے اپنے خاندان كى ضروريات پورى كرتا ہے _ اس دائمى بيگارى كو ايك شرعى اور انسانى فريضہ سمجھ كروں و جانسے انجام ديتا ہے _ اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كى خاطر ہر قسم كى تكليف و پريشانى كو خندہ پيشانى سے برداشت كرتا ہے اور ان كى خوشى ميں لذت محسوس كرتا ہے _ ليكن گھر كى مالكہ سے توقع ركھتا ہے كہ پيسے كى قدروقيمت سمجھے اور بيكار خرچ نہ كرے _ اس سے توقع كرتا ہے كہ گھركے اخراجات ميں نہايت دل سوزى اور عاقبت انديشى سے كام لے _ يعنى زندگى كى ضروريات اور اہم چيزوں كى درجہ بندى كركے ، ضرورى خرچوں مثلاً خوراك ، ضرورى پوشاك ، مكان كا كرايہ ، سجلى ، پانى ڈاكٹر و دوا كے اخراجات كو تمام دوسرے امور پر ترجيح دے اور نيم ضرورى چيزوں مثلاً گھر كے سامان و غيرہ كو دوسرے نمبر پر ركھے اور غير ضرورى چيزوں كو تيسرے نمبر پرركھے ، فضول خرچى ، اسراف اور بيجا بخششوں كو وہ ايك قسم كى ناقدرى اور ناشكرى سمجھتا ہے _
مرد كو اگر بيوى پر اعتماد ہوجائے اور سمجھ لے كہ اس كى محنت كى كمائي كو فضول خرچيوں ميں نہيں اڑايا جائے گا تووہ فكر معاش اور آمدنى بڑھانے ميں زيادہ دلچسپى لے گا اور خود بھى تن پرورى اور فضول خرچى سے گريز كرے گا ليكن اگر اپنى محنت كى كمائي كو برباد ہوتے ديكھتا ہے كہ گھر والى غير ضرورى لباس اور اپنى آرائشے اور زيب وزينت كے اسباب كو تمام ضرورى چيزوں پر مقدم سمجھتى ہے اور مشاہدہ كرتا ہے كہ رات دن محنت كركے جو كچھ كماكرلاتاہے وہ غير ضرورى اشياء پر خرچ ہوجاتا ہے اور ضرور ى اخراجات كے لئے ہميشہ پريشان رہنا پڑتا ہے اور قرض لينے كى نوبت آجاتى ہے اور اس كى خون پسينے كى كمائي مال غنيمت كى طرح بيوى بچوں كے ہاتھوں لٹا ى جارہى ہے ايسى صورت ميں گھر پر سے اس كا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور محنت مشقت كرنے سے بيزار ہوجاتا ہے _ اپنے دل ميں سوچتا ہے كہ كوئي ضرورت ہى نہيں ہے كہ ميں اس قدر زحمت اٹھاكركماكے لاؤں اورناقدرى كرنے والوں كے حوالے كردوں كہ فضول خرچيوں ميں پيسے اڑاديں _ ميں ضروريات زندگى مہيا كرنے اور عزت و آبرو قائم ركھنے كے لئے محنت كرتا ہوں ليكن ميرے گھروالوں كو سوائے فضول خرچى اور ہوا وہوس كے اور كچھ فكر ہى نہيں ہے _

ممكن ہے رفتہ رفتہ افكار كے نتيجہ ميں وہ بھى عياشى اور فضول خرچى كرنے لگے اور آپ كى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے
خواہر عزيز اگر آپ كا شوہر جو كچھ كماكرلاتاہے وہ سب آپ كے حوالے كرديتا ہے تو يہ نہ سمجھئے كہ اس كى حقيقى مالك آپ ہوگئيں _ بلكہ شرعاً اور قانوناً آپ كا شوہر مالك ہے _ آپ گھر كى امين ہيں اس لئے تمام اخراجات اس كى مرضى و اجازت سے انجام پانے چائيں _ اس كى مرضى كے بغير آپ كو حق نہيں كہ كسى كو كوئي چيز دے ديں يا كسى كے يہاں تحفہ و سوغات لے جائيں _ حتى كہ اپنے يا اس كے رشتہ داروں كو بھى اس كى مرضى كے بغير تحفے تحائف نہ ديں _ آپ اپنے خاندان كى امانت دار ہيں اور اس سلسلے ميں آپ پر ذمہ دارى عائد ہوتى ہے اگر آپ خيانت كريں گى تو روز قيامت اس سلسلے ميں آپ سے بازپرس ہوگى _
پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : بيوى اپنے شوہر كے اموال كى نگہبان اور امانت دار ہوتى ہے اور اس سلسلے ميں اس كى ذمہ دارى ہوتى ہے _
ايك امور موقع پر آپ ارشاد فرماتے ہيں : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو اپنے بدن ميں خوشبو لگائے _ مزيدار كھانے تيار كرے _ گھر كے اخراجات ميں كفايت شعارى سے كام لے _ ايسى خاتون كا شمار خدا كے كاركنوں اور عمال ميں ہوگا اور جو شخص خدا كے لئے كام كرے اسے ہرگز شكست اور پشيمانى كا سامنا نہيں كرنا پڑے گا _
ايك عورت نے حضرت رسول خدا (ص) سے سوال كيا كہ شوہر كے تئيں بيوى كے كيا فرائض ہيں؟ آپ نے فرمايا: ا س كى مطيع ہو _ اس كے كہنے كى خلاف ورزى نہ كرے اور بغير اس كى اجازت كے كوئي چيز كسى كو نہ دے _ 
آنحضرت (ص) كا ارشاد گرامى ہے : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو كم خرچ ہو _ 

