سلیمانی

سلیمانی

اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا تھا کہ قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے ساتھ ہی ایران کے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کی نگرانی اور تصدیق  کے حوالے سے آئي اے ای اے  کے ڈائریکٹر جنرل کا رپورٹنگ مشن بھی ختم ہو گیا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، روسی فیڈریشن اور عوامی جمہوریہ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام خط ان تینوں عظیم طاقتوں کی اسٹریٹجک یکجہتی کی علامت ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسنیپ بیک مکینیزم  کو فعال کرنے کے لیے تین یورپی ممالک کی کوششیں بنیادی طور پر قانونی جواز سے عاری ہیں۔

ایران کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ قرارداد 2231 کے پیراگراف 8 کی بنیاد پر اس قرارداد میں درج تمام پابندیاں اور تقاضے ختم  ہوچکے ہیں۔  

انہوں نے کہا کہ منسوخ شدہ قراردادوں کی بحالی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور ایران کے افزودگی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایٹمی معاملہ بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہوگیا ہے۔

ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد اپنے تجزیئے میں خود سابقہ اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی محض خواب ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس مرکز کے سابق سربراہ برائے تحقیق و تجزیہ میجر (ریٹائرڈ) ڈینی سیترینووِچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں ایران کے خلاف شکست سے دوچار ہوا۔ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم ایرانی اپوزوزیشن اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے متعلق مکمل مایوسی کا اظہار کیا۔

سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ہم نے سمجھا کہ صرف فضائی بمباری سے ایران کی حکومت کو بدلا جا سکتا ہے، مگر نتیجہ بالکل الٹا نکلا، ایران نے اسی جنگ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سابقہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران میں کوئی حقیقی اپوزیشن موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم مخالفین بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، میں رضا پہلوی کو ایسا شخص نہیں سمجھتا جو ایران واپس جا کر حالات پر قابو پا سکے۔

صہیونی تحقیقی ادارے کا دعویٰ:
انہوں نے ایک تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ نے واضح کر دیا کہ ہم باہر سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا ان کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے 950 ایرانی میزائل بھی اسرائیل پر گرے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS)” کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کی جنگوں میں 1,986 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں 919 فوجی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں غزہ محاذ پر ہوئیں، جہاں 1,724 افراد مارے گئے۔

55 اسرائیلی گرفتار یا لاپتہ ہوئے، جن میں سے 13 کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ 30,135 اسرائیلی زخمی ہوئے، اور 164,500 افراد کو اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، جن میں سے 74,600 غزہ کے اطراف کے رہائشی تھے۔ غزہ سے اسرائیل کی سمت 51 ڈرون داغے گئے، اور اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران 3 لاکھ ریزرو فوجی بلائے۔ مجموعی طور پر 37,500 راکٹ اور میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے، جن میں سے 10,200 صرف غزہ سے تھے۔

مغربی کنارا اور بیت المقدس: 76 اسرائیلی ہلاک اور 565 زخمی ہوئے، جن میں 32 فوجی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے 129 فضائی حملے کیے اور جنین و طولکرم کے کیمپوں کو تباہ کیا یا خالی کروایا۔ مجموعی طور پر 15,456 گرفتاریاں ہوئیں اور 10,496 آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں پتھراؤ اور آتش گیر بموں کے واقعات شامل تھے۔

ایرانی محاذ: رپورٹ کے مطابق جون 2025 کی مختصر جھڑپوں کے دوران 950 ایرانی میزائلوں کے نتیجے میں 33 اسرائیلی ہلاک اور 3,550 زخمی ہوئے۔
لبنانی محاذ: حزب اللہ کی راکٹ اور ڈرون حملوں میں 132 اسرائیلی مارے گئے، 17,300 راکٹ اور 593 ڈرون فائر کیے گئے، جبکہ 68,500 شمالی اسرائیلی باشندے بے گھر ہوئے۔

یمنی محاذ: یمن کی جانب سے داغے گئے 500 میزائل و ڈرون میں سے 70 میزائل اور کئی ڈرون اسرائیل کے اندر گرے، جن کے نتیجے میں کم از کم ایک اسرائیلی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایلات بندرگاہ کی 80 فیصد سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے 19 حملے یمن پر کیے اور 90 اہداف کو نشانہ بنایا۔

یہ رپورٹ مجموعی طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل متعدد محاذوں پر بیک وقت دباؤ کا شکار ہے، اور اندرونی طور پر بھی اس کے سیکورٹی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگی یا نفسیاتی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی ہے۔

علامہ میرزا محمد حسین نائینی پر بین الاقوامی کانفرنس کے منتظمین سے رہبر انقلاب کی ملاقات کے دوران ہونے والا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، آج جمعرات 23 اکتوبر 2025 کی صبح شہر قم میں کانفرنس کے انعقاد کے مقام پر جاری کیا گيا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں علامہ نائینی کو نجف اشرف کے قدیم حوزہ علمیہ کو بلند علمی اور معنوی ستونوں میں سے ایک قرار دیا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مہارت کے پہلو سے مرحوم نائینی کی نمایاں خصوصیت، اپنی علمی و فکری بنیادوں اور مضبوط اور بے شمار جدت عمل کی اساس پر علم اصول میں ایک نیا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔

انھوں نے نمایاں شاگردوں کی پرورش کو علامہ نائینی کی ایک اور خصوصیت شمار کیا اور کہا کہ ان کی ایک دوسری نمایاں خصوصیت، جو انھیں مراجع کے درمیان ایک غیر معمولی شخصیت میں تبدیل کرتی ہے، سیاسی سوچ کا حامل ہونا ہے جو ان کی گرانقدر کتاب "تنبیہ الامۃ" میں بخوبی سامنے آتی ہے تاہم اس کتاب پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آمریت کے مقابلے میں ولایت کے نظریے پر مبنی ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے عقیدے کو علامہ نائینی کے سیاسی نظریات کا ایک اہم عنصر بتایا اور کہا کہ مرحوم نائینی کی سیاسی سوچ کے مطابق حکومت اور اس کے تمام ذمہ داروں کو، قومی نگرانی میں اور جوابدہ ہونا چاہیے جس کے لیے نگرانی اور قانون سازی کی غرض سے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ایک مجلس (پارلیمنٹ) کی تشکیل ہے اور اس مجلس کے قوانین کا اعتبار، فقہاء اور جید علماء کی تائيد و توثیق پر منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ علامہ نائینی جس اسلامی اور عوامی حکومت کی تشکیل کے قائل تھے، وہ آج کی زبان میں "اسلامی جمہوریہ" ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرزا نائینی نے اپنی کتاب تنبیہ الامۃ کو خود اپنے ہاتھوں سے واپس لے لیا جس کی وجہ یہ تھی کہ مرحوم نائینی اور نجف کے دیگر علماء نے جس آئینی تحریک کی حمایت کی تھی وہ دراصل انصاف کی حکومت کے قیام اور آمریت کے خاتمے کی حمایت تھی اور انگریزوں نے جو کچھ آئینی تحریک کے نام پر ایران میں شروع کیا تھا، اس سے بالکل مختلف تھی۔

اس ملاقات میں ایران کے اعلی دینی تعلیمی مراکز کے سربراہ آيت اللہ اعرافی نے علامہ نائینی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے کانفرنس کے پروگراموں اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

 ٹرانسپورٹ اور اربن ڈویلپمنٹ کی وزیر فرزانہ صادق نے ایران اور پاکستان کے درمیان مواصلاتی رابطوں کو مضبوط بنانے کی غرض ٹھوس اقدامات کا عزم ظاہر کیا ہے۔

یہ بات انہوں نے اسلام آباد جاری ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس کے پہلے دن ارنا کے نمائندے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

محترمہ فرزانہ صادق نے مواصلاتی رابطوں کو مضبوط بنانے کی غرض سے دونوں ملکوں میں پائي جانے والی صلاحیتوں اور گنجائشوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہونے جاری ٹرانسپورٹ منسٹر کانفرنس دوران ٹرانزٹ اور کوریڈور رابطوں کو آسان بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ایران کی وزیر ٹرانسپورٹ و اربن ڈویلپمنٹ نے مزید کہا کہ اس کانفرنس  کے دوران، دو طرفہ اور کثیر الجہتی بات چیت ہوگی جن میں ٹرانزٹ سہولیات اور ریجنل کوریڈور جیسے معاملات سرفہرست ہیں۔

 

انہوں نے بتایا کہ ایران پاکستان دوطرفہ تعلقات کے میدان میں ٹرانزٹ اور روڈ ٹرانسپورٹ، کسٹم سہولت کاری ، ریلوے روٹس کی مرمت کے معاملات میں باہمی تعاون کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ارنا کے مطابق ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس جمعرات سے اسلام آباد میں شروع ہوگئي ہے جو دو روز تک جاری رہے گی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے شعبہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر اولار بیگ شارشیف نے جو  تاجکستان کے دورے پر گئے ہوئے ہیں،صحافیوں کو بتایا کہ "سہند اینٹی ٹررزم 2025 " کے نام سے شنگھائی تعاون کی مشترکہ انسداد دہشت گردی مشقیں ایران میں تبریز کے نزدیک انجام پائيں گی۔

  انھوں نے بتایا کہ ان مشقوں میں شرکت کرنے والے ملکوں اور مبصرین کو دعوت نامے عنقریب بھیج دیئے جائيں گے۔

جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں منعقدہ عظیم الشان “علماء و مشائخِ اسلام کانفرنس” میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، مشائخِ عظام اور ممتاز مذہبی شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے اتحادِ امت، قومی ہم آہنگی اور اسلامی وحدت کے فروغ پر زور دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ الکوثر اسلام آباد کی جانب سے ایک عظیم الشان “علماء و مشائخِ اسلام کانفرنس” منعقد ہوئی، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام، مشائخِ عظام اور ممتاز مذہبی شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر حرمِ مطہرِ امام حسین علیہ السلام سے تشریف لائے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حجۃ الاسلام علامہ علی القرعاوی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتامی خطاب میں قائدِ ملتِ جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اتحادِ امت، قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیرِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی جناب سردار محمد یوسف نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان عالمِ اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، اور اس کی بقا و ترقی اتحادِ بین المسلمین میں مضمر ہے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور رحمۃ اللعالمین اتھارٹی کے ممبر علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ عالَمِ اسلام کے عظیم دینی اور علمی ادارے جامعۃ الکوثر میں تمام مسالک کے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے وحدت امت کا خوبصورت پیغام دیا۔ وطن عزیز کے استحکام و سالمیت،امت کی عزت و عظمت اور مسلمانوں میں انتشار و افتراق کے خاتمے کے لئے ایسے پروگرام کسی نعمت سے کم نہیں۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

علمائے کرام کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی اور ایٹمی طاقت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس ملک پر فخر کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے چند دہائیوں سے فرقہ وارانہ اور تکفیری عناصر نے اس کے استحکام کو نقصان پہنچایا۔ ان عناصر نے امن و سلامتی کو متاثر کیا اور مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو مجروح کیا۔

مقررین نے کہا کہ ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء نے ہمیشہ اتحاد و وحدت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دیوبندی، شیعہ، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں نے ماضی میں مشترکہ کوششوں کے ذریعے ملک میں امن و وحدت کا پیغام عام کیا۔

۱۹۹۵ء میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران تمام مکاتبِ فکر کے علماء، جن میں قاضی حسین احمد مرحوم، علامہ سید ساجد علی نقوی، مولانا سمیع الحق مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، مولانا فضل الرحمن اور پروفیسر ساجد میر شامل تھے، نے مل کر ملی یکجہتی کونسل قائم کی، جس نے ملک میں ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔

مقررین نے کہا کہ آزادیِ وطن کی جدوجہد بھی اتحاد ہی کے نتیجے میں کامیاب ہوئی۔ اگر اس وقت مختلف مکاتبِ فکر اور قیادتیں متحد نہ ہوتیں تو قیامِ پاکستان ممکن نہ تھا۔آج بھی ہمیں انہی خطوط پر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ وطنِ عزیز کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے: “إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ” (یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔) قرآن کسی مسلک یا مکتب کی نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی بات کرتا ہے۔ اسلام کا پیغام توحید، اخوت اور وحدت کا پیغام ہے۔

قاضی حسین احمد مرحوم کا نعرہ “دردِ مشترک، قدرِ مشترک” آج بھی امتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے بہترین اصول ہے۔ اگر ہم اس جذبے کے تحت آگے بڑھیں تو یقیناً دوست خوش ہوں گے اور دشمن مایوس۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

مقررین نے کہا کہ امت مسلمہ کے موجودہ عالمی حالات، خصوصاً فلسطین، غزہ میں جاری مظالم،ان حالات میں ایران کا صہیونی ریاست کو پوری قوت کے ساتھ جواب دینے سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن اسلام کمزور ہے امریکی صدر اور ان کے اتحادی ان قاتلوں کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

یہ حالات امتِ مسلمہ کے اتحاد اور بیداری کا تقاضا کرتے ہیں۔ استعماری قوتیں مسلمانوں کو تقسیم اور کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں، لہٰذا امت کو ہوشیاری اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

آخر میں مقررین نے کہا کہ ملک کے اندر فرقہ وارانہ فضا میں بہتری آئی ہے، تاہم مزید مثبت پیش رفت کے لیے محراب و منبر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔انہوں نے اتحادِ امت کے فروغ کے لیے اس طرح کی کانفرنسوں کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

اختتام پر جامعۃ الکوثر کے مہتمم علامہ شیخ انور نجفی، علامہ شیخ اسحاق نجفی اور ان کے رفقاء کو اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جس نے اتحادِ امت اور مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کو مزید تقویت دی۔

قرآنِ مجید امت کو ایک واحد امت قرار دیتا ہے، اسلام کا پیغام توحید و وحدت ہے، مقررین

کانفرنس میں سابق امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق، سیکریٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل جناب لیاقت بلوچ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ مفتی راغب نعیمی،حضرت پیر مجتبی فاروق گل بادشاہ سجادہ نشین دربار عالی موھڑہ شریف راولپنڈی،علامہ محمد رمضان توقیر،صدر ملی یکجہتی کونسل شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم،علامہ شیخ حسن جعفری،علامہ تنویر علوی،علامہ شفا نجفی سمیت بڑی تعداد میں تمام مسالک کے ممتاز علمائے کرام،مشائخ عظام اور شخصیات نے شرکت کی اور اتحادِ امت کے موضوع پر مدلل و بصیرت افروز خطابات پیش کیا۔


شام اور لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے خطے کے تھانیدار کے طور پر ظاہر ہوتے ہوئے یہ دھمکی لگا دی ہے کہ اگر لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام نہ دیے گئے تو حزب اللہ لبنان کے ملٹری ونگ کو اس بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جس کا آغاز اسرائیل کرے گا۔ اس نے کہا: "اگر لبنان حکومت بدستور تذبذب کا شکار رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ اسرائیل یکطرفہ طور پر اقدام کرے اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا اسرائیل کے لیے اپنی شمالی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا معنی رکھتا ہے۔" جیسا کہ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی اس دھمکی سے واضح ہے اس کی نظر میں لبنان کی ریاست، قوم اور حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
 
لہذا تھامس براک غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے۔ اس کی یہ بات کہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اسرائیل کی شمالی سرحدوں کا تحفظ ہے، ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ لبنان حکومت کو محض ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی یقینی بنانے کا محض ایک ذریعہ تصور کرتی ہے۔ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی جانب سے اس حد سے زیادہ ڈو مور کے مطالبے کے بارے میں تین نکات بہت اہم ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1)۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک جعلی، غاصب، قابض اور ناجائز رژیم ہے جس نے مقامی فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے گذشتہ 77 برس سے اسلامی سرزمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ 77 برس سے مغربی ایشیا خطے میں بسنے والی قوموں اور عرب ممالک کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور اس دوران اس نے جنگوں، قتل عام، تباہی و بربادی اور وسیع نقصان کے ذریعے خطے کی قوموں اور ممالک کو شدید نالاں کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ دو سال سے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم آئے دن مغربی کنارے پر جارحانہ حملے کرتی ہے، اس نے اب تک لبنان کے 4 ہزار شہریوں کو شہید کیا ہے، لبنان میں بڑی تعداد میں رہائشی عمارات کو تباہ کیا ہے، شام کے بڑے علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، شام کا فوجی انفرااسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس ملک کا ایک بڑا علاقہ جدا کرنے کے درپے ہے اور ایسے ہی بہت سے مجرمانہ اقدامات اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو نہ صرف کسی ملک کی حمایت اور شہہ حاصل نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام حکومتوں کو اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں اس پر سخت پابندیاں عائد کر کے اسے مزید مجرمانہ اقدامات سے روک دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت غاصب صیہونی رژیم کے حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں سزا سنا چکی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں لہذا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکنہ کوشش انجام دیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت نہ صرف اس قانونی ذمہ داری پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ پورے زور و شور سے مجرم صیہونی حکمرانوں کی مدد اور حمایت میں مصروف ہے اور یوں انہیں مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے لیے ضروری مالی اور فوجی وسائل مہیا کر رہی ہے۔ امریکہ کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
 
2)۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے کی حکومتوں کے معاملات خود ان سے ہی مربوط ہیں اور خطے کے سیکورٹی امور بھی انہی حکومتوں کو سنبھالنے چاہیئں۔ دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے امریکہ کو اس بات کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اور مثال کے طور پر لبنان حکومت کی ذمہ داریوں کا تعین کرے؟ یہ مداخلت لبنان کی حکومت اور قوم کی سب سے بڑی توہین ہے اور لبنان کی رائے عامہ بھی اپنے معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالف ہے۔ جیسا کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کے مخالف ہے اور انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو ان کے ادا کیے گئے ٹیکسز کو اسرائیل کو بم اور فوجی ہتھیار فراہم کرنے میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی یہ امریکی پالیسی غلط ہے۔
 
3)۔ امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔

تحریر: علی احمدی

سماجی عدم مساوات شاید جدید منصوبے کے تخلیق کاروں کو شرمندہ کر دے۔ یہی نتیجہ میشال روکار، دومنيك بورغ، اور فلوران اوغانيور نے اپنی مشترکہ تحریر میں اخذ کیا ہے، جو "انسانی نسل خطرے میں" کے عنوان سے 3 اپریل 2011 کو فرانسیسی اخبار لوموند میں شائع ہوئی۔" (ماخذ: الحداثة السائلة، صفحہ 35)

قرآن مجید میں ایک واضح اور صریح اشارہ ہے کہ قوموں اور معاشروں کو ایک دوسرے کے تجربات اور علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے." (الحجرات: 13)۔

لہذا، ہمیں ایک ایسی امت کے طور پر جو قرآن کو سامنے رکھتی ہے اور اس کے مطابق چلتی ہے، قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس میں سے ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں مغربی معاشروں میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور معاشرتی مساوات کے فقدان پر غور کرنا چاہیے، جس سے ان معاشروں کے ٹوٹنے اور سنگین بحرانوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ حالات اس بات پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ سماجی اور اقتصادی نظام واقعی سماجی انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔

حالیہ اعداد و شمار اور علمی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک میں معاشی اور سماجی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات توماس پیکیٹی اپنی مشہور کتاب "Capital in the Twenty-First Century"

 میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں دولت کی تقسیم تیزی سے غیر مساوی ہو رہی ہے"، اور مزید کہتے ہیں کہ "امیر اور غریب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک وسیع ہو رہی ہے، جو یورپی معاشروں کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے"۔ پیکیٹی اس تفاوت کی وجہ لبرل اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جو آزاد منڈی اور دولت کی دوبارہ تقسیم میں ریاست کے کردار کو کم کرنے پر انحصار کرتی ہیں۔

اسی تناظر میں، اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم( (OECDکی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ "یورپی یونین کے متعدد ممالک میں نسبتا غربت کی سطح بڑھ گئی ہے، جو سماجی تحفظ کے نظام کی کمزوری اور آمدنی کی تقسیم میں بڑھتے ہوئے تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بعض یورپی ممالک میں جاری اقتصادی ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات پر منصفانہ طور پر ظاہر نہیں ہو رہے، جس سے امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب غربت کے دائرے میں محصور ہیں۔

((OECD، 2020۔ آمدنی کی عدم مساوات اور غربت کے اشارے، اقتصادی تفاوت کے ساتھ ساتھ، یورپ نسل اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا کر رہا ہے، جو سماجی خلیج کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ محقق پال گلمارٹن اپنی European Journal of Sociology میں شائع شدہ تحقیقی مضمون میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں تارکین وطن اور نسلی اقلیتیں ملازمت، تعلیم، اور صحت کی خدمات میں بلند سطح کے امتیاز کا سامنا کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ غربت اور سماجی حاشیے پر زندگی گزارنے کے خطرات سے زیادہ دوچار ہیں۔" گلمارٹن وضاحت کرتے ہیں کہ ان طبقات کو ثقافتی اور لسانی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ان کے یورپی معاشروں میں انضمام میں رکاوٹ بنتی ہیں، اور یہ تفاوت اس کو مزید گہرا اور مساوات کے فقدان کو بڑھاتی ہیں۔

مزید برآں، پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ "کچھ یورپی ممالک میں تارکین وطن کے بارے میں منفی رائے میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں انہیں معاشی اور سماجی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ (Pew Research Center2021) یورپ میں تارکین وطن کے بارے میں رویے، یہ رجحانات اس ماحول کے فقدان کو اجاگر کرتے ہیں جو ہر ایک کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بناتا ہے، خواہ ان کا نسلی یا ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات اور سماجیات زیجمونٹ باومان کہتے ہیں: "مثال کے طور پر، تارکین وطن اب اطالوی قومی پیداوار میں 11 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں، مگر انہیں نہ ووٹ کا حق حاصل ہے اور نہ ہی اطالوی انتخابات میں حصہ لینے کا۔ اس کے علاوہ، کسی کو بھی ان آنے والوں کی حقیقی تعداد کا علم نہیں ہے جو یا تو سفر کے قانونی کاغذات نہیں رکھتے یا جعلی کاغذات کے ساتھ بھرپور انداز میں قومی پیداوار اور قوم کی خوشحالی میں حصہ لے رہے ہیں۔" یہاں "دالما" ایک سوال اٹھاتے ہیں جسے کسی بھی صورت میں محض بلاغی سوال نہیں کہا جا سکتا: "یورپی یونین ایسے حالات کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کو سیاسی، اقتصادی، اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جس سے ہمارے جمہوری اصولوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے؟ اور جب شہری کے فرائض بنیادی طور پر اس کے حقوق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہم واقعی توقع کرتے ہیں کہ تارکین وطن اس معاہدۂ معاشرت کی بنیادوں پر یقین رکھیں، اس کا احترام کریں، اس کا ساتھ دیں، اور اس کا دفاع کریں؟

ہمارے ملک میں سیاست دان انتخابات میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے تارکین وطن پر الزام عائد کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقامی آبادی کے معیار میں ضم ہونے میں ناکام ہیں یا اس میں ہچکچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے سیاست دان ان معیارات کو تارکین وطن سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مزید اقدامات کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ ان معیارات کی توہین کرتے ہیں یا انہیں بگاڑ دیتے ہیں جنہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔" (الحداثة السائلة، صفحہ 34-35)

اسی طرح ہمیں معیشت کی نجکاری کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی کی دہائیوں میں یورپ میں ریاست کو سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا بنیادی ستون سمجھا جاتا تھا، جہاں حکومتیں مفت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور بے روزگاروں کے لیے امداد فراہم کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب سے پالیسیوں کا رخ نجکاری اور عوامی اخراجات میں کمی کی طرف ہوا، یہ ماڈل کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ ہاروی اپنی کتاب "نیولیبرلزم: ایک مختصر تاریخ" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "نجکاری کی طرف تبدیلی اور معیشت میں ریاست کے کردار کو کم کرنے سے ان سماجی بنیادوں میں کمی آئی ہے جو کمزور طبقات کی حمایت کرتی تھیں۔"

یہ پسپائی حکومتوں کی سماجی خلیج کو حل کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم ان لوگوں کے لیے بہتر دستیاب ہوتی ہیں جو مالی استطاعت رکھتے ہیں، جس سے سماجی تفاوت مزید بڑھتا ہے۔ اس تناظر میں، محقق جون راولی اپنی   (Journal of Social Policy) میں شائع شدہ مقالے میں لکھتے ہیں کہ: ریاست کی سماجی ذمہ داری میں کمی اور نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار سے امیر اور غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ عوامی خدمات کم مؤثر اور زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔" آج ہم دیکھتے ہیں کہ عدم مساوات اور مواقع کی عدم برابری کی وجہ سے امیر اور غریب کے بچوں کو ایک جیسے تعلیمی معیار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ امیر گھرانوں کے بچے بہتر ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو غریب بچوں کے لیے ممکن نہیں، جس سے سماجی تفاوت گہرا ہوتا ہے اور اس کے خطرناک اثرات تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، جو بالآخر معاشرتی بکھراؤ تک پہنچ سکتے ہیں۔

حل کیا ہے ؟

مغرب میں عدم مساوات کے اثرات پیش کرنے کے بعد، جو کہ خالص مادی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، جو عوام کے مفاد کا خیال نہیں رکھتی ہیں، بلکہ طاقتور کو بااختیار بنانے اور کمزور کو کچلنے کی نچلی سوچوں اور فلسفوں پر مبنی ہیں، اس کا حل اسلامی تصورات کی طرف لوٹنے میں ہے، جو اقتصادی اور سماجی پالیسیوں کے لیے اخلاقی اصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ریاست کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جا سکے، جیسے کہ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

(مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)

 اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے (الحشر: 7)

(لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ)

(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔ (الحشر: 8)

(وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)

 اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں (الحشر: 9)

(وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ)

 اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر: 10)

یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے سماجی اور اقتصادی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کے لیے مساوات اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ آیات انفال کے مال کے بارے میں ہیں، جو مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان غنائم کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد امام کی دسترس میں رکھا، یعنی ان کا معاملہ حکومتی ریاست کے حوالے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کے جمع ہونے کو روکا جا سکے، جو وسیع پیمانے پر مالیاتی گردش میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (کَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ)، یعنی یہ یقینی بنایا جائے کہ دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہے۔ اس لیے اس کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رکھا گیا، یعنی ریاست کے سربراہ کے پاس، تاکہ وہ اسے فقراء، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کریں، یعنی معاشرے کے کمزور اور ناتواں طبقات پر۔

شیخ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں: " اس آیت میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے، وہ اسلامی معیشت کا ایک بنیادی اصول واضح کرتا ہے، یعنی اسلامی معیشت میں اس بات کی اہمیت ہے کہ دولت کسی مخصوص طبقے یا گروہ کے ہاتھ میں متجمع نہ ہو، بلکہ یہ ایک دوسرے کے درمیان گردش کرتی رہے، جبکہ ذاتی ملکیت کا پورا احترام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک واضح پروگرام تیار کرنا ضروری ہے جو قوم کے بڑے طبقے میں دولت کی گردش کو یقینی بنائے۔

یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی مرضی سے قوانین اور ضوابط بنائیں اور ایک طبقے سے دولت لے کر دوسرے کو دیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسلامی قوانین کو مالی حصول کے میدان میں نافذ کیا جائے، اور دیگر مالیاتی قوانین جیسے خمس، زکات، خراج اور انفال کی صحیح طور پر پابندی کی جائے۔ اس طرح ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں، یعنی ایک طرف سے ذاتی محنت کا احترام اور دوسری طرف سماجی مفادات کی حفاظت، اور معاشرے کو دو طبقات (ایک دولت مند اقلیت اور ایک کمزور اکثریت) میں تقسیم ہونے سے روکنا۔" (الأمثل، ج18، ص184)

یہ وہ فریم ورک ہے جس کے تحت اقتصادی نظاموں کو کام کرنا چاہیے۔ جوزف سٹیگلٹز، جو کہ اقتصادیات کے میدان میں نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں، اپنے کتاب "ثمن اللامساواة" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "سماجی انصاف صرف مؤثر  انداز میں دوبارہ تقسیم کی پالیسیوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جو کمزور طبقات کی حمایت اور انہیں بااختیار بنانے کے غرض سے بنائی گئی ہوں ۔" سٹیگلٹز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترقی پسند ٹیکسوں کو بڑھانے اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکے۔

آخر میں، یہ واضح ہے کہ مغرب میں سماجی عدم مساوات ایسی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو نجکاری کی طرف مائل ہیں اور ریاست کے کردار کو دولت کی دوبارہ تقسیم میں کم کر رہی ہیں، ساتھ ہی نسلی اور لسانی امتیاز اور سماجی پالیسیوں کی کمزوری بھی اس کا حصہ ہے۔ مستقبل کو زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے، ان ممالک کو زیادہ جامع اور انصاف پسند پالیسیوں کو اپنانے پر کام کرنا چاہیے جو سب کے لیے، کسی قسم کے اقتصادی تفریق یا نسلی پس منظر کو دیکھے بغیر، یکساں مواقع فراہم کریں۔ صرف سماجی امداد اور بیروزگاری کی الاؤنسز کی فراہمی کافی نہیں ہے، کیونکہ یہ دیرپا حل نہیں ہیں۔ اصل حل وسائل پیدا کرنے اور خاص طور پر سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں ہے۔

Wednesday, 22 October 2025 07:22

بادشاہت نہیں چاہیئے!

امام خامنہ ای نے تعلیم اور کھیل کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ایرانی نوجوانوں سے ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ سے ایک تاریخی سوال پوچھا ہے "آپ کیا کر رہے ہیں۔؟!"
1۔ گذشتہ دنوں امریکہ کی 50 ریاستوں اور ملک کے 2,700 شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شدید نعرے بازی کی اور ایک مخصوص نعرہ لگایا "ہمیں بادشاہ نہیں چاہیئے۔" امریکی شہریوں کی ملینوں کی تعداد میں مضبوط موجودگی امریکہ میں جمہوریت کے خاتمے، زوال اور انحطاط کی حقیقی تصویر تھی۔ جدیدیت کے فلسفی، جنہوں نے دو صدیوں تک مغربی جمہوریت کو ترویج دینے کے لیے محنت کی ہے، اپنی قبروں میں کانپ رہے ہونگے کہ مغرب کی عظیم ترین جمہوریت کے دل سے ایک فاشسٹ بادشاہ کا سر کیسے ابھرا ہے۔ نصف صدی قبل جب ایرانی عوام سڑکوں پر نکلے اور "شاہ مردہ باد" کا نعرہ لگایا تو اس بوسیدہ امریکی جمہوریت کے لیڈروں نے ایران کے شاہ کو عوام کو گولی مارنے کا مشورہ دیا۔ لیکن امریکی اس زمین پر سب سے خوش قسمت لوگ ہیں، کیونکہ ان کے بادشاہ نے انہیں گولی نہیں ماری۔ پوری دنیا انتظار کر رہی تھی کہ اس "قومی نفرت" پر امریکی بادشاہ کا ردعمل کیا ہوگا۔؟

عالمی خبر رساں اداروں نے ٹرمپ کے ردعمل کی اطلاع کچھ یوں دی ہے۔ ٹروتھ سوشل پر لوگوں کے مشتعل مظاہروں کے جواب میں، اس نے مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ایک فلم ریلیز کی، جس میں ٹرمپ کو شاہی تاج پہنے "کنگ ٹرمپ" کے ڈیزائن والے فائٹر جیٹ پر سوار اور امریکہ کی سڑکوں پر لاکھوں مظاہرین کے سروں پر رفع حاجت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ خود کو امریکہ کا صدر نہیں سمجھتے اور مظاہرین کی باتوں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہے، صدر نہیں! اور لوگوں کے سروں پر رفع حاجت کرکے وہ امریکہ کے اندر اور باہر امریکی جمہوریت کی بدبو پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے اس پیغام کے ساتھ امریکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم مارے جانے کے بھی لائق نہیں ہو۔ تم نے مجھے ووٹ دے کر اس "گندگی" کو پالا ہے۔

 مغرب کے سیاسی فلسفی جو ابھی زندہ ہیں، انہوں نے بادشاہ یا بادشاہت کی آڑ میں جمہوریت کی کوئی نئی شکل نہیں دی۔ انہوں نے دنیا کے دوسرے حصوں میں اپنے تقلید کرنے والوں کے کام کی وضاحت نہیں کی ہے۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے، جو ایران میں امریکی جمہوریت کے گیت گاتے ہیں کہ وہ یہ  دیکھ لیں کہ امریکی بادشاہ کے پاس عوام کی تنقید یا احتجاج کے جواب میں سوائے ان پر گندگی ڈالنے کے اور کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ جو شخص اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے، وہ دوسرے ممالک میں اپنے حامیوں کے ساتھ کیا کرے گا۔

 امریکی عوام اب کیا کہہ رہے ہیں؟  لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکی قرضہ ساڑھے 37 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے اور ٹرمپ روزانہ اس قرض میں پچیس ارب ڈالر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق 55 فیصد لوگ ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ 62 فیصد لوگ اسے مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں سمجھتے۔ اسی تعداد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکی ٹیکس مقبوضہ فلسطین میں جنگی جرائم اور غزہ اور مغربی کنارے میں بچوں اور خواتین کے وحشیانہ قتل پر خرچ کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ٹرمپ یوکرین کی جنگ، ایران پر حملہ، وینزویلا میں لوگوں کے ساتھ بدسلوکی، چینی پانیوں میں جنگ بندی اور دیگر امور پر امریکی سرمایہ لٹا رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیلوں کے چیمپیئنوں کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ کو خطاب کرتے ہوئے ان بڑی ریلیوں میں امریکی عوام کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر آپ اتنے ہی اہل ہیں تو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے ان لاکھوں لوگوں کو پرسکون کریں اور انہیں ان کے گھروں کو واپس بھیجیں۔

4۔ مغربی ماہرین اور یورپی حکمت عملی کے ماہرین کہتے ہیں: امریکہ 21ویں صدی میں ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی کا شکار ہے اور تاریخی زوال اور انحطاط کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکی بادشاہوں نے اپنی جنگی پالیسیوں سے عالمی نظام، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کو درہم برہم کر دیا ہے اور کوئی نیا نظم نہیں بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشروں کے بالکل نچلے حصے میں ایک سنگین بغاوت نظر آتی ہے اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت پانچ براعظموں میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں روس اور چین 120 ناوابستہ ممالک کے ساتھ مل کر تاریخ کے دائیں جانب ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ اور تین شریر یورپی ممالک کی پالیسیوں کو "نہیں" کہہ رہے ہیں۔ اس حقیقت کا مطلب ہے، ایک نئے نظام کا ظہور اور مغربی اتھارٹی اور امریکی نظام کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے! نیا عالمی نظام کسی بھی علاقے میں بادشاہ اور بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتا۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوی

یہ حقیقت ہے کہ غنا اور موسیقی کا رجحان آج کل ہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اسے عصرِ حاضر کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ بنا دیا ہے اور اس نے مختلف طبقات اور معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔زمانہ ماضی میں گانا صرف خاص مواقع اور مخصوص مقامات تک ہی محدود تھا۔ عام طور پر تفریح اور عیش و عشرت کی محفلوں ہی اسے انجام دیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں یہ ہر جگہ اور ہر وقت میسر آچکا ہے۔انٹرنیٹ، جدید موبائل فون، ٹیلی ویژن نیٹ ورکس، ریکارڈنگ ڈیوائسز، اور اسپیکرز جیسے آلات نے گانے اور موسیقی کو ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر لمحہ موجود کر دیا ہے۔ اب یہ گھروں سے لے کر ٹرانسپورٹ، بازاروں، دکانوں اور حتیٰ کہ عوامی مقامات تک، ہر جگہ سنائی دیتے ہیں۔

اب تو یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایسا دن بھی گزرے جب انسان کے کانوں تک غنا یا موسیقی کی آواز نہ پہنچے۔ایسا چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہو ہی جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید معاشرہ اس رجحان کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ اگر دنیا بھر میں صرف ایک دن کے لیے غنا اور موسیقی کوبند کر دیا جائے تو ہم عالمی سطح پر سماجی اور نفسیاتی بے چینی اور انتشار کو ملاحظہ کریں گے۔

جدید معاشرے میں غنا اور موسیقی کے معاملے میں اکثر غیر جانبدار اور معروضی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جاتا۔ آج کل زیادہ تر لوگ اس ثقافت کے باعث پیدا ہونے والے سماجی اور اقتصادی دباؤ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ لوگ اس کے سامنے مسلسل بے بس نظر آتے ہیں۔ غنا اور موسیقی تفریح کے بنیادی ذرائع میں شامل ہو چکے ہیں،یہ میڈیا ہو، کام کی جگہیں ہوں یا عوامی اجتماعات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ رجحان انسانی خواہشات کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیاتی جبلّتوں کو بھی بھڑکاتا ہے، کیونکہ یہ جذباتی ضروریات کو پورا کرتا اور احساسات کو متحرک کرتا ہے۔  اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد کے اندر اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی کوئی اندرونی مزاحمت باقی نہیں رہتی بلکہ اس کے برعکس، انسان کی فطرت خود بخود ان چیزوں کی طرف مائل ہوتی ہے جو اس کی خواہشات کو ابھارتی اور اسے خوشی فراہم کرتی ہیں۔

اب یہ رجحان معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ یہ انسانی نفس کی وقتی خواہشات اور جذباتی ضروریات کو تسکین فراہم کرتا ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ گانا اور موسیقی اگرچہ فوری طور پر جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر ان عقلی اور روحانی اصولوں سے متصادم ہیں جنہیں آسمانی مذاہب انسان میں راسخ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معلوم ہےکہ انسانی نفس عام طور پر عارضی لذتوں اور تفریح کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں انسان کی زندگی کا مقصد بن جائیں یا وہ انہی کو اپنی حقیقی خوشی کا ذریعہ سمجھے۔

اس تناظر میں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ عقل اور خواہشات کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ انسان کو اپنی خواہشات کے لیے کسی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود بخود جانتا ہے کہ وہ کن چیزوں کی طرف مائل ہے اور کن جبلّتی رغبتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ جس چیز کی اسے مسلسل ضرورت رہتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اسے اعلی عقلی اقدار کی طرف متوجہ کرے وہ اقدار جو روحانی خوبصورتی اور کمال کی طرف لے جانے میں مدد دیتی ہیں۔  یہ بلند اقدار محض وقتی خواہشات یا عارضی لذتوں سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ یہ وہ اعلیٰ اصول ہیں جو آسمانی مذاہب نے انسان کے لیے متعین کیے ہیں۔ انہی تعلیمات کے ذریعے انسان اپنی زندگی کے راستے کو درست کر سکتا ہے اور اپنی ذہنی و نفسیاتی صلاحیتوں کو اعلیٰ مقاصد کے حصول میں استعمال کر سکتا ہے۔اس سے وہ اپنی جسمانی، فکری اور روحانی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غنا اور موسیقی بظاہر دلکش معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ انسان کو اعلیٰ مقاصد سے غافل کر دیتے ہیں۔ یہ نہ تو عقل کو اچھے تفکر پر ابھارتے ہیں اور نہ ہی انسان کی غور و فکر اور تدبر کی صلاحیت کو مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ محض جذباتی تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں جو سطحی احساسات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور عارضی خواہشات کو مزید بھڑکاتے ہیں۔ جب انسان مسلسل ان چیزوں کو سنتا رہے تو اس کے اور عقل کی ان اعلیٰ اقدار کے درمیان خلا بڑھنے لگتا ہے جو اسے سکون اور زندگی کے بلند تر معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غنا اور موسیقی درحقیقت نفس کو روحانی بلندیوں سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں اور دل کے اس تعلق کو کمزور کر دیتے ہیں جو اسے پُرسکون اور مطمئن عقل کے ساتھ جوڑتا ہے وہ عقل جو انسان کو اللہ کے ذکر سے حقیقی سکون اور اطمینان کی طرف لے جاتی ہے۔

دوسری طرف اس حوالے سے حق اور باطل کے درمیان کشمکش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گانے اور موسیقی محض تفریحی ذرائع نہیں بلکہ یہ ایسے عوامل ہیں جو انسان کے دل میں باطل اور خواہشاتِ نفس کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس راستے سے دور ہو جاتا ہے جس کی طرف آسمانی تعلیمات انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ کوئی بھی عقل مند شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ غنا اور موسیقی حق کی تائید کرتے ہیں یا انسان کو حق کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو چیز عقل کو غافل کر دے اور دل کو اللہ کے ذکر سے دور کر دے، وہ ایسی چیز ہے جس سے بچنا اور اس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ یہ غفلت ہی وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات کو سمجھنے اور روحانیت سے دور رکھتی ہے، جن کی تکمیل کے لیے زندگی کو الٰہی ہدایت کے دائرے میں گزارنا ضروری ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے:

(أَفَمَن شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللهِ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) (الزمر: 22)

کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو (سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہو جاتے ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

اگرچہ یہ آیتِ کریمہ مخصوص طور پر گانے کے بارے میں نہیں بتاتی لیکن یہ ایک عمومی اصول کو واضح کرتی ہے یہ اصول دو دلوں میں فرق کو ظاہر کرتا ہے وہ دل جنہیں اللہ نے اپنے نور سے منور کیا اور ان دلوں کے درمیان جو اللہ کے ذکر سے دور ہو کر سخت ہو گئے۔ وہ دل جنہیں اللہ نے اسلام کی روشنی دی انہیں روحانی زندگی کے معانی میں غور و فکر اور تدبر میں حقیقی سکون ملتا ہے جبکہ سخت دل اس راستے سے ہٹ کر دنیاوی لذتوں اور عارضی خوشیوں میں کھو جاتے ہیں۔ چونکہ اسلام کا مقصد دلوں کو پاک کرنا اور انہیں حق کی طرف لے جانا ہے گانا دل کی سختی کو بڑھانے اور انسان کو سیدھے راستے سے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بہت سی روایات گانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں،یہ سب ایک بنیادی نکتے پر مبنی ہیں: گانا حقیقی بندگی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔  مشہور عالم، علامہ حرّ عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعة میں ایک باب مخصوص کیا ہے جس کا عنوان ہے: "تحریم الغناء، حتیٰ في القرآن، وتعلیمه وأجرته" (یعنی غنا کی حرمت، چاہے وہ قرآن کی آیات میں ہی کیوں نہ ہواور غنا کوسیکھنا یا اس کا معاوضہ لینا بھی حرام ہے)۔ اس باب میں، زید شحّام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: (بيت الغناء لا تؤمن فيه الفجيعة، ولا تجاب فيه الدعوة، ولا يدخله الملك( "گانے والا گھر ایسا ہوتا ہے جہاں مصیبت سے امان نہیں ہوتی، جہاں دعا قبول نہیں کی جاتی اور جہاں فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔"

ان نصوص سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ غنا ان اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے جنہیں آسمانی مذاہب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ باطل کی ایک شکل ہے، جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے ذہن کو غفلت میں ڈالنے اور اس کے دل کو بگاڑنے کا کام کرتی ہے۔ ائمہ کرام نے گانے کو فریب اور نفاق سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: گانا نفاق کا دھوکہ ہے۔

ایک مؤمن کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور شبہات میں پڑنے سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے جواز تلاش کرنے کی بجائے دیانت داری کے ساتھ شریعت کے احکام کی پیروی کرنی چاہیے۔ فقہاء جب کسی شرعی مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے فتاویٰ کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔ جہاں تک غنا کی بات  ہے تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔  موسیقی کی حرمت کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص موجود نہیں۔ بعض فقہاء نے اسے لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے حرام قرار دیاجبکہ کچھ نے اسے جائز کہا، بشرطیکہ یہ موسیقی ایسی محافل اور مجالس میں نہ سنی جائے جو لہو و طرب (عیش و عشرت) کے ماحول پر مشتمل ہوں۔ اس حوالے سے انہوں نے اس کی حدود و قیود کو متدین اور دین دار معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مؤمن کو چاہیےوہ اللہ سے ڈرے، شبہات سے بچے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے بہانے تلاش نہ  کرے۔ شریعت کے مسائل پر جب فقہاء غور و فکر کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے احکام کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔  جہاں تک غنا کا تعلق ہے، تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔ البتہ موسیقی کے بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص نہیں ہے۔  کچھ فقہاء نے موسیقی کو لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے اسے حرام قرار دیاجبکہ بعض نے اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا کہ یہ لہو و طرب (عیش و عشرت) کی محافل  میں نہ ہو۔ اس معاملے میں، انہوں نے اس کے جواز یا عدم جواز کو متدین معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔

ہر مؤمن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست شرعی موقف اختیار کرے اور ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو باطل کی تقویت کا سبب بنے اور اسے حق کے راستے سے دور کر دے۔

الشيخ معتصم السيد أحمد