
سلیمانی
سنی تحریک کا پاکستان بھر میں غاصب اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ: اسرائیل عالمی دہشت گرد ہے، مقررین
سنی تحریک پاکستان کے زیر اہتمام ملتان میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیلی حراست سے رہا کروائے اور وطن واپس لائے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان سنی تحریک ملتان کے زیر اہتمام گلوبل صمود فلوٹیلا کے شرکاء کی گرفتاری کے خلاف غزہ، فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے اسرائیل مردہ باد احتجاجی مارچ منعقد کیا گیا؛ جس میں علمائے کرام، مشائخِ عظام اور قائدین نے شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے میں معروف میلادی رکن الدین حامدی، سماجی وسیاسی رہنما ملک یوسف، علامہ سعیداخترقادری، علامہ کامران عالم نقشبندی، ملک عبدالقدیر کھوکھر سمیت دیگر افراد شریک تھے۔
اس موقع پر مقررین نے کہا کہ عالمی دہشتگرد اسرائیل کے غزہ، فلسطین پر ظلم وستم اور عالمی طاقتوں کی خاموشی، 57 اسلامی ممالک کا عملی اقدام نہ کرنا انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز عمل ہے، پوری دنیا میں انسان سراپا احتجاج اور عالم اسلام کے سربراہان خاموش تماشائی کا کردار ڈوب مرنے کے مترادف ہے، اسرائیل اور اس کے حامی صیہونی طاقتوں کو اگر عملی طور پر فوری اس ظلم بربریت سے نہ روکا گیا تو یہ ظلم کی آگ پوری دنیا کو لپیٹ لے گی، اسلامی ممالک کے سربراہان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شرم کرو شرم کرو شرم کرو اور ناجائز ریاست اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے متحد ہو جاؤ۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کیسے ایک پیشگی حملہ تھا!
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے رہنما شہید یحییٰ سنوار کی رہنمائی، سرپرستی اور قیادت میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کی خبر دنیا نے سنی، اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی شروع کی، حزب اللہ نے فلسطینی مجاہدین حمایت میں اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کی دست بوسی کرتا ہوں جو اسرائیل کیخلاف نبردآزما ہیں۔ لیکن سعودی عرب، اردن اور مصر سمیت عربی اور اسلامی ممالک نے اسے حماس کی غلطی قرار دیا۔ اس کامیاب آپریشن کو دوسرا سال مکمل ہونے پر اس دوران سیاسی و عسکری پیشرفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ امن منصوبے کیصورت میں مذاکراتی عمل کی نئی شرائط اور ٹرمپ پلان کے ساتھ حماس کے ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے ابھارا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور اس سے آگے مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے نتیجہ خیز اور مفید تھا یا نہیں؟۔ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دو سال کی جنگ کے بعد غزہ کے 70000 سے زیادہ شہری شہید، 200000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور غزہ کا 90% سے زیادہ علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے اہم حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ، ایک اور زاویے سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں شامل ہوئی تھی، ستمبر 2024 میں شدید ترین حملوں کا نشانہ بنی، جس کی انتہا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ یہاں تک کہ آپریشن طوفان الاقصی کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024 کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط، حزب اللہ کیخلاف اسرائیلی امریکی حملوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن 7 اکتوبر کے متعلق یہ سب غلط اندازے ہیں، ان کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کارروائی صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھی اور حماس نے یہ اقدام خود کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لئے انجام دیا۔ یہ بات مزاحمت اسلامی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں مزاحمت اسلامی کو صیہونی حکومت اور عالمی شیطانی طاقتوں کی طرف سے کس پیمانے پر اور کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مشکل حالات درپیش ہونگے۔
اسی لئے حماس نے دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی اور محاصرے برداشت کرنے کے بعد مکمل طور پر خاتمے کی بجائے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک تمام تر مصائب کے باوجود مسئلہ فلسطین کو دوبارہ توجہ کے مرکز بنانے کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان بن چکی ہیں، بلکہ بہت سی حکومتیں، حتیٰ کہ یورپ میں، جو صیہونی حکومت کے روایتی حلیف ہیں، وہ بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔
7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسرا، فوجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ سے پہلے صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے کیساتھ نمٹانے کے لیے صفر لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق، مہلک آلات ستمبر 2023 میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل لبنان میں بھیجے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن مہینوں سے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تب بھی یہ مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی۔
مہلک وائرلیس آلات کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی جو واقعہ طوفان الاقصیٰ کے بعد پیش آنے سے سامنے آئی۔ ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمت پر مبنی جنگ برسوں پہلے شروع ہو چکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، لیکن اس کا انتخاب مزاحمت نے خود کیا۔ فرق یہ تھا کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمت کا محور مکمل طور پر اچانک حملوں کا شکار ہوتا اور اسے پچھلے دو سالوں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمت کا محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے، جس نے انہیں ایک لمحہ بھی سکون نہیں دیا۔
اسلام ٹائمز
روایات کی روشنی میں حضرت فاطمہ معصومہ (س) کا مقام و مرتبہ؛
خطیب حرم حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا، حجت الاسلام والمسلمین محمد ہادی ہدایت نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے فضائل اور قم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ ایک خاتون جن کا نام "فاطمہ" ہوگا، قم میں دفن ہوں گی اور جو بھی ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ اس بشارت نے قم کو اہل بیت علیہم السلام کے حرم اور دنیائے تشیع کے مرکز کی حیثیت دی۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کے سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے "حرم امن" کا ذکر کیا ہے اور روایات کے مطابق قم کو بھی اہل بیت علیہم السلام کا حرم قرار دیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جس طرح مکہ، مدینہ اور کوفہ کو خاص فضیلت حاصل ہے، ویسے ہی قم کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ اسے اہل بیت علیہم السلام کا حرم کہا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین ہدایت نے بتایا کہ ملک میں ہزاروں امامزادے ہیں لیکن حضرت عباس علیہ السلام، حضرت علی اکبر علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا وہ ہستیاں ہیں جن کے لیے زیارتنامہ موجود ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ "ہمارا ایک مزار تمہارے درمیان ہے" اور یہ مزار حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا ہے جو حقیقت میں اہل بیت علیہم السلام کا حرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کرامت صرف حاجت روائی یا مریضوں کے علاج تک محدود نہیں بلکہ ان کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ انہوں نے ایک سنسان علاقے کو علم و دین کا مرکز بنا دیا۔ آج حوزہ علمیہ قم جیسی عظیم دینی درسگاہ انہی کے طفیل قائم ہے۔
اس محقق کے مطابق حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کا اصل راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی مدد کے لیے مدینہ سے سفر کیا اور اسی راستے میں شہادت پائی۔ لیکن قم میں مختصر قیام کے دوران انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو عام کیا اور شیعوں کو تربیت دی۔
انہوں نے کہا کہ اہل قم ہمیشہ فخر کرتے ہیں کہ ان کا شہر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی آرام گاہ ہے۔ آپ کی شخصیت اس لیے منفرد ہے کہ آپ امام کی بیٹی، امام کی بہن اور امام کی پھوپھی ہیں۔ جس طرح حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے پیغام کو زندہ کیا، ویسے ہی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے علم و کرامت کے ذریعے تشیع کو تقویت بخشی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا صرف زیارت کا مقام نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے علما اور فضلاء تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک تمام بڑے علما انہی کی برکت سے پروان چڑھے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
