
سلیمانی
عالمی برادری غزہ میں نسل کشی کا بس نظارہ دیکھنے میں مصروف ہے/ صیہونیوں کو ایلات بندرگاہ کو بحال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے: انصاراللہ یمن کے سربراہ
انصار اللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے عالمی برادری پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا، بس فلسطین میں نسل کشی کا منظر دیکھنے میں مصروف ہے۔
اپنے تازہ خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس ہفتے دنیا کی نظروں کے سامنے قاتل صیہونی حکومت نے متعدد وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل، تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے شرمناک تنزلی اور ضمیروں کی اجتماعی موت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین حوثی نے کہا کہ غاصب صیہونیوں نے حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو ایسے حال میں قتل کیا کہ وہ بھوکے تھے اور یہ دنیا ایسی حالت میں ترقی یافتہ ہونے کے دعوے کر رہی ہے کہ لاکھوں بچے ایک ٹکڑا روٹی کے لیے ترس رہے ہیں اور دودھ پینا ان کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔
انصاراللہ کے رہبر نے زور دیکر کہا کہ اسرائیلی دشمن فلسطینیوں کو جبری طور پر کوچ کرانے کے لیے انہیں ابتدائی ترین وسائل سے محروم کیے ہوئے ہے اور عینی شاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق، بھوک کے ذریعے بھی فلسطینیوں کا قتل ہو رہا ہے اور اشیائے خورد و نوش کے مراکز پر انہیں نشانہ بناکر بھی ان کی جان لی جا رہی ہے۔
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا کہ صیہونی حکومت غزہ کو 9 حصوں میں بانٹ کر اپنے کرائے کے فوجی وہاں تعینات کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی مدد سے ان کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگا۔
صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاہد غزہ میں مزاحمت جاری رکھتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو بے اثر کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ 21 مہینے سے امریکہ کی مکمل حمایت کے ساتھ غزہ کا شدید محاصرہ کیا گیا ہے۔
انصاراللہ کے سربراہ نے کہا کہ دشمن کی کمزوریاں بہت زیادہ اور اہم ہیں لیکن صیہونیوں نے سب سے زیادہ مسلم امہ کی لاپرواہی کا فائدہ اٹھایا ہے اور یہ مسلمانوں کا بہت ہی بڑا اور گھناؤنا جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا جو ان کی نفسیاتی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اگر امریکہ اور مغربی دنیا کی حمایت اور مسلمانوں کی لاپرواہی نہ ہوتی تو صیہونی حکومت فلسطین، لبنان اور ایران پر جارحیت نہ کرپاتی۔
ایلات بندرگاہ پر صیہونیوں کو سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی: سید عبدالملک الحوثی
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ سرزمینوں کو 45 ہائیپرسونک میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا گیا اور بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت سے وابستہ یا اسرائیل کی بندرگاہوں کی جانب جانے والے جہازوں کو ڈرون بوٹس کے ذریعے نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے اعلان کیا کہ بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ عرب میں غاصب صیہونی حکومت کی بحری نقل و حمل اور تجارت پر پابندی بدستور برقرار ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت ام الرشراش (ایلات) بندرگاہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم یمن کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بندرگاہ کی سرگرمیوں کو بحال ہونے نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے انتباہ دیا کہ گزشتہ دنوں کے واقعات تمام شپنگ کمپنیوں کے لیے ایک کھلا پیغام ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون پر پابندی ہے اور ہر اس جہاز کو نشانہ بنایا جائے گا جو اس پابندی کی خلاف ورزی کرے۔
ہم ہمیشہ مظلوموں کیساتھ ہیں چاہے وہ بوسنیا میں ہوں یا فلسطین میں، سید عباس عراقچی
سلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی"نے آج جمعرات کو سریبرینیکا میں ہونے والی نسل کشی کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ اگر دنیا نے واقعی سریبرینیکا کے سانحے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم غزہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے 11 جولائی کو Srebrenica میں ہونے والی نسل کشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دن ان لوگوں کے لیے شرم کی بات ہے جنہوں نے یا تو اس وحشیانہ جرم میں حصہ لیا یا پھر خاموشی اختیار کر کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا راستہ ہموار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس دردناک سانحے کی 30ویں سالگرہ پر، اسلامی جمہوریہ ایران اس نسل کشی کے بے گناہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جب کہ زندہ بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں سید عباس عراقچی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا نے واقعی Srebrenica کے المیے سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہم مسلمانوں کے خلاف غزہ میں ایک اور نسل کشی نہ دیکھ رہے ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہے گا، خواہ وہ بوسنیا میں ہوں یا ہرزیگووینا میں یا فلسطین میں۔
قیام کربلا، درس حریت
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتدا ہے اسماعیلؑ
تحریک پاکستان کے رہنماء، معروف شاعر اور صحافی مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا:
قتل حسین ؑاصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
روزنامہ ہمدرد کے ایڈیٹر مولانا محمد علی جوہر نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ جب اسلام پر مشکل وقت آجائے اور مسند اقتدار پر بیٹھے افراد اپنی مرضی کرنے لگیں، لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے، حق کی حمایت میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ ہو تو قربانی دینا واجب ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ دین مبین کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ معاشرے میں ایک گروہ واقعہ کربلا میں یزید کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جبکہ اسلام کے ماننے والوں کی غالب اکثریت کربلا کے شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو کربلا کو برپا کرتے رہنا ہوگا، یعنی قربانی دیتے رہنا ہوگی۔ تاریخ انسانیت میں کربلا جیسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ امام حسین علیہ السلام نے کمال انتظامات کیساتھ یزید کیخلاف قیام کیا اور کربلا میں وارد ہوئے، جس میں ہر صنف انسانیت کا کوئی نہ کوئی کردار موجود ہے۔
چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغرؑ سے لیکر 80 سال کے ضعیف حبیب ابن مظاہرؓ جیسے انسان بھی کربلا میں مردوں کی نمائندگی کرتے اور شہادت کا درجہ پاتے نظر آتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے رشتوں کے حوالے سے بہن، بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور سیاہ فام جون جیسے غلام سے لیکر حرؓ جیسے کمانڈر بھی واقعہ کربلا میں قربان ہوگئے۔ آج دنیا کے اندر کہیں بھی آزادی کیلئے کوئی سماجی یا مذہبی تحریک ہو یا آمریت کیخلاف سیاسی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس کے لیڈر تحریک کربلا سے متاثر ہو کر یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی طرح جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ کربلا کے شہداء کی اقتداء میں جان دینے کو بھی تیار ہیں۔
تصور کریں کہ عاشورہ محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کا کوئی ساتھی نظر نہیں آتا تھا، سب یزید کیساتھ کھڑے تھے، جبکہ اب صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے، آج کربلا کی یاد منانے اور اسے زندہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی یزید کے ساتھ کھڑا ہوا نظر نہیں آتا، وہ جو یزید کیلئے کوئی تھوڑا بہت نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں، وہ بھی اس کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے حق میں مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ کربلا نے انسان کو اتنا بیدار کیا ہے کہ حسینیت کا پیروکار ہونے کیلئے مسلمان نہیں، انسان ہونا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام صرف مسلمانوں ہی کیلئے نہیں، غیر مسلموں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں، وہ محسن انسانیت ہیں۔ ہر انصاف پسند اور غیرت مند انسان امام عالی مقام کی مظلومیت اور قربانی سے متاثر ہے۔ تکریم انسانیت اور آزادی کی جو بھی تحریکیں چلتی ہیں یا کہیں بنی نوع انسان کے شعور اور انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے، مذہب و دین کے حوالے سے تشنہ فکر افراد کی رہنمائی صرف کربلا ہی سے ہوتی ہے۔
چھٹے تاجدار امامت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے ”ہر دن عاشور ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔ ان کے جد بزرگوار امام حسین ؑنے جس انداز سے قربانی دی، وہ آج بھی آزادی کی تحریک چلانے والے گروہوں، جماعتوں اور اقوام کو کربلا سے منسلک کرتی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فکر کربلا سے حاصل کی ہے۔ کرہ ارض پر نظر دوڑائیں کہ آج کے دور میں جتنی بھی تحریکیں دنیا میں چل رہی ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جب امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے اس لمبے سفر میں جہاں امام رُکے تو بہت سے قبائل نے آپ کیساتھ ملاقاتیں کیں، مگرآپ نے کسی سے نہیں کہا کہ ٓاپ میرے ہمسفر بنیں، آپ کو اقتدار میں آکر فلاں عہدہ دوں گا، بلکہ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے تھے کہ مجھے دین محمدی (ص) کو بچانا ہے اور یہ بھی کہا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور یہ درس پوری دنیا کیلئے ہے، یعنی بندگان خدا حق کی حفاظت کیلئے باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
امام عالی مقام کربلا کی طرف سفر کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے اور ساتھیوں کو حالات سے آگاہی دیتے رہے کہ یزیدی فوج کے ہاتھوں ہماری شہادت یقینی ہے، جو واپس جانا چاہے، چلا جائے۔ شب عاشور تو آپ نے اپنے اصحاب باوفا کو اکٹھا کرکے پھر حالات سے آگاہی دی اور چراغ بجھا دیا اور کہا کل ہم شہید ہو جائیں گے، جو جانا چاہتا ہے، چلا جائے، مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوگا، مگر حیرت ہے کہ امام کے جانثاروں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ حتیٰ کہ مسلم ابن عوسجہ کا جواب تاریخی تھا ”اے امام! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ 70 مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا“ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کی کہ دنیا یاد کرتی ہے۔
آج حماس کی مزاحمتی تحریک کو دیکھ لیں، جس کے نوجوان امام حسین علیہ السلام کی راہ کو اپناتے ہوئے شہادت قبول کر رہے ہیں، مگر اسرائیل کی بالادستی اور اس کا قبضہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بار بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ وہ آج کے یزید اور شمر کیخلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اسی طرح لبنانی فلسطینی یمنی اور عراقی مزاحمتی تحریکیں مکمل طور پر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کے ہر طبقے کیلئے ہے۔ مختلف مکاتب فکر اور مذاہب خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، نواسہ رسول سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے لوگ بھی امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتے اور ان سے درس حریت لیتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ جو کربلا سے رہنمائی لیکر جدوجہد کرتا ہے، وہ فکر حسینؑ سے دور نہیں، بلکہ منسلک ہے۔ حماس اور حزب اللہ لبنان کی شہید قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح عصر حاضر میں فکر حسینیؑ کے قافلہ سالار ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ یزید وقت نے انہیں قتل کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کے دعوے کئے مگر ناکام رہے۔
صہیونی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تین اہم کامیابیاں
12 روزہ جنگ اور ایران کی سرزمین پر طفل کُش صہیونی ریاست کی دہشت گردانہ جارحیت، اگرچہ ایک دشمنانہ اور بے مثال اقدام تھا، لیکن اس تصادم میں ایران کے ٹھیک نشانے پر لگنے والے میزائلوں کے فیصلہ کن جواب نے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی آمادگی، عسکری طاقت اور معلوماتی بالادستی کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
داخلی اور خارجی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران نہ صرف میدان جنگ میں فاتح رہا بلکہ اس نے بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
حسن بشتی پور، سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ماہر نے فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار سے گفتگو میں اس جنگ میں ایران کی تین اہم کامیابیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کامیابیاں قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور دفاعی و تسدیدی صلاحیتوں (Deterrence) کے شعبوں میں گہری تبدیلیوں کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
دشمن کی دراندازی کی گہرائیوں کی شناخت اور ملکی سلامتی کے ڈھانچے میں خنوں کا مقابلہ
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس جنگ میں ایران کی پہلی اور شاید سب سے اہم حکمت عملی کامیابی دشمن کی سلامتی کے ڈھانچوں میں نفوذ کی گہرائی اور پیمانے کی شناخت تھی۔
ایران اس جنگ کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد کے واقعات میں صہیونیت سے وابستہ عناصر کی دراندازی کے نیٹ ورک کا ایک حصہ دریافت اور ختم کرنے میں کامیاب رہا۔
یہ کامیابی محض ایک معلوماتی (اور انٹیلی جنس کے شعبے کی) کامیابی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر سلامتی کا از سر نو جائزہ لینے کے ایک نئے دور کی راہ کھولتی ہے۔ 12 روزہ جنگ میں ایران ان دراندازیوں کی شناخت کے بعد اب سائبر دفاع، کے جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے حفظ ما تقدم کے کے طور پر خطروں کا ہوشیارانہ مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ 12 روزہ جنگ کے تجربے نے ظاہر کیا کہ دشمن عسکری جنگ کے بجائے معلوماتی رخنوں کے ذریعے ملک کے اندرونی عزم اور طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس بار بھی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔
جارحانہ طاقت کا مظاہرہ
ماہرین کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی دوسری بڑی کامیابی عسکری اور تزویراتی پہلوؤں سے متعلق ہے۔ ایران نے اس جنگ میں مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے درست نشانہ بنانے والے میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جارحانہ طاقت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کو یہ پیغام دیا کہ مقبوضہ علاقوں کا کوئی بھی نقطہ اس کے لئے محفوظ نہیں رہے گا۔
اس جنگ نے ایران کی دفاعی کمزوریوں کی شناخت میں بھی مدد کی جن کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی یقیناً شروع ہو چکی ہے۔
قومی بیداری کا استحکام اور مغرب کی حقیقی فطرت کا ادراک
ایک اور کامیابی جنگ کے میدان میں نہیں بلکہ ایرانی قوم کی رائے عامہ اور سیاسی بیداری کے میدان میں حاصل ہوئی۔ اس جنگ اور اس پر بین الاقوامی ردعمل سے ظاہر ہؤا کہ ایران کے عوام مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھ چکے ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی جیسے افسانے جو مغرب کی مداخلت کو جواز دینے کے لئے پروپیگنڈے کے اوزار تھے، اس بار ایرانی رائے عامہ میں مکمل طور پر غیر معتبر ہو گئے۔
ایرانی عوام جان گئے ہیں کہ ان کے ملک کے قومی مفادات مغرب پر انحصار کرنے میں نہیں بلکہ خود انحصاری، اپنی ہی صلاحیتوں پر بھروسے، اندرونی اتحاد اور اپنی قومی طاقت پر اعتماد کرکے حاصل ہوتے ہیں۔ عوام نے اچھی طرح دیکھا کہ جوہری مسئلہ ـ مغرب کے دعوؤں کے مطابق ـ قیام امن کے لئے حقیقی فکرمندی نہیں بلکہ ۔ صرف دباؤ ڈالنے کا بہانہ ہے۔ یہ عوامی ادراک قومی تسدید کے ستونوں میں سے ایک ہے جس کی بنا پر ملک کے اندرونی عدم استحکام کا کوئی بھی منصوبہ بہت مہنگا پڑے گا۔
خلاصہ
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 12 روزہ جنگ ایک عسکری تصادم سے کہیں بڑھ کر تھی۔ یہ جنگ ایران کی معلوماتی صلاحیت، عسکری طاقت، قابل تلافی کمزوریوں کی شناخت اور عوام کی سیاسی بیداری کی نمائش تھی۔
جمهوری اسلامی ایران با شناسایی شبکههای نفوذ، آزمون ساختار پدافندی، و تثبیت رویکرد استقلالطلبانه در میان مردم، سه دستاورد مهم و راهبردی را بهدست آورد.
لہٰذ، اسلامی جمہوریہ ایران نے دراندازی کے نیٹ ورک کی شناخت، دفاعی ڈھانچہ آزمانے اور عوام میں خود مختارانہ رجحان کی تقویت کے ذریعے تین اہم اور تزویراتی کامیابیاں حاصل کیں۔
آخری بات یہ کہ، 12 روزہ جنگ نے نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم کیا بلکہ دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیا اور وہ یہ کہ ایران نہ صرف حملے میں بلکہ خطرات کا ادراک کرکے انہیں مناسب مواقع میں بدلنے میں بھی باصلاحیت اور بالکل تیار ہے۔
زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے
جزیرہ قشم میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ علمیہ ریحانه الرسول (س) قشم کی مدیر محترمہ خدیجہ غلامی نے کہا: ایک مؤمن عورت کو زینبی مقام تک پہنچنے کے لیے ایمان کو محض علم کے درجے پر نہ رکھنا چاہیے بلکہ اسے عمل میں ڈھالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: زینبی طرزِ زندگی، عصرِ آخرالزمان میں مؤمن خواتین کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا صرف ایک عالمہ نہ تھیں بلکہ عالمۂ عاملہ تھیں۔ جب آپ نے ابن زیاد اور یزید کے دربار میں استقامت دکھائی تو وہ آپ کے عمیق ایمان اور اللہ کی قدرت پر یقین کا نتیجہ تھا۔ ایسا ایمان صرف مطالعے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ تقویٰ، نفس کی تربیت اور مسلسل مجاہدہ سے پیدا ہوتا ہے۔
مدیر مدرسہ علمیہ قشم نے مزید کہا: الہی راہ کا پہلا قدم ایمان کی حفاظت ہے۔ ایمان ہوا میں جلتی شمع کی مانند ہے؛ اگر مؤمن عورت محتاط نہ ہو تو جنّ و انس کے شیطان مختلف راستوں سے آ کر اس کے صبر، حیاء اور پردے کو نشانہ بناتے ہیں۔ تقویٰ دل کا قفل اور دینداری کا محافظ ہے۔
محترمہ غلامی نے کہا: مسلمان عورت کو زیب و زینت یا لوگوں کی توجہ سے پہلے خدا کی نظر پر توجہ دینی چاہیے۔ اس طرزِ زندگی میں نگاہ، گفتگو، برتاؤ، میل جول اور حتیٰ کہ لباس بھی تقویٰ کے معیار پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے توکل کو زندگی کے طوفانوں میں سکون کی کنجی قرار دیتے ہوئے کہا: مؤمن عورت کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ رزق اور عزت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ "لا حول و لا قوۃ الا باللہ" پر ایمان، اسے لوگوں کی رائے، نگاہوں اور تعریف کے دباؤ سے آزاد کرتا ہے اور اسے عزت نفس اور شجاعت عطا کرتا ہے۔
امام زین العابدین (علیہ السلام) کی 34 سالہ امامت پر ایک نظر
امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام) کے یوم شہادت پر پورا عالم اسلام گہرے سوگ اور غم میں ڈوبا ہؤا ہے، یہ اس ہستی کی شہادت کا دن ہے جس نے واقعۂ کربلا کے بعد ظلم و ستم سے بھرے دور میں امامت کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی؛ اور ایک منفرد طریقے سے تاریکیوں میں ہدایت کا چراغ روشن رکھا۔
"چیخوں کے بیچ خاموشی" یہ جملہ ان کی 34 سالہ امامت کے معمے کو بخوبی بیان کرتا ہے؛ وہ دور جس میں حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے نئے ذرائع اور وسائل سے عاشورا کی تحریک کو زندہ رکھا، اور اسلام و تشیّع اور تشیع کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔
10 محرم (عاشورا) سنہ 61 ہجری کو کربلا کا میدان صرف قتل گاہ نہیں تھا، بلکہ بے انتہا مظلومیت کا منظر اور آنے والوں کے لئے ایک الٰہی آزمائش بن گیا۔
امام سجاد (علیہ السلام) اس روز اگرچہ بیماری کی حالت میں تھے اور اپنے والد کی فوج کے ساتھ شامل ہونے سے قاصر تھے، لیکن آپ نے حقیقت کی بیدار آنکھیں تمام واقعات پر کھول دیں۔
آپ اس سانحے کے گواہ تھے، اپنے والد کے بے سر جسم سے لے کر خیموں میں یزیدیوں کی لگائی ہوئی آگ اور پھوپھی زینب کے آنسوؤں اور اسیری کے راستے میں بکھرے ہوئے کانٹوں تک۔
اس گہرے تجربے نے آپ کی روح کو جلا بخشی اور انہیں امامت کی بھاری ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ چنانچہ عاشورا کے بعد امامت آپ کے سپرد ہوئی؛ جبکہ یزیدیوں نے کربلا میں موجود تمام ہاشمی مردوں کو شہید کر دیا تھا اور آپ واحد ہاشمی مرد تھے جو بقید حیات تھے۔ یزیدی لشکر آپ کی گردن میں زنجیر ڈال کر اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام لے گیا۔
یہ دور، ظاہری طور پر سرکاری جبر اور اہل حق کی مظلومیت کے عروج کا دور تھا لیکن ساتھ ہی یہ حق و عدل کے لئے آواز بلند کرنے کا نقطۂ آغاز بھی تھا اور اسی نقطے پر ہی آپ کی آواز تاریخ کی بلندیوں پر گونج اٹھی۔ دربار یزید میں آپ کے زبردست خطاب نے تحریک حسینی کو ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا۔ اور حَق طَلَبی کی روح کو دلوں میں زندہ رکھا۔ آپ نے بے مثال ہمت اور فصاحت کے ساتھ اپنا تعارف کرایا، اور یزید کو ـ جو طاقت اور غرور کے نشے سے سرشار تھا ـ رسوا کر دیا۔
یہ ایک مظلومانہ امامت کا آغاز تھا جو 34 سال تک قائم رہی، جس کے ہر لمحے میں امام نے الہی حکمت و دانائی کے ساتھ کربلا کے مشن کو آگے بڑھایا۔
اگر امام حسین (علیہ السلام) خون اور قیام کے امام تھے، تو امام سجاد (علیہ السلام) آنسوؤں اور دعا کے امام تھے۔ آپ نے شدید دباؤ اور گھٹن کے دشوار دور میں اپنی عبادتوں کے ذریعے توحید اور ہدایت کی آواز بلند کی۔
روحانی جدوجہد کی یہ روش حکمرانوں کے خوف سے نہیں بلکہ الہی حکمت جنم لیتی تھی؛ کیونکہ اس وقت کا معاشرہ جہالت اور برائیوں کے اندھیرے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اور خالص اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکا تھا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے اس روش سے سے روحوں کی پاکیزگی، فکری تجدید (یا فکری تعمیر نو)، اور شیعہ مکتب کے پیروکاروں کے لئے مضبوط روحانی بنیاد رکھنے کے لئے کوشاں تھے۔
صحیفۂ سجادیہ ایک الہی خزانہ اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے، جس کو بجا طور پر "زبور آل محمد(ص)" کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی ورثہ، راز و نیاز، اخلاق، عرفان اور حتی کہ سیاست پر مشتمل ہے۔ ان دعاؤں میں توحید، معرفت، معاشرت اور حقوق کے گہرے معارف سمیٹ لئے گئے ہیں۔
آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے "زین العابدین" کا لقب ملا لیکن یہ لقب (عبادت کرنے والوں کی زینت) محض امام کا ایک رسمی نام نہیں بلکہ یہ آپ کی سیرت اور زندگی کا آئینہ دار ہے۔ راتوں کے اندھیرے میں عبادت، طویل سجدے اور ہر حال میں دعا، اس مظلوم امام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی پیشانی پر، کثرت سجدہ سے، گُٹا پڑ گیا تھا جو خالق کائنات کے سامنے بے پناہ خضوع و انکسار کی علامت تھا۔
آپ ایسی ہستی تھے جو زمانے کے دکھوں کو ذکر الٰہی سے تسکین دیتے تھے، اور حتی کہ شدید تنہائی میں بھی اپنے رب سے اپنا تعلق منقطع نہ ہونے دیتے تھے۔ خالق کے ساتھ یہ گہرا تعلق ہی آپ کی قوت اور مصیبتوں میں سکون کا بنیادی سرچشمہ تھا۔
مروی ہے کہ آبِ وضو کے پاس جاتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا تھا اور چہرہ متغیر ہو جاتا۔ جب آپ سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: "کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں؟"
یہ روحانی عظمت اور مقامِ بندگی کی گہری سمجھ بوجھ ہی طوفانوں میں آپ کے سکون کا راز تھی۔ امویوں کی تشددآمیز اور گمراہ حکمرانی کے دور میں امام سجاد (علیہ السلام) نے نہ صرف دعاؤں کے ذریعے اپنا مشن آگے بڑھایا، بلکہ ابو حمزہ ثمالی، ابوخالد کابلی، یحیی بن ام الطویل، محمد بن جبیر بن مطعم، سعید بن مسیب مخزومی، عامر بن واثله کنانی (اباالطفیل)، سعید بن جبیر کوفی اور جبیر بن مطعم جیسے ممتاز شاگردوں کی تربیت کرکے تشیّع کی علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ کے یہ شاگرد اہل بیت (علیہم السلام) کے علم و معرفت کے مبلغ و مروج بنے، اور امام کے فکری ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچایا۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے خاموش مجاہدت کے ان برسوں میں راتوں کی عبادت اور دنوں کو مفکرین کی ایک نسل کی تربیت کے بعد، بالآخر 95 ہجری میں مدینہ میں اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان کے گماشتوں کے ہاتھوں مسموم ہوکر جام شہادت نوش کیا۔
اہل بیت (علیہ السلام) کے دشمن آپ کی خاموشی اور عبادت اور درگاہ پروردگار میں آپ کے راز و نیاز کو بھی برداشت نہ کر سکے، کیونکہ اور امام کے روحانی اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے اور یہ بھی جان گئے تھے کہ آپ نے اپنی دانائی سے یزید بن معاویہ کے مشن کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔
شیعیان اہل بیت(ع) کے چوتھے امام کا پیکر مبارک جنت البقیع میں مدفون ہے؛ امام حسن مجتبیٰ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) کے پہلو میں۔
آپ کا مقام تدفین کسی وقت عظیم الشان گنبد اور روشن زیارت گاہ ہوا کرتا تھا، مگر آج وہ صرف مٹی کا ایک ڈھیر ہے، بے نشان، بے چراغ اور مظلوم۔
بقیع کی تنہائی ائمۂ شیعہ (علیہم السلام) کی تنہائی کا مظہر ہے۔ آج یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت نہ صرف خواتین کے لئے ممنوع ہے، بلکہ مردوں کو بھی محدود گھڑیوں میں، بہت سختی سے، حاضری دینے کی اجازت ہے۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے ہمیں سکھایا کہ مشکل ترین حالات میں بھی دعا کے ذریعے بات کی جا سکتی ہے اور ایمان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
آپ نے بغیر تلوار اٹھائے استقامت کا درس دیا، سپاہ و لشکرکے بغیر جدوجہد کی، اور اشک آلود لفظوں سے جہاد کیا۔
آج صحیفۂ سجادیہ نہ صرف عرفانی خلوتوں کی کتاب ہے، بلکہ اس شوریدہ دور اور جدید دور کی جاہلیت کے اندھیروں میں زندگی گذارنے کے لئے چراغ راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مریم سادات آجودانی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
امریکی دھمکیاں اور صہیونی جسارتیں سنگین اور ناقابل تلافی نتائج کی حامل ہوں گی
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ نے امریکی صدر کی جانب سے رہبر معظم کو دی گئی قتل کی دھمکی کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی گستاخانہ حرکات کے نتائج سنگین ہوں گے اور امریکہ، صہیونی حکومت اور ان کے اتحادی کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جامعۃ المصطفیٰ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ یہ علمی، دینی اور بین الاقوامی ادارہ جو عالمی سطح پر مکالمے، بقائے باہمی، امن، معنویت اور انصاف کے فروغ کا علمبردار ہے، مرجعیت کے دفاع میں بزرگ علمائے اسلام، بالخصوص حضرات آیات مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی کے صریح فتاویٰ کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کی طرف سے دینی و سیاسی قائد و رہبر کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن سمیت تمام انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنانا مذہبی نفرت کو ہوا دینے، پرتشدد رجحانات کو فروغ دینے اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ نے تاکید کی ہے کہ دنیائے اسلام کے اکابر علمائے کرام—چاہے وہ قم ہوں، نجف، الأزہر یا دیگر علمی مراکز—نے کسی بھی دینی و سیاسی شخصیت کو دھمکی دینا یا قتل کرنا صریحاً محاربہ اور فساد فی الارض قرار دیا ہے، جس کی شرعاً شدید مذمت اور سخت سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام آزاد اندیش افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اپنائیں تاکہ عالمی امن، روحانی اقدار اور انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
دشمن کی حماقت پر ایران کا جواب زیادہ سخت ہوگا، ایرانی مسلح افواج
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ابو الفضل شکار چی نے غاصب اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی مسلح افواج آئندہ کسی بھی اسرائیلی جارحیت کی صورت میں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور تباہ کن جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ بیت المقدس پر قابض غاصب صیہونی حکومت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت پر ہمارا ردعمل زیادہ طاقتور، شدید اور مؤثر ہوگا جس سے دشمن کو شدید پچھتاوا ہوگا۔
جنرل شکار چی نے مزید کہا کہ عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران نے حالیہ 12 روزہ جنگ میں غاصب اسرائیلی حکومت کو شکست دی اور اسے سخت نقصان پہنچایا۔ ہم نے اپنے حملوں کے ذریعے اس مجرم حکومت کو اپنی جارحیت روکنے پر مجبور کر دیا۔
جنرل شکار چی کے مطابق، ایرانی مسلح افواج مکمل تیار ہیں۔
انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کو سخت انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صیہونی غاصب حکومت نے دوبارہ کوئی اقدام کیا تو اسے شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل، جمعہ کے روز سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل علی محمد نائینی نے کہا تھا کہ اگر غاصب اسرائیل نے دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی قسم کی سرخ لکیر کا لحاظ نہیں کرے گا۔
اہلسنت غدیر پر ایمان رکھتے ہیں / واقعہ غدیر؛ اکمالِ دین، نعمت الہی اور اسلام کی تکمیل کا سبب ہے
امام جمعہ زاہدان نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "خالص سنی غدیر پر ایمان رکھتے ہیں"۔ خداوند متعال نے غدیر کو اکمالِ دین، الہی نعمتوں کی تکمیل کا ذریعہ اور امام علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام کو اپنا پسندیدہ مذہب کہا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی زاہدان سے امام جمعہ کے دفتر سے موصولہ رپورٹ کے مطابق، سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام والمسلمین مصطفی محامی نے زاہدان میں اس ہفتے کے نماز جمعہ کے خطبوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہدایت و راہِ راست کی درخواست، خلوصِ نیت اور خدا کی اطاعت و بندگی پر توفیق طلب کی جائے۔
حجت الاسلام محامی نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعای مکارم الاخلاق کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: اس دعا میں آیا ہے کہ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَ مَتِّعْنِی بِهُدًی صَالِحٍ لَا أَسْتَبْدِلُ بِهِ ، وَ طَرِیقَةِ حَقٍّ لَا أَزِیغُ عَنْهَا ، وَ نِیَّةِ رُشْدٍ لَا أَشُکُّ فِیهَا ، وَ عَمِّرْنِی مَا کَانَ عُمْرِی بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ ، فَإِذَا کَانَ عُمْرِی مَرْتَعاً لِلشَّیْطَانِ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ قَبْلَ أَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ إِلَیَّ ، أَوْ یَسْتَحْکِمَ غَضَبُکَ عَلَیَّ "
اس کا مطلب یہ ہے کہ "بارالہا ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسی نیک ہدایت سے بہرہ مند فرما کہ جسے دوسری چیز سے تبدیل نہ کروں اور ایسے صحیح راستے پر لگا جس سے کبھی منہ نہ موڑوں ، اور ایسی پختہ نیت دے جس میں ذرا شبہ نہ کروں اور جب تک میری زندگی تیری اطاعت و فرمانبرداری کے کام آئے مجھے زندہ رکھ اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے تو اس سے پہلے کہ تیری ناراضگی سے سابقہ پڑے یا تیرا غضب مجھ پر یقینی ہو جائے مجھے اپنی طرف اٹھا لے "۔
امام جمعہ زاہدان نے مزید کہا: کمال اور سعادت تک پہنچنے کے لیے انسان کو صحیح رہنمائی، صحیح اور ہموار راستے، ثابت قدمی، ارادہ اور منزل تک پہنچنے کے لیے درست نیت اور مواقع کی ضرورت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنی دعا میں خدا تعالیٰ سے ان تمام چیزوں کی درخواست کی ہے لیکن اس کے نقصانات کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے تاکہ یہ نعمت خطرے میں نہ پڑ جائے۔
سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ نے کہا: امام سجاد علیہ السلام راہ حق سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ خدا حق کا راستہ ہمارے سامنے رکھے اور ہمیں راہ حق سے روگردانی سے روکے کیونکہ بعض اوقات انسان کو صحیح اور غلط راستہ معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین محامی نے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ مقامِ فکر، عقیدہ اور عمل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت سے تمسک ہے۔
انہوں نے کہا: عیدِ غدیر ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات کے مطابق "عید اللہ الاکبر" اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق "انتہائی مہم اور کثیر خصوصیات کا حامل واقعہ" ہے۔
امام جمعہ زاہدان نے کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ غدیر کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کہ "جاؤ اور علی (ع) کو مبارکباد دو"۔ اور ان تمام لوگوں اور صحابہ کے سامنے خلیفۂ اول اور ثانی نے حضرت امام علی علیہ السلام کوولایت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا تھا: " بَخٍّ بَخٍّ لَک یا عَلِی أَصْبَحْتَ مَوْلَای وَ مَوْلَی کلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ" یعنی اے علی (ع)! آپ کو مبارک ہو جو آج آپ ہمارے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا و آقا بنے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا: یہ ولایت ایک ایسی خاص دوستی ہے جو عالم اسلام کے اتحاد و و حدت کا محور بن سکتی ہے۔
جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ
کبھی کبھی لفظوں سے نہیں، وقت کے سانسوں سے ہدایت برستی ہے۔ کبھی ایک جملہ، پوری امت کی تقدیر رقم کرتا ہے۔ غدیر کا واقعہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ نبوت کے بعد ہدایت کی امانت کا ابلاغ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب آسمان نے سجدہ کیا اور زمین نے گواہی دی کہ ہدایت کا چراغ خاموش نہیں ہوا، بلکہ اسے دوسرے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ جملہ شاید پڑھنے میں مختصر لگے، لیکن اگر روح اس کے اندر جھانک لے تو محسوس ہوگا کہ غدیر کا اعلان صرف ایک بیان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے فکری و روحانی سفر کا سنگِ میل ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب کلماتِ نبوت نے وقت کی نبض تھام کر آنے والی صدیوں کی سمت متعین کی۔ غدیر صرف ایک جلسہ، جشن یا صرف ایک اجتماع نہ تھا، بلکہ یہ مقامِ ابلاغ تھا اور نبوت کے اتمام اور امامت کے آغاز کا نقطۂ اتصال۔ یہاں الفاظ نہیں بول رہے تھے، یہاں صداقت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں رسولِ خدا (ص) نے صرف ایک شخصیت کو بلند نہیں کیا، بلکہ امت کو امانت سونپی۔
غدیر کے صحرا میں نبیؐ نے اچانک حکم دیا کہ "ٹھہرو!" کارواں رُک گیا۔ منبر بنا، چادر بچھائی گئی اور نبوت کے تاجدارؐ نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا اور کھلے الفاظ میں فرمایا "من کنت مولاہ، فھذا علی مولاہ!"، "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے۔" یہ جملہ نہ صرف الفاظ کا ایک خوبصورت سنگھار تھا، بلکہ پوری امتِ محمدیہ کے لیے قیادت، ولایت اور امامت کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ غدیر کے فوراً بعد آیت نازل ہوئی: "الیوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً"، "آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔" سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف دوستی کے اعلان پر دین مکمل ہوسکتا ہے۔؟ کیا محبت کے جذبات پر قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں۔؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ یقیناً انتہائی مضحکہ خیز و بچگانہ سوچ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علیؑ کی ولایت کا اعلان تھا، جس کے بغیر دین کی عمارت ادھوری رہتی۔ اس سے پہلے نبی کریم (ص) نے مجمعِ عام سے ایک اہم سوال کیا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟"، "کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! جب سب نے اقرار کر لیا، تب آپ نے فرمایا: "من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ۔۔۔" گویا نبیؐ نے پہلے اپنے اختیار اور ولایت کا اعتراف کروایا، پھر علیؑ کو اسی اختیار کا وارث قرار دیا۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے لئے جس نکتے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کا مطلب صرف دوست یا محبوب نہیں ہوسکتا، یعنی یہ معقول نہیں، کیونکہ نبیؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے، وہ صرف ایک دوست کا نہیں ہوسکتا۔
اگر "مولیٰ" کا مطلب صرف دوست مانا جائے تو کیا نبیؐ بھی امت کے صرف دوست تھے؟ کیا وہ صرف محبت بانٹنے والے تھے۔؟ نہیں! بلکہ نبیؐ امت کے رہنماء تھے، امام تھے، صاحبِ امر تھے اور اولیٰ بالتصرّف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت علیؑ کے لیے وہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہی معانی، وہی مفاہیم اور وہی عظمتیں علیؑ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک ہی جملے میں ایک ہی لفظ دو الگ معنی کیسے رکھ سکتا ہے۔؟ یہ بلاغت کے اصولوں کے خلاف ہے، فصاحت کے ادب سے باہر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نبوت کی حکمت اور خدا کے الفاظ کی توقیر کے منافی ہے۔ "مولا" کا مطلب وہی ہے، جو نبیؐ کے لیے تھا، یعنی اختیار، ولایت، رہبری، رہنمائی اور اولی بالتصرف۔
اسی لیے علیؑ کو "مولیٰ" کہنا دراصل انہیں نبیؐ کے بعد امت کا روحانی، فکری، دینی اور عملی قائد تسلیم کرنا ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها"، "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" کیا یہ بھی محض محبت کا اظہاریہ تھا کہ فرمایا: "علی مع الحق والحق مع علی"، "علی حق کے ساتھ ہے،اور حق علی کے ساتھ ہے۔۔۔" نہیں، صاحبو! یہ سب جملے امامت، رہبری اور ولایت کے مظاہر تھے۔ نبیؐ نے کسی محبوب صحابی کو اس انداز میں پیش نہیں کیا، جیسے علیؑ کو کیا، لیکن افسوس! بعض نے "مولا" جیسے مقدس لفظ کو صرف "دوستی" تک محدود کرکے نبوت کے اس روشن اعلان کو غبارِ تاویل میں گم کر دیا! انہوں غدیر کے منبر کو محض ایک خطبہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ آئندہ صدیوں کا نقشہ تھا۔
مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ فقط تاریخی طور پر، بلکہ شعوری طور پر۔اگر ہم نے "مولا" کو اس کے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اس کی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔
تحریر: محمد حسن جمالی