آج امت مسلمہ باہمی اختلافات و انتشار کا شکار ہے۔ فتنہ پرور قوتیں ان اختلافات سے سوئے استفادہ کر رہی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ اب اتحاد امت کی سخت ضرورت تھی اور ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم افراتفری اور قتل و غارت گری کے فتنوں میں مبتلا ہیں۔ایسے فتنے قوموں کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے روایت کی ہے کہ ہم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے بہت سے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ ان فتنوں کا ذکر فرمانے کے بعد آپ نے سب سے خطرناک فتنے کا ذکر فرمایا۔ آپ نے بطور خاص "الاخلاص" فتنے کا ذکر فرمایا۔ ایک سائل نے عرض کی یارسول اللہ اخلاص کا کون سا فتنہ ہے؟ "قال ھی ھرب و حزب" فرمایا  "یہ افراتفری اور قتل و غارت کا فتنہ ہے۔" (ابو داؤد السنن 90:4 رقم الحدیث :4242) انسانیت کو متحد کرنا اس امت کا سب سے بڑا مقصد تھا، بلکہ اس امت کا مقصود حیات انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے وحدہ لا شریک کی غلامی اور اس کی اطاعت کی طرف لانا تھا۔ مگر اس امت نے اپنا مقصود حیات دفن کر دیا ہے۔ اپنی زریں روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

یاد رکھیں کہ جب کوئی قوم اپنا مقصود حیات ترک کر دے تو وہ جیتے جی مر جاتی ہے۔ اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
زندہ فرد از ارتباط جان و تن
زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مرگ فرد از خشکی رود حیات
مرگ قوم از ترک مقصود حیات
دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جس نے اجتماعیت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ عبادات کا ایک خوبصورت اجتماعی نظام دیا ہے۔ حج بیت اللہ سے لے کر عیدین تک اجتماعیت کی ایک قابل رشک شاہرہ بنا دی، تاکہ مسلمان اس پر چل کر اپنے مقصد حیات کو حاصل کر لیں۔ عالم اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع رہے تو بہت قابل عزت اور فاتح رہے۔ وہ خودار رہے، وہ کسی کے آگے کبھی نہ جھکے تھے۔ آج جو ذلت و رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے امت کی ایمانی روشنی کو ختم کر دیا ہے، وہ ان کا اجتماعیت سے انحراف ہے۔

مسلم ممالک کے باہمی تعلقات کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں اور سب کے سب استعمار کی غلامی میں چلے گئے ہیں۔ وہ ہم سے ایسے فیصلے کرا رہا ہے، جو ہماری اسلامی غیرت و حمیت کے سراسر خلاف ہیں۔ آج پوری دنیا ملاحظہ کر رہی ہے کہ غزہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، اس تباہی کا ذمہ دار میرے مطابق امت مسلمہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ہم نے صیہونی بھیڑیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور وہ ہمارے بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کو چیر پھاڑ کر ان کے جسموں کے ٹکڑے فضا میں بکھیر رہے ہیں۔ اگر ہم متحد ہوتے تو یقیناً ایسا کرنے کی ان درندوں کو کبھی جرات نہ ہوتی۔ الله کے رسول کا فرمان عالی شان ہے: "المومنون ید علی من سواھم۔" ترجمہ: "مومنین دوسروں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ کی مانند ہیں۔۔۔" لیکن بہت افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ ہاتھ کی مٹھی کی مانند رہنے والے انسان آج بکھر چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ رسوائی و ذلت  کا شکار ہیں۔

یہ بات بہت قابلِ افسوس ہے کہ عرب ممالک نے دین اور مذہب کو غیر اہم سمجھنا شروع کر دیا ہے، بشمول سعودی عرب کے اب وہ ہر اہم معاملہ کو معاشی مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسلام کی قدر و منزلت ان ممالک میں آئے دن بہت کم ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور چند دیگر عرب ریاستیں امریکہ؛ اسرائیل اور بھارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان عرب ممالک نے آزادی فلسطین کی تحریک کو عملاً بہت شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عرب ممالک کا مسلم ممالک کے حوالہ سے نقطہ نظر تبدیل ہوگیا ہے۔ اسلامی بھائی چارے اور اخوت اسلامی کی اہمیت بالکل ختم ہوگئی ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسلامی جمہوری ایران کے درمیان کشیدگی بہت خطرناک ہے۔ اس کشیدگی میں یہ بدمست ہاتھی ایران کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، لیکن وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔

آج مشرق وسطی کے حالات بہت نازک صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ ہم استعمار کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد و یگانگت کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا عمل بہت درست ہے اور سعودی وزیر دفاع جناب شہزادہ خالد بن سلیمان کا دورہ ایران بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شہزادہ خالد کی ایرانی سپریم لیڈر معظم جناب سید علی خامنہ ای اور دیگر ایرانی اعلیٰ حکام سے ملاقات نہات خوش آیند ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارتی کاوشیں کامیاب نہ ہوئیں تو امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صدر کی یہ دھمکی گیدڑ بھبھکی کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن شہزادہ خالد بن سلیمان کا ایران کا دورہ بہت ہی مفید ہے۔

اس وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی وزیر دفاع کو بہت عزتوں سے نوازا ہے۔ ایرانی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری نے بھی انہیں خوش آمدید کہا اور گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ شہزادہ خالد انقلاب اسلامی کے بعد ایران کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی وزیر دفاع ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوری ایران کا ایک دوسرے کے قریب تر آنا دونوں ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لئے بہت سود مند ہے۔ اگر یہ دو اہم مسلم ممالک اپنے اختلافات ختم کرکے ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو امت مسلمہ ایک دفعہ پھر ناقابلِ شکست بن سکتی ہے۔

بندے کو خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور نسبت کے بارے میں آگاہی اور کامل یقین حاصل ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی آیات میں ان یقینوں کی مختلف صورتیں نہایت واضح انداز میں بیان ہوئی ہیں۔

واضح کیا گیا ہے کہ توکل، معرفت اور شناخت کے بعد عمل اور اقدام کا متقاضی ہوتا ہے۔ لہٰذا توکل کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک معرفتی لوازم اور دوسرا عملی لوازم۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: «التَّوكُّلُ مِن قُوَّةِ اليَقينِ» (توکل، یقین کی قوت سے پیدا ہوتا ہے)۔

درج ذیل میں قرآن کی روشنی میں توکل کے معرفتی لوازم اور یقین کے چند مظاہر کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے:

  1. خدا کی مہربانی اور رحمت پر ایمان: سورۂ ملک میں ارشاد ہوتا ہے: «قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا» "کہہ دو: وہی رحمان ہے، ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اسی پر توکل کیا" (ملک: 29)۔  خدا کے علم کی وسعت پر یقین: قرآن مجید فرماتا ہے: «وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا» "ہمارا رب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، ہم نے اللہ پر توکل کیا" (اعراف: 89)۔ یعنی اللہ کا علم لا محدود ہے، اور وہ ہماری بھلائی اور مصلحت کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ خدا کی خیرخواہی پر یقین: سورۂ توبہ میں فرمایا گیا: «قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ» "کہہ دو: ہمیں ہرگز کوئی چیز نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، وہ ہمارا مولیٰ ہے، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے" (توبہ: 51)۔ یعنی مؤمن جانتا ہے کہ اللہ اس کا سرپرست ہے، اور اللہ اپنے بندے کے لیے کبھی برائی نہیں لکھتا، جو کچھ بھی مقدر ہے وہ خیر ہی ہے۔ اللہ کی ہدایت و قدرت پر ایمان: سورۂ ابراہیم میں آیا ہے: «وَ مَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَ قَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ» "اور ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں ہمارے راستے دکھائے؟ اور ہم یقیناً تمہاری ایذا رسانی پر صبر کریں گے، اور اللہ ہی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں" (ابراہیم: 12)۔

 

 
 

سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان نے جمعرات کی شام کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔

اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو دونوں ملکوں کے لیے مفید قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کو مکمل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

رہبر انقلاب نے فرمایا کہ بعض عناصر اور طاقتیں تہران اور ریاض کے تعلقات کی دشمن ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دشمنانہ ارادوں پر غلبہ حاصل کیا جائے جس کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران مکمل طور پر تیار ہے۔

آپ نے مختلف شعبوں میں ایران کی قابل دید ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان شعبوں میں سعودی عرب کی مدد کرنے کی مکمل آمادگی رکھتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ علاقے کے برادر ممالک کا باہمی تعاون، دوسروں پر تکیہ کرنے سے کہیں بہتر ہے۔

اس ملاقات کے دوران جس میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری بھی موجود تھے، خالد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب بھی تمام شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں، سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ فروغ پائیں گے۔

خالد بن سلمان نے اس موقع پر سعودی عرب کے بادشاہ کا پیغام بھی رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا۔

 

 حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم  نے کہا: لبنانی مزاحمت نے بڑی قربانیاں دے کر اسرائیلی جارحیت کو روکا اور دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شدید حملوں کے باوجود مزاحمتی فورسز اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنانے اور اپنے وطن کا دفاع کرنے میں کامیاب رہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ان فتوحات میں شہید صفی الدین اور دیگر شہداء جیسے ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل توسیع پسند ہے اور وہ صرف مقبوضہ فلسطین پر قناعت نہیں کرتا بلکہ لبنان پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مزاحمت کمزور نہیں ہوئی، واضح کیا کہ جو بھی مزاحمت کو کمزور سمجھتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔

انہوں نے صیہونی قبضے کے خلاف لبنانی حکومت کے ردعمل کے بارے میں کہا کہ اگر حکومت اپنی سرزمین اور لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی ہے تو پھر طبیعی طور پر مزاحمت ایسا کرے گی۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی 2700 بار خلاف ورزی کی ہے۔ صہیونی حکومت کو جارحیت کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ معاہدے کے تحت اب تک جنگ ختم ہونا چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس صہیونی حکومت نے اب تک 2700 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے گویا معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے ہر کام اس نے انجام دیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے عزائم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے تک محدود نہیں بلکہ وہ لبنان کی مکمل طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے۔

اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین جنوبی لبنان سے ہرگز بے دخل نہ ہوتے۔

 شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین کو جنوبی لبنان سے بے دخل نہ کیا جا سکتا۔

 انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی مزاحمت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گزشتہ چار دہائیوں میں شاندار اور متاثر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت اسرائیل کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کرتی ہے تو ہم اس کے ساتھ ہوں گے، تاہم یہ فیصلہ حکومت پر منحصر ہے۔

 فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے

شیخ نعیم قاسم نے فلسطین کے لیے حزب اللہ کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم قائد مقاومت شہید نصراللہ کے جانشین ہیں۔ 

صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں اسلامی ممالک کا کیا موقف ہے؟ 

انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں صیہونی حکومت نے مسجد الاقصی پر قبضے کی کوشش کی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک کا صیہونی حکومت کی خلاف ورزیوں پر کیا موقف ہے؟ 

امریکہ شیطان بزرگ ہے

 لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارے نقطہ نظر سے صیہونی حکومت ایک جرثومہ ہے۔ امریکہ کے بارے میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ لبنان کے لیے امریکہ کی ڈکٹیشن پر عمل کرنا ناممکن ہے، ہم امریکہ کو شیطان بزرگ سمجھتے ہیں۔

کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ آج وہ یوکرین میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی جنگ، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے امریکی اسرائیلی منصوبوں کے سب سے بڑے امریکی ناقدین میں سے ہیں۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی اور یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی، جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔ ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔"

ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ امریکی حمایت یافتہ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، لیکن وہ ایرانی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں لے سکے۔ میں خود اُس بے ترتیب اور بمشکل دو فٹ چوڑی سڑک پر چلا ہوں، جو کبھی خرمشہر کہلانے والے مکمل تباہ شدہ شہر کے ملبے سے گزرتی ہے۔ اس بارودی سرنگوں سے بھری زمین پر ایک بھی غلط قدم موت کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے رائٹرز کے ساتھی نجم الحسن کے ساتھ ہوا۔“ جنگ بالآخر اس وقت ختم ہوئی، جب خلیج میں ایک امریکی جنگی جہاز نے بظاہر غلطی سے ایک ایرانی ایئربس کو مار گرایا، جس سے 1988ء میں سیکڑوں شہری مارے گئے۔

ایران نے اس کے بعد عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزاحمتی گروہوں کو جنم دیا اور انہیں آزاد فلسطین کی جدوجہد کے دفاع کے لیے تربیت دی۔ اگرچہ یمن میں حوثی حکومت اور اس کے جنگجو اب ایران سے مدد نہیں لیتے، لیکن وہ طاقتور اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ انہوں نے سعودی قیادت میں لڑنے والی جنگی مشینری کے خلاف کیا تھا۔ ایران کی طرح وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو بھی ہو یکجہتی کے لیے کھڑے رہیں گے۔ تو ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے تیار ہے۔؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہونے بلکہ اپنے تمام میزائلوں کو ختم کرنے کا مطالبہ نہ مانا، تو وہ ایران پر پہلے سے کئی زیادہ شدید بمباری کرے گا۔

جس پر ایران کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیاں کارگر نہیں ہوں گی، مگر متوازن اور سنجیدہ سفارت کاری ممکنہ حل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ہفتے کے روز عمان میں مثبت انداز میں ختم ہوا اور کئی کشیدہ دنوں کے بعد واضح طور پر اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے لیے جنگ کا آپشن ممکن نہ رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں اپنے خلاف اٹھتی ہوئی عوامی مزاحمت کا سامنا اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔ یہ منظر ان چار نعروں کی یاد دلاتا ہے، جو ایران میں نمازیوں نے 1980ء کی دہائی میں تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے دوران بلند کیے تھے۔ جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ہاشمی رفسنجانی بائیں ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر اپنے خطبے کے درمیان اشارہ کر رہے تھے، ہجوم نے امریکا، اسرائیل، سوویت یونین اور صدام حسین مردہ باد کے نعرے لگائے، شاید اسی ترتیب سے۔ جن میں سے ان کی دو خواہشیں تو پوری ہوگئیں اور باقی دو اپنے جمہوری نقاب کو بچانے اور اپنے بےچین عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے کٹھن جدوجہد میں مصروف ہیں۔

کس چیز نے کرنل ولکرسن میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ جنگ میں ایران فاتح ہوگا؟ یہ اعتماد اُن روایتی حوالوں کے بغیر سامنے آیا، جو عموماً ویتنام اور افغانستان میں امریکی افواج کی ذلت آمیز ناکامیوں کے تناظر میں دیئے جاتے ہیں۔ ولکرسن نے ایرانی فتح کا یہ دعویٰ امریکی وار گیمز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والی فوجی مشق ملینیم چیلنج 2002ء MC02 کے کمپیوٹرائزڈ نتائج نے امریکی فوجی حکمت عملی میں نمایاں کمزوریوں کا انکشاف کیا۔ اس مشق میں ایران کو ریڈ ٹیم اور امریکا کو بلیو ٹیم سونپی گئی تھی۔ ایران کی ریڈ ٹیم کی قیادت ریٹائرڈ میرین لیفٹیننٹ جنرل پال وان رائپر کر رہے تھے۔ انہوں نے تباہ کن اثر کے لیے غیر روایتی حربوں کا استعمال کیا۔ موٹر سائیکل میسنجر، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کوڈڈ سگنلز اور میزائلوں سے لیس چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے، ریڈ ٹیم نے ایک حیرت انگیز حملہ کیا، جس نے بلیو ٹیم کو تباہ کر دیا۔

ایک بڑے کروز میزائل سالو نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سمیت 16 امریکی جنگی بحری جہازوں کو غرق کر دیا اور 20 ہزار سے زائد اہلکاروں کو فرضی طور پر ہلاک کر دیا۔ ایرانی ریڈ ٹیم نے اس کمپیوٹرائزڈ حملے میں جدید ٹیکنالوجی اور مضبوط ڈھانچے پر امریکی بلیو ٹیم کی خامیوں سے فائدہ اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ ٹیم کی واضح کامیابی کے بعد پینٹاگون نے مشق کو معطل کر دیا، بلیو فورسز کو تباہ کر دیا اور ریڈ ٹیم کی حکمت عملی پر پابندی لگا دی۔ ریڈ ٹیم کو طیارہ شکن ریڈار پوزیشنوں کو ظاہر کرنے، چھاتہ برداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے اور بلیو کی حتمی فتح کو یقینی بنانے والے اسکرپٹ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ وان رائپر نے اسے مشق کے مقصد سے غداری قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 25 کروڑ ڈالر کی فرضی جنگ کو دونوں فریقوں کی طاقت کے حقیقی امتحان کے بجائے موجودہ امریکی عقائد کی اسکرپٹڈ توثیق میں تبدیل کر دیا گیا۔

وار گیمز میں کہیں بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کا امکان موجود نہیں تھا۔ اس کا سہرا ایران کی سخت گیر قیادت کو جاتا ہے، جو ایٹمی بم بنانے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شاید کسی وقتی ایوارڈ کو قبول نہیں کریں، چہ جائیکہ انہیں نوبل امن انعام کی پیشکش کی جائے۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا مگر کم سراہا گیا اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے قابل احترام رہنماء اس اہم اقدام کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس فیصلے سے ان کے لوگ تباہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ایران اور اس کے اعلیٰ رہنماؤں کی اخلاقیات تعریف کی مستحق ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جمع کرنے کے خلاف خامنہ ای کے 2003ء کے فتوے نے دنیا کو ناقابل بیان نقصان سے بچانے میں ایک غیر معروف کردار ادا کیا ہے۔

ایران اور بالخصوص اس کی اعلیٰ قیادت کی اخلاقی بنیاد بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا 2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف دیا گیا فتویٰ ایک خاموش مگر مؤثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس نے دنیا کو بڑی تباہی سے بچائے رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای پر اپنے ہی ہم وطنوں کی جانب سے بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت دیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، جس سے اسرائیل کو قابو اور امریکی صدور کی جانب سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر خامنہ ای اپنی اس فطری دانش کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایٹم بم ایک غیر اخلاقی ہتھیار ہے اور اس مؤقف پر ہم ان کے مشکور ہیں۔
https://beta.dawnnews.tv/news

تحریر: جاوید نقوی

گذشتہ ہفتے ایران کی خارجہ پالیسی امریکہ اور سعودی عرب سے روس تک فعال رہی۔ اہم سفارتی واقعات رونماء ہوئے اس اسٹریٹجک تحرک میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ  نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کی اس حکمت عملی کو چند نکات میں بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک: رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پہلا بڑا قدم ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایسی تدبیر اختیار کرنا تھا، جس سے سانپ کو مار کر لاٹھی بھی بچانا تھا۔ اس حوالے سے  امریکہ پر مذاکرات کے مقام کو مسلط کرنا، مذاکرات کو بالواسطہ بنانا اور سفارت کاری اور اقتدار آمیز فوجی پیغامات کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے عمل کو کم کرنا تھا۔

دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام  دینا چاہتے ہیں کہ وہ  مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔

اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی  حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔

چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔

آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔

بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں،  فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"
 
 
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

 نماز مخلوقات کے لئے خالق سے رابطہ کیلئے بہترین ذریعہ ، تربیت کا بہترین وسیلہ ، تہذیب اور خودسازی کا عالی ترین برنامہ ، برائیوں سے دور رہنے کا موجب اور حق تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور نماز باجماعت مسلمین کی قدرت ، وحدت اور بیداری کی بہترین نمائش ہے۔
نمازدن بھر میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسطرح انسان کی روح دائم پروردگار کے چشمہ زلال یعنی نماز سے پاک و صاف ہوتی رہتی ہے ، آنحضرتۖ نماز کو اپنی آنکھوں کی روشنی کہا کرتے تھے : '' قرة عینی فی الصلاة'' ١اور اسے مومنوں کی معراج کا نام دیا کرتے تھے : '' الصلوة معراج المومن '' ؛ ٢جوبارگاہ الہی میں پرہیزگاروں کے تقرب کا باعث ہے :'' الصلاة قربان کل تقی '' ۔ ٣
یہاں پر ہماری بحث پنجگانہ نمازوںکے سلسلہ میں ہے کہ کیا انہیں معین اوقات میں بجالانا ایک واجب ہے کہ جس کے بغیر وہ باطل ہے ( جس طرح کہ وقت سے پہلے نماز کو ادا کرنا اس کے بطلان کا موجب ہے )یا انہیں تین اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے یعنی ظہر وعصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کوایک ساتھ انجام دینا صحیح ہے ؟۔
شیعہ علماء اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے نماز کو تین اوقات میں انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اگر چہ افضل یہ ہے کہ انہیں ان کے مخصوص اوقات میں انجام دیا جائے ۔
لیکن اہلسنت کے بیشتر فقہاء پنجگانہ نمازوں کو ان کے اوقات میں انجام دینے کو واجب کہتے ہیں ( وہ لوگ صرف عرفات میں روز عرفہ نماز ظہر وعصر کوایک ساتھ اور مشعر الحرام میں عید الضحیٰ کی رات میں نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور بیشتر فقہاء نے سفر میں یا بارش کے دوران جماعت کی تشکیل کی زحمت کے باعث دونمازوں کے اجتماع کو جائز قرار دیا ہے )
شیعہ فقہاء کے نزدیک اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں بجا لانا افضل ہے لیکن دو نمازوں کو جمع کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ یہ بندوں کے حق میںایک قسم کی سہولت ہے جو انہیں دی گئی ہے نیز یہ سہولت روح اسلام ( شریعت سمحة و سھلة ) سے سازگار بھی ہے ۔
بلکہ تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ پانچ نماز وں کو ان کے اوقات میں بجالانے کی تاکید نماز سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا موجب ہے اور اس تاکید کی وجہ سے بہت سے لوگ نماز سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اسلامی سماج میں پنجگانہ اوقات پر اصرار کے آثار

کیوں اسلام نے روز عرفہ اور شب مشعر میں دونمازوں کے اجتماع کی اجازت دی ہے ؟
کیوں اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے حدیث نبوی کی روشنی میں سفر اور بارش کے دوران دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اجازت امت کی سہولت کی خاطر ہے ۔
اس سہولت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسری مشکلات کے سامنے بھی دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ اجازت کسی خاص زمان سے مخصوص نہیں ہے اس لئے کہ ہمارے دور میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی بالکل بدل چکی ہے ، کارخانوں اور ادارہ جات میںمیں کام کرنے والے اورکلاسوں میں شرکت کرنے والے طالب علموں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ پانچ وقتوں میں پنجگانہ نمازوں کو ادا کرسکیں ۔
لہذا اگر لوگوں کو پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں دونمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی اجازت دی تو وہ اپنے امور کو بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں او ر بروقت نماز کے لئے حاضر بھی ہوسکتے ہیں جو نماز کی صفوں میں افزائش کا باعث ہے وگرنہ صفیں خالی اور نماز کو ترک کرنے والوں کی کثرت ہوجائے گی اسی وجہ سے اہلسنت کے بہت سے جوانوں نے نماز کو ترک کردیا ہے حالانکہ شیعوں کے درمیان نماز کو ترک کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
حق تویہ ہے کہ '' بعثت الی الشریعة السمحة السهلة '' اور آنحضرت ۖ سے منقول روایات کی روشنی میں پنجگانہ اوقات میں نماز کی ادائیگی کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ لوگوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنی پنجگانہ نماز وں کو تین وقتوں میں ادا کریں تاکہ زندگی کی مشکلات انہیں نماز کو ترک کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
اس کے بعد قرآن مجید ، آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں بحث کو ادامہ دیں گے تاکہ یہ مسئلہ کسی تعصب کے بغیر حل ہوسکے ۔
دونمازوں کے اجتماع پر روایات کی تائید

اہلسنت کے مشہور منابع صحیح مسلم ، بخاری ، سنن ترمذی، موطامالک، مسند احمد، سنن نسائی ،مصنف عبد الرزاق اور دیگر کتابوں میں دونمازوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں کسی سفر یا بارش یا اضطرارکی علت کے بغیرتیس روایتیں نقل ہوئیں ہیں جو پانچ راویوں سے ہیں:
١۔ ابن عباس
٢۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری
٣۔ عبد اللہ ابن عمر
٤۔ ابو ہریرہ
٥۔ابو ایوب انصاری
مذکورہ راویوں کی بعض روایات کو ملاحظہ کریں:
١۔ ابوزبیر سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' صلی رسول الله ۖ الظهروالعصرجمیعابالمدینةفی غیرخوف و لاسفر''؛رسول اللہ ۖنماز ظہر و عصر کو کسی خوف اور سفر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ ابوزبیر کہتے ہیں : میںنے سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر ۖ اس طرح نماز ادا کیا کرتے تھے ؟
سعید نے جواب دیا: میںنے بھی یہی سوال جب ابن عباس سے کیا تو انھوںنے نے جواب دیا:'' اراد ان لایحرج احدا من امته'' ؛ آنحضرت ۖ کی نیت یہ تھی کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں نہ پڑے ۔ ۴
٢۔ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس فرماتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر''؛ آنحضرت ۖ نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی بھی خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ایک ساتھ ادا کی ۔ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ اس سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟تو جواب دیا: '' اراد ان لایحرج ''؛ یعنی آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں پڑے ۔ ۵
٣۔عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : '' خطبنا ابن عباس یوما بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة الصلاة ! قال فجائه رجل من بنی تمیم لا یفتر ولایتنی : الصلوة الصلوة فقال: ابن عباس اتعلمنی بالسنة ، لاام لک ثم قال : رایت رسول الله ۖ جمع بین الظهر و والعصر والمغرب والعشاء قال عبد الله بن شقیق : فحاک فی صدری من ذلک شیء فاتیت اباهیرة فسالته ، فصدق مقالته ؛
عبدا للہ بن شقیق کہتے ہیں : ایک روزجب ابن عباس نے ہمارے درمیان عصر کے بعد خطبہ کا آغاز کیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے تو لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ''نماز نماز'' اس کے بعد بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور مرتب نماز نماز کہے جارہا تھا ، جناب ابن عباس نے اس سے کہا: کیا تو مجھے پیغمبر ۖ کی سنت کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اے بے بنیاد ! آنحضرت مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ، عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : میرے دل میں شک پید اہوا لہذا میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس نے ابن عباس کی بات کی تصدیق کی !۔ ۶
٤۔ جابر بن زید کا بیان ہے کہ جناب ابن عباس نے فرمایا: '' صلی النبی سبعا جمیعا و ثمانیا جمیعا'' ؛ پیغمبر ۖ نے سات رکعت ایک ساتھ اور آٹھ رکعت ایک ساتھ پڑھی ( جو مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے )۔۷
٥۔سعید بن جبیر جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینة من غیر خوف ولا مطر قال : فقیل لابن عباس: مااراد بذلک ؟ قال : اراد ان لایحرج امته''؛ پیغمبر ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر وعصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ، کسی نے جناب ابن عباس سے سوال کیا: اس فعل سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟ فرمایا: آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت زحمت میں پڑے ۔ ۸
٦۔احمد بن حنبل نے اسی مضمون کی روایت جناب ابن عباس سے اپنی مسند میں ذکر کی ہے ۔ ۹
٧۔ اہل سنت کے معروف امام'' مالک ''اپنی کتاب'' موطا ''میں مدینہ کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے جناب ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: '' صلی رسول اللہ ۖ الظهر والعصر جمیعا و المغر ب والعشاء جمیعا فی غیر خوف و لاسفر'' آنحضرت ۖ نمازظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی خوف اور بارش کے ایک ساتھ ادا کیا کرتے تھے ۔ ۱۰
٨۔ کتاب ''مصنف عبد الرزاق '' میں مذکور ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے کہا: '' جمع لنا رسول الله ۖ مقیما غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب فقال رجل لابن عمر : لم تری النبی ۖ فعل ذلک ؟ لان لا یحرج امته ان جمع رجل ''؛ پیغمبر اکرم ۖ نے اس حال میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء کو جمع کیا کہ آپ مسافر نہیں تھے ، کسی نے ابن عمر سے سوال کیا: پیغمبر ۖ کے اس عمل کی علت کیا ہوسکتی ہے ؟ کہا: اگر کسی شخص نے ان نمازوں کو جمع کیا تو ان کی امت کا کوئی فرد زحمت میں نہ پڑے( اور اس پر اشکال نہ کیا جائے ) ۱۱
٩۔جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں : ''جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة للرخص من غیر خوف ولاعلة ''؛ رسول اللہ ۖ نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا تاکہ امت کے پاس بغیر کسی خوف و علت کے ان نمازوں کو جمع کرنے کا جواز رہے ۔ ۱۲
١٠۔ ابوہریرہ کا بیان ہے : '' جمع رسول الله ۖ بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف ''؛ آنحضرت ۖ مدینہ میںدونمازوں کو کسی خوف کے بغیر جمع کیا کرتے تھے ۔ ۱۳
١١۔ عبد اللہ بن مسعود نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الاولیٰ والعصر والمغرب والعشاء فقیل له فقال : صنعته لئلا تکون امتی فی حرج '':
آنحضرت ۖ نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا ، جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت زحمت میں نہ پڑے ۔ ۱۴
یہاں پر دو سوال کیا جاتا ہے
١۔ مذکورہ احادیث کا نتیجہ

وہ تمام حدیثیں جنہیں ہم نے ذکر کیا ہے اہل سنت کی تمام مشہور کتابوں میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی سند معروف صحابہ تک پہنچتی ہے ، یہ سب کی سب دو نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
١۔ آنحضرت ۖ نے دونمازوں کو کسی خوف یا بارش یا سفر کے بغیر پڑھا ہے ۔
٢۔ آنحضرتۖ کا مقصد امت کی آسائش اور ان سے زحمت کو دور کرنا تھا ۔
ان تمام روایات کے ہوتے ہوئے کیاپھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنا اضطراری صورت میںجائز ہے ؟ کیوں ہم اپنی آنکھوں کو حقیقت سے چھپالیں اور آنحضرت ۖ کی سنت کے ہوتے ہوئے اپنے نظریات کو برتر سمجھیں؟!
خدا اور اس کے رسولۖ نے بخش دیا ہے لیکن اس امت کے متعصب حضرات بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، آخر کیوں ؟! کیوں وہ نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان جوان ہر جگہ اور ہر حال میں ، اسلامی اور غیر
اسلامی ممالک ، آفس اور کارخانوں میں اسلام کا سب سے اہم فریضہ نماز کو آسانی سے ادا کرے؟
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام تا قیام قیامت ہرزمان ومکان کے لئے ہے اور یہ چیز حتمی ہے کہ آنحضرت ۖ آنے والے مسلمانوں اور زمانوں سے باخبر تھے لہذا اگر مسلمانوں کو پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کے لئے مقید کردیتے تو پھر نماز ترک کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ( جیسا کہ آج واضح ہے ) اسی وجہ سے آنحضرت ۖ نے اپنی امت پر کرم کیا تاکہ ان کی امت کے لوگ نماز کو جہاں چاہیں آسانی سے ادا کرسکیں ۔
قرآن مجید فرماتا ہے :( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) ۱۵؛ ترجمہ : تمہارے لئے دین میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٢۔ قرآن اور نماز کے اوقات

ہم جب قرآن کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے نماز کے لئے تین وقت بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز پانچ وقتوں میں واجب ہے ۔
ہمیں پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا انکار نہیں ہے بلکہ اگرہمیں بھی اتنی فرصت مل جائے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کریں تو کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن کیا ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے ؟
قرآن کی پہلی آیت سورہ ہود میں ہے : ( واقم الصلوة طرفی النهار وزلفا من اللیل ) ۱۶ ؛اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔
'' طرفی النہار'' کی تعبیر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے کہ جسے اول صبح میں ادا کی جاتی ہے اور نماز ظہرین کا وقت مغرب تک باقی رہتا ہے یعنی نماز ظہرین کے وقت کا مغرب تک باقی رہنا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔
لیکن '' زلفا من اللیل '' کی تعبیر میں '' زلف'' کا مطلب'' مختار الصحاح '' اور'' کتاب مفردات '' کے مطابق '' زلفة'' کی جمع ہے جو اول شب کے ایک حصہ کے معنی میں ہے یعنی نماز مغربین کی طرف اشارہ ہے ۔
لہذا اگر پیغمبر ۖ نے نماز کو پانچ وقتوں میں ادا کیا ہے تو حتما ًان اوقات کی فضیلت تھی کہ جس کے ہم بھی معتقد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی آیت کے ظہور سے صرف نظر کرلیں اور دیگر تاویلات کا سہارا لیں ؟! قرآن کی دوسری آیت سورہ بنی اسرائیل میں ہے : ( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشهودا) ؛ ۱۷

'' دلوک'' مائل ہونے کے معنی میں ہے اور اس آیت میں سورج کا نصف النہار کی لائن سے مائل ہونے کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد زوال ظہر ہے ۔
'' غسق اللیل '' رات کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے اوائل شب اور نصف شب کے معنی کئے ہیں اس لئے کہ '' مفردات '' کے مطابق '' غسق ' ' شدید تاریکی کو کہتے ہیں جس کا نصف شب پر اطلا ق ہوتا ہے ۔
لہذا '' دلوک الشمس'' نماز ظہرین کے وقت کی ابتدا اور '' غسق اللیل '' نماز مغربین کے وقت کے تمام ہونے کی طرف اشارہ ہے اور '' قرآن الفجر'' نماز صبح کی طرف اشارہ ہے ۔
ان دو آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز یومیہ کے لئے صرف تین وقت ہیں لہذاانتین اوقات میں نماز کا ادا کرنا جائز ہے ۔
فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں قابل توجہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ : '' ان فسرنا الغسق بظهور اول الظلمة ۔ وحکاہ عن ابن عباس عطا وانضر بن شمیل ۔ کان الغسق عبارة عن اول المغرب وعلی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزوال ووقت اول المغرب ووقت الفجر وهذا یقتضی ان یکون الزوال وقتا للظهر والعصر فیکون ھذا الوقت مشترکا بین الصلوتین وان یکون اول المغرب وقتا للمغرب والعشاء فیکون هذا الوقت مشترکا ایضا بین ہاتین الصلوتین فهذایقتضی جواز الجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء مطلقا '' ۱۸ ؛ جب بھی '' غسق'' کے معنی اول شب کی تاریکی کے لئے جائیں گے ۔ جیسا کہ ابن عباس ، عطا اور نضر بن شمیل اسی نظریہ کے قائل ہیں۔ تو اس کا معنی اول مغرب کے ہوں گے لہذا اس آیت میںصرف تین وقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : وقت زوال ، وقت اول مغرب اور وقت فجر۔
اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زوال سے مراد نماز ظہرین ہوگی جس میں یہ دونوں نمازیں مشترک ہیں اور اول مغرب سے مرادنماز مغربین ہوگی اور یہ بھی نماز ظہرین کی طرح اول مغرب میں مشترک ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نماز ظہر و عصر کو اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہو۔
ابھی تک فخر رازی نے انصاف سے کام لیا اور بخوبی مذکورہ آیت کی تفسیر کی لیکن ادامہ دیتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ دونمازوں کو کسی عذر اور سفر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے لہذا اس آیت کو عذر سے مختص قرار دیتے ہیں ۔
لیکن ہم فخر رازی سے یہ کہیں گے کہ اس مدعا کے لئے نہ تنہا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد روایات ہیں جو اس مدعا کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ آنحضرت ۖ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو کسی عذر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے نماز ادا کرنا آسان ہو اور کن اصول کی بنیاد پر مذکورہ آیت کو عذر سے مختص کیا جاسکتا ہے ؟حالانکہ علم اصول کے مطابق تخصیص اکثر جائز نہیں ہے ۔
بہرحال کسی بھی حال میں مذکورہ آیت کے ظہور سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
نتیجہ بحث

١۔ قرآن مجید نے پنجگانہ نماز کے لئے تین وقتوں کو بیان کیا ہے ۔

 

٢۔ فریقین کی مروی روایات کے مطابق آنحضرت ۖ نے دونما
زوں کو کسی بھی عذر کے بغیر پڑھا ہے تاکہ امت زحمت سے بچی رہے ۔


٣۔ اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں ادا کرنا فضیلت رکھتا ہے لیکن اس فضیلت پر اصرار اور جوازکے انکار سے بہت سے لوگ مخصوص جوانوں کا طبقہ نماز سے دور ہوجائے گا لہذا ذمہ دار حضرات پر واجب ہے کہ وہ جواز کے منکر نہ ہوں۔
کم ازکم اہل سنت کے علماء اس بات کو مان لیں کہ ان کے جوان اس مسئلہ میں اہل بیت کی فقہ پر عمل کریں جیسا کہ جامعہ ازہر کے عظیم الشان عالم دین، شیخ الازہر ، شیخ محمود شلتوت نے فقہ جعفری پر عمل کرنے کا فتویٰ دیا تھا ۔
ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں نماز کو پانچ وقتوں میں اداکرنا کاریگروں ، آفس میں کام کرنیوالوں ، اسٹوڈنٹ اور بہت سے لوگوں کے لئے دشواری کا باعث ہے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں آنحضرت کے جوازکی پیروی کریں تاکہ لوگوں کو نماز ترک کرنے کا بہانہ نہ ملے ؟!
کیا سنت پر اصرار سے فریضہ کا ترک ہونا صحیح ہے ؟!
حوالہ جات

 
١۔ مکارم الاخلاق ، ص ٤٦١
٢۔اگر چہ ہمیں اس روایت کی سند نہیں ملی لیکن اس کی شہرت اس حدتک ہے کہ علامہ مجلسی اپنے بیانات میں اس حدیث کے ذریعہ استدلال کیا کرتے تھے ، بحا ر، ٧٩،ص ٢٤٨و ٣٠٣
٣۔ کافی ج ٣ ص ٢٦٥، ح٢٦
۴۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥١
۵۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۶۔١۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۷۔صحیح بخاری ج ١ ص ١٤٠ باب وقت المغرب)
۸۔ سنن ترمذی ، ج ١ ص ١٢١ ، ح ١٨٧
۹۔مسند احمد ، ج ١ ص ٢٢٣ ۱
۰۔ موطا مالک ج ١ ص ١٤٤
۱۱۔مصف عبد الرزاق ، ج ٢ ص ٥٥٦
۱۲۔معانی الآثار ، ج ١ ص ١٦١
۱۳۔مسند البزازج ١ ص ٢٨٣
۱۴۔المعجم الکبیر طبرانی ج ١٠ ص ٢١٩، ح ١٠٥٢٥
۱۵۔ حج ٧٨
۱۶۔ھود ١١٤
۱۷۔ اسراء ٧٨
۱۸۔ تفسیر فخر رازی ج ٢١ ص ٢٧

ذرائع :