ٹرمپ امن منصوبہ پر حماس کا جواب
دوسری جانب فلسطین کی حامی جماعتوں اور قوتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انہی حالات میں مورخہ 03 اکتوبر کو رات گئے حماس کی جانب سے موقف سامنے آیا، جس میں حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ پر اپنے ردعمل کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ سمیت مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کی حمایت کر دی ہے۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ٹرمپ پلان کو حماس نے کن شرائط پر قبول کیا۔؟ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے حق میں کیسے موڑ دیا؟ ان سوالات کو میڈیا نے فراموش کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کیں، جس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے امریکی صدر کے منصوبہ کے ساتھ حامی بھر لی ہے۔
حقیقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں حماس کا تازہ ترین بیان بیانیہ کی جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کو از سر نو تشکیل کیا ہے اور بال دوبارہ سے امریکی صدر کے کورٹ میں پہنچا دی ہے۔ حماس نے اپنے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثوں کے سامنے تعمیری نظر آتے ہوئے سفارتی طور پر چال چلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی ایک طرف تو حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے بجائے، اس نے اسے اپنی شرائط پر اسی پلان کو از سر نو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ حماس نے صیہونی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کرنے کی تیاری کا اعلان کیا ہے، لیکن صرف ٹرمپ کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبولیت دشمنی کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلاء سے منسلک ہے۔
یعنی اس معاہدےمیں حماس کی مہم ترین شرط غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے مشروط ہے۔ جہاں تک گہرے سیاسی مسائل کا تعلق ہے، جیسے کہ غزہ یا فلسطینی ریاست کا مستقبل، حماس نے انہیں ایک وسیع تر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے لیے موخر کیا، نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب کے حکم پر۔ اس سے حماس اپنی سرخ لکیروں کی حفاظت کرتے ہوئے تعاون پر مبنی نظر آئی، نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ یعنی دشمن کا سارا پراپیگنڈا حماس نے زائل کر دیا ہے کہ حماس اپنے اقتدار کی خاطر جنگ کر رہی ہے بلکہ حماس نے ثابت کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
حماس کی جانب سے معاہدے کو از سر نو تشکیل دینے میں ایک اور اہم کام جو انجام پایا ہے، وہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے جاری طویل مدتی مہم کا خاتمہ ہے، یعنی مہینوں سے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں کو اپنے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کو انسانی بنیادوں پر ضروری قرار دیا۔حماس نے اس بیانیے کو الٹا کر دیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ اور مردہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے، حماس نے اسرائیل سے جنگ کو طول دینے کا بنیادی جواز چھین لیا۔ اگر اب بھی لڑائی جاری رہتی ہے تو اس کی ذمہ داری اسرائیل اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے، حماس پر نہیں۔ حماس نے غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینیوں کی ایک ٹیکنوکریٹک باڈی کو منتقل کرنے پر رضامندی سے اپنی سیاسی شبیہہ کو بھی مضبوط کیا، بشرطیکہ اسے قومی اتفاق رائے اور عرب اسلامی حمایت حاصل ہو۔
یہ اقدام ان الزامات کا مقابلہ کرتا ہے کہ حماس غزہ میں اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے بجائے،یہ تحریک کو اپنے سیاسی کنٹرول پر فلسطینی عوام کی بقا اور اتحاد کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ٹرمپ کا نام نہاد امن پلان دراصل ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہوچکی ہے۔ یعنی حماس نے فلسطینیوں کی خواہش کو مدنظر رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی امن منصوبہ فلسطین کے عوام کے لئے انصاف فراہم کرنے پر مبنی ہونا چاہیئے۔ یعنی جارحیت کا مکمل خاتمہ، نقل مکانی کو روکنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ ہونے کی ضمانت۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو اب معاہدے کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ خود کو امن کو روکنے والوں کے طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔
شاید حماس کے ردعمل کا سب سے اہم حصہ اس بات پر اصرار ہے کہ غزہ کے طویل مدتی مستقبل اور وسیع تر فلسطینی کاز کو امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا۔ حماس نے زور دیا کہ ان سوالات کو بین الاقوامی قانون اور اجتماعی مرضی کی بنیاد پر قومی فلسطینی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔ ایسا کرنے سے حماس نے ٹرمپ کے وژن میں آنے سے گریز کیا اور اس اصول کی توثیق کی کہ فلسطینی تنہاء ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ حماس نے درحقیقت ٹرمپ کے معاہدے سے انکار کر دیا ہے، پھر بھی اس نے سفارتی اور اسٹریٹجک طریقے سے ایسا کیا۔ تحریک نے اس تجویز کے انسانی اور فوری جہتوں (جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، حکمرانی کے انتظامات) کو قبول کر لیا جبکہ اس کے سیاسی جال کو مسترد کر دیا۔
یہ تدبیر اسرائیل کے قیدیوں کے بیانیے کو بے اثر کرتی ہے اور امریکہ اور اسرائیل پر بوجھ ڈالتی ہے کہ یا تو اس کی تعمیل کریں یا امن کی راہ میں اصل رکاوٹوں کے طور پر سامنے آئیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کے امن پلان پر عمل درآمد کو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اتوار شام چھ بجے تک اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کا اعلان کرتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ اعلان ہوگیا تو واقعی ایک بریک تھرو ہوگا۔ یہ یقینی طور پر حماس اور فلسطینی عوام کی کامیابی قرار پائے گا۔
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے خلاف عالمی نفرت
جمعرات کے دن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی جانب گامزن انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں پر جارحیت کر کے اس میں شریک تمام امدادی کارکنوں اور اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس حملے نے ماضی میں حنظلہ کشتی پر صیہونی جارحیت کی یاد تازہ کر دی ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہی تھی۔ صیہونی رژیم کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ صمود فلوٹیلا میں شامل تمام افراد مقبوضہ فلسطین میں قید ہیں اور ان کی صحت بالکل درست ہے۔ لیکن صیہونی وزارت خارجہ کا یہ بیان عالمی سطح پر انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے پائے جانے والے غم و غصے کو کم نہیں کر سکا اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے انجام پا رہے ہیں۔ مظاہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ جاری رکھے جانے پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
مزاحمتی فلوٹیلا کی آواز
بدھ کی شام انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا جو غزہ کے ساحل سے تقریباً 139 کلومیٹر دور تھا صیہونی فوج کی یلغار کا نشانہ بن گیا۔ اس میں پانچ سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں چند اراکین پارلیمنٹ، وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی شامل تھے۔ اخبار گارجین کے مطابق اس فلوٹیلا کا مقصد غزہ کا محاصرہ توڑنا تھا اور وہ اپنے ساتھ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے۔ صیہونی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے سرگرم کارکن گرتا تونبرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جو "آلما" نامی کشتی کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور صیہونی فوجیوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا۔ صمود فلوٹیلا میں شامل کچھ کشتیاں تو غزہ سے چودہ یا پندرہ کلومیٹر فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن آخرکار صیہونی فوج نے انہیں روک دیا۔
آزادی کی لہروں پر
ابتدائی رپورٹس کے مطابق صمود فلوٹیلا میں شامل "میکنو" نامی کشتی غزہ ساحل کے قریب فلسطینی پانیوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ صمود فلوٹیلا میں شامل افراد نے بتایا کہ میکنو کشتی سے ہمیں یہ پیغام ملا کہ "ہمیں ساحل دکھائی دے رہا ہے۔" فلوٹیلا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے کارکن رمضان تونچ نے بتایا: "میں آپ کو یہ اچھی خبر سنانا چاہتا ہوں کہ شدید رکاوٹوں کے باوجود ہماری ایک کشتی غزہ پہنچ گئی ہے اور اس نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔" بعد میں موصول ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے غزہ ساحل سے تقریباً 17 کلومیٹر دور صیہونی فوج نے روک دیا اور اس میں سوار افراد کو کتسیعوت جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک بڑا جیل ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
