
سلیمانی
صہیونی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تین اہم کامیابیاں
12 روزہ جنگ اور ایران کی سرزمین پر طفل کُش صہیونی ریاست کی دہشت گردانہ جارحیت، اگرچہ ایک دشمنانہ اور بے مثال اقدام تھا، لیکن اس تصادم میں ایران کے ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائلوں کے فیصلہ کن جواب نے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی آمادگی، عسکری طاقت اور معلوماتی بالادستی کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
داخلی اور خارجی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران نہ صرف میدان جنگ میں فاتح رہا بلکہ اس نے بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
حسن بشتی پور، سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہر نے فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار سے گفتگو میں اس جنگ میں ایران کی تین اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کامیابیاں قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور دفاعی و تسدیدی صلاحیتوں (Deterrence) کے شعبوں میں گہری تبدیلیوں کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
دشمن کی دراندازی کی گہرائیوں کی شناخت اور ملکی سلامتی کے ڈھانچے میں خنوں کا مقابلہ
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس جنگ میں ایران کی پہلی اور شاید سب سے اہم حکمت عملی کامیابی دشمن کی سلامتی کے ڈھانچوں میں نفوذ کی گہرائی اور پیمانے کی شناخت تھی۔
ایران اس جنگ کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد کے واقعات میں صہیونیت سے وابستہ عناصر کی دراندازی کے نیٹ ورک کا ایک حصہ دریافت اور ختم کرنے میں کامیاب رہا۔
یہ کامیابی محض ایک معلوماتی (اور انٹیلی جنس کے شعبے کی) کامیابی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر سلامتی کا از سر نو جائزہ لینے کے ایک نئے دور کی راہ کھولتی ہے۔ 12 روزہ جنگ میں ایران ان دراندازیوں کی شناخت کے بعد اب سائبر دفاع، کے جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے حفظ ما تقدم کے کے طور پر خطروں کا ہوشیارانہ مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ 12 روزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ دشمن عسکری جنگ کے بجائے معلوماتی رخنوں کے ذریعے ملک کے اندرونی عزم اور طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس بار بھی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔
جارحانہ طاقت کا مظاہرہ
ماہرین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی دوسری بڑی کامیابی عسکری اور تزویراتی پہلوؤں سے متعلق ہے۔ ایران نے اس جنگ میں مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے درست نشانہ بنانے والے میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جارحانہ طاقت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کو یہ پیغام دیا کہ مقبوضہ علاقوں کا کوئی بھی نقطہ اس کے لئے محفوظ نہیں رہے گا۔
اس جنگ نے ایران کی دفاعی کمزوریوں کی شناخت میں بھی مدد کی جن کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی یقیناً شروع ہو چکی ہے۔
قومی بیداری کا استحکام اور مغرب کی حقیقی فطرت کا ادراک
ایک اور کامیابی جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ ایرانی قوم کی رائے عامہ اور سیاسی بیداری کے میدان میں حاصل ہوئی۔ اس جنگ اور اس پر بین الاقوامی ردعمل سے ظاہر ہؤا کہ ایران کے عوام مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھ چکے ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی جیسے افسانے جو مغرب کی مداخلت کو جواز دینے کے لئے پروپیگنڈے کے اوزار تھے، اس بار ایرانی رائے عامہ میں مکمل طور پر غیر معتبر ہو گئے۔
ایرانی عوام جان گئے ہیں کہ ان کے ملک کے قومی مفادات مغرب پر انحصار کرنے میں نہیں بلکہ خود انحصاری، اپنی ہی صلاحیتوں پر بھروسے، اندرونی اتحاد اور اپنی قومی طاقت پر اعتماد کرکے حاصل ہوتے ہیں۔ عوام نے اچھی طرح دیکھا کہ جوہری مسئلہ ـ مغرب کے دعوؤں کے مطابق ـ قیام امن کے لئے حقیقی فکرمندی نہیں بلکہ ۔ صرف دباؤ ڈالنے کا بہانہ ہے۔ یہ عوامی ادراک قومی تسدید کے ستونوں میں سے ایک ہے جس کی بنا پر ملک کے اندرونی عدم استحکام کا کوئی بھی منصوبہ بہت مہنگا پڑے گا۔
خلاصہ
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 12 روزہ جنگ ایک عسکری تصادم سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یہ جنگ ایران کی معلوماتی صلاحیت، عسکری طاقت، قابل تلافی کمزوریوں کی شناخت اور عوام کی سیاسی بیداری کی نمائش تھی۔
جمهوری اسلامی ایران با شناسایی شبکههای نفوذ، آزمون ساختار پدافندی، و تثبیت رویکرد استقلالطلبانه در میان مردم، سه دستاورد مهم و راهبردی را بهدست آورد.
