
سلیمانی
رمضان المبارک کے ضروری احکام: چھ،6 سوالات اور ان کے جوابات
حجتالاسلام والمسلمین سید محمدتقی محمدی شیخ نے رمضان المبارک سے متعلق چھ اہم سوالات کے جوابات دیے، جن میں فدیہ، بیماری کی حالت میں روزہ، قضا اور کفارہ شامل ہیں۔
1. دائمی بیماری اور روزے کا فدیہ
اگر کوئی شخص پچھلے سال بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکا اور اس کی بیماری مستقل ہو، یعنی وہ پورے سال میں بھی قضا نہیں رکھ سکا، تو اس پر روزے کی قضا واجب نہیں، اس کے بجائے، اسے ہر دن کے بدلے ایک مد طعام (تقریباً 750 گرام گندم، آٹا، نان، چاول یا کھجور) کسی فقیر کو دینا ہوگا۔
فدیہ کی پیشگی ادائیگی:
مختلف مراجع تقلید کے اس بارے میں دو نظریے ہیں:
1. آیتالله مکارم شیرازی، آیتالله فاضل لنکرانی اور آیتالله بهجت کے مطابق، رمضان سے پہلے بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے۔
2. رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق، فدیہ رمضان کے آغاز کے بعد ہی ادا کرنا ضروری ہے۔
2. روزے کی قضا اور کفارہ تأخیر
وہ افراد جو بیماری، سفر یا خواتین کے مخصوص عذر کی وجہ سے پچھلے سال روزے نہیں رکھ سکے، انہیں اگلے رمضان سے پہلے قضا کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قضا کے ساتھ کفارہ تأخیر بھی دینا ہوگا، جو ہر روزے کے بدلے 750 گرام طعام ہے۔
کفارہ دینے کا وقت:
بعض مراجع جیسے آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کے نزدیک، قضا رمضان سے پہلے مکمل کرنا واجب ہے۔
امام خمینی علیہ الرحمہ، رہبر معظم اور آیت اللہ وحید خراسانی کے نزدیک، احتیاط واجب ہے کہ رمضان سے پہلے قضا کر لی جائے۔
آیت اللہ خویی اور آیت اللہ سیستانی کے نزدیک، قضا رمضان سے پہلے کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔
3. پرانے کفارے کی ادائیگی
اگر کسی پر کئی سال سے کفارہ واجب تھا اور اس نے ادا نہیں کیا، تو اسے آج کے حساب سے 750 گرام طعام فقیر کو دینا ہوگا، قیمت کا تعین ضروری نہیں۔
4. کفارہ کس کو دیا جا سکتا ہے؟
والدین، اولاد یا وہ رشتہ دار جو نفقہ کے محتاج ہوں، انہیں کفارہ نہیں دیا جا سکتا۔
دیگر رشتہ دار جیسے بھائی، بہن، خالہ، چچا یا داماد کو دیا جا سکتا ہے، چاہے وہ گھر میں والدین کے ساتھ ہی کھاتے ہوں۔
5. کفارہ کو کسی اور چیز میں تبدیل کرنا
کفارہ صرف طعام کی صورت میں دیا جا سکتا ہے، اسے دوا، کپڑے یا دیگر ضروریات کے لیے رقم میں تبدیل کرنا جائز نہیں۔
البتہ گندم کی جگہ چاول یا آٹا دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ مقدار 750 گرام ہو۔
6. یوم الشک کا روزہ
یوم الشک (29 یا 30 شعبان) کے دن روزہ رکھنے کے لیے نیت قضا یا مستحب روزے کی کرنی ہوگی، کیونکہ یقین کے بغیر رمضان کی نیت کرنا درست نہیں۔ اگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ رمضان کا پہلا دن تھا، تو یہ روزہ رمضان کے روزے کے طور پر شمار ہوگا۔
سلمان فارسی کا مرقد
شہر مدائن بغداد سے تقریبا ۳۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے اور جہاں پرمسجدسلمان محمدی موجود ہے کہ جو کہ بغداد کے پرانے مقابر اور آثار قدیمہ میں سے ایک ہے۔
یہ مسجد مغربی طرز تعمیر کی حامل ہے اور عثمانی اور عباسی حکمرانوں نے مغربی طرز پر اس پر عمدہ نقاشی کی ہے۔ اور آج بھی اپنی عظمت وخوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ مسجد سلمان محمدی کہ جہاں سلمان فارسی مدفون ہیں اس کا گنبد سطح زمین سے ۱۷ مٹر بلند ہے اور اس کی دو منزلیں ہیں جن کی بلندی 23.2 مٹر ہے، جن کا تعمیراتی احاطہ ۱۰۰۰۰ مربع میٹر ہے، اور یہ تقریبا مستطیل شکل میں واقع ہے، یہ چوڑائی میں ۸۸ میٹر اور لمبائی میں ۱۲۵ میٹر ہے۔ اس کے چار سپ گیٹس اور تین مین گیٹس ہیں؛ پہلا گیٹ بغداد کی طرف ہے اس کو بابِ امام موسیٰ کاظم ؑ کہاجاتا ہے، ایک گیٹ بابِ فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے نام سے موجود ہے جو کہ دریا دجلہ کی طرف کھلتا ہے اور تیسرا اہم گیٹ باب امام علیؑ کے نام سے موجود ہے جو نجف اشرف کی طرف کھلتا ہے۔
یہ مسجد ابتداء میں جب بنائی گئی اس وقت ۴۰۰۰ مربع میٹر پر محیط تھی، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں توسیع ہوتی رہی اور آج اس کی وسعت ۵۰۰۰۰ مربع میٹر تک جا پہنچی ہے۔ اور اب اس میں ایک بڑا ہال، ایک مہھمان خانہ، ایڈمن بلاک، اور خدمات اور صحت کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
یہ ایک باعظمت اور پر شکوہ مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں عظیم صحابی رسول حضرت سلمان فارسیؓ کا مرقد بھی ہے، اس کے علاوہ صحابی رسول حذیفہ یمانی (صاحب سر ِرسولؓ)، امام محمد باقر ؑ کے فرزند طاہر بن محمد کے مزارات بھی اسی کے قرب وجوار میں واقع ہیں کہ جنہیں سنہ ۱۹۳۰ ہجری میں بغداد میں آنے والے بڑے سیلاب کے نتیجے میں یہاں منتقل کیا گیا۔ اسی طرح اس کی ایک جانب صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی قبر اور مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام بھی موجود ہے۔