صیہونزم کی قید میں
انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل وہ افراد جو صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور حتی مغربی شہری بھی اس فلوٹیلا میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کی وجہ سے اسرائیل سے نفرت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ صمود فلوٹیلا کے گرفتار شدگان میں آئرلینڈ کے 9 شہری بھی شامل ہیں جن میں شین فن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس ایندروز بھی ہیں۔ اسی طرح اٹلی کے دو رکن پارلیمنٹ، فرانس سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اما فورو، پولینڈ کے رکن پارلیمنٹ فرانسسک استرچفسکی اور برطانوی فضائیہ کے ریٹائرڈ 72 سالہ پائلٹ میلکم داکر بھی اس فلوٹیلا میں شامل تھے۔ میلکم داکر صمود فلوٹیلا میں شامل "ایل این" نامی کشتی چلا رہے تھے۔
20 سالہ محاصرے پر خاموشی کا اختتام
غاصب صیہونی رژیم نے 2007ء میں غزہ کے الیکشن میں حماس کی فتح کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف محاصرے کا آغاز کیا تھا اور 2009ء میں محاصرے کی شدت بڑھا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ اب تک کئی بار اس محاصرے کی مذمت کر چکی ہے اور اسے "انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دے چکی ہے۔ صمود انٹرنیشنل فلوٹیلا میں شامل افراد اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کا اقدام غیر مسلح اور غیر فوجی اقدام ہے اور صرف انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ یاد رہے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا جرم جانا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کئی کوششیں انجام پا چکی ہیں۔ 2010ء میں غزہ کی جانب گامزن مرمرہ کشتی پر صیہونی فوج کے کمانڈوز نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دسیوں ترک شہری شہید ہو گئے تھے۔
صیہونیوں کے خلاف عالمی احتجاج
غاصب صیہونی فوج کی جانب سے صمود فلوٹیلا میں شریک تمام افراد کو گرفتار کر لینے کے بعد یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی رژیم کے خلاف وسیع احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اسپین کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ صمود فلوٹیلا میں شریک افراد کی سلامتی یقینی بنائے۔ اٹلی میں عظیم احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں بیس لاکھ کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ اسی طرح کے مظاہرے برسلز، ایتھنز اور برلن میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عالمی رائے عامہ کے دباو میں آکر برطانوی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن صیہونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو آزاد کر دے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کے حملے کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔
تحریر: علی احمدی
اقوام متحدہ کی غیر قانونی قرار دادوں پر عمل کرنا لازمی نہیں: اسپیکر قالیباف
اسپیکر قومی اسمبلی محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ روس اور چین نے سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین کی حیثیت سے ایک سرکاری بیان میں اس بات پر زور دیا کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی غیر قانونی ہے اس کی تعمیل لازمی۔ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران بھی خود کو ان غیر قانونی قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتا۔
اسپیکر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی کا ہمارا حق آج بھی بین الاقوامی قانون سے منظور شدہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی ملک ان غیر قانونی قراردادوں کی بنیاد پر ایران کے خلاف کارروائی کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایران کی جانب سے سنگین اور جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس غیر قانونی اقدام کے پیچھے جو تین یورپی ممالک ہیں انہیں بھی ہمارے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دشمن پر نظریں جما رکھی ہیں، ہر غلطی کا منہ توڑ جواب دیں گے: آرمی چیف
آفیسرز یونیورسٹی میں کمیشن افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ دشمن جان لے کہ ایرانی قوم اپنی صلاحیتوں، توانائيوں اور اعلی نظریات سے فتح حاصل کرے گی۔
کمیشن افسران سے خطاب کرتے میجر جنرل امیر حاتمی کا آپ نے ایک ایسے وقت میں فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا جب دشمن نے اپنی نادانی اور غلط حساب کتاب کی بنیاد پر وطن عزیز کی سلامتی، ارضی سالمیت، آزادی اور اسلامی نظام کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن اسے عظیم ایرانی قوم کی استقامت اور مسلح افواج کی مزاحمت کے نتیجے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بری فوج کے سربراہ نے کہا کہ ہماری طاقتور افواج نے قوم کی حمایت اور سپریم کمانڈر کی دانشمندانہ قیادت میں دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے اور اسے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔
کمزور اور پست قومیں ہی غیروں کی غلامی قبول کرتی ہیں، مومن کو ذلیل ہونے کی اجازت نہیں
مسجد اعظم قم میں 27 ستمبر 2025 کو درسِ فقہ کے اختتام پر آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام «لَا یَمْنَعُ الضَّیْمَ الذَّلِیلُ» کی روشنی میں کہا کہ جس قوم کا یقین یہ ہو کہ دنیا کی زندگی چند سانسوں کی مہمان ہے اور شہادت ’’روح و ریحان‘‘ ہے، وہ کبھی بھی دھمکیوں اور دباؤ سے مرعوب نہیں ہوتی۔ اسلام کا بھی یہی پیغام ہے کہ عزت اور مزاحمت کے ساتھ جیا جائے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’پتھر جہاں سے آیا ہے وہیں واپس پھینکو، مرد بنو اور مردانہ زندگی بسر کرو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ روایاتِ معصومینؑ کے مطابق انسان اپنی عزت و آبرو کا مالک مطلق نہیں بلکہ اللہ کی امانت دار ہے، جس طرح عورت کی عصمت اور ناموس الٰہی امانت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص اپنی یا کسی مومن کی آبرو کو ذلت کے ساتھ برباد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امام معصوم علیہ السلام کا فرمان نقل کیا کہ: «إنَّ اللّه فَوَّضَ إلَی المُؤمِنِ اُمورَهُ کُلَّها، و لَم یُفَوِّضْ إلَیهِ أن یَکونَ ذَلیلاً» یعنی خدا نے مؤمن کے تمام امور اس کے سپرد کیے ہیں، مگر اسے کبھی ذلت برداشت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح ایک قوم کو بھی حق نہیں کہ وہ خود کو ذلیل کرے اور اپنی اجتماعی عزت کو پامال کرے۔
آخر میں آپ نے دعا کی کہ خداوند متعال اہل بیت علیہم السلام کی آبرو کے صدقے اس ملک کو ظہور امام زمانہؑ تک ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے۔
شہید سید حسن نصراللہ کے ورثے سے خوف و ہراس
25 ستمبر 2025ء کی شام جب سورج خلیج بیروت میں غروب ہو رہا تھا تو لبنان کے دارالحکومت میں قومی علامت سمجھی جانے والی مستحکم چٹان "الروشہ" شہید سید حسن نصراللہ کی تصویر سے چمکنے دمکنے لگی۔ ہزاروں کی تعداد میں لبنانی شہریوں نے ضاحیہ کے جنوبی محلوں سے لے کر دور دراز گاوں بقاع تک عظیم اجتماع تشکیل دیا تاکہ اس طرح حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی منا سکیں۔ شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی عظیم الجثہ تصاویر الروشہ چٹان پر چمکیں اور عظیم اجتماع نے اتحاد اور استقامت کے نعرے لگاتے ہوئے دنیا بھر کو ایک واضح پیغام پہنچایا۔ اگرچہ لبنان حکومت نے اس اجتماع کی تشکیل کے لیے بہت ہی محدود پیمانے پر اجازت دی تھی اور الروشہ چٹان پر شہدائے حزب اللہ کی تصاویر کی اجازت بھی نہیں دی تھی لیکن یہ عظیم اجتماع میں تبدیل ہو گیا۔
لبنانی شہریوں کا یہ عظیم اجتماع محض ایک برسی کے اجتماع سے ماوراء تھا اور اس میں ایسے اجتماعی عزم راسخ کا مظاہرہ کیا گیا جو جنگ کی تباہ کاریوں اور اقتصادی بحران کی شدت میں اپنی خودمختاری اور وقار کے لیے جدوجہد پر زور دیتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نواز لبنانی وزیراعظم نواف سلام نے اس عظیم اجتماع کو اجازت نامے سے "واضح خلاف ورزی" قرار دیا اور اس کی انتظامیہ میں شامل افراد کو فوراً گرفتار کر کے ان کے خلاف عدالتی کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ لبنانی وزیراعظم نے حتی وزیر داخلہ، وزیر انصاف اور وزیر دفاع کو بھی فوری اقدام کا حکم دیا اور اس عظیم اجتماع کو "غیر قانونی" قرار دے دیا۔ یہ انتہاپسندانہ ردعمل نہ صرف اندرونی اختلاف کی علامت ہے بلکہ اس پالیسی کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو لبنانی حکومت نے مغربی طاقتوں کی غلامی میں اپنا رکھی ہیں۔
حزب اللہ، دشمنوں کی آنکھ میں کانٹا
