سلیمانی

سلیمانی

ایکنا نیوز کے مطابق بین الاقوامی ویبنار بعنوان  «سچا وعدہ؛ ایرانی اقتدار اور تجاوز گر کی سزا»  سوشل پلیٹ فارم https://www.aparat.com/iqnanews/live پر منعقد ہوئی۔

 

عباس خمیار؛ یونیورسٹی آف ریلیجنز کے وائس چانسلر، باقر درویش؛ بحرین ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین، شیخ یوسف قاروت؛ سویڈن میں لبنانی شیعوں کی سپریم اسمبلی کے نمائندے اور تہران میں لبنانی تحریک امل کے نمائندے صلاح فاس اس ویبینار میں موجود تھے۔

تہران میں امل لبنانی تحریک کے نمائندے صلاح فاس نے اس ویبینار میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ صیہونی دشمن کی دمشق کے قونصل خانے پر جارحیت کے جواب میں ایران کی طرف سے  "سچے وعدے" کی کارروائی میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ  ایران کے خلاف صیہونی دشمن کی جارحیت کا جواب درست طریقے سے دیں سکتا ہے اور کسی بھی جارحیت کا نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ طور پر بھی جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی فوج اور انٹیلی جنس فورسز بہت اعلیٰ سطح پر ہیں۔

 

صلاح فاس کے الفاظ کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے:

پیارے بھائیو اور بہنو، آپ پر سلامتی ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

شام میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے اور IRGC کے ایک گروپ کے کمانڈروں کی شہادت کے 14 دن کے بعد، ایران نے جنگ خندق کی برسی کے موقع پر ردعمل ظاہر کیا۔

سب سے پہلے ہمیں اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ سطح کی فوجی، سیاسی اور سفارتی طاقت اور فیصلہ سازوں کی مضبوطی پر زور دینا چاہیے کیونکہ یہ آپریشن مختلف پہلوؤں سے ایک نازک اور مشکل بین الاقوامی اور علاقائی لمحے میں ہے۔

غزہ پر حملے نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ صیہونی اور ان کے اتحادی امریکہ اور مغربی ممالک فلسطین اور خطے میں مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور ان کے مکینوں کے گھروں کو تباہ کرنا اور بچوں اور عورتوں کو انتہائی وحشیانہ جنگی جرائم کے ساتھ قتل کرنا جرائم میں شامل ہیں۔

بدقسمتی سے وہ لوگ جو انسانی حقوق اور حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے عرب ممالک اور دیگر ممالک کی برادری اور آزادی اور جانوروں کے حقوق کا دعویٰ کرنے والوں کی حمایت کے تحت ہر قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

 انہوں نے ہمارے اسیر میں سے ایک کو بھی رہا نہیں کیا اور وہ فلسطینی مزاحمت کو تباہ کرنا چاہتے تھے، اس لیے صہیونی جو چاہتے تھے اس میں ناکام رہے۔ لہٰذا، انہوں نے فتح حاصل کرنے کے لیے محاذوں کا دائرہ وسیع کرنے اور علاقائی جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے انھوں نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹنا امریکہ اور دیگر ممالک کو جنگ میں گھسیٹنے کا سبب بنے گا۔

وہ ایران کی فوجی، انٹیلی جنس اور سیکورٹی صلاحیتوں کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا ایران کا ردعمل محور مزاحمت کے لیے باعث فخر رہا ہے اور اپنی مضبوط اور

درست فوجی طاقت کے ساتھ ایران مختلف قسم کے فوجی حربوں سے صیہونی دشمن کو ایسا زوردار ضرب لگانے میں کامیاب ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

ہم اس آپریشن کے نفاذ کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ لیکن ہم اس جواب میں کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:

اول: ایران ایک نئی سٹریٹجک مساوات قائم کرنے میں کامیاب ہوا، اس مساوات کی بنیاد پر ایران کی سرزمین کے کسی بھی حصے پر حملہ چاہے وہ سرخ لکیر کے اندر ہو یا باہر، براہ راست فوجی جواب دینا جانتا ہے۔

دوم: امریکہ اور صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف دی جانے والی بڑی دھمکیوں کے باوجود ایران کا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔

تیسرا: ایران کے ردعمل نے یہ حقیقت ظاہر کی کہ ایران کسی بھی جارحیت کا نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ انداز میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی فوجی اور انٹیلی جنس فورسز بہت اعلیٰ سطح پر ہیں۔

چوتھا: ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا پہلا ردعمل اس کے پاس موجود زبردست طاقت کے مقابلے میں معمولی تھا۔ عسکری علم کے لحاظ سے یہ ایک حقیقت ہے کہ پہلے حملے میں اپنی پوری طاقت نہیں دکھانی چاہیے۔

اس کارروائی کا مقابلہ کرنے میں صیہونی حکومت کی ناکامی، چند گھنٹے پہلے اس کا علم ہونے کے باوجود، ایران کی اعلیٰ طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ صیہونی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجی اور انٹیلی جنس تیاریوں اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام اور فائر کے لمحے اور طویل فاصلے تک میزائلوں کے مشاہدے کے باوجود اور کئی ممالک سے گزرنے کے باوجود ڈرونز اور میزائلوں نے فوجی اڈوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ یہ حکومت  اس حملے کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اگر بیرونی ممالک خصوصاً امریکہ کی مدد نہ ہوتی تو 98 فیصد میزائل اور ڈرون مقبوضہ علاقوں میں داخل ہو چکے ہوتے۔

میرے خیال میں اسرائیلیوں کی شکست کا وقت اور حماس اور مزاحمت کی فتوحات کا وقت آگیا ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں مزید کامیابیاں ہوں گی۔/

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "سید ابراہیم رئیسی" ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ صبح پاکستان پہنچے۔ جہاں ایرانی صدر کی قیام گاہ میں سینیٹر و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اُن سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا۔

اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستانی حکومت و عوام آپ کے دورے کے انتظار میں تھی۔ ہمیں آپ کی میزبانی کرنے پر خوشی و افتخار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام مختلف مشترکہ چینلجز کو حل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کا قدر دان ہے۔ اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کی حمایت کے سلسلے میں ایران کا موقف قابل ستائش ہے۔

انہوں نے حال ہی میں ہونے والے ایرانی پارلیمانی اور مجلس خُبرَگان کے انتخابات کے کامیاب انعقاد پر سید ابراہیم رئیسی کو مبارک باد دی۔

واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "آیت الله سید ابراہیم رئیسی" ایک اعلیٰ سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے اسلام آباد کے نور خان ائیر بیس پہنچ گئے۔ جہاں وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ "ریاض حسین پیرزادہ"، پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر "رضا امیری مقدم" اور دیگر سینئر عسکری و سیاسی شخصیات نے اُن کا استقبال کیا۔

طے یہ ہے کہ کچھ ہی دیر کے بعد وزیراعظم پاکستان "میاں محمد شہباز شریف" پرائم منسٹر ہاؤس میں ایران کے صدر کا استقبال کریں گے۔ سید ابراہیم رئیسی اپنے اس دو روزہ دورے میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اقتصادی و تجارتی روابط میں وسعت اور دوطرفہ علاقائی دلچسپی کے امور پر مشاورت انجام دیں گے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی ، سیئنر نائب صدر علامہ سید مرید حسین نقوی اور سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات امت مسلمہ کے دل کی آواز ہے۔ ایران نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔انقلاب اسلامی کے بعد ایران نے عالمی سطح پر جو دفاعی اور سیاسی قوت حاصل کی ہے، ہماری دعا ہے کہ باقی مسلم ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ طویل عرصے سے زیر التوا ہے، پاکستان توانائی کے بحران سے گذر رہا ہے، اسے بھی حل ہونا چاہیے۔ اسلا می جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان خیر سگالی کا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور ایران مضبوط ہو جائیں تو امت مسلمہ کا توانا اورمضبوط بازوہوں گے۔

انہوں نے کہا حال ہی میں سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے وعدے اور معاہدے خوش آئند ہیں۔ سعودی عرب کے بعد ایران کے صدرکا دورہ ترقی کے نئے مواقع پیدا کرے گا، اس سے دونوں ممالک مضبوط ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہوں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "آیت الله سید ابراهیم رئیسی" اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے وزیراعظم پاکستان "میاں محمد شہباز شریف" کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سید ابراہیم رئیسی نے ایرانی وفد کی میزبانی کرنے پر پاکستانی حکومت و وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج مجھے اسلام آباد موجودگی پر خوشی ہو رہی ہے۔ میں یہاں سے پاکستان کے دین دار اور شریف عوام کو اپنی اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اُس پاکستانی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی اقدار کا دفاع کرتی ہے، جو مظلومین غزہ و فلسطین کے حق میں باہر آتی ہے، جو پاکستان کے گلی کوچوں میں قدس کی آزادی کے نعرے لگاتی ہے اور ہمیشہ حق و انصاف کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز نے دنیا بھر کے لوگوں کو مشتعل کر دیا ہے وہ یہ کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل اپنا کام انجام نہیں دے رہی۔ دنیا کے مسلمان اور آزاد سوچ کے حامل اس سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس عالمی بے انصافی پر پاکستان کی قوم اٹھ کھڑی ہو گی اور یہ امر عالمی انصاف کی بنیاد بنے گا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم اپنے دوست، بھائی اور پڑوسی پاکستان کے صرف ہمسایے ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان تاریخی، ثقافتی اور گہرا دینی رشتہ ہے جس نے ہم دو عظیم اقوام کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ یہ رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بے شمار مناسبتیں موجود ہیں کہ جن کے تبادلے سے دونوں ممالک اور عوام کو نفع پہنچایا جا سکتا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں یہ فیصلہ کیا کہ اقتصادی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی سمیت مختلف شعبوں کو وسعت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے دونوں ممالک کا موقف ایک ہی ہے۔ ہم دونوں بدامنی، منظم منشیات فروشی اور دیگر جرائم سے لڑنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ یہ ہمارا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔ ایک جملے میں کہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا دفاع دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا محور ہے، چاہے یہ تعاون دوطرفہ ہو، علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔ اس موقع پر انہوں نے پاک ایران تعاون کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ دونوں ممالک کے درمیان کوارڈینیشن کو پسند نہ کریں مگر یہ اہم نہیں۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی نمائندگی میں یہ تعاون جاری رہنا چاہئے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس تعاون کی سطح کو مزید بڑھائیں گے۔

آیت الله سید ابراہیم رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی حجم کو ناکافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اس حجم کو 10 بلین ڈالر تک بڑھائیں۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے مابین بارڈر کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل سرحد موجود ہے جو تجارتی ارتقاء کے لئے ہمارے پاس بہترین موقع ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام بالخصوص سرحد پر رہنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر دھیان دیا جائے۔ میں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر سرحد کا مختصر دورہ کیا تھا۔ یہ کام سرحدی منڈیوں میں وسعت کا باعث تھا۔ اس کام کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک اٹھائے گئے اقدامات کافی نہیں۔ ہمیں بارڈز کی سکیورٹی اور عوام فلاح کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دوسری جانب میاں محمد شہباز شریف نے اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے انتخاب کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی اعلیٰ عہدے دار ہمارے ملک آ رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ چشم ما روشن و دل ما شاد۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں عوامی قتل عام پر دونوں ممالک نے متعدد بار تشویش کا اظہار کیا اور اس بارے میں بات کی۔ ہم نے ایک آواز ہو کر اسرائیل کی مذمت کی۔ ہم دنیا کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس فوجی کارروائی کو رکوائیں۔
 

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ فلسطین کا منصفانہ، تفصیلی اور دیرپا حل ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان بلا مشروط فلسطین کی حمایت کرے گا اور ایران کے تعاون سے آیک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے کوشاں رہے گا جس کا دارالحکومت قدس ہو۔ انہوں نے رہبر مسلمین جہان "آیت الله سید علی خامنه‌ ای" کی جانب سے کشمیر کے عوام کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے سید ابراہیم رئیسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب صدر! آپ نے فقہ اور قانون میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے ترقی کے اصول کو اپنائیں گے۔

 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ

(22 سجده) اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات هالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں 

 اسرائیل پر ایران کے ڈرونز حملوں پر ایران کے مختلفف شہروں میں شہریوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے ڈرونز اور کروز میزائلز کے حملوں کے بعد تہران میں ایرانی شہری خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عوام ایران کے پرچم لے کر سڑکوں پر آگئے اور جشن بھی منایا۔ دوسری جانب لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ واضح رہے کہ ایران نے اسرائیل پر 100 کے قریب ڈرونز اور کروز میزائلز فائر کر دیئے۔ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران نے اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، گولان کی پہاڑیوں اور شام کے قریب اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل پر حملے کے بعد ایران میں ہزاروں شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران میں سینکڑوں ایرانی شہری اسرائیل پر حملے کی خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور "ڈیتھ ٹو اسرائیل" اور "ڈیتھ ٹو امریکا" کے نعرے لگائے۔ تہران میں برطانوی سفارت خانے کے باہر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے، ایران کے تیسرے بڑے شہر اصفہان میں بھی مظاہرہ کیا گیا، جہاں دمشق حملے میں شہید ہونے والے جنرلز میں سے ایک بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی کو دفن کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔

واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔ حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیاب اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
 
 
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ صہیونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اسرائیلی اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر ایرانی ڈرون حملہ شروع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ڈرون طیاروں کی فضاء میں نچلی سطح پر پرواز کرتے ہوئے تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے عبرانی زبان کی نیوز سائٹ والا اینڈ ایکسیوس نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر ڈرون حملے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ صیہونی میڈیا نے بھی حنظلہ ہیکنگ گروپ کی طرف سے صیہونی حکومت کے ریڈاروں کی ہیکنگ کی خبر دی ہے۔

ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ کی تصدیق
اسلامی جمہوری ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے باقاعدہ تصدیق کی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی تنصیبات پر باقاعدہ اور وسیع ڈرون حملے شروع ہوگئے ہیں۔

صہیونی فضائی حدود بند
ایرانی ڈرون حملوں کے پیش نظر فضائی حدود کو صبح سات بجے تک کے لئے بند کردیا ہے۔ صہیونی فوج کے ریڈیو نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ صرف ڈرون طیاروں تک محدود نہیں بلکہ کروز میزائل کی شکل میں بھی ہوگا۔ دوسری جانب صہیونی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، اس سلسلے میں امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

ایران حملوں کی خبریں منتشر ہونے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ
صہیونی حکام نے مقبوضہ فلسطین میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے لوگوں کی غیر ضروری رفت و آمد پر پابندی عائد کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی روانگی ملتوی کر دیں۔ ذرائع کے مطابق کل بن گوریان ائیرپورٹ کے علاوہ حیفا، نتانیا اور اشدود کی بندرگاہیں بھی بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

ایرانی حملوں کا سو فیصد مقابلہ نہیں کرسکتے، صہیونی فوجی ترجمان
اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے حملے کا جواب دینے کے لئے صہیونی آرمی اور فضائیہ مکمل الرٹ ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی ڈرون طیاروں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تاہم عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایرانی حملوں کا سو فیصد دفاع ممکن نہیں ہے۔

ایرانی وزیر دفاع
ہم ان ممالک پر بھی جوابی حملہ کریں گے، جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود یا سرزمین فراہم کریں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب کا بیان
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ
اسلامی جمہوری ایران کے شہید پرور عوام!
صہیونی شرپسند حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے صہیونی حکومت کو سبق سکھانے کے لئے "یارسول اللہ" کے رمزیہ نعرے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے اندر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اور ملکی مسلح افواج کی جانب سے فیصلے کے بعد ایرانی بہادر عوام کی حمایت کے تحت ایرانی مسلح افواج اور وزارت دفاع کی جانب سے ان حملوں کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ
 
 
غزہ کی جنگ نے غاصب صیہونی رژیم کی فوج اور معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اور چھ ماہ تک فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کے باوجود صیہونی رژیم کو نہ تو اس جنگ میں کامیابی کی کم ترین امید ہے اور نہ ہی صیہونی فوج اور معیشت اس سے پہلے کسی ایسی جنگ میں مبتلا ہوئی ہے جو چند دن یا چند ہفتے سے زیادہ طول پکڑ چکی ہو۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس اس جعلی رژیم کی ابتر صورتحال کی بہترین عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں:
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
 
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
 
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
 
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
 
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
 
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
 
 
تحریر: علی احمدی

ایران میں تیل کی کہانی
برسوں پہلے قاجار حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ فکری محرومیوں کی وجہ سے اہل ایران کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے قدموں تلے کون سی قیمتی چیزیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایرانی تیل کی قیمت کو سمجھنے والے انگریزوں نے اسے لوٹنے کے لیے سب سے پہلے اسے بدبودار، بیکار اور فضول چیز کے طور پر متعارف کرایا۔ جب وقت آگے بڑھا اور لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ یہ  تو کالا سونا ہے اور بہت قیمتی ہے تو اس بار سامراجی  طاقتوں نے دھونس دھاندلی سے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قومی دولت کو یک طرفہ ٹھیکے دے کر معمولی قیمت پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ان ایام میں جب بھی ایران کے باشعور اور روشن خیال لوگوں نے شکایت کی تو انہوں نے حقارت سے جواب دیا کہ تیل کیسے نکالو گے۔؟ کیا آپ کے پاس علم اور مہارت ہے اور کیا ایسے وسائل، امکانات اور آلات موجود ہیں، جس سے تم تیل زمین کی گہرائیوں سے باہر نکال سکو۔؟ تیل کی کہانی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برطانوی استعمار نے اس وقت تک روڑے اٹکائے، جب تک کہ لوگوں کو اس قیمتی مادے کی قیمت معلوم نہ ہوگئی۔

مضبوط ایران اور مقامی جوہری علم و ٹیکنالوجی
جوہری صنعت کی بھی بالکل وہی کہانی ہے، جو تیل سے متعلق تھی۔ ایک زمانے تک ایٹمی ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار کیا گیا اور اب بھی بعض افراد کہتے ہیں کہ ایٹمی توانائی پر اتنا خرچ کیوں کیا جائے؟ یہ شکوک و شبہات   ایک طرف مغرب کا پروپگینڈا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی زندگیوں میں جوہری توانائی کے ثمرات اور اس کے استعمال سے لاعلمی بھی ہے۔ معاشرے کے بعض طبقوں کی ایٹمی توانائی کے فوائد سے لاعلمی اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے ایران کی جوہری پروگرام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی  گئی ہیں۔ ان سازشوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نفسیاتی جنگ  شروع کرنا اور فوائد کو جھٹلانا اور اسے مہنگا ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ دوسری طرف یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن نہیں ہے اور ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

جوہری پروگرام کے بہانے ایرانی قوم پر پابندیاں اور اقتصادی دباؤ ڈالنا، سائنسی پابندیاں نیز ایٹمی سائنسدانوں کا قتل بھی اس سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ  گاجر اور چھڑی کی پالیسی استعمال کی گئی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ایران کی ایٹمی صنعت کو روکنے اور تباہ کرنے کے مغرب کے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایٹمی صنعت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اگر آج اسے غیر ملکی دشمن کے پروپیگنڈے کی وجہ یا کسی غفلت یا بے حسی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یقیناً اس قومی سرمائے کے حصول اور استعمال کے بارے میں مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔

ایٹمی صنعت ملک کے لیے کیوں اہم ہے؟
ملک کے لیے جوہری صنعت کی اہمیت جاننے کے لیے ہمیں تیل کی کہانی کی طرف واپس جانا ہوگا۔ آج بہت کم محب وطن ایرانی ایسے ہیں، جو تیل نکالنے اور پیداواری صلاحیت میں ایران کی مقامی پیش رفت سے انکار یا شک کرتے ہیں اور تیل کی صنعت کو قومیانے کو ملک کا اعزاز نہیں سمجھتے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آج تیل کے شعبے بالخصوص ریفائنریوں میں ستر فیصد تک جدید ترین جوہری آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس لیے آج جوہری آلات کے بغیر تیل کی صنعت نہیں ہوسکتی۔ کان کنی، تیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں جوہری علم کا استعمال ضروی ہوگیا ہے۔ یورینیم کی کانوں کی دریافت اور "ایئر بورن جیو فزکس ٹیکنالوجی" کے ذریعے تیل کے کنوؤں کی دریافت جوہری صنعت کی اہم سائنسی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے 15 ہزار میٹر گہرائی تک مختلف بارودی سرنگوں اور تیل کے کنوؤں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

 ایٹمی صنعت، توانائی کے بحران سے نکلنے کا راستہ
توانائی کی قیمتوں میں بڑھاوا، تیل اور گیس کی منڈی میں عدم استحکام اور توانائی کی طلب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کی وجہ سے آج سلامتی اور وسائل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے وسیع مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایندھن کے زیر زمین ذخائر محدود ہیں، لہذا متبادل ذرائع کی تلاش ضروری ہے۔ جوہری توانائی کا حامل ہونے سے نیز جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی فراہمی کے میدان میں خود کفالت حاصل کرنا نہ صرف علم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا باعث بنے گا اور بلکہ اس سے مستقبل میں توانائی اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ اس وقت ایران کے جنوبی اور شمالی ساحلوں میں پاور پلانٹس کی تعمیر، چھوٹے اور مقامی پاور پلانٹس کی تعمیر اور بوشہر میں واٹر ڈی سیلینیشن کمپلیکس کی تعمیر نیز توانائی اور پانی کے شعبے میں کامیابی کی چند مثالیں ہیں۔ اس  ترقی سےجوہری توانائی کے شعبے کی کامیابیوں میں ایرانی سائنسدانوں کی تکنیکی طاقت کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔

مقامی جوہری علم
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے میدان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن یعنی مقامی ہونا ہے۔ یعنی اب ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری پاور پلانٹ ہو، لیکن اس کا مینیجر کوئی غیر ایرانی ماہر ہو۔ آج ان امور میں خودکفالت جہاں ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور خود اعتمادی کی علامت ہے، وہاں دوسری طرف ملکی تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کی علامت اور ثبوت بھی ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو نہ صرف وفادار نوجوانوں کی غیر معمولی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے، ان کی تربیت کرنے کا باعث بنا ہے بلکہ یہی نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار کو صنعتی مراحل تک پہنچانے اور آخرکار اس صنعت میں مغربی ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے قابل ہوا ہے۔

 آج ایران کا نیوکلیئر فیول سائیکل مکمل ہے، جس کا مطلب یورینیم کی دریافت، زرد کیک کی تیاری، یورینیم پروسیسنگ، افزودگی، سینٹری فیوجز سلاخوں اور فیول کمپلیکس کی تیاری میں خود کفالت ہے۔ ایٹمی ری ایکٹر کے قلب میں جوہری ایندھن کا دخول اور ری ایکٹر کے فضلے کا انتظام، سبھی ملک کے اندر اور مقامی ماہرین کے زیر نگرانی انجام پا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس صنعت کی کمرشلائزیشن کے میدان میں مزید سنجیدہ اور آپریشنل اقدامات کی ضروت ہے۔

ایٹمی میڈیسن کی تیاری میں کامیابیاں
"Tellurium 130 isotope" کی تیاری جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی تعمیر اور ترتیب سے حاصل کی گئی ہے۔ آج طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے خام مال کی تیاری اور مختلف قسم کے کینسر، لاعلاج بیماریوں کی تشخیص اور دواسازی میں نیوکلیئر سائنسز کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایران نے قابل رشک پیشرفت کی ہے۔ ارضیات، زراعت جیسے شعبوں میں جوہری محققین نے کارہای نمایاں انجام دئیے ہیں۔ ایران نے پچاس  سے زیادہ فالج سے متعلق تشخیصی، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ طب کے میدان میں "Hemostat" یا "خون کا جمنا" جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے پاؤڈر کی تیاری جوہری ٹیکنالوجی کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ایران ان پانچ ممالک میں شامل ہے، جو ان طبی مصنوعات کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔

جوہری توانائی کے ساتھ خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ آج ایرانی سائنسدانوں کی غیر معمولی کوششوں سے ایٹمی علم تین شعبوں "پلازما، حیاتیاتی اور تابکاری" میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور زراعت اور خوراک کی حفاظت میں مددگار ہے۔ زرعی کیڑوں سے نمٹنا، اناج اور خوراک کو جراثیم سے پاک کرنا اور ان کی شیلف لائف کو بڑھانا زرعی شعبے میں جوہری علم کی اہم ترین خدمات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ صنعت اور ماحولیاتی تحفظ میں جوہری علم کا استعمال ایک اور کارنامہ ہے۔ ربڑ اور پولیمر کی صنعتوں میں استعمال ہونے والے صنعتی فضلے کے خطرات سے بچنے کے لیے "الیکٹرو سٹیٹک الیکٹران" ایکسلریٹر سسٹم کے ڈیزائن اور تعمیر نے ان شعبوں میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔

نفسیاتی کارروائیوں کو شکست دینے کیلئے جوہری کامیابیوں کی وضاحت
یہ ایک فطری بات ہے کہ ایٹمی صنعت کی ان تمام کامیابیوں اور ترقی سے ایرانی قوم کے بدخواہ غصے میں آجائیں اور ایران کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔ استعماری طاقتیں اور استکباری ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایران کے دشمنوں نے ایران کی ایٹمی صنعت کی ترقی کو کم کرنے یا روکنے کے لیے (دھمکیاں، لالچ) تمام تر سازشیں اور حربے استعمال کیے ہیں۔ ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، بین الاقوامی دباؤ ڈالا گیا اور ایرانی قوم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ دشمن چاہتے تھے کہ ایرانی عوام اپنے ناقابل تنسیخ اور مسلمہ حق سے دستبردار ہو جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی سے روکنے کے لئے پروپیگنڈہ جنگ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن ایٹمی صنعت کو ایک مہنگا اور ناقابل حصول مسئلہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی اسے ترقی کے راستے کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

رہبر انقلاب کے بقول ہمیں اس مذموم منصوبے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیئے۔ "اگر آپ ایک مضبوط ایران چاہتے ہیں، ہر کوئی ایران سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کی مضبوطی کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ کو سائنسی، تحقیقی، صنعتی اور کاروباری کوششوں اور سرگرمیوں کے اس حصے پر توجہ دینی چاہیئے۔ (3/21/1402) جوہری صنعت کے حکام کو بھی اس عظیم صلاحیت کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیئے۔ "لوگوں کی زندگی کے تمام حصوں میں، یہ صنعت ایک مؤثر اور مفید موجودگی رکھ سکتی ہے۔ یہ بات لوگوں کو بتائیں، تاکہ لوگ اس صنعت کی تعریف کریں اور کہیں کہ "یہ ہمارا مسلمہ حق ہے"، وہ واقعی جان لیں کہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ (21/3/1402)

آخری بات یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں جوہری صنعت کی کامیابیوں اور ایک مضبوط و طاقتور ایران کے لئے ایٹمی توانائی کے کردار کی اہمیت کو لوگوں کو بتایا جائے، تاکہ اسلامی جمہوریہ کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو سیاہ بنا کر پیش کرنے کی دشمن کی وسیع نفسیاتی کارروائیاں ناکام ہو جائیں۔ ایران کے آج اور کل کو تعمیر کرنے کے لئے ایرانی عوام نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ  لیا ہے۔ ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ترقی کے موجودہ دشمن وہی عناصر ہیں، جو ماضی میں ایران کے تیل کی لوٹ مار میں ملوث تھے، البتہ آج انہوں نے اپنا روپ بدل لیا ہے۔

 شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام عالم اسلام کو عید سعید الفطر کے پرمسرت موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عید “مظلوم مسلمانوں” کی یاد میں منائیں، ان سے اظہار یکجہتی کریں۔ پورے دنیا کو پیغام دیں اور عید کے اجتماعات میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں