
سلیمانی
قرآن و عترت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زبانی
قرآن و عترت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زبانی
خدا کا نور اور کائنات کی روشنی
حديث- ۱ - مِن دُعاءِفاطِمَةَ الزَّهراءعليهاالسلام:بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ بِسْمِ اللّهِ النُّورِ بِسْمِ اللّهِ نُورِ النٌّورِ بِسْمِ اللّهِ نُورٌ عَلى نُورٍ بِسْمِ اللّهِ الَّذى هُوَ مُدَبِّرُ الأُمُورِ بِسْمِ اللّهِ الَّذى خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ اَلْحَمْدُلِلّهِ الَّذى خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ وَاَنْزَلَ النُّورَ عَلَى الطُّورِ فى كِتابٍ مَسْطُورٍفي رَقٍّ مَنْشُورٍ بِقَدَرٍ مَقْدُورٍ عَلى نَبِىٍّ مَحْبُورٍ[مهج الدعوات۷]
بنام خدائے رحمن رحیم، خدا کے نام سے جو نور ہے، وہ خداجس کے اسم گرامی نور ہی نور ہے، خدا کے نام سے جو نور کے اوپر نور ہے، خدا کے نام سےجو تمام امور کےمدبرہےوہ خدا جس نےنور کو نور سے نور خلق کیا۔
پروردگار عالم کی حمد و ثنا اور خدا کاشکر ہے جس نے نور سے نور خلق فرمایا اوركوه(پہاڑ)طور پر نور نازل کیا، (اس کے اندر ایک ) کتاب تحریر ہے،بنی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک مبارک وسیع طومار میں تقدیر و نعمت کے مطابق لکھا ہواہے۔
میں فاطمه ہوں
حديث-۲- مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: اَيُّهَا النّاسُ اِعْلَمُوا اَنّى فاطِمَةُ وَاَبى مُحَمَّدٌ اَقُولُ عَوْدا وَبَدْءا وَلا اَقُولُ ما اَقُولُ غَلَطا وَلا اَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطا « لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤمِنينَ رَؤُوفٌ رَحيمٌ» [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج1: 134]
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنےمشہورخطبہ فدکیہ کے ایک حصہ میں فرماتی ہیں:
اے لوگو!
جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پہلی اور آخری بات یہی ہے،جو میں کہہ رہی ہوں وہ غلط نہیں ہےاور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نہیں ہے۔
“خدانے تم ہی میں سے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انہیں تکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے” ۔
قرآن كريم
حديث-۳ - مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: كِتابُ اللّهِ النّاطِقُ وَالْقُرْانُ الصّادِقُ وَالنُّورُ السّاطِعُ وَالضِّياءُ الّلامِعُ، بَيِنَّةً بَصائِرُهُ، مُنْكَـشِفَـةً سَرائِرُهُ، مُنْجَلِيَةً ظَواهِرُهُ، مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْياعُهُ، قائدا اِلَى الرِّضْوانِ اِتِّباعُهُ، مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اِسْتِماعُهُ [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج 1: 134]
اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:
۔۔۔ حالانکہ ہم بقیة اللہ اور قرآن ناطق ہیں وہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ہے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاہر ہےں، اس کے پیرو کارسعادت مندہیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرہ ھدایت کرتاہے ،اس کی باتوں کوسننا وسیلہ نجات ہے۔۔۔
قرآن کی پناہ میں
حديث-۴ - مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: وَ کِتابُ اللهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ اُمُورُهُ زاهِرَةٌ [ظاهِرَةٌ]، وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ، وَ زَواجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ، قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ، اَرَغْبَةً عَنهُ تُرِیدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْکُمُونَ؟ «بِئْسَ لِلظّالِمِینَ بَدَلا» [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج 1: 137]
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنےمشہورخطبہ فدکیہ کے ایک حصہ میں فرماتی ہیں:
۔۔۔حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرنہی ظاہرہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاہتے ہو؟
یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاہتے ہو؟۔۔۔
مقام عترت
حديث- ۵ – قالَتْ فاطِمَةُ الزَّهْراء عليهاالسلام فى خُطبَتِها: وَاحْمِدُوا اللّهَ الَّذى لِعَظَمَتِهِ وَنُورِهِ يَبْتَغى مَنْ فِى السَّماواتِ وَالْأرَضِ اِلَيْهِ الْوَسيلَةَ وَنَحْنُ وَسیلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَیْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ انْبیائِهِ
(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج ۱۶، ص ۲۱۱)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اپنے مشہورخطبہ کے آخر میں فرماتی ہے:
۔۔۔اےمسلمانو!
پروردگار عالم کا شکر ادا کرو، اس پروردگار عالم کے وجود کی عظمت اور نور نیت کی جلوے کی وجہ سےجوکچھ زمین و آسمان میں موجود ہیں ہر ایک اس کی طرف جانےکی راہ کے متلاشی ہیں۔
ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت ہیں، جو پروردگارکے تقرب اور مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ۔
ہم اللہ کے محلِ پاک و مقدّس،خالص اور چنے ہوئے ہستیاں ہیں، ہم ہی غیبت کے دوران حجت الہی اور رہنماء ہیں۔اور ہم ہی پروردگارعالم کے نبیوں کے وارث ہیں۔
سید الحوثی: امریکی بنکر بسٹر بموں سے غزہ کے عوام کی نسل کشی ہورہی ہے
ارنا کے مطابق انصاراللہ یمن کے رہبر سید عبدالملک الحوثی نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امریکا جس صیہونی سیناریومیں ہمارا ساتھ چاہتا ہے، وہ ہماری ہی ملت کے خلاف جارحانہ پروجکٹ ہے۔
انصاراللہ یمن کے رہبر نے کہا کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ امت اسلامیہ کے مقدسات پر حملہ نہ ہو تو آپ امریکا اور اسرائیل کے مخالف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اکثر عرب حکام امریکا کے کہنے پرصیہونی پروجکٹ میں شامل ہوگئے ہیں۔
سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ افسوس کہ عرب حکومتیں یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کے عوام نشانہ بن رہے ہیں، امریکا اور صیہونی حکومت کی ہمراہی کے سسٹم میں شامل ہیں اور انھوں نے اپنے ملکوں کے دروازے امریکی فوجی اڈوں کے لئے کھول دیئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ امریکا کے ساتھ اور اس کے اتحادی ہیں، اس کا ساتھ اختیار کیا اور ہر چیز اس کے لئے کھول دی اور امریکی فوجی اڈوں کے اختیار میں دے دی ۔
انصاراللہ یمن کے رہبر نے کہا کہ بعض ملکوں نے خود کو جو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے، یہ وابستگی ان کی حفاظت نہیں کرے گی اور انہیں اس سے کوئی فائدہ نہيں ہوگا۔
لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کیوں اور کیسے؟
یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حالت زار پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ غزہ کی سرزمین کا دفاع فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لبنان اور غزہ کا دفاع مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ علاقے غیر محفوظ رہیں گے تو اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا۔ استحکام کی عدم موجودگی کی صورت میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور دیگر مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ صرف سرزمین کی نہیں بلکہ ایک نظریئے، ثقافت اور شناخت کی جنگ ہے۔ ان کا دفاع کرکے مسلمانان عالم اپنے عقائد اور ثقافت کی بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ لبنان اور غزہ کے دفاع کا عمل مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتا ہے۔ جب ایک قوم یا علاقے کے لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایسا نمونہ بنتا ہے، جو انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لبنان اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم مختلف طریقوں سے ان کی فکری و عملی حمایت اور مدد کرسکتے ہیں، مثلاً ہم حزب اللہ اور حماس کے نظریات، تاریخ اور ان کی جدوجہد کا پرچار کرنے کے لئے مقالہ جات، مضامین، بلاگ یا سوشل میڈیا پر تحریریں لکھ سکتے ہیں۔ ہم مختلف اداروں کے ذریعے غزہ اور لبنان کے عوام کے لیے غذائی اشیاء، طبی امداد اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور حماس کی حمایت کے لیے تعلیمی پروگرامز کا انعقاد کرسکتے ہیں، جن میں حزب اللہ اور حماس کی تاریخ، ثقافت اور مقاصد کے بارے میں ورکشاپس اور سیمینارز شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور غزہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں۔ غرض حزب اللہ اور حماس کی مدد کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، یہ کسی ایک روش میں منحصر نہیں۔
دفاعی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، وطن اور عزت کی حفاظت کے لیے جنگ کریں۔ رہبر معظم کے مطابق یہ جہاد ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے مسلمان اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہیں۔ جہاد مسلمانوں کی عزت اور خود مختاری کا ذریعہ ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہو تو ان کا خاموش رہنا کسی صورت جائز نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنی بساط کے مطابق دفاع کریں۔ انہیں کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ بلاشبہ لبنان اور غزہ کا دفاع مسلمانوں کے درمیان اتحاد مضبوط کرنے کا سبب بنے گا۔ جب شیعہ سنی مسلمان ایک ہی مقصد کے لیے مل کر دفاعی جنگ کرتے ہیں تو ان میں بھائی چارے اور محبت کی ایک نئی لہر پیدا ہوہی جاتی ہے۔ لبنان اور غزہ کا دفاعی جہاد مسلمانوں کو اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔
یہ ایک بہترین موقع ہے کہ مسلمانان جہاں لبنان اور غزہ کی حمایت میں ملکر آواز بلند کرکے اپنی ایمانی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بات بھی قطعی ہے کہ دفاعی جہاد سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو وہ پوری خود اعتمادی سے اپنی عزت اور وقار کو بحال کرسکتے ہیں۔ اگر تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ دفاعی جہاد کا مسئلہ ہمارے فقہاء کے لئے انتہائی حساس مسئلہ تھا۔ مثلاً سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے ایران کے جنوب میں برطانوی جارحیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کیا: ان دنوں میں اٹلی جیسے یورپی ممالک نے مغرب میں طرابلس پر حملہ کیا ہے، دوسری طرف روسیوں نے ایران کے شمال پر قبضہ کیا ہے اور ایران کے جنوب میں بھی انگریزوں نے اپنی فوجیں تعینات کرکے اسلام کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے، ایسے میں تمام عرب اور ایرانی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے کافروں کو بھگانے کے لیے خود کو تیار کریں۔
اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے مغرب میں اطالوی افواج کو طرابلس سے نکالنے اور روسی اور برطانوی افواج کو ایران سے نکالنے کی راہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ عمل اسلامی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے۔ ان شاء اللہ خدا کی مدد سے دونوں اسلامی ممالک صلیبیوں کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ دیگر فقہا جیسے محمد حسین قمشی سید مصطفیٰ کاشانی، شیخ محمد آل شیخ صاحب جواہر، سید محمد سعید حوبوبی، محمد حسین حائری مازندرانی اور سید علی تبریزی ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے اس دور میں جارحین کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا۔ اسے مسلمانوں کا اہم فریضہ شمار کیا گیا اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کفر، ارتداد اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا مترادف سمجھا گیا۔ ان میں شیخ الشریعہ اصفہانی کا 1330ھ میں بیان کردہ روشن بیان مثالی ہے۔اس بیان میں انہوں نے بڑے بڑے علماء،امیروں، عشائر کے مردوں، مختلف قبیلوں اور طبقوں کے لوگوں سے خطاب کیا۔
انہوں نے دشمنان اسلام کے ان منصوبوں اور سازشوں کا پردہ فاش کیا، جن کو انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کے نام سے مسلم معاشرے میں لانچ کیا، لیکن اس سے ان کا ہدف مسلمانوں کو فریب دے کر اپنے معاشی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کو وسعت دینا اور مسلمانوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان کا محتاج کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں اپنے خطاب کے آخری حصے میں مسلمانوں کو یوں خبردار کیا: آج وہ دن ہے، جس میں کفر اور اسلام آمنے سامنے ہیں۔ یہ وہ دن ہے، جس میں بے کس رہنے والے اسلام کی مدد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس دور میں آزادی اور اسلامی سرزمینوں کے دفاع کے لئے میدان میں حاضر رہنا شیعہ فقہاء سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ سنی علماء اور مفتیوں نے بھی فتوے اور بیانات جاری کرکے مسلمانوں کو جارحین کے خلاف اپنے دفاع کی ترغیب وتشویق دلائی گئی۔
جنگ عظیم کے آغاز میں سب سے پہلے متحدہ یورپی حکومتوں نے اسلامی ملک عثمانیہ پر حملہ کیا۔ چنانچہ ایران اور عراق کے شہری مقامات جارحیت پسندوں کے حملے کے زد میں آگئے۔ اس دور میں شیعہ فقہاء اور سنی علماء نے جارحین کے خلاف جہاد اور دفاع کے فتوے جاری کرکے لوگوں کو اپنی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مگر آج غزہ اور لبنان میں مسلمان اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں،دنیا بھر کی استکباری طاقتیں غزہ اور لبنان کے مسلمانوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہیں، مگر ایران یمن جیسے دو تین اسلامی ملکوں کے علاوہ اسلامی ممالک غزہ اور لبنان کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف حمایت اور مدد کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سب اسرائیل کو شتر بے مہار بنا کر غزہ اور لبنان میں انسانی خون کا دریا بہانے کی اجازت دینے پر متحد و متفق نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اسلامی گھرانہ: غلط تربیت، گھر میں بچوں کے حقوق ضائع کرنا ہے
بعض گھروں میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، بچوں کے حقوق کی پامالی صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اُن کے ساتھ محبت نہ کرے، جی نہیں! غلط تر تیبت اور ان کے لیے مناسب اہتمام و انتظام سے کام نہ لینا، ان کی ضرورتوں کا خیال نہ رکھنا، لطف و محبت میں کمی اور اسی قسم کے دوسرے امور بھی ان پر ظلم کے دائرے میں آتے ہیں۔
امام خامنہ ای
ایران کے ساتھ کشیدگی میں اسرائیل کی شکست اور اس کے اثرات
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے طوفان الاقصی نے گذشتہ 75 سالوں کے دوران خطے میں صہیونی حکومت کی طاقت کا بھرم توڑ دیا اور اس کے ناپاک وجود کی بنیادیں ہلادیں۔ یہ واقعہ اس وقت وقوع پذیر ہوا جب صہیونی حکومت عرب خطے کی قیادت کے خواب دیکھ رہی تھی۔ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی طاقت اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوالات ایجاد کیے۔
واشنگٹن اور مغربی ممالک صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ ان ممالک نے فلسطینیوں سے انتقام لینے کے لئے پوری کوشش کی لیکن مقاومتی تنظیموں اور فلسطینی عوام کی مقاومت صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کو اسٹریٹیجک شکست سے دوچار کیا۔
غزہ کے محاذ پر ناکامی کے بعد صہیونی حکومت نے لبنان کا رخ کیا تاکہ اس محاذ پر کامیابی کے ذریعے اپنی شکست کی تلافی کرسکے۔ صہیونی حکومت نے حزب اللہ پر کاری وار کا فیصلہ کیا اور پیچیدہ کاروائی کے تحت مقاومتی تنظیم کی اعلی قیادت کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا ایک ہدف لبنانی مقاومتی تنظیم کو غیر مسلح کرنا تھا تاکہ بعد میں آسانی کے ساتھ لبنان کو فتح کرلے۔
حزب اللہ کے خلاف حملوں سے ملنے والی وقتی کامیابی جلد ہی اپنا اثر کھونے لگی کیونکہ تنظیم نے مختصر وقت میں خود سنبھال لیا اور دوبارہ تنظیم اپنے پاوں پر کھڑی ہوگئی۔ حزب اللہ نے جوابی وار میں صہیونی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ بڑی تعداد میں صہیونی افسران اور اہلکاروں کو ہلاک اور زخمی کردیا اس کے نتیجے میں جنوبی لبنان صہیونی فوج کے لئے ایک دلدل بن گیا۔
26 اکتوبر کو صہیونی حکومت نے اپنی سابقہ دھمکیوں کے برعکس ایران کے خلاف محدود پیمانے پر کاروائی کی۔ ایک مہینے تک تیاریوں کے بعد امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کے بعد تل ابیب نے ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا اور اپنے حملے کا دائرہ بہت مختصر کردیا تاکہ ایران کے جوابی حملے سے بچ جائے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی متاثر ہونے سے بچ جائیں۔
صہیونی حکومت کی امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں؛
اول: جوابی حملے کے بارے میں ایران کی سنجیدگی کی وجہ سے صہیونی حکومت کے ایٹمی منصوبے یا اقتصادی اور توانائی کی تنصیبات کو ہدف بنائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ گذشتہ حملے میں ایران نے صہیونی تنصیبات پر کامیاب حملہ کرکے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
دوم: اعلی قیادت کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے دوبارہ خود کو سنبھال لیا اور صہیونی حکومت کے زمینی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جس سے صہیونی فوج کو سنگین نقصان ہوا۔
گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے نتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا ارادہ ترک کیا۔ اس کے بجائے اپنی دفاعی طاقت کو حزب اللہ اور حماس کے ساتھ شمالی اور سرحدوں پر جنگ میں استعمال کرنا شروع کیا بنابراین آئندہ چند مہینوں کے دوران صہیونی حکومت اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان جنگ میں شدت آسکتی ہے مخصوصا اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے امکانات زیادہ ہیں۔
وعدہ صادق آپریشن اور صہیونی حملوں کو کامیابی کے ساتھ روکنے کے بعد ایران کا کردار مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ نے بھی اپنی طاقت کو دوبارہ بحال کیا ہے۔
امریکہ کی تمام تر حمایت کے باوجود صہیونی حکومت کئی محاذوں پر جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اسی لئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کو گمراہ کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ صہیونی حکومت اب بھی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو خطے کی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کے واقعات میں صہیونی حکومت کی زمین بوس ہونے والی خیالی طاقت دوبارہ بحال نہیں ہوسکی ہے۔ لبنان، فلسطین، عراق اور یمن کی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ وسیع نبرد کے بعد صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت میں شدید کمی آئی ہے۔ حالیہ جنگ کی مدت بڑھنے کے ساتھ صہیونی حکومت کے زخم مزید گہرے ہوں گے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شکستوں کا سلسلہ برقرار رہے تو صہیونی حکومت کی افسانوی طاقت مزید کم ہوگی اور دوستوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ دوسری جانب دائیں بازو کی جماعتوں اور اپوزیشن کو نتن یاہو کے خلاف مہم چلانے کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔
اگر یہی شکستوں اور بحران کا یہ سلسلہ جاری رہا تو صہیونیوں کی معکوس ہجرت میں مزید تیزی آئے گی۔ لیبرل، دولت مند اور دانشور طبقہ بدامن اور جنگ زدہ اسرائیل میں رہنا نہیں چاہتا ہے۔ ایران اور مقاومتی تنظیموں کے حملوں میں صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت کا پول کھل گیا ہے لہذا صہیونی آبادکار آبائی ممالک واپس جاکر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں گے۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اسلام آباد پہنچ گئے
ارنا نے پیر کی رات اسلام آباد سے اپنے نامہ نگار کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اسلام آباد کے نورخان فضائی اڈے پر ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کا پاکستان کے علاقائی امور کے وزیر نسیم وڑائج اور ایران کے سفیر نے استقبال کیا۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اپنے دورہ اسلام آباد میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار سے ملاقات کریں گے۔
اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی صدارت میں ایران اور پاکستان کے وفود کی نشست ہوگی ۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات اور گفتگو کریں گے۔
ایرانی قوم اور سامراج دشمنی
اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں تیرہ آبان یا 3 نومبر "عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن" کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دن اور یہ عنوان ایرانیوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک بڑے اعزاز اور بافضیلت ایام میں سے ایک رہے گا۔ جو قوم دنیا میں استکبار دشمنی کی خصوصیت کے ساتھ پہچانی جائے، یہ اس کا منفرد اعزار نہیں تو اور کیا ہے۔؟ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں سامراح دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا حاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیلنڈر میں ایک دن کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دیا ہے۔ استکبار و سامراج کے خلاف مقابلے کا پرچم کئی دہائیوں سے ایرانی قوم اور اس کے الہیٰ نظام کے ہاتھ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ استکبار مخالفت کو ایک قدر، ایک اعزاز اور ایک فضیلت کیوں سمجھا جاتا ہے اور تین نومبر کے دن کو استکبار مخالفت جیسے عنوان سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ جو شخص استکبار کے تصور کو صحیح طور پر سمجھے گا، وہ استکبار کے خلاف لڑنے کی اندرونی قدر اور اہمیت کو بھی صحیح درک کرسکے گا۔ اس سے اس کی انسانی فطرت بیدار رہے گی اور وہ اپنے ضمیر سے شرمندہ نہیں ہوگا۔ اسی عقلانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ "کاش استکبار لفظ کے حقیقی معانی کو سمجھ کر اس کی مخالفت کی جائے۔ استکبار کا مطلب ہے خود پسندی، خود برتری اور اس برتری کو دوسروں پر لاگو کرنے کی زبردستی۔ مستکبر سے مراد وہ شخص یا ادارہ ہے، جو اپنے اختیارات کو طاقت دھونس اور ہر ممکنہ ذرائع سے استعمال کرکے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مستکبر اپنی خواہشات کے حصول کے لیے اخلاقی اور انسانی اقدار میں سے کسی کی پاسداری نہیں کرتا۔ دھونس، جبر، لوٹ مار، جرم، ظلم اور قتل و غارت گری اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
آج امریکہ دنیا کے مستکبرین کا لیڈر ہے اور اس ملک کو بجا طور پر "عالمی استکبار" کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ مردہ باد کے نعرے کا مطلب موت استکبار کے لیے، موت ظالموں کے لیے، موت تشدد اور غنڈہ گردی کے لیے، موت ان مجرموں کے لیے جو اپنی شیطانی خواہشات کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں کو قتل اور بے گھر کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی قوم پر دو ایٹم بم گرا کر، ویت نامی قوم کے خلاف بے شمار قتل و غارت گری کے ساتھ تباہ کن جنگ مسلط کرکے، دنیا کی کئی آزاد اور مقبول حکومتوں کے خلاف بے شمار بغاوتیں کرکے امریکہ نے اپنے آپ کو استعمار اور مستکبر ثابت کیا ہے۔ امریکی تاریخ اس طرح کے جرائم سے بھری پڑی اور اس کا ریکارڈ انتہائی سیاہ ہے۔ پچھتر برسوں سے زائد عرصے میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کی ہلاکتیں نیز افغانستان اور عراق جیسے ممالک پر حالیہ دہائیوں کے قبضے سے ثابت ہوتا ہے کہ "امریکہ کی قیادت میں عالمی استکبار" یا "بڑے شیطان" کا لقب امریکہ کے لئے انتہائی درست اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔
تاہم اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں 3 نومبر کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دینے کی کچھ تاریخی وجوہات بھی ہیں۔ تیرہ آبان 1343 شمسی کے دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی شاہ مخالفت اور شاہی بل کی شدید مخالفت کی وجہ سے ترکی جلاوطن کیا گیا تھا۔ اسی دن یعنی تیرہ آبان 1357 کے دن تہران کے یونیورسٹی طلبا کو خاک و خون میں غلطاں کیا گیا۔ مطلق العنان پہلوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو مظاہرہ کرنے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تیرہ آبان 1358 بمطابق تین نومبر 1979ء کو تہران میں یونیورسٹی طلبا نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرلیا۔ امریکی سفارتخانہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے خلاف جاسوسی اور سازش کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم ایک طرف ہے اور امریکہ دوسری طرف۔
پہلے اور دوسرے واقعہ میں شاہ اور پہلوی حکومت نے امریکی ایما پر ایرانی طلبا اور ان کے رہبر پر ظلم کیا اور تیسرے واقع میں امریکی پالیسیوں کے ردعمل میں یونیورسٹی طلبا نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم کی امریکہ کے ساتھ تصادم کی نوعیت سامرج دشمنی کی راہ میں جدوجہد کی ایک نوعیت ہے۔ قومی آزادی اور عزت کے حصول کی یہ جدوجہد اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل کی گئی۔ آج بھی ایرانی قوم اسلامی قیادت کی رہبری میں اسلام کے جھنڈے تلے اپنی بصیرت اور ایمان کی بنیاد پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں بالخصوص غزہ اور لبنان میں گذشتہ ایک سال کے دوران صیہونی حکومت کے جرائم اور امریکہ کی مکمل حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت غاصب امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لڑنا ضروری ہے اور اس عالمی استکبار اور استعمار کے خلاف "عالمی اتحاد" کی تشکیل ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا حزب اللہ کے نئے سربراہ شیخ نعیم قاسم کے نام تہنیتی پیغام
صدر مسعود پزشکیان نے اپنے اس پیغام میں شہید سید حسن نصراللہ کی یاد کو تازہ کیا اور شیخ نعیم قاسم کی حزب اللہ کی قیادت سنبھالنے پر لبنان کے عوام، حکومت اور استقامتی محاذ کے تمام مجاہدوں کو مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ اس حساس اور تاریخی موقع پر جس میں لبنان کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی اور اسی طرح استقامتی محاذ کے اعلی اقدار اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت تاریخی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے، شیخ نعیم قاسم جیسی درخشاں اور مجاہد شخصیت کا حزب اللہ کی قیادت کے لیے انتخاب سے جن کا شاندار کارنامہ رہا ہے، استقامتی محاذ کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور استقامت کے عظیم الشان شہیدوں کا راستہ اور بھی روشن ہوتا چلا جائے گا۔
صدر پزشکیان نے امید ظاہر کی کہ اتحاد امت اسلامیہ اور باضمیر اور حریت پسند انسانوں کی بیداری کے نتیجے میں صیہونیوں کے جرائم کا سلسلہ منقطع اور علاقے، بالخصوص غزہ اور لبنان میں قیام امن ممکن ہوسکے گا۔
صدر مملکت نے اپنے پیغام کے آخر میں شیخ نعیم قاسم کے لیے کامیابی کی دعا کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کی شہید سیکورٹی اہلکاروں کے اہل خانہ سے ملاقات
حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي
چونکہ 7 اکتوبر کے آپریشن میں صیہونیوں کی سیکورٹی اور انٹیلیجنس برتری، جس پر وہ برسوں سے فخر کرتے چلے آ رہے تھے، پوری طرح مٹی میں مل گئي اس لیے تل ابیب کے حکام نے غزہ میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کے نسلی تصفیے کے علاوہ ایک اور اسٹریٹیجی اختیار کی اور وہ مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، جسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، صیہونیوں نے مزاحمتی محاذ کے کئي رہنماؤں اور کمانڈروں کو شہید کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی مزاحمتی معاشرے کے خلاف ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی مثال نہیں ملتی تاکہ اس معاشرے کو مزاحمتی محاذ سے الگ کر سکیں۔ ان جرائم میں غزہ کے مختلف علاقوں خاص طور پر شمالی غزہ کے شدید محاصرے سے لے کر لبنان میں پیجروں کے دھماکے تک گوناگوں مجرمانہ اقدامات شامل ہیں۔
بڑی واضح سی بات ہے کہ صیہونی حکومت اس پالیسی کے ذریعے ایک بنیادی ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ چیز کچھ دن پہلے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کی دلیرانہ شہادت کے بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوآف گالانت کے بیان میں بھی پوری طرح عیاں ہے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت پر، جو میدان جنگ میں اور ٹینک کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے، خوشی کے نشے میں چور گالانت نے بڑے متکبرانہ لہجے میں فلسطینی مزاحمت کے جانبازوں کو مخاطب کر کے کہا تھا: "اپنے ہاتھ اوپر کرو اور ہتھیار ڈال دو۔ قیدی بنائے گئے ہمارے لوگوں کو رہا کرو اور گھٹنے ٹیک دو۔"(1) حماس تحریک کے پولیت بیورو کے سربراہ کی شہادت کے بعد جنگی جرائم کے ارتکاب کا حکم دینے والے اس شخص کا لہجہ اور الفاظ، صیہونیوں کی طرف سے صرف ایک پیغام پہنچاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی موت کے بعد اس گروہ کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا، صیہونیوں کی خام خیالی اور خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟
حماس کے تنظیمی ڈھانچے کا کسی فرد پر منحصر نہ ہونا
اپنے ایک جنگي ہدف یعنی حماس سے ہتھیار رکھوانے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے قریب ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی صیہونیوں کی کوشش ایسے عالم میں ہے کہ جب اس مزاحمتی گروہ کا ایک بڑا ہی منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے اور یہ ڈھانچہ بنیادی طور پر افراد پر منحصر نہیں ہے کہ ان کے چلے جانے سے اس کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ وہی بات ہے جس کی جانب سیاسی مسائل کے ماہر فؤاد خفش اشارہ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: "اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی طاقت، اس کے منظم تنظیمی ڈھانچے میں نہاں ہے۔ یہ ڈھانچہ افراد پر نہیں بلکہ خود پر منحصر ہے۔" یہ سیاسی تجزیہ نگار، حماس کی راہ جاری رہنے پر یحییٰ سنوار کی شہادت کے اثرات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں: "جو ڈھانچہ کسی فرد پر ٹکا ہوا نہیں ہے وہ فطری طور پر سنوار کی شہادت کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح اپنا راستہ جاری رکھے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمی ڈھانچہ کئي عشرے پرانا ہے اور اپنی حیات کا یہ طویل عرصہ طے کرتے کرتے وہ بہت زیادہ مستحکم ہو چکا ہے۔ پچھلی کئي دہائيوں کے دوران اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود حماس جیسے گروہ کے پوری مضبوطی سے قائم رہنے کی وجہ اس کے ڈھانچے کی مضبوطی ہے۔"(2) فؤاد خفش حماس کے بعض کمانڈروں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: "اگر ہم تحریک حماس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی جیسے رہنماؤں کی شہادت ہمیں نظر آئے گی، اُس وقت سے لے کر اب تک حماس نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوئي ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہی ہوئي ہے۔"
چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے سائے میں مزاحمت کا مضبوط بنے رہنا
"فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود، مزاحمت کے شعلے بدستور بھڑک رہے ہیں اور انھیں بجھایا نہیں جا سکتا۔" یہ بات سیاسی امور کے محقق سعید زیاد نے یحییٰ سنوار کے قتل کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی صورتحال کے بارے میں کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کی موجودہ طاقت و استحکام سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کمانڈروں کے قتل سے مزاحمت کے شعلے خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ فلسطینی مزاحمت کے لڑنے کے طریقۂ کار کو بھی ایک دوسری وجہ بتاتے ہیں جو یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ کو کوئي خاص نقصان نہ پہنچنے کی موجب ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت اور خاص طور پر حماس کافی عرصے سے صیہونی دشمن کے ساتھ چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے مرحلے میں داخل ہو گئي ہے اور کمانڈروں کی شہادت سے یہ حکمت عملی تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔(3)
"سوچ" کو قتل نہیں کیا جا سکتا
غالبا صیہونیوں کو بھی معلوم ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کی اسٹریٹیجی، ذہنوں اور دلوں میں جڑ پکڑ چکی سوچ اور فکر کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود شاید ان کے پاس بوکھلاہٹ کی وجہ سے مزاحمت کے خلاف "ڈرٹی وار" کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر قتل کی پالیسی کو جاری رکھنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ مصر کی قومی دفاع کی کونسل کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل ابراہیم عثمان ہلال کہتے ہیں: "غاصب صیہونی، قتل، جاسوسی کی اطلاعات اکٹھا کرنے، نفسیاتی جنگ، ہوائي، توپخانے اور اسپیشل زمینی فورسز کی فائرنگ کی طاقت کے ذریعے حماس کو سوچ، جدت عمل اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کا قتل، اسرائيل کے لیے ایک فوجی کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب تک سوچنے، کمان سنبھالنے اور قیادت کرنے کے لیے افراد موجود ہیں، رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل سے، مزاحمت ختم نہیں ہوگي۔"(4)
وہ سبق جو صیہونیوں کے لیے کبھی عبرت نہیں بنے
صیہونی حکومت کے رویے اور مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں اس کے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کی ہے۔ ماضی کے واقعات گواہ ہیں کہ صیہونی جس چیز میں اپنی فتح سمجھتے تھے، اس میں انھیں شکست اٹھانی پڑی۔ مثال کے طور پر سنہ 1982 میں جب صیہونی حکومت نے بیروت کا محاصرہ کر لیا جس کی وجہ سے پی ایل او کے مجاہدین کو لبنان سے نکل کر تیونس جانا پڑا تو اس پر صیہونیوں نے فتح کا احساس کیا لیکن یہ موہوم احساس کبھی بھی صیہونی حکومت کے لیے امن و سلامتی کا سبب نہیں بن سکا کیونکہ اس واقعے کے بعد ہی لبنان میں ایک مزاحمتی گروہ کی حیثیت سے حزب اللہ کی تشکیل ہوئي اور وہ صیہونیوں کی خوش خیالی سلب کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن گئی۔ دوسری مثال جنین کیمپ کے محاصرے اور انتفاضۂ دوم کے دوران سنہ 2000 میں اسے تباہ کر دینے کی ہے۔ جنین میں اس تشدد آمیز اور وحشیانہ پالیسی پر عمل درآمد کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئي سال بعد جنین، غرب اردن میں مزاحمت کے جانبازوں کے اصل مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بنابریں حماس کے رہنماؤں کا قتل، اسرائيل کو فتح نہیں دلا سکتا جس طرح سے کہ عزالدین القسام، ابو جہاد، ابو علی مصطفیٰ، شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز الرنتیسی، صالح العاروری اور اسماعیل ہنیہ کا قتل، حماس کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت شاید فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کو قتل کر کے ایک وقتی فتح حاصل کرلے لیکن آخر میں اسے شکست اٹھانی ہی پڑے گی۔ اسی بات کی طرف لبنان کی تجزیہ نگار زینب الطحان اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: "شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ جیسے رہنماؤں کے قتل کے بعد بھی حماس زندہ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ صیہونیوں نے کمانڈروں کو قتل کر کے ٹیکٹکل طور پر ایک وقتی نتیجہ حاصل کر لیا لیکن اسٹریٹیجی کے لحاظ سے انھیں شکست ہوئي ہے۔"(5)
جب ہم مذکورہ تمام پہلوؤں کو، حماس کے رہنماؤں کے قتل کے بعد اس کی صورتحال کے سلسلے میں ایک ساتھ رکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا ہے: "حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي۔"(6)
5 https://www.alahednews.com.lb/article.php?id=75217&cid=185