سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب اسلامی نے دو روز قبل پیر 12 مئی 2025 کو امداد رساں شہیدوں پر قومی سیمینار کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ان کا خطاب آج 14 مئی کی شام کو سیمینار کے مقام پر نشر کیا گيا۔
     

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں امداد رسانوں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیا اور ایرانی قوم کے ایثار اور انسان دوستی کے جذبے کے جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس جذبے کے مقابلے میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور وحشیانہ اقدامات اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت ہے اور اس خونخواری اور باطل محاذ کے مقابلے میں استقامت، سبھی کا فرض ہے۔

انھوں نے آٹھ سالہ جنگ کے پس منظر میں کہا کہ امداد رساں، گولیوں کی بارش میں بھی اپنی حفاظت کی نہیں بلکہ صرف دوسروں کی نجات کی فکر میں رہتے تھے اور ان کے اندر ایثار کا حیرت انگیز جذبہ اس حد تک ہوتا تھا کہ کبھی کبھی وہ دشمن کے زخمی قیدیوں کی بھی مدد کرتے تھے اور یہ رویہ، انسانیت سے عاری دنیا کے بالکل برخلاف ہے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ ایثار اور امداد کے جذبے کی ضد مجرم صیہونیوں کی جانب سے ایمبولینسوں پر حملے، اسپتالوں پر بمباری اور نہتے مریضوں اور بچوں کے قتل عام کی وحشیانہ عادت اور رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کا انتظام ان انسان نما جانوروں کے ہاتھ میں ہے اور اسلامی جمہوریہ ان کی اس سفاکیت اور حیوانیت کے مقابلے میں استقامت کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیر فوجیوں کے خلاف جرائم پر اعتراض سبھی کی ذمہ داری ہے، کہا کہ یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو دلوں میں امید کا چراغ جلتے رہنے کا سبب بنتا ہے اور یہی چیز اسلامی جمہوریہ کے خلاف مغرب والوں جیسے دشمنوں کی کارروائيوں کا سبب بنتی ہے اور اگر ہم ان کی وحشیانہ کارروائيوں پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کریں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے منہ زوروں کا اصل مسئلہ، اسلامی جمہوریہ کی جانب سے ان کے باطل تمدن کی نفی بتایا اور کہا کہ باطل ختم اور نابود ہونے والا ہے تاہم اس کام کے عملی جامہ پہننے کے لیے سعی و کوشش کرنا، استقامت کرنا اور بے عملی، تساہلی، باطل کے کاموں پر مسکرانے اور اس کی تعریف کرنے سے پرہیز ہونا چاہیے جو اس کی پیشقدمی کا سبب بنتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 10 مئی 2025 کو ہفتہ محنت کشاں کی مناسبت سے ملک کے لیبر طبقے کے ہزاروں افراد سے ملاقات میں سماج کے اس طبقے کی کلیدی حیثیت و کردار، اس کے حقوق اور فرائض کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے دور کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے اس مسئلے پر مسلسل توجہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ (1) خطاب حسب ذیل ہے:
     

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ ہر سال حسینیہ میں مزدور بھائیوں سے یہ ملاقات میرے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ محنت اور مزدوروں کے مسائل دراصل پورے ملک کے مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور اس بات کو نیک فال سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ ملاقات حضرت کے یوم ولادت کے موقع پر ہو رہی ہے۔

ساتھ ہی میں اپنے عزیز شہید جناب رئیسی کو یاد کرنا چاہتا ہوں جو عوام کے مسائل، خصوصاً مزدور طبقے کے معاملات کو ہمیشہ اولین ترجیح دیتے تھے اور ان کے حل کے لیے سرگرم رہتے تھے۔

جناب وزیر نے جو کچھ یہاں بیان کیا، وہ سب درست اور بجا تھا؛ یعنی موجودہ خامیاں، ضرورتیں، اور جو کام ہونے چاہئیں، جنھیں انھوں نے یہاں تفصیل سے گنوایا، یہ سب ٹھیک ہیں۔ میری صرف ایک گزارش ہے کہ خود ان کی ذات، ان کا وزارت خانہ، اور حکومت کے بعض دیگر حصوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ان باتوں کا اصل مخاطب وہ خود ہیں۔ میں دل سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے، انھیں توفیق عطا کرے کہ یہ کام سرانجام دے سکیں۔ اگر وہ عزم کریں اور ٹھان لیں، تو یقیناً کر سکتے ہیں۔ 

مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے بہت سی ضروری باتیں کہی جا چکی ہیں؛ البتہ کچھ اچھے اقدامات بھی ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ نکات پر زور دینے کی ضرورت ہے؛ چاہے یہ باتیں پہلے بھی کیوں نہ بیان کی جا چکی ہوں، انھیں دہرانا چاہیے۔ میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں جو حاضر خدمت ہیں۔

پہلا نکتہ: قدر و قیمت کے تعین کا معاملہ ہے۔ اس حصے کا اصل مخاطب — یعنی مزدور اور محنت کی قدر و قیمت — سب سے پہلے آپ خود مزدور بھائی ہیں، کہ اپنی قدر پہچانیں اور جان لیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، وہ درحقیقت تخلیق کے نظام، معاشرے کے دھارے، اور روحانی اقدار و دینی تقاضوں کے مجموعے میں کس مقام پر ہے۔ 

ایک پہلو تو مزدور کی منزلت و مقام کا ہے، نہ صرف اس کے کام کی بنا پر، بلکہ اس کی انسانی حیثیت کی بنا پر۔ مزدور میں دو اہم خوبیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی فضیلت رکھتی ہیں: پہلی خوبی: وہ اپنی محنت اور اپنی طاقت سے حلال روزی کماتا ہے۔ دوسروں پر 'کلّ' (2) بوجھ نہیں بنتا، مفت خوری نہیں کرتا، لوٹ مار نہیں کرتا، دوسروں کے مال کو اپنی طرف نہیں کھینچتا، بلکہ اپنی محنت سے (چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو) کماتا ہے۔ یہ ایک بڑا نیک عمل ہے، یہ ایک عظیم کام ہے۔ انسان کو اسی طرح زندگی گزارنی چاہیے۔ اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے، اپنی قوت پر بھروسہ رکھتے ہوئے۔ یہی ہر انسان کے لیے مثالی زندگی کا نمونہ ہے۔ 

دوسری خوبی: جو اسی قدر اہم ہے، یہ کہ مزدور دوسروں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ آپ لوگ صنعتی، زرعی اور خدماتی مصنوعات تیار کر کے عوام تک پہنچاتے ہیں — یعنی دوسروں کی زندگیوں میں مدد کر رہے ہیں۔ انسانی اعتبار سے یہ دونوں نکات نہایت قیمتی ہیں، نیکی ہیں۔ اگر ہم قدر کا موازنہ کریں، تو کوئی شخص عبادت گزار ہو لیکن اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کے لیے کوئی محنت نہ کرتا ہو، تو وہ اس مزدور سے کم تر ہے جو محنت کرتا ہے، کام کرتا ہے۔ تو یہ قدر و قیمت کی بات ہے۔ یہ محنت کش کا مرتبہ و مقام ہے، اس کے کام کی حیثیت سے، اس کی انسانی قدر و قیمت کے پہلو سے۔

 

دوسرا نکتہ: محنت کی قدر و قیمت کا معاملہ، جو انتہائی اہم اور نمایاں ہے۔ محنت انسانی زندگی کے نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ اگر محنت نہ ہو تو انسانی زندگی مفلوج ہو جائے۔ سرمایہ بے شک اثر رکھتا ہے، سائنس یقیناً مؤثر ہے، لیکن سرمایہ اور سائنس ورک فورس (یعنی مزدور) کے بغیر کسی کام کے نہیں، ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مزدور ہی سرمائے کے بے جان ڈھانچے میں روح پھونکتا ہے۔ ہم نے اس سال "پروڈکشن کے لیے سرمایہ کاری" کا نعرہ دیا ہے۔ بہت خوب! لیکن یاد رکھیے کہ سب سے بڑا سرمایہ خود مزدور ہے۔ سرمایہ کاری کریں، مگر یہ ذہن نشین رکھیں کہ یہ مالی سرمایہ کاری مزدور کے ارادے، اس کی صلاحیتوں اور اس کی خواہش کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ محنت کا یہی کردار ہے: یہ معاشرے کی استحکام اور بقا کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ 

اسی لیے تو آپ دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے کے دشمن، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین، انقلاب کے اولین دن سے لے کر آج تک یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح مزدور طبقے کو اسلامی جمہوریہ کے دائرے میں کام کرنے سے روکیں، انہیں اعتراض کے لئے بھڑکائیں۔ میں اس سلسلے میں کئی واقعات جانتا ہوں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں۔ پہلے کمیونسٹ اور مارکسسٹ تھے جو اس کوشش میں تھے کہ مزدور طبقات پر قبضہ کر کے صنعتی یونٹوں کو اچانک بند کر دیں، جس سے معیشت مفلوج ہو جائے۔ آج بھی یہی عزائم موجود ہیں۔ پہلے کمیونسٹ تھے، آج سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ اسی کوشش میں ہیں۔ لیکن دونوں ادوار میں ہمارے مزدوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو دندان شکن جواب دیے۔ 

ہم نے کہا کہ سب سے بڑا سرمایہ مزدور ہے۔ یعنی مزدور کا اثر پیسے، سائنسی تحقیق اور دیگر عوامل سے بڑھ کر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "ہم اس سرمایے کے ساتھ کیا کریں؟" یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کا کچھ حصہ ممکنہ طور پر میرا ہے، کچھ وزیر محترم کا، کچھ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا، کچھ عوام الناس کا، اور کچھ میڈیا کا۔ مختصراً، ہم سب کے ذمہ مزدوروں کے تعلق سے کچھ فرائض ہیں۔ 

مزدور اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے سکے، کام کا معیاری نتیجہ دے سکے، دوسروں کی مدد کر سکے اور خود بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو، اس کے لئے اس کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہے۔ ان ضرورتوں میں سے ایک روزگار کی سیکورٹی ہے۔  ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ کام کی جگہ پر حادثات، جو بعض اوقات مزدوروں کو پیش آتے ہیں، انتہائی افسوسناک ہیں۔ یہ معاشرے پر کاری ضرب ہیں۔  تو ایک ضرورت حفاظتی انتظامات ہیں۔ ایک ضرورت معاشی فکرمندیوں کا ازالہ ہے۔ یعنی یہ سارے کام انجام پانے چاہئے۔ اب میں ان میں سے کچھ نکات پر مختصراً روشنی ڈالتا ہوا آگے بڑھ جاؤں گا۔

پہلا نکتہ ملازمت کی سیکورٹی ہے۔ مزدور کو یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ اس کا روزگار جاری رہے گا۔ تاکہ وہ اپنی منصوبہ بندی کر سکے، اسے یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ کل کیا ہوگا، کب تک یہ کام رہے گا۔ اس کی ملازمت کا جاری رہنا دوسرے فرد کے ارادے پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ ملازمت کی سیکورٹی یہ ہے۔ یہ سیکورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ کچھ عرصہ پہلے مختلف بہانوں سے کئی فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں، جو ملازمت کی حفاظت کے خلاف تھا۔ کبھی رپورٹ ملتی ہے کہ فلاں فیکٹری بند کر دی گئی، جب ہم پوچھتے کہ کیوں بند ہوئی؟ تو خام مال کی کمی یا مشینری کے فرسودہ ہونے جیسی باتیں بتائی جاتی تھیں۔ حالانکہ یہ مسائل حل طلب ہوتے ہیں، ان کا حل نکالنا چاہیے، فیکٹری نہیں بند کرنا چاہیے۔

ایک اور مسئلہ جیسا کہ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں، (3) فیکٹریوں کا بند کرنا ایک خیانت آمیز عمل تھا۔ اصل ماجرا یہ تھا کہ اس زمین کی قیمت بڑھ چکی تھی، تو مشینری کو کسی طرح بیچ دیا جائے، مزدوروں کو معاوضہ دیکر ہٹا دیا جائے، اور زمین سے زیادہ مالی فائدہ اٹھایا جائے۔ پیسے کے لئے! یہ سب پیسے اور ذاتی لالچ کی خاطر کیا گیا۔ اس معاملے پر نگراں اداروں اور عدالتی نظام کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک بنیادی اہمیت کا کام ہے۔ متعلقہ سرکاری محکمے بشمول وزارتِ محنت اور دیگر اداروں کے، اس کی روک تھام کریں۔ 

ہمیں جو رپورٹ دی گئی اس کے مطابق شہید رئیسی کی حکومت نے آٹھ ہزار بند پڑی فیکٹریوں کو دوبارہ فعال کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام ممکن ہے۔ چاہے فیکٹری مکمل بند ہو یا صرف ایک تہائی یا چوتھائی گنجائش بھر کام کر رہی ہو، اسے دوبارہ پوری طرح چلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اس عزیز شہید کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کئی بار کیا۔ لہٰذا ملازمت کا تحفظ پہلا اہم نکتہ ہے۔ 

ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ مزدور کی ملازمت کے تحفظ کا تعلق کاروباری شخص کی کام کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ کار کو بھی یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ اس کی سرمایہ کاری محفوظ ہے۔ ہمارا رویہ ایسا ہو کہ وہ محسوس نہ کرے کہ اس کی سرمایہ کاری اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اسے بھی کام اور سرمائے کا تحفظ ملنا چاہئے۔ درست پالیسی یہ ہے کہ ہم اس طرح کام کریں کہ مزدور کو بھی ملازمت کی سیکورٹی حاصل ہو اور دوسرے فریق کو بھی تحفظ ملے۔   

اگلا نکتہ جو کام کے تعلق سے اہم ہے اور میں نے نوٹ کر رکھا ہے وہ مزدور کی ہنرمندی و مہارت میں اضافہ ہے۔ ہمارا اہم فریضہ ہے کہ ہم اپنے مزدور بھائیوں کو زیادہ ماہر بنائیں۔ اگر مزدور اپنے کام میں ماہر ہو جائے تو پیداوار بہتر، معیاری اور نمایاں ہو گی، جو کارخانہ دار، مزدور اور پورے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے، سب کے لئے فائدے مند ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے پاس ہنر سکھانے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ ابھی راستے میں وزیر محترم نے بھی مجھے بتایا اور میں جانتا بھی ہوں کہ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہیں اس سلسلے میں بہترین ذریعہ ہیں۔ ہمارے نوجوان جو یونیورسٹی کی تعلیم کے بجائے ہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ مستقبل کے بہترین لیبر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان ملک کی خدمت کر سکتے ہیں، اپنی زندگی کے معیار کو بلند کر سکتے ہیں اور عوام الناس کے معیار زندگی کو بھی اوپر لے جا سکتے ہیں۔ 

تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت گاہوں کے ساتھ ساتھ، جو بہت اہم ہیں اور میں ان کے بارے میں تاکید بھی کر چکا ہوں، خود بڑی صنعتی کمپنیاں بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی پروگرام چلا سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وہ کام نہیں جنہیں انجام دینا ضروری ہے۔ بڑی کمپنیاں یہ کام کر سکتی ہیں۔ ٹریننگ پروگرام رکھیں، کوتاہ مدتی ٹریننگ ورکشاپ رکھیں۔ اپنے کارکنوں کو ضروری مہارت سکھائیں تاکہ وہ بہتر انداز میں اور پوری مہارت کے ساتھ کام انجام دے سکیں۔

ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا مزدور کے تحفظ کا ہے، اس کے جسمانی تحفظ کا۔ گزشتہ دو تین سال میں کانوں میں پیش آنے والے المناک حادثات سے ہم سب واقف ہیں، لیکن یہ مسئلہ صرف کانوں تک محدود نہیں۔ دیگر جگہوں سے بھی مجھے رپورٹیں ملیں۔ دیگر صنعتوں میں بھی حفاظتی انتظامات کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس کی نگرانی ہونی چاہئے۔ ٹیکنیکل حفاظتی اقدامات اور سوشل سیکورٹی کے لحاظ سے اس طرح کام کیا جائے کہ مزدوروں کی جان کی حفاظت یقینی بنے۔

اگلا نکتہ، مزدوروں کی حمایت کا ایک اہم پہلو مقامی مصنوعات کی ترویج ہے جس پر میں کئی سال سے زور دے رہا ہوں، تاکید کر رہا ہوں۔(4) یہ ہماری چھٹے پروگرام میں بھی شامل تھا۔(5) اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر صحیح عمل نہیں کیا، لیکن جہاں تک عمل ہوا، مفید ثابت ہوا۔ جب ہم مقامی طور پر تیار شدہ مصنوعات خریدتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم وہی چیز غیر ملکی خرید لیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس دوسرے ملک کے مزدور اور سرمایہ کار کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ انسانی رویہ ہے؟

بے شک کچھ بہانے موجود ہیں؛ مثلاً یہ کہ اندرون ملک مصنوعات کا معیار ایسا ہے، ویسا ہے۔ نہیں! بعض معاملات میں اندرون ملک مصنوعات کا معیار بہت اچھا بھی ہے۔ کچھ سامان اور گھریلو استعمال کی چیزوں اور دیگر اشیاء میں اپنی مصنوعات کا معیار بیرون ملک سے اگر بہتر نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ ہمیں اسے ایک عام ثقافت بنانا چاہیے، ایک رائج رواج کے طور پر؛ ہر ایرانی اپنا فرض سمجھے کہ ایرانی مال استعمال کرے، سوائے ان چیزوں کے جو ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ جو چیزیں ملک میں تیار ہوتی ہیں، ان کا استعمال سب اپنا فرض سمجھیں۔ ہمیں اسے ایک ثقافت بنانا چاہیے۔

میں نے سنا ہے کہ حال ہی میں کسی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ ایسے مصنوعات کی درآمد پر پابندی ختم کر دی گئی ہے جن کے مشابہ مصنوعات ملک میں موجود ہیں۔ یہ پابندی کیوں ختم کی جائے؟ جو چیزیں ملک میں بن رہی ہیں، انہیں فروغ دیں۔ اگر ان کا معیار اچھا نہیں ہے، تو معیار پر کام کریں۔ میں نے کچھ سال پہلے یہاں گاڑیوں کے بارے میں بات کی تھی — جب کہا جاتا تھا کہ ملکی گاڑیوں کا ایندھن کا استعمال زیادہ ہے — میں نے کہا تھا (6) کہ اگر اقتصادی محاصرے اور سائنسی محاصرے کے باوجود، جب دنیا کے علم کے مالک ممالک ہمارے سائنسدانوں اور طلباء کے لیے دروازے بند کر دیتے ہیں، تو ایرانی سائنسدان بڑے بڑے کام کر دکھاتا ہے۔ اگر ایرانی نوجوان ایسا میزائل بنا سکتا ہے، ایسا ہتھیار بنا سکتا ہے، ایسی مصنوعات تیار کر سکتا ہے کہ دشمن حیران رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کام کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہوں،  (7) تو وہ ایسی گاڑی بھی بنا سکتا ہے جس کا ایندھن کم خرچ ہو، جس کی کوالٹی بہتر ہو۔ ہمیں اسی پر کام کرنا چاہیے، اس پر توجہ دینا چاہیے۔ 

یہ تو بڑا آسان راستہ ہے کہ کہہ دیا: "ٹھیک ہے، راستہ کھول دو کہ باہر سے چیز آئے" لیکن یہ ملک کے نقصان میں ہے، یہ مزدور طبقے کے نقصان میں ہے، یہ پورے ملک کے نقصان میں ہے۔ اس لیے، مزدور کی حمایت کا ایک اہم نقطہ یہی ہے کہ ہم ملکی مصنوعات استعمال کریں اور اسے ایک ثقافت بنا دیں۔

ایک اہم کام جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ حکام کی طرف سے جامع اور مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے — اور جو لیبر کے لیے بھی فائدہ مند ہے، اور سرمایہ کار کے لیے بھی — وہ یہ ہے کہ مزدور کو پیداوار کے منافع میں شریک کیا جائے۔ اگر مزدور کو یہ احساس ہو کہ جس قدر اس مال کا منافع بڑھے گا، اُس کا حصہ بھی اُتنا ہی بڑھے گا، تو وہ کام کو بہتر طریقے سے کرنے کی ترغیب پائے گا۔ یعنی یہ چیز مزدور کو یہ ترغیب دلائے گی  کہ وہ کام کو زیادہ بہتر، مکمل اور عمدہ طور پر انجام دے۔ یہ اُس حدیث کی عملی تصویر ہوگی جسے میں بار بار دہراتا رہا ہوں:" رَحِمَ اللہ اِمرَاً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَہ" (۸) یعنی محکم اور عمدہ کام۔ 

آج دنیا میں کچھ ایسے کارخانے ہیں جو کوئی مصنوع تیار کرتے ہیں تو اپنی پراڈکٹ پر کارخانے کے قیام کی تاریخ لکھتے ہیں۔ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہ کارخانہ سو سال پہلے قائم ہوا تھا۔ کسی صنعتی یونٹ کا (ہم نے صنعتی پیداوار کی مثال دی ہے، باقی شعبہ جاتِ پیداوار بھی اسی طرح ہیں، حتیٰ کہ بعض خدماتی شعبے بھی) یہ طریقہ کار کہ وہ اِس طرح کام کرے کہ سو سال تک اُس کے گاہک موجود رہیں اور وہ اِس پر فخر کرے — یہ بہترین چیز ہے۔ اور یہ کاریگروں کو کارخانے کے منافع میں شریک کرنے سے ہی حاصل ہوگا۔ یہ ایک اہم کام ہے۔ 

ایک اور اہم نکتہ جس کی طرف انہوں (۹) نے اشارہ کیا — وہ کاریگروں کے رہائشی مسائل کا معاملہ ہے۔ اگر بڑے صنعتی یونٹس اور کاریگر رہائشی کوآپریٹو سوسائٹیز کے درمیان (جہاں ایسی کوآپریٹیو موجود ہوں) تعاون ہو تو یہ مزدوروں کی سب سے بڑی مدد ہوگی۔ اگر کوآپریٹو موجود نہیں ہے تو وہ کوآپریٹو قائم کرسکتے ہیں، اس کے قیام میں مدد دے سکتے ہیں، یا پھر بڑے کارخانوں کے قریب ہی رہائشی یونٹس بنا سکتے ہیں۔ اس طرح رہائش کا مسئلہ، جو سب سے اہم پریشانیوں میں سے ایک ہے، ختم ہو جائے گا اور کاریگروں کا ذہن اس پہلو سے پرسکون رہے گا۔ مزدوروں کی مدد کا یہ ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ 

ایک اور موضوع جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے وہ کام کی جگہ کے ثقافتی ماحول کا مسئلہ ہے۔ دیکھیں، مارکسیوں اور کمیونسٹوں کے فلسفے میں کام کی جگہ تضاد کا مرکز ہے، دشمنی کا ماحول ہے۔ یعنی ان کے نزدیک مزدور کو فیکٹری مالک کا دشمن ہونا چاہیے - یہی ان کا فلسفہ ہے۔ ان کے خیال میں کام کی صنف کی پوری حرکت ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد اور تضاد پر مبنی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تضاد کا یہ اصول تاریخ میں، معاشرتی مسائل میں، سیاسی معاملات میں اور اقتصادی امور میں جاری و ساری ہے۔ انہوں نے برسوں تک لوگوں کو اس غلط سوچ میں الجھائے رکھا، نہ صرف خود کو بدبخت بنایا بلکہ دنیا کے بہت سے لوگوں کو بھی تباہی میں ڈال دیا۔ اسلام بالکل اس کے برعکس بات کرتا ہے۔

اسلام زندگی کے ماحول کو، کام کے ماحول کو، تاریخ کے ماحول کو، اتحاد و ہم آہنگی اور مشترکہ فکر کا گہوارہ قرار دیتا ہے۔ جو لوگ قرآن میں غور و فکر اور تحقیق کرتے ہیں، وہ "زوجیت" کی تعبیر، "زوج" کے لفظ اور "زوجیت" کے تصور کو قرآن میں تلاش کریں: "سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّھا مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِھِم وَ مِمّا لا یَعلَمون" (۱۰)۔ یعنی کائنات کی ہر چیز میں ہم آہنگی، ہمدردی، تعاون اور باہمی افزائش کا تصور موجود ہے۔ کام کے ماحول کے بارے میں بھی یہی بات ہے؛ یہاں باہمی افزائش ہونی چاہیے۔ دونوں طرف سے خلوص دل کے ساتھ (نہ کہ صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر) ایک دوسرے کی مدد کی جانی چاہیے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ جب ہم مزدور کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو صرف صنعتی مزدور ہی مراد نہ ہو۔ تعمیراتی مزدور، کھیتوں میں کام کرنے والا مزدور، سبزی منڈی کا مزدور، اور گھروں میں محنت کرنے والی مزدور خواتین - جو آج کے دور میں مواصلاتی ذرائع اور اس جیسی سہولیات کی برکت سے گھر بیٹھے کام کرکے روزگار کماتی ہیں - ان سب کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ بیمے کے لحاظ سے، اور دیگر مختلف پہلوؤں سے ان پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

میں دنیا میں اقوام کے خلاف روا رکھی جانے والی متعصبانہ پالیسیوں کے بارے میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ فلسطین کے مسئلے کو فراموش کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؛ مسلمان اقوام کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مختلف قسم کی افواہوں، بے تکی باتوں اور نئے نئے بے معنی مسائل کو اٹھا کر وہ ذہنوں کو فلسطین کے اہم مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذہنوں کو فلسطین کے مسئلے سے ہٹنے نہیں دینا چاہیے۔ صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ اور فلسطین میں کیا جانے والا ظلم کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے - نہ صرف خود صیہونی حکومت کے خلاف، بلکہ صیہونی حکومت کے حامیوں کے خلاف بھی (۱۱)۔ جی ہاں، آپ کی تشخیص بالکل درست ہے؛ امریکی حقیقی معنوں میں اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب سیاسی دنیا میں بعض ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اس کے برعکس تاثر دے سکتی ہیں، لیکن معاملے کی حقیقت یہ نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی قوم، غزہ کے مظلوم عوام آج صرف صیہونی ریاست کا سامنا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ امریکہ کا سامنا کر رہے ہیں، برطانیہ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہی وہ طاقتیں ہیں جو اس مجرم ریاست کو اس طرح تقویت پہنچا رہی ہیں، ورنہ ان کا فرض تو یہ تھا کہ اسے روکتیں۔ تم نے انہیں ہتھیار دیے، تم نے انہیں سہولیات فراہم کیں؛ جب بھی وہ کمزور پڑتے ہیں، تمہاری طرف سے ہی انہیں مدد ملتی ہے۔ اب جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ وہ کس طرح ظلم ڈھا رہے ہیں؛ اتنی بڑی تعداد میں قتل، اس قدر خونریزی، یہ تمام مظالم! ضروری ہے کہ ان کے خلاف کھڑا ہوا جائے۔ امریکہ کا فرض تھا کہ وہ ان مظالم کو روکتا؛ نہ صرف یہ کہ وہ ایسا نہیں کر رہا، بلکہ مدد بھی فراہم کر رہا ہے۔ لہٰذا پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ صیہونی ریاست کے خلاف بھی کھڑی ہو اور اس کے حامیوں کے خلاف بھی - منجملہ امریکہ کے خلاف - حقیقی معنوں میں مزاحمت کرے۔ کچھ نعروں، چند باتوں اور چند عارضی واقعات کو فلسطین کے اہم مسئلے کو بھلانے کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔

بے شک میرا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی توفیق اور اس کی عظمت و جلال کے سایہ میں، فلسطین صیہونی قابضوں پر ضرور غالب آئے گا۔ یہ واقعہ ضرور رونما ہوگا۔ باطل کو چند روز کی چھوٹ ہے، تھوڑی دیر کے لیے اس کی ریشہ دوانی ہوگی، مگر یہ  مٹ جانے والا ہے۔ یقیناً یہ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ظاہری صورتحال جو نظر آ رہی ہے، اب وہ جو کچھ شام اور دیگر مقامات پر کر رہے ہیں اور جو پیش قدمی دکھا رہے ہیں، یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ کمزوری کی نشانی ہے، اور ان شاء اللہ مزید کمزوری کا باعث بھی بنے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ایرانی قوم اور دیگر مومن اقوام اس دن کو - جب فلسطین حملہ آوروں اور غاصبوں پر فتح یاب ہوگا - اپنی آنکھوں سے دیکھیں، ان شاء اللہ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ الله و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر محنت و سماجی فلاح ڈاکٹر احمد میدری نے کچھ اہم نکات پیش کیے۔ 

(2) دوسروں پر بوجھ بننا 

(3) صدر جمہوریہ اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں خطاب (2018/08/29) 

(4) مزدوروں سے ملاقات کے موقع پر خطاب (2022/05/09) 

(5) چھٹے ترقیاتی پروگرام کی کلی پالیسیاں (2015/06/30) 

(6) صنعتی یونٹس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب (2020/05/06) 

(7) یوسی رابین (صیہونی ریاست کے سابق میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن کے سربراہ) کے 2015 کے بیان کی طرف اشارہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں ان انجینئرز کے احترام میں اپنا ہیٹ اتارتا ہوں جنہوں نے یہ میزائل تیار کیے"۔ 

(8) مسائل علی بن جعفر اور مستدرکات، صفحہ 93 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) 

(9) وزیر محنت و سماجی امور 

(10) سورۃ یٰسین، آیت 36؛ " پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔"

(11) حاضرین کے امریکہ مردہ باد کے نعرے

Tuesday, 13 May 2025 03:09

ابو ایوب انصاری

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب نجاری تھا، اور آپ ابو ایوب انصاری کی کنیت سے معروف تھے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی، اور انصار میں سے قبیلہ بنی خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ بنی اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ان ۶۹مردوں اور دو خواتین میں شامل تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے، کہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر قسم کی مدد اور نصرت کرنے کی بیعت کی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اور اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک میں موجود تمام شرکا گواہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو آپ ؓ کے گھر استراحت فرمائی۔

جیسا کہ اس وقت یہ واقعہ فرمان یافتہ اونٹ کے واقعہ سے معروف اور مشہور ہوا، اس کی تفصیل یوں ہے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے تو انصار کے قبائل میں سے ہر قبیلہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اسے ہی شرفِ ضیافت سے نوازے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس کے گھر کے آگے اونٹنی رکے گئی اس کو یہ شرف حاصل ہوگا، توجوں جوں سواری آگے بڑھتی جاتی راستے میں انصارِ مدینہ انتہائی جوش ومسَرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں شرفِ ضیافت بخشیں مگر نبی کریم ہر ایک سے مسکراکر فرماتے تھے : اس کے راستے کو چھوڑ دو! جس جگہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی، پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور ایک مرتبہ چکر کاٹنے کے بعد واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی (یعنی ابوایوب انصاری کے گھر کے باہر) ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر ہی مہمان کے طور قیام فرمایا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس پر مدینہ والے رشک کیا کرتے تھے، اسی طرح مؤاخات مدینہ کے موقعہ پرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنارہے تھے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مصعب بن عمیر کا بھائی بنایا۔

حضرت ابوایوب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ آپ ؓ کی رسول اکرم سے پر خلوص محبت کا نتیجہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلے آپ امام علیؑ کی امامت اور ولایت کو قبول کرنے اورآخری دم تک آپ ؑ کے برحق خلیفہ اور جانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے پر قائم  رہنے والوں میں سے بن گئے۔ اور آپ ؓ نے اپنے اس  اصولی موقف سے کبھی بھی  اعراض نہیں کیا۔ بلکہ آپؓ ان بارہ افراد پر مشتمل  گروہ میں بھی شامل تھے کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد مسجد نبی میں امام علیؑ کے اللہ کی طرف سے امام برحق اور نبی کے جانشین ہونے کا دفاع کیا۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی امام علی کی  ؑ معیت میں گزاری، اور امام علیؑ نے اپنی  ظاہری خلافت کے دوران جتنی جنگیں لڑی اس میں بھی آپ شریک رہے، خاص کر جنگ نہروان میں آپ کے پاس امن کا پرچم بھی تھا۔

حضرت ابوایوب ان صحابیوں میں سے تھے جن سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں، اور آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں، آپ نے امام علی ؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بہت سی احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں، آپ ان راویوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین، اور حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ جیسا کہ اصبغ کہتا ہے کہ میں نے رحبہ کے دن لوگوں میں اعلان کیا ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان سنا ہے وہ کھڑے ہوجائے، اور صرف وہی لوگ  کھڑے ہوجائیں کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والا اعلان ولایت کو سنا ہے اور وہی بات بیان کریں کہ جس کو اس دن سنا ہے۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ (چند درجن)  کھڑے ہوئے ان میں سے ایک ابوایوب بھی تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس آگاہ رہو کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کا علی مولیٰ ہے، خدایا تو اس سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرتا ہے، تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے، اور تو اس کی مدد کر جو علی کی مدکرتا ہے۔  جیسا کہ ابوایوب انصاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول نقل کیا جا تا ہے  کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی  ابوایوب انصاری کو امام علیؑ کے ساتھ دینے کا بھی حکم صادر فرمایا۔

امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ رضاؑ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصحاب ؓ میں کچھ ایسے بھی تھے کہ جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلتے رہے، اورانہوں نے اس منھج اور سیرت کو تغییر اور تبدیل نہیں کیا، جیسے ابوایوب انصاری اور ان جیسے اصحاب، اللہ کی رضایت ان کے شامل حال ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔

جیسا کہ شیخ محی الدین مامقانی کہتے ہیں کہ ابوایوب انصاریؓ ان اصحاب میں سے تھے کہ جنہوں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور منھج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبدیل اور تغییر نہیں کی ۔اور اس سعادت سے ہی بہرمند ہونے والے بہت کم ہی تھے، جو لوگ ابوایوب کی زندگی، مقام ومنزلت، نظریات، اقوال، شہادات،اور رویات کو جانتا ہیں وہ یہ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ آپؓ ایک ثقہ اور جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ ثقات میں سے بہت زیادہ قابل اعتماد تھے اور اصحاب میں سے برجستہ ترین صحابی تھے، اور میرے نزدیک آپؓ سے نقل ہونے والی روایات صحیح ہیں اور قابل شک نہیں ہیں۔

ابوایوب انصاری رضوان الله تعالى عليه ۵۲ہجری کو وفات پاگئے، اور آپؓ قسطنطیہ ترکی میں مدفون ہیں، جو اس وقت ترکی کا ایک صوبہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے قسطنطیہ میں وفات پانے اور دفن ہونے کی خبر پہلے سے ہی دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسطنطیہ میں میرے اصحاب میں سے ایک صالح اور نیک صحابی کو دفن کیا جائے گا۔

ایرانی صدر نے دنیا میں انسانی المیوں کا ذکر کرتے ہوئے انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی علمبرداروں پر کڑی تنقید کی۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے "ہفتہ ہلال احمر" کی مناسبت سے منعقدہ تقریب  سے خطاب کرتے ہوئے کہا: انسان اس کرہ ارض پر اپنے جیسے انسانوں کو درندہ صفت لوگوں کی بربریت کا نشانہ بنتے نہیں دیکھ سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کس قدر خوفناک ہے کہ وہ ممالک جو انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں اور تہذیب و ترقی کی بات کرتے ہیں، لیکن معصوم لوگوں کو مہلک  بموں اور میزائلوں کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر نہایت ڈھٹائی سے انسانی حقوق، امن اور آزادی کی بات کرتے ہیں۔!

صدر پزشکیان نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے،  میں سوچتا ہوں کہ واقعی ان کے اندر کون سا جانور رہتا ہے جو بظاہر خوشنما چہروں کے ساتھ اس دنیا میں انسانیت کی بات کرتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں؟ 

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے ممالک نے معصوم لوگوں کے دکھوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہی تنظیمیں جنہیں مظلوموں کی حمایت کرنی چاہیے تھی، آج مجرموں کا دفاع کر رہی ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ کوئی کیسے قبول کر سکتا ہے کہ خواتین، بچوں، بوڑھوں اور معصوم لوگوں پر اتنی آسانی سے بمباری کریں اور وہاں پھنسے ہوئے لوگوں تک پانی، خوراک اور ادویات کی ترسیل پر روک لگائے!

انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا یہ مظالم دیکھ رہی ہے لیکن خاموش ہے،  اقوام متحدہ خاموشی تماشائی بنی بیٹھی ہے، وہی تنظیمیں جو انسانی حقوق کی دعویدار ہیں، لیکن یہ صیہونی درندوں کا دفاع کرتی ہیں۔!

پزشکیان نے کہا کہ آج انسانیت کو مغرب کے  اس منافقانہ طرزعمل کا سامنا ہے کہ یہ جب ڈائس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو جمہوریت، آزادی، امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ عملی میدان میں دنیا کے وحشی جانوروں سے بھی بدتر سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نہایت بے شرمی سے دوسروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں۔!

Tuesday, 13 May 2025 03:01

بڑھتے رہیں یونہی قدم

یمنی مسلح افواج نے غزہ کے عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے اور اب اسرائیل کی فضائی ناکہ بندی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہ یمن نے اپنی فوجی حکمت عملی تبدیلی کرکے اسرائیلی حکومت پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک یمن نے، مزاحمت کے اہم حامی کے طور پر، اسرائیلی حکومت کے خلاف سمندری اور فضائی حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ انصاراللہ نے اکتوبر 2023ء میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے ساتھ ساتھ اسرائیلی علاقے میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ جنوری 2025ء میں غزہ پٹی میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد انہوں نے حملے روک دیئے تھے۔

اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کے لیے تمام رسد منقطع کر دی اور 18 مارچ کو جنگ بندی کو ختم کر دیا اور غزہ کی پٹی پر حملے دوبارہ شروع کر دیئے۔ اس کے بعد حوثیوں نے بھی اسرائیلی بحری جہازوں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بحری ناکہ بندی کے بعد صنعا نے اب بین گوریون سمیت اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یمن میں انصار اللہ کے اہم رہنماء عبدالسلام نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یمنی مسلح افواج کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ہوائی اڈوں بالخصوص بن گوریون ہوائی اڈے کی مکمل فضائی ناکہ بندی کا اعلان ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے اور یہ علاقائی تنازعہ کے ایک نئے دور کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بین گوریون حملہ:
یمن نے مرکزی اسرائیلی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا کر مقبوضہ علاقوں کے اندر تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پروازوں کی معطلی:
یورپی ایئر لائنز جیسے Lufthansa نے مقبوضہ علاقوں کے لیے پروازیں 18 مئی تک معطل کر دی ہیں۔
صہیونی ردعمل:
یمنی حملوں کی وجہ سے پروازوں میں خلل اور عدم تحفظ نے مقبوضہ علاقوں میں احتجاج کی لہر کو ہوا دی ہے۔

بنیادی ڈھانچے کو خطرہ:
اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو یمن میں اسرائیل کا پاور گرڈ، بجلی کی سپلائی اور دیگر اہم انفراسٹرکچر اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔
عبرانی میڈیا رپورٹ: Yedioth Ahronoth اخبار نے اطلاع دی ہے کہ پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلی پھنسے ہوئے ہیں اور صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ یمن کی نئی حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مزاحمت صرف علامتی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ فضائی ناکہ بندی اسرائیلی کابینہ میں داخلی بحران میں اضافے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔
 
 
تحریر: سید رضا عمادی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی اور ایک پیشرو اور ممتاز حوزہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: نوآوری، ترقی، عصری تقاضوں کے مطابق رہنا، جدید مسائل کا جواب دینا، مہذب اور انقلابی روح کے حامل ہونا، اور معاشرتی نظامات تشکیل دینے کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔ رہبر معظم نے تاکید کی کہ حوزہ کی سب سے بڑی ذمہ داری "روشن تبلیغ" (بلاغ مبین) ہے، جس کا بہترین نمونہ نئی اسلامی تہذیب کے بنیادی و فرعی خطوط کی وضاحت، ترویج اور معاشرتی ثقافت سازی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام کی ابتداء میں چودہویں صدی ہجری شمسی کے آغاز میں پیش آنے والے عظیم اور سنگین واقعات کے درمیان حوزہ مبارکہ قم کی تشکیل کی تاریخ اور آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی حوزہ کی جدید بنیاد اور اس کی بقا اور ترقی میں کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا: حوزہ علمیہ قم کا ایک بڑا فخر یہ ہے کہ یہاں سے حضرت روح اللہ (امام خمینیؒ) جیسا سورج طلوع ہوا اور اس حوزے نے صرف چھ دہائیوں کے اندر اپنی روحانی طاقت اور عوامی مقبولیت کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک غدار، فاسد اور گناہگار بادشاہی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور صدیوں بعد اسلام کو ملک میں سیاسی حکمرانی کے مقام پر پہنچانے میں کامیاب ہوا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس نکتے پر زور دیا کہ حوزہ علمیہ محض تدریس و تعلیم کا ادارہ نہیں بلکہ علم، تربیت اور سماجی و سیاسی فعالیتوں کا ایک ہمہ گیر مجموعہ ہے۔ آپ نے ان نکات کی وضاحت کی جو حوزہ کو حقیقت میں "پیشرو اور سرآمد" بنا سکتے ہیں۔

پہلے نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حوزہ قم شیعہ علمی سرمایے کا مرکز ہے، جو ہزاروں دینی علماء کی صدیوں پر محیط فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ علماء فقہ، کلام، فلسفہ، تفسیر اور حدیث جیسے علوم میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

رہبر انقلاب نے عصر حاضر میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل اور بے مثال سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج اسلامی نظام کے قیام کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ شارع مقدس نے انسانی زندگی کے فردی اور اجتماعی پہلوؤں پر کس زاویے سے عمومی نگاہ ڈالی ہے، اور ہر فقیہ کا فتویٰ اسی عمومی نظریے کا مظہر ہونا چاہیے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ کی ایک اہم ذمہ داری یہ قرار دی کہ وہ اسلامی حکمرانی اور معاشرتی نظم و نسق سے متعلق مسائل کا فقہی جواب فراہم کرے۔ آپ نے حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات، ریاست کا بین الاقوامی روابط میں کردار، نظام اقتصادی، اسلامی حکومت کے بنیادی اصول، حاکمیت کا منبع، عوام کا کردار اور نظام سلطہ کے مقابلے میں مؤقف، عدل کا مفہوم اور دیگر اساسی و حیاتی موضوعات کو ایسے مسائل قرار دیا جن پر فقہی بنیاد پر مکمل اور جامع جواب تیار ہونا ضروری ہے۔

دوسرے نکتے میں، آپ نے اس بات پر زور دیا کہ حوزہ ایک برون گرا ادارہ ہے جس کی پیداوار فکر و ثقافتِ انسانی کی خدمت کے لئے ہونی چاہئے۔ آپ نے حوزے کی سب سے اہم ذمہ داری "بلاغ مبین" یعنی واضح اور روشن تبلیغ قرار دی اور فرمایا کہ اس فرض کی ادائیگی کے لئے مہذب اور کارآمد افراد کی تربیت لازمی ہے۔

رہبر انقلاب نے "بلاغ مبین" کے دائرہ کار کو توحید کے اعلیٰ معارف سے لے کر شرعی فرائض، اسلامی نظام کے بیان، اس کے ڈھانچے، طرز زندگی، ماحولیات اور انسانی حیات کے دیگر تمام پہلوؤں تک پھیلا ہوا قرار دیا۔ آپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حوزہ کی تبلیغی پیداوار فکری و ثقافتی میدان میں، خصوصاً نوجوانوں کے درمیان، معاشرتی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور چند سو مضامین، رسائل اور تقریریں مغالطہ آمیز سیلاب کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "بلاغ مبین" کی مؤثر ادائیگی کو دو بنیادی عناصر یعنی "تعلیم" اور "تزکیہ" سے مشروط قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ طلبہ کو قوی دلائل کے ذریعے قائل کرنے کے طریقے، گفت و شنید کی مہارت، عوامی ذہنیت کو سمجھنے اور میڈیا و مجازی دنیا سے تعامل کا فن، نیز مخالفین کے ساتھ علمی و منظم انداز میں مکالمہ کرنے کے طریقے سکھانے چاہئیں، اور ان امور میں مسلسل مشق کے ذریعے انہیں میدان عمل کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ تبلیغ میں مثبت اور حملہ آورانہ انداز، دفاعی انداز سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ اس مقصد کے لئے حوزہ کو "ثقافتی مجاہد" تیار کرنے چاہئیں، جو نہ صرف ملکی نظام میں خصوصی ذمہ داریاں ادا کریں بلکہ حوزہ کے اندرونی انتظام و انصرام کو بھی مضبوط بنائیں۔

تیسرے نکتے میں، رہبر انقلاب نے حوزے کی "جہادی شناخت" کو پہچاننے، محفوظ رکھنے اور تقویت دینے پر زور دیا۔ آپ نے امام خمینیؒ کے سن ۱۳۶۷ھ ش میں روحانیت کے نام آخری پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام نے علماء کو جہاد اور وطن و مظلومین کی حمایت میں پیشرو قرار دیا تھا، اور خبردار کیا تھا کہ تحجر اور مقدس نمائی کا خطرہ حوزے کو دین و سیاست کی جدائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ بعض غلط ذہنیتیں دینی قدسیت کو جہاد، سیاسی اور سماجی فعالیت سے متصادم سمجھتی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دینی قدسیت فکری، سیاسی اور عسکری جہاد کے میدان میں ہی نمایاں ہوتی ہے اور دین کے علمبرداروں کی قربانیوں سے مستحکم ہوتی ہے۔ لہٰذا حوزہ علمیہ کو اپنی معنوی ساکھ کی حفاظت کرتے ہوئے، عوام و معاشرے سے کبھی جدا نہیں ہونا چاہیے اور ہر قسم کے جہاد کو اپنی قطعی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

چوتھے نکتے میں، آپ نے "حکومتی اور معاشرتی نظامات کی تشکیل و تبیین" میں حوزہ کے کردار پر زور دیا اور فرمایا: آج کے دور میں فقاہت کو محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا۔ "امت ساز فقہ" وہ ہے جو معاشرتی نظام کی تشکیل میں بھی راہنما ہو۔

آپ نے دنیا کی تازہ ترین علمی دریافتوں سے آگاہی اور یونیورسٹیوں سے علمی تعاون کو معاشرتی نظام سازی کے لئے ضروری قرار دیا۔

پانچویں نکتے میں، رہبر انقلاب نے "تمدنی نوآوری" کو بیان کیا اور فرمایا: حوزہ علمیہ کی سب سے اہم ذمہ داری "اسلامی تمدن" کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ایسا تمدن جس میں علم و ٹیکنالوجی، انسانی اور قدرتی وسائل، سیاسی نظام، فوجی طاقت اور ہر انسانی قوت کو عدل عامہ، رفاہ عامہ، طبقاتی فاصلوں میں کمی، روحانی تربیت اور علم و ایمان کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔

آپ نے موجودہ مادی اور انحرافی تمدن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے فرمایا کہ یہ باطل تمدن فطری قوانین کے مطابق نابود ہونے والا ہے، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی نابودی میں کردار ادا کریں اور ایک برتر تمدن کی نظری و عملی بنیاد رکھیں۔ حوزہ علمیہ پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تمدن کے اہم اور فرعی خطوط کو متعین کرے، ان کی وضاحت کرے اور انہیں معاشرت میں رائج کرے۔ یہ "بلاغ مبین" کا بہترین مصداق ہوگا۔

آخر میں، حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اجتہاد میں زمان و مکان کی رعایت اور نوتراشی کے نام پر دین کی خالصت کو نقصان پہنچنے سے بچانے پر زور دیتے ہوئے موجودہ حوزہ علمیہ قم کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا: آج قم میں ہزاروں مدرسین، مصنفین، محققین اور خطباء موجود ہیں، علمی و تحقیقی رسائل شائع ہو رہے ہیں، تخصصی اور عوامی سطح پر مقالات تحریر ہو رہے ہیں، فکری و انقلابی سرگرمیوں میں طلاب و فضلاء بھرپور حصہ لے رہے ہیں، دنیا بھر کے طلبہ کی تربیت جاری ہے اور جوان فضلاء قرآن کریم اور اسلامی معارف کی گہرائیوں میں غور و فکر کر رہے ہیں۔ نیز، خواتین کے لئے حوزات علمیہ کا قیام ایک اہم اور مثبت اقدام ہے۔ یہ تمام امور اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ حوزہ علمیہ قم ایک زندہ اور متحرک مجموعہ ہے۔
https://taghribnews.com/vdch6-n-623nqxd.4lt2.html
11 ذی القعدہ کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے تھے۔ آپ نے اپنے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد امامت سنبھالی۔ امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر دنیا بھر سے مسلمان ایران میں واقع ان کے مقدس روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی
حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ میں 11 ذوالقعدہ 148 ہجری کو ہوئی۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آپ کا نام "علی" رکھا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا کے اظہار کے طور پر آپ کو "رضا" کا لقب عطا ہوا، اور آپ کی کنیت "ابوالحسن" تھی۔

آپ کی امامت کا دور 183 ہجری میں اس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمر 35 برس تھی، اور آپ نے تقریباً 20 برس تک یہ الٰہی منصب سنبھالا۔ آپ کے دور امامت میں تین عباسی خلفاء کا زمانہ شامل ہے۔ پہلے دس برس ہارون الرشید، پھر پانچ برس امین، اور آخری پانچ برس مامون الرشید۔

جب امام رضا علیہ السلام نے امامت سنبھالی تو اس وقت سیاسی حکومت بغداد میں ہارون الرشید کے ہاتھ میں تھی۔ ہارون کی حکومت ظلم و جبر پر مبنی تھی، جس کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت کمزور ہونے لگی اور مختلف مقامات پر بغاوت ہونے لگی۔ اس موقع پر امام رضا علیہ السلام نے مدینہ میں اپنے منصب امامت کا اعلان کیا اور عوام کے دینی و سماجی مسائل کے حل میں بھرپور کردار ادا کیا۔

امام رضا علیہ السلام کی زندگی اور امامت کا دور وہ زمانہ تھا جب اہل بیت علیہم السلام کی طرف لوگوں کا رجحان اپنی بلندی پر تھا، اور ان کی عوامی حمایت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا تھا۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد
حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت کا دور بیس سال پر مشتمل تھا، جس میں سے سترہ سال آپ نے مدینہ منورہ میں گزارے اور آخری تین سال ایران کے علاقے خراسان میں بسر کیے۔ ہارون الرشید کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مامون تخت خلافت پر بیٹھا۔

اس دور کے شیعہ امام رضا علیہ السلام کو اپنا الٰہی امام اور خلیفہ مانتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ عباسی خلیفہ مامون جانتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی جانشین سمجھا جاتا ہے لہذا ان سے خائف تھا۔ اسی خوف کے تحت مامون نے امام رضا علیہ السلام کو مرو بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ ظاہری دوستی کا تاثر دے سکے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کی حکومت کو امام علیہ السلام کی تائید حاصل ہے۔

ابتدائی طور پر امام رضا علیہ السلام نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا۔ لیکن جب مامون کی دعوت دھمکی میں بدل گئی، تو امام کو 200 ہجری میں مجبوراً خراسان کی طرف روانہ ہونا پڑا۔ امام نے یہ سفر خونریزی سے بچنے کے لیے اختیار کیا، تاکہ شیعوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ آپ نے اس جبر سے بھرے سفر پر واضح ناراضگی کا اظہار کیا۔

جب امام رضا علیہ السلام نے محسوس کیا کہ اب سفر ناگزیر ہے، تو آپ نے بار بار مسجد نبوی میں حاضری دی اور اس انداز میں زیارت کی کہ ہر شخص سمجھ گیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کی مرضی کے خلاف ہے۔ اس کے بعد امام نے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کر کے فرمایا: میرے لیے روؤ، کیونکہ میں مدینہ واپس نہیں آؤں گا۔ یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ امام مامون کی شیطانی سازش سے بخوبی آگاہ تھے، لیکن حالات کے جبر کے سبب اس دعوت کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔

جب امام رضا علیہ السلام بالآخر مرو پہنچے، جو اس وقت مامون کا دارالخلافہ تھا، تو مامون خود اور کچھ ممتاز عباسی عمائدین نے آپ کا استقبال کیا۔

مامون اور امام رضا علیہ السلام
ابتداء میں مامون نے امام رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیشکش کی، لیکن امام نے اس پیشکش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ رد کر دیا اور فرمایا: اگر خلافت تمہارا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس مقام کے لیے منتخب کیا ہے، تو تمہیں یہ اختیار نہیں کہ اسے کسی اور کو سونپو۔ تم اللہ کی طرف سے عطا کردہ منصب سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اور اگر خلافت تمہارا حق نہیں، تو تمہیں یہ اختیار بھی نہیں کہ کسی ایسی چیز کی پیشکش کرو جو تمہاری ملکیت ہی نہیں۔

مامون نے جب خلافت کی پیشکش میں ناکامی دیکھی تو اس نے امام کو ولی عہد بنانے کی تجویز دی۔ امام علیہ السلام نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا، لیکن آخر کار شدید دباؤ کے تحت امام کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم اس سے پہلے امام نے چند شرائط رکھیں جن میں یہ شامل تھا کہ وہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گورنر یا عہدیدار کی تقرری یا برطرفی میں حصہ لیں گے۔ یہ شرائط اس بات کا کھلا ثبوت تھیں کہ امام رضا علیہ السلام مامون کی حکومت کو شرعی یا قانونی حیثیت نہیں دیتے تھے اور کسی سرکاری ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کی شہادت
جب مامون کی تمام چالیں ناکام ہو گئیں اور اس نے دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اور لوگ ان سے شدید محبت کرنے لگے ہیں، تو اس نے امام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔ مامون نے انگور یا انار کے ذریعے امام کو زہر دیا، جس کے نتیجے میں 203 ہجری میں امام رضا علیہ السلام نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

آپ کو طوس یعنی موجودہ مشہد، ایران میں دفن کیا گیا۔ امام علیہ السلام کا عظیم روضہ آج بھی وہیں موجود ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے فرزند، حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے اپنے والد کے جسدِ مبارک کو غسل دیا اور نماز جنازہ پڑھائی، لیکن یہ عمل خفیہ طور پر انجام دیا گیا۔ امام کا جسدِ اقدس مشہد میں آپ کے پیروکاروں اور محبّین کی موجودگی میں دفن کیا گیا، اور صدیوں سے آپ کا روضہ ایرانیوں کے لیے برکت و عظمت کا باعث ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا روضہ مبارک ایران کا سب سے بڑا، اہم اور نمایاں مذہبی مرکز ہے جو ایرانی-اسلامی طرزِ تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ ہر سال ایران اور دنیا بھر سے لاکھوں زائرین امام کے روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
امام رضا علیہ السلام کے روضہ کا احاطہ عظیم الشان عمارتوں کا مجموعہ ہے جس میں خود روضہ مبارک، صحن، ایوانات (برآمدے)، ایک عجائب گھر، ایک عظیم کتب خانہ، چار مدارس دینیہ، ایک قبرستان، رضوی یونیورسٹی برائے علوم اسلامی، زائرین کے لیے وسیع دستر خوان، وسیع نماز ہال اور کئی دیگر عمارات شامل ہیں۔

مسجد گوہرشاد تیموری دور میں تعمیر کی گئی ایک عظیم الشان جامع مسجد ہے جو اب روضہ امام رضا علیہ السلام کے احاطے میں واقع ایک مرکزی مصلا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

یہ مسجد مشہد کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے، اور اپنی دلکش فنِ تعمیر کی بدولت یہ ایران کے اہم ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مقامات میں شمار ہوتی ہے۔

ایرانی فن آئینہ کاری اور روضہ امام رضا علیہ السلام
آئینہ کاری ایرانی فن کا ایک خوبصورت حصہ ہے اور یہ فنِ تعمیر کی تزئین و آرائش کا ایک ذیلی شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس فن کی تاریخ ایران میں صفوی دور سے شروع ہوتی ہے اور قاجار دور میں یہ فن اپنے عروج پر پہنچا۔ اسی وجہ سے امام رضا علیہ السلام کے روضے کی موجودگی نے مشہد کو آئینہ کاری کے بڑے مراکز میں شامل کردیا۔

روضہ امام رضا علیہ السلام میں کئی مقامات اور ایوانات ایسے ہیں جو رنگا رنگ اور نفیس آئینوں سے مزین ہیں، جو روضے کی زیارت کے لئے آنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdchx-n-z23nqmd.4lt2.html
غزہ میں نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے بعد عالمی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ جیسے اتحادی ملک میں بھی عوامی سطح پر تل ابیب کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کی جارہی ہے۔

امریکی تحقیقی ادارے نے حالیہ سروے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں عوامی سطح پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ناپسندیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بالخصوص 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد یہ رجحان مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔

"پی یو" ریسرچ سینٹر کی تازہ ترین رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد امریکی شہری اسرائیل کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ صرف 45 فیصد امریکیوں کا اسرائیل سے متعلق تاثر مثبت ہے۔

یہ اعداد و شمار گزشتہ برس کے نتائج سے نمایاں طور پر مختلف ہیں۔ 2022 میں اسی ادارے کے ایک سروے میں 55 فیصد امریکیوں نے اسرائیل کے لیے مثبت رائے ظاہر کی تھی، جب کہ 42 فیصد کی رائے منفی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل سے متعلق اس بدلتی ہوئی رائے کی دو اہم وجوہات ہیں:

1. عمر رسیدہ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل سے حد سے زیادہ قریبی تعلقات پر نالاں ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ حکومت نے اسرائیل کو حد سے زیادہ مراعات دی ہیں۔

2. نوجوان ریپبلکنز، جنہوں نے اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حملوں کو قریب سے دیکھا اور دنیا بھر میں ان مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی آوازوں سے متاثر ہوکر اسرائیل کے حوالے سے منفی سوچ اپنائی ہے۔

اس بارے میں مرکز برائے جمہوریت مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر سیٹ بینڈر کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کے خیالات میں یہ تبدیلی گزشتہ دو دہائیوں سے جاری تھی، تاہم حالیہ عرصے میں نوجوان ریپبلکنز کی حمایت میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے امریکی عوام کو مجبور کیا کہ وہ صہیونی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ حالیہ سروے کے مطابق ڈیموکریٹک ووٹرز میں 69 فیصد افراد اسرائیل کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ 2022 کے مقابلے میں 16 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جوبائیڈن کے دور میں اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے معمر ڈیموکریٹس کی بھی رائے بدل چکی ہے۔ اب 66 فیصد معمر ڈیموکریٹس اسرائیل سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں، جو گزشتہ تین برسوں میں 22 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

دوسری جانب اگرچہ ریپبلکن جماعت میں اسرائیل کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم 37 فیصد ریپبلکنز بھی اب اسرائیل سے متعلق منفی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ شرح 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی بالخصوص نوجوان ریپبلکنز کی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔

ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ نامی ادارے میں فلسطین و اسرائیل امور کے نگراں ایڈم شپیرو کا کہنا ہے کہ اب امریکی مین اسٹریم میڈیا کی اسرائیل نواز پالیسی عوامی رائے پر ویسا اثر نہیں ڈال پا رہی جیسا ماضی میں ڈالتی تھی، کیونکہ عوام سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع سے غزہ کے حقائق تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس رجحان سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سرگرم امریکی طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوششوں کی کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

شپیرو نے مزید کہا کہ عراق و افغانستان جنگوں کے تلخ تجربات کے بعد امریکی عوام اب اپنی فوج کو بیرونی تنازعات میں ملوث دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔

ادھر امریکی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری ڈیوڈ میک نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کی لہر بہت تیزی سے ختم ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں پر اسرائیلی جارحیت، نیز غرب اردن اور جنوبی لبنان میں جاری مظالم نے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو اسرائیل سے بدظن کر دیا ہے۔ تاہم عوامی رائے میں اس واضح تبدیلی کے باوجود امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ کانگریس کی اکثریت خصوصا ڈیموکریٹک پارٹی کے برنی سینڈرز جیسے معدود ارکان کے سوا پارٹی اراکین کی اکثریت اب بھی اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد دینے کی حامی دکھائی دیتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcci0qe02bqmx8.c7a2.html

ایران کی دفاعی صنعتوں کا تیار کردہ نیا میزائل اپنی کاربن فائبر باڈی اور جدید گائیڈنس اور کنٹرول سسٹم کے ساتھ دفاعی ریڈاروں  سے بچ رہنے کی اعلی اسٹیلتھ صلاحیتوں کا حامل ہے۔

ایران کے وزیر دفاع کے مطابق، THAAD جیسے سیٹلائٹ گائیڈڈ اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم  بھی جدید ترین ایرانی میزائل کے وار ہیڈ کو روکنے کے قابل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی وعدہ صادق 1 اور 2 جیسے بڑے فیلڈ تجربات کا نتیجہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران نے گزشتہ صیہونی حکومت کے خلاف وعدہ صادق 1 اور 2 کے نام سے دو بڑے کامیاب آپریشن کیے تھے اور ایرانی میزائلوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر صیہونی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کا تیار کردہ مشترکہ دفاعی نظام بھی ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا تھا۔

عسکری ماہرین کا خيال  ہے کہ بیلسٹک میزائلوں کی اپ گریڈیشن کے نتیجے میں اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال میں دشمن انٹرسیپٹ کرنے کی شرح ہر 100 میزائلوں کے مقابلے میں 5 سے بھی کم ہوجائے گی۔