اس ٹکراو کی گہرائی کو جاننے کے لیے ہمیں شہید سید حسن نصراللہ کے تاریخی کردار کا جائزہ لینا پڑے گا۔ سید مقاومت، جو ستمبر 2024ء میں غاصب صیہونی رژیم کے دہشت گردانہ اقدام میں مقام شہادت پر فائز ہوئے نہ صرف حزب اللہ کے قائد تھے بلکہ غاصبانہ قبضے کے خلاف لبنان کی جدوجہد کی علامت بھی تھے۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کی قیادت کرتے ہوئے 2000ء میں لبنان کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلوائی اور اس کے بعد 2024ء کی وسیع صیہونی جارحیت سمیت کئی جنگوں میں حزب اللہ لبنان کو ناقابل تسخیر قلعے میں تبدیل کر دیا۔ ان کی شہادت دیگر ہزاروں لبنانی شہریوں کی شہادت کے ہمراہ تھی اور اس نے لبنانی معاشرے کو گہرا صدمہ پہنچایا لیکن اس کے باوجود حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے سامنے جھکنے کی بجائے نئے جذبے سے مسلح جدوجہد جاری رکھی جس کے باعث وہ دشمن کی آنکھوں میں کانٹا بنا ہوا ہے۔
غیر ملکی اثرورسوخ کا سایہ
شہید سید حسن نصراللہ کی برسی پر پابندی کا اقدام محض ایک اندرونی ردعمل نہیں ہے بلکہ اس وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کی بنیادیں بیرونی دباو پر استوار ہیں۔ مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک کی مدد سے امریکہ نے کئی سال پہلے سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ نے نئی لبنانی حکومت کو مالی امداد کی فراہمی بھی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے مشروط کر رکھی ہے اور حتی قطر اور سعودی عرب کی جانب سے لبنان کو تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے دی جاری والی امداد بھی اسی خاطر روک رکھی ہے۔ تھامس براک نے اپنے ایک بیان میں لبنان کو "حزب اللہ کو کنٹرول کرنے کے کھیل کا گراونڈ" قرار دیا ہے اور جنوبی لبنان کے دفاع میں حزب اللہ کا کردار ختم کر دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
یہ منصوبہ 2025ء میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں ایک ٹف ٹائم ٹیبل دیا گیا ہے: لبنان آرمی کو اس سال کے آخر تک جنوبی لبنان، بیروت اور بقاع کے علاقوں کو اسلامی مزاحمت کے اسلحے سے عاری بنانا ہے۔ یہ دباو واضح طور پر اسرائیلی مفادات کی خاطر ڈالا جا رہا ہے۔ اسرائیل جو اب بھی جنوبی لبنان کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اور نومبر 2024ء میں ہونے والی جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزی کر چکا ہے، اب بھی لبنان پر ڈرون اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کر کے جنوبی لبنان کو ایک "بفر زون" کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے۔ تھامس براک کی بنجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام سے مسلسل ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل اسرائیل کا پیش کردہ ہے۔ نواف سلام کی سربراہی میں موجودہ لبنانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ایک مہرے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
مزاحمت اور صبر، لبنان کی خودمختاری کے ستون
اس دباو کے مقابلے میں لبنان کی شیعہ برادری حزب اللہ کی سربراہی میں مزاحمت اور صبر کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مئی 2025ء کے بلدیاتی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کی لیکن حکومت سے براہ راست ٹکر لینے سے گریز کیا۔ اس حکمت عملی کی وجہ کمزور ہونا نہیں بلکہ قومی اتحاد کا تحفظ ہے۔ حزب اللہ لبنان نے ملک بھر میں وسیع فلاحی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کے تحت اسپتال اور اسکول تعمیر کیے گئے ہیں اور لبنانی شہریوں کی بھرپور مدد کی جاتی ہے۔ حزب اللہ قومی سطح پر مذاکرات کی حامی ہے لیکن مسلح ہونے کو ریڈ لائن تصور کرتی ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اس بارے میں کہا تھا: "مزاحمت لبنان کے دفاع کے لیے ہے اور وہ اقتدار کے پیچھے نہیں ہے۔" لبنان آج ایک بڑے امتحان سے روبرو ہے۔ کیا وہ بیرونی طاقتوں کے دباو کا مقابلہ کامیابی سے کر پائے گا یا نواف سلام کی حکومت مزاحمت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
تحریر: فاطمہ مرادی
انا علی العھد
ہاں ہم اپنے عہد پر قائم ہیں___
اس عہد پر جو ہم نے ایک مرد الہیٰ سے کیا___
یہ خون کا عہد ہے___
اس مرد الہیٰ سے
جو ظلمتوں کی سیاہ راتوں میں عزمِ حسینی کا روشن چراغ تھا
جسے
دار و رسن کی سختیاں
دشمنوں کی گیدڑ بھبھکیاں
اہل ستم کی دھمکیاں
خنجر و شمشیر کی چمک
نیزہ و سنان کی دمک
زریں تاجوں کی چمک
بارودی گولوں کی بارش
آستیں کی سانپوں کی سازش
کوئی بھی چیز
اُس مردِ آہنی کے قدم نہ روک سکی___
وہ جس کی آنکھوں میں
شہادت کی چمک تھی،
اور دل میں عشقِ حق کی تپش۔
سید حسن نصر اللہ!___
وہ سید لبنانی
جس کی استقامت نے ہمیں بتایا
کہ مردانگی جسم کی طاقت نہیں،
عزم و ہمت و ارادہ کی طاقت ہے
جو روح سے متعلق ہے____
اور روح
اتنی عظیم ہوتی ہے کہ اسے ہزاروں ٹن بارود گرا کر بھی نہیں مارا جا سکتا.