لہٰذ، اسلامی جمہوریہ ایران نے دراندازی کے نیٹ ورک کی شناخت، دفاعی ڈھانچہ آزمانے اور عوام میں خود مختارانہ رجحان کی تقویت کے ذریعے تین اہم اور تزویراتی کامیابیاں حاصل کیں۔
آخری بات یہ کہ، 12 روزہ جنگ نے نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم کیا بلکہ دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیا اور وہ یہ کہ ایران نہ صرف حملے میں بلکہ خطرات کا ادراک کرکے انہیں مناسب مواقع میں بدلنے میں بھی باصلاحیت اور بالکل تیار ہے۔
زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے
جزیرہ قشم میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ علمیہ ریحانه الرسول (س) قشم کی مدیر محترمہ خدیجہ غلامی نے کہا: ایک مؤمن عورت کو زینبی مقام تک پہنچنے کے لیے ایمان کو محض علم کے درجے پر نہ رکھنا چاہیے بلکہ اسے عمل میں ڈھالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا صرف ایک عالمہ نہ تھیں بلکہ عالمۂ عاملہ تھیں۔ جب آپ نے ابن زیاد اور یزید کے دربار میں استقامت دکھائی تو وہ آپ کے عمیق ایمان اور اللہ کی قدرت پر یقین کا نتیجہ تھا۔ ایسا ایمان صرف مطالعے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ تقویٰ، نفس کی تربیت اور مسلسل مجاہدہ سے پیدا ہوتا ہے۔
مدیر مدرسہ علمیہ قشم نے مزید کہا: الہی راہ کا پہلا قدم ایمان کی حفاظت ہے۔ ایمان ہوا میں جلتی شمع کی مانند ہے؛ اگر مؤمن عورت محتاط نہ ہو تو جنّ و انس کے شیطان مختلف راستوں سے آ کر اس کے صبر، حیاء اور پردے کو نشانہ بناتے ہیں۔ تقویٰ دل کا قفل اور دینداری کا محافظ ہے۔
محترمہ غلامی نے کہا: مسلمان عورت کو زیب و زینت یا لوگوں کی توجہ سے پہلے خدا کی نظر پر توجہ دینی چاہیے۔ اس طرزِ زندگی میں نگاہ، گفتگو، برتاؤ، میل جول اور حتیٰ کہ لباس بھی تقویٰ کے معیار پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے توکل کو زندگی کے طوفانوں میں سکون کی کنجی قرار دیتے ہوئے کہا: مؤمن عورت کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ رزق اور عزت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ "لا حول و لا قوۃ الا باللہ" پر ایمان، اسے لوگوں کی رائے، نگاہوں اور تعریف کے دباؤ سے آزاد کرتا ہے اور اسے عزت نفس اور شجاعت عطا کرتا ہے۔
امام زین العابدین (علیہ السلام) کی 34 سالہ امامت پر ایک نظر
امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام) کے یوم شہادت پر پورا عالم اسلام گہرے سوگ اور غم میں ڈوبا ہؤا ہے، یہ اس ہستی کی شہادت کا دن ہے جس نے واقعۂ کربلا کے بعد ظلم و ستم سے بھرے دور میں امامت کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی؛ اور ایک منفرد طریقے سے تاریکیوں میں ہدایت کا چراغ روشن رکھا۔
"چیخوں کے بیچ خاموشی" یہ جملہ ان کی 34 سالہ امامت کے معمے کو بخوبی بیان کرتا ہے؛ وہ دور جس میں حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے نئے ذرائع اور وسائل سے عاشورا کی تحریک کو زندہ رکھا، اور اسلام و تشیّع اور تشیع کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔
10 محرم (عاشورا) سنہ 61 ہجری کو کربلا کا میدان صرف قتل گاہ نہیں تھا، بلکہ بے انتہا مظلومیت کا منظر اور آنے والوں کے لئے ایک الٰہی آزمائش بن گیا۔
امام سجاد (علیہ السلام) اس روز اگرچہ بیماری کی حالت میں تھے اور اپنے والد کی فوج کے ساتھ شامل ہونے سے قاصر تھے، لیکن آپ نے حقیقت کی بیدار آنکھیں تمام واقعات پر کھول دیں۔
آپ اس سانحے کے گواہ تھے، اپنے والد کے بے سر جسم سے لے کر خیموں میں یزیدیوں کی لگائی ہوئی آگ اور پھوپھی زینب کے آنسوؤں اور اسیری کے راستے میں بکھرے ہوئے کانٹوں تک۔
اس گہرے تجربے نے آپ کی روح کو جلا بخشی اور انہیں امامت کی بھاری ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ چنانچہ عاشورا کے بعد امامت آپ کے سپرد ہوئی؛ جبکہ یزیدیوں نے کربلا میں موجود تمام ہاشمی مردوں کو شہید کر دیا تھا اور آپ واحد ہاشمی مرد تھے جو بقید حیات تھے۔ یزیدی لشکر آپ کی گردن میں زنجیر ڈال کر اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام لے گیا۔
یہ دور، ظاہری طور پر سرکاری جبر اور اہل حق کی مظلومیت کے عروج کا دور تھا لیکن ساتھ ہی یہ حق و عدل کے لئے آواز بلند کرنے کا نقطۂ آغاز بھی تھا اور اسی نقطے پر ہی آپ کی آواز تاریخ کی بلندیوں پر گونج اٹھی۔ دربار یزید میں آپ کے زبردست خطاب نے تحریک حسینی کو ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا۔ اور حَق طَلَبی کی روح کو دلوں میں زندہ رکھا۔ آپ نے بے مثال ہمت اور فصاحت کے ساتھ اپنا تعارف کرایا، اور یزید کو ـ جو طاقت اور غرور کے نشے سے سرشار تھا ـ رسوا کر دیا۔
یہ ایک مظلومانہ امامت کا آغاز تھا جو 34 سال تک قائم رہی، جس کے ہر لمحے میں امام نے الہی حکمت و دانائی کے ساتھ کربلا کے مشن کو آگے بڑھایا۔
اگر امام حسین (علیہ السلام) خون اور قیام کے امام تھے، تو امام سجاد (علیہ السلام) آنسوؤں اور دعا کے امام تھے۔ آپ نے شدید دباؤ اور گھٹن کے دشوار دور میں اپنی عبادتوں کے ذریعے توحید اور ہدایت کی آواز بلند کی۔
روحانی جدوجہد کی یہ روش حکمرانوں کے خوف سے نہیں بلکہ الہی حکمت جنم لیتی تھی؛ کیونکہ اس وقت کا معاشرہ جہالت اور برائیوں کے اندھیرے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اور خالص اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکا تھا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے اس روش سے سے روحوں کی پاکیزگی، فکری تجدید (یا فکری تعمیر نو)، اور شیعہ مکتب کے پیروکاروں کے لئے مضبوط روحانی بنیاد رکھنے کے لئے کوشاں تھے۔
صحیفۂ سجادیہ ایک الہی خزانہ اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے، جس کو بجا طور پر "زبور آل محمد(ص)" کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی ورثہ، راز و نیاز، اخلاق، عرفان اور حتی کہ سیاست پر مشتمل ہے۔ ان دعاؤں میں توحید، معرفت، معاشرت اور حقوق کے گہرے معارف سمیٹ لئے گئے ہیں۔
آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے "زین العابدین" کا لقب ملا لیکن یہ لقب (عبادت کرنے والوں کی زینت) محض امام کا ایک رسمی نام نہیں بلکہ یہ آپ کی سیرت اور زندگی کا آئینہ دار ہے۔ راتوں کے اندھیرے میں عبادت، طویل سجدے اور ہر حال میں دعا، اس مظلوم امام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی پیشانی پر، کثرت سجدہ سے، گُٹا پڑ گیا تھا جو خالق کائنات کے سامنے بے پناہ خضوع و انکسار کی علامت تھا۔
آپ ایسی ہستی تھے جو زمانے کے دکھوں کو ذکر الٰہی سے تسکین دیتے تھے، اور حتی کہ شدید تنہائی میں بھی اپنے رب سے اپنا تعلق منقطع نہ ہونے دیتے تھے۔ خالق کے ساتھ یہ گہرا تعلق ہی آپ کی قوت اور مصیبتوں میں سکون کا بنیادی سرچشمہ تھا۔
مروی ہے کہ آبِ وضو کے پاس جاتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا تھا اور چہرہ متغیر ہو جاتا۔ جب آپ سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: "کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں؟"
یہ روحانی عظمت اور مقامِ بندگی کی گہری سمجھ بوجھ ہی طوفانوں میں آپ کے سکون کا راز تھی۔ امویوں کی تشددآمیز اور گمراہ حکمرانی کے دور میں امام سجاد (علیہ السلام) نے نہ صرف دعاؤں کے ذریعے اپنا مشن آگے بڑھایا، بلکہ ابو حمزہ ثمالی، ابوخالد کابلی، یحیی بن ام الطویل، محمد بن جبیر بن مطعم، سعید بن مسیب مخزومی، عامر بن واثله کنانی (اباالطفیل)، سعید بن جبیر کوفی اور جبیر بن مطعم جیسے ممتاز شاگردوں کی تربیت کرکے تشیّع کی علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ کے یہ شاگرد اہل بیت (علیہم السلام) کے علم و معرفت کے مبلغ و مروج بنے، اور امام کے فکری ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچایا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے خاموش مجاہدت کے ان برسوں میں راتوں کی عبادت اور دنوں کو مفکرین کی ایک نسل کی تربیت کے بعد، بالآخر 95 ہجری میں مدینہ میں اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان کے گماشتوں کے ہاتھوں مسموم ہوکر جام شہادت نوش کیا۔
اہل بیت (علیہ السلام) کے دشمن آپ کی خاموشی اور عبادت اور درگاہ پروردگار میں آپ کے راز و نیاز کو بھی برداشت نہ کر سکے، کیونکہ اور امام کے روحانی اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے اور یہ بھی جان گئے تھے کہ آپ نے اپنی دانائی سے یزید بن معاویہ کے مشن کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔
شیعیان اہل بیت(ع) کے چوتھے امام کا پیکر مبارک جنت البقیع میں مدفون ہے؛ امام حسن مجتبیٰ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) کے پہلو میں۔
آپ کا مقام تدفین کسی وقت عظیم الشان گنبد اور روشن زیارت گاہ ہوا کرتا تھا، مگر آج وہ صرف مٹی کا ایک ڈھیر ہے، بے نشان، بے چراغ اور مظلوم۔
بقیع کی تنہائی ائمۂ شیعہ (علیہم السلام) کی تنہائی کا مظہر ہے۔ آج یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت نہ صرف خواتین کے لئے ممنوع ہے، بلکہ مردوں کو بھی محدود گھڑیوں میں، بہت سختی سے، حاضری دینے کی اجازت ہے۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے ہمیں سکھایا کہ مشکل ترین حالات میں بھی دعا کے ذریعے بات کی جا سکتی ہے اور ایمان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
آپ نے بغیر تلوار اٹھائے استقامت کا درس دیا، سپاہ و لشکرکے بغیر جدوجہد کی، اور اشک آلود لفظوں سے جہاد کیا۔
آج صحیفۂ سجادیہ نہ صرف عرفانی خلوتوں کی کتاب ہے، بلکہ اس شوریدہ دور اور جدید دور کی جاہلیت کے اندھیروں میں زندگی گذارنے کے لئے چراغ راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مریم سادات آجودانی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
امریکی دھمکیاں اور صہیونی جسارتیں سنگین اور ناقابل تلافی نتائج کی حامل ہوں گی
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ نے امریکی صدر کی جانب سے رہبر معظم کو دی گئی قتل کی دھمکی کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی گستاخانہ حرکات کے نتائج سنگین ہوں گے اور امریکہ، صہیونی حکومت اور ان کے اتحادی کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جامعۃ المصطفیٰ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ یہ علمی، دینی اور بین الاقوامی ادارہ جو عالمی سطح پر مکالمے، بقائے باہمی، امن، معنویت اور انصاف کے فروغ کا علمبردار ہے، مرجعیت کے دفاع میں بزرگ علمائے اسلام، بالخصوص حضرات آیات مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی کے صریح فتاویٰ کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کی طرف سے دینی و سیاسی قائد و رہبر کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن سمیت تمام انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنانا مذہبی نفرت کو ہوا دینے، پرتشدد رجحانات کو فروغ دینے اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ نے تاکید کی ہے کہ دنیائے اسلام کے اکابر علمائے کرام—چاہے وہ قم ہوں، نجف، الأزہر یا دیگر علمی مراکز—نے کسی بھی دینی و سیاسی شخصیت کو دھمکی دینا یا قتل کرنا صریحاً محاربہ اور فساد فی الارض قرار دیا ہے، جس کی شرعاً شدید مذمت اور سخت سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام آزاد اندیش افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اپنائیں تاکہ عالمی امن، روحانی اقدار اور انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
دشمن کی حماقت پر ایران کا جواب زیادہ سخت ہوگا، ایرانی مسلح افواج
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ابو الفضل شکار چی نے غاصب اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی مسلح افواج آئندہ کسی بھی اسرائیلی جارحیت کی صورت میں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور تباہ کن جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ بیت المقدس پر قابض غاصب صیہونی حکومت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت پر ہمارا ردعمل زیادہ طاقتور، شدید اور مؤثر ہوگا جس سے دشمن کو شدید پچھتاوا ہوگا۔
جنرل شکار چی نے مزید کہا کہ عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران نے حالیہ 12 روزہ جنگ میں غاصب اسرائیلی حکومت کو شکست دی اور اسے سخت نقصان پہنچایا۔ ہم نے اپنے حملوں کے ذریعے اس مجرم حکومت کو اپنی جارحیت روکنے پر مجبور کر دیا۔
جنرل شکار چی کے مطابق، ایرانی مسلح افواج مکمل تیار ہیں۔
انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کو سخت انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صیہونی غاصب حکومت نے دوبارہ کوئی اقدام کیا تو اسے شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل، جمعہ کے روز سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل علی محمد نائینی نے کہا تھا کہ اگر غاصب اسرائیل نے دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی قسم کی سرخ لکیر کا لحاظ نہیں کرے گا۔
اہلسنت غدیر پر ایمان رکھتے ہیں / واقعہ غدیر؛ اکمالِ دین، نعمت الہی اور اسلام کی تکمیل کا سبب ہے
امام جمعہ زاہدان نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "خالص سنی غدیر پر ایمان رکھتے ہیں"۔ خداوند متعال نے غدیر کو اکمالِ دین، الہی نعمتوں کی تکمیل کا ذریعہ اور امام علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام کو اپنا پسندیدہ مذہب کہا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی زاہدان سے امام جمعہ کے دفتر سے موصولہ رپورٹ کے مطابق، سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام والمسلمین مصطفی محامی نے زاہدان میں اس ہفتے کے نماز جمعہ کے خطبوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہدایت و راہِ راست کی درخواست، خلوصِ نیت اور خدا کی اطاعت و بندگی پر توفیق طلب کی جائے۔
حجت الاسلام محامی نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعای مکارم الاخلاق کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: اس دعا میں آیا ہے کہ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَ مَتِّعْنِی بِهُدًی صَالِحٍ لَا أَسْتَبْدِلُ بِهِ ، وَ طَرِیقَةِ حَقٍّ لَا أَزِیغُ عَنْهَا ، وَ نِیَّةِ رُشْدٍ لَا أَشُکُّ فِیهَا ، وَ عَمِّرْنِی مَا کَانَ عُمْرِی بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ ، فَإِذَا کَانَ عُمْرِی مَرْتَعاً لِلشَّیْطَانِ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ قَبْلَ أَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ إِلَیَّ ، أَوْ یَسْتَحْکِمَ غَضَبُکَ عَلَیَّ "
اس کا مطلب یہ ہے کہ "بارالہا ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسی نیک ہدایت سے بہرہ مند فرما کہ جسے دوسری چیز سے تبدیل نہ کروں اور ایسے صحیح راستے پر لگا جس سے کبھی منہ نہ موڑوں ، اور ایسی پختہ نیت دے جس میں ذرا شبہ نہ کروں اور جب تک میری زندگی تیری اطاعت و فرمانبرداری کے کام آئے مجھے زندہ رکھ اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے تو اس سے پہلے کہ تیری ناراضگی سے سابقہ پڑے یا تیرا غضب مجھ پر یقینی ہو جائے مجھے اپنی طرف اٹھا لے "۔
امام جمعہ زاہدان نے مزید کہا: کمال اور سعادت تک پہنچنے کے لیے انسان کو صحیح رہنمائی، صحیح اور ہموار راستے، ثابت قدمی، ارادہ اور منزل تک پہنچنے کے لیے درست نیت اور مواقع کی ضرورت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنی دعا میں خدا تعالیٰ سے ان تمام چیزوں کی درخواست کی ہے لیکن اس کے نقصانات کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے تاکہ یہ نعمت خطرے میں نہ پڑ جائے۔
سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ نے کہا: امام سجاد علیہ السلام راہ حق سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ خدا حق کا راستہ ہمارے سامنے رکھے اور ہمیں راہ حق سے روگردانی سے روکے کیونکہ بعض اوقات انسان کو صحیح اور غلط راستہ معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین محامی نے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ مقامِ فکر، عقیدہ اور عمل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت سے تمسک ہے۔
انہوں نے کہا: عیدِ غدیر ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات کے مطابق "عید اللہ الاکبر" اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق "انتہائی مہم اور کثیر خصوصیات کا حامل واقعہ" ہے۔
امام جمعہ زاہدان نے کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ غدیر کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کہ "جاؤ اور علی (ع) کو مبارکباد دو"۔ اور ان تمام لوگوں اور صحابہ کے سامنے خلیفۂ اول اور ثانی نے حضرت امام علی علیہ السلام کوولایت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا تھا: " بَخٍّ بَخٍّ لَک یا عَلِی أَصْبَحْتَ مَوْلَای وَ مَوْلَی کلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ" یعنی اے علی (ع)! آپ کو مبارک ہو جو آج آپ ہمارے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا و آقا بنے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا: یہ ولایت ایک ایسی خاص دوستی ہے جو عالم اسلام کے اتحاد و و حدت کا محور بن سکتی ہے۔
جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ
کبھی کبھی لفظوں سے نہیں، وقت کے سانسوں سے ہدایت برستی ہے۔ کبھی ایک جملہ، پوری امت کی تقدیر رقم کرتا ہے۔ غدیر کا واقعہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ نبوت کے بعد ہدایت کی امانت کا ابلاغ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب آسمان نے سجدہ کیا اور زمین نے گواہی دی کہ ہدایت کا چراغ خاموش نہیں ہوا، بلکہ اسے دوسرے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ جملہ شاید پڑھنے میں مختصر لگے، لیکن اگر روح اس کے اندر جھانک لے تو محسوس ہوگا کہ غدیر کا اعلان صرف ایک بیان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے فکری و روحانی سفر کا سنگِ میل ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب کلماتِ نبوت نے وقت کی نبض تھام کر آنے والی صدیوں کی سمت متعین کی۔ غدیر صرف ایک جلسہ، جشن یا صرف ایک اجتماع نہ تھا، بلکہ یہ مقامِ ابلاغ تھا اور نبوت کے اتمام اور امامت کے آغاز کا نقطۂ اتصال۔ یہاں الفاظ نہیں بول رہے تھے، یہاں صداقت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں رسولِ خدا (ص) نے صرف ایک شخصیت کو بلند نہیں کیا، بلکہ امت کو امانت سونپی۔
غدیر کے صحرا میں نبیؐ نے اچانک حکم دیا کہ "ٹھہرو!" کارواں رُک گیا۔ منبر بنا، چادر بچھائی گئی اور نبوت کے تاجدارؐ نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا اور کھلے الفاظ میں فرمایا "من کنت مولاہ، فھذا علی مولاہ!"، "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے۔" یہ جملہ نہ صرف الفاظ کا ایک خوبصورت سنگھار تھا، بلکہ پوری امتِ محمدیہ کے لیے قیادت، ولایت اور امامت کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ غدیر کے فوراً بعد آیت نازل ہوئی: "الیوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً"، "آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔" سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف دوستی کے اعلان پر دین مکمل ہوسکتا ہے۔؟ کیا محبت کے جذبات پر قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں۔؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ یقیناً انتہائی مضحکہ خیز و بچگانہ سوچ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علیؑ کی ولایت کا اعلان تھا، جس کے بغیر دین کی عمارت ادھوری رہتی۔ اس سے پہلے نبی کریم (ص) نے مجمعِ عام سے ایک اہم سوال کیا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟"، "کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! جب سب نے اقرار کر لیا، تب آپ نے فرمایا: "من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ۔۔۔" گویا نبیؐ نے پہلے اپنے اختیار اور ولایت کا اعتراف کروایا، پھر علیؑ کو اسی اختیار کا وارث قرار دیا۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے لئے جس نکتے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کا مطلب صرف دوست یا محبوب نہیں ہوسکتا، یعنی یہ معقول نہیں، کیونکہ نبیؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے، وہ صرف ایک دوست کا نہیں ہوسکتا۔
اگر "مولیٰ" کا مطلب صرف دوست مانا جائے تو کیا نبیؐ بھی امت کے صرف دوست تھے؟ کیا وہ صرف محبت بانٹنے والے تھے۔؟ نہیں! بلکہ نبیؐ امت کے رہنماء تھے، امام تھے، صاحبِ امر تھے اور اولیٰ بالتصرّف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت علیؑ کے لیے وہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہی معانی، وہی مفاہیم اور وہی عظمتیں علیؑ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک ہی جملے میں ایک ہی لفظ دو الگ معنی کیسے رکھ سکتا ہے۔؟ یہ بلاغت کے اصولوں کے خلاف ہے، فصاحت کے ادب سے باہر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نبوت کی حکمت اور خدا کے الفاظ کی توقیر کے منافی ہے۔ "مولا" کا مطلب وہی ہے، جو نبیؐ کے لیے تھا، یعنی اختیار، ولایت، رہبری، رہنمائی اور اولی بالتصرف۔
اسی لیے علیؑ کو "مولیٰ" کہنا دراصل انہیں نبیؐ کے بعد امت کا روحانی، فکری، دینی اور عملی قائد تسلیم کرنا ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها"، "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" کیا یہ بھی محض محبت کا اظہاریہ تھا کہ فرمایا: "علی مع الحق والحق مع علی"، "علی حق کے ساتھ ہے،اور حق علی کے ساتھ ہے۔۔۔" نہیں، صاحبو! یہ سب جملے امامت، رہبری اور ولایت کے مظاہر تھے۔ نبیؐ نے کسی محبوب صحابی کو اس انداز میں پیش نہیں کیا، جیسے علیؑ کو کیا، لیکن افسوس! بعض نے "مولا" جیسے مقدس لفظ کو صرف "دوستی" تک محدود کرکے نبوت کے اس روشن اعلان کو غبارِ تاویل میں گم کر دیا! انہوں غدیر کے منبر کو محض ایک خطبہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ آئندہ صدیوں کا نقشہ تھا۔
مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ فقط تاریخی طور پر، بلکہ شعوری طور پر۔اگر ہم نے "مولا" کو اس کے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اس کی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔
تحریر: محمد حسن جمالی
غدیر کا انکار اور امتِ مسلمہ کی گمراہی کا نوحہ
روز غدیر تاریخِ اسلام کا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا اعلان پیغمبر مکرم اسلام کی 23 سالہ زحمتوں پر بھاری ثابت ہوا۔ اس حقیقت کا اظہار خالق دو جہاں کی طرف سے نہ کنائے کی صورت میں ہوا اور نہ اشارے کی شکل میں، بلکہ نص قرآن کے ذریعے ہوا۔ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔۔"، "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔" تفسیر الکوثر کی نقل کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع 10 ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی، جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے 80 طریق سے، علامہ ابن عقدہ نے 105 طریق سے، علامہ ابن سعید سجستانی نے 120 طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے 125 طریق سے روایت کیا ہے۔ ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں 110 اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے ۔۔موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے
2) ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔
3) عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔
4) عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲: ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
5) جابر بن عبداللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
6) ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
7) براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 2، صفحہ 559) روز غدیر پیغمبر اکرم (ص)یہ فرمان کہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" فقط ایک سیاسی بیعت یا ذاتی محبت کا اظہار نہ تھا، بلکہ یہ ایک ربانی منصوبے کی تکمیل تھی۔ علیؑ کی ولایت کا اعلان، دین کی بقاء کا سامان تھا، مگر صد افسوس! بعض نادان اور مغرض افراد نے اس اعلان کو تاریخ کے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔
قارئین کرام؛ غدیر کا انکار وہ المیہ ہے، جس کی گونج ہر صدی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کی بازگشت کربلا کی صحراؤں میں سنائی دیتی ہے، جہاں پیاسے حلقوں نے حق کی گواہی دی اور اس امام کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، جس کے نانا نے غدیر میں اعلانِ ولایت فرمایا تھا۔ غدیر وہ نظریہ ہے، جو قیادت، خلافت اور روحانیت کے معیار متعین کرتا ہے۔ اس دن یہ بات واضح ہوئی کہ امامت و قیادت کسی قبائلی فخر یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم، تقویٰ، عدل اور قربِ الہیٰ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ علیؑ کی ذات، نبی کے بعد وہ واحد شخصیت تھی، جس میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی تلوار صرف معرکہ جنگ میں نہیں، بلکہ جہل، تعصب اور باطل نظریات کے خلاف بھی چمکتی تھی۔ ان کا علم صرف فتووں تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ فکری جہات کو روشن کرنے والی روشنی تھی۔
مسلمانوں کی اکثریت نے غدیر کے چراغ کو بجھا کر خود اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ جب غدیر کو بھلا دیا تو پھر نہ عدل باقی رہا، نہ علم کی حرمت، نہ صداقت کی بقا۔ خلافت حکومت میں بدل گئی اور سیاست دین کے جسم پر مسلط ہوگئی۔ جنہوں نے اہل بیتؑ کو نظر انداز کیا، انہوں نے حقیقت میں قرآن کو بوسیدہ اور دین کو مجروح کر دیا ہے۔ جب غدیر کو دبا گیا تو طرح طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا اور امت کے جسم میں فرقہ واریت کے خنجر پیوست ہونے لگے۔ اگر امت نے غدیر کے پیغام کو سینے سے لگا لیا ہوتا تو نہ یزید جیسا فاسق برسرِ اقتدار آتا، نہ کربلا کی ہولناک داستان رقم ہوتی، نہ امت اتنی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی۔ اہل بیتؑ کی علمی، روحانی اور اخلاقی رہنمائی اگر معاشروں کا حصہ بن جاتی تو آج امت تہذیب و تمدن کے اوج پر ہوتی۔
غدیر کی فراموشی کے اثرات صرف ماضی تک محدود نہیں۔ آج بھی ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ قیادت کا تصور اب دولت، طاقت اور لسانی و نسلی وابستگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ قومیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں، مسالک کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک مخصوص ٹولہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہہ کر دین کا پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ قرآن جو ہدایت کی روشن کتاب ہے، اب محض قاری کی تلاوت اور حافظ کی یادداشت تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کی روح، اس کا پیغام اور اس کی انقلابی قوت ہماری فکری روایت سے اوجھل ہوچکی ہے۔ دین کے حقیقی نمائندے، یعنی اہل بیتؑ، اب صرف مجالس اور چند مخصوص ایام کا حصہ بن چکے ہیں، نہ کہ روزمرہ کی فکری، اخلاقی اور سیاسی زندگی کا۔ یہ روحانی زوال اسی وقت شروع ہوا، جب غدیر کے عہد کو بھلا دیا گیا۔
آج امت کو جس زوال، انتشار اور پسماندگی کا سامنا ہے، وہ اسی ایک بنیادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یعنی غدیر کو نظرانداز کرنے کا۔ یہ وہ بھول تھی، جس نے ہماری معنوی اساس کو کمزور کر دیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو منتشر۔ ہم نے وحدتِ اسلامی کے اس مرکز کو بھلا دیا، جو سب کے لیے سایۂ رحمت بن سکتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر واپس آئیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو حاضر کریں۔ ہمیں غدیر کی صداؤں کو دل سے سننے کی ضرورت ہے، اس اعلانِ نبوت کو اپنانے کی ضرورت ہے، جو علیؑ کی ولایت میں مضمر ہے۔ قیادت کو دوبارہ عدل، تقویٰ، علم اور روحانیت کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں سیاست کو دین کا تابع بنانا ہوگا، نہ کہ دین کو سیاست کا خادم۔
اگر آج بھی ہم غدیر کے چراغ کو اپنے دلوں میں روشن کریں تو وہ صبح ضرور طلوع ہوسکتی ہے، جس کی روشنی میں امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہو جائے، جہاں کوئی فقہی، لسانی یا جغرافیائی حد ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرے، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی رشتہ قائم ہو جائے، جو محبت، اخوت اور عدل پر مبنی ہو۔ غدیر کا پیغام ایک ازلی صدا ہے، جو صرف ایک مخصوص مکتبِ فکر یا مسلک کا اثاثہ نہیں، بلکہ ہر اُس دل کی پکار ہے، جو حق کا متلاشی، عدل کا پیاسا اور روحانیت کا طالب ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جو تاریخ کے ہر موڑ پر مظلوم کی آہ، محروم کی پکار اور محبِ علیؑ کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتی ہے۔ غدیر ہمیں صرف علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں سکھاتا، بلکہ وہ طرزِ قیادت عطا کرتا ہے، جس میں خودی مٹ جاتی ہے اور خدا کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ پیغام، ہمیں اصولوں سے جڑے رہنے، سچائی پر استقامت اختیار کرنے اور مصلحت کے پردوں کو چاک کرکے حق کی ترجمانی کرنے کا درس دیتا ہے۔
آج، جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور روحانی خلا کا شکار ہے تو ہمیں اسی غدیر کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وحدت کا خواب صرف تقاریر، قراردادوں یا جلسوں سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو غدیر کے اصولوں پر استوار نہ کریں۔ غدیر ہمیں علیؑ جیسی قیادت کی تلاش کا شعور دیتا ہے، جو محراب میں شہید ہو، مگر عدل سے پیچھے نہ ہٹے؛ جو یتیم کے آنسو کو بھی اپنی ریاست کی پالیسی کا مرکز بنائے؛ جو بیت المال کو امانت سمجھے اور اپنی تلوار صرف دشمنِ دین پر اٹھائے، نہ کہ اقتدار کے حریصوں پر۔یہ پیغام ہمیں قرآن کو صرف تلاوت سے آگے لے جا کر، اس کے فہم، تدبر اور معنوی تاثیر کو اپنانے کا کہتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کو عبادات کی قید سے نکال کر ایک ہمہ گیر، حیات افروز نظامِ فکر میں تبدیل کریں۔ ایسا نظام جو مسجد سے عدالت، بازار سے ایوانِ حکومت اور فرد سے معاشرہ تک عدل، تقویٰ، علم اور محبت کا پرچار کرے۔
اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔
ایران پر اسرائیلی حملہ۔۔۔ چند معروضات
اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تین قسم کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جو ایران کے اندھے حامی ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی تحقیق کے جنگ سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی خبر اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایسی خبروں کی بہتات ہوتی ہے کہ ایران نے دھاوا بول دیا ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا گروہ ایران کے اندھے دشمنوں کا ہے، جن کا موقف یہ ہے کہ ایران کے مخالف خواہ یزید ہی کیوں نا ہو، وہ یزید کا ساتھ دیں گے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مستضعف، متعصب، تنگ نظر اور انتہائی جاہل ہیں، سو لائقِ ذکر نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک بڑا بزرگ کہہ گیا تھا کہ "ایہہ وچوں رلے ہوئے ہن جدوں ایران حملہ کرے یا مخالف تے میری قبر تے۔۔۔۔" شہری حفاظت کے پیش نظر اس وصیت پر تو عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔
بہرحال تیسرا گروہ خاصا معتدل تو ہے مگر وہ بھی اکثر و بیشتر جذبات کا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس گروہ میں کئی دانشوران موجود ہیں، جو اپنی فہم و دانش کے مطابق جنگی حکمت عملی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جنگ ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر طعن و تشنیع اور مختلف انداز میں طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں، جو صرف اٹینشن سیکنگ اور زیادہ سے زیادہ آڈینس کے لیے کبھی کبھار چول تک بھی مار دیتے ہیں کہ اس سے فالوورز میں اضافہ ہوگا۔ بعض حمایت میں ان سے آگے نکل جاتے ہیں اور خود کو ان کے دفاعی ماہرین وغیرہ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں۔ لگے ہوتے ہیں کہ یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یہ ہو جاتا اور اس جیسی کئی بے تکی باتیں۔
یہاں ایک نکتے کا ذکر بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کے لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جنگ ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی اور نا ہی جن پر جنگ مسلط ہوئی ہے، وہ ان چیزوں سے واقف نہیں، جن سے ہمارے دانشور آگاہ ہیں۔ فیلیر ہے یا پھر جو کچھ، ایسے وقت میں دشمن کی زبان بولنا دشمن کو مضبوط کرنا، اسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اس حساس ترین وقت میں اپنی دانش جھاڑ کر دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنے برادر اسلامی ملک کا کم از کم اخلاقی سطح پر تو ساتھ دیں۔ جذباتیت سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر بھی اگر غیر جانبداری سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو ماضی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک خواہ کوئی بھی ہو، اگر وہ انسان دشمن عناصر کے خلاف مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہو تو پھر کامیاب ہو کر رہتی ہے۔
اسرائیل کی غزہ پہ جاری جارحیت کس سے عیاں ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آج کس صاحب عقل سے ڈھکی چھپی ہے، سو ایسے میں ایران حق پر ہے اور اس کا ساتھ دینا ہر باشعور شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ ایران کا مخالف خطے بھر میں بدامنی کا باعث ہے اور یہ آگ اگر آج نا روکی گئی تو پھر کئی بلکہ سارے گھر زد میں آئیں گے اور ہمارا مکان بھی یہیں ہے۔ لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آگ کے بھڑکنے سے پہلے ہی اس پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنے ہمسایہ ملک کی حمایت اور جارح ملک کی مذمت کی ہے۔ رہی بات ایران کی مضبوطی کی تو ساشے پیک تجزیہ کار اور سستے دانشوروں کی کل معلومات کا حدود اربعہ سوشل میڈیا ہے اور ان کی دوڑ ایک سائٹ سے دوسری سائٹ تک ہے۔
یہ ہرگز نہیں جانتے کہ جس ملک میں انقلاب کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھماکہ ہوا اور تمام اراکین شہید ہوگئے، جن میں انقلاب کے اولین لوگ بھی شامل تھے، کہنے والے کہتے رہے کہ اب انقلاب ختم، اس پر مجھے جمی کارٹر کا جملہ یاد آرہا ہے کہ "لیکن خدا خمینی کے ساتھ تھا" انقلاب مزید مضبوط ہوا اور اتنا زیادہ مضبوط ہوا کہ خمینی جیسے مرد درویش کا نعرہ "لا شرقیہ ولا غربیہ سپر پاور ہے خدا" آج ہمیں عملی صورت میں نظر آتا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت پر پھر مجھ ایسے نوجوان انقلابیوں نے یاسیت کا اظہار کیا اور ابراہیم رئیسی و دیگر شہداء کی مرتبہ بھی ایک طبقے کا یہی رویہ رہا کہ اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو فلاں ڈھمکاں۔۔۔ اسی طرح باقی شہادتوں پر بھی یہی رویہ اور اب بھی یہی کہ کیڑے نکال رہے ہیں، گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جبکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ اخلاقی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سطحی طور سے دیکھنے کے عادی ہیں اور فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں، جبکہ تحریک اور پھر الہیٰ تحریکوں میں جیت اور ہار کے پیمانے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو درس انقلاب دیا تھا، اس کے ماننے والے اپنی کامیابی و ناکامی اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں، ایسے میں افراد کے جانے سے نظام یا نطریہ دھڑام سے گر نہیں جاتا بلکہ زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لیڈر یا بڑی شخصیات بننے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور ان نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا، مگر ایسے میں برادر بزرگوار ارشاد حسین ناصر کا ایک خوبصورت ترین جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر یہ لوگ شہید نہ ہوں تو باعث حیرت ہے، شہادت کے متلاشی، شہادت کیلئے تڑپنے والے اپنے مقصد کو پاگئے۔ اپنے رفقاء کے بغیر جینا دشوار ہوتا ہے۔"
سو ان لوگوں کا نقصان اپنی جگہ، مگر انہوں نے اپنا کام کر دیا، منزل حاصل کر لی اور اپنی جگہ جانشین بھی تیار کر گئے۔ سید حسن کی شہادت سے بظاہر حزب کمزور لگ رہی ہوگی ہمیں، مگر وہ اپنے نظریات پر پختگی سے کاربند کھڑے ہیں۔ اسی طرح اب کی شہادتوں سے بھی گھبرا کر مزاحمت کی کمزوری کا رونا الاپ کر اپنی مایوسی کا اطلاق مقاومت پر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مقاومت کے تمام بلاکس ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر ہم جو نادانستگی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، آخر کب عقل کا استعمال کریں گے۔؟ آخر میں فیسبکی دانشوروں کے لیے جن کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کرنا ہے، آیت اللہ خمینی کا فرمان اگر سمجھ آجائے تو افاقہ ہوگا۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کہا تھا کہ بھلے ایران یا میں ختم ہو جاوں تو کیا!!!!!! اسلام ختم ہو جائے گا۔؟ کیا راہِ شہادت ختم ہو جائے گی۔؟ ہم سے بہتر ایمان، عقیدہ اور جذبہ رکھنے والے آجائیں گے۔ ہم سب یا تو الہیٰ وعدہ کو مان لیں کہ آخری فتح حق کی ہے۔ یا باطل کی بیعت کرلیں اور زندہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
باذن اللہ! صیہونی رجیم دردناک اور تلخ انجام کا سامنا کریگی، سید علی خامنہ ای
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت پر رہبر مسلمین جہان حضرت الله "سید علی خامنهای" نے ایک پیغام جاری کیا۔ پیغام کا متن کچھ یوں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عظیم ایرانی قوم!
آج صبح صیہونی رژیم نے ہمارے پیارے ملک کے خلاف اپنے خون آلود ہاتھوں سے جرم کا ارتکاب کیا اور رہائشی مراکز پر حملہ کر کے اپنے نجس وجود کو مزید بے نقاب کیا۔ صیہونی رژیم سخت سزا کی منتظر رہے۔ انشاءاللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مضبوط مسلح افواج، جارحین کو سبق سکھائے گی۔ دشمن کے حملے میں کئی کمانڈروں اور سائنسدانوں نے شہادت حاصل کی۔ انہی شہداء کے جانشین اور ساتھی انشاءاللہ فوری طور پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ صہیونی رژیم نے یہ بھیانک اقدام اٹھا کر اپنے لئے دردناک اور تلخ انجام کو دعوت دی ہے، جو یقیناً اسے مل کر رہے گا۔
سید علی خامنهای