سلیمانی
اسلامی تہذیب کی خصوصیات:
اسلامی ثقافت کی تاریخ اور مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے تحقیق کاروں کے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کی خصوصیات نے بہت سارے ممالک اور شہروں میں رہنے والوں پر بہت سے آثار مرتب کئے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور ان کے آثار کو دیکھ کر لوگوں میں نہ صرف روحانی اعتبار سے تبدیلی آئی ہے بلکہ ان کی سوچ، فکر اورسماج پر ایک واضح تبدیلی آگئی ہے۔
دین اسلام تمام مذاہبِ عالم سے کامل و جامع اور آخری دین ہے۔ اس آخری اور کامل دین کے آثار ہر جگہ موجود ہیں۔ چونکہ ثقافت ِ اسلامی جامعیت اور جدیدیت پر مشتمل ثقافت ہے اس لئے دنیا میں موجود دیگر ثقافتوں کی نسبت اسلامی ثقافت میں وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ ثقافت انسانی رویوں، عادتوں، ذاتی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔ دین اسلام کے پیرو کار ہمیشہ احکام خداوندی کی تعمیل کے ساتھ ان حقیقی راہوں پر گامزن ہوکر ان خصوصیات کو اپنے اندر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رضایت شامل ہو۔اسی لئے مسلمانوں کی نشست و برخاست اور اطاعت و بندگی غرض ان کے ہر سماجی و اخلاقی افعال میں ایک اعلیٰ رنگ نمایاں نظر آتا ہے، اس کو ثقافت اسلامی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت بھی الٰہی حکم کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔سماج میں مل جل کر بیٹھنے اور اسلام کی اصل راہوں پر چلنے سے اس معاشرے میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی فکری، عملی زندگی میں نہ صرف تبدیلی آجاتی ہے بلکہ قلبی طور پر وہ لوگ متاثر ہوکر انہی اسلامی راہوں اور تقاضوں کو اپنالیتے ہیں اور اس سے ایک بڑا مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اسلامی ثقافت ایک مستحکم، لازوال اور فطرت سے ہم آہنگ ثقافت ہے اس لئے یہ کبھی بھی ختم یا معدوم نہیں ہو سکتی۔ جبکہ دیگر ثقافتوں میں کوئی دوام و بقا نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت دین اسلام کی طرح جامع اور لافانی ثقافت ہے۔ اس کی بنیاد عدل و انصاف اور شعورپر قائم ہے۔ مرور زمن کے ساتھ جدید رنگوں، اصولوں اور خیالوں کو منظم انداز میں اپنے اندر شامل کرنے کی وسعت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلامی ثقافت مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی قابل قبول ہے۔ جبکہ دیگر ثقافتوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ صرف اپنی اقوام وغیرہ کے ساتھ محدود نظر آتی ہیں۔ آخر الامر ان اقوام اور زمانوں کے گزرنے کے ساتھ یہ تمام غیر اسلامی ثقافتیں معدوم ہوجاتی ہیں۔
اگر ہم اسلامی ثقافت کو دیگر ثقافتوں سے موازنہ کرے تو ہمیں واضح ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں کوئی جبرو اکراہ کا پہلو نہیں ہے۔ اسی لئے غور و فکر کرنے والے لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن دیگر ثقافتوں سے لوگ نالاں اور گریزاں نظر آتے ہیں۔ اسلامی ثقافت، جس میں آزادی اور انسانیت کی عظمت اور فلاح کے لئے اصول پائے جاتے ہیں اور دوسری ثقافتوں میں ظلم و بربریت وغیرہ کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ اسلامی ثقافت کی عمارت توحید کی بنیاد پر قائم ہےاس میں ذاتی اور اجتماعی عادات واطوار کے اصول منظم طریقے سے مرتب کئے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری ثقافتوں کی بنیاد جبر، ظلم اور ستم پر ہوتی ہے اور اس کا انجام و عاقبت اچھی نہیں ہوتی۔
اسلامی ثقافت اخلاق سے آراستہ ہے اور اخلاق کی نسبت سے ہی وہ ممتاز ہے۔ دنیا کے کسی ایسے معاشرے میں جہاں قانون ناپید ہو اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہوں وہاں اسلامی ثقافت کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔اسلامی ثقافت کی ایک خوبی خوشدلی ہے یعنی انفرادی واجتماعی تعلقات میں سامنے والے کو خوشحالی کے ساتھ قبول کرنا ہے۔جبکہ دیگر ثقافتیں پستی اور قید کاشکار ہیں جو انفرادی طور سے منفی اثرات مرتب کرتی ہے،بلکہ یہ اپنے ماننے والوں کے لئے دوسروں کے خلاف اس طرح بدگمانی پیداکرتی ہے۔
اسلامی ثقافت کے اندر یکساں روحانی وجسمانی توازن کا تصور موجود ہے جودراصل دین اسلامی کا معیار ہے۔یہاں روح جسم سے الگ نہیں ہے اورنہ ہی بشری جسم کو روح پر کوئی فوقیت حاصل ہے،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں کے اپنے حقوق موجود ہیں بشری تقاضے کے مطابق جس کے اثرات اس کے ماننے والوں پرجسمانی اور روحانی اعتبار سے پڑتے ہیں ،جو انسان کی ضروریات کے توازن قائم کرتا ہے۔ دین اسلام جہاں دنیا سنوارنے کی تاکیدکرتا ہے وہاں آخرت کی درستگی اور خیر کی آرزو رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ دین اسلام اپنے والوں کوایک بہترین امت قرار دیتا ہے۔جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔
تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔آل عمران:110۔
تھائی لینڈ میں عالمی چیلنجز اور مذہبی رہنماؤں کی ذمہداریوں پر نشست
ایران کے ثقافتی مراکز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس میں مہاچولا یونیورسٹی کی جانب سے پروفیسر وات سوتیوارارام (یونیورسٹی کے نائب صدر اور معبد کے سربراہ)، متعدد اساتذہ، منتظمین، اور ایران کی ثقافتی رایزنی کے ماہرین نے شرکت کی۔
اجلاس کے آغاز میں پروفیسر وات سوتیوارارام نے دونوں علمی و روحانی اداروں کے درمیان تعاون کے اس موقع پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہاچولا یونیورسٹی اس بینالمللی اجلاس کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
انہوں نے کہا: مذاہب کے رہنماؤں اور دانشوروں کے درمیان مکالمہ، قوموں کے مابین امن، ہمآہنگی اور دوستی کے فروغ کا راستہ ہے، اور ہم اپنی تمام علمی و روحانی صلاحیتوں کے ساتھ اس کانفرنس کی حمایت کریں گے تاکہ ایک ایسا ماحول قائم کیا جا سکے جو احترام، تفکر اور گفتوگو سے سرشار ہو۔
انہوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں مذہبی مطالعات اور بینالادیان مکالمے کے میدان میں یونیورسٹی کی نمایاں حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیمینار ایران اور تھائی لینڈ کے درمیان ثقافتی و دینی تعلقات کو مضبوط بنانے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی ایسے تمام اقدامات کی حمایت کرتی ہے جو امن، مفاہمت اور انسانی اقدار کے فروغ کے لیے ہوں۔
پروفیسر سوتیوارارام نے مزید کہا کہ دینی رہنماؤں کا کردار سماجی و اخلاقی بحرانوں کے خاتمے اور معاشروں میں ہمدلی پیدا کرنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ آج کی دنیا میں جہاں اخلاقی، سماجی اور ماحولیاتی بحران بڑھ رہے ہیں، مذہبی رہنماؤں کو صرف وعظ و نصیحت تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنے عمل سے بھی انسانیت اور ایمان کی مشترکہ زبان کو زندہ رکھنا چاہیے۔
بعد ازاں، ایران کے ثقافتی نمایندے نے تھائی لینڈ کی مرحومہ ملکہ والدہ کے انتقال پر تعزیت پیش کرتے ہوئے مہاچولا یونیورسٹی کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں مذاہب کے درمیان مکالمہ صرف ایک ثقافتی اقدام نہیں بلکہ عالمی معاشرے کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔
رایزن نے اس بات پر زور دیا کہ مذاہبی رہنما اور دانشور پائیدار امن، اخلاقی قدروں اور بینالاقوامی مفاہمت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور تھائی لینڈ اپنے طویل ثقافتی و روحانی روابط کی بنیاد پر مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کی ایک کامیاب مثال پیش کر سکتے ہیں۔
ثقافتی نمایندے نے مزید کہا کہ ایران ہمیشہ مکالمے کو باہمی شناخت، غلط فہمیوں کے ازالے اور اقوام کے مابین تعلقات مضبوط کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق “الٰہی مذاہب اگرچہ اپنی عبادات و رسوم میں مختلف ہیں، مگر ان کی اصل تعلیم ایک ہی ہے ، انسان کو اخلاق، عدل، محبت اور خدمت کی طرف بلانا۔
طے شدہ منصوبے کے مطابق، بینالمللی سیمینار برائے گفتوگوی ادیان بعنوان “عالمی چیلنجز اور مذہبی رہنماؤں و دانشوروں کی ذمہداریاں” ۱۶ دسمبر ۲۰۲۵ (۲۵ آذر ۱۴۰۴) کو بینکاک میں مہاچولا یونیورسٹی کے دفتر میں منعقد ہوگا۔
اس تقریب میں اسلام، بدھ مت، مسیحیت سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ۱۵۰ سے زائد علمی، ثقافتی اور مذہبی شخصیات شرکت کریں گی۔ اہم مہمانوں میں ایران کے اسلامی ثقافت و ارتباطات تنظیم کے سربراہ، تھائی لینڈ اور سری لنکا کے بدھ رہنما، شیخالاسلام تھائی لینڈ، اور وزیرِ ثقافت شامل ہوں گے۔
اجلاس کے اختتام پر شرکاء نے سیمینار کے مقام کا معائنہ کیا اور ہالوں کی ترتیب، سہولیات اور انتظامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ بھی طے پایا کہ دونوں فریق ایک مشترکہ تفصیلی پروگرام تیار کریں گے تاکہ اس بینالمللی تقریب کی شایانِ شان میزبانی کو یقینی بنایا جا سکے۔/
غزہ۔۔۔۔ مظلومیت کی علامت
یہ ایک عجیب اور دردناک مرحلۂ فکر ہے کہ دنیائے اسلام کا قلب و مرکز، فلسطین، گذشتہ ستر پچھتر برسوں سے عالمی کفر و نفاق کی سازشوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس طویل مظلومیت نے نہ صرف مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے بلکہ دنیا کے انصاف پسند انسانوں کو بھی سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آخر کب تک ظلم و جبر کے یہ سائے معصوم انسانوں پر مسلط رہیں گے۔؟ ایسے ہی تاریک حالات میں جب اسلامی دنیا مایوسی کے اندھیروں میں گھری ہوئی تھی، ایران میں انقلابِ اسلامی برپا ہوا۔ امام خمینیؒ کی قیادت میں آنے والے اس انقلاب نے نہ صرف ایران کے مقدر کو بدلا بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے امید کی ایک نئی کرن روشن کی۔ امام خمینیؒ اور ان کے بعد آنے والی قیادت نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کو اپنا ایمانی و انقلابی فریضہ سمجھا۔ انقلاب کے آغاز سے آج تک ایران کی خارجہ و دینی پالیسی کے محور میں فلسطین کی آزادی اور مظلوموں کی نصرت کا جذبہ نمایاں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کی پاداش میں عالمی استعمار۔۔۔۔ خصوصاً امریکہ اور اسرائیل۔۔۔۔ نے ہمیشہ ایران کو نشانہ بنایا۔ چند ماہ قبل کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں، جب ایرانِ اسلامی کے صفِ اوّل کے کئی بہادر جنرل اور سپاہی جامِ شہادت نوش کر گئے۔ لیکن ایران نے کسی دباؤ یا حملے کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنے کا عزم ایک بار پھر ثابت کر دیا۔ اس ثابت قدمی کا ایک بڑا ثمر یہ ہے کہ دنیائے اہلِ سنت کے عوام اب اُن مذہبی رہنماؤں پر سوال اٹھانے لگے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کیا اور اتحادِ امت کے بجائے تفرقہ انگیزی کو ہوا دی۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں ہونے والے بعض مظاہروں میں جس طرح امریکی و صیہونی بیانیے کی تائید میں ایرانِ اسلامی کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی اور "شیعہ کافر" کے نعرے لگائے گئے، اس نے اہلِ سنت کے چہرے کو مزید داغدار کیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہلِ سنت کے باشعور افراد اور تمام دردِ امت رکھنے والے مسلمان اپنی صفوں سے ایسے ناپاک اور فتنہ انگیز عناصر کو الگ کریں، جو دراصل کفر و نفاق کے آلہ کار ہیں۔ یہ وہی گروہ ہیں، جو گذشتہ تیس برسوں سے پاکستان کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب رہے ہیں اور آج بھی امریکی و اسرائیلی مفادات کے لیے زمین ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے عوام کو چاہیئے کہ وہ بیدار اور ہوشیار رہیں، تاکہ کوئی بھی گروہ بیرونی سازشوں کے ذریعے ہمارے اتحاد، ایمان اور استحکام کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
خداوندِ متعال سے دعا ہے کہ وہ ان سرکشوں اور دہشت گردوں کو نیست و نابود فرمائے، اسلامِ نابِ محمدیؐ کے پیروکاروں اور مدافعین کو فتح و نصرت عطا فرمائے اور رہبرِ انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آپ کی دیرینہ حمایت اور دفاع، جو غزہ کے مظلوموں کے لیے انجام دیا جا رہا ہے، بارگاہِ الہیٰ میں مقبول و منظور ہو۔ خداوندِ منّان مظلوم و بے کس فلسطینیوں، بالخصوص غزہ کے معصوم عوام کو جلد از جلد اسرائیل اور امریکہ کے ظلم و استبداد سے نجات عطا فرمائے اور پوری امتِ مسلمہ کو ایک بار پھر بیداری، اتحاد اور عزتِ ایمانی کی راہ پر گامزن کرے اور بقولِ جوش ملیح آبادیؔ:
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
تحریر: م ح بھشتی
نتن یاہو، ٹرمپ اور گروسی کے خلاف باضابطہ شکایت درج کرائی جائے، ایرانی اراکین پارلیمنٹ کا مطالبہ
ایرانی پارلیمنٹ کے اراکین نے امریکی صدر، صہیونی وزیر اعظم اور عالمی جوہری ایجنسی کے سربراہ کے خلاف عالمی اداروں میں شکایت کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ کے اجلاس میں 76 اراکین نے مشترکہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی کے خلاف بین الاقوامی اداروں میں باضابطہ شکایت درج کرائی جائے۔
یہ مطالبہ سبزوار سے رکن پارلیمنٹ بہروز محبی نجم آبادی اور دیگر 75 اراکین نے وزیر انصاف امین حسین رحیمی کے نام ایک تحریری درخواست کے ذریعے کیا۔
اراکین نے کہا کہ ایران کو عالمی سطح پر ان شخصیات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے جنہوں نے ایران کے خلاف کھلی دشمنی، دباؤ اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
پارلیمنٹ کے اراکین نے زور دیا کہ ایران کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف اقدامات پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ ان کے مطابق عالمی اداروں میں شکایت درج کرانے سے نہ صرف ایران کا مؤقف مزید مضبوط ہوگا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی جائے گا کہ ایران اپنے حقوق کے دفاع میں کسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
اراکین نے کہا کہ نتن یاہو اور ٹرمپ نے ایران کے خلاف کھلی جارحانہ پالیسیاں اپنائیں جبکہ گروسی نے عالمی ایٹمی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا۔ ایران کو چاہیے کہ ان اقدامات کو عالمی سطح پر چیلنج کرے تاکہ مستقبل میں ایسے اقدامات اور موقف کی حوصلہ شکنی ہو۔
غزہ میں صہیونی حکومت کے جنگی جرائم، ایران اور سعودی عرب کا او آئی سی کو فعال کرنے کی ضرورت پر زور
ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے قانونی و بین الاقوامی امور کاظم غریبآبادی نے دورۂ سعودی عرب کے دوران سعودی وزارت خارجہ کے معاون برائے امور بینالملل عبدالرحمن الرسی سے ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا اور بین الاقوامی، علاقائی و کثیرالجہتی تنظیموں میں تعاون کو مضبوط بنانا تھا۔
غریبآبادی نے اس موقع پر کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہم آہنگی، تعاون اور خوشگوار تعلقات سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ ان کے مثبت اثرات خطے اور عالمی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کئی شعبوں میں مشترکات رکھتے ہیں لہذا باہمی احترام اور حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں کے تحت اپنے تعلقات کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ تنظیم عالمی سطح پر مسلمانوں کی مؤثر آواز بن سکے۔
ملاقات میں دونوں فریقین نے بین الاقوامی تنظیموں میں جاری تعاون، حقوق بشر، قانونی و عدالتی امور اور اسلامی تعاون تنظیم کے کردار پر تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ OIC کو غزہ میں قابض حکومت کی جارحیت اور خطے میں اس کے مظالم کے خلاف مزید مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب سے ہزاروں اسٹوڈنٹس کی ملاقات
ایران سے سر جھکانے کی توقع رکھنا بے معنی ہے، رہبر معظم انقلاب
رہبر معظم نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان اختلاف، ایک بنیادی اور فطری اختلاف ہے۔ یہ دو مختلف نظاموں کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اور صرف اسی صورت میں امریکہ کی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست قابل غور ہو سکتی ہے جب امریکہ صہیونی حکومت کی مکمل حمایت ختم کرے، اپنے تمام فوجی اڈے خطے سے ہٹا لے۔
، یومِ طلبہ اور عالمی استکبار کی مخالفت کا قومی دن کی مناسبت سے، رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہزاروں طلبہ، طالبات اور 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
اس موقع پر انہوں نے 13آبان 1358(4 نومبر 1979ء) کو امریکہ کے سفارت خانے پر قبضے کے دن کو افتخار و کامیابی کا دن اور امریکہ کی استکباری حکومت کی حقیقی شناخت کو برملا اظہار کرنے کا دن، قرار دیا، وہ سفارتخانہ جو انقلاب اسلامی کے خلاف سازشوں اور منصوبہ بندی کا مرکز تھا۔
رہبر انقلاب نے اس دن کو قومی حافظے میں محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی کی تاریخ کو واضح کیا، جو آج تک جاری ہے۔
انہوں نے تاکید کی اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے درمیان اختلاف، ایک بنیادی اور فطری اختلاف ہے۔ یہ دو مختلف نظاموں کے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اور صرف اسی صورت میں امریکہ کی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست قابل غور ہو سکتی ہے جب امریکہ صہیونی حکومت کی مکمل حمایت ختم کرے، اپنے تمام فوجی اڈے خطے سے ہٹا لے اور علاقائی امور میں مداخلت بند کرے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ پوچھتے ہیں جناب عالی! ہم نے امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، لیکن کیا ہمیشہ کے لیے اس سے کوئی تعلق بھی نہیں رکھیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے پہلی بات یہ کہ امریکہ کی استکباری فطرت صرف تسلیم کے سوا کچھ قبول نہیں کرتی۔ (اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر خامنہ ای رہبر مردہ باد ضد ولایت فقیہ مردہ امریکہ مردہ باد برطانیہ مردہ باد منافقین اور کفار مردہ باد اسرائیل) یہ وہ چیز ہے جو تمام امریکی صدور چاہتے تھے لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے البتہ موجودہ صدر نے اسے کھل کر بول دیا کہ ایران کو سر جھکانا ہوگا یوں اس نے دراصل امریکہ کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا کسی قوم کا سر جھکانا وہ بھی ایران جیسی قوم جس کے پاس اتنی زیادہ توانائی، مال و دولت، شاندار فکری و معرفتی تاریخ اور ہوشیار اور حوصلے سے سرشار جوان (موجود ہیں) اس سے سرجھکانے کی توقع کرنا بے معنی اور فضول ہے
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اخلاقی سیرت
ہر دور میں اخلاق کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے، لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے؛کیونکہ:
۱۔ ہمارے دور میں گذشتہ زمانے سے زیادہ فسادات اور انحرافات کا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ دور میں گناہ اور فساد کے لیے وسائل مشکل سے میسر ہوتے تھے، لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں ہرچیز، ہرجگہ اور ہر شخص کی دسترس میں ہے۔
۲۔ گزشتہ دور میں ذرائع محدود تھے، بے خبری کا دور تھا ،باوجود اس کے کہ ہمارا زمانہ الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں کافی ترقی کر چکا ہے، لیکن آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے، قتل و غارتگری کے آلات، اخلاقی گراوٹ کے ذرائع جیسے: انٹرنیٹ میں فحش فلمیں اور تصاویر وغیرہ ا ٓج کے انسان کے اخلاق پر بہت بڑا اثر ڈال رہے ہیں۔
۳۔جہاں مختلف مفید علوم نے ترقی کی ہے اور انسانی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے، وہاں گزشتہ دور سے زیادہ شیطانی، غیرانسانی اور غیر اخلاقی علوم کا بھی اضافہ ہوا ہے، جن کے ذریعے سے پیچیدہ سے پیچیدہ اور سادہ سے سادہ تر انداز میں اپنے گھناؤنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔
لہذا اس دور میں اخلاق کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے، جس سے انکار ناممکن ہے۔ جتنا زیادہ غفلت ہوگی اتنا زیادہ جرائم میں اضافہ ہوگا۔ لہذا قرآن کریم کی نظر میں انسان، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہی سکون حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنی بھی کوشش کرے کہ اخلاقی لحاظ سے کامیاب ہو سکے بے سود ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: ’’ يا أَيُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلاقيه‘‘ یعنی اے انسان تم سخت کوشش اور سعی کر کے اپنے پروردگار کی طرف جارہے ہو (تو جان لوبالآخر) اس سے ملاقات کر لو گے۔
دوسری طرف سائیکالوجی اور اسی طرح تجربات سے بھی ثابت ہے کہ انسان رفتار و کردار میں کسی نمونہ ٔ عمل کا محتاج ہوتا ہے اور ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوتا ہے جس سے دل لگائے، ارادت کا اظہار کرے اور اس کی پیروی کرے، اگر لوگ ایک شخص میں کوئی خصوصیت کو دیکھتے ہیں تو اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اس کے ہر کام میں حتی کہ اس کی وضع و قطع اور لباس و آرائش کرنے میں بھی اس کی تقلید کرتے ہیں۔شخصیت کا کردار اوراس کی گفتار ، نمونۂ عمل کے حصول اور مربی شخصیات انسان سازی کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
خوش قسمتی سے ایسی شخصیات موجود ہیں جو مکمل طور پر ہمارے لیے اسوہ اور نمونہء عمل ہیں، خداوندعالم نے اہل بیتِ اطہار علیہم السلام کا تعارف کرایا ہے، قرآن کریم کی تصریحات کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام مقام عصمت پر فائز ہیں اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہیں:
’’ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ‘‘
یعنی اے (پیغمبر کے) اہلبیت !اللہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ہر قسم کی پلیدی(گناہ )کو دوررکھے اور آپ کو مکمل طور پر پاک وپاکیزہ رکھے۔
خداوندمتعال نے معصومین علیہم السلام کو وہ تمام شرائط عطا کی ہیں جو کہ نمونہ ٔعمل اور پیروکار ہونے کا باعث بنتی ہیں۔اسی وجہ سے عقل حکم دیتی ہے کہ انسان ان کے نقش قدم پر چلے، وہی شخصیات کہ جن کی گواہی تاریخ نے دی اور اعتراف دوست اور دشمن دونوں نے کیا کہ انہی شخصیات کو فضائل و کمالات میں سبقت حاصل ہے۔ سب سے زیادہ خوبیوں کے حامل ہیں اور تمام نیک، پاکیزہ اور صاحبان کمال لوگ ان کی نیک خصلتوں کے خوانِ نعمت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ ایسے رہبر کہ جو اپنے خدادادی علم کے ذریعے راہ سعادت سے آشنا ہیں اور آخری عمر تک اس راہ سعادت کو طے کیا، الہی علم اور قدرت کے وسیلے سے اس راہ پر چلنے والوں کی راہنمائی اور دستگیری کی توانائی اور طاقت کے حامل ہیں۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو بطور نمونۂ عمل اور اسوۂ حسنہ متعارف کرارہا ہے اور فرماتا ہے:
’’ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ‘‘
یقیناً تمہارے لیے رسولؐ خدا (کی سیرت) میں نمونہ عمل ہے، (البتہ) ان لوگوں کے لیے جو خدا کی (رحمت)اور روز قیامت کی امید رکھتے ہیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں
پیغمبر خدا ﷺ کا عالی نفس، صبر و استقامت اور صبر و شکیبائی، ان کی ہوشیاری، آگاہی، خلوص نیت، خداکی جانب خاص توجہ، حادثات پر قابو پانا، سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں گھٹنے نہ ٹیکنا، یہ سب تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔
امتوں کے لیے الٰہی نمائندوں کا ہر قسم کے گناہ اور اور خطاؤں سے بلکہ ان کی فکر سے بھی محفوظ ہونا لازمی ہے، حتی کہ سہو و نسیان سے بھی پاک ہوں۔ کیونکہ ۔گناہگار شخص لغزش اور سہو و خطا کی وجہ سے کسی بھی صورت میں دوسروں کے لیے نمونۂ عمل قرار نہیں پا سکتااور لوگ آسانی سے اس کے فرمانبرداراور اس سے لَو نہیں لگا سکتے اور نہ ہی اس کے عمل اور کردار کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دے سکتے ہیں۔
انہی معصومین ؑ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاہیں، جن کی سیرت کو حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اپنے لیے اسوہ قرار دیتے ہیں، اس سے معلوم ہوا ،ان کی سیرت ہر لحاظ سے نہ فقط خواتین کے لیے، بلکہ مردوں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہء عمل ہے۔
چنانچہ ہم یہاں پر جناب سیدہ کونین مخدومہ عالم دخترِ رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے چند قرآنی قابلِ عمل نمونے ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
۱۔اگر قرآنِ مجید والدین کے ساتھ ’’احسان‘‘ کی بات کرتا ہے تو جناب فاطمہ زہرا ؑ نے حضورؐ کی ذات کے ساتھ اس قدر احسان اور نیکی کیا ہے کہ حضور سرورِکائنات ؐکی طرف سے :’’فَاطِمَۃُ اُمِّ اِبِیْہَا‘‘ جیسا مقام حاصل کرتی ہیں۔ یعنی فاطمہ ؑاپنے باپ کی ماں ہے۔
۲۔اگر قرآنِ مجید میں بخشش اور ایثار کی بات ہوتی ہے تو سیدہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خود بھوکا رہ کر مہمان کو کھانا کھلایا۔
۳۔اگر قرآن میں ہجرت کی بات ہے تو فاطمہ زہرا ؑ نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
۴۔اگر قرآن میں صبر، خلوص، تسلیم و رضا، تقویٰ اور حیا کی بات ہے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان کمالات کے عروج پر تھیں ۔ جن کی تفصیل آگے بیان ہوگی، ان شاء اللہ۔
۵۔ اگر قرآن میں علم و حکمت کی بات ہے تو حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے پاس بھی ایک کتاب ہے جس کانام ہے: ’’مصحفِ فاطمہ ؑ ‘‘ اور ائمہ معصومین علیہم السلام آئندہ کے حالات سے مطلع ہونے کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
۶۔ اگر قرآنِ مجید میں کوشش اور ہمت سے کام کرنے کی بات کی گئی ہے تو حضرت زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھوں پر گھر کے کام کرتے کرتے چھالے پڑ گئے تھے۔
۷۔ اگر قرآن مجید میں عدالت کی بات کی گئی ہے تو حضرت فاطمہ زہرا ؑ گھر کے کاموں کو اپنے اور کنیز کے درمیان تقسیم کرلیتی تھیں۔
۸۔ اگر قرآن میں الٰہی نمائندے کی بات کی گئی ہے تو حضرت زہرا اطہر ؑ نے مسجدنبوی میں ایسا خطبہ دیا جس میں حکومتِ وقت کے سامنے احتجاج اور اپنے شوہر کی حمایت کی جس کا انجام بالآخرآپ کی شہادت ٹھہرا۔
ان چند نمونوں کو دیکھ کر ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ قرآنِ مجید کا مکمل عملی نمو نہ تھیں ۔
اخلاق اور سیرت کے لغوی و اصطلاحی معانی
اخلاق کا لغوی معنی
اخلاق،’’خُلُق‘‘ یا ’’خُلْق‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے طبیعت اور عادت۔ جو کہ ’’خَلْق‘‘کے ایک ہی ریشے سے تعلق رکھتا ہے۔ صرف ایک فرق کے ساتھ کہ ’’خَلق‘‘ صفات اور ظاہری جسمانی صورتوں سے تعلق رکھتا ہے جو قوت بینائی اور ظاہری بصارت سے درک ہو جبکہ ’’خُلُق‘‘ یا ’’خُلْق‘‘ کا معنی ہے انسان کی باطنی اور نفسانی صفات جو بصیرت سے درک ہوں ۔ قرآن کریم میں بھی لفظ ’’خُلُق‘‘اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ پروردِگار عالم قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظيم‘‘
اخلاق کا اصطلاحی معنی
اصطلاح میں اس کا معنی ہے، ایسی نفسانی خصوصیات جن سے بآسانی انسان کے افعال کا پتہ چلے۔
وہ خصوصیات جو نفس میں فعل کے تکرار، معرفت کا حصول اور ضروری بصیرت، غور و فکر اور عنایات الٰہی،راسخ ہو چکے ہوں اور بآسانی زائل نہ ہوسکیں۔ بعض محققین اخلاق کااطلاق ہر اس کام کے ساتھ کرتے ہیں جو اچھے یا برے ہوں۔
اخلاق اور آداب دونوں انسان کے افعال سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں بہت فرق ہے، علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ آداب اور اخلاق کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ہر معاشرہ كے آداب و رسوم اس معاشرہ كے افكار اور اخلاقى خصوصيات كے آئينہ دار ہوتے ہيں اس لئے كہ معاشرتى آداب كا سرچشمہ مقاصد ہيں اور مقاصد اجتماعي، فطرى اور تاريخى عوامل سے وجود ميں آتے ہيں ممكن ہے بعض لوگ يہ خيال كريں كہ آداب و اخلاق ايك ہى چيز كے دو نام ہيں ليكن ايسا نہيں ہے اسلئے كہ روح كے راسخ ملكہ كا نام اخلاق ہے، در حقيقت روح كے اوصاف كا نام اخلاق ہے ليكن ادب وہ بہترين اور حسين صورت ہے كہ جس سے انسان كے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہيں۔ادب اور اخلاق كے درميان اس فرق پر غور كرنے كے بعد كہا جا سكتا ہے كہ خلق ميں اچھى اور برى صفت ہوتى ہے ليكن ادب ميں فعل و عمل كى خوبى كے علاوہ اور كچھ نہيں ہوتا، دوسرے لفظوں ميں يوں كہا جائے كہ اخلاق اچھا يا برا ہو سكتا ہے ليكن ادب اچھا يا برا نہيں ہو سكتا۔ ‘‘
سیرت کا لغوی معنی
ابن منظور کے بقول اس کا اصل مادہ ’’س ی ر‘‘ ہے، جس کا معنی ہے، راہ چلنا، روش و رفتار، سنت و طریقت و ھیئت، صاحب قاموس قرآن کے مطابق ’’سیرت‘‘ کا معنی ہے: ’’ انسان یا غیر انسان کی حالت چاہے طبیعی اور فطری ہو یا کسبی؛صحیح ہو یا نہ ہو‘‘
سیرت کا اصطلاحی معنی
مسلمانوں کے درمیان سیرت کا لفظ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں رائج ہوا، جو لوگوں کی عملی یا مجموعی زندگی کے طریقہ کے تسلسل سے عبارت ہے۔ مفکر اسلام استاد شہید مطہری ؒ نے سیرت کا کچھ اس طرح معنی کیا ہے: ’’سیرۃ، بروزن ’’جِلسۃ‘‘ ہے یعنی انسان کے رفتار اور کردار کی ہیئت اور نوعیت‘‘۔
چونکہ مقالہ کا موضوع جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اخلاقی سیرت ہے لہذا ان کی سیرت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔انفرادی اخلاق ۲۔اجتماعی اخلاق
۱۔انفرادی اخلاق
ایسے اخلاق جو انفرادی طور پر جناب زہرا سلام اللہ علیہا جیسی عظیم اور برجستہ شخصیت کی مادی اور معنوی زندگی کے ساتھ خاص ہیں، ان کو ہم ذیل میں بیان کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں:
۱۔اطاعت : جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت، فقط اطاعتِ فرامینِ خداوندقدوس اور جناب رسول اللہ ﷺ پر مشتمل تھی۔ اس حد تک کہ جب آیت: ’’ لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ‘‘ (یعنی رسول اللہ ﷺ کو ایسے نہ پکارا کرو جیسے خود اپنے درمیان میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو)نازل ہوئی۔ جناب سیدہؑ اس آیت کی اطاعت کرتے ہوئے، پیغمبر خدا ﷺ کو ’’یا رسول اللہ‘‘ کہہ کر خطاب کیا۔ لیکن پیغمبر ﷺ نے اس کام سے منع کیا کہ یہ خطاب ان کی اولاد سے نہیں ہے اور فرمایا کہ: یہ جو مجھے ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتی ہو، میرے دل کی تسکین اور رضایت خداوندی کا سبب ہے۔ جب خداوندعالم نے حکم دیا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردئیے جائیں، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بیٹوں حسن اور حسین علیہما السلام کے ساتھ، اپنے والد گرامی کے حکم کے انتظار میں گھر کے باہر بیٹھی رہیں۔ جنابِ رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا: آپ تو پیغمبر ؐ کا نفس اور جان ہیں ، اس دستور سے مستثنٰی ہیں۔
۲۔صبر و رضا: اس سلسلے میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت بہت اہمیت کی حامل ہے، مشکلات کے مقابلے میں اپنے امور کو اللہ کے سپرد کرتی تھیں جس کے نتیجے میں تسلیم و رضائے پرودگار حاصل ہوتی تھی۔ لہذا اپنی زندگی کی انفرادی، خاندانی اور اجتماعی سختیوں کو چونکہ مشیت الٰہی اور تقرب الی اللہ کی نیت سے دیکھتی تھیں، کسی قسم کے شکوہ و شکایت کے بغیر نہ صرف برداشت کرتی تھیں بلکہ راضی برضا ہونے کا اظہار بھی کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پیغمبر گرامی قدر ﷺ نے امام حسین علیہ السلام کے اس دنیا میں تشریف آوری سے پہلے فاطمہ زہراؑ کوان کی شہادت کی خبر دیتے ہیں تو صبر اختیار کرکے، قضائے الٰہی کے مقابلے میں راضی ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ جب رسول اللہﷺ فاطمہ ؑ کو دیکھتے ہیں کہ اونٹ کے پشم سے بنا ہوا لباس پہنے، چکی پیس رہی ہیں اور ساتھ میں اپنے فرزند دلبندکو ،دودھ بھی پلا رہی ہیں، روتی ہوئی آنکھوں سے ان کو وصیت فرماتے ہیں: دنیا کی تلخیوں کو آخرت کی شیرینی کے لیےبرداشت کرو، جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے شکریہ ادا کرتے ہوئے، تقدیر الٰہی کے مقابلے میں اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا۔
۳۔خاموشی اور صداقت: انسانی اخلاق صداقت اور خاموشی پر استوار ہے، کسی نبی یا امام کی عصمت کے لیے اولین شرط ہے، اس بارے میں قرآن کریم اور روایات میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ احادیث میں اس کی اہمیت کا اندازہ ااس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسےحکمت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ، محبت کا سبب، بھلائی، خیر اور فکر کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اپنی گفتگو میں صداقت اور راستگوئی کو اپنائے، جناب عائشہ ؓ کے مطابق اس کے لیے جناب سیدہ ؑ واضح اور بہترین اسوہ ہیں۔
۴۔عفت اور حیا: کسی بااخلاق خاتون کے لیے عفت اور حیا سے بڑھ کوئی اور خصلت قابلِ شرف نہیں، یہ خصوصیت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ساری زندگی میں واضح اور آشکار رہی ہے۔ خواتین کے لیے ان کی زندگی موجودہ ترقی یافتہ زمانے میں بہترین نمونۂ عمل ہے۔ ان کی نظر میں بہترین عورت وہ ہے جو مردوں سے کم رابطہ رکھے۔ حجاب، جو عورت کے لیے اسلام کی طرف سے عظیم تحفہ ہے، اس صدف کی حفاظت اور عزت نفس کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے اس کا بہترین انداز میں اظہار فر ما کر دنیا کی خواتین کے لیے راہ ہموار کی، مخدومۂ کونین ہوتے ہوئے انتہائی سادگی کے ساتھ چادر کو سر سے پاؤں تک چھپاتی تھیں۔ سادگی کی انتہا دیکھیے کہ جناب سلمان فارسی ؓ حیرت کے ساتھ حضرت رسول اللہﷺ کو عرض کرتے ہیں کہ کسریٰ اور قیصر کی بیٹیوں کا لباس تو حریر دیبا ہو، لیکن دختر رسول اللہ ﷺ پشم کی پرانی چادر ہو جس پر بارہ پیوند لگے ہوں۔ جناب سیدہؑ کی چادر اس حد تک لمبی ہوتی تھی کہ ان کے پاؤں کو چھپاتی تھی۔ روایات میں پڑھتے ہیں کہ حضرت زہرا سلام للہ علیہا خطبۂ فدک بیان کرنے کے لیے جب مسجد نبوی ؐ کی طرف جارہی تھیں تو ان کی چادر زمین کو خط کھینچتے ہوئے کبھی کبھی ان کے پاؤں کے نیچے آجاتی تھی، اور جب مہاجرین و انصار کے جھرمٹ میں مسجد داخل ہوئیں تو ایک پردہ لٹکایا گیا اور وہ پس پردہ بیٹھ گئیں۔ جناب سیدہ ؑ نے اپنے اور نامحرموں کے درمیان پردہ کے ذریعے حجاب کی اہمیت اجاگر فرمایا۔نامحرم مردوں کی ہمنشینی سے اجتناب ۔ ان کے حیا اور عفت پر ایک اور دلیل ہے۔حتی کہ اپنے جنازہ پر بھی حجاب اور عفت کا خیال رکھتی ہیں، عموما اس معاملے میں خواتین بے خبر ہوتی ہیں، اپنی رحلت کے وقت، وصیت فرماتی ہیں کہ ان کے تابوت کو ایسا تیار کیا جائے کہ ان کا بدن ظاہر نہ ہو۔
۵۔اپنی ذاتی ضروریات میں میانہ روی:حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنی عظمت و سربلندی کے باوجود چاہے کھانا پکانا ہو اور چکی چلانا،دوسری خواتین کی مانند اپنے گھر کے امور کو خود چلاتی تھیں۔ اپنے گھر کی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق کھانا تیار کرنا جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت میں شامل تھا، تکلف میں پڑے بغیر اپنے شوہر نامدار پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالتی تھیں۔
۶۔پوشاک: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، سادگی اور لباس پہننے کے لحاظ سے بہت خیال رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ زہراؑ کی پیوند زدہ چادر جناب سلمان فارسی کے لیے تعجب کا باعث بن گئی تھی۔ ابوبکر سے احتجاج کے لیے مسجد کی طرف جاتے ہوئے آنجنابؑ کا اپنی چادر کو زمین پر خط کھینچتے ہوئے جانا، لباس پہننے میں ان کی سیرت کی بہترین مثال ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سادہ اور زاہدانہ لباس، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں فقراء کے ہم سنگ زندگی گزار رہی تھیں اور کسی قسم کے امتیاز کی قائل نہیں تھیں۔
۷۔نظافت: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نظافت اور صفائی سھترائی میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے دستور پر عمل پیرا ہوتی تھیں کہ وہ نظافت کو ایمان میں شمار کرتے تھے۔ جناب صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا کے ذریعے سے رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل ہے جس میں اس بات کی حکایت کو بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں سوئے کہ اس کے ہاتھ چربی سے آلودہ ہوں وہ (کسی مشکل اور بیماری کی صورت میں) اپنے علاوہ کسی اور کو ملامت نہ کرے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا جناب زہرا ؑ کا گھر میں جھاڑو دینے کے بارے میں فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ جناب سیدہ ؑ نظافت و پاکیزگی کا خاص خیال رکھتی تھیں۔
۸۔زینت: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، دوسری خواتین کی مانند، اپنے گھر اور زندگی کی تزئین و آرائش کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ گردن بند سے استفادہ کرنا، کنگن اور اسی طرح گھر میں پردہ آویزاں کرنا ان کے بہترین نمونے ہیں۔ لیکن زینت کے معیارکو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں معاشرے کے حالات کا خیال رکھتی تھیں۔ لہذاجب اپنے گلے میں گردن بند آویزاں کیا ہوا تھا تو پیغمبر اکرم ﷺ کی عدم رضایت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی فقیر کو بخش دیا، کہ یہی فعل خوشنودی پیغمبر ﷺ کا سبب بن گیا۔ اسی طرح وہ پردہ اور کنگن کہ جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو جنگ میں غنیمت کی صورت میں ملا تھا، رسول اللہ ﷺ کی نگاہوں میں ان کی ناراضگی کو محسوس کیا تو اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو دے کر فرمایا کہ ان کو اپنے نانا جان کی خدمت میں پیش کریں، آنحضرت ﷺ نے بھی ان کو اصحاب صفہ میں جو کہ بہت غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے، میں تقسیم کردیا اور فاطمہ زہرا ؑ کو دعائے خیر دی اور بہشت کی زینتوں کی خوشخبری دی۔ ایک حدیث میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: عقیق کی انگوٹھی پہننا خیر و خوبی کا سبب بنتا ہے۔ جو کہ ایک قسم کی تزئین کی طرف رغبت دلانے کی دلیل ہے۔
۹۔خوفِ خدا اور یادِ مرگ:صدیقہء کبری سلام اللہ علیہا قیامت کے سلسلے میں یقین کی منزل تک پہنچی ہوئی تھیں اوراس سلسلے میں پروردگار عالم کے حضور ان کی مناجات اور دعاؤں سے معلوم ہواکہ ان کی سیرت قیامت کے دن کے خوف اور اسی طرح اللہ کے فضل و کرم کی امید پر استوار تھی، ان کی سیرت اپنے مرحومین کے مزاروں پر حاضری، نماز پڑھنا، عزاداری اور ان پر گریہ کرنا، اہل قبور کی زیارت کے علاوہ اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ وہ کس حد تک قیامت پر مضبوط عقیدہ رکھتی تھیں۔وصیت لکھنا اور اسی طرح اپنے آپ کو موت کے لیے آمادہ کرنا بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔ سیرت نگاروں کے مطابق پیغمبر گرامی ﷺ کے چچا جناب حمزہ کی شہادت کے بعد ان کی قبر پر ہر جمعہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت کے مطابق نبی مکرم ﷺ کی رحلت کے بعد ہر پیر اور جمعرات، جناب حمزہ اور دوسرے شہداءکی قبر پر جاتیں، نماز پڑھتیں اور گریہ فرماتی تھیں۔ ان کا شدت کے ساتھ ان امور کی انجام دہی دراصل رحلت پیغمبر خدا ﷺ کے بعد اہلبیت اطہار علیہم السلام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر اس وقت کے ظالم حکمرانوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار اور شدید احتجاج تھا۔ جناب سیدہ ؑ کے فرمان کے مطابق خلافت غصب کرنے کی وجہ ان کا دنیوی زندگی پر فریفتہ ہونا، موت اور آخرت کو فراموش کرنا ہے۔ ان کا وصیت نامہ، یادِ مرگ و آخرت کا دوسرا نمونہ ہے۔ اپنی وصیت میں اپنے شوہرنامدار کو اپنی قبر پر قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت اور دعا کی سفارش کرنا، مرحومین کی یاد اور ان پر احسان کرنے کے سلسلے میں ان کی سیرت کی نشاندہی کرتی ہے۔
۱۰۔زہد اور دنیا سے دوری: جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی انفراد ی اور اجتماعی زندگی، زاہدانہ اور دنیا سے دوری کی سیرت پر مشتمل تھی۔ زندگی جناب زہرا ؑ کا ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ جتنا بھی دنیاوی کاموں سے محروم ہوتیں آپ فقط رضائے الٰہی کی خواہشمند رہتیں۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی دشوار زندگی، مسلمانوں کے اقتصادی حوالے سے پسماندگی کے ایام میں بھی ایثار اور سخاوت پر مبنی تھی۔ دنیاوی لذتوں سے ہمیشہ دور اور اس کی ہر قسم کی ظاہری وابستگی سے بیزار رہتیں۔
۱۱۔صبر و استقامت: صبر کا تعلق اخلاقی فضائل سے ہے، جس کی دین اسلام میں بہت تاکید ہوئی ہے، اللہ کے صالح بندے، بالخصوص پیغمبران الٰہی علیہم السلام کی اس زمرے میں توصیف کی گئی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہوتا ہے: ’’ وَ كَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ في سَبيلِ اللَّهِ وَ ما ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَكانُوا وَ اللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرين‘‘
اسی طرح پیغمبر گرامی ﷺ کو صبر کی تلقین کے ساتھ مبعوث فرمایا، امام صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ َ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ بَعَثَ مُحَمَّداً ص فَأَمَرَهُ بِالصَّبْرِ و‘‘
احادیث معتبرہ میں اس اخلاقی فضیلت کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ صبر، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اخلاقی سیرت میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ اگرچہ ان کی عمر مبارک کم تھی لیکن سختیوں اور مصائب سے پر تھی، جس پر صبر کرنا صرف فوق العادہ شخصیت کا کام ہے۔ جناب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اپنے تمام تر کمالات ،فضائل اور اُس فوق العادہ طاقت کے ذریعے ان تمام مصائب اور مشکلات کو برداشت کیا۔ ایسے طاقت فرسا مصائب جناب زہرا پر ڈھائے گئے تھے کہ مجبور ہو کر اپنے دردِ دل کو کچھ طرح بیان فرماتی ہیں:
مَا ذَا عَلَى مَنْ شَمَّ تُرْبَةَ أَحْمَدَ أَنْ لَا يَشَمَّ مَدَى الزَّمَانِ غَوَالِيَا
صُبَّتْ عَلَيَ مَصَائِبُ لَوْ أَنَّهَا صُبَّتْ عَلَى الْأَيَّامِ صِرْنَ لَيَالِيَا
صالحی شامی طبرانی، ابن حبان اور حاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ جب بھی مستقبل میں اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مصائب کے بارے میں بتاتے تو جناب سیدہ ؑ کو صبر کی تلقین فرماتے تھے، جناب جبرائیل ؑ کی طرف سے آنے والی خبروں کے ذریعے ، حضرت زہراؑ کو بتاتے کہ مسلمان عورتوں میں سب سے زیادہ مصائب آپ پر پڑیں گے، تو صبر بھی ان تمام خواتین سے زیادہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت میں بھی آپ کو ’’امتحان اور آزمائش میں سب سے زیادہ صبر کرنے والی‘‘ کے نام سے خطاب ہوا۔ جناب رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد، اس طرح کے امتحانات پر جب جناب سیدہ ؑ نے اپنے شوہر نامدار کو مسلحانہ اقدام کرنے کا کہا ، اسی وقت اذان کا وقت ہو گیا، تو جناب علی علیہ السلام نے ’’اشھد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگر چاہتی ہیں یہ لفظ اذان میں باقی رہے تو صبر کرنا پڑے گا۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی اسے قبول کیا اور سکوت اختیار فرمایا۔
اجتماعی اخلاق
انسان کا اپنے وجود کے علاوہ دوسروں سے طرزِِ معاشرت اجتماعی اخلاق کہلاتا ہے۔ خاندان، والدین، زوجہ، اولاد اور معاشرے میں لوگوں سے سلوک اجتماعی اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم ذیل میں اس کی تفصیل ذکر کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں:
خاندان
خاندانی زندگی میں، انسان کا تعلق اپنے باپ، ماں، شوہر و بیوی، اولاد اور نسبی خاندان والوں سے ہوتا ہے۔ چونکہ جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا قرآن و سنت کی رو سے عصمت کے درجہ پر فائز تھیں، ہمارے لیے اپنے خاندان والوں کے ساتھ ان کی اخلاقی سیرت بہترین نمونہ ہے۔ ہم ذیل میں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی اپنے والدین، شوہر اور اولاد کے ساتھ اخلاقی زندگی کے بارے میں تحقیق بیان کرنے کا شرف حاصل کریں گے:
والدین
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پیغمبر ﷺ جیسی عظیم نعمت اور خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا جیسی باعظمت ماں میسر تھی۔ اگرچہ ماں کی زندگی کے کم حصہ کو درک فرمایا تھا اور تقریباً پانچ سال کی عمر مبارک میں اپنی ماں سے محروم ہوگئی تھیں لیکن جناب خدیجہ ؑ کی رحلت کے بعد کئی سالوں تک اپنی ماں کے فضائل کا دفاع کرتی رہیں، جناب خدیجہ ؑ کی رحلت کے بعد، حضرت عائشہؓ نے پیغمبر گرامی اسلام ﷺ کو ان کے ساتھ بڑی عمر میں شادی کرنے پر اعتراض کیا اور اس سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو آزردہ خاطر کیا، اس کی شکایت کرنے اپنے والدِ گرامی کے پاس گئیں تو، پیغمبر ﷺ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّ بَطْنَ أُمِّكِ كَانَ لِلْإِمَامَةِ وِعَاء‘‘ آپ کی ماں تو ظرفِ امامت تھیں۔ اپنے والد گرامی کی اس حد تک خدمت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کو ’’اُم ابیھا‘‘ کے لقب سے یاد فرماتے ہیں، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ کوئی عام بات نہیں ہے، یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت اور بلند اخلاق پر مشتمل سیرت پر بیّن دلیل ہے۔ حضرت زہرا ؑ ور پیغمبر ؐ کے درمیان محبت ، باپ اور بیٹی کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ جب بھی فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والد گرامی کے ہاں جاتیں، پیغمبرخدا ﷺ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے، ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے تھے، اور اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ فاطمہ زہرا علیہا السلام کسی بھی صورت میں اپنے والد گرامی قدر ﷺ کی ناراضگی اور غم و حزن کو برداشت نہیں کرتی تھیں۔ حضور ؐ کی مشکلات سے معمورمکی زندگی میں جب مشرکین نے نماز کی حالت میں ان کی پشت پر اونٹ کی اوجڑی ڈال دی، تو جناب فاطمہ ؑ کم سنی کے عالم میں آلودگی کو صاف کرتی ہیں، مشرکین کو ملامت کرتے ہوئے جناب ابوطالب کو باخبر کرتی ہیں۔ پیغمبر خدا ﷺحسب معمول جنگ سے واپسی پر پہلے مسجد جاتے، دورکعت نماز بجالاتے، پھر بجائے اس کے کہ دوسری جگہ جائیں، جناب فاطمہ ؑ کے گھر جاتے۔ ایک مرتبہ جنگ سے واپسی پر اپنے والدِ گرامی کو دیکھتے ہی ان کے چہرہ مبارک اور آنکھوں کا بوسہ لینا شروع کردیا اور رودیا۔ اپنے رونے کا سبب ان کا غبار آلود چہرہ، تھکاوٹ اور پھٹا ہوا لباس کو دیکھ کر خود بیان کرتی ہیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ ان کی تسلی کے لیے فرماتے ہیں: میرا کام لوگوں پر اتمام حجت ہے، مومنین کے لیے عزت اور دشمنوں کے لیے ذلت کا سبب بنے گا۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کہتے ہیں: ایک دن پیغمبر خداﷺجناب زہرا سلام اللہ علیہا کے مہمان ہوئے، سیدہ ؑ کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا، لیکن اپنے بابا کا گرمجوشی سے استقبال کیا، گھر کے ایک کونے میں نماز کے لیے کھڑی ہوئیں اور ان کی دعا سے آسمانی مائدہ نازل ہوا۔ جناب رسول اللہ ﷺ کے وقتِ احتضار، جناب زھرا ؑ واحد خاتون تھیں جو سب سے زیادہ پریشان اور غمگین تھیں، شدتِ گریہ کی وجہ سے پیغمبر ؐ نے بھی رونا شروع کردیا، اور بشارت دیتے ہوئے فرمایا: آپ سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوں گی۔ اس خوشخبری سے جناب کو سکون حاصل ہوا۔ پیغمبر خداﷺ کے ساتھ اس حد تک شدید محبت رکھتی تھیں کہ، آنحضرت ﷺ کی رحلت کے بعد جب والدِ گرامی کا پیراہن کو سونگھا تو بے ہوش ہوگئیں،جب جناب علی علیہ السلام نے یہ حالت ملاحظہ فرمائی تو اس پیراہن کو چھپا دیا تھا۔
شوہر
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جب بھی اپنے شوہر نامدار کو غمگین حالت میں دیکھتیں، ان کی دلجوئی فرماتی تھیں۔ ان کی جدائی سے بے تاب ہوجاتی تھیں اور پریشانی کا اظہار فرماتی تھیں اور ان کے دیدار کا شدت سے اشتیاق ہوتا تھا۔ اپنے شوہر کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کو طلب نہیں کرتی تھیں۔ پریشانیاں اور مصائب ان کے درمیان میں مانع نہیں ہوتی تھیں۔ اپنے شوہر اور اولاد کے ساتھ ایثار کی انتہا دیکھیے کہ تنگدستی کے ایام میں تھوڑی سی غذا کو انہیں کی خدمت میں ہی پیش کرتی تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے شوہر کے سامنے جھوٹ، خیانت اور اپنی مخالفت کی نفی کرتی ہیں، جبکہ امام علی علیہ السلام بھی ان کی تائید فرماتے ہیں اور فاطمہ علیہا السلام کے کی ذات سے بعید سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے یا آپ کی مخالفت کرے، یہاں تک کہ ان کی جدائی کو اپنے لیے عظیم مصیبت سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی اس طرح کا طرزِ عمل ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ جناب سیدہ ؑ نے ہمارے لیے زوجین کے درمیان زندگی گزارنے کا درس دیا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی بھی اختلاف نہ ہو، زندگی خوشگور گزرے اور کسی قسم کی رنجش نہ ہو تو ان تین باتوں کا خاص خیال رکھیں: ۱۔اپنی ازدواجی زندگی میں کبھی بھی جھوٹ نہ بولیں۔۲۔کبھی بھی خیانت کا ارتکاب نہ کریں، بلکہ خیال تک نہ لے آئیں۔۳۔ایک دوسرے کی کبھی مخالفت نہ کریں۔
اولاد
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتی تھیں اور ان کے لیے بچگانہ اشعار گنگناتی تھیں۔ گھر کو اپنے شوہر اور اولاد کے لیے محبت آمیز بناتی ہیں۔ اپنی اولاد کے ساتھ مادرانہ محبت سے مکمل طور پر آگاہ تھیں، اپنی سب سے پہلی وصیت میں حضرت علی علیہ السلام سے کہتی ہیں: میرے بعد اپنی پھوپھی کی بیٹی سے شادی کریں، کیونکہ وہ میری اولاد پر اسی طرح مہربان ہے جس طرح میں اپنی اولادپر مہربان ہوں۔
معاشرہ
ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ انسان ان کے کردار کو اپنا تا ہے جو حجت خدا، معصوم اور ہر قسم کی خطا و لغزش سے پاک ہو، لہذامعاشرے کے لیے صرف اور صرف معصومین علیہم السلام کی اخلاقی روش ہی حجت قرار پا سکتی ہے،جناب صدیقۂ کبریٰ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے اگرچہ حیا مانع تھی، لیکن معاشرے میں اپنے حجاب اور عفت کے دائرے میں رہتے ہوئے، ترویج دین کے لیے ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ذیل میں اپنی بساط کے مطابق جناب سیدہ ؑ کا معاشرے میں اخلاقی کردار کے لحاظ سے تحقیق بیان کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں:
دوسروں کے حقوق کا احترام
لوگوں کو اذیت نہ دینے اور نیکیوں کو عام کرنے کے حوالے سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اجتماعی طور پر معاشرے میں سب سے قریبی ہمسائے ہیں ، جس کی احادیث نبویہ ﷺ میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، امام حسن علیہ السلام کی روایت کےمطابق کہ ان کی مادرِ گرامی ساری رات عبادت میں مشغول رہیں، حتیٰ کہ صبح ہوگئی مومنین و مومنات کا نام لے کر ان کے دعا فرما رہی ہیں، لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں کی، تو اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’ يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَّ الدَّارَ‘‘یعنی اے بیٹے! پہلے ہمسایہ پھر گھر۔ کہنے کا مطلب ہے کہ پہلے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بعد میں اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔
مہمانوں کی خدمت کے لحاظ سے بھی سیدہ ؑ اپنی مثال آپ تھیں۔ ایک فقیر شخص پیغمبر گرامی قدر ﷺ کی خدمت میں بھوک کی شکایت کرتا ہے، حضرت ؐ نے اسے امہات المومنین کے گھر کی طرف رہنمائی فرمائی، لیکن وہاں سے کھانے کو کچھ نہ مل سکا، پھر اپنے اصحاب کی طرف رہنمائی فرمائی، حسبِ معمول حضرت علی علیہ السلام نے سبقت لی اور مہمان کو اپنے گھر لے آئے، جناب فاطمہ زہرا ؑ کو داستان بیان کی، حضرت زہرا ؑ نے عرض کیا: گھر میں سوائے بچوں کی غذا کے اور کوئی کھانا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ بچوں کو بھوکا سلا دیں اور ان کا کھانا مہمان کو دے دیں۔ صبح جب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اس ماجرا کو پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں بیان کیا تو اسی وقت آیتِ ایثار نازل ہوئی۔
انسان کے اجتماعی اخلاق میں یہ بات شامل ہے کہ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ لوگوں کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسکین، یتیم اور اسیر درِ زہرا ؑ پر آتے ہیں تو تین دن مسلسل روزہ دار ہونے کے باوجود اپنی اور تمام گھروالوں کی افطاری عنایت کردیتی ہیں، اہلِ بیت علیہم السلام کے بلند اخلاق کو دیکھتے ہوئے پروردِگار عالم نے پوری سورت ’’انسان‘‘ (ھل اتی) نازل فرمادی۔
عدل و انصاف کو رواج دینا
اجتماعی اخلاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ صرف ظلم و ستم سے اجتناب کیا جائے، بلکہ قبول بھی نہ کیا جائے۔ یہ فضیلت جناب سید طاہر ہ فاطمہ زہرا سلام اللہ کی سیرت میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک اس بات پر واضح دلیل ہے۔
نتیجہ
گذشتہ بحث سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اخلاقی سیرت ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے، موجودہ دور میں حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اخلاقی سیرت سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا میں ہونے والی اخلاقی برائیوں،چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی، خاندانی ہوں یا معاشرتی، کا خاتمہ کر کے اصلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
کتاب نامہ
• قرآن مجید
• الغيبة( للطوسي) / كتاب الغيبة للحجة،طوسى، محمد بن الحسن(460 ق)محقق / مصحح: تهرانى، عباد الله و ناصح، على احمد، ناشر: دار المعارف الإسلامية ايران؛ قم، (1411 ق)
• بحار الأنوار( ط- بيروت)، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، (1110 ق) محقق / مصحح: جمعى از محققان، ناشر: ار إحياء التراث العربي، بيروت(1403 ق)
• الكافي( ط- الإسلامية)، كلينى، محمد بن يعقوب(329 ق)، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، ناشر: دار الكتب الإسلامية، تهران، (1407 ق)
• علل الشرائع، ابن بابويه، محمد بن على، (381 ق) ، محقق / مصحح: ندارد، ناشر: كتاب فروشى داورى، قم (1385 ش / 1966م)
• قاموس قرآن، قرشى، على اكبر (معاصر) ناشر: دار الكتب الاسلامية، تهران(1412 ق)
• اخلاق ناصری، خواجہ نصیر الدین طوسی، (۶۷۲م) ناشر: تھران(۱۳۶۰ھ ش)
• دروس فلسفہ اخلاق، مصباح یزدی، محمد تقی(معاصر) ناشر: انتشارات اطلاعات تھران، (۱۳۶۷ھ ش)
• المیزان فی تفسیر القرآن، طباطبائی، سید محمد حسین، ناشر: نشر اسلامی قم، (۱۴۱۷ق)
• لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مكرم (711 ق) ، ناشر: دار الفكر للطباعة و النشر و التوزيع- دار صادر بيروت(1414 ق)
• سیری در سیرۃ النبی(ص)، مطہری مرتضیٰ،
• مكارم الأخلاق، طبرسى، حسن بن فضل (قرن 6( ناشر: الشريف الرضى، قم (1412 ق / 1370 ش)
• مناقب آل أبي طالب عليهم السلام( لابن شهرآشوب)، ابن شهر آشوب مازندرانى، محمد بن على (588 ق) ناشر: علامه، قم(1379 ق)
• الدروع الواقية، ابن طاووس، على بن موسى، (664 ق) ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، بيروت)1415 ق / 1995 م)
• الإحتجاج على أهل اللجاج( للطبرسي)، طبرسى، احمد بن على (588 ق) ناشر: نشر مرتضى، مشهد (1403 ق)
• دعائم الإسلام، ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى (363 ق) ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم (1385 ق)
• كشف الغمة في معرفة الأئمة( ط- القديمة)، اربلى، على بن عيسى، (692 ق) ناشر: بنى هاشمى، تبريز (1381 ق)
• تفسير العيّاشي، عياشى، محمد بن مسعود )320 ق) ناشر: المطبعة العلمية، تهران (1380 ق)
• شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام، ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، (363 ق.) ناشر: جامعه مدرسين، قم (1409 ق)
• مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، نورى، حسين بن محمد تقى، (1320 ق) ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، (1408ق)
• الأمالي( للصدوق)، ابن بابويه، محمد بن على (381 ق) ناشر: كتابچى، تهران (1376 ش)
• من لا يحضره الفقيه، ابن بابويه، محمد بن على (381 ق) ناشر: دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم، (1413 ق)
• وسائل الشيعة، شيخ حر عاملى، محمد بن حسن (1104 ق) ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم (1409ق)
• معاني الأخبار، ابن بابويه، محمد بن على (381 ق) ناشر: دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم(1403 ق)
• مصباح الشريعة، منسوب به جعفر بن محمد، امام ششم عليه السلام (148 ق) بيروت (1400 ق)
• مُسكّن الفؤاد عند فقد الأحبّة و الأولاد، شهيد ثانى، زين الدين بن على (966 ق) ناشر: بصيرتى، قم (بى تا)
• سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، صالحی شامی، محمد بن یوسف (۹۴۲ق) ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت (۱۴۱۴ق)
• مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، طوسى، محمد بن الحسن (460 ق) ناشر: مؤسسة فقه الشيعة، بيروت (1411ق)
• الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مفيد، محمد بن محمد (413 ق) ناشر: كنگره شيخ مفيد، قم (1413 ق)
• دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ، بیھقی، احمد بن حسین (۴۵۸ق) ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت (۱۴۰۹ق)
• المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، محمد بن عبد اللہ (۴۰۵ق) ناشر: دارالمعرفۃ، بیروت
• طرف من الأنباء و المناقب، ابن طاووس، على بن موسى (664 ق) ناشر: تاسوعا، مشهد (1420 ق)
• كفاية الأثر في النصّ على الأئمة الإثني عشر، خزاز رازى، على بن محمد (قرن 4) ناشر: بيدار، قم (1401 ق)
• الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ابن طاووس، على بن موسى (664 ق) ناشر: خيام، ايران؛ قم (1400 ق)
• روضة الواعظين و بصيرة المتعظين( ط- القديمة)، فتال نيشابورى، محمد بن احمد (508 ق) ناشر: انتشارات رضى، ايران؛ قم (1375 ش)
• ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، طبری، احمد بن عبداللہ (۶۹۴ق) ناشر: مکتبۃ القدسی، قاھرہ (۱۳۵۶ق)
• شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، حسكاني، عبيد الله بن عبد الله (490 ق) ناشر: التابعة لوزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامي، مجمع إحياء الثقافة الإسلامية، تهران (1411 ق)
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا مقام صرف قرآن و اہل بیت(ع) کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا معرفت کی عظیم استاد اور ایسی حقیقت ہیں جو تاریخ کی تمام خواتین سے بلند و برتر ہیں۔ آپؑ کا مقام وہ ہے جسے صرف قرآن اور اہل بیتؑ جی تعلیمات کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے مسجد اعظم قم میں ایام فاطمیہ کے موقع پر اپنے درس فقہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی علمی و معرفتی حیثیت بے مثال ہے۔ آپؑ نے جس طرح خطبہ فدکیہ میں توحید اور خلقتِ الٰہی کے حقائق کو بیان فرمایا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؑ کی معرفت وحیِ نبوی سے براہِ راست فیض یافتہ تھی۔
انہوں نے مرحوم کلینی کی الکافی میں مذکور ایک روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا خطبہ توحید اتنا بلند ہے کہ اگر جن و انس (انبیائے الٰہی کے علاوہ) اسے سنیں تو تعظیم میں سجدہ کر لیں، کیونکہ یہ خطبہ قرآن کریم کی طرح بے نظیر اور وحی سے الہام یافتہ ہے۔ صدرالمتألہین نے بھی اس بات کی تاکید کی کہ اس مرتبے کا فہم صرف ’’انبیائے اولوالعزم‘‘ کو حاصل ہو سکتا ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ حضرت علیؑ نے اس خطبے میں تخلیقِ الٰہی کو ’’لا من شیء‘‘ یعنی کسی پیشگی مادے کے بغیر قرار دیا، جو بعینہٖ وہی نکتہ ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبہ فدکیہ میں فرمایا تھا: «اِبْتَدَعَ الْاَشْیاءَ لا مِنْ شَیْءٍ» (اللہ نے تمام موجودات کو کسی چیز سے نہیں، بلکہ عدم سے پیدا کیا)
انہوں نے وضاحت کی کہ صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا نے امیرالمؤمنینؑ سے پچیس سال قبل اسی فلسفی اور کلامی شبہے کا جواب دیا تھا جس میں کہا جاتا ہے کہ اگر خدا نے عالم پیدا کیا تو یا کسی موجود مادے سے کیا ہوگا یا پھر عدم سے، اور دونوں ہی محال ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس کی تردید فرماتے ہوئے وضاحت کی کہ خدا نے مخلوقات کو ’’لا من شیء‘‘ سے پیدا کیا، یعنی کسی مادی سبب کے بغیر، محض اپنے ارادے سے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت کے سامنے تواضع فرماتے اور ان کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپؑ کی روحانی و علمی عظمت عام بشریت سے ماورا ہے۔
درس کے اختتام پر حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے درس کو مجلس عزا میں تبدیل کیا۔
رسول گرامی(ص) کی ایک ہزار پانچ سو سالہ سالگرہ قرآنی محور
قرآنی تبلیغ و ترویج کی ترقیاتی کمیٹی کا 69واں اجلاس بروز اتوار، کو وزارتِ ثقافت و اسلامک گائیڈنس کے غدیر ہال میں، جو اس کمیٹی کے سیکریٹریٹ کا مرکز بھی ہے، منعقد ہوا۔
اجلاس کے دوران وزیرِ ثقافت سید عباس صالحی نے قرآن کے فروغ کے منصوبے "فصلِ تعالی" کے پوسٹر کی رونمائی کی اور کہا: قرآن پر بات کرنا ایک نہایت عمیق اور کثیرالجہتی موضوع ہے۔ اس کی ظاہری سطح پر قراءت، تلاوت اور حفظ شامل ہے، مگر قرآن کی تعلیمات کو عام اور مؤثر بنانے کے لیے فن اور میڈیا کے ذرائع کو وحی کے پیغام کی خدمت میں لانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے قرآن کی تعلیم و تربیت کو نئی جہتیں عطا کی ہیں، اور ہمیں ان ٹیکنالوجیز سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیے۔ "فصلِ تعالی" منصوبہ دراصل قرآن کی تعلیم، ترویج اور اشاعت کو عام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
صالحی نے مزید کہا: قرآنی تحریک گزشتہ چودہ صدیوں سے امتِ محمدیؐ کی ذمہ داری رہی ہے، اور وہی امت اس پیغام کو درست طور پر آگے لے جا سکتی ہے جو علم، ہنر اور فکری لحاظ سے مستحکم اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق تیار ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے مقاصد میں سے ایک فن اور میڈیا کے دائرے سے فائدہ اٹھا کر عوام کو قرآن سے قریب لانا ہے۔ وزارتِ ثقافت کے تمام شعبہ جات ، سینما، آرٹ، ثقافت وغیرہ کو چاہیے کہ وہ قرآن کے پیغام کو عام کرنے میں اپنی فنی و ابلاغی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
وزیر نے زور دیا کہ قرآن کو ایک ناختم ہونے والا ثقافتی سرمایہ سمجھنا چاہیے، اور میڈیا، آرٹ، سینما اور کتاب جیسے تمام ذرائع کے ذریعے اس پیغام کو آگے بڑھانا چاہیے، کیونکہ یہی ذرائع قرآنی ثقافت کو وسعت اور قوت بخش سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سال حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ولادت کے 1500 سال مکمل ہو رہے ہیں، جسے جمہوریہ اسلامی ایران نے تنظیمِ تعاونِ اسلامی (OIC) کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر منانے کی تجویز دی ہے، اور اس سلسلے میں ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔
صالحی نے قرآنی اداروں اور تنظیموں ، خواہ حکومتی ہوں یا عوامی ، سے اپیل کی کہ وہ اس موقع پر متحد ہو کر پیغمبرِ اسلامؐ کے نام پر ایک معنوی اتحاد پیدا کریں اور اس موقع کے لیے تجاویز و مشورے فراہم کریں۔














































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