اس لئے کہ مردان الہیٰ کا جسم تو ان کے لئے ایک قفس کی صورت ہوتا ہے۔۔
روح جب بڑی ہو جائے تو جسم میں کہاں رکتی ہے؟۔۔۔
سچ کہا متنبی نے
"وَإِذا كانَتِ النُفوسُ كِباراً
تَعِبَت في مُرادِها الأَجسامُ"
بات یہاں کہاں ختم ہوتی ہے، بات کا آغاز یہاں سے ہے کہ جو بیش قیمت ہے، وہ جہاں بھی ہو، غریب ہے، چاہے اپنوں ہی کے درمیان کیوں نہ ہو، اس کا خریدار تو بس خدا ہے۔
"وهكذا كنت في أهلي وفي وطني
إِنَّ النَفيسَ غَريبٌ حَيثُما كانا"
حسن نصراللہ (رح) کی ذات بھی ایسے ہی گوہر نایاب کی مانند تھی
جس کی قدر زمانے نے نہ کی، بالکل اس کے آقا و مولا علی (ع) کی طرح
جس کے لئے جارج جرداق نے کہا
"*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر دور کو ایک علی (ع) مل جاتا*"
آج ہم کہہ سکتے ہیں "*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر قوم کو ایک "نصراللہ" مل جاتا کہ ہمیں ہر ایک سے زیادہ اس کی ضرورت ہے*
وہ مرد مجاہد___
جو
اہل حق کے نام یہ پیغام چھوڑ گیا
کہ خوں بہے تو بہے،
جذبہ حق پرستی کبھی نہ تھمے
وفا کبھی نہ مرے
مظلوموں کی مدد سے ہاتھ کبھی نہ کھنچے
چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
"نحن شیعه علی ابن ابی طالب"
کہنا آسان ہے__
ثابت کرنے کے لئے عزم "نصر اللہیٰ" چاہیئے
وہ عزم____
جو منوں ٹن بارود اور اسلحوں کی کھیپوں سے نہ دب سکا
"نعیم قاسم" کی شکل رخِ ظالم پر "طمانچہ" بن کر زندہ ہے۔
اور دنیا بھر میں عزم نصر اللہیٰ رکھنے والے جیالوں کی صورت ظالموں کی نیندیں اڑا رہا ہے
سچ ہے
ظلم کی راتیں طویل ہو جائیں___
تو ایک 86 سالہ بوڑھا
نویدِ سحر لئے
خاک شفا پر سر کو خم کرکے
جب سر اٹھاتا ہے
تو دنیا کے ظالموں کے سر
اس کے سامنے اعلان عاجزی کے ساتھ جھک جاتے ہیں اور جب وہ "*یا علی*" کہہ کر
آگے بڑھتا ہے۔
*بنام نام حیدر جنگ آغاز می گردد
علی (ع) با ذوالفقار حیدر به خیبر باز می گردد"
تو اہل ستم کے چہرے دھواں دھواں ہو جاتے ہیں___
اور وہ ثابت کر دیتا ہے
ہزاروں گیدڑ مل کر وہ کچھ نہیں کرسکتے جو بوڑھا شیر اپنی انگڑائی سے کر گزرتا ہے
وہ ثابت کرتا ہے کہ اگر مردانگی ہو
اور اپنے عہد پر قائم رہا جائے تو ایک اکیلا انسان
تاریخ بدل سکتا ہے
مسلم خوابيدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو. وہ چمک اٹھا افق، گرم تقاضا تو بھی ہو.
مانا کہ ظلم و ستم کے محاذ پر محاذ کھل رہے ہیں
برہنہ جارحیت کا عفریت معصوموں کی لاشوں پر بھمہیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے
لیکن حسینیت کا پرچم لئے
اب بھی کچھ جیالے بساط حریت پر جمے ہوئے اپنے اس عہد پر قائم ہیں
جو عہد انہوں نے سید مقاومت سے کیا۔ جو خون کا عہد ہے
*انا علی العہد*
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی