سلیمانی
وہ انقلاب جس نے عورت کو فیصلے اور ارادے کی قوت عطا کی
مرحوم علامہ طباطبائیؒ "جو تفسیر المیزان کے مصنف ہیں" نے سورہ بقرہ کی آیات 228 تا 242 کی تفسیر میں یہ وضاحت کی ہے کہ اسلام اور دیگر ادیان و اقوام میں عورت کے حقوق، شخصیت اور سماجی مقام کے بارے میں کیا اصول پائے جاتے ہیں۔ ذیل میں اسی سلسلے کی گیارہویں قسط پیش کی جا رہی ہے۔
اسلام میں عورت کا سماجی مقام اور حیثیت
اسلام نے عورت اور مرد دونوں کو معاشرتی معاملات، فیصلہ سازی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں برابر کا حق دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح مرد کھانے، پینے، پہننے اور زندگی کے دیگر تقاضے پورے کرنے کا محتاج ہے، عورت بھی انہی ضروریات کی حامل ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے: "بَعۡضُکُم مِّنۢ بَعۡضٍ" یعنی تم سب ایک دوسرے ہی کی جنس سے ہو۔
لہٰذا جس طرح مرد اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے، خود عمل کرنے اور اپنی محنت کا مالک بننے کا حق رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنی کوشش اور عمل کی مالک ہے۔
قرآن فرماتا ہے: "لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ"یعنی عورت اور مرد، دونوں اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔چنانچہ اسلام کے نزدیک حقوق کے دائرے میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ البتہ اللہ نے فطرتِ انسانی کے تحت عورت میں دو خصوصی صفات رکھی ہیں جن کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں اور معاشرتی کردار کچھ پہلوؤں میں مرد سے مختلف ہو جاتا ہے۔
عورت کی تخلیق میں دو امتیازی خصوصیات
1. نسلِ انسانی کی پرورش کا مرکز
اللہ نے عورت کو نسلِ انسانی کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنایا۔
بچہ اسی کے وجود میں نشوونما پاتا ہے، اسی کے بطن میں پروان چڑھ کر دنیا میں آتا ہے۔
اس لیے بقایائے نسلِ بشر عورت کے وجود سے وابستہ ہے۔
اور چونکہ وہ "کھیتی" (قرآن کے لفظ میں: حرث) ہے، اس حیثیت سے اس کے کچھ خاص احکام ہیں جو مرد سے مختلف ہیں۔
2. جذب و محبت کی لطیف فطرت
عورت کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مرد کو اپنی طرف مائل کر سکے تاکہ نکاح قائم ہو، خاندان وجود میں آئے اور نسل باقی رہے۔
اسی مقصد کے تحت:
اللہ نے عورت کی جسمانی ساخت کو لطیف بنایا
اور اس کے احساسات و جذبات کو نرم و رقیق رکھا
تاکہ وہ بچے کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریوں کے مشقت بھرے مرحلوں کو بہتر طریقے سے نبھا سکے۔
یہ دونوں خصوصیات "ایک جسمانی، ایک روحانی" عورت کی سماجی ذمہ داریوں اور کردار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
یہی ہے اسلام میں عورت کا مقام اور سماجی حیثیت، اور اسی بیان سے مرد کا سماجی مقام بھی واضح ہو جاتا ہے۔ یوں دونوں کے مشترک احکام اور ہر ایک کے مخصوص احکام میں جو پیچیدگیاں نظر آتی ہیں، وہ بھی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔
جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَکُمْ عَلَیٰ بَعْض لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِه إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًاـ»
"اور تم اس فضیلت کی تمنا نہ کرو جو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر دی ہے۔ مردوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی کا حصہ۔ اور اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو؛ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔"
اسلام کا توازن: نہ مرد افضل، نہ عورت
اسلام وضاحت کرتا ہے کہ: کچھ فضیلتیں خالص فطری ذمہ داریوں کی وجہ سے مختص ہوتی ہیں
کچھ فضیلتیں عمل اور کردار پر منحصر ہوتی ہیں، جو دونوں کے لیے یکساں ہیں مثلاً: مرد کا حصۂ وراثت عورت سے زیادہ رکھا گیا۔
گھر کا خرچ عورت پر لازم نہیں کیا گیا— یہ اس کی فضیلت ہے لہٰذا: مرد یہ آرزو نہ کرے: "کاش گھر کا خرچ میری ذمہ داری نہ ہوتا" عورت یہ آرزو نہ کرے: "کاش وراثت میں میرا حصہ برابر ہوتا"
اس لیے کہ یہ فطری ذمہ داریوں کی بنیاد پر تقسیم ہیں، نہ فضیلت یا کمی کی بنیاد پر۔ باقی فضیلتیں "جیسے ایمان، علم، عقل، تقویٰ اور نیکی" خالصتاً عمل پر منحصر ہیں۔ یہ نہ مرد سے مخصوص ہیں نہ عورت سے؛ جو زیادہ عمل کرے گا، وہی زیادہ مقام پائے گا۔ اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا گیا: "وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ" یعنی اللہ کے فضل کا طلبگار بنو۔
(منبع: ترجمہ تفسیر المیزان، جلد 2، صفحہ 410)
سفارتی کوششوں کی طرح، اسرائیل اور امریکہ نے "قاہرہ معاہدے" کا بھی گلا گھونٹ دیا: سید عباس عراقچی
سید عباس عراقچی نے لکھا ہے کہ جون کے مہینے میں جس طرح اسرائیل اور امریکہ نے سفارتکاری پر وار کیا اسی طرح "قاہرہ معاہدے" کو بھی امریکہ اور یورپی ٹرائیکا نے قتل کردیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس ناپسند اور شرمناک سلسلے نے صورتحال کو یہاں تک پہنچایا ہے۔
وزیر خارجہ نے اپنے ایکس پوسٹ میں لکھا ہے کہ جب ایران امریکہ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے چھٹے دور کی تیاری کر رہا تھا تو اسے صیہونی حکومت اور پھر امریکی حملے کا سامنا کرنا پڑا اور ان واقعات کے بعد اور ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملے کے باوجود، جب قاہرہ میں مصر کی ثالثی میں معائنہ کاری کو بحال کرنے کے لیے آئی اے ای اے کے ساتھ اتفاق حاصل ہوا، تو یورپی ٹرائیکا نے امریکہ کے دباؤ میں آکر ایرانی عوام پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کو بحال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
اور اس بار جب ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات تک آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دسترسی دینا شروع کی اور ان جوہری مراکز کا معائنہ کروایا گیا جو بمباری سے محفوظ تھے تو امریکہ اور تین یورپی ملکوں نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کروا دی۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لکھا ہے کہ اب سب پر واضح ہوگیا ہے کہ: یہ ایران نہیں جو ایک نئے بحران کا خواہاں ہے بلکہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ کشیدگی بڑھا رہے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ قاہرہ معاہدے کا خاتمہ بھی انہیں کی حرکتوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
اسرائیلی قرارداد
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ چند ماہ کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ قرارداد نمبر 2803 منظور کر کے کیا ہے جس نے غزہ کے مستقبل کو نیا رخ دے دیا ہے اور ایسے راستے پر گامزن کر ڈالا ہے جو امید کے ساتھ ساتھ خوف بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ قرارداد 13 ووٹوں کی حمایت سے منظور کی گئی جبکہ روس اور چین نے غیر جانبدارانہ ووٹ دیا اور اس کے تحت غزہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت "امن کمیٹی" اور "انٹرنیشنل فورس" کی تعیناتی قانونی قرار دے دی گئی ہے۔ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ انتظامی ڈھانچہ غزہ میں تعمیر نو اور معیشت کی بحالی کی ذمہ داری سنبھالے گا اور نیز اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا کام بھی انجام دے گا۔ اس قرارداد پر مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔
ایک طرف مغربی ممالک اس فیصلے کو فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک قدم قرار دے رہے جبکہ دوسری طرف فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اسے غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی تھونپنے اور اسے واحد فلسطینی جغرافیے سے کاٹ دینے کی ایک کوشش قرار دی ہے۔ اس تنظیم کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ فلسطینی قوم کے تاریخی حقوق کے لیے خطرہ ہے اور اس سے نئے اور خطرناک حقائق جنم لیں گے۔ حماس نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی مسلط کردہ انتظامی ڈھانچہ اس عوام کی مرضی کا متبادل قرار نہیں پا سکتا جو دو سال کی تباہ کن جنگ کی ویرانیوں پر کھڑے ہو کر اب بھی اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے حق کے لیے لڑ رہی ہے۔ ایسی جنگ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اب بھی جاری ہے اور غزہ کی عوام اسے متاثر ہو رہی ہے۔
غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت
حماس نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت ایک جائز اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں طے شدہ حق ہے، اپنے بیانیے میں کہا ہے کہ اسلامی مزاحمت کے ہتھیار قومی تشخص کا حصہ ہیں اور وہ غاصبانہ قبضے کے تسلسل سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا ان ہتھیاروں کے بارے میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت کا آغاز غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے سیاسی عمل، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیے جانے سے مشروط ہو گا۔ اس بیانیے میں حماس کو غیر مسلح کرنے سمیت غزہ کے اندرونی معاملات کسی انٹرنیشنل فورس کے سپرد کیے جانے کو اس فورس کی غیر جانبداری کے خاتمے اور اسے فلسطین تنازعہ کے فریق میں تبدیل کر دینے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
حماس کی نظر میں یہ اقدام عملی طور پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے حق میں رہے گا۔ حماس نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ انٹرنیشنل فورس تشکیل پاتی ہے تو اس کی ذمہ داری صرف سرحدوں پر تعیناتی اور جنگ بندی کی نظارت تک محدود ہونی چاہیے اور اسے اپنی سرگرمیاں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی انجام دینی چاہئیں نیز اسے فلسطین کے سرکاری اداروں سے تعاون کا پابند بھی ہونا چاہیے اور غاصب صیہونی رژیم کا اس میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ حماس نے مزید کہا ہے کہ اس انٹرنیشنل فورس کا اصل مقصد انسانی امداد کی فراہمی ضروری بنانا ہونا چاہیے اور اسے عوام پر مسلط کردہ سیکورٹی فورس کے طور پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلامک جہاد فلسطین نے بھی ملتا جلتا موقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی ہر گز قبول نہیں کی جائے گی۔
ٹرمپ منصوبے کی عنقریب شکست
ڈونلڈ ٹرمپ نے بیس نکات پر مشتمل غزہ امن منصوبہ پیش کیا تھا اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 29 ستمبر کے دن امریکہ میں اس کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے، غزہ کو تمام ہتھیاروں سے عاری علاقہ بنانے، غزہ کی تعمیر نو، غزہ کا انتظام انٹرنیشنل سٹیبلٹی فورس کے سپرد کرنے اور غزہ کا انتظام ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں تشکیل پائی امن کمیٹی کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی چینل 13 نے اعلان کیا ہے کہ وائٹ ہاوس حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ دیگر ممالک غزہ کو ہتھیاروں سے عاری کرنے کے لیے انٹرنیشنل فورس بھیجنے پر راضی نہیں ہیں۔ صیہونی وزیر جنگ یسرائیل کاتز نے کہا: "اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، کوئی فلسطینی ریاست تشکیل نہیں پائے گی۔"
محمود عباس کو گرفتار کرنے کی دھمکی
سلامتی کونسل میں امریکہ کے پیش کردہ امن منصوبے کا ایسی سمت میں جانا جس کا صیہونی انتہاپسند حلقے توقع نہیں کر رہے تھے، ان انتہاپسند حلقوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھ جانے کا باعث بنا ہے۔ صیہونی رژیم کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن غفیر نے پیر کے دن کہا کہ اگر اقوام متحدہ ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی سمت آگے بڑھی تو فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو گرفتار کر لیا جائے گا اور فلسطین اتھارٹی کے دیگر اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ یہ بیان سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے چند ہی گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزرا نے فلسطین کے خلاف زہر آلود بیانات دینے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے میں شدید چیلنجز کا سامنا ہو گا۔
تحریر: علی احمدی
امام خمینیؒ نے دین کو انسانی زندگی کا بنیادی عنصر قرار دیا
امام خمینیؒ نے دین کو انسانی زندگی کا بنیادی عنصر قرار دیا، رہبر انقلاب اسلامی
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 2006ء میں اپنے ایک تاریخی خطاب میں انقلابِ اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی غیر متزلزل ایمان، بصیرت اور عزم و استقامت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینیؒ نے خالص اور پختہ ایمان کے سہارے، مشکلات اور دھمکیوں کے باوجود، میدان میں قدم رکھا اور دین کو انسانی زندگی کا بنیادی ستون قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امام خمینیؒ نے اُس دور میں دین پر مبنی نظامِ حکومت کی بنیاد رکھی جب مذہب کو صرف انفرادی معاملات تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ اُن کے پختہ عزم اور دوراندیشی نے ایک ایسی حقیقت کی بنیاد رکھی جو آج اس قدر مضبوط ہو چکی ہے کہ بڑی طاقتیں اپنی تمام تر سازشوں اور کوششوں کے باوجود اس کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ استکباری طاقتوں کی دشمنی دراصل اسلامی نظام نہیں بلکہ امام خمینیؒ کے افکار و نظریات کے خلاف ہے۔ امام کی وفات کے سترہ برس بعد بھی ان کی شخصیت اور ان کے نظریات دشمنوں کے حملوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام خمینیؒ کے افکار و نظریات آج بھی دنیاۓ اسلام میں زندہ ہیں، اور مختلف اسلامی ممالک میں ایرانی حکام کے دوروں کے دوران مسلمان عوام کی محبت و عقیدت اس بات کی علامت ہے کہ امام کے افکار نے عالمِ اسلام میں گہری جڑیں پکڑ لی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا کہ امام خمینیؒ کے کلمات، پیغامات اور وصیت نامہ اُن کے نظریات کا واضح اظہار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ امام کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں اپنے طرزِ عمل سے اس وفاداری کو ثابت کرنا چاہیے۔ امام کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہوئے مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے وابستگی یا ذاتی مفاد کے حصول کی کوششیں امام کے راستے سے انحراف ہیں۔
بحیرہ کیسپین ہمارے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ خلیج فارس/ایران کے روس کے ساتھ تعلقات اسٹریٹجک ہیں: وزیر خارجہ عباس عراقچی
رشت میں بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے ساحلی صوبوں کے گورنروں کے پہلے اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے پڑوسی ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم اصول ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کیسپین سی کے تمام ساحلی ممالک کے ساتھ تعلقات بہترین ہیں اور ہم نے ان میں سے کچھ ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات بھی قائم کیے ہیں۔
انہوں نے روس اور ایران کو ایک دوسرے کے اسٹریٹیجک شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ایران اور روس کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے بیس سالہ طویل مدتی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صدر پزشکیان نے روس کے بعد جمہوریہ آذربائیجان کا بھی اہم دورہ کیا تھا اور وہ اگلے مہینے میں قزاقستان اور ترکمانستان کا بھی دورہ کریں گے۔
سیدعباس عراقچی نے کہا کہ اس خطے کے سربراہان مملکت کے درمیان بہت گہرے تعلقات قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بحیرہ کیسپین کا خطہ توانائی اور راہداریوں اور ٹرانزٹ روٹس دونوں لحاظ سے اہم ہے، کیسپین سی کے راستوں کو استعمال کرتے ہوئے اس خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کا فروغ اہمیت کا حامل ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے زیارتی شہروں کے ساتھ ساتھ بحیرہ کیسپین کے ساحل پر واقع ایران کے تین صوبے گیلان، مازندران اور گلستان ایرانیوں کے لیے سب سے بڑے سیاحتی مقامات ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ بحیرہ کیسپین سے متصل ممالک سیاحوں کے لیے بھی سیاحتی مقام میں تبدیل ہوجائيں گے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کی جانب سے مغرب کے ایران مخالف اقدامات کی مخالفت
24ویں اجلاس کے اختتام پر، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے اعظم نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں بات چیت اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا اور جوہری مسئلے کے بہانے مغربی ملکوں کے ایران مخالف اقدامات کی مخالفت کا اعلان کیا۔
اس مشترکہ بیان پر ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف اور اجلاس میں شریک شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر اعلیٰ حکام نے دستخط کیے۔
مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا گيا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اقتصادی پابندیوں سمیت ہر قسم کے یکطرفہ کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے اقدامات کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور عالمی اصولوں سے متصادم بھی ہیں اور بین الاقوامی تعاون اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی رکاوٹ ہیں۔
بیان میں کہا گيا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 8 کے تحت قرارداد 2231 منسوخ ہوچکی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالمِ ہستی میں عبد و معبود کے درمیان رابطے کی سب سے عظیم کڑی ہیں
حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ، حجۃ الاسلام و المسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے کہا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پوری کائنات میں انسان اور خدای متعال کے درمیان رابطے اور اتصال کا عظیم ترین وسیلہ ہیں، جن کی معرفت انسان کو قربِ الٰہی تک پہنچاتی ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین کوہساری نے قزوین میں شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی بی دو عالم سلام اللہ علیہا نبوت اور امامت کے درمیان ایک مقدس اور ناگزیر حلقۂ اتصال ہیں، جنہوں نے امت اسلامیہ تک معارفِ نبوت اور تعلیماتِ امامت کی صحیح اور محفوظ شکل پہنچانے میں بے مثال کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود خداوندِ متعال کی سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہمیں اس عظیم عطیۂ الٰہی پر ہمیشہ شکر گزار رہنا چاہیے۔
حوزہ علمیہ ایران کے بین الاقوامی امور کے سربراہ نے مزید کہا: "مشکلات اور گرفتاریوں میں سب سے کارگر وسیلہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا توسل ہے۔ اگر کوئی پریشانی لاحق ہو تو اس صلوات کو اخلاص کے ساتھ ایک بار پڑھیں: «اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَة وَ اَبیها وَ بَعْلِها وَ بَنیها وَ سِرِّ الْمُسْتَوْدَعِ فیها بِعَدَدِ ما اَحَاطَ بِهِ عِلْمُکَ»"
انہوں نے کہا کہ قرآن و احادیث میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عظمت، مقام اور طہارت کے بارے میں بے شمار دلنشین اور ایمان افروز بیانات موجود ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہدایتِ انسانیت کا مرکزی نقطہ ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ خداوندِ عالم نے ہمیں دنیا میں اس لیے رکھا ہے کہ ہم قربِ الٰہی تک پہنچ سکیں، اور یہ راستہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ مومنین کو چاہیے کہ دعا، مناجات اور شکرگزاری کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں اور خدا کی نعمتوں کو اس کی رضا کے راستے میں استعمال کریں۔
ڈکٹیٹ شدہ مذاکرات میں ہرگز شرکت نہیں کریں گے: ایرانی وزیر خارجہ
تہران ڈائيلاگ فورم کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سفارت کاری اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران انصاف، برابری اور باہمی مفادات پر استوار مذاکرات کا خواہاں ہے۔ امریکی حکومت کا موجودہ طرز عمل کسی بھی طرح سے باہمی مفادات کے حصول کی غرض سے مساوی اور منصفانہ مذاکرات کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ امریکی رویئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن زیادہ سے زیادہ مطالبات ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لہذا ایسے مطالبات کے پیش نظر ہمیں بات چیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ البتہ میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایران ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے، ہے اور رہے گا، لیکن وہ کسی طور بھی ڈکٹیٹ شدہ مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گا۔
مصر کی ثالثی میں آئي اے ای اے کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے آغاز سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک خطے میں امن و آشتی کے قیام اور کشیدگی میں اضافے کو روکنے کی کوشش اور اس سلسلے میں وہ ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں اور ویانا میں ہمارے سفیر پوری طرح متحرک ہیں جبکہ دو رات قبل ایران، روس اور چین کے سفیروں نے ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سے مشترکہ طور پر ملاقات کی تھی۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے واضح اصول موجوہیں اور جب تک ان اصولوں پر عمل کیا جائے گا، عالمی ادارے کے ساتھ تعاون بھی جاری رہے گا۔
تہران-اسلام آباد مشاورت؛ ایران اور پاکستان کا دوطرفہ تعاون مضبوط بنانے پر زور
ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے، جو پاکستان کے ساتھ دو طرفہ سیاسی مشاورت کے 13ویں اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں ہیں، وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔
ارنا کے نامہ نگار کے مطابق مجید تخت روانچی نے پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار سے وزارت خارجہ میں ملاقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات میں پاکستان کی نائب وزیر خارجہ محترمہ آمنہ بلوچ اور اسلام آباد میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم بھی موجود تھے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق دونوں ملاقات میں دو طرفہ سیاسی مشاورت، اہم علاقائی صورتحال اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ کا دورہ اسلام آباد ایسے وقت انجام پارہا ہے جب اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے گزشتہ ہفتے الگ الگ فون کالز میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگي کم کرنے میں مدد کے لیے تیار ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ سیاسی مشاورت کا بارہواں اجلاس 2023 موسم گرما کے آخر میں تہران میں منعقد ہوا تھا۔
وہ واحد دین جس نے عورت کو اس کی حقیقی قدر و منزلت دی
مرحوم علامہ طباطبائیؒ ـ صاحبِ تفسیرِ عظیم المیزان ـ نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۲۸ تا ۲۴۲ کی تفسیر میں “اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کے حقوق، اُس کی حیثیت اور سماجی مقام” کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ذیل میں اسی بحث کا آٹھواں حصہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس گفتگو سے حاصل ہونے والے نتائج
علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ پوری بحث سے چند نکات سامنے آتے ہیں:
۱۔ اسلام سے پہلے انسان کے ہاں عورت کے بارے میں دو بنیادی نظریے موجود تھے:
پہلا نظریہ:بہت سے لوگ عورت کو انسان نہیں بلکہ بے زبان جانور کے درجے کی مخلوق سمجھتے تھے۔
دوسرا نظریہ: کچھ لوگ عورت کو پست اور کمزور انسان سمجھتے تھے، ایسا وجود جس سے مرد ـ یعنی مکمل انسان ـ اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک عورت اُس کی مکمل تابع نہ ہو۔
اسی لیے عورت کو ہمیشہ مرد کی ماتحتی میں رکھا جاتا تھا، اور اسے کسی بھی طرح کی ذاتی آزادی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
پہلا نظریہ زیادہ تر جنگلی قوموں میں پایا جاتا تھا، جبکہ دوسرا نظریہ اُس زمانے کی مہذب اقوام کا رویّہ تھا۔
۲۔ اسلام سے پہلے عورت کی سماجی حیثیت کے بارے میں بھی دو طرح کے تصوّر تھے:
پہلا تصور: کچھ معاشروں میں عورت کو انسانی معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وہ اسے گھر یا سامان کے درجے کی کوئی ضرورت سمجھتے تھے، جیسے رہائش ایک ضرورت ہے مگر انسانوں کے اجتماع کا حصہ نہیں۔
دوسرا تصور: کچھ اقوام میں عورت ایک قیدی یا غلام کی طرح سمجھی جاتی تھی۔
وہ معاشرے کے طاقت ور طبقے کی اسیر ہوتی، اس سے محنت لی جاتی اور اس کے کسی بھی اثر و نفوذ کو روک دیا جاتا۔
۳۔ عورت کی محرومی مکمل اور ہمہ جہت تھی۔
ان معاشروں میں عورت کو ہر اس حق سے محروم رکھا جاتا تھا جس سے وہ کسی فائدے یا مقام کی مستحق ہو سکتی تھی…
سوائے اُن حقوق کے جن سے آخرکار فائدہ مردوں کو پہنچتا تھا، کیونکہ مرد ہی عورت کے مالک اور قیم سمجھے جاتے تھے۔
۴۔ عورت کے ساتھ برتاؤ کا بنیادی اصول: طاقت ور کا کمزور پر غلبہ
غیر مہذب اقوام عورت سے ہر معاملہ محض اپنی خواہش، تسلط اور فائدے کے حصول کے تحت کرتی تھیں۔
مہذب معاشروں میں بھی یہی سوچ موجود تھی، البتہ وہ اس میں یہ نظریہ بھی شامل کرتے تھے کہ:
عورت فطری طور پر کمزور اور ناقص ہے، وہ اپنی زندگی کے امور میں خود مختار نہیں ہو سکتی، اور وہ ایک خطرناک وجود ہے جس کے فتنہ و فساد سے محفوظ رہنا مشکل ہے۔
ممکن ہے کہ ان مختلف قوموں کے میل جول اور وقت کے تغیر نے ان نظریات کو مزید پختہ کر دیا ہو۔
اسلام نے عورت کے بارے میں جو انقلاب پیدا کیا
یہ تمام حقائق اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام کے آنے سے پہلے دنیا عورت کے بارے میں کس قدر پست اور توہین آمیز نظریات رکھتی تھی۔
علامہ فرماتے ہیں: کسی بھی قدیم تاریخ یا قدیم تحریر میں عورت کی عزت و احترام کا واضح تصور نہیں ملتا۔البتہ تورات اور حضرت عیسیٰؑ کی چند نصیحتوں میں تھوڑی بہت ہمدردی ملتی ہے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور سہولت کا معاملہ کیا جائے۔
لیکن اسلام ـ یعنی وہ دین جس کے قیام کے لیے قرآن نازل ہوا ـ نے عورت کے بارے میں ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو اس سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتا تھا۔
اسلام نے عورت کو اسی حقیقت اور فطرت پر متعارف کرایا جس پر وہ پیدا کی گئی ہے،انسانوں کے بنائے ہوئے غلط تصورات اور ناجائز رسموں کو منسوخ کیا، عورت کے مقام کے بارے میں ساری پست سوچوں کو باطل قرار دے دیا، اور ایک نئی، باوقار، متوازن اور فطری حیثیت عورت کو عطا کی۔
اسلام نے سب اقوامِ عالم کی رائج سوچوں کا مقابلہ کیا اور عورت کو اس کی اصل اور حقیقی منزل دکھائی، جسے انسانوں نے صدیوں سے مٹا دیا تھا۔
(ماخذ:ترجمہ تفسیر المیزان، جلد ۲، صفحہ ۴۰۶)



















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
