سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: پروفیسر لانا راوندی روسی اکیڈمی آف سائنسز کے شعبہ مشرق وسطی کی سربراہ اور سینیئر محققہ نے مهر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران پر کی جانے والی جارحیت کے وسیع پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا۔ ان کے مطابق تل ابیب کو امید تھی کہ وہ ایران میں نظام کی تبدیلی کا تجرباتی منصوبہ بہت جلد کامیاب کر لے گا، لیکن ان کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔

ذیل میں اس روسی خاتون محقق کا تفصیلی انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے:

مہر نیوز: آپ کے خیال میں وہ کون سا عامل تھا جس نے صہیونی حکومت کو ایران پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا؟

لانا راوندی: میرے خیال میں کوئی بھی غیرجانبدار مبصر اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اخلاقی، قانونی اور سفارتی اقدار کو پار کردیا ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کریں اور جو بھی شخص یا قوت ان کے منصوبوں کے لیے رکاوٹ بنے، سرنگوں کر دیں اور یقینا اس میں اسلامی جمہوری ایران بھی شامل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مہذب ممالک بھی اسرائیل کے اس عمل کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایک واضح جارحیت کو دفاع اور ضرورت جیسے الفاظ میں توجیہہ فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی وسیع پیمانے پر جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کو نہ صرف اپنی حکومت کے انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے بلکہ اسرائیلی معاشرے کے ایک بڑے حصے کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، جو طویل عرصے سے ایران کو تباہ کرنے کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے بہت منظم طریقہ اختیار کیا ہے۔ فضائی بمباری، زمینی کارروائیاں، اور حزب اللہ و ایران کی حامی جماعتوں کے خلاف کارروائیاں یہاں تک کہ انہوں نے شام میں تکفیری عناصر کے اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار کی۔

نتن یاہو نے جب غزہ میں ۶۰ فیصد سے زیادہ مکانات کو تباہ کر دیا اور حماس کو کمزور کر لیا تو اس کے بعد انہوں نے ایران کی حکومت کے خلاف براہ راست کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام میں ایک خودمختار ملک کی سرزمین پر حملہ کیا گیا، تہران کے رہائشی علاقوں پر بمباری کی گئی، اور سیکڑوں بےگناہ شہری شہید ہوئے۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے نعرے استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد ایران میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو اسرائیلی ریاست کے سیاہ عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے یعنی وہ جو چاہے اپنے ہمسایوں کے ساتھ کرے۔

نیتن یاہو کو امید تھی کہ وہ یہ کام تیزی سے مکمل کر لیں گے، لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ البتہ جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ وہ گروہ جو ایران میں نظام کی تبدیلی کا یہ تجرباتی منصوبہ لے کر آگے بڑھا تھا، وہ اتنی آسانی سے شکست کو تسلیم نہیں کرے گا۔

مہر نیوز: جنگ کے آغاز پر بین الاقوامی برادری اور بڑی طاقتوں کی ابتدائی ردعمل کس حد تک مؤثر تھا؟

لانا راوندی: کیا اس بات پر تعجب ہونا چاہیے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت کی؟ کم از کم ان کے حکومتی رہنماؤں نے تو ایسا ہی کیا۔ یورپی یونین کے اہم ممالک کے سربراہان، مثلاً جرمن چانسلر فریڈرک مَرتس، نے واضح طور پر اس بات کا خیر مقدم کیا کہ اسرائیل اچانک حملے اور سلسلہ وار سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مغرب کا گندا کام سرانجام دے رہا ہے۔

توقع کے مطابق روس اور چین نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی۔ ایران کے ہمسایہ ممالک جیسے آرمینیا، ترکی اور پاکستان بھی ان کی مذمت میں شامل ہوگئے۔ تاہم شامی حکام نے خاموشی اختیار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض شامی صحافی، جو حکومتی حلقوں سے قریب سمجھے جاتے ہیں، درحقیقت اسرائیل کی حمایت میں سامنے آئے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر مزید حملے کرے۔ یہی نہیں، ان صحافیوں نے گزشتہ خزاں میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں بھی اسرائیل کی کامیابی کی امید ظاہر کی اور جنوبی لبنان پر اسرائیلی بمباری کے دوران عام شہریوں کے قتل عام کے واضح شواہد کو جھٹلانے کی کوشش کی۔

دوسری جانب قطر نے زیادہ محتاط اور تعمیری موقف اختیار کیا۔ قطر نے سفارتی طور پر فعال کردار ادا کیا اور مغرب و ایران، دونوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ قطری حکام نے روس اور چین کے ساتھ مل کر جھڑپوں کو روکنے میں مدد فراہم کی۔

مہر نیوز: امریکہ جنگ کے کس مرحلے میں شامل ہوا اور اس کا مقصد کیا تھا؟

لانا راوندی: بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ۲۲ جون کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ شامل ہوئے، اگرچہ نیتن یاہو کی ٹیم نے اس سے بھی بڑے پیمانے پر امریکی شرکت کی توقع کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آغاز ہی سے اسرائیلی حملے میں شامل تھا، کیونکہ اس نے اسرائیل کو عملی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ بعض ماہرین کے مطابق اس منصوبہ بندی کا آغاز دس سال یا اس سے بھی پہلے ہو چکا تھا۔

اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح امریکہ سے اسلحہ، مالی وسائل، انٹیلیجنس معلومات اور سفارتی تحفظ حاصل کیا۔ آخرکار وہ دونوں اتحادی ہیں، لہٰذا اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

مہر نیوز: کیا اس مداخلت سے عالمی طاقتوں کے درمیان کسی نئے اتحاد کی تشکیل ہوئی ہے؟

لانا راوندی: فی الحال اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہم اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ دونوں طرف کتنا نقصان ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس مرحلے پر کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی کیونکہ بظاہر لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انتظار کرتے ہیں کہ کچھ وقت گزرے، حالات واضح ہوں اور دھول بیٹھے۔ مغرب ہمیشہ اسرائیل کا حامی رہا ہے اور ایران کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ روس ایران کی حمایت کرتا ہے، لیکن وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مواقع اور یوکرین کے مسئلے کے حل کی امید بھی رکھتا ہے، اسی لیے ممکن ہے کہ وہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کرے۔ اسی طرح چین بھی امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے وہ ایران کی حمایت کو کچھ حد تک محدود کر رہا ہو۔

مہر نیوز: کیا امریکہ کا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ جنگ کے فوجی یا سیاسی توازن میں تبدیلی کا سبب بنا؟

لانا راوندی: ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ کا حملہ ایک بڑی کاروائی تھی۔ امریکی میڈیا نے اس حملے کو ایک ناقابل یقین کارنامہ قرار دیا مثلا اس کے طویل فاصلے تک پرواز، نشانے کی درستگی اور تکنیکی مہارت پر مبنی بمباری پر مبالغہ کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کارنامہ جتنا مؤثر دکھایا گیا، اتنا مؤثر نہیں تھا اگرچہ ابھی تک تمام تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ اس حملے نے فوجی-سیاسی توازن پر زیادہ اثر نہ ڈالا ہو۔

امریکہ کی بمباری غالباً ایک اختتامی شو سے زیادہ کچھ نہ تھی ایسا اقدام جس سے امریکہ اور اسرائیل کو یہ موقع مل جائے کہ وہ جنگ کو ختم کر دیں، اس سے پہلے کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں۔ اس نے مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے ممکنہ حملوں پر بھی کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

مہر نیوز: آخرکار وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے دونوں فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کیا؟

لانا راوندی: اگرچہ امریکہ نے اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اور برطانیہ نے جنگی طیارے اسرائیل کی حفاظت کے لیے میدان میں اتار دیے تھے، پھر بھی ایرانی میزائل اسرائیل کے علاقوں کے اندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے تھے اور اسرائیل کو ایسے پیمانے پر نقصان پہنچا رہے تھے، جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ، جنگ کی لاگت بھی بہت زیادہ تھی، اور امریکی و اسرائیلی افواج کے میزائل ذخائر ختم ہونے کے قریب تھے۔ میں نے کئی مختلف تجزیے سنے کہ اسرائیل اپنے فضائی دفاع کو کتنے دنوں تک جاری رکھ سکتا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی تجزیہ چند ہفتوں سے آگے نہیں جاتا تھا۔ اس کے برعکس، ایران کے پاس میزائلوں کی کسی کمی کے آثار نہیں تھے۔ پھر لڑائی کے آخری دنوں میں ایسا محسوس ہوا کہ آگ پھیل رہی ہے۔ انصاراللہ یمن نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی سابقہ مفاہمت کو اب تسلیم نہیں کرتی۔ قطر میں واقع امریکی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی زد میں آیا اور ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی عملی جامہ پہننے کے قریب تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ بھی اس جھگڑے کو خطرناک سطح تک لے جانے کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ جلد از جلد ایک حل چاہتے تھے۔

اسی دوران روس، چین، قطر، ترکی، آذربائیجان اور دیگر ممالک نے سفارتی طور پر جنگ کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ تل ابیب اور واشنگٹن بھی ممکنہ طور پر اس بات سے فکرمند تھے کہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات مزید پیچیدہ نہ ہو جائیں خاص طور پر جب کہ یہ دونوں ملک کھل کر ایران کی حمایت کر رہے تھے۔

مہر نیوز: کریملن کے نقطۂ نظر سے، کیا ماسکو نے اس تنازعے کے خاتمے میں ثالثی کا کردار ادا کیا؟

لانا راوندی: جی ہاں، روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تجویز پیش کی کہ وہ اس تنازعے کے حل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم روس صرف اسی صورت میں ثالثی پر آمادہ تھا جب باضابطہ طور پر اس سے درخواست کی جائے۔ وہ خود کو کسی پر مسلط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ روسی وزیر دفاع اور دیگر اعلی حکام نے ۱۳ جون کو جھڑپوں کے آغاز ہی سے ایران میں ہونے والے بھاری جانی نقصان پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔

روسی قیادت اور اعلی سفارت کاروں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی سخت زبان میں مذمت، اور یہ اشارہ کہ اگر جنگ شدت اختیار کرے تو روس ممکنہ طور پر مداخلت کر سکتا ہے ان اقدامات نے ممکن ہے کہ نیتن یاہو کے جنگی جنون کو کم کردیا ہو۔

 

علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکے۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہی آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ و شام لے گئے۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دیئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیتؑ کے مقام و منزلت سے آگاہ ہوئے۔

واقعہ حرہ، تحریک توابین اور قیام مختار آپ کے دور امامت میں رونما ہوئے۔ امام سجادؑ کی دعاؤں اور مناجات کو صحیفہ سجادیہ میں جمع کیا گیا ہے۔ خدا اور خلق خدا کی نسبت انسان کی ذمہ داریوں سے متعلق کتاب، رسالۃ الحقوق بھی آپ سے منسوب ہے۔

شیعہ احادیث کے مطابق امام سجادؑ کو ولید بن عبد الملک کے حکم سے مسموم کرکے شہید کیا گیا۔ آپ امام حسن مجتبیؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔

حیات طیبہ

علی بن حسین بن علی بن ابی‌طالب، امام سجادؑ اور امام زین‌العابدینؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ مشہور قول کی بنا پر آپ 38ھ میں متولد ہوئے۔لیکن دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق آپ کی تاریخ ولادت 36ھ، 37ھ یا 48ھ ہے۔ آپ نے امام علیؑ کی حیات مبارکہ کا کچھ حصہ اور امام حسن مجتبیؑ اور امام حسینؑ کی امامت کو درک کیا ہے۔

امام زین العابدین کی والدۂ ماجدہ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے؛ شیخ مفید آپ کا نام شہربانو بنت یزدگرد ابن شہریار بن کسریاور شیخ صدوق آپ کو ایران کے بادشاہ شہریار کے بیٹے یزدگرد کی بیٹی قرار دیتے ہیں جو آپ کی ولادت کے وقت فوت ہو گئے تھے۔

امام سجادؑ کی کنیت ابوالحسن، ابوالحسین، ابومحمّد،‌ابولقاسم اور ابوعبداللّہ ذکر کی گئی ہے اور آپ کے القاب میں زین العابدین، سیدالساجدین، سجاد، ذو الثفنات، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی، اور علی‌اکبر شامل ہیں۔ امام سجادؑ اپنے زمانے میں "علی‌الخیر"، "علی‌الاصغر" اور "علی‌العابد" کے نام سے مشہور تھے۔

امام سجادؑ کی تاریخ شہادت کا دقیق علم نہیں؛ اس بنا پر بعض نے 95ھ اور بعض نے 94ھ ذکر کی ہیں۔ آپ کی شہادت کے دن کے بارے میں بھی اختلاف ہے؛ من جملہ بروز ہفتہ 12 محرم، یا 25 محرم کو آپ کی شہادت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح 18 محرم، 19 محرم اور 22 محرم بھی بعض منابع میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔

معاصر سلاطین: یزید بن معاویہ (61- 64ہجری)،عبد اللہ بن زبیر (61-73ہجری)،معاویہ بن یزید،مروان بن حَکم،عبد الملک بن مروان (65- 86ہجری)،ولید بن عبد الملک (86- 96ہجری)۔

معاصر تحریکیں:

امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں اور کربلا کے واقعے کے بعد مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:

واقعۂ حَرَہ

کربلا کا واقعہ رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مدینہ کے عوام نے اموی حکومت اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرکے حرہ کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی قیادت جنگ احد میں جام شہادت نوش کرنے والے حنظلہ غسیل الملائکہ کے بیٹے عبد اللہ بن حنظلہ کررہے تھے اور اس قیام کا نصب العین اموی سلطنت اور یزید بن معاویہ اور اس کی غیر دینی اور غیر اسلامی روش کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد، تھا۔ امام سجادؑ اور دوسرے ہاشمیوں کی رائے اس قیام سے سازگار نہ تھی چنانچہ امامؑ اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکل گئے۔ امام زین العابدینؑ کی نظر میں یہ قیام نہ صرف ایک شیعہ قیام نہ تھا بلکہ درحقیقت آل زبیر کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا، اور آل زبیر کی قیادت اس وقت عبد اللہ بن زبیر کررہا تھا اور عبد اللہ بن زبیر وہ شخص تھا جس نے جنگ جمل کے اسباب فراہم کئے تھے۔ یہ قیام یزید کے بھجوائے گئے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے کچل ڈالا جس نے اپنے مظالم کی بنا پر مسرف کا لقب کما لیا۔

توابین کا قیام

توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ بزرگ کررہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیتؑ کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسینؑ کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسینؑ اور توابین کے درمیان کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔

مختار کا قیام

مختار بن ابی عبید ثقفی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجادؑ کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب "مختار" نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیتؑ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امامؑ نے خیر مقدم نہیں کیا۔

اصحاب

ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجادؑ کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی.

شیخ طوسی، نے امام سجادؑ کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔

امام سجادؑ شیعیان اہل بیتؑ کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔

آثار اور کاوشیں

امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔

بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔

صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔

رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔

دعائے سریع الاجابہ

شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں جلدی سے قبول ہونے والی دعاؤں کے ضمن میں امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے،شیخ کفعمی نے بلدالامین میں ایک دعا امام سجادعليہ‌السلام سے نقل کی اور کہا ہے کہ یہ دعا آنجناب عليہ‌السلام سے مقاتل بن سلمان نے روایت کی اورساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اس دعا کو سومرتبہ پڑھے اور اس کی دعا قبول نہ ہو تو مقاتل پر لعنت بھیجے اور وہ دعا یہ ہے :

إِلَهِی کَیْفَ أَدْعُوکَ وَ أَنَا أَنَا وَ کَیْفَ أَقْطَعُ رَجَائِی مِنْکَ وَ أَنْتَ أَنْتَ إِلَهِی إِذَا لَمْ أَسْأَلْکَ فَتُعْطِیَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَسْأَلُهُ فَیُعْطِینِی إِلَهِی إِذَا لَمْ أَدْعُکَ [أَدْعُوکَ] فَتَسْتَجِیبَ لِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَدْعُوهُ فَیَسْتَجِیبُ لِی إِلَهِی إِذَا لَمْ أَتَضَرَّعْ إِلَیْکَ فَتَرْحَمَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَتَضَرَّعُ إِلَیْهِ فَیَرْحَمُنِی إِلَهِی فَکَمَا فَلَقْتَ الْبَحْرَ لِمُوسَی عَلَیْهِ السَّلامُ وَ نَجَّیْتَهُ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تُنَجِّیَنِی مِمَّا أَنَا فِیهِ وَ تُفَرِّجَ عَنِّی فَرَجاً عَاجِلاً غَیْرَ آجِلٍ بِفَضْلِکَ وَ رَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.

میرے معبود میں تجھے کیسے پکاروں اور میں تو میں ہوں اور کیونکر تجھ سے اپنی امید توڑوں جبکہ تو تو ہی ہے میرے معبود جب میں تجھ سے نہ مانگوں کہ تو مجھے عطا کرتا ہے اور کون ہے جس سے مانگوں تو وہ مجھے دے گا میرے معبود جب میں تجھ سے دعا نہ کروں تو میری دعا قبول فرماتا ہے اور کون ہے جس سے دعا کروں تو وہ میری دعاقبول کرے گا میرے معبود جب میں تیرے حضورزاری نہ کروں تب بھی تو مجھ پر رحم کرتا ہے اور کون ہے جس کے آگے زاری کروں تو وہ مجھ پر رحم کرے گا میرے معبود جیسے تونے دریا کو شگافتہ کیا موسیٰ عليہ‌السلام کے لیے اور انہیں نجات دی تھی تو میں بھی تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمدصلى‌الله‌عليہ‌وآلہ‌وسلم د پر رحمت نازل فرما اور مجھے نجات دے اس مشکل سے جس میں گرفتار ہوں اور مجھے کشادگی عطا فرما جلدتر کہ اس میں دیر نہ ہو اپنے فضل سے اور اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔


 

 

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے نائب سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے دنیا کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر غزہ میں ظلم و جرم پر بروقت اور مضبوط رد عمل ظاہر کیا جاتا تو یہ ظلم و جرم پاکستان کی دہلیزوں تک پیشقدمی نہ کر پاتا۔

تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے رہنما علامہ سید جواد نقوی کے خطاب کے اہم نکات:

- دشمن نے اب پاکستان کی پاک سرزمین پر حملے کا راستہ ہموار کر لیا ہے، اور جب جنگ دشمن کی زمین پر نہیں روکی جاتی تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح ہمارے گھروں تک پہنچ جاتی ہے۔

- اسرائیل نے غزہ، لبنان، شام اور ایران کو نشانہ بنانے کے بعد اب ترکی اور پاکستان کو بھی اپنے اگلے اہداف کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ شام کے صدراتی محل، وزارت دفاع فوج کے ہیڈکوارٹر پر حالیہ حملے بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

- پاکستان کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ اگر ہم دشمن کو اپنے گھر کے دروازے تک آنے دیں اور پھر دفاع کے بارے میں شروع کریں، تو یہ شکست کا آغاز ہوگا۔ حقیقی دفاع ہمیشہ دشمن کی زمین پر ہوتا ہے، نہ کہ اپنے گھر کے آنگن میں۔ افسوس کہ پاکستان کی سلامتی کی حکمت عملی ہمیشہ دیر سے ردعمل اور تباہی کے بعد اقدامات پر مبنی رہی ہے، اور آج ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔

- آج کی صورت حال ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن میں پاکستان نے مظلوموں کی فریاد کو نظرانداز کیا، ظلم کے سامنے خاموش رہا، اور پناہ لینے کے لئے امریکہ جیسی استکباری طاقتوں کے دامن میں چلا گیا۔ جس ملک کو امریکہ نے دوستی کا تحفہ دیا ہے، اس کے لئے تباہی، خونریزی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ایک خاص اور بامقصد (Targeted) منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس میں ہماری داخلی کمزوریوں کو ہمارے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

- میں پاکستانی قوم، رہنماؤں اور دانشوروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ غفلت کی نیند سے جاگیں اور اس سے پہلے کہ دشمن مکمل طور پر قابض ہو جائے، اپنی حکمت عملی تبدیل کریں اور ظلم کے خلاف جنگ کو اپنی سرحدوں سے باہر شروع کریں، تاکہ کل کو انہیں اپنے بچوں کی لاشوں پر نہ رونا پڑے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

ایکنا نیوز کے مطابق، علی اکبر ولایتی، جو رہبر معظم کے بین الاقوامی امور کے مشیر ہیں، نے پاکستان کے وزیر داخلہ سید محسن نقوی سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات نہایت گہرے، مستحکم اور برادرانہ ہیں، اور ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اس ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیر داخلہ نے پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کا پیغام رہبر معظم انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ڈاکٹر ولایتی کو سپرد کیا۔

دونوں فریقین نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ پذیر رجحان پر اطمینان کا اظہار کیا اور مختلف شعبوں میں وسیع تر تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

ولایتی نے علاقائی تبدیلیوں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت یافتہ صہیونی حکومت کے ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات اور غزہ میں اس کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے مابین ہم فکری اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستان کے وزیر داخلہ نے بھی اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے مؤقف کی حمایت کا اعلان کیا۔

اربعین کے موقع پر ایران، پاکستان اور عراق کے درمیان سہ فریقی تعاون کے حوالے سے دونوں فریقین نے اس موضوع کا خیرمقدم کیا اور باہمی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ولایتی نے اربعین کے موقع پر پاکستانی زائرین کی بھرپور شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مسلمان عوام ایران کے راستے عراق جاتے ہیں اور اس عظیم اجتماع میں شامل ہوتے ہیں؛ یہ عمل نہ صرف رسمی تعاون کو فروغ دیتا ہے بلکہ تینوں ممالک کے درمیان وسیع تر تعلقات کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔

ولایتی نے اپنی گفتگو کے ایک حصے میں ہندوستان کے عوام کی برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی انقلاب سے پہلے اسی موضوع پر ایک کتاب تصنیف اور شائع کی ہے۔/

شام میں جاری حالیہ جنگ درحقیقت دو بڑے منصوبوں کے مابین جنگ ہے۔

ایک طرف اسرائیلی منصوبہ اور دوسری طرف ترکی و اخوانی منصوبہ۔

اسرائیلی منصوبہ کیا ہے ؟

اسرائیلی منصوبہ یہ ہے کہ شام کو اور خطے کے ممالک کو چھوٹے چھوٹے اور کمزور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ شام کے کچھ علاقوں پر کردوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر علویوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر درزیوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر سنی حکومت ہو اور ان تمام چھوٹی چھوٹی حکومتوں کی پناہ گاہ اسرائیل ہو اور کوئی اسرائیل کے سامنے سر بھی نہ اٹھا سکے؛ سب بے بس، ذلیل اور تسلیم شدہ ہوں۔

ترکی کا منصوبہ کیا ہے ؟

خطے کے تمام تر علاقے جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ رجب طیب اردغان اور انکے اتحادی تکفیری مسلح گروہوں کا منصوبہ ، ان سب علاقوں کو ترکی کے زیر تسلط لانا۔ اور تمام دینی و مذہبی اقلیات کا قلع قمع کرنا ۔ انہیں جینے اور زندگی گزارنے کے حق سے محروم کرنا۔ انہیں عبید اور غلام بنا کر رکھنا ۔ انکی تحقیر و تذلیل کرنا۔ انہیں قتل وغارت کے ذریعے اور یا ہجرت پر مجبور کر کے انہیں ختم کر دینا۔

اس کا عملی نمونہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر حاکم موجودہ حکمرانوں کا رویہ ہے۔ علوی علاقوں کو پہلے نہتہ کیا گیا اور عوام کو تکفیری دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر وہاں پر قتل وغارت شروع کی گئی ۔ عزتیں لوٹیں اور لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ بچے بوڑھوں اور خواتین کو معاف نہیں کیا۔ ماؤں کے سامنے انکے بچوں کو ذبح کیا ۔ جس علاقے میں حکومت کے حمایت یافتہ یا کارندے جاتے وہاں سب جوانوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرتے۔ پھر انکے کپڑے اتار کر ان پر طرح طرح کا تشدد کرتے ۔ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے تمام حربے آزماتے ، کتوں گدھوں ودیگر حیوانات کی بولیاں بلواتے ۔ ننگی گالیاں دیتے اور انکے دن ومذھب پر سب وشتم کرتے۔ پھر آخر میں کچھ نوجوان اور خواتین کو گرفتار کر کے لے جاتے ، اور کچھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے۔ اور ایسے واقعات علویوں اور عیسائیوں اور بعض شیعہ نشین علاقوں میں گذشتہ چند ماہ سے مسلسل ہو رہے ہیں۔ جیلیں علوی و شیعہ و عیدائی مذھب کے لوگوں سے بھر چکی ہیں ۔ فقط شیعہ علماء نہیں انکی فکر کے مخالف سنی علماء کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ ہزاروں پروفیسرز سائنسدان وڈاکٹر و افیسرز قتل ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شیعہ وعلوی و عیسائی ہجرت کر چکے ہیں؛ وہ ہمسایہ ممالک یا پھر دنیا بھر میں جہاں جا سکتے تھے وہاں کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔

اب ایک علاقہ سوریہ میں بچا تھا جہاں پر اکثریتی آبادی درزی مسلمانوں کی ہے۔ یہ سوریہ کے جنوب مشرق میں واقع سویداء نامی صوبہ ہے۔ درزی مذہب کے لوگ فلسطین و لبنان اور شام کے علاقوں میں آباد ہیں۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد انکے روحانی لیڈر حکمت ھجری نے نئی حکومت کے سربراہ احمد الشرع الجولانی سے دمشق جا کر ملاقات کی ۔ اور حکومت کو تسلیم کیا لیکن انکی شرط تھی کہ جب تک ملک کا نیا دستور و آئین نہیں بنتا اور انتخابات کے ذریعے آئینی وقومی حکومت نہیں آتی ۔ اور نئی فوج تشکیل نہیں پاتی اور جب تک ملک کے عوام ان تکفیری مسلحہ گروھوں کے رحم وکرم پر ہیں ہم اپنا اسلحہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اور اپنی جان و مال و ناموس کی حفاظت خود کریں گے۔ کیونکہ وہ باقی اقلیتوں کا حشر دیکھ چکے تھے۔

علوی ساحلی علاقوں میں قتل وغارت و تباہی اور جلانے کے بعد حکومت نے سویداء صوبہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے عرب بدو سنی قبائل کو پہلے بھیجا پھر اس کے بعد حکومتی فورسز بھی پہنچنا شروع ہوگئیں ۔ تکفیری لشکروں نے اس صوبے کے خلاف جنگ کے لئے پورے ملک سے اس کی طرف رخ کیا ۔ شمال وجنوب و مشرق ہر طرف سے جنگجو تکفیری رجز خوانی کرتے ہوئے اس درزی علاقے کو فتح کرنے کے لئے روانہ ہوئے۔ مقبوضہ فلسطین کے درزیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی فوج کا حصہ بھی ہے۔ درزیوں نے اسرائیل سے مدد مانگی۔ اسرائیل نے جولانی حکومت کو تنبیہ کی کہ وہ درزی علاقوں پر چڑھائی نہ کرے، لیکن جب سویداء کے اندر دونوں فریقین کے مابین جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل بھی میدان جنگ میں عملی طور پر آ گیا اور اسرائیلی فضائیہ نے دمشق کی وزارتِ دفاع اور قصر جمہوری و دیگر مختلف علاقوں پر وحشیانہ بمباری کی جو مسلح فورسز مختلف علاقوں سے سویداء کی طرف جا رہی تھیں ان پر بھی شدید اسرائیلی حملے ہوئے۔

آخر کار جولانی حکومت نے پسپائی اختیار کی اور اپنی فورسز کی واپسی کا اعلان کیا۔

تحریر : ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 16 جولائی 2025 کی صبح عدلیہ کے سربراہ، اعلی عہدیداران اور پورے ملک کی اعلی عدالتوں کے ججوں سے ملاقات میں حالیہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی قوم کے عظیم کارنامے کو سراہتے ہوئے جارحین کے اندازوں اور سازشوں کے ناکام ہو جانے کا ذکر کیا۔
     

آپ نے ایران عزیز کے دفاع کے لیے ہر طرح کے اختلاف کو درکنار کرتے ہوئے عظیم اتحاد قائم کرنے کی ملت ایران کی دانشمندی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس قومی اتحاد کی حفاظت کرنا سبھی کی ذمہ داری ہے۔

آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ بارہ روزہ جنگ میں عوام کا عظیم کارنامہ، قومی عزم و اعتماد جیسا تھا کیونکہ امریکا جیسی  طاقت اور اس کے پالتو کتے صیہونی حکومت سے مقابلے کی تیاری اور جذبہ ہی بہت گرانقدر ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کسی بھی میدان میں کمزور فریق کی طرح سامنے نہیں آئے گی، کہا کہ ہمارے پاس منطق اور عسکری طاقت جیسے تمام ضروری وسائل ہیں اس لیے چاہے وہ سفارتکاری کا میدان ہو یا فوجی میدان ہو، ہم جب بھی اس میدان میں آئیں گے، اللہ کی توفیق سے مضبوطی کے ساتھ آئیں گے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ اگرچہ ہم صیہونی حکومت کو کینسر اور امریکا کو اس کی پشت پناہی کی وجہ سے مجرم مانتے ہیں لیکن ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تاہم جب دشمن نے حملہ کیا، ہمارا جواب منہ توڑ اور بہت ٹھوس تھا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کو ایران کے ٹھوس اور دنداں شکن جواب کی واضح دلیل، اس کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنا بتایا اور کہا کہ اگر صیہونی حکومت جھک نہ جاتی اور زمیں بوس نہ ہوتی اور اپنا دفاع کر پاتی تو اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی لیکن وہ سمجھ گئي کہ اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔

انھوں نے امریکا کے حملے پر ایران کے جوابی حملے کو بھی بہت حساس ضرب بتایا اور کہا کہ ایران نے جس جگہ حملہ کیا وہ خطے میں امریکا کا انتہائی حساس مرکز تھا اور جب بھی خبری سینسر ہٹے گا تو پتہ چل جائے گا کہ ایران نے کتنی گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ البتہ امریکا اور دوسروں کو اس سے بھی بڑی چوٹ پہنچائی جا سکتی ہے۔

رہبر انقلاب نے حالیہ جنگ میں قومی یکجہتی کے بھرپور طریقے سے سامنے آنے کو بہت اہم اور دشمن کی سازش کے سامنے بڑی رکاوٹ بتایا اور کہا کہ جارحین کا اندازہ اور سازش یہ تھی کہ ایران کی بعض شخصیات اور حساس مراکز پر حملے سے نظام کمزور پڑ جائے گا اور پھر وہ منافقین اور سلطنتی نظام کے حامی افراد سے لے کر غنڈوں اور اوباشوں جیسے اپنے زرخرید سلیپر سیلز کو میدان میں لا کر عوام کو ورغلا سکتے ہیں اور انھیں سڑکوں پر لا کر نظام کا کام تمام کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ عملی میدان میں جو ہوا وہ دشمن کی پلاننگ کے بالکل برخلاف تھا اور یہ بھی واضح ہو گيا کہ سیاسی اور دوسرے میدانوں کے بعض افراد کے بھی بہت سے اندازے صحیح نہیں ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایران کے سبھی لوگوں کے لیے جارح دشمن کے حقیقی چہرے، پلان اور پوشیدہ اہداف کے واضح ہو جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند عالم نے ان کی سازش کو باطل کر دیا اور عوام کو حکومت اور نظام کی پشت پناہی میں میدان میں اتار دیا اور لوگ، دشمن کی سوچ کے برخلاف نظام کی جانی اور مالی حمایت اور پشت پناہی میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

انھوں نے مختلف مذاہب اور گوناگوں یہاں تک کہ متضاد سیاسی نظریات رکھنے والے افراد کے ایک ساتھ کھڑے ہونے اور بات کرنے کو عظیم قومی اتحاد پیدا ہونے کا باعث بتایا اور اس عظیم اتحاد کی حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عہدیداروں کو پوری طاقت اور بھرپور جذبے کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے، کہا کہ سبھی کو جان لینا چاہیے کہ وَ لَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہ کی آيت کے مطابق خداوند عالم نے اسلامی نظام کے تحت اور قرآن و اسلام کے سائے میں ایرانی قوم کی نصرت کو یقینی بنا دیا ہے اور یہ قوم یقینا فتحیاب ہوگی۔

انھوں نے حالیہ جنگ میں صیہونی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری بتایا اور کہا کہ عدلیہ کو چاہیے کہ حالیہ جرائم کو سنجیدگی اور پوری ہوشیاری کے ساتھ اور تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے عالمی اور ملکی عدالتوں میں اٹھائے۔

اس ملاقات کی ابتداء میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی اژہ ای نے عدلیہ کی کارکردگي کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔

ایران کی عزیز اور عظیم قوم پر بے شمار درود و سلام ہو۔ سب سے پہلے میں حالیہ واقعات کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شہید کمانڈرز، شہید سائنسداں جو حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ کے لیے گرانقدر تھے اور انھوں نے بڑی خدمات سر انجام دیں اور آج پروردگار عالم کے یہاں اپنی نمایاں خدمات کا صلہ حاصل کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔

میں ایران کی عظیم قوم کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں قوم کو کئی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں:

پہلی، جعلی صیہونی حکومت پر فتح کی مبارکباد ہے۔ اتنے زیادہ شور ہنگامے، اتنے زیادہ دعووں کے باوجود صیہونی حکومت، اسلامی جمہوریہ کی ضرب سے تقریباً زمیں بوس ہو گئي اور اور کچل دی گئي۔ ان کے تصور میں اور ان کے ذہن میں کبھی یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ ممکن ہے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے اس حکومت کو ایسی ضرب پڑے، لیکن ایسا ہوا۔

ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری مسلح فورسز کی مدد کی اور وہ صیہونیوں کے پیشرفتہ ڈیفنس کے کئی لیئرز کو عبور کر گئیں اور انھوں نے ان کے بہت سے شہری اور فوجی علاقوں کو اپنے میزائيلوں کے ذریعے اور اپنے پیشرفتہ ہتھیاروں کے مضبوط حملے سے مٹی میں ملا دیا۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف جارحیت کی اسے قیمت چکانی پڑے گي، قیمت ادا کرنی پڑے گی، اسے بھاری قیمت چکانی ہوگي اور بحمد اللہ یہ کام بھی ہوا۔ اس کا افتخار مسلح فورسز اور ہمارے عزیز عوام سے متعلق ہے جنھوں نے اپنے درمیان سے ان مسلح فورسز کو پیدا کیا، ان کی پرورش کی، ان کی حمایت کی اور اس طرح کے ایک بڑے کام کے لیے ان کے بازو مضبوط کیے۔

دوسری مبارکباد، امریکی حکومت پر ہمارے عزیز ایران کی فتح سے متعلق ہے۔ امریکی حکومت، جنگ میں، براہ راست جنگ میں شامل ہو گئی کیونکہ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ جنگ میں شامل نہ ہوئی تو صیہونی حکومت پوری طرح سے نابود ہو جائے گي۔ وہ جنگ میں اس لیے شامل ہوئی کہ اسے نجات دے لیکن اسے اس جنگ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ ہمارے ایٹمی مراکز پر حملہ کیا، جو علیحدہ طور پر کسی عالمی عدالت میں قانونی مقدمے کے لائق ہے لیکن وہ کوئي اہم کام نہیں کر سکے۔ امریکی صدر نے جو کچھ ہوا تھا، اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں اس سے پتہ چلا کہ انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ جو بھی ان باتوں کو سنتا وہ سمجھ جاتا کہ ان ظاہری باتوں کے پیچھے ایک الگ حقیقت پائي جاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکے، جو ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے، اسے حاصل نہیں کر سکے۔ اور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپائيں اور اسے پوشیدہ رکھیں۔ یہاں بھی اسلامی جمہوریہ فتحیاب ہوئی اور اسلامی جمہوریہ نے جواب میں امریکا کے رخسار پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ اس نے خطے میں امریکا کے ایک اہم اڈے، العدید بیس پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اُس مسئلے میں جن لوگوں نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، انھوں نے اِس مسئلے میں بات کو ہلکا کر کے پیش کرنے کی کوشش کی، یہ کہا کہ کچھ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ یہ کوئي معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو خطے میں امریکا کے اہم مراکز تک دسترسی حاصل ہو اور وہ جب بھی ضروری سمجھے ان کے خلاف کارروائي کرے، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ مستقبل میں بھی یہ واقعہ دوہرایا جا سکتا ہے، اگر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت، جارح کو یقینی طور پر بہت بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

تیسری مبارکباد ایرانی قوم کے غیر معمولی اتحاد اور اتفاق رائے کی ہے۔ بحمد اللہ قریب نو کروڑ کی آبادی والی ایک قوم، متحدہ طور پر، ایک آواز ہو کر، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ، مطالبات اور اہداف میں بغیر کسی اختلاف کے ڈٹ گئی، نعرے لگائے، بیان دئے، مسلح فورسز کی کارروائيوں کی حمایت کی، آئیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

ایرانی قوم نے اس مسئلے میں اپنی عظمت کو، اپنی نمایاں اور ممتاز شخصیت کو دکھا دیا اور بتا دیا کہ ضروری موقع پر اس قوم سے ایک ہی آواز سنائی دے گي اور بحمد اللہ ایسا ہی ہوا۔

میں اپنے معروضات میں ایک بنیادی نکتے کے طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ایرانی قوم کو سر جھکانا ہوگا، سرینڈر کرنا ہوگا، اب یورینیم کی افزودگي کی بات نہیں ہے، ایٹمی صنعت کی بات نہیں ہے، بات ایران کے سرینڈر ہونے کی ہے۔ امریکی صدر کی یہ بات، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہے۔ اتنی عظمت والے ایران، تاریخ رکھنے والے ایران، ثقافت رکھنے والے ایران، ایسا فولادی قومی عزم رکھنے والے ایران اور ایسے ملک کے لیے سرینڈر ہونے کی بات ان لوگوں کی نظر میں مضحکہ خیز ہے جو ایرانی قوم کو پہچانتے ہیں لیکن ان کی اس بات نے اس حقیقت کو عیاں کر دیا کہ امریکی، انقلاب کی ابتداء سے ایران اسلامی سے جنگ کر رہے ہیں، متصادم ہیں۔ وہ ہر بار کوئي نہ کوئي بہانہ لے آتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق ہے، کبھی جمہوریت کا دفاع ہے، کبھی خواتین کے حقوق کی بات ہے، کبھی یورینیم کی افزودگي ہے، کبھی ایٹمی مسئلے کی ہی بات ہے، کبھی میزائیل بنانے کا مسئلہ ہے، وہ مختلف بہانے پیش کرتے ہیں لیکن اصل میں صرف ایک ہی بات ہے اور وہ ہے ایران کا سر جھکا دینا، سرینڈر ہو جانا۔ پہلے والے یہ بات نہیں کہتے تھے کیونکہ یہ قابل قبول نہیں، کسی بھی انسانی منطق میں یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ایک قوم سے کہا جائے کہ وہ سرینڈر کر دے۔ لہذا وہ اسے دوسرے ناموں کے پیچھے چھپا دیا کرتے تھے۔ اس شخص نے اسے برملا کر دیا، اس حقیقت کو عیاں کر دیا، اس نے سمجھا دیا کہ امریکی صرف ایران کے سرینڈر ہونے پر ہی راضی ہوں گے، اس سے کم پر نہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایرانی قوم جان لے کہ امریکا سے ٹکراؤ اسی بات پر ہے۔ امریکی، ایرانی قوم کی اتنی بڑی توہین کر رہے ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے، ایران ایک مضبوط اور وسیع و عریض ملک ہے، ایران قدیم تمدن کا مالک ہے، ہمارا ثقافتی اور تمدنی سرمایہ، امریکا اور امریکا جیسوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ کوئي ایران سے یہ توقع رکھے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، یہ پوری طرح سے بکواس اور ہرزہ سرائی ہے جس کا یقینی طور پر عقلمند اور دانا افراد مذاق اڑائيں گے۔ ایرانی قوم، صاحب وقار ہے اور صاحب وقار رہے گی۔ وہ فاتح ہے اور اللہ کی توفیق سے فاتح ہی رہے گي۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم سے اس قوم کو ہمیشہ باعزت اور باشرف رکھے، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات بلند کرے، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کو اس قوم سے راضی و خوشنود رکھے اور ان کی مدد، اس قوم کی پشت پناہ رہے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 
 


اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف صیہونی اور امریکی جارحیت کے دوران نفسیاتی جنگ اور موساد سے وابستہ روایتی اور جدید نشریاتی و اشاعتی ذرائع ابلاغ، انقلاب اسلامی کا چراغ خاموش دکھانے کی سعی میں رہبریت کا خلا ظاہر کرنے اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی سلامتی اور حضور کے بارے میں افواہیں پھیلانے کی پوری کوشش کر رہے تھے، اس دوران دس محرم کی رات کو مجلس امام حسین علیہ السلام میں رہبر انقلاب کی حاضری کی ایک ویڈیو نے دشمن کے تمام حربے ناکام بنا دیئے، جیسے صہیونیوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہوں۔

امام عالی مقام، امام حسین علیہ السلام کے دربار میں ایک حاضری نے دشمن کے تمام تر پروپیگنڈا کو تہس نہس کر دیا۔ رہبر معظم انقلاب تحسین انگیز، پرسکون اور بے مثال وقار کے ساتھ، شب عاشور کو حسینیہ امام خمینی تہران میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور نہ ہی  کوئی تردید جاری کی، لیکن مجلس امام حسیؑن میں ان کی حاضری، تمام جھوٹی افواہوں کا فصیح و بلیغ جواب تھا۔ وہ لوگ جو پے در پے مواد تیار کر کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرکے رہبریت کی عدم موجودگی کا جواز بنانا چاہتے تھے، اب صرف ایک تصویر، ایک قدم اور ایک فاتحانہ حاضری سے رسوا ہو چکے ہیں۔

میڈیا کے اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ تصویروں کے دور میں، لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا ان کے ذہنوں پر کسی بھی تجزیئے یا تقریر سے زیادہ اثر پڑتا ہے، دشمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ "جعلی تصاویر،" "بصری افواہوں،" اور "قیادت و رہبری کی عدم موجودگی" کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ایک نفسیاتی حربے کے طور پر عام افراد کو قیادت کی عدم موجودگی یا دوری کا احساس دلایا جائے۔ لیکن اس بار ایک حقیقی ویڈیو نے بغیر کسی ہنگامے کے، ان تمام منصوبوں کو بے اثر کر دیا۔

غیر ملکی خدمات کے لئے جاری انٹیلی جنس پراجیکٹس میں براہ راست کردار ادا کرنے والے "مملکتہ" اور "وحید آن لائن" جیسے میڈیا آؤٹ لیٹس نے جعلی اور خودساختہ انداز میں اپنی تمام تر توجہ قیادت کی حیثیت کو کم کر کے دکھانے پر مرکوز کر رکھی تھی۔ لیکن حقیقت کہیں چھپ نہیں سکتی، رہبر انقلاب ایک سچائی کے طور پر حسینیہ امام خمینی میں داخل ہوئے۔ رہبر معظم انقلاب اپنے معمول کے مطابق سکون کے ساتھ، لیکن انتہائی حساس لمحے میں وارد میدان ہوئے۔ یہ صرف ایک افواہ کا جواب نہیں تھا، یہ پوری قوت و اقتدار کی رونمائی تھی۔

یہ ا؎ایک ایسا پیغام تھا جس نے ظاہر کیا کہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ میں کہیں کوئی خلا ایجاد نہیں ہوا، بلکہ طاقت کے ستون پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں، یہ موجودگی امن و سلامتی کا پیغام بھی تھا۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا کے کونے کونے میں مجلس، ماتم، جلوس ہائے عزا میں لبیک یا حسیؑن اور یاحسیؑن یاحسیؑن پکارنے والوں کو یقین ہو گیا کہ اب دشمن جنگ کے ہر میدان میں شکست کھا چکا ہے، سب کی توجہ پردہ غیبیت میں موجود فرزند زہراؑ سلام اللہ علیھا کی جانب گئی اور ظہور ایک قدم نزدیک محسوس ہونے لگا۔ 

غزہ جنگ اور بالخصوص ایران کے کامیاب حملوں کے بعد تقریباً تین چوتھائی اسرائیل میں کام کرنیوالے ورکرز ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ سروے گروپ نے پوچھا کہ ورکرز اسرائیل میں رہنا اور کام کرنا کیسا سمجھتے ہیں؟ مقبوضہ فلسطین میں کام کرنیوالے ایک چوتھائی ورکرز نے اس کے جواب میں  کہا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی وجہ سے اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والوں میں یہ نمایاں اضافہ صیہونی معاشرے میں بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

حال ہی میں کیے گئے اس سروے کے نتائج کے مطابق تقریباً 73 فیصد اسرائیلی کارکن بیرون ملک ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں، یہ معاملہ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے ہوئے خدشات، عدم استحکام اور صیہونی رجیم پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیلی ایمپلائمنٹ پلیٹ فارم فرسٹ جابز کے ذریعے ہونیوالے سروے کی رپورٹ میں ایود احرونوت اخبار کی طرف سے شائع کیے جانے والے گزشتہ سال کے سروے کے مقابلے میں ہجرت کی خواہش میں 18 فیصد کا نمایاں اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ پانچ سالوں میں پہلی بار 70 فیصد سے زیادہ اسرائیلی کارکنوں نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر بھی اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تشویش اور ہجرت کی وجوہات
ملک چھوڑنے کے حوالے سے اگرچہ روایتی محرکات جیسے کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا (59%)، بین الاقوامی تجربہ حاصل کرنا (48%) اور کیریئر میں ترقی (38%) اب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان وجوہات میں نئے اور پریشان کن عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ سروے میں تقریباً 30% شرکاء نے ذاتی تحفظ سے متعلق خدشات کی بات کی، 24% نے سیاسی عدم استحکام کا حوالہ دیا اور 24% نے "حکومت سے مایوسی" کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔ وی پی آف کریئر ڈیولپمنٹ اینڈ ریکروٹمنٹ فرسٹ جابز کے لیئٹ بین ٹورا شوشن کہتے ہیں کہ "ہم ہجرت کے بارے میں ملازمین کے رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں؛ یہ اب صرف ایک اسٹریٹجک پیشہ ورانہ فیصلہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا فیصلہ جو جذبات، سلامتی اور معاشی خدشات سے زیادہ کارفرما ہے"۔
 
نئے ٹھکانے
امریکہ اسرائیلی تارکین وطن کے لیے سب سے زیادہ مقبول مقام ہے، جہاں 44 فیصد شرکاء نے امریکہ کا انتخاب کیا وہاں نیویارک شہر 17 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول ہے، اس کے بعد 11 فیصد کے ساتھ لاس اینجلس اور 8 فیصد کے ساتھ میامی ہے۔ جبکہ یورپ کا حصہ صرف 26 فیصد ہے، یہ تعداد پچھلے سالوں سے کم ہے، ممکنہ وجوہات میں "یہود دشمنی" اور یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات ہیں۔ کچھ جواب دہندگان نے قریب ترین مقامات جیسے یونان اور قبرص (11 فیصد) میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ (6 فیصد)، مشرقی ایشیا (8 فیصد) اور افریقہ (1 فیصد) کم مقبول تھے۔

خدشات اور چیلنجز
اگرچہ امیگریشن ایک پرکشش آپشن لگتا ہے، لیکن بہت سے اسرائیلی اس کے ساتھ جڑے چیلنجوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ 56 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا ہے کہ امیگریشن کا عمل، اس کی کشش کے باوجود، آسان نہیں ہے، پہلے کی نسبت اس بار سروے میں خدشات کا اظہار زیادہ کیا گیا ہے۔ یہ سروے پورے اسرائیل سے 22 سال سے زیادہ عمر کے 611 اسرائیلی کارکنوں کو شامل کر کے کیا گیا۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار صیہونی معاشرے کی نازک صورتحال اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ طویل المدتی جنگ، علاقائی کشیدگی، خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی رجیم کے سیاسی اور سلامتی کے ماحول کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ اسرائیلی معیشت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال ایران، یمن، لبنان اور فلسطینی گروہوں کی طاقت اور مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے، صیہونی رجیم کے زیر سایہ معاشرے کی ناپائیداری اس کا ثبوت ہے۔
 
 
 

صدر ایران نے بدھ کی رات یورپی کونسل کے صدر ایٹونیوکوسٹا سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے تازہ ترین بین الاقوامی معاملات بالخصوص ایران کے خلاف 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے بعد کی صورتحال نیز تہران اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کے امکان کا جائزہ لیا۔

صدر پزشکیان نے دنیا کے ساتھ تعمیری تعاون اور مذاکرات کے  بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھی تہران  علاقائی اور بین الاقوامی امن، استحکام اور سلامتی کے حوالے سے  اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔    

انہوں نے صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو عالمی امن و سلامتی کے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ  صیہونی حکومت اور امریکہ نے ایران کو اس وقت جارحیت کا نشانہ بنایا ہم مذاکرات کر رہے تھے۔

صدر کا کہنا تھا جب امریکہ اور اسرائيل کو ایران کی جانب سے فیصلہ کن جواب کا سامنا کرنا پڑا تو وہ امن اور جنگ بندی کی دھائي دینے لگے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی اجازت کے بغیر اسرائيل ایران پر جارحیت نہیں کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایران اور آئي اے ای اے کے درمیان تاریخی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعاون کا انحصار ایران کے تنئيں اس عالمی ادارے کے رویئے میں تبدیلی پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئي اے ای اے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں رپورٹوں کی تیاری میں غیر جانبداری کے اصولوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے۔

صدر نے کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کھلی جارحیت کا نوٹس نہ لینا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہنا ایسی مثالیں ہیں جن کے نتیجے میں آئی اے ای اے کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچا ہے اور ایرانی پارلیمنٹ کو عالمی ادارے کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا بل پاس کرنا پڑا۔

 ایران کے صدر نے واضح کیا کہ آئی اے ای اے جیسے بین الاقوامی اداروں  کی جانب سے  متوازن حمایت اور رکنیت کے فوائد سے مستفید ہونا ان اداروں میں شمولیت کی بنیادی وجہ ہے بصورت دیگر، ان اداروں کا رکن ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے اس موقع پر موجودہ مسائل کے حل کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے یورپی یونین کی خواہش کا اظہار کیا۔

 

انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ بین الاقوامی اداروں کو کسی بھی دوہرے معیار سے گریز کرنا چاہیے۔

ایٹونیو کوسٹا نے مزید کہا کہ یورپی یونین ایرانی قوم کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا گہرا احترام کرتی ہے اور بات چیت کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