
سلیمانی
عالمی استکبار کے غصے کی بنیادی وجہ ایران کی مقاومت ہے، رہبر معظم
، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا ہے کہ انقلاب اسلامی نے خود کو ایک آزادانہ شناخت دینے کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی قوموں کے لئے ایک عظیم اور امید بخش مرکز کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔
مشرقی آذربائجان کے عوامی وفد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار ایران سے اس لئے خائف اور غضبناک ہے کہ ایران نے ان طاقتوں کے سامنے مقاومت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی توقعات جائز ہیں، لیکن 22 بہمن کی عظیم ریلیوں نے ثابت کر دیا کہ دشمن کی سرد جنگ اور نفسیاتی حربے کارگر نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سرد جنگ اور نفسیاتی حملوں کا مطلب عوام کی سوچ کو بدلنا، اختلاف پیدا کرنا، اسلامی انقلاب کی مضبوط بنیادوں میں شک ڈالنا اور دشمن کے خلاف استقامت میں شک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ یہ کام دشمن کر رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے آج تک کامیاب نہیں ہوئے؛ آج تک دشمن کی وسوسے ہمارے عوام کے عزم کو کمزور نہیں کرسکے اور ہمارے نوجوانوں کو ان کی ارادے اور حرکت سے نہیں روک سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی مثال 22 بہمن کی عظیم ریلی ہے۔ دنیا میں کہاں ایسی چیز دیکھنے کو ملتی ہے؟ انقلاب کی کامیابی کے چالیس سال بعد عوام کی اکثریت اس طرح انقلاب کی فتح کا جشن مناتی ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود لوگوں کا جم غفیر میدان میں آتا ہے ہیں۔
رہبر معظم نے کہا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مالکان اور قلمکاروں کو چاہئے کہ دشمن کے نفسیاتی حملوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ دیں۔
ایک قوم کی حقیقی طاقت
طاقتور قوم کی ۳ خصوصیات!
حقیقی طاقت اس قومی طاقت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اس بات کی آگاہی بھی ہو کہ اس کے گرد و پیش کیا کچھ ہو رہا ہے، دوسرے یہ کہ اپنے حق اور اپنی راہ پر ایمان رکھتی ہو، تیسرے یہ کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس راہ پر گامزن رہے گی، اگر کوئی قوم ان تین خصوصیتوں کی حامل ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس سے زیادہ قوی نہیں ہو سکتی۔
ایمان و آگہی، کامیابی کی کنجی!
ہم اپنی حیثیت، اپنی عزت و شرافت، اپنے دین، اپنے انقلاب، اپنے انسانی حقوق اور اپنی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں، ہر قوم جو اپنے ان حقیقی حقوق کے بارے میں ایمان و آگاہی کے ساتھ فیصلہ کر لے قطعی طور پر کامیاب ہوگی، لہذا ہم اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہیں …
قومی اتحاد، قومی اقتدار کی بنیاد!
ہماری یہ قوت اور اقتدار اس وقت سے ہے کہ جب ہم متحد اور ایک ہوں، ایک قوم جو متحد ہو … اختلاف در اصل پوری حیات کو، آبرو کو اور اقتدار کو ملت سے چھین لیتا ہے۔ قوم کے اس اتحاد کی اگر آپ نے حفاظت کی آپ کا یہ اقتدار باقی رہے گا۔
عہد بصیرت ، رہبر معظم
منجی موعود؛ تمام ادیان کی مشترکہ اقدار اور عقیدہ
حجتالاسلام حمیدالله رفیعی، مدیر ادیان و مذاهب مرکز پاسخگویی به شبهات نے موعودگرائی کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عقیدہ تمام بڑے ادیان میں مشترک ہے۔ ان کے مطابق، موعودگرائی کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک الہی شخصیت کا ظہور ہوگا، جو عدل و انصاف قائم کرے گی اور دنیا میں امن و صلح کا نظام نافذ کرے گی۔
یہ عقیدہ یہودیت، مسیحیت، اسلام، زرتشتیت اور حتیٰ کہ غیرالہی ادیان جیسے بدھ مت میں بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا، تمام ادیان کے پیروکار ایک نجات دہندہ کے منتظر ہیں۔
اسلام اور دیگر ادیان میں منجی کے تصور کی مماثلتیں
حجتالاسلام رفیعی کے مطابق، اسلام اور دیگر مذاہب میں منجی موعود کے حوالے سے تین اہم مشترکات پائے جاتے ہیں:
الہی شخصیت: تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ منجی کو خداوند کی طرف سے چُنا گیا ہے اور وہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آئے گا۔
ظہور در آخرالزمان: تمام ادیان میں یہ تصور موجود ہے کہ منجی آخری زمانے میں ظاہر ہوگا۔
عالمی حکومت: منجی ایک عالمی حکومت قائم کرے گا، جو عدل و انصاف پر مبنی ہوگی۔
بدھ مت میں، اگرچہ یہ ایک غیر الہی مذہب ہے، موعود کا نام "میتریا" بتایا گیا ہے، جو ظالم حکومت کو ختم کرکے دنیا کو "نیروانا" (امن و سکون) کی طرف لے جائے گا۔
مختلف ادیان میں منجی کے نام
اسلام: حضرت مہدی (عج)، جو حضرت فاطمہ (س) کے فرزند ہیں۔
یہودیت: "ماشیح" (Messiah)۔
مسیحیت: حضرت عیسیٰ (ع)، جنہیں صلیب پر چڑھانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرالزمان میں واپسی پر ایمان رکھا جاتا ہے۔
زرتشتیت: "سوشیانت"۔
بدھ مت: "میتریا" یا "پانچواں بدھا"۔
شیعہ و سنی عقائد میں مهدویت کا تصور
رفیعی کے مطابق، مهدویت کا تصور شیعہ اور اہل سنت دونوں میں موجود ہے۔ اہل سنت میں بھی حضرت مہدی (عج) کی غیبت، ان کے ظہور، عدل و انصاف کی حکومت اور حضرت عیسیٰ (ع) کے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1976ء میں عربستان میں ایک اہل سنت فقهی مجمع نے فتویٰ دیا تھا کہ مهدویت سے متعلق احادیث متواتر ہیں اور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح وهابی عالم شیخ عبدالمحسن نے مدینہ یونیورسٹی میں مهدویت پر تفصیلی خطبہ دیا اور بعد میں "عقیدۃ اہل السنہ و الاثر فی المهدی المنتظر" کے عنوان سے ایک جامع کتاب شائع کی۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مهدویت کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے اور اسے تمام اسلامی فرقوں میں قبولیت حاصل ہے۔
غلو کی حقیقت : مختصر تحقیق
لغت میں غلو یہ ہے کہ کسی کے حوالے سے انسان افراط کا شکار ہوجائے، زیادہ روی کرے اور اس کے حوالے سے حد سے بڑھ جائے۔ جن کا وہ مستحق نہیں ان باتوں کی نسبت اس کی طرف دی جائے۔
غلو کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ کسی غیر خدا کو خدا سے ملایا جائے، خدا کی خاص صفات کو کسی انسان کے لیے قائل ہونا بھی غلو ہے۔ کسی انسان کے لیے اس کی صفات اور فضائل کو مستقل ثابت کرنا بھی غلو کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اعتقاد بھی غلو ہے کہ خدا کی روح کسی انسان میں حلول کر گئی ہے۔
اگر شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں بہت ساری صفات کے قائل ہیں مثلاً یہ کہ وہ واسطہ ہیں فیض خدا کے حوالے سے، انہی کے صدقے میں خدا نے کائنات بنائی ہے، یہ لوگ ولایت تکوینی کے مالک ہیں، آخرت میں ائمہ شفاعت فرمائیں گے وغیرہ تو ان میں سے کوئی ایک بات بھی ہرگز غلو کے زمرے میں نہیں آتی۔
چونکہ شیعہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ان تمام صفات کے باوجود سارے ائمہ حتی افضل ترین مخلوق حضرت رسول خدا ﷺ، اللہ کے عبد اور بندے ہیں۔ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں، عبادت کرتے ہیں۔ توبہ واستغفار کرتے ہیں۔ ان ہستیوں کو جتنی خصوصیات حاصل ہیں سب اللہ کی طرف سے عطا شدہ ہیں۔ لہذا ہر نماز میں دوران تشہد یہ گواہی دے کر کہ: محمد ﷺ اللہ کے عبد اور رسول ہیں، غلو سے اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں۔
ائمہ معصومین علیہم السلام نے غلات سے انتہائی بیزاری اور برائت کا اظہار کیا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے: یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔
امام صادق علیہ السلام کی روایت کے جملے ہیں: "يا اسماعيل! لاترفع البناء فوق طاقته فينهدم اجعلونا مخلوقين و قولوا فينا ما شئتم۔" (بحارالانوار، ج 25، ص 279) اے اسماعیل! کسی بھی عمارت کو اس کی طاقت سے زیادہ بلند مت کرنا، ورنہ وہ گر جائے گی۔ ہمیں اللہ کی مخلوق قرار دو اور پھر ہمارے بارے میں جو چاہو کہو۔
ایک اور روایت میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں: "فواللَّه ما نحن الا عبيد الذى خلقنا و اصطفانا، مانقدر على ضر و لانفع ... ويلهم ما لهم لعنهم اللَّه لقد آذوا اللَّه و آذوا رسوله فى قبره و اميرالمومنين و فاطمه و الحسن و الحسين و على بن الحسين و محمد به على صلوات اللَّه عليهم." (بحارالانوار، ج 35، ص 289) خدا کی قسم ہم اس خدا کے عبد ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں چن لیا۔ ہم (مستقل طور پر خدا کی اجازت کے بغیر) نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ... ان پر افسوس ہے، ان کے لیے کیا ہے؟ اللہ ان پر لعنت کرے، انہوں نے اللہ کو اذیت دی اور اس کے رسول کو ان کی قبر میں اذیت دی اور امیرالمومنین، فاطمہ، حسن، حسین، علی بن حسین اور محمد بن علی کو اذیت دی۔
یہ بات عقلی طور پر ثابت ہے کہ کسی بھی انسان کی جتنی بھی فضیلت ہو، ہے تو وہ مخلوق اور محدود۔ جبکہ خدا کی ذات لا محدود اور نا متناہی ہے۔ متناہی اور لا متناہی کے درمیان فاصلہ بھی نا متناہی ہوگا۔ ہاں البتہ یہ ہستیاں وہ ہیں جو تمام مخلوقات میں اللہ تعالی کے نزدیک ترین اور کامل ترین ہستیاں ہیں۔
اس عقیدے کے مقابلے میں مسیحیت حضرت عیسی ؑ کے بارے میں غلو کا شکار ہو گئی۔ ان کے ہاں عیسی ؑ کے حوالے سے عبد خدا ہونا، یا خدا کے سامنے جھکنا اور تضرع و عبادت کی باتیں مطرح نہیں ہیں، بلکہ خدا کا بیٹا ہونا مطرح ہے۔ چونکہ عیسی کا کوئی باپ نہیں، لہذا خدا ان کے باپ ہیں اور وہ خدا کے بیٹے۔ یہ بات عین غلو ہے۔
پس مقام توحید میں غالی وہ ہے جو کسی بھی انسان کو عبودیت اور بندگی کے مقام سے بڑھا چڑھا کر ان کو خدا یا خدا کے افعال کا مصدر قرار دے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق صرف خدا ہے جو حقیقی معنی میں خالق، مدبر، شارع، رازق، حاکم... ہے۔ ہاں خدا نے بعض موارد میں ائمہ ؑ کو بعض اختیارات ایسے عطا کیے ہیں جن کی بنا پر وہ کائنات میں مختلف قسم کے تصرفات کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ سب خدا کے اذن اور اجازت سے ہے۔ جیسے حضرت عیسی ؑ، خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے، بیماروں کو شفا دیتے تھے۔ یا جیسے قرآن کی آیت کے مطابق جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا (آصف بن برخیا) اس نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے فلسطین میں حاضر کر دیا۔ یہ سب کچھ خدا کے فضل وکرم اور خاص عنایات سے ممکن ہیں اور بندہ ان کاموں میں مستقل ہرگز نہیں۔
لکھاری: عباس حسینی، 8 مارچ 2017، 11:26 PM
آیات و روایات میں توبہ کے ارکان
آیات و روایات میں توبہ کے ارکان کیا ہیں ؟
مختصر جواب:
حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان نافرمانی سے ایسی اطاعت کی طرف پلٹ آتا ہے جو گزشتہ اعمال پر پشیمانی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اس پشیمانی اور علم کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ اس کے اور اس کے حقیقی محبوب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ، مستقبل میں گناہوں کو ترک کرنے کا ارادہ اور اس کی تلافی ان سب کو ختم کردیتی ہے ، اسی دلیل کی بناء پر قرآن مجید نے بہت سی آیات میں ان معنی کی تکرار کی ہے اور ان میں توبہ کو اصلاح اور تلافی کے ساتھ قرار دیا ہے ۔
یعنی جہاں تک اس میں طاقت ہے وہ اپنے اندر اور باہر سے گزشتہ گناہوں کے برے آثار کو ختم کردیتا ہے اور اگر کسی کے حقوق کو پائمال کیا ہے اور ان کی تلافی ہوسکتی ہے تو تلافی کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں یہ معنی بارہا بیان ہوئے ہیں جن میں اصلاح کو تلافی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
١۔ سورہ بقرہ کی ١٦٠ویں آیت میں الہی آیات کو چھپانے اور ان کی سخت سزا کی طرف اشارہ کرنے کے بعدفرمایا ہے : '' اِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ اَصْلَحُوا وَ بَیَّنُوا فَاُولیِکَ اَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَ اَنَا التَّوّابُ الرَّحیمُ '' ۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپایا ہے اس کو ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ کو قبول کرلوں گا ۔
٢۔ سورہ آل عمران کی ٨٩ ویں آیت میں ارتداد (ایمان کے بعد کافر ہونے )کے مسئلہ اور اس کی سخت سزا کو بیان کرنے کے بعد فرمایاہے : '' اِلاَّ الَّذِینَ تابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِکَ وَ اَصْلَحُوا فَاِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَحیمٌ'' ۔ علاوہ ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی کہ خدا غفور اور رحیم ہے ۔
٣۔ سورہ نساء کی ١٤٦ ویں آیت می
مفصل جواب:
حقیقت توبہ یہ ہے کہ انسان نافرمانی سے ایسی اطاعت کی طرف پلٹ آتا ہے جو گزشتہ اعمال پر پشیمانی کی وجہ سے کی جاتی ہے اور اس پشیمانی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان مستقبل میں گناہوں کو ترک کرنے اور گزشتہ کی تلافی کا ارادہ کرلیتا ہے ۔ خداوندعالم سورہ بقرہ کی ١٦٠ویں آیت میں فرماتا ہے : جو لوگ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کریں اور جو چھپا رکھا تھا اس کو ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ کو قبول کرلوں گا اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہوں۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں : توبہ کرنے والے انسان کی چار علامتیں ہیں : ١۔ (آئین اور بندگان) خدا کی خیرخواہی کے لئے ، ٢ ۔ ترک باطل، ٣۔ ملازمت حق اور ٤ ۔ کار خیر کرنے کیلئے بہت زیادہ کوشش کرنا ۔
مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کا دفتر
ایران، انقلاب اور کامیابیاں
مختلف مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران کی کامیابیاں بیان کی ہیں۔ ذیل میں قارئین کیلئے ایران کی ترقی کے وہ چند پہلو پیش کئے جا رہے ہیں، جس کا اعتراف دشمنوں نے کیا ہے، جبکہ ایران اس سے بھی کئی درجے آگے ہے اور ایک مضبوط قوت کے طور پر مشرق وسطیٰ میں کھڑا ہے۔ برطانیہ کی بین الاقوامی خبر ایجنسی ’’ایران انٹرنیشنل‘‘ کے مطابق ایران دنیا کا محفوظ ترین ملک ہے۔ ایران دنیا کی چار طاقتور ترین بحری افواج میں شامل ہے۔ ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے، جو سمندری جہاز تیار کرتا ہے اور دنیا کا طاقتور ترین سنگل شاٹ رائفل "باهر" تیار کرنیوالا ملک ہے۔ ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے، جو جنگی جیٹ طیارے (کوثر) تیار کرتا ہے۔ ایران امریکہ کے بعد ہائی ایلٹیٹیوڈ سولر اسٹریٹجک ہوائی جہاز بنانیوالا دوسرا ملک ہے۔ ایران خلا میں جاندار بھیجنے والا چھٹا ملک ہے۔
ایران دنیا کے جدید ترین جاسوسی ڈرون کو نشانہ بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں طب کا مرکز ہے۔ ایران نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں دنیا کا تیسرا ملک ہے۔ ایران کے پاس دنیا کا تیسرا بہترین عضو پیوند مرکز ہے، جس کی ایک مثال شیراز کا نمازی ہسپتال ہے۔ ایران ذیابیطس کے زخموں کے علاج کیلئے "این جی پارس" اور ایڈز کو کنٹرول کرنیوالی دوا "آیمود" تیار کرنیوالا دنیا کا واحد ملک ہے۔ ایران ترقی اور جدت کے میدان میں دنیا کا تیز ترین ملک ہے۔ ایران کے پاس دنیا کی دوسری طاقتور سائبر فوج ہے، اکانومسٹ کی رپورٹ میں اس کی تفصیل شائع کی گئی ہے۔ ایران دنیا کا سب سے بڑا میتھانول پروڈیوسر ہے۔ ایران پتھر سے کاغذ بنانے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
ایران دنیا کا واحد ملک ہے، جو ہائی فریکوئنسی الیکٹرک سرجیکل ڈیوائس تیار کرتا ہے۔ ایران دنیا کے 227 ممالک میں سے 37 ویں نمبر پر ایک بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، جیسا کہ عالمی اقتصادی پالیسی کے شعبے کی رپورٹ میں تفصیلاً اس کا جائزہ پیش گیا ہے۔ ایران لینیر ایکسلریٹر ریڈییشن ڈیوائس بنانیوالا دنیا کا دوسرا ملک ہے۔ ایران ایکواکلچر کے میدان میں مشرق وسطیٰ میں پہلے اور دنیا میں 18 ویں نمبر پر ہے۔ ایران لیزر ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے 5 ممالک میں شامل ہے۔ ایران انسانی ترقی کے اشاریئے میں ترقی کے لحاظ سے دنیا کا تیز ترین ملک ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹ میں بتایا گیا ہے۔ ایران بانجھ پن کے علاج کے میدان میں دنیا کے جدید ترین ممالک میں شامل ہے۔ ایران سٹیم سیل ریسرچ کے میدان میں دنیا کے 15 ممالک میں شامل ہے۔
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ایران غیر ملکی طلبہ کو قبول کرنے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے تیز ترین ملک ہے۔ ایران کے جوہری سائنسدانوں نے ایک قسم کی الجی تیار کی ہے، جس کی ہر گرام قیمت 390 ڈالر ہے، یعنی فی کلو تقریباً 390,000 ڈالر، آپ خود حساب لگا سکتے ہیں کہ یہ فی کلو کتنے ارب تومان بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایران اپنی سرزمین پر منشیات کیخلاف جنگ کرنے والا پہلا ملک ہے۔ ایران دنیا کے سخت ترین اور وسیع پیمانے پر پابندیوں کے باوجود دنیا کا سب سے لچکدار، مزاحم اور ترقی پذیر ملک ہے۔ ایران دنیا کا سب سے بڑا میتھانول پروڈیوسر ہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی حکومت کا نظام 98 فیصد ووٹوں کیساتھ اسلامی جمہوریہ کے طور پر طے کیا گیا ہے، جو بہت سے ممالک کیلئے ایک مثال ہے۔
ایران دندان سازی کے میدان میں دنیا کے 12 ممالک میں شامل ہے اور امریکہ اس میدان میں ایران سے بہت پیچھے ہے۔ ایران ان ممالک میں شامل ہے، جو اپنی 95 فیصد ادویات خود تیار کرتا ہے۔ اگر کچھ کمی ہے تو وہ صرف 5 فیصد ادویات میں ہے۔ انگلینڈ کے اخبار دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق ایران سیاسی، فوجی اور اقتصادی طاقت کے لحاظ سے دنیا کا تیرہواں ملک ہے۔ ایران اقوام متحدہ کے چارٹ کے مطابق زندگی کی امید میں اضافے کے لحاظ سے دنیا کا تیز ترین ملک ہے۔ دشمن طاقتوں نے ایرانی قوم کو کمزور اور متزلزل کرنے کیلئے اس کیخلاف شدید ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ خود امریکی حکمرانوں کے بقول یہ پابندیاں مفلوج کر دینے والی پابندیاں ہیں۔ ایران سے جوہری معاہدہ کرکے پھر اس کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ آج ایران نے دشمن کی تمام تر پابندیوں کو شکست دیدی ہے۔
ایران ایف اے ٹی ایف کے بغیر تیل بیچ رہا ہے اور اس سے حاصل ہونیوالی آمدن وصول کر رہا ہے۔ ایران کی موجودہ حکومت نے پروڈکشن بڑھانے اور ملک کو اقتصادی میدان میں مضبوط بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ ایسے تمام کارخانوں کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے، جو خسارے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ آج ایران کو دشمن کی دھمکیوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ آج ایران خود مختاری اور آزادی کی برکت سے علم کی بلند چوٹیاں سر کرچکا ہے اور مختلف علمی شعبوں میں اس کا شمار دنیا کے پہلے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ علم کے میدان میں تیز رفتار ترقی اس بات کا باعث بنی ہے کہ دشمن ایرانی دانشوروں اور سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ پر اتر آئے۔ دفاعی شعبے میں ایران کی ترقی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ایران کے دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بقول ایران "ڈیٹرنس" کے مرحلے سے عبور کرکے "پہلے اقدام انجام دینے" کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
عقیدہ مہدویت تمام مذاہب میں
مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یایہ عقیدہ دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے ؟
جیسا کہ بعض منکرین مہدویت کاکہنا ہے : عقیدہ مہدویت کی اصل یہودیوں وغیرہ کے عقاید میں ہے جہاںسے مسلمانوں میں سرایت کرگیا ہے ورنہ اس عقیدے کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے (المہدیہ فی الاسلام ، ص ۸۰۴۔)
جواب
مہدویت یعنی ایک عالمی نجات دھندہ کا تصور اس وقت سے ہے جب کہ اسلام نہیں آیا تھا اوریہ تصور صرف اسلام میں محدود نہیں ہے ، ہاں اس کی تفصیلی علامتوں کی اسلام نے اس طرح حدبندی کی ہے کہ وہ ان آرزووں کو مکمل طور پر پورا کرتی ہے ، جو دینی تاریخ کی ابتداءہی سے عقیدہ مہدویت سے وابستہ کی گئی ہیں ، جوتاریخ کے مظلوموں اور دبے ہوئے انسانوں کے احساسات کو ابھارنے کے لئے ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے غیب پرایمان وعقیدے کو واقعیت میں بدل دیا ہے اوراسے مستقبل سے حال میں پہنچادیا ہے اور مستقبل بعید کے نجات دہندہ کو موجودہ نجات دہندہ پر ایمان میں بدل دیا ہے (بحوث حول المہدی ، ص ۳۱ باقر الصد (رح) تھوڑا لفظی رد وبدل کے ساتھ )۔
مختصر یہ کہ عقیدہ مہدویت سارے مذاہب وادیان اور ملتوں میں موجود ہے اوروہ ایسے ہی
طاقتورغیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں البتہ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ہندوں کے مذہبی رہنما ” شاکونی“ کی کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ” دنیا کا خاتمہ سید خلایق دو جہاں ” کِش “ [پیامبر اسلام ]ہوگا جس کے نام ستادہ [ موعود] خدا شناس ہے۔
اسی طرح ہندوں کی کتاب ” وید“ میں لکھا ہے ” جب دنیا خراب ہو جائے گی تو ایک بادشاہ جس کا نام ” منصور “ ہے آخری زمانے میں پیدا ہوگا اورعالم بشریت کا رہبر وپیشوا ہوگا۔اوریہ وہ ہستی ہے جو تمام دنیا والوں کو اپنے دین پر لائے گا۔
اورہندوں ہی کی ایک اور کتاب ” باسک “ میں لکھا ہے ” آخری زمانے میں دین ومذہب کی قیادت ایک عادل بادشاہ پر ختم ہوگی جو جن وانس اور فرشتوں کا پیشوا ہوگا، اسی طرح ” کتاب پاتیکل“ میں آیا ہے جب دنیا اپنے آخری زمان کو پہنچے تو یہ پرانی دنیا نئی دنیامیں تبدیل ہوجائے گی اوراس کے مالک دو پیشواوں ” ناموس آخرالزمان [ حضرت محمد مصطفی اور ” پشن[ علی بن ابی طالب ] کے فرزندہوں گے جس کا نام راہنما ہوگا۔(۔ستارگان درخشان ، ج۴۱، ص ۲۳۔)
اوریہی ہے جیسے زردتش مذہب میں اسے ” سوشیانس“ یعنی دنیا کو نجات دلانے والا ، یہودی اسے ” سرور میکائلی “ یا ” ماشع“ عیسائی اسے ” مسیح موعود“ اور مسلمان انہیں ” مہدی موعود(عج) “ کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا۔
اسلام میں اس کی بھر پور طریقے سے شناخت موجود ہے ، جب کہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل شناخت نہیں کرائی ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگر مذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود(عج) یعنی امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے فرزند پر منطبق ہوتے ہیں ۔
( آفتاب عدالت ، ابراہیم امینی ، مترجم نثار احمد خان زینپوری ، ص ۳۸ ، ۴۸۔)
مختصر یہ کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان ومذاہب کا مشترکہ عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اورتمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس مطابقت میں اختلاف ہے ۔
تحریر: ڈاکٹرمحمود حسین حیدری
انتظارِ مصلح جہاں اور ہماری ذمہ داری
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
أَفْضَلُ أَعْمَالِ أُمَّتِي اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ مِنَ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲ ، صفحہ۶۴۴،رقم الحدیث : ۳۵۷۴۲۱)
’’ میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظار ہے ‘‘۔
ایک عالمی مصلح کے ظہور اور پوری دنیا پر اس کی حکومت کے قیام کا تصور تمام ادیان میں پایا جاتا ہے مگر ان تمام میں محکم اور مستدل عقلی ودینی نظریہ، مکتب تشیع کا ہے جس کے مطابق وہ مصلح امام مہدی (ع)ہے جن کی ولادت سنہ۲۵۵ ہجری میں ہوچکی ہے اورمصلحت الٰہی کے تحت پردہ غیب میں ہے اورو ہ خود حکم الٰہی کے منتظر ہیں تاکہ اسلام کو پوری دنیا میں نافذ کر سکے۔
خدا وند عالم نے دین اسلام کو قیامت تک کے لئے آخری شریعت کے طور پر نازل کیا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کو ہی انسانیت کے لئے نجات اور ابدی سعادت قرار دیا ہے اور وحی ونبوت کا سلسلہ پیغمبر اسلام (ص) پر ختم کرکے دین کی حفاظت اور نشروفروغ کے لئے سلسلہ امامت کو جاری کیا اور آئمہ علیہم السلام نے اہداف رسالت کے تحقق اور اسلام کی نشر واشاعت کی اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات کو برداشت کیا اور اس راہ میں گیارہ آئمہ علیہم السلام نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور خداوندعالم نے بارہویں آخری حجت کوغیب کے پردہ میں رکھا ہے تاکہ اس عالمی وعدہ کی تکمیل ہوسکے جس کی انسان کو ہروقت آرزو رہی ہے یعنی عدل وانصاف پر مبنی ایک الٰہی حکومت کا قیام۔
اب جبکہ دین الہٰی قرآن وسنت اور سیرت آئمہ کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے اور امام ظہور کے بعد اسی تعلیمات کو اپنی اصلی شکل میں معاشرے میں نافذ کریں گے تو منتظرین امامؑ کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ وہ اس رسالت و پیغام کو پھیلانے کی جدوجہد کریں جن کا آئمہ علیہم السلام ہم سے تقاضا کرتے ہیں ۔
دعائے ندبہ میں امامؑ کے ان اہداف اور مقاصد کا بیان ہے جس میں امامؑ کامنتظر آپؑ کے ظہور کے لئے فریاد واستغاثہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہدف پورا ہوجائے۔امامؑ کے فراق میں یہ فریاد اسلام کی آوازہے جو ابتدائے بشریت سے ہی تمام انبیاءؑ اور ان کے پیروکاروں کی آرزو اور حرکت وجدوجہد کا محور رہا ہے اور اسی ہدف کے لئے انہوں نے اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے اور یہی مقصد اپنے مکمل اور عالمی روپ میں امامؑ کے ظہور کے وقت عمل میں آئے گا۔
دُعائے ندبہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ:
۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ہستی جو ظلم وستم کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے تیار ہے؟
کہاں ہے وہ بزرگوار جو آ کر کجیوں اور نقائص کی اصلاح کرے؟
کہا ں ہے وہ شخصیت کہ جس سے ظلم وستم کے ازالہ کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے کہ جو واجبات وسنن الہٰی کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جو ملت وشریعت کو پلٹانے کے لئے انتخاب کیا گیا ہے؟
کہاں ہے وہ ہستی کہ جس سے قرآن اورحدود قرآن کو ازسرنو زندہ کرنے کی امیدیں وابستہ ہیں؟
کہاں ہے وہ دین کی نشانیوں اور اہل دین کوزندہ کرنے والی ہستی؟
ان جملات میں ظلم وستم کے خاتمہ،کجیوں اور نقائص کے اصلاح،دین وشریعت کو اپنی حقیقی شکل میں پلٹانے،حدودِقرآن کو زندہ کرنا اور دین اسلام کی سربلندی کو امامؑ کے عالمی قیام کا ہدف قرار دیا ہے۔
اس کے بعد دعائے ندبہ کے عبارات میں امامؑ کو شرک ونفاق کی بنیادیں ڈھانے،انحراف واختلاف کی شاخوں کو کاٹنے، انحراف،ہویٰ وہوس کے آثار کو محوونابود کرنے،سرکشوں اور جباروں کو نابود کرنے اوراہل عناد وگمراہوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے ظہور کی دعا کی گئی ہے اور انہی اہداف کی تکمیل کے لئے ہر دور میں انبیا،آئمہ اور فقہاء وعلماء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور مذکورہ امور ہی انسانیت کی نجات وکامیابی اور ابدی سعادت کا ضامن ہے جس کو اسلام نے انسانوں کے لئے پیش کیا ہے۔
اوریہ انحرافات،اختلافات،کفر ونفاق اور دین سے دوری معاشرے میں اپنے عروج پر ہے۔عشق ومحبت میں امامؑ کے انتظار کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان برائیوں کے خاتمے اور امامؑ کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔انتظار کا مطلب یہ نہیں کہ امامؑ کے نام پر نا معقول رسومات واعمال انجام دی جائیں جو فلسفہ انتظار سے نابلد افراد کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جس نے دیگر مکاتب کے سامنے مکتب تشیع کے حقیقی چہرے کو د اغدار کرنے کے ساتھ اس مذہب کی فکری،اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کو نظروں سے اوجھل کردیا ہے بلکہ انتظا ر کا اصلی مطلب یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی،اس کی تعلیمات کے فروغ،عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور مستکبرین جہاں کے خلاف عملاً جدوجہد کو اپنی زندگی کا محور قرار دے اور فریضہ امر بالمعروف اور تبلیغ دین اس کی زندگی کا سب سے اہم ہدف ہو۔
دور حاضر میں اس کی واضح مثال امام خمینیؒ کی شخصیت ہے جنہوں نے انتظار کے حقیقی فلسفے کو سمجھا اور عملاً اس کے لئے جدوجہد کی بالآخر ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے کردار وعمل،جدوجہد،وحدت کلمہ،اتحاد واتفاق،ایثار وقربانی اور امر بالمعروف کے ذریعے امامؑ کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں۔
رہبر انقلاب: 22 بہمن، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں نے دشمن کی احمقانہ دھمکیوں کے مقابلے میں ملت ایران کے اتحاد کی نشاندہی کردی
– رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دران اور سائنسدانوں سے ملاقات میں دفاعی میدان میں پیشرفت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سال دشمن کی ابلاغیاتی بمباریوں کے سائے میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں کو عظیم ملی کارنامہ قرار دیا اور اس کی قدردانی نیز قوم کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ فرمایا کہ عوام نے دشمن کی دھمکیوں کے مقابلے میں اپنے اتحاد، تشخص، شخصیت اور ایرانیوں کی توانائی و پائیداری کو ثابت کردیا
ارنا کے مطابق اس ملاقات سے قبل رہبر انقلاب اسلامی اورمسلح افواج کے سپریم کمانڈرآیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقتدار1403 نمائش میں، ایران کی دفاعی صنعت کے ماہرین اور سائنسدانوں کی تیار کردہ مصنوعات کا ایک گھنٹے تک معائنہ کیا
اس نمائش میں فضائی دفاع کے جدید ترین وسائل، بیلسٹک اور کروز میزائل اور اسمارٹ، فضائی اسلحے اور ڈرون طیارے نیز بحریہ کے جدید ترین جنگی وسائل اور فلوٹنگ سسٹمس رکھے گئے ہیں۔
اس معائنے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی دفاعی صنعت کے ماہرین، ذمہ دار عہدیداران اور سائنسدانوں سے خطاب میں اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کو ملت ایران کی عظیم اور تاریخی عید قرار دیا اوراس عظیم دن کی مبارکباد پیش کی ۔
آپ نے فرمایا کہ کسی بھی انقلاب میں یہ بات نظر نہيں آتی کہ قوم چھیالیس برس گزرجانے کے بعد بھی اس طرح سڑکوں پر نکل کر جشن منائے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سخت سردی اور سوزناک سرد ہواؤں کے باوجود قوم کے سبھی طبقات ، مرد وزن بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے اس طرح سڑکوں پر نکل پڑنے کو عوامی اور ملی قیام قرار دیا اور فرمایا کہ اس سال کی تقریبات، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی بہترین تقریبات تھیں۔
آپ نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلی سے صدر مملکت کے خطاب کو شفاف اور راستہ دکھانے والا قرار دیا اوربانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نیز انقلاب کے اصلی مالکین یعنی ایرانی عوام کے خلاف دشمن کی تسلسل کے ساتھ جاری ابلاغیاتی بمباری اور نرم جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں سبھی شہروں اور دیہی بستیوں میں عوام سڑکوں پر آئے ، اپنی بات کہی اوراپنا موقف بیان کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس نمائش کو جس کا خطاب سے پہلے معائنہ فرمایا تھا، بہترین اور اعلی ترین نمائش قراردیا ۔
آپ نے دفاعی صنعت کے سبھی سائنسدانوں، ماہرین، عہدیداروں اور کارکنوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کو بھی ان توانا فرزندان قوم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔
آپ نے ملک و قوم کی سلامتی کے دفاع کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی توانائی زباں زد خاص و عام ہے، انقلاب کے چاہنے والے اس پر فخر کرتے ہیں اور دشمن خوفزدہ ہیں اور یہ حقیقت ملک کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایک زمانے میں عالمی سامراجی طاقتیں، کئی گنا قیمت پر بھی ایران کو دفاعی ضرورت کا سامان نہیں دیتی تھیں فرمایا کہ اب وہی طاقتیں، ایران سے کہتی ہیں کہ اپنے فوجی وسائل فروخت نہ کرو۔
آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں کہتے تھے " نہیں بیچیں گے" اور اب کہتے ہیں کہ " نہ بیچو" ، ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور یہ ہمارے ذہین اور ماہر نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی مستقل پابندیوں کے پیش نظر دفاعی پیشرفت کو غیر معمولی قرار دیا اور فرمایا کہ آج ایران کی دفاعی صنعت کی پوزیشن ایسی ہے کہ جو پرزہ بھی وہ نہ دیں، ہمارے نوجوان ، ملک کے اندر اس بہتر تیار کرلینے پر قادریں۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے اپنے خطاب میں دفاعی صنعت میں پیشرفت جاری رہنے پر زور دیا اور فرمایا کہ دفاعی صنعت کی پیشرفت، دنیا میں ہماری دفاعی طاقت کا درجہ بلند ہونے کا باعث ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر قناعت کرلیں اور رک جائيں، کیونکہ ہم نے زیرو سے کام شروع کیا اور اگرچہ ہم نے بہت زیادہ کام کئے اور پیشرفت کی ہے لیکن ابھی بہت سے معاملات میں اگلی صف سے دور ہيں۔
آپ نے فوجی ترقی میں اگلی صفوں تک پہنچنے کو قران کے " واعدوا لھم ما استطعتم من قوہ"کے حکم پر استوار قرار دیا اور فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں حد اکثر اور مسلسل تیاری بدخواہوں کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لئے ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ پیشرفت سبھی فوجی شعبوں میں جاری رہنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی زمانے میں میزائلوں کی دقت کے لئے ہمارے مد نظر ایک سطح اور حد تھی تو آج ہمیں اس کو بڑھادینے کی ضرورت ہے، یہ کام ہونا چاہئے۔
آپ نے نئی نئی ایجادات اور نہ رکنے کو دفاعی صنعت میں پیشرفت کا لازمہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایجادات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایجادات کا مطلب دوسروں کے کاموں کی تکمیل نہیں نہيں ہے بلکہ اس کا مطلب وہ کام ہیں جو انجام نہیں پائے ہیں اور انسان کی سرشت میں نہفتہ نا شناختہ توانائیوں کو فعال کرنا ہے جیسے الیکٹریسٹی ، انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس وغیرہ کا انکشاف اور ایجاد ہے جس نے دنیا کے سامنے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔
فلسطین برائے فروخت نہیں
نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں، جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ امریکی صدر کے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی، تاکہ غزہ کو خالی کریں۔
غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔ غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی دراصل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لئے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی، ہم دیں گے اور یہ قربانی انہوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکی کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بنا کر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا امریکی بھرم باقی رہ جائے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکہ کی بالادستی کے خاتمہ کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکز کو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔ غزہ پر قبضہ کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لئے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لئے غاصب اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی۔؟
کیا یہ سب کچھ بغیر کسی منصوبہ کے تھا۔؟ آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے، تاہم امریکی حکومت اس غزہ کے علاقہ کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی، لیکن آخر یہ شہر کس کے لئے بنایا جائے گا۔؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لئے ہیں۔؟ لہذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔؟ کیا امریکی تسلط اس قدر آسان ہوگا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی۔؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لئے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لئے ایک ترنوالہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکہ کو انکار میں جواب دیا ہے، جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے، جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لئے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔
کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے۔؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں از سر نو جنگ شروع ہو جائے، جس کے لئے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیئے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات او بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔ بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جو کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔
فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدر کو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔ اب امریکہ اس میدان میں آکر غزہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے، جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہوچکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔
یہاں پر ایک نقطہ جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لئے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لئے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا۔ اگر غزہ نہیں رہا تو پھر کوئی بھی نہین بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود اس خطرناک کینسر کو کہ جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان