سلیمانی

سلیمانی

Saturday, 18 October 2025 07:10

بانٹنا سیکھیں

خدا کے بندو۔۔۔
یہ شان و شوکت،
یہ مال و دولت،
یہ بنگلہ، یہ گاڑی، یہ سونا، یہ چاندی،
یہ عزت، یہ شہرت، یہ طاقت۔۔۔
یہ “میں”، یہ “میرا”، یہ “میری” — سب وہم ہے،
فریب ہے، غفلت ہے۔

یہ سب تمہارا نہیں۔۔۔
یہ امانت ہے۔۔۔۔۔۔
اور تم اس کے امین ہو۔۔۔۔۔
تم اس کے نگہبان ہو۔۔۔۔۔۔۔

اللہ نے تمہیں یہ شرف بخشا ہے کہ دوسروں کا لقمہ تمہارے رزق میں رکھا۔۔۔۔۔۔۔
یہ عزت تمہیں اس لیے دی گئی کہ تم الہیٰ سنت کو زندہ کرو۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ تمہارے پاس ہے، وہ تمہارا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تم وسیلہ ہو۔۔۔۔۔۔ ذریعہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ مقسم ہو۔۔۔۔۔۔۔
تم نے پہنچانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ روکنا نہیں۔۔۔۔۔۔۔

یہ بہاؤ ہے۔۔۔
یہ گردش ہے۔۔۔
دامن بچاؤ ۔۔۔۔۔۔
احتیاط کرو۔۔۔۔۔۔۔ بچ نکلو۔۔۔۔۔۔
کہیں احساسِ مالکیت غالب نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔
یہ وہم ایک خوبصورت فریب ہے، جو سب کچھ نگل لیتا ہے۔۔۔۔۔۔

فرعون کا اپنا کیا تھا؟
اسی دھوکے نے اسے نابود کیا۔۔۔۔۔۔
قارون کی “مالکیت” کہاں گئی؟
شدّاد اور اس کی بلند و بالا عمارتیں کہاں گئیں؟
جاتے وقت سکندر کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔۔۔۔۔

مت سمجھو کہ تم مالک ہو۔۔۔۔۔۔۔
مالک تو وہی اکیلا ہے۔۔۔
جو دینا بھی جانتا ہے۔۔۔۔۔ اور لینا بھی۔۔۔۔۔۔۔
تم صرف واسطہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
امانت پہنچاؤ۔۔۔۔۔۔۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تمہارا امتحان ہے۔۔۔۔۔۔
یہی تمہاری شرافت۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی انسانی پیمانہ۔۔۔۔۔۔۔

خود سے ہمسائے کی خبر لو،
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکا سو جائے۔
کبھی سفید اجلے لباس کے پیچھے چھپی خاموشی اور بے بسی کو بھی پڑھو۔۔۔۔۔۔۔
اپنوں کی خاموشی کو زبان دو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دور آزمائش کا دور ہے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بنا دعوت کسی کو کھانا کھلاؤ۔۔۔۔۔۔ بنا مانگے کسی کو لباس پہناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی یتیم کو پناہ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی مقروض کا ہاتھ بٹاو۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقت آزمائش مفلس کی نہیں صاحبِ ثروت کی ہے

یاد رکھو۔۔۔
جب تم بانٹتے ہو تو تم دیتے نہیں۔۔۔
درحقیقت لوٹاتے ہو۔۔۔۔۔۔
وہی لوٹا رہے ہو جو تمہیں عارضی طور پر دیا گیا۔۔۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
رزق کے ساتھ ساتھ احساسات بھی بانٹو۔۔۔۔۔
مسکراہٹ بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔ وقت بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔ محبتیں بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔
کہ شاید تمہارے بانٹنے سے کسی کی اداسی کم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی امید جاگ اٹھے۔۔۔۔۔
کسی کا دل پگھل جائے اور تمہارے حق میں دعا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
لہٰذا بانٹنا سیکھو۔۔۔
کہ یہی امانت کا حق۔۔۔۔
اور یہی بندگی کی معراج ہے
 
 تحریر: ساجد علی گوندل
 

یت اللہ محسن فقیہی کے دفتر میں منعقدہ درس اخلاق میں حجت الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے سورۂ انفال کی آیت نمبر 45 "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" کی تفسیر پیش کرتے ہوئے ایمان میں ثبات اور ذکرِ الہی سے غفلت کے اسباب کو بیان کیا۔

انہوں نے جنگِ اُحد کے پس منظر میں نازل ہونے والی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا: فلاح اور رستگاری کی پہلی شرط "ثبات" ہے جو قول، عمل اور دل تینوں میدانوں میں استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر سے بالاتر درجہ رکھتی ہے اور قرآن و احادیث میں اسے غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر رفیعی نے تاریخ اسلام کی چند نمایاں شخصیات جیسے زبیر، حجر بن عدی، عمر بن حمق اور میثم تمار کی مثال دیتے ہوئے کہا: دینی اور ولائی موقف پر ثابت قدم رہنا ایمان کی علامت ہے۔ زیارت عاشورا میں "ثبّت لی قدم صدق" کا دو بار تکرار ہونا بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ راہِ حق میں استقامت سب سے اہم صفت ہے۔

انہوں نے ذکرِ الہی میں رکاوٹ بننے والے عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا: شیطان کا نفوذ، مال و اولاد کی مشغولیت، جس کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ..." اور لمبی آرزوئیں اور لہو و لعب جیسے فحش موسیقی اور قمار بازی انسان کو یادِ خدا سے غافل کر دیتے ہیں۔

قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد عبرانی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فلسطین میں اسلامی مزاحمت خاص طور پر حماس کے غیر مسلح ہونے پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ اس وقت تقریباً تمام اسرائیلی تجزیہ کاروں اور سابقہ سیکیورٹی عہدیداروں کے دریان اس تلخ حقیقت کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا محض ایک وہم ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ خبردار کر رہے ہیں کہ حماس سے متعلق زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے غزہ جنگ کے بعد کے لیے بنائے جانے والا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اس بارے میں شاباک کے سابق افسر ایلا لوتان نے کہا: "جو بھی یہ سوچتا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دے گی وہ شدید وہم کا شکار ہے۔" اس کے بقول غزہ میں آزاد ہونے والی فلسطینی قیدیوں کے پرتپاک استقبال نے ثابت کر دیا ہے کہ حماس اب بھی طاقتور اور اثرورسوخ کی حامل ہے۔
 
ہتھیار، اسلامی مزاحمت کا تشخص
غزہ کی گذشتہ جنگوں میں حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حالیہ جنگ کے بعد نہ صرف اپنا فوجی اور سیکورٹی ڈھانچہ محفوظ رکھا ہے بلکہ میدان جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات، عوامی حمایت، زیر زمین سرنگوں کے پیچیدہ نیٹ ورک، مقامی سطح پر ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور نامنظم جنگ کی جدید حکمت عملیوں کی مدد سے نہ صرف غاصب صیہونی فوج کا مقابلہ کیا ہے بلکہ ان پر برتری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ حماس کی ڈیٹرنس پاور میں نہ صرف کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ دباو اور چند سالوں پر مبنی محاصرے کے باوجود بڑھی بھی ہے۔ تل ابیب نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز سنٹر (INSS) سمیت مختلف اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل حماس کی فوجی طاقت اور کمانڈ لائن کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
 
اسرائیلی فوجی ذرائع اس حقیقت کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ حماس کو نہ ہی رضاکارانہ طور پر اور نہ ہی طاقت کے زور پر غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حماس کی کامیابی کا راز مذہبی سوچ اور اعتقادات میں بھی پوشیدہ ہے۔ یہ گروہ اپنے ہتھیاروں کو صرف ایک عارضی ذریعے کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی اعتقادی اور مذہبی تشخص کا حصہ بھی جانتا ہے۔ حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کی نظر میں غیر مسلح ہو جانے کا مطلب خود کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارنیگی اور چیٹم ہاوس جیسے متعدد مغربی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اس بات پر زور دیتی ہیں کہ حماس کی نظر میں ان کے ہتھیار دشمن کے مقابلے میں مشروعیت اور سیاسی بقا کے ضامن ہیں۔ ان تحقیقاتی مراکز کی نظر میں کسی قسم کا بین الاقوامی سیاسی دباو یا ہتھکنڈہ حماس کو غیر مسلح نہیں کر سکتا۔
 
صیہونی ماہرین کی وارننگ
حماس کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنے اور غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے سب سے بڑے مخالفین صیہونی رژیم کے قریبی مشیران ہیں۔ مثال کے طور پر تل ابیب یونیورسٹی میں فلسطین اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مائیکل میلشتاین نے صیہونی چینل 12 سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش مستقبل میں سب سے بڑا سیاسی مائن فیلڈ ثابت ہو گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ ابہامات اور خطرات سے بھرا پڑا ہے اور حماس نے واضح طور پر غیر مسلح ہونے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے بقول یہ تنظیم کسی صورت بھی غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہو گی اور یہ مسئلہ اسرائیل کے اندر شدید بحران اور اسرائیلی معاشرے میں شدید مایوسی پھیل جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
 
میلشتاین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ قطر اور مصر سمیت عرب ممالک ایک درمیانہ راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کی بجائے اس کی جارحانہ صلاحیتوں کو کم کرنے پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اس کے بقول یہ حکمت عملی اس حقیقت کے حقیقت پسندانہ ادراک کا نتیجہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح ہونے پر مجبور کر دینا ناممکن ہے۔ میلشتاین نے مزید کہا کہ اسلامک جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ نے آزاد ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے غزہ میں موجودگی برقرار رکھنے پر زور دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تناو جاری رہے گا اور مزاحمتی گروہ اسرائیل کا مقابلہ جاری رکھیں گے۔ اسی طرح صیہونی چینل 12 کے فوجی تجزیہ کار نیر دوری نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو فوجی مرحلے سے نکل کر سیاسی مرحلے میں داخل ہو جانا چاہیے کیونکہ ہر غلطی ماضی جیسی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
 
چھپے رستم
غزہ میں جنگ بند ہو جانے کے بعد عزالدین قسام بٹالینز کے ان مجاہدین کی قدردانی کرنے کا وقت فراہم ہو چکا ہے جنہوں نے نظروں سے اوجھل ہو کر مزاحمت کا سلسلہ باقی رکھا ہے۔ اس بارے میں "سایہ یونٹ" حماس کی ملٹری ونگ کا وہ ماہر ترین یونٹ ہے جس کے مجاہدین نے طوفان الاقصی آپریشن میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس یونٹ نے انتہائی کٹھن اور خطرناک حالات میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت کی ذمہ داری کامیابی سے انجام دی اور صیہونی رژیم سے ڈیل کرنے کے لیے ان یرغمالیوں کو حماس کے قبضے میں رکھا۔ یہ یونٹ ماہر ترین اور اعلی ترین تربیت کے حامل مجاہدین پر مشتمل ہے جنہوں نے جنگ کے دوران صیہونی رژیم پر اپنی انٹیلی جنس برتری بھی ثابت کر دیا ہے۔ اس یونٹ کی بنیاد 2006ء میں اسرائیلی فوجی گیلعاد شالیط کی گرفتاری کے بعد عمل میں آئی تھی۔

تحریر: سید رضا حسینی

جب افراد باہمی تعلقات اور اجتماعی روابط قائم کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں وحدت و اتحاد کی روح پھونک دی جاتی ہے، اور وہ تفرقے اور انتشار سے محفوظ رہتے ہیں۔

اگر کسی معاشرے میں تعاون اور باہمی مدد کا جذبہ غالب آجائے تو اس سے اس معاشرے کی مادی و روحانی ترقی کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔ تعاون اور اشتراکِ عمل ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی ہمہ جہتی ترقی، عروج اور خوشحالی کا ضامن بنتا ہے۔ اسلام نے اسی لیے انفرادی کاموں کے مقابلے میں اجتماعی کاموں کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اجتماعی کام زیادہ مضبوط، دیرپا اور مؤثر ہوتے ہیں۔ جب افراد کی توانائیاں یکجا ہوتی ہیں تو ایک عظیم قوت پیدا ہوتی ہے جو ہر مشکل کام کو آسان بنا دیتی ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: «مَنْ أَصْبَحَ لاَ يَهْتَمُّ بِأُمُورِ اَلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ، وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ» "جو شخص مسلمانوں کے امور کی بہتری میں دلچسپی نہ لے، وہ ان میں سے نہیں ہے، اور جو کسی مسلمان کی مدد کے لیے پکار سن کر بھی اس کی فریاد کو لبیک نہ کہے، وہ مسلمان نہیں۔

نیکی اور سماجی بھلائی کے کاموں میں مخلصانہ اور سرگرم شرکت ہر مؤمن پر لازم ہے۔ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی مفادات یا حتیٰ کہ ایک مسلمان کے کام کی ترقی کے بارے میں غیر حساس ہو اور صرف اپنے ذاتی مفاد کا سوچے، وہ حقیقی مسلمان نہیں۔

مثال کے طور پر، انسانی معاشروں کا ایک مستقل اور تکلیف دہ مسئلہ طبقاتی تفاوت ہے — ایسا فرق جو معاشرے کے افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے: ایک طرف وہ محروم اور نادار لوگ ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور لباس تک سے محروم ہیں؛ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دولت و آسائش میں اس قدر غرق ہیں کہ انہیں اپنے مال و دولت کا حساب تک معلوم نہیں۔

ایک صالح اور الٰہی قدروں پر مبنی معاشرہ وہ ہے جہاں تمام افراد، اپنی استعداد اور حیثیت کے فرق کے باوجود، خدائی نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکیں، اور ان میں ہمدردی، رحم اور تعاون کا جذبہ رائج ہو۔ کیونکہ اجتماعی زندگی کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر کے کمال اور کامیابی کی راہ آسان بنائیں۔

اسلام نے طبقاتی فرق مٹانے کے لیے وسیع پروگرام وضع کیا ہے، جیسے سود کی حرمت، اسلامی مالیاتی نظام (زکوٰۃ و خمس وغیرہ)، انفاق، وقف، قرضِ حسنہ اور مالی تعاون کی ترغیب۔ تاہم ان تمام اقدامات میں سب سے مؤثر طریقہ غرباء اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تعاون اور باہمی ہمدردی ہے۔

آئندہ نوٹس میں "تعاون" کے مفہوم، اس کی اہمیت، اور قرآن و احادیث میں اس کے نظریاتی و فکری پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔/


امریکہ نے ایک طرف وینزویلا کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ نیٹو نے اس محاصرے میں شدت لانے کے لیے پیچیدہ ترین مشترکہ نفسیاتی آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ نے عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت سے مجبور ہو کر اور غاصب صیہونی فوج کو مزید تباہ حالی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں امن کا نعرہ بلند کیا ہے اور یوں سفارتی طریقے سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کو ختم کر کے وہاں پوری طرح قبضہ جمانے کے درپے ہے۔ اس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے امن کا مشترکہ ڈرامہ رچانے کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور نوبل انعام ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے لاطینی امریکہ کی ایک سیاسی شخصیت کو دے دیا گیا ہے۔
 
یہ شخصیت وینزویلا سے تعلق رکھنے والی سیاست دان ماریا کورینا ماچادو ہے جو مغرب نواز ہے اور وینزویلا کے امریکہ نواز حلقوں میں بھی زیادہ جانی پہنچانی نہیں تھی لیکن نوبل انعام پانے کے بعد عالمی میڈیا میں صفحہ اول پر اس کا نام دیکھا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ وینزویلا میں ٹرمپ کے مدنظر مقاصد کے حصول کی کوشش کرے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند ہفتوں سے منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے بہانے وینزویلا کے قریب بھاری فوجی موجودگی ایجاد کر رکھی ہے اور یوں سمندر کے ذریعے وینزویلا کا فوجی اور اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد وینزویلا میں امریکہ مخالف حکومت کو سرنگون کرنا ہے اور قانونی طریقہ کار سے برسراقتدار حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے گرانا ہے۔
 
اس مقصد کی تکمیل کے لیے وینزویلا میں حکومت مخالف امریکہ نواز سیاست دان ماریا کورینا ماچادو کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے سربراہ بورگن واتنے فریدنس نے ان کا نام اعلان کرتے ہوئے اسے "سیاسی مخالفین جو شدید باہمی اختلافات کا شکار تھے کو متحدہ کرنے والی اہم شخصیت" کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ یوں اس نوبل انعام کے ذریعے اسے وینزویلا میں امریکہ اور یورپ نواز دھڑے کے سربراہ کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت مخالف مہم چلانے کی سربراہی بھی اسے تھما دی گئی ہے۔ یہ بدامنی اور سیاسی ہلچل امریکہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا بھی بہت اچھا بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وینزویلا کے اپوزیشن لیڈران پہلے سے ہی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔
 
کورینا ماچادو جو خود کو حکومت مخالف رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے عوام سے بہت کم رابطے میں ہے اور اس سال جنوری سے اب تک انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا لیکن جمعہ کے روز نوبل انعام دریافت کرنے کے بعد یکدم منظرعام پر آ گئی ہے۔ گذشتہ برس بھی یورپی یونین نے اسے اور اس کے دیگر مغرب نواز ساتھی ایڈمنڈو گونزالس کو انسانی حقوق کے "ساخاروف انعام" سے نوازا تھا اور اس طرح ان کی شخصیت میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گونزالس کو جب الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ حکومت کی طرف سے دباو کا بہانہ بنا کر اسپین چلا گیا اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عام طور پر مغرب کے جاسوسی ادارے جب مختلف ممالک میں مغرب نواز حلقوں کو مغلوب ہوتا دیکھتے ہیں تو رجیم چینج کے لیے اپوزیشن لیڈران کا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
وینزویلا میں بھی سی آئی اے اور پینٹاگون کی ناکامی کے بعد موساد میدان میں کود پڑی اور ایران کے انقلاب مخالف دھڑوں اور سابق شاہ کے حامیوں کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ ماریا کورینا ماچادو کی شخصیت کا پرچار کریں۔ اس تناظر میں ماچادو کو واشنگٹن میں منعقدہ سالانہ چوتھی کانفرنس میں خصوصی دعوت بھی دی گئی تھی۔ اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر رضا پہلوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور وینزویلا کو دنیا کے جنوبی حصے کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا تھا اور یوں وقت سے پہلے ہی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کا اپنا مقصد فاش کر دیا تھا۔ اس نے کہا: "وینزویلا کی آزادی کے دنیا بھر پر اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ دیگر معاشروں جیسے ایران کے بہادر عوام کے لیے مقدمہ ثابت ہو گا۔ ہمارا مشن مشترکہ ہے اور ہم فتح یاب ہوں گے۔"
 
البتہ توجہ رہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2021ء میں روس سے دیمتری موراتف کا انتخاب، 2022ء میں بیلاروس سے ایلس بیالیاتیسکی کا انتخاب اور 2023ء میں ایران سے نرگس محمدی کا انتخاب اور اس سے پہلے 2003ء میں ایران سے شیرین عبادی کا انتخاب یہی ثابت کرتا ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں نوبل انعام کو اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو انارکی پیدا کرنے اور کسی ملک میں مغرب کی فوجی یا سیاسی مداخلت کے لیے زمینہ فراہم کرنے کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نوبل انعام کی کمیٹی میں اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد بھی دراصل اس انعام کا اعتبار اور حیثیت بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو منفور کر رکھا ہے۔

تحریر: محمد زمانی

 ارنا کے مطابق عرب دنیا کے سیاسی امور کے ماہر ممتاز مبصر حسن حردان نے غزہ میں جنگ بندی سمجھوتے کے تجزیئے میں کہا ہے کہ فلسطین کے مقاومتی محاذ نے اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی مدد سے پائیداری سے کام لیا اور اس نے اسرائیلی حکومت کو اس کے اسٹریٹیجک اہداف میں ناکام بنادیا۔

 انھوں نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ تل ابیب دو سال کی جنگ میں حماس کو نابود نہ کرسکا اور بالآخر اس کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے پر مجبور ہوگیا۔

حسن حردان نے جنگ بندی سمجھوتے کے پہلے مرحلے کے بارے میں  اپنی تجزیاتی رپورٹ میں جو لبنان کے روزنامے البنا میں شائع ہوئی ہے، لکھا ہے کہ یہ مرحلہ، جنگ بندی، سبھی زندہ اسرائیلی جنگی قیدیوں کی رہائي ( اور مردہ جنگی قیدیوں کے جنازے کی تحویل) اور اس کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی آزادی، غزہ سے قابض افواج کی جزوی پسپائی اور غزہ میں امداد رسانی پر مشتمل ہے۔  

صیہونی حکومت کے ساتھ حماس کے معاہدے کے بعد خطے کی نئی صورتحال کا اندازہ موجودہ حالت کی روشنی میں لگایا جانا چاہیے۔ خطے کی وہ طاقتیں ایک نئی پوزیشن میں آگئی ہیں جنہیں محدود اور ختم کرنے کے لئے آگ بھڑکائی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب ہوا یہ ہے کہ اب اسرائیل مشکل دنوں سے گزر رہا ہے۔ حماس جسے تباہ ہونا تھا، ٹرمپ کے ساتھ دو سال کے مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی شرائط طے کر رہی ہے اور ٹرمپ اور نیتن یاہو ان شرائط کو فتح کے اشاروں کیساتھ بھی قبول کر رہے ہیں۔ حماس ایک برتر طاقت اور نئی عالمی صورتحال کا شروع کنندہ ہے۔

ایک ایسی صورتحال جو اسرائیل کے لیے ناقابل تلافی ہے۔ صیہونی ریاست کے ناجائز سمجھے جانے کے زندہ لمحے میں واپسی ہی اسرائیل کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، جو عربوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر گامزن تھا۔ اور سنوار شہید اب امریکی اور یورپی نوجوانوں اور نوعمروں کا ہیرو بن چکا ہے۔ لبنان پر اسرائیل اور سعودی عرب کے تمام دباؤ کے باوجود حزب اللہ کو غیر مسلح کرنیکی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔ اتفاق سے یہ واقعہ شیخ نعیم قاسم کی برتر حیثیت دکھانے کا سبب بنا، اور حزب اللہ کی افواج نے سید حسن نصر اللہ کے بعد اپنے نئے کمانڈر کو ولولہ تازہ بخشا ہے۔

اب حزب اللہ کی افواج کے یقین اضآفہ ہی ہوا ہے کہ نیا کمانڈر شہید حسن نصر اللہ کے مکتب میں ہی پروان چڑھا ہے اور وہ مشکل حالات اور بحرانوں میں حزب اللہ کی قیادت کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب، جو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ کا اصل کردار تھا، اب شیخ نعیم  قاسم کی جانب سے باوقار طور پر یکجہتی کا پیغام وصول کرنے والوں میں سے ہے۔ لبنانیوں نے بھی جان لیا ہے کہ حزب اللہ اور لبنانی فوج اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے میں لبنانی عوام کے دو دوست اور ساتھی ہیں۔ ایک اور اقدام، جس میں اسرائیلیوں نے ایران کے ساتھ جنگ ​​بھی شروع کر دی لیکن یہ ایران ہی تھا جس نے یہ شرط رکھی کہ اسرائیل ایرانی حملوں کے آخری دور کا مشاہدہ کرے گا۔

اس شرط کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ جنگ کو روکنے کے لیے آخری ضرب ایران لگائے گا اور صیہونی ریاست کوئی ردعمل ظاہر نہیں کریگی۔ جنگ کے بعد دنیا میں ایران کا مقام اور اختیار ہی بدل گیا۔ دنیا نے جان لیا کہ اگر دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں ایران کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہیں تو ایسا کرنیکی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن یمن نے عظیم سرپرائز دیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت کے پہلے ہی دنوں میں یمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا، لیکن اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اور اب یمن نے اکیلے ہی اسرائیل کو بے بس کر دیا ہے۔ وہ یمنی میزائلوں کو نہیں روک سکتے، وہ یمنیوں پر حملہ نہیں کر سکتے۔ وہ یمن کے زیر اثر سمندر کو عبور نہیں کر سکتے۔

بنیادی طور پر یمنیوں نے دنیا کو ایک نئے طرز زندگی سے متعارف کرایا ہے، جس کا پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر مزاحمتی محاذ شام کو کھو بیٹھا ہے، تو اب ان کے پاس یمن ہے، جس نے باب المندب کو اسرائیل کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔ ترکی کو بھی شام میں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ گزشتہ مہینوں کے دوران شام میں ترکی کے ٹھکانوں پر اسرائیلیوں نے کم از کم 4 بار بمباری کی ہے۔ ترکوں کو احساس ہے کہ وہ شام میں اہم کھلاڑی نہیں ہیں اور انہیں مزاحمتی محاذ کے ساتھ اپنے معاہدے سے غداری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد خطے کے عرب ممالک نے بھی اپنے ہتھیار تھوڑے سمیٹ لیے ہیں۔

انہیں احساس ہے کہ اگر ضروری ہو تو عزت کی حفاظت کے لیے اس بے تکی عبری مغربی دوستی کا زیادہ فائدہ نہیں۔ سعودی عرب سب سے زیادہ پریشان ہے۔ شاید اسی لیے امریکہ سے زیادہ پاکستان سے دوستی کو ترجیح دی گئی ہے۔ روسیوں اور چینیوں کو بھی احساس ہے کہ اگر خطے میں اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ ایران کا تعلق کمزور ہوا تو میز پر اگلا کیس ان کا اپنا ہو گا۔ ویسے بھی روسیوں نے نیٹو کے مزید اثر و رسوخ کو روک رکھا ہے۔ ایران نے اسرائیل کو کنٹرول کیا ہے۔ چین امریکہ کو بائی پاس کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ عالمی کمانڈ روم بدل رہا ہے اور ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ایران مستقبل کے لائحہ عمل میں ایک بڑا کھلاڑی ہوگا۔ یہ سب حماس کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔
 
 
اسلام ٹائمز

((آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ))(سورة الحديد ـ 7)

ترجمہ : تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔

قرآن کریم کی تعلیمات میں انفاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور کیوں نہ ہو؟ اس لئے کہ انفاق تو اجتماعی کفالت کا ضامن ہے اور ایک معاشرے کے امن و سکون کا معیار و  قانون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اجتماعی عدل و انصاف کے قیام کا نقطہ آغاز بھی ہے ۔ قرآن کریم نے ایک انسان کے اندر انفاق کی عادت پیدا کرنے کی غرض سے وہ تاکید کی ہے جس میں کسی کو شک کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی ۔ قرآن کریم نے مال کو خدا کا مال اور لوگوں کو اس مال میں اللہ کے عیال قرار دیا ہے ۔ لہذا یہ لوگ اس مال سے عام فائدہ حاصل کرنے کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس مال کا کسی کے پاس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا مالک مطلق ہو ۔ اور اس کا جمع کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں آدمی اس مال میں خدا کا خلیفہ ہے اور اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اس طرح سے خرچ کرے جس میں اس کا مالک حقیقی راضی ہو ۔ کیونکہ آدمی تو اس مال میں صرف امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا اسلام میں مال کے لحاظ سے یہ عظیم نظریہ ابھرتا ہے اور یہ کہ یہ مال انسان کی انفرادی اور اجتماعی عزت والی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ جو جی چاہے اپنی مرضی کریں اور اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے مال کو جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ اگرچہ کہ اولی یہ ہے کہ یہ مال اس کی سعادت و بہبود میں استعمال ہو جس کو اس محنت کر کے کمایا اور جمع کیا ہے۔ وہی شخص اپنے مال کے تصرف میں حق رکھتا ہے اور شارع مقدس نے بھی اس کے مذکورہ حق کو بیان فرمایا ہے ۔ البتہ اسی نے یہ حق بھی رکھا کہ اس مال سے ہی فقراء اور محتاجوں کی نیازمندی بھی دور کی جائے گی۔ یعنی دولتمندوں اور امیروں کے مال میں ہی محتاجوں اور فقراء کا حق رکھا تاکہ وہ ان ضرورتمندوں کا بھی حق ادا کریں ۔ قرآن کریم کی آیت میں مذکور حکم اسلامی کی بہتریں تاکید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان بھی  ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لم نُبعَث لجمع المال ولكن بُعِثنا لإنفاقه."؛ ہم مال جمع کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ مال انفاق کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اگر جمع مال کو ہی مقصد بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت صرف امیروں اور دولت مندوں ہی کے ہاں ڈھیر لگ جائے جس کا  نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی گردش رک جائے گی اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ بنے گا تقسیم و گردش کا سلسلہ منجمد ہوجائے گا۔ جس سے معاشرہ بد حالی اور بحران کا شکار ہوجائے گا اور صرف ایک خاص گروہ کے ہاتھوں میں یہ مال جمع ہوکر رہ جائے گا جس کے نتیجے میں یہ لوگ  عوام  پر ظلم و استبداد بھی کریں گے اور مال کی ذخیرہ اندوزی بھی  کریں گے۔ جس سے معاشرہ ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔  جمع مال و ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے رونما ہونے والے سماجی اور معاشرتی بحران جو تاریخ میں پیش آئے ہمارے مدعا کے  ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔

اصول و قاعدہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی بادشاہی کا مالک ہے :

((قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ  إِنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(سورة آل عمران ـ 26)،

ترجمہ : کہد یجیئے کہ اے خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔

اسلام دولت  کو بھی اس کے مالک کی طرح اللہ کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں دونوں کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے ۔لہذا آدمی دولت کا اعتباری اور قراردادی مالک ہے ۔اس اعتباری مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مال و ملکیت میں جس طرح کا بھی تصرف کرنا چاہے کرے۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے حقوق ضائع کیوں نہ ہوجائیں۔ غرض اس طرح کا مطلق اختیار آدمی کو نہیں دیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے ایمان کو انفاق مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور  ایمان کی نشانی انفاق مال قرارر دیاگیا اور دوسری جانب صاحب مال و دولت کو اس مال میں خلیفہ کہا گیا  ہے۔ غرض یہ کہ مال کو شرع مقدس کی جانب سے بتائے ہوئے مقامات پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ نزدیک کا رابطہ ہے۔ اس سے مال خرچ کرنے والے کو اجر و ثواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں بہترین بات یہ ہے کہ قرآن کریم اس انفاق کے لئے کوئی ایک مقام معین نہیں کرتا ہے جس طرح سے خمس و زکات اور صدقہ وغیرہ کا مصرف معین ہے۔ بلکہ قرآن نے اس راستے کو عام رکھا تاکہ آدمی کسی بھی جگہ انفاق کرسکے جو شرعی لحاظ سے مباح ہوں۔ اگرچہ حصول کے لحاظ سے راستے معین کئے ہین مانند تجارت اور مال کو گردش میں رکھنا اس سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔ بہر کیف قرآن کریم کی آیت انفاق میں مال کو انفاق کرنا مقصود ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اس کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور مال کے انفاق سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں منجملہ محتاجوں  اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں اور اچھے انداز سے ان کمزوروں کی زندگی  کا نظام چلنے لگتا ہے ۔ یوں عمومی معاشرتی کفالت کا بند وبست بھی ہوجاتا ہے ۔ علاوہ اس کے مختلف انواع و اقسام کی فضول خرچیوں  اور اسراف کا بھی سد باب ہوجاتا ہے۔

نیز یہ کہ انفاق  سے اس کے مالک کو بڑا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔یہ وہ ثواب ہے جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مؤمنین کو جنت کا دیا ہے۔ خاص طور سے اس طرح کا انفاق معاشروں  میں ظلم و فساد کو بھی روک دیتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فسادات یقینا غربت و افلاس کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کے نظام اقتصادی میں اس نظریہ پر تاکید کی جاتی  ہے " جو ملک و معاشرہ اقتصادی اعتبار سے فقیر ہے اس میں مال و دولت کا ایک جگہ جمع ہونے کے بجائے گردش میں ہونا اس ملک کی معیشت میں بہبودی کا باعث ہوتا ہے ۔" اور لوگ تلاش و کوشش میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جس سے بدیہی طور پر لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور ان کی ضروریا ت پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی حالت میں بہتری آجاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ  کہ انفاق  ہر اس ملک و معاشرے کے لئے ضروری اور  کلید ی حیثیت رکھتا ہے جو اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے ۔ پس یہ جو تاکید کی جاتی ہے کہ دولت مندوں اور امیروں  کو اپنا مال انفاق کرنا چاہئیے اس سےمراد عام ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی دولت کو گردش میں رکھیں اگرچہ مارکیٹ کے ذریعے سھی جس سے معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے اور ایک معاشرے کے اندر کفالت کا ضروری مرتبہ محقق ہوجاتا ہے ۔ یوں بنیادی ترین اقتصادی اور معیشتی بہبودی قائم ہوجاتی ہے ۔

انسان مرد ہو یا عورت ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف تہذیبوں میں عورت کو ظلم و جبر کا نسبتاً زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ عورت پرپابندیاں اور ناانصافیاں مردوں سے کہیں زیادہ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ عورت کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق اسلام سب سے زیادہ انصاف پر مبنی اور عادلانہ نظام رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عورت کے ساتھ انصاف کرے اور اس پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کو ختم کرے۔ ماضی اور حال میں اسلامی معاشروں میں عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظالمانہ رویہ اور اس کے ساتھ کمتر درجے کا سلوک اسلامی تصور کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس صورتِ حال کا سبب خود اسلام ہے؟

چلیں اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ یہاں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد قرآنِ کریم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اہلِ بیتؑ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام میں عورت خلقت اور انسانی وقار کے لحاظ سے مردوں کے بلکل برابر قرار دیا۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)، النساء:1

اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

جہاں تک شرعی احکام کی بات ہے تو اللہ کا خطاب مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر اور عمومی طور پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)، الأحزاب: 35

یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

یہ برابری صرف انفرادی فرائض تک محدود نہیں، بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں جنہیں فرض کفائی کہا جاتا ہے کو بھی شامل ہے بلکہ یہاں معاملہ اور بھی واضح ہے۔ ان میں سب سے نمایاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، التوبة: 71

اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اسی طرح اجر میں بھی دونوں برابر ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، (النحل: 97 )جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے خلقت، شرعی احکام اور جزا کے حساب سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں، بعض احکام میں عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی خصوصیات کے مطابق کچھ رعایت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابیہ اُمَیمہ بنت رُقَیقہ ؓ سے روایت ہے کہ:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جس قدر تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو۔

قرآنِ کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے نتیجے میں مسلمانوں نے عورت کو برابری کو حقوق کے دیے۔جہاں مرد کے ہر حق کے ساتھ عورت کا بھی ایک حق ہے۔ حبر امہ،حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:بے شک، میں اپنی بیوی کے لیے زینت کرتا ہوں، جیسے وہ میرے لیے زینت اختیار کرتی ہے۔یہ کیسے نہ ہوتا ؟ جب کہ قرآن نے خود اس کی تعلیم دی ہے؟ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

(وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، البقرة: 288

اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو ایک درجہ دیا  ہےوہ درحقیقت "قوامیت"کے معنی میں ہے۔یہ خاندان کی سربراہی سے متعلق ہے اور اس کی بنیاد مرد کی سماجی تجربہ کاری پر ہے۔ ازدواجی زندگی ایک سماجی نظام ہے اور ہر نظام کے لیے ایک سربراہ ہونا ضروری ہے۔ یہ برتری کا مفہوم ہرگز نہیں رکھتا۔ یہ صرف ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔ قوامیت مساوات کو ختم نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کو اس کی فطری ساخت کے مطابق ذمہ دار بناتی ہے۔ اسی طرح عورت بھی ان امور کی ذمہ دار ہے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ارشاد ہے:

(كلكم راعٍ وكلكم مسؤول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راعٍ عليهم ومسؤول عنهم، والرجل راعٍ على اهل بيته وهو مسؤول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسؤولة عنهم.. الحديث) (مجموعة ورام)، "تم میں سے ہر ایک مسئول ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جو حاکم لوگوں پر مقرر ہے وہ ان کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے."  (مجموعة ورام، ج 1، ص 6)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنت نے اس قرآنی فہم کو بعثت کے آغاز اور ابتدائی اسلامی دور میں ہی عملی شکل دے دی۔ چنانچہ اسلام کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی ایک خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد علیہا السلام تھیں۔اسلام کی برکت سے عورت ایک بے حیثیت شے نہیں رہی، جس کے تمام امور میں مرد ہی فیصلہ کرتا تھا۔ اسلام نے عورت کو خودمختار شخصیت دی جو مالی معاملات میں خود فیصلے کر سکتی ہے، اپنی مرضی سے شریکِ حیات کا انتخاب کر سکتی ہے، گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور سماجی و اجتماعی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لے سکتی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

دو اہم عوامل اس تبدیلی کا سبب بنے۔

پہلا یہ کہ امت اپنی اصل قیادت سے دور ہو گئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصیاء اور ان کی عترت کی صورت میں تھی۔ ان کی جگہ قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جن کا اصل مقصد اپنی سلطنت کو وسعت دینا تھا، اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ان کی ترجیح نہیں تھی۔ چنانچہ فتوحات ہوئیں جن میں مختلف اقوام اور تہذیبیں اسلامی خلافت کے زیرِ سایہ آ گئیں، جس کے نتیجے میں اسلامی زندگی میں خالص اور غیر خالص (ملاوٹ شدہ) عناصر باہم گڈمڈ ہو گئے۔

دوسرا سبب یہ تھا کہ تہذیب کی ترقی، دولت کی فراوانی، علوم، فنون اور ادب کے فروغ کی وجہ سے مسلمانوں کی ثقافت پر آسائش ہو گئی اور عیش و عشرت کے اثرات نمایاں ہو گئے۔ یہ تبدیلی (عیش پرستی) مسلمانوں کو آرام طلب زندگی کی طرف لے گئی اور نتیجتاً اسلامی ریاست اپنی فوج اور طاقت کے لیے فارس، ترک اور دیلم کے افراد پر انحصار کرنے لگی۔ مؤرخ طبری عربوں  پر  اس عیش و عشرت کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"یہی وہ پہلا ضعف تھا جو اسلام پر طاری ہوا اور یہی پہلی آزمائش تھی جس نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔"(شرح نہج البلاغہ، ج 11، ص 12)

ان دو عوامل کے نتیجے میں ایک ایسا غیر عرب طبقہ ابھرا، جس نے اسلام کی تشریح اپنی ثقافتوں اور سماجی پس منظر کے مطابق کی۔ اس کا اثر مسلم معاشروں پر پڑا، خصوصاً جب تہذیبی زوال کے ادوار آئےتو اس کے منفی اثرات مسلمان عورت پر بھی پڑے۔خلفاء، امراء اور فوجی سرداروں کے محلات لونڈیوں اور باندیوں سے بھر گئے۔ حالانکہ ابتدائی اسلام میں مرد اور عورتیں باہم نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر بحث کرتے تھے کہ ہم میں سے جنت میں اعلی مقام پر کون ہوگا؟ حتیٰ کہ خواتین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آئیں اور کہا:"یا رسول اللہ! مرد آپ سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں ہمیں تعلیم دیں!"لیکن بعد میں یہ مسابقت عورتوں کے لیے صرف زینت و آرائش اور مردوں کو لبھانے تک محدود ہو گئی۔ یہاں تک کہ اسلامی دنیا میں لونڈیوں اور غلاموں کی منڈیاں قائم ہو گئیں!یوں عورت کی اصل حیثیت تبدیل ہوگئی اور مسلمان ان اعلیٰ قدروں سے دور ہو گئے جن کی طرف اسلام نے انہیں دعوت دی تھی۔ وہ دوبارہ جاہلی دور کی طرف پلٹ گئے۔ چنانچہ مسلمان عورت، جو مجاہد، عالمہ، راویہ حدیث اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی امین تھی کو محض ایک ایسی شخصیت میں تبدیل کر دیا گیا جو مردوں کی خواہشات کو پورا کرے۔ یہاں تک کہ بعض شعرا نے اس صورت حال کو یوں بیان کیا:

مجھ پر قتل و قتال (جنگ) لازم کر دیا گیا ہے.جبکہ خوبصورت عورتوں کے لیے دامن گھسیٹ کر چلنا مقدر ہے۔بعض نے اسے (شرم) کے طور پر بھی کہا۔اس (عورت) کو صرف قبر ہی ڈھانپ سکتی ہے۔میں نے کسی شریف آدمی کے لیے ایسی کوئی نعمت نہیں دیکھی...جیسے کہ کسی عورت (عورت ہونا) کی نعمت، جو قبر کے پردے میں چھپ جائے۔

ایک دوسرے شاعر نے کہا:

عظمت اور شرف کی انتہا یہ ہے کہ بیٹے زندہ رہیں اور بیٹیاں مر جائیں۔

قرآن مجید نکاح کو ایک مضبوط عہد قرار دیتا ہے، جو محبت اور رحمت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور سکون و رحمت کا ذریعہ بنتا ہے۔وہیں بعض فقہاء نے اپنے دور کے معاشرتی حالات کے زیرِ اثر ازدواجی تعلق کو مختلف انداز میں بیان کیا۔چنانچہ ابن القیم الجوزیہ اپنے زمانے کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"آقا اپنے غلام پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکومت کرتا ہے اور اس کا مالک ہوتا ہے اور اسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکمرانی کرتا ہے اور وہ اس کے اختیار اور حکم کے تحت ایسے ہوتی ہے جیسے قیدی ہے۔"(أعلام الموقعین، ج 2، ص 106)

اس سے اس دور کے معاشرتی رہن سہن کا پتہ چلتا ہے جو قرآن کی اصل تعلیمات سے مختلف تھا۔ جب جدید دور آیا اور مغربی یلغار نے اسلامی معاشروں پر بھی اثر ڈالا تو خواتین کے مغربی تصور کو مسلمان خواتین پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ لبرل سرمایہ دارانہ ماڈل تھا، جس میں عورت کو تجارتی جنس کے طور پر پیش کیا گیا، جس کی نسوانیت اور حسن کو بیچا جاتا ہے دوسرا یہ کہ اسے مرد کے مقابل سمجھا گیا۔عورت کی فطری خصوصیات حیا اور عفت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے بھی اس طرز زندگی کو اپنا لیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے منفی اثرات آج ہمارے معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔چنانچہ مسلمان عورت دو انتہاؤں کے درمیان پھنس کر رہ گئی:پہلا ماڈل: عورت کو ایک قیدی، مجبور اور الگ تھلگ رکھنے کا تھا، جیسے عورت ہونا عار ہو۔ اس نظریے کو سلفیت اور کچھ دیگر گروہوں نے اسلام کے نام پر رواج دیا۔دوسرا ماڈل: اس میں عورت کو بے حساب آزادی دی گئی اور مردانہ خصوصیات اپنانے پر مجبور کر دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دو انتہا پسند نظریات کے درمیان پھنس گئی:پہلا گروہ عورت کے کسی بھی حق کو تسلیم نہیں کرتا۔دوسرا گروہ کسی بھی قسم کی حد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری معاشرتی مشکلات کے ذمہ دار یہی دو انتہا پسند نظریات ہیں اور اسلام کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیشہ عورت کے لیے ایک متوازن اور معتدل ماڈل پیش کیا ہے، جو اسے اس کی اصل فطری حیثیت، وقار اور اس کے حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام نے موروثی روایات اور جاہلی رسم و رواج سے خود کو پاک رکھا کیونکہ ان پر واپس لوٹنا تہذیبی زوال کی علامت ہے۔

مقداد الربيعي

Wednesday, 08 October 2025 07:02

مسجد کوفہ

مسجد کوفہ مسجد الحرام، مسجد النبی، اور مسجد الاقصی کے بعد عالم اسلام کے چوتھی اہم مسجد ہے ۔اس مسجد کی عطمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کی بنیاد حضرت آدم (ع) نے رکھی اور اس کو وسیع قطعۂ زمین پر تعمیر کیا اور حضرت نوح (ع) نے طوفان کے بعد اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔

ابتداء اسلام میں حضرت سلمان فارسی رضوان الله تعالى عليه کی تجویز پر اس مسجد کی تعمیر کا دوبارہ اہتمام کیاگیا۔

حضرت علی (ع) نے بارہا اس مسجد میں نماز کے لئے قیام فرمایا،  اس کے منبر پر خطبے دیئے، بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا۔

جغرافیائی طور پر  مسجد کوفہ،نجف الاشرف کے صوبے میں واقع ہے، کوفہ مخصوصا اپنی  معتدل آب و ہوا، اچھی اور زرخیز زمین کی وجہ سے زیادہ ممتاز ہے۔ دریائے فرات اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔

مسجد کوفہ میں صحابیحضرت میثم تماررضوان الله تعالى عليه، مسلم بن عقیل عليه السلام، ہانی بن عروہ رضوان الله تعالى عليه، اور مختار ثقفی رضوان الله تعالى عليه،  کے مراقد واقع ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسجدمین بہت سارے انبیاء اوصیاء کرام علیھم السلام کے آرام گاہ بھی ہیں ۔

مسجد کی عمارت:

مسجد کوفہ کی لمبائی 110 میٹر اور چوڑائی 101 میٹر جبکہ اس کا رقبہ 11110 میٹر (اور بقولے 11162 میٹر) مربع ہے اور اس کو 10 میٹر اونچی دیواروں سے محفوظ بنائی گئی ہے۔ مسجد کی کھلی فضا کا رقبہ 5642 میٹر مربع اور اس کے شبستانوں کا رقبہ 5520 میٹر مربع ہے۔ اس مسجد کے ستونوں کی تعداد 187 اور میناروں کی تعداد 4 ہے جن کی اونچائی 30 میٹر ہے۔مسجد کوفہ کے دروازے 5 ہیں؛ جو "باب الحجہ (باب الرئیسی)، باب الثعبان، باب الرحمہ، باب مسلم ابن عقیل اور باب ہانی بن عروہ" ہے۔

مسجد کوفہ کے مقامات:

مسجد کوفہ میں بعض مقامات معلوم اور مشہور ہیں جو حسب ذیل ہیں

مقام رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مقام ابراہیم علیہ السلام، مقام آدم علیہ السلام، مقام خضر علیہ السلام ، مقام امام سجاد علیہ السلام، مقام امام صادق علیہ السلام، اور مقام امام مھدی عج اللہ فرجہ بھی ہیں۔

اسی طرح اس مسجد کے اگلے حصے میں ایک مقام ہے جہاں حضرت امام علی (ع) بیٹھ کر فیصلے سناتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات مین، مقام جبرئل علیہ السلام، اور دکۃ المعراج،جہاں شب معراج جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جارہے تھے، تو رسول اللہ (ص) نے خداوند متعال کی اجازت سے وہاں دو رکعت نماز پڑھی