جناب سلمان محمدی نسب کے اعتبار سے فارسی تھے، اور آپ کا نام زوربه بن خشبوذان تھا جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ آپ کا اصل نام بن خشبوذان تھا، آپ ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم اور جلیل القدر صحابی تھے اور آپ نے ایمان اور پرہیزگاری کی وجہ سے رسول گرامی اسلام کے ہاں ایک عظیم منزلت اور مرتبہ حاصل کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں یہ کہا گیا: کہ سلمان ہم اہل البیت میں سے ہیں۔
اور آپ کی عظمت اور رفعت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت تین اشخاص کی مشتاق ہے: علی ابن ابی طالب، عمار یاسر اور سلمان۔اسی طرح آپ کو سلمان خیر بھی کہا جاتا تھا۔
جناب سلمان فارسی نے بہت سی اسلامی جنگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں شرکت کی، اور آپ ایک بہادر، اور نڈر مرد تھے۔
جنگ (احزاب) یعنی جنگ خندق میں خندق کھودنے کی تجویز بھی آپؓ ہی نے پیش کی تھی، اور آپ ایک بہترین اور تجربہ کار سیاست دان بھی تھے، اسی وجہ سے خلیفہ دوم کے دور خلافت میں آپ کو مدائن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا، اور آپ اس منصب پر تا دم حیات فائز رہے، یہاں تک کہ سنہ ۳۵ یا ۳۶ ہجری میں آپ وفات پاگئے اورآپ کو امیر المؤمنین علی ابی طالبؑ کی موجودگی میں وہیں دفن کیا گیا۔ آپ ؓ امیر المؤمنینؑ کے خواص میں سے تھے، آپ نے پہلی ہجری میں ہی اسلام قبول کیا، اسی لیے سابقین اولین میں سے ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں: رسول گرامی اسلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والے پانچ افراد ہیں اور مجھے ان سب میں سے پہلے اسلام لانے شرف حاصل ہے، اسی طرح ان میں سے سلمان فارس کے رہنے والے ، صہیب روم کے رہنے والے، بلال حبش کے رہنے والے، اور خبّاب نبط کے رہنے والے تھے۔
حضرت سلمان محمدی ؓ زہد وتقویٰ کے اس درجہ پیکر تھے، کہ جب آپ کو خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کی طرف سے مدائن کی گورنری کی پیش ہوئی تو آپ نے انکار کیا، یہاں تک کہ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب سے اجازت ملی تب جاکر کہیں اس عہدہ کو قبول کیا اور مدائن کے گورنر بن گئے۔ آپ کی سادگی کی یہ مثال تھی کہ باوجود اس کے آپ گورنری کے منصب پر فائز تھے خود ہی لکڑی چنتے تھے، اور آپ کے پاس ایک عبائیہ تھی، جس کا ایک حصہ آپ بچھاتے تھے اور ایک حصہ اوڑھتے تھے، اورگورنر ہونے کے عوض سے جب بیت المال سے آپ کو کچھ ملتا تھا تو اسے راہ خدا میں صدقہ کے طور پر دیدیتے تھےاور اس کے علاوہ آپ گورنر ہونے کے باوجود ٹوکریاں بنایا کرتے اور فروخت کرتے تھے، اور اسی قیمت سے اپنا خرچہ نکالتے تھے۔ اور جب لوگ آپ کی اس سادگی پر اعتراض کرتے تھے تو آپ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ مجھے اپنی محنت اور مزدوری سے ہی کھانا کھانا پسند ہے۔
کیا مسلمانوں نے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ؟
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا دین مکمل طور پر برحق ہے، باقی ادیان یا توا سلام کے آنے اور ان ادیان کو نسخ کرنے سے پہلے ہی وہ تحریف کا شکار ہوچکے تھے اور ان میں بہت سی تبدیلیاں لائی جا چکی تھیں اور پھر اسلام آنے کے بعد وہ دین نسخ بھی ہوگئے یا پھر وہ حقیقت میں کوئی دین ہی نہ تھا بلکہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے ان کو دین سمجھتے تھے. اسی لئے مسلمان ان اقوام و ملل کو کہ جن سے ان کا واسطہ پڑتا تھا ،جہالت وگمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و معرفت کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس سلسلے میں وہ بہترین دلائل ، اچھا اخلاق کو ذریعہ بنا کر آسان طریقے سے دین پہنچاتے ہیں کہ جسے فطرت سلیم قبول کرے اور عقل کو اسے تسلیم کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو ۔ جبکہ اس راہ میں مسلمانوں کی روش پوری تاریخ میں )لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ( یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے ، کے مسلمہ اصول پر قائم ہے۔
خربوطلی نے اپنی کتاب (نظرات فی تاریخ الاسلام) میں مستشرق دوزی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: "اھل ذمہ کے ساتھ مسلمانوں کا اچھا سلوک اور حسن عمل اس بات کا موجب بنا کہ بہت سے اھل ذمہ نے اسلام قبول کیا ،کیونکہ انہیں اسلام میں ایسی آسانی اور سادگی نظر آتی تھی کہ جس سے وہ اپنے سابقہ مذھب میں آشنا نہ تھے"). الإسلام وأهل الذمة، ص111. (
گوستاف لوبون اپنی کتاب (حضارة العرب)میں یوں لکھتے ہیں کہ: "دنیا میں قرآن کی تعلیمات کی پھیلنے کی وجہ طاقت نہیں تھی ،کیونکہ عربوں نے اپنی مفتوحہ اقوام کو اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں آزاد رکھا تھا پھر بعض نصرانی قبیلوں نے اسلام کیوں قبول کیا،اور عربی کو اپنی زبان کیوں بنائی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب عدل کے حوالے سے اس قدر معروف تھے کہ ان کی مثال دی جاتی تھی اور پھر اسلام پر عمل کرنے کے اعتبار سے اتنا آسان دین ہے کہ اس کی مثال باقی ادیان میں نہیں ملتی" حضارة العرب، ص127.
مسلمان یقینا یہ جاننتے ہیں کہ پوری دنیا کے ہر انسان کو ہدایت دینا ممکن نہیں ہے ،اور لوگوں کی غالب اکثریت ایمان نہ لانے والوں کی ہے ،اسی لئے اسلامی مبلغین پر واجب ہے کہ وہ اپنی تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھے ، ان کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے جو لوگ حق کے راستے پر نہیں آتے ان کا معاملہ آخرت کے دن خدا کے ہاتھ میں ہوگا جس طرح قرآن مجید نے واضح طور پر بیان فرمایا: (وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ) النحل: 82
یہی وجہ ہے کہ مسلمان جس شخص کو تبلیغ دین کرتا ہے اس سے کسی قسم کی لڑائی یا سختی کا احساس نہیں رکھتا، کیونکہ خدا نے ہدایت دینے کی مسؤلیت سے اسے آزاد رکھا اور یہ فرمایا ہے کہ ہدایت دینے کا کام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے کہ جسے وہ چاہے ہدایت عطا کرے۔ خدا نے انسان کو حق و باطل میں تمیز کی صلاحیت سے نوازا ہے اور پھر انسان کو اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے میں آزاد رکھا ، جیسا کہ ارشاد ہوا:
(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ) دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، البقرة: 256، اسی طرح فرمایا :
(وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ) اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟، يونس: 99.
واقعا مسلمانوں نے کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، ایمان ایک خالص قلبی عمل ہے لہذا جسے مجبور کرکے اسلام کا اظہار کرایا گیا ہو وہ حقیقتا مسلمان نہیں ہے ۔ اسلام نے اپنی تعلیمات میں عبادت گاہوں کا تحفظ اور اوردینی تعلیمات پر عمل کےلئے انسانی آزادی جیسے اقدار کے بارے میں بہت زور دیا ہے ۔
اسلام نے اپنے ماتحت آنے والے دیگر ادان کے پیرو کاروں کو اسلام میں داخل ہونے پر کبھی مجبور نہیں کیا ۔ بلکہ لوگوں کو ان کے عقیدوں پر چھوڑا گیا ،ان کو اپنے دینی اعمال و عبادات انجام دینے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی گئی اور ان کے عبادت خانوں کے تحٖفظ کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا ۔
ہمارے پاس اس کی کئی مثالیں ہیں کہ مسلمانوں نے کافر ذمی قرار پانے والوں کے ساتھ ان امور پر معاہدے تحریر کر دئیے ، مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اھل نجران کو یہ تحریر عطا فرمائی کہ :اھل نجران کو امان نامہ عطا کیاہے، جو کہ ان کے کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور عبادات میں عدم تدخل کو شامل تھا ،اس پر پھر خدا اور رسول خدا کی ضمانت دی گئی۔ (الطبقات الكبرى لابن سعد، ج1، ص266، وكتاب الأموال ابن زنجويه، ج2، ص449)
یہاں ہم مشہور مسیحی مؤرخین کی اسلام کی عظمت کے بارے میں رائے کا ذکر کریں گے ، دیگر ادیان کے ساتھ اسلام کی حسن سلوک کا ذکر کریں گے ، جن کی مثال آج کی دنیا میں بھی میسر نہیں ہے
وول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ :"اھل ذمہ مسیحیوں ، زردشتیوں ، یہودیوں اور صابئیوں کو اسلامی حکومت میں ایسی آسانی میسر تھی کہ جس کی نظیر ہم آج کے مسیحی حکومتوں میں بھی نہیں پاتے ۔وہ اپنے دینے فرائض کی انجام دہی اور اپنے کلیساؤں اور دیگرعبادت گاہوں کی حفاظت میں مکمل آزاد تھے " (قصة الحضارة، ج12، ص131)
دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں: "مشرق وسطی میں یہودیوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہا تھا کہ جنہوں نے انہیں اپنے سابقہ ظالم حکمرانوں سے نجات دلائی تھے۔ اور پھر وہ پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے ۔ اسی طرح مسیحیوں کو بھی اپنے ایام عید وغیرہ کھلم کھلا منانے کی اجازت تھی ۔ فلسطیں میں مقدس مقامات کی زیارت کے لئے مسیحی مختلف جگہوں سے جوق در جوق آتے تھے، وہ مسیحی جنہوں بازنطینیہ کے کلیسا سے بغاوت کی تھی جو کہ قسطنطنیہ ،یروشلم اسکندریہ اور انطاکیہ کے کلیسا کی جانب سے طرح طرح کی مظالم کا شکار تھے ،وہ اب مسلمانوں کی سلطنت میں آزاد شہری قرار پائے تھے ".( نفس المصدر، ص132)
مسلمانوں نے خوش اسلوبی کے ساتھ دعوت دینے اور علمی انداز میں گفتگو کے علاوہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا
تھومس آرنلڈ لکھتے ہیں: ا'ہم نے کبھی کوئی ایسی کوشش نہیں دیکھی کہ جس میں باضابطہ طور پر کسی غیر مسلم کو مسلمان کرنے کوشش کی ہو، یا پھر کسی مسیحی کو دین مسیحیت چھوڑنے کے لئے ظلم کا نشانہ بنانے بارے میں سنا ہو " (الدعوة الى الإسلام، ص99)
روبرٹ سن کا کہنا ہےکہ : "صرف مسلمان ہی وہ ملت ہے کہ جن کے اندر اپنے دین کے بارے میں غیرت بھی ہے جبکہ دیگر ادیان کے ماننے والوں کے لئے درگزر کا احساس بھی ،مسلمان اس کے باوجود کہ وہ اپنے دین کی تبلیغ میں نہایت شوق کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر جو اسلام کو قبول نہ کرنا چاہے اور اپنے پسندیدہ دین پر عمل کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے".( صفحة 128، كتاب حضارة العرب، گوستاف لوبون )
اسی طرح راھب میشود کی کتاب (رحلۃ دینیۃ الی الشرق) میں صفحہ 29 پر یہ بات نقل کی ہے : "افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسیحی اقوام کو درگزر کا درس مسلمانوں سے لینے کی ضرورت ہے ،جو کہ احسان کی نشانی اور اقوام و امم کے عقائد کا احترام اور ان پر کسی قسم کے عقیدے کو جبرا مسلط نہ کرنا ہے "
مسلمانوں نے نہ صرف دیگر ملتوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کیا بلکہ ان کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے میں دست تعاون بھی بڑھایا جس کی گواہی ٹرٹون نے اپنی کتاب )اھل الذمہ فی الاسلام) میں دی ہے: "اللہ رب العالمین نے عربوں کو دنیا پر حکمرانی عطا کی ہے تو ان عربوں کا ہمارے ساتھ سلوک کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں ، وہ نصرانیت کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ وہ ہماری قوم کی تعریف کرتے ہیں ہمارے پادریوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے کلیسا اور دیر کی تعمیر میں ہماری مد کرتے ہیں" (أهل الذمة في الإسلام، ص159)
یہی بات در اصل مسلمانوں کے حق میں بہت اچھی بھی ثابت ہوئی ، بہت سی اقوام نے ان کا استقبال کیا، وہ مسلمانوں کی فتح کی صورت میں اپنے دین کو چھڑنے پر مجبور ہونے کا کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، سپینش مفکر بلاسکوابانیر اپنی کتاب (ضلال الكنيسة)، ص64،پرمسلمانوں کے ہاتھوں فتح اندلسٓ کے بارے میں یوں رقم طراز ہے :"براعظم افریقہ سے آنے والے ان لوگوں کا اسپین نے بہترین استقبال کیا ،بغیر کسی مزاحمت یا دشمنی کے انہوں نے شہروں اور گاؤں کے معاملات کا اختیار ان کے ہاتھوں میں دیا ،جونہی کوئی عرب لشکر قریب آجاتا علاقے کے دروازے ان پر کھول دئے جاتے اور ان کو خوش آمدید کہا جاتا یہ لوگوں کو اسلامی تمدن سے روشناس کرانے کی جنگ کی فتح اور سزا دینے کی نہیں۔ ان قوموں نے اس سے زیادہ خوبصورت تہذیب کبھی نہیں دیکھی تھی جس میں ہر ایک کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل تھا ،اور یہی چیز در اصل قوموں کی حقیقی عظمت کا ستون ہے ،مسلمانوں نے اپنے زیر قبضہ شہروں میں مسیحیوں کے کلیسا اور یہودیوں کے عبادت گاہوں کو قبول کیا ، مسجد نے اپنے سے پہلے موجود دیگر ادیان کی عبادت گاہوں سے خوف نہیں کھایا اس لئے ان کو رہنے کا حق دیا، ان کی حمایت کی، نہ ان سے حسد کیا اور نہ ہی ان پر حکمرانی میں دلچسپی دکھائی. (فن الحكم في الإسلام، مصطفى أبو زيد فهمي، ص387)
انگریز مؤرخ سر تھامس ارنولڈ لکھتے ہیں : "پہلی صدی ہجری ہی سے مسلمان فاتحین نے عرب مسیحیوں کے ساتھ نہایت درگزر اور حسن سلوک سے کام لیا ، پھر یہی بہترین سلوک بعد کے زمانوں میں بھی جاری رہا، ،ہم پوری دیانتداری کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مسیحیوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنی مرضی اور ارادے سے ایسا کیا آج کے زمانے میں جو عرب مسیحی ان ملکوں میں رہ رہے ہیں وہ ہماری اس بات پر بہترین دلیل ہے ۔.( الدعوة الى الإسلام، ص51)
مستشرقہ زیغرید ھونکہ کہتی ہے کہ : "عرب فاتحین نے اپنی مغلوب قومومں کو اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا ۔اسلام سے پہلے جو مسیحی ، یہودی اور زردشتی بدترین مظالم کا شکار تھے ،اور ہولناک دینی تعصب کا شکار تھے ،اسلام نے ان سب کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اپنے دینی فرئض ادا کرنے کی جازت دے دی۔ مسلمانوں نے دیگر مذاھب کے عبادت خانوں کلیساؤں ، دہیروں، اسی طرح کاہنوں اور احبار کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا ۔ کیا یہ برداشت اور احترام کی انتہا نہیں ہے؟ کیا تاریخ نے ہمیں کہیں اور اس کی کوئی مثال نقل کی ہے؟ اگر ہے تو کب اور کون ؟" (شمس العرب تستطع على الغرب، ص364)
اسپین سے تعلق رکھنے والے مؤرخ اولاغی لکھتے ہیں: "نوی صدی کے پہلے نصف میں مسیحی اقلیت پوری آزادی کے ساتھ قرطبہ میں رہتی اور مکمل آزادنہ طور پر اپنی عبادات انجام دیتی تھی " (سعد بوفلاقة، ص14)
مسیحی قس ایلوج کہتے ہیں : (جہاں تک ہمارے عقائد کا تعلق ہے ہم ان مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ان کی طرف سے کسی قسم کی کوئی سختی یاتنگی کا شاکر نہیں ہیں). (نفس المصدر)
مغربی مؤرخین ہماری تاریخ کے بعض تاریک پہلؤں کو تعجب کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن بہر حال وہ اسلام کو بدنام کرنے والوں کی باتوں سے بالکل متضاد ہیں، زیغرد کہتی ہے کہ : "مسلمانوں نے مغلوب اقوام کے اوپر قبول اسلام کو مشکل بنا دیا تھا تاکہ غیر مسلموں سے حاصل ہونے والے مالی مفادات کم نہ ہوں ، جو غیر مسلموں سے وہ ٹیکس وغیرہ کی شکل میں وصول کرتے تھے " (شمس العرب تستطع على الغرب، ص365.)
ویل دیورانٹ خلیفہ عمر بن عند العزیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "ان کے آباء واجداد جو کہ بنی امیہ سے تھے، وہ اپنی سلطنت میں غیر مسلم لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی طرف ترغیب نہیں دلایا کرتے تھے ، تاکہ ان پر لگائے گئے مختلف قسم کے ٹیکسزمیں کمی نہ آئے لیکن عمر بن عبد العزیز نے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جن میں مسیحی ، یہودی اور زرتشتی شامل ہیں ، جب اس کے خزانہ کے مسؤلین نے ان سے کہا کہ اس طرح تو آپ کا خزانہ خالی ہو جائے گا، تو عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا : خدا کی قسم میری خواہش ہے کہ تمام لوگ اسلام قبول کرے اور پھر ہم سب کھیتی باڑی کرنے والے بن جائیں اور اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائیں ". (قصة الحضارة)
تھامس آرنلڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ ::عثمان کے زمانے میں مصر کا خراج 12 ملین دینار تھا ، معاویہ کے دور میں کم ہو کر 5 ملین پر پہنچا اسی طرح خراسان کا بھی یہی مسلہ ہتھا، اسی وجہ سے بعض حکمرانوں نے اھل ذمہ میں سے اسلام قبول کرنے والے لوگوں کا خراج معاف نہیں کیا، اسی وجہ سے عمر بن عبد العزیز نے خراسان میں اپنے گورنرجراح بن عبد اللہ الھکمی کو معزول کر دیا تھا ،اور اس کو لکھا تھا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی بنا کر بھیجا ہے لوگوں سے مال لینےوالا بنا کر نہیں بھیجا. (طبقات ابن سعد، ج5، ص283، اور الدعوة الى الإسلام، لأرنولد، ص93)
اگر صورحال یہ تھی کہ جیسا بیان ہوا تو پھر مختلف قبیلوں کا قبول اسلام کی وجہ کیا تھی؟
کہا جاتا ہے : " عرب فاتحین کے عفو و درگزر اور احترام انسانیت کے جذبات وہ اہم چیز تھی کہ جس سے مؤرخین اکثر لا علم تھے جبکہ یہی عفو در گزر ہی اسلام کے تیزی سے پھیلنے اور لوگوں کا اس دین سے زیادہ سے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ بنی تھی ، حق یہ ہے کہ اقوام عالم نے مسلمان فاتحین سے زیادہ درگزر کرنے والے نہیں دیکھے ۔ اور نہ ہی اسلام سے زیادہ درگزر کرنے والا کوئی دین دیکھا ہے ". (حضارة العرب، ص605.)
ویل دیورانٹ اس کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : "اسی چشم پوشی اور در گزر کی پالیسی کو شروع کے مسلمانوں نے اپنا وطیرہ بنائے رکھا،اور اسی پالیسی کی وجہ سے بہت سے مسیحیوں ، تمام زردشتیوں اور ایک قلیل تعداد کے علاوہ تمام بت پرستوں نے اس جدید دین کو قبول کیا ۔ اسلام نے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا جو کہ چین سے لے کر انڈونیشیا اور مراکش و اندلس تک پھیلے ہوئے تھے،اسلام ان کے خیالوں مین بستا اور اخلاق پر حاکم تھا ،ان کی زندگیوں کو بہتر کرتا اوران میں امید کی کرن پیدا کرتا جس سے ان کی زندگی کی تھکن دور ہو جاتی ".( قصة الحضارة، ج13، ص133)
رابرٹسن اپنی کتاب (تاريخ شارلكن)میں لکھتے ہیں : "لیکن ہمیں اسلام کے کسی خاص دینی طبقے کا علم نہیں ہے ، نہ لشکروں کے پیچھے خصوصی تبلیغی گروہ آتے تھے نہ فتح کے بعد اس علاقوں میں رہبانیت کا پرچار کرتے تھے ،نہ تلوار و زبان سے کسی کو مجبور کرتے تھے بلکہ لوگ اپنے شوق اور عشق کے ساتھ اس دین میں داخل ہو جاتے تھے ، اس کی وجہ قرآن میں موجود بہترین حکمت علمی اور اسلوب تعامل تھا ".( روح الدين، عفيف طبارة، ص412)
آدم متز کہتے ہیں "چونکہ شریعت اسلامی مسلمانوں کے ساتھ خاص تھی اس لئے اسلامی حکومت نے دیگر اقوام و ملل کو ان کے اپنے خاص عدالتوں کے اوپر ، اور ان عدالتوں کے حوالے سے جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ کلیسا کی عدالتیں تھیں ،ان عدالوں کے قاضی مسیحی علماء ہوتے تھے ۔ ان لوگوں نے بہت سی قانونی کتابیں لکھیں ، ان میں صرف زواج کے مسائل بیان نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ میراث ،اور مسیحیوں کے آپسی وہ معمالات کہ جن کا حکومت کا کائی تعلق نہیں وہ بھی ان کتابوں میں درج کئے گئے ہیں" ( الحضارة الإسلامية في القرن الرابع الهجري، ج2، ص93.)
وہ مزید لکھتے ہیں : "اندلس میں ہمیں باوثوق زرائع سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں نصاری اپنے آپس کے تنازعات کو اپنے درمیان ہی حل کر لیتے تھے اور کہیں شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ مسئلہ قاضی کے پاس پہنچ جائے ".) نفس المصدر، ج2، ص95.)
شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ
روزہ کا فلسفہ اہلبیت علیہم السلام کی نگاہ میں
روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے۔ روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اورمحفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے۔ روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: المعدۃ بیت کل داء۔ والحمئۃ راس کل دواء(۱)۔
معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے۔
اور نیز آپ نے فرمایا:صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا۔
روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ۔ اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا: لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام (۲)
ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.(3)
جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے۔ اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں۔
۱: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے۔
حضرت علیؑ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق(۴)
روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے۔ چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
۲: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔
امام علیؑ نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب(۵)
روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔
جب امام رضاؑسے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں۔ اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ۔ اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔(۷)
امام رضاؑ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے۔ اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت ا سلامی اور احکام خدا وندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے۔ البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ روزہ یعنی ” کف النفس” نفس کو بچانا۔جیسا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے۔
پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے۔ اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
حوالہ جات
1- اركان اسلام، ص 108 .
2- كافي، ج 4، ص 62.
3- نهج البلاغہ، خطبہ 192.
4- نهج البلاغہ، حكمت 252.
5- نهج البلاغہ، خطبہ 110.
6- وسائل الشيعہ، ج 7، ص 3.
7- وہی، ص 4.
8- علل الشرايع، شيخ صدوق، باب الصوم
https://alhassanain.org/urdu
عبادت میں سستی اور کاہلی سے بچنے کے طریقے
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں واقع مدرسہ عالی امام خمینیؒ میں منعقدہ ہفتہ وار درس اخلاق میں استاد محمدباقر تحریری نے عبادت میں سستی اور دینی فرائض کی انجام دہی میں کاہلی کے موضوع پر گفتگو کی۔
انہوں نے امام سجاد علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دعا میں عبادت میں سستی سے محفوظ رہنے کی دعا کی گئی ہے، عبادت میں سستی کی دو قسمیں ہیں: جسمانی اور روحانی، جو یا تو دینی امور سے بے رغبتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا پھر انسان کے مقصدِ تخلیق سے غفلت اس کا سبب بنتی ہے۔
استاد تحریری نے وضاحت کی کہ اگر کوئی شخص اپنی خلقت کے بلند مقصد سے بے خبر ہو جائے تو آہستہ آہستہ دینی فرائض میں سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس سستی کو صرف نماز و روزے تک محدود نہ سمجھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ خمس، زکات اور حج جیسے مالی عبادات میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص دنیاوی معاملات میں بے پرواہ ہو جائے، وہ دینی ذمہ داریوں میں بھی سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن رکھا جائے اور ہر قسم کی غفلت سے بچا جائے۔
استاد اخلاق نے درس کے اختتام پر تاکید کی کہ انسان کو ہمیشہ اپنی تخلیق کے اعلیٰ مقاصد پر غور کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ جتنا اس کی معرفت میں اضافہ ہوگا، اتنا ہی اس کی عبادات میں شوق و نشاط بڑھے گا۔
بچوں کو دوست رکھئے اور انھیں زیادہ وقت دیجئے
بچوں کی پرورش اور تربیت بغیر وقت صرف کرنے کے ممکن نہیں ہے تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے اپنے ماں باپ اور خاندان کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں وہ کم افسردہ ہوتے ہیں اور ان کے ہاں بد رفتاری کم نظرآتی ہے یہ بچے ذہین ہوتے ہیں اور مدرسے کی مشقوں اور تمرینات کو اچھی طرح انجام دیتے ہیں بچوں کی حفاظت اور نگرانی ان کی تربیت سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے بچوں کی بہترنگرانی کے لئےہم بعض جگہ محدودیت ایجاد کرنے پر مجبور ہیں اکثر والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ لفظ نہ کہنے سے والدین اور بچے کے قریبی روابط میں خلل پیدا ہوجاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ محدودیت ایجاد کرنے سے بچے کی صحیح سمت میں تربیت کرنے میں کافی مدد ملتی ہے جو درحقیقت بچے کے مستقبل کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہی محدودیتیں بچے کوبہت سے خطرات سے محفوظ رکھتی ہیں
محدودیتوں کی اہمیت :
بچوں کے ساتھ صادق رہیں ۔ جب کسی خطرناک جگہ جانے کے لئےآپ سے کہے تو آپ ان سے کہیں : کیا مجھ پر تمہیں اعتماد نہیں ہے؟ صاف کہیں : میں بھی جب تمہاری عمراور تمہارے سن وسال میں تھا تو اس وقت مجھے اپنے اوپراعتماد نہیں تھا اور میں اس قسم کی خطرنا ک جگہوں پرقدم رکھنے کی جرئت نہیں رکھتاتھا اور باپ کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ تمہیں بھی خطرناک جگہوں سے دور رکھنے کی کوشش کروں ۔
یہ جواب بچے کو ناراحت کرےگا لیکن اس جواب میں ایک اہم پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ آپ اس کی کافی حد تک حفاظت و نگرانی کررہے ہیں اور اس کو راہ راست پر چلنے کے لئے مدد فراہم کررہے ہیں بچوں کو انکے حال پر رہا کرنا آپ کے لئے آسان تر ہوگا لیکن آپ بچوں کی حفاظت و نگرانی کے لئے اس سختی کوبرداشت کررہے ہیں۔
بچے ان مسائل سے آگاہی کے باوجود آپ کا امتحان لیتے ہیں:
یہ تصور کہ محدودیت پیدا کرنے سے بچے ہمیں دوست نہیں رکھتےلہذامحدودیت ایجاد کرنے کے سلسلے میں انسان کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں ان شکوک و شبہات کی علت ہمارے ماضی میں ہے ہم سب اپنے باطن میں اچھی رفتار یا بری رفتار کے والدین لئے ہوئے ہیں باطنی والدین ہمارے احساسات پر اثر مرتب کرتے ہیں ان کی بڑی قدرت اور طاقت ہے اگر بچپن میں ایسی ماں ملی جو صبح سویرے اٹھ کر گرم ناشتہ تیار کرتی تھی تو اسوقت آپ بھی ویسا ہی عمل کرنے میں رغبت دکھائیں گے باطنی والدین اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ہم بچوں کی نسبت مہربان رہیں سختی نہ کریں یا بر عکس سخت روش اختیارکریں وہ ہمیں منطقی محدودیت کی نسبت غافل اور نابینا بنا دیتے ہیں اگر آپ کے ماں باپ آپ سے بچپن میں محبت اور مہربانی سے پیش نہیں آئے تو ممکن ہےآپ کا عمل اس کے برعکس ہواورآپ اپنے بچوں پر حد سے زیادہ مہربان ہوں یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم جان لیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ باطنی والدین کے عنوان سے گفتگو کررہے ہیں یا ایسے باپ کے عنوان سے جسے ہم نے خود انتخاب کیا ہے کس وقت ہم اپنے بچپن کی محرومیت کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کس وقت اپنی شخصیت کے طور پران سے گفتگو کرتے ہیں
باطنی والدین میں تبدیلی ایجاد کی جاسکتی ہے اور اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے فقط ان کو پہچاننے اور انھیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے
باطنی والدین کی شناخت:
بہترین والد بننے کے لئےکچھ وقت باطنی والدین کی شناخت پر صرف کرنا چاہیے ماضی کے بہترین واقعات کو یاد کرناچاہیےاور اگر اکثر وقت بد رفتار والدین یاد آتے ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے ایک دور میں وہ تھے تاکہ تم اس وقت اچھے والدین بن سکواب جبکہ محدودیت کی افادیت سمجھ میں آگئی ہے تو گھر میں ایسے قوانین بنائےجائیں جن پر ہمیشہ عمل درآمد ہوتا رہے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں تنبیہ کو مد نظر رکھنا چاہیے اورتنبیہ جھاڑو لگانا اور برتن دھونا بھی ہوسکتی ہے
ہر مرحلے میں ایک روش کو تبدیل کیجئے:
بچوں کی رفتار کو بدلنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں :
1 : بچے کے ساتھ گفتگو کا انداز۔
2 : رفتار بدلنے کے اہداف کا مشخص ہونا۔
بچوں کی رفتار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح گفتگو کی جائے کہ انھیں شرمندگی کا احساس نہ ہو اگر بچہ یہ احساس کرے کہ آپ کو اس کے تعاون کی ضرورت ہے تو بچہ آپ کے دستور اور حکم کے بجائے آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کے لئے تیار ہوجائے گا مجھے تم سے پانچ منٹ تک کچھ ضروری گفتگو کرنی ہے کیا تمہارے پاس وقت ہے ؟ میں کافی عرصے سے گھر میں شور و غل کے بارے میں فکر کررہا ہوں اور اس سلسلے میں تمہارے تعاون کی ضرورت ہے گھر کی کچھ ذمہ داریاں تم اپنے دوش پر لے لو ،گندے کپڑوں کو اکٹھا کرکے ایک جگہ رکھو ، اپنی الماری کی کتابوں کو مرتب رکھو، میں جانتا ہوں تم یہ کام کرسکتے ہو اگر بچے کو ڈراؤ گے کہ اگر تو نے گندے لباس کو ایک جگہ جمع نہ کیا تو میں تجھے ایک ہفتے تک جیب خرچہ نہیں دوں گا تو اس کا غلط اورالٹا اثر پڑے گا اور بچوں کے ساتھ اس لب لہجے میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دھمکی آمیز گفتگو کا اثر وقتی ہوتا ہے نیزگھر کے قوانین پر عمل کرنے کے لئے بچے کو کافی فرصت دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو خزب اور اچھی طرح نبھا سکے ۔
- مؤلف:
- پیشکش و مترجم : سید ذاکر حسین جعفری
انقلاب اور نہضت کی بقا شخصیات پر نہیں از امام خمینی
نہضت اسی طرح باقی رہے گی!
ہماری قوم ایسی ہے۔ اگر بعد میں بھی ہماری کچھ شخصیات خدا نخواستہ، شہید ہو جائیں، تو ہماری قوم بھی یہی قوم رہے گی اور ہماری نہضت بھی اسی طرح قائم رہے گی۔
ایسا انقلاب کبھی ناکام نہیں ہوتا!
اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی کام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ محض خدا کے لیے کیا جائے تو ایسا کام کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ وہ ملک اور وہ قوم شخصیات کے چلے جانے سے تباہی کا شکار ہوتی ہے جن کا بھروسہ اور لگاؤ شخصیات پر ہوتا ہے۔
افراد کے چلے جانے کے بعد بھی خدا موجود ہے!
ایک ایسا ملک جس نے دل خدا سے لگایا ہے، خدا کے لیے قیام کیا ہے اور اللہ اکبر کی پکار کے ساتھ اسکے بوڑھے اور جوان، مرد و خواتین میدان میں حاضر ہوئے اور اس نہضت کو اور اس انقلاب کو برپا کیا، ایسی قوم اسی طرح باقی رہے گی، کیونکہ خدا موجود ہے۔ اگر دوسرے ہم میں نہیں ہیں تو خدا موجود ہے۔
رہبر معظم کے نمائندے کا سید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے اجتماع سے خطاب
رہبر معظم انقلاب کے نمائندے حجت الاسلام محمد حسن اختری نے لبنان میں شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم رہبر معظم کی جانب سے لبنان اور مزاحمت سے اظہار ہمدردی لئے شہدائے مقاومت کی تشییع جنازہ میں حاضر ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم رہبر معظم کا تعزیتی پیغام پہنچانے نیز ایرانی قوم کی جانب سے تعزیت کے لئے اس اجتماع میں شریک ہیں۔
حجۃ الاسلام اختری نے مزاحمت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی وسیع حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لبنان اور مزاحمت کے ساتھ کھڑے رہیں گے کیونکہ یہ الہی راستہ ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ مزاحمت خدا کی مدد سے فتح یاب ہوگی اور یہ الہی وعدہ ہے۔
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(120 نحل ) بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے
شہید سید حسن نصراللہ، طالب علم سے قومی ہیرو بننے تک کا سفر
ستمبر 2024ء کے آخری ایام میں جب صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی تیاری کر رہے تھے، بین الاقوامی میڈیا شمالی محاذ پر ممکنہ جنگ بندی کی خبریں دے رہا تھا۔ لبنانی رہنما امریکی ثالثی سے مثبت نتائج کی امید کررہے تھے لیکن اسی دوران حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کے اعلی حکام نے بیروت میں ایک خفیہ اجلاس بلایا تاکہ میدان جنگ کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ نتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے چند لمحے قبل اسرائیلی فوج کو سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز پر حملے کا حکم دیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی دفتر پر بمباری کی تاکہ یقینی طور پر حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اس حملے سے حزب اللہ کی طاقت ختم ہوجائے گی مگر یہ حملہ درحقیقت لبنانی مزاحمت میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بنا۔ حسن نصراللہ کی شہادت نے حزب اللہ کو مزید متحد اور مضبوط کردیا، اور لبنانی عوام میں ان کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔
طالب علم سے حزب اللہ کی قیادت تک
چالیس سال قبل جب اسرائیلی ٹینک فلسطینی آزادی کی تنظیم کے خلاف کارروائی کے بہانے بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین کی ایک جماعت تحریک امل سے وجود میں آئی، جو بعد میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ لبنانی مجاہدین نے انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رح) کی فکر سے متاثر ہو کر ولایت فقیہ کے نظریے کو اپنایا اور غیر ملکی قابضین کے خلاف مسلح جدوجہد کا عزم کیا۔ 23 اکتوبر 1983ء کو بیروت میں قابض امریکی فوجی مرکز پر ہونے والے حملے میں 241 امریکی میرینز اور 58 فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس وقت جب امریکی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجی بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین نے اپنے محدود وسائل کے باوجود دشمنوں کے انخلا کی بنیاد رکھ دی، جو 21ویں صدی کے آغاز تک مکمل ہوا۔ اس وقت مقاومت کے حامیوں کو امید ہوگئی کہ حزب اللہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے، شہید عباس موسوی کے بعد، ایک چھوٹے سے گوریلا گروہ کو لبنان کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری طاقت میں بدل دیا۔
لبنان کی ریاست سازی میں شہید نصر اللہ کا کلیدی کردار
لبنان کی تعمیر کے عمل میں شہید سید حسن نصراللہ نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قوم پرستی اور لبنان کی سلامتی سے غیر متزلزل وابستگی کا سب سے نمایاں مظاہرہ طوفان الاقصی کے دوران سامنے آیا۔ جب عزالدین قسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف غیر متوقع آپریشن کیا، تو مزاحمتی محور کے بعض رہنماؤں نے حزب اللہ سے شمالی محاذ پر براہ راست مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سید حسن نصراللہ کو لبنانی پارلیمان کی سربراہی اور 54 بلین ڈالر امداد کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ فلسطینی محاذ سے دور رہیں۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبرانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کی حکمت عملی نے لبنان کے اندر مختلف سیاسی و فکری حلقوں میں مزاحمت کے نظریے کی مقبولیت کو مزید تقویت دی۔ آج لبنان میں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات سے وابستہ لوگ روزمرہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر شہید نصراللہ کو ایک قومی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
محور مقاومت خطے کی سلامتی کی ضامن
سید حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد نتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا منصوبہ عملی بنانے پر زور دینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے روایتی موقف کے تحت دو ریاستی فارمولے پر تاکید کی تو نتن یاہو نے انتہائی جسارت کے ساتھ کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے تو ان کو سعودی عرب میں زمین دے کر بسائیں۔ حالیہ عرصے میں صہیونی حکام کے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی کی سلامتی کے لیے شہید حسن نصر اللہ جیسے رہنماؤں کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر حزب اللہ جیسی تنظیمیں مقاومت نہ کریں تو عرب ممالک خطے کی جغرافیائی سرحدیں بدلنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
حاصل سخن
آج، اتوار 23 فروری کو، لبنان کے لوگ اور تمام مقاومت کے حامی سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ میں شرکت کی جو نہ صرف لبنان بلکہ علاقے کی سلامتی کا ضامن بھی تھا۔ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ثابت ہوگی کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کی، بلکہ عربی-اسلامی عزت و شرافت کو بھی غاصب صہیونی رژیم کے سامنے برقرار رکھا۔ 23 فروری کا دن حزب اللہ کی لبنانی سیاست میں واپسی اور مشرق وسطی میں مقاومت کے دوبارہ عروج کا نکتہ آغاز بن گیا ہے۔
خصوصی تحریر