
سلیمانی
خلیج فارس، ایرانی قوم کی تاریخی شناخت اور وحدت کی علامت ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تربت حیدریہ کے کمشنر مجتبی شجاعی نے کہا ہے کہ خلیج فارس نہ صرف ایک اہم جغرافیائی آبی گذرگاہ ہے بلکہ ایرانی قوم کی تاریخی شناخت، تہذیب اور قومی وحدت کا نمایاں نشان بھی ہے۔
مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شجاعی نے خلیج فارس کے مستند تاریخی نام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور بعض عرب ریاستوں کی حالیہ حرکات اسلامی دنیا میں تفرقہ ڈالنے کی ایک خطرناک سازش کا حصہ ہیں۔ اسلامی دنیا کو ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تاریخ اور جغرافیائی حقیقت کا تحفظ کرنا چاہیے۔
انہوں نے خلیج فارس کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ دنیا کے لیے توانائی کی ایک کلیدی شاہراہ ہے اور ایران کی ثقافتی شناخت کا روشن آئینہ بھی۔ دشمن خلیج فارس کے نام میں تحریف کے ذریعے ایرانی قوم کی وحدت کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کو مسخ نہیں کر سکتے جو صدیوں سے عالمی نقشوں اور بین الاقوامی دستاویزات میں محفوظ ہے۔
شجاعی نے مزید کہا کہ ’خلیج فارس‘ کا نام تمام معتبر بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تاریخی نقشوں میں "Persian Gulf" کے طور پر درج ہے، اور اس میں تبدیلی کی کوئی بھی کوشش غیرقانونی اور ناکام ہوگی۔
انہوں نے امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی حالیہ اشتعال انگیز کارروائیوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے نام کو تبدیل کرنے کی کوشش اسلامی ممالک کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے ناپاک منصوبے کا حصہ ہے۔دشمن مذہبی و نسلی بنیادوں پر اختلافات کو ہوا دے کر اسلامی دنیا کی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس سازش کا مقصد خطے میں جنگ کو فروغ دینا اور مسلمان اقوام کو مغرب پر مزید انحصار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ وہ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے درمیان تاریخی تنازعات کو بھی ہوا دے کر علاقائی بدامنی کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
کمشنر تربت حیدریہ نے کہا ہے کہ ایران نہ صرف خلیج فارس کی تاریخی شناخت کا محافظ ہے بلکہ مشرق وسطی میں امن و استحکام کا ایک کلیدی کردار بھی ادا کرتا رہا ہے۔ ایران نے کبھی جنگ شروع نہیں کی، مگر ایران اپنے قومی وقار، سرحدوں اور تاریخی شناخت پر کسی بھی حملے کی صورت میں مضبوط، متحد اور دانشمندانہ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کے نام پر ایرانی کے تمام قبائل، مذاہب اور طبقہ ھای فکری کے درمیان جو غیرمعمولی اتحاد پایا جاتا ہے، وہ ایران کی قومی بیداری اور اس حساس مسئلے پر یکجہتی کی روشن مثال ہے۔ یہ وحدت دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ کبھی بھی اس گہرے ربط کو متزلزل نہیں کرسکتے۔
شجاعی نے کہا کہ دنیا میں آج بھی ہزاروں مستند نقشے، تاریخی دستاویزات اور بین الاقوامی آرکائیوز جن میں یورپی و امریکی جامعات کی لائبریریاں بھی شامل ہیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس آبی علاقے کا واحد درست اور قانونی نام "خلیج فارس" (Persian Gulf) ہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خلیج فارس کا دفاع صرف ایران کی نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک انسانی و اسلامی فریضہ ہے کہ تاریخی حقیقت کا تحفظ کیا جائے، نوآبادیاتی سازشوں کا مقابلہ کیا جائے اور امت مسلمہ کے درمیان محبت و ہمدلی کے رشتے قائم کیے جائیں۔
کمشنر کا کہنا تھا کہ آج دنیا کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ امن، مکالمہ اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور اختلافات کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے جنہیں دشمن پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غزہ میں صہیونی مظالم روکنے کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، رہبر معظم
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران پاکستان کو اہم اسلامی ملک قرار دیتے ہوئے غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے باہمی اختلافات کا پرامن حل نکلے گا۔
انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مضبوط اور مثبت مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ کئی مسلم ممالک نے صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان نے ہمیشہ ان سازشوں کو مسترد کیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دنیا میں جنگ پسند عناصر کے عزائم کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون ہی امت مسلمہ کی سلامتی کا ضامن ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا اولین مسئلہ قرار دیا اور غزہ کے المناک حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یورپ اور امریکا کے عوام سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ بعض اسلامی حکومتیں ان حالات میں بھی صیہونی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔
رہبر انقلاب نے زور دیا کہ ایران اور پاکستان باہمی تعاون سے اسلامی دنیا پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران و پاکستان کے تعلقات ہمیشہ گرم جوش اور برادرانہ رہے ہیں تاہم موجودہ دوطرفہ تعاون متوقع سطح سے کم ہے۔ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کا باعث بنے گا۔
رہبر معظم نے ایران و پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے رہبر انقلاب سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان و بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے حل میں ایران کے مثبت کردار کو سراہا۔
انہوں نے غزہ کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی برادری غزہ کی ہولناک صورتحال کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کر رہی۔
انہوں نے تہران میں ہونے والی مثبت اور تعمیری بات چیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
اس موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان بھی موجود تھے۔
حضرت امام محمد تقی (ع) کی چالیس احادیث
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا:
١- الْمُؤمِنُ يَحْتاجُ إلى ثَلاثِ خِصالٍ: تَوْفيقٍ مِنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَ واعِظٍ مِنْ نَفْسِهِ، وَقَبُولٍ مِمَّنْ يَنْصَحُهُ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۵۸)
مومن کو تین باتوں کی ضرورت ہوتی ہےخداوندعالم کی طرف سےتوفيق 'خوداپنے نفس کی طرف سے ناصح اونر نصیحت کرنے والے کی نصیحت قبول کر نے کی صلاحیت۔
٢- مُلاقاةُ الاْخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إنْ كانَ نَزْراً قَليلاً. (بحارالانوار، ج۷۱، ص۳۵۳)
دوستوں اور بھائیوں سے ملاقات انسان کی تازگی اور خوشحالی اس کی عقل پر نکھار لانے کا سبب ہے چاہےوہ ملاقات تھوڑی دیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔
٣-إيّاكَ وَ مُصاحَبَةُ الشَّريرِ، فَإنَّهُ كَالسَّيْفِ الْمَسْلُولِ، يَحْسُنُ مَنْظَرُهُ وَ يَقْبَحُ أثَرُهُ. (بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۹۸)
شرپسند افرادکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بچو وہ کھنچی ہوئی تلوار کی طرح ہوتا ہے جودیکھنے میں اچھی لگتی ہے لیکن اسکا خمیازہ بہت برا ہوتا ہے۔
۴- كَيْفَ يُضَيَّعُ مَنِ اللّهُ كافِلُهُ، وَكَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللّه طالِبُهُ، وَ مَنِ انْقَطَعَ إلى غَيْرِ اللّهِ وَ كَّلَهُ اللّهُ إلَيْهِ. (بحارالانوار، ج۶۸، ص۱۵۵)
وہ کیسے برباد ہو سکتا ہے جس کا کفیل اور سرپرست خدا ہواور وہ کیسے نجات پاسکتاہےجسکا خدا سے مقابلہ ہو جوخدا کے علاوہ کسی غیر سے لو لگاتا ہے خدا اسے اسی غیر کے حوالہ کردیتا ہے۔
۵- مَنْ لَمْ يَعْرِفِ الْمَوارِدَ أعْيَتْهُ الْمَصادِرُ. (بحارالانوار، ج۶۸، ص۳۴۰)
جو موقعہ شناس نہیں ہوتا حالات اسے تباہ کردیتے ہیں۔
۶-مَنْ عَتَبَ مِنْ غَيْرِ ارْتِيابٍ أعْتَبَ مِنْ غَيْرِ اسْتِعْتابٍ. (بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۸۱)
جو بلا وجہ دوسروں کی ملامت کرتا ہے وہ بلاوجہ بر بھلا کہا جاتا ہے۔
٧-أفْضَلُ الْعِبادَةِ الاْخْلاصُ. (بحارالانوار، ج۶۸، ص۲۴۵)
سب سے بہتر عبادت اخلاص ہے.
٨- يَخْفى عَلَى النّاسِ وِلادَتُهُ، وَ يَغيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ، وَ تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ، وَ هُوَ سَمّيُ رَسُول اللّهِ صلىاللهعليهوآله وَ كَنّيهِ. (بحارالانوار، ج۵۱، ص۳۲)
فرمود: زمان امام عصر عليهالسلام کی ولادت کا زمانہ لوگوں سے مخفى ہوگاآپ کی ذات نا شناختہ ہوگی ان کا نام لینا حرام ہوگا ان کا نام رسول خدا کا ناماور کنیت رسول خدا کی کنیت ہوگی۔
٩- عِزُّ الْمُؤْمِنِ غِناه عَنِ النّاسِ. (بحارالانوار، ج۷۲، ص۱۰۹)
مومن کی عزّت مؤمن اس کے لوگوں سے بےنيازى میں ہے.
١٠- مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ، وَ إنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ. (کافی، ج۶، ص۴۳۴)
جو کسی بیان کرنے والے کی گفتگو توجہ کے ساتھ سنے وہ اس کی عبادت کرنے والا شمار ہوگااگر گفتگو کرنے والا خدائی گفتگو کرے گا تو سننے والا خدا کا عبادت گزار شمار ہوگا لیکن اگر بولنے والا شیطانی گفتگو کرےگا تو سننے والا شیطان کا عبادت گزار قرار پائے گا۔
١١-لايَضُرُّكَ سَخَطُ مَنْ رِضاهُ الْجَوْرُ. (بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۸۰)
اس کی ناراضگی سے تمھیں کویی نقصان نہیں ہوگا جس کی خوشندی ظلم و ستم میں ہو۔
١٢- مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلاّ تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الاْرْضِ وَ فَسادٌ كَبيرْ. (کافی، ج۵، ص۳۴۷)
اگر کوئی ایسا شخص رشتہ دے جس کا دین اور جس کی امانت داری قابل قبول ہواس سے شادی پر راضی ہو جاؤ ورنہ روئے زمین پر بہت بڑے فتنہ و فساد کاسبب بنو گے۔
١٣- لَوْ سَكَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۱)
اگر جاہل خاموش رہیں تو لوگوں میں اختلاف نہیں ہوگا۔
١۴-مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحاً كانَ شَريكاً فيهِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
جو کسی برے عمل کی تعریف کرے گا وہ اس کی برائی میں شریک مانا جائے گا۔
١٥-اَفضَلُ اعمالِ شیعتنا انتظارُ الفَرَج .
ہمارے شیعوں کا سب سے بہترین اعمال امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا انتظار ہے۔
١۶- مَنِ اسْتَغْنى بِاللّهِ إفْتَقَرَ النّاسُ إلَيْهِ، وَمَنِ اتَّقَى اللّهَ أحَبَّهُ النّاسُ وَ إنْ كَرِهُوا. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۷۹)
جو خدا پر بھروسہ کرکے لوگوں سے بے نیاز رہتا ہےلوگ اس کے محتاج ہوتے ہیں جو تقویٰ اختیار کرتا ہے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں چاہے وہ خو تقویٰ پسند نہ کرتے ہوں۔
١٧- عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلیاللهعلیهوآله عَلّيا عليهالسلام ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ. (بحارالانوار، ج۴۰، ص۱۳۴)
پیغمبر اسلام صلیاللهعلیهوآلهنے حضرت امام على عليهالسلام کو ایک هزار الفاظ تعليم د ئیےجسمیں سے ہر لفظ سے آپ نے ایک ہزار لفظ بنالیے۔
١٨- نِعْمَةٌ لاتُشْكَرُ كَسِيَّئَةٍ لاتُغْفَرُ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۶۴)
جس نعمت پر شکر ادا نہ کیا جائے وہ اس گناہ کی طرح ہے جو کبھی معاف نہ ہو سکتی ہی ہو۔
١٩-مَوْتُ الاْنْسانِ بِالذُّنُوبِ أكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالأجَلِ، وَ حَياتُهُ بِالْبِرِّ أكْثَرُ مِنْ حَياتِهِ بِالْعُمْرِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۳)
گناہ کی وجہ سے انسان کی موت اس کی قدرتی موت سے زیادہ ہوتی ہے۔
٢٠- لَنْ يَسْتَكْمِلَ الْعَبْدُ حَقيقَةَ الاْيمانِ حَتّى يُؤْثِرَ دينَهُ عَلى شَهْوَتِهِ، وَلَنْ يُهْلِكَ حَتّى يُؤْثِرَ شَهْوَتَهُ عَلى دينِهِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۱)
انسان کے ایمان کی حقیقت اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتی جب اس کا دین اس کی خوہشات پر غالب نہ آجائے اور اسوقت تک ہلاکت نہیں آتی جب تک اس کی خوہشات اس کے دین پر غالب نہ آجائیں۔
٢١- عَلَيْكُمْ بِطَلَبِ الْعِلْمِ، فَإنَّ طَلَبَهُ فَريضَةٌ وَالْبَحْثَ عَنْهُ نافِلَةٌ، وَ هُوَ صِلَةُ بَيْنَ الاْخْوانِ، وَ دَليلٌ عَلَى الْمُرُوَّةِ، وَ تُحْفَةٌ فِى الْمَجالِسِ، وَ صاحِبٌ فِى السَّفَرِ، وَ أنْسٌ فِى الْغُرْبَةِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۰)
حصول علم تمھارے لیے فرض ہےاوراس کے بارے میں بحث و گفتگومستحب وہ بھائیوں میں رابطہ کا ذریعہ ان کی جواں مردی پر دلیل نشستوں میں تحفہ سفر میں سچا ساتھی اور تنہائی میں مونس و یاور ہے۔
٢٢- خَفْضُ الْجَناحِ زينَةُ الْعِلْمِ، وَ حُسْنُ الاْدَبِ زينَةُ الْعَقْلِ، وَبَسْطُ الْوَجْهِ زينَةُ الْحِلْمِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۱)
تواضع وانکساری علم کی زینت ہے مؤدب رہنا عقل کی زینت ہےخوشحال چہرہ حلم وبردباری کی نشانی ہے۔
٢٣-تَوَسَّدِ الصَّبْرَ، وَاعْتَنِقِ الْفَقْرَ، وَارْفَضِ الشَّهَواتِ، وَ خالِفِ الْهَوى، وَ اعْلَمْ أنَّكَ لَنْ تَخْلُو مِنْ عَيْنِ اللّهِ، فَانْظُرْ كَيْفَ تَكُونُ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۵۸)
صبر کو تکیہ گاہ بناؤ فقر و تنگ دستی کو گلے لگاؤ خواہشوں کو ترک کردو نفس کی مخالفت کرو اورجان لو کہ تم کسی بھی صورت میں اللہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو لہذا متوجہ رہو کیسے زندگى بسرکر رہے ہو۔
٢۴-مَنْ اتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ. (کافی، ج۳، ص۳۲۱)
جسکا رکوع مکمل ہو اسے وحشت قبر نہیں ستاتی۔
٢۵-الْخُشُوعُ زينَةُ الصَّلاةِ، وَ تَرْكُ مالايُعْنى زينَةُ الْوَرَعِ. (بحارالانوار، ج۷۴، ص۱۳۱)
خشوع و خضوع نمازکی زينتہےبےکارکے کاموں پر توجہ نہ کرنازہدورع کی زینت ہے۔
٢۶- الاْمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما اعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ. (وسائلالشیعه، ج۱۶، ص۱۲۴)
امر بالمعروف اور نهى عن المنكرخداوند عالم کی دو مخلوق هیں جوان پرعمل درامد کرے گا اللہ اسے عزت دے گا اور جو انھیں چھوڑ دے گا خدا وند عالم بھی اسے چھوڑدےگا۔
٢٧-إنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ انْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ. (کافی، ج۳، ص۲۱۸)
خداوند عالم مومن کے مال وثروت اوراس کی اولاد کو لے لیتا ہے تاکہ اس کے عوض بہترین اجر و ثواب عطا کرے۔
٢٨- قالَ له رجل: اوصِنى بَوَصِيَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ؟
فَقالَ عليهالسلام: صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِ. (عوالم العلوم و المعارف،ج۲۳، ص۳۰۵)
ایک شخص نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سےعرض كیاکہ مجھے جامع اور مختصرنصيحت كیجئے؟ امام عليهالسلام نےفرمایااپنے کو حال کی ذلت اور مستقبل کی آگ سے بچاؤ۔
٢٩-فَسادُ الاْخْلاقِ بِمُعاشَرَةِ السُّفَهاءِ، وَ صَلاحُ الاْخلاقِ بِمُنافَسَةِ الْعُقَلاءِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
بےوقوفوں کساتھ اٹھنے بیٹھنےسےاخلاق خراب ہوتا ہےبہتر اخلاق عقلمندوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔
٣٠- مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِي بِطُوسَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّر. (وسائلالشیعه، ج۱۴، ص۵۵۰)
جو طوس میں میرے باباکی قبر کی زیارت کرے گا خداوند عالم اس کےگذشته اور آیندهگناہوں کو بخش دےگا۔
٣١- ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الاْنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الاْنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
تین عادتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر محبت پیدا ہوتی ہے
لوگوں کے ساتھ رہنے میں انصاف سے کام لینا مشکلات میں ان کے ساتھ ہمدردی سےپیش آنا اور پاکیزہ قلب کی اطاعت اور اس کی طرف رجوع کرنا۔
٣٢-التَّوْبَةُ عَلى أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَ عَزْمٌ أنْ لايَعُودَ. (کشفالغمه، ج۲، ص۳۴۹)
توبہ کے چار ستون ہوتے ہیں دل سے پشیمانی 'زبان سے استغفار'اعضاءوجواح سے عملاور یہ پختہ ارادہ کہ اب گناہ کی طرف نہیں پلٹے گا۔
٣٣- ثَلاثٌ مِنْ عَمَلِ الاْبْرارِ: إقامَةُ الْفَرائِض، وَاجْتِنابُ الْمَحارِم، واحْتِراسٌ مِنَ الْغَفْلَةِ فِى الدّين. (بحارالانوار، ج۵، ص۸۱) نیک لوگوں کےتین عمل ہوتے ہیں فرائض کی ادائیگی 'حرام کاموں سے پرہیز اور دین کے معاملہ میّ غفلت نہ برتنا۔
٣۴- الْعِلْمُ عِلْمَانِ مَطْبُوعٌ وَ مَسْمُوعٌ وَ لَا يَنْفَعُ مَسْمُوعٌ إِذَا لَمْ يَكُ مَطْبُوعٌ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۰)
علم دو طر کا ہوتا ہے دل میں اترا ہوا اور سناہوا سنا ہوا علم اس وقت تک فائدہ نہیں پہونچاتا جب دل میں اتر کر اس پر عمل نہ ہو۔
٣۵- إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار. (وسائلالشیعه، ج۱۴، ص۵۵۶)
شہر طوس کے دونوں پہاڑوں کے بیچ جنت کا ٹکڑا ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ قیامت کے دن آتش جہنم سے محفوظ رہے گا۔
٣۶- مَنْ زارَ قَبْرَ عَمَّتى بِقُمْ، فَلَهُ الْجَنَّتهُ. (وسائلالشیعه، ج۱۴، ص۵۷۶)
جو قم میں میری پھوپھی کی قبر کی زیارت کرے گا وہ جنتی ہوگا۔
٣٧- مَنْ زارَ قَبْرَ اخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَ قَرَأَ: «إنّا أنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِ الْقَدْرِ» سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الاْكْبَرِ. (وسائلالشیعه، ج۳، ص۲۲۷)
جو اپنے مومن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور اس کی قبر کے پاس قبلہ رو بیٹھ کرقبر پر ہاتھ رکھ کرسات مرتبہ انا انزلناہ پڑھے وہ قیامت کے خوف سے امان میں رہے گا۔
٣٨- ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الاْسْتِغْفارِ، وَ خَفْضِ الْجْانِبِ، وَ كَثْرَةِ الصَّدَقَةَ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۱)
تین چیزیں انسان کو رضا ء الہی سے ہمکنار کرا دیتی ہیں
کثرت سے استغفار کرناتواضع و انکساری سے پیش آنا اور بہت زیادہ صدقہ دینا۔
٣٩- الْعامِلُ بِالظُّلْمِ، وَالْمُعينُ لَهُ، وَالرّاضى بِهِ شُرَكاءٌ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۱)
ظلم کرنے والے اس پر مدد کرنے والے اور اس پر راضی رہنے والے سب ظلم میں شریک شمار ہوتے ہیں۔
۴٠- التَّواضُعُ زينَةُ الْحَسَبِ، وَالْفَصاحَةُ زينَةُ الْكَلامِ، وَ الْعَدْلُ زينَةُ الاْيمانِ، وَالسَّكينَةُ زينَةُ الْعِبادَةِ، وَالْحِفْظُ زينُةُ الرِّوايَةِ. (بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۱)
تواضع وانکساری حسب ونسب کی زينت ہے، فصاحت گفتگو کی زينتہے ، عدالت ايمان و عقیدہ کی زينتہے سکون واطمئنان عبادت کی زینت ہے۔
انتخاب و ترجمہ: مولانا سید حمید الحسن زیدی الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
شعائر الهی حج کے اندر؛ معنوی و توحیدی علامتیں
ایکنا نیوز- قرآن کریم سورہ مائدہ، آیت نمبر 2 میں مؤمنوں کو خبردار کرتا ہے کہ وہ شعائرِ الٰہی، حرمت والے مہینوں، ہدیہ و قربانیوں، اور خانۂ خدا کے زائرین کی بے حرمتی نہ کریں۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا" (اے ایمان والو! نہ تو شعائرِ الٰہی کو حلال سمجھو، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ ہدیہ کو، اور نہ اُن جانوروں کو جن کی گردنوں میں علامتی پٹے ہوں، اور نہ اُن لوگوں کو جو خانہ کعبہ کا قصد کیے ہوئے ہوں، جو اپنے رب کا فضل اور رضا چاہتے ہیں۔)
اسی طرح سورہ حج، آیت 36 میں قربانیوں کو شعائرِ الٰہی کا حصہ قرار دیا گیا ہے: "وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ" (اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائرِ الٰہی کا حصہ بنایا ہے، ان میں تمہارے لیے خیر و برکت ہے۔)
شعائر پر اس تاکید سے واضح ہوتا ہے کہ مناسکِ حج صرف رسمی اعمال یا ظاہری رسومات نہیں، بلکہ ان کا گہرا تعلق روحانی اور توحیدی مفاہیم سے ہے۔ ان نشانیوں کی حفاظت، شعائر کی تعظیم اور مؤمن کے دل کی تقویٰ کا اظہار ہے۔
قرآن کے مطابق، مناسکِ حج اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ ان تمام میں عظمتِ الٰہی کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان حدود اور شعائر کی تمام خصوصیات کو مکمل توجہ اور دقّت سے محفوظ رکھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی عمل غلط طریقے سے انجام پائے، کیونکہ ایسی غلطی نہ صرف عمل کو ظاہری طور پر باطل کر دیتی ہے بلکہ باطنی طور پر بندے کو حضرتِ حق کی قربت سے دور بھی کر دیتی ہے۔ بلاشبہ، ان حدود کی حفاظت دلوں کے تقویٰ کی علامت اور راہِ خدا میں احسان کی جلوہ گری ہے۔/
ملک کے اساتذہ سے خطاب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
پیارے بھائیو اور عزیز بہنو! آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ ملک کے محترم اساتذہ اور تعلیمی شعبے کے عہدیداران سے ہماری اس سالانہ ملاقات کا مقصد اساتذہ کے لیے اپنی محبت اور احترام کا اظہار کرنا ہے۔ یعنی میں چاہتا ہوں کہ اس نشست کے ذریعے اور یہاں جو کچھ کہا جائے گا، اس کے وسیلے سے میں معلمین کے طبقے کے لیے اپنی شکرگزاری اور عقیدت کا اظہار کروں۔ البتہ یہ ملاقات ایک موقع بھی ہے کہ تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ اہم مسائل پر بات ہو۔ الحمد للہ وزیر محترم نے میرے خیال میں تعلیمی نظام کے سب سے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ہمیں اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ موجودہ دور حکومت میں، خاص طور پر محترم صدر جمہوریہ (2) تعلیم و تربیت کے معاملات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہم تعلیم پر جتنا بھی سرمایہ لگائیں، درحقیقت یہ ایک سرمایہ کاری ہے، خرچ نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کئی گنا منافع کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ خوش قسمتی سے محترم صدر بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ وزیر محترم بھی تعلیمی شعبے کے ممتاز منتظمین میں سے ہیں اور وہ تعلیمی مسائل سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ سب مواقع ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔
جیسا کہ انہوں نے بیان فرمایا، کچھ کام شروع ہو چکے ہیں اور کچھ کام شروع ہونے والے ہیں۔ میری تاکید اور میری سفارش یہ ہے کہ "فالو اپ" کو اپنا بنیادی اصول بنائیں۔ میں ہمیشہ ملک کے حکام اور ذمہ داران کو یہی مشورہ دیتا ہوں۔ بہت سے عہدیدار یہاں آتے ہیں، اچھی باتیں کرتے ہیں، عمدہ تجاویز پیش کرتے ہیں، لیکن ان باتوں کا کوئی عملی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ آپ فالو اپ کریں کہ تعلیم و تربیت سے متعلق یہ اچھے خیالات، یہ درست اور دقیق نظریات یکے بعد دیگرے نافذ ہوں اور عملی شکل اختیار کریں۔
البتہ ہم تعلیم و تربیت کے شعبے میں فوری نتائج کے خواہشمند نہیں ہیں۔ تعلیمی شعبے کا مزاج ہی یہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے اقدامات اور ہمارے طریقہ کار سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
میں اساتذہ کے بارے میں دو تین نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے تعلیم و تربیت کے بنیادی مسائل پر بھی کچھ نکات تحریر کیے ہیں جو میں پیش کروں گا۔
ٹیچروں کے سلسلے میں پہلی بات یہ کہ ملک کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ استاد کی عزت کریں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، نہ ہی محض رسمی بات ہے۔ یہ چیز ملکی سطح پر ماحول سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ استاد کا احترام ضروری ہے۔ اب یہ احترام مالی ومعاشی معاونت جیسی چیزوں سے لے کر عوامی رائے کی تشکیل تک ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ یعنی ہمیں عوامی سوچ کو اس طرح ڈھالنا چاہیے کہ استاد عوام کی نظر میں ایک پرکشش، با نشاط اور پسندیدہ شخصیت قرار پائے۔ ایسا ہو کہ اگر کسی شخص سے، کسی نوجوان سے پیشوں کی فہرست دکھا کر دریافت کیا جائے کو کون سا پیشہ انتخاب کرو گے؟ تو وہ معلم کے پیشے کو آخری نمبر پر نہ رکھے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔ جب مدرس کے پیشے میں کشش نہیں ہوتی تو ملازمت کے خواہشمند افراد معلم کے پیشے کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے، سوائے مجبوری کے۔ ہمیں اس رجحان کو بدلنا ہے۔ استاد کی عزت اور اس کی شبیہ کو اس طرح اجاگر کرنا ہے کہ عوام کی نظر میں یہ پیشہ انتہائی پرکشش نظر آئے۔ لوگ استاد کو ایک متحرک، محنتی، خوش مزاج، کامیاب، قابل فخر اور باعزت شخصیت کے طور پر دیکھیں۔
یقیناً اس کے لیے منصوبہ بندی درکار ہے۔ محض تقریروں اور انتباہات سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ متعلقہ ماہرین کو بیٹھ کر اس پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے میڈیا اور فن کے میدان میں کام کرنا ہوگا۔ فلمیں بنانی ہوں گی، کتابیں لکھنی ہوں گی۔ جیسے ہم کسی شہید پر کتاب لکھتے ہیں تو پڑھنے والا کتاب پڑھ کر اس شہید کی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے، اسی طرح استاد کے کردار پر بھی مثلاً ناول کی شکل میں کتابیں لکھی جائیں کہ پڑھنے والا استاد سے محبت کرنے لگے۔ اینیمیشن، فلمیں، ڈرامے، اور اس نوعیت کے دیگر میڈیا پروجیکٹس سرکاری اداروں، قومی نشریاتی ادارے، آرٹ سے وابستہ اداروں اور وزارت ثقافت و اسلامی ہدایت کی ذمہ داری ہیں۔ یہ کام ہونے چاہیے۔ اور اس کی نگرانی کون کرے؟ تعلیم و تربیت کا ادارہ۔ تعلیم کے شعبے کی اہم ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اس معاملے کو آگے بڑھائے۔ مقصد یہ ہو کہ استاد کی شبیہ کو اس کے حقیقی مرتبے کے مطابق اجاگر کیا جائے۔ یہ تھی پہلی بات۔
اگر ہم یہ کام درست طریقے سے انجام دے سکیں تو پہلی چیز یہ ہے کہ خود وہ استاد جو کلاس میں تدریس میں مصروف ہے، احساسِ عزت و افتخار سے سرشار ہوگا۔ اب اسے کبھی تھکن یا مایوسی کا احساس نہیں ہوگا۔
دوسرے یہ کہ، جیسا کہ ہم نے کہا، وہ ہونہار نوجوان جو کیریئر کے انتخاب کی فکر میں ہے، اس کے ذہن میں سب سے پہلے جو پیشے آئیں گے ان میں معلمی بھی شامل ہوگی۔ اس طرح، باصلاحیت افراد تدریس کے شعبے کی طرف راغب ہوں گے اور اساتذہ کے معیار کار میں اضافہ ہوگا۔ یہ تھا استاد کے بارے میں ایک اہم نکتہ۔
دوسرا نکتہ خود استاد کا اس پیشے اور کام کی اہمیت کے تعلق سے احساس و ادراک ہے جس میں وہ مشغول ہے۔ اب میں آپ پیارے اساتذہ کرام اور ملک بھر کے معزز اساتذہ سے مخاطب ہوں۔ استاد کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کلاس میں صرف نصابی کتاب ہی نہیں پڑھا رہا ہوتا ہے۔ استاد اپنے شاگرد پر جانے-انجانے اپنی گوناگوں روشوں کے ذریعے اثر انداز ہوتا ہے۔ آپ اپنے اخلاق سے، اپنے رویے سے، کلاس میں موجودگی کے انداز سے، طلباء کے ساتھ پیش آنے کے طریقے سے، پڑھانے کے معیار سے، اپنی خاکساری یا تکبر سے، اپنی سرگرمی و محنت یا سستی و بے رغبتی سے - ہر لحاظ سے اپنے شاگرد پر اثر ڈالتے ہیں اور وہ متاثر ہوتا ہے۔
نوجوان کی شخصیت سازی میں سب سے اہم اور موثر عوامل میں سے ایک استاد ہے۔ جس طرح ماں اثر انداز ہوتی ہے، باپ اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح ایک خاص دور میں بعض اوقات اور بعض حالات میں استاد ماں باپ سے بھی زیادہ طالب علم پر اثر ڈالتا ہے۔ تو اس ادراک اور اس احساس کے ساتھ کلاس میں جائیے۔ جان لیجیے کہ آپ اپنے سامعین پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہی فطری طور پر آپ کو اپنے رویے، اپنی گفتگو اور اپنے عمل میں احتیاط پر مجبور کر دے گا۔ یہ ایک اور اہم نکتہ تھا۔
معلم کے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ 'فرہنگیان یونیورسٹی' (ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی) اور معلم کی تربیت کے مراکز کا معاملہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ وزیر محترم نے اس بارے میں کچھ تفصیلات پیش کی ہیں، تاہم مجھے بھی اس یونیورسٹی کے بعض مسائل کا کچھ علم ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی بہت اہم ادارہ ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ادارہ تعلیم و تربیت ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض حلقوں میں یہ بات اٹھائی گئی کہ اسے کسی دوسری یونیورسٹی سے منسلک کر دیا جائے، لیکن یہ کوئی مناسب اقدام نہیں ہوگا۔ یہ ادارہ تعلیم و تربیت کا ہے اور اسی کے زیر انتظام رہنا چاہیے۔
ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی دراصل ان ہی افراد کی تربیت گاہ ہے جو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ شہید رئیسی (رحمۃ اللہ علیہ) کے دور میں اساتذہ کے انتخاب کے لیے کچھ معیارات اور ضوابط مقرر کیے گئے تھے؛ ان معیارات کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس یونیورسٹی میں کام کا معیار ایسا ہونا چاہیے کہ یہاں مطلوبہ اور اعلیٰ درجے کے معلم تیار ہو سکیں اور ایسا عملی طور پر انجام پائے۔ لہٰذا یہ ادارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ یونیورسٹی علمی، اخلاقی اور عملی اعتبار سے ممتاز اساتذہ کا مسکن اور ان کی آمد و رفت کا مرکز ہونا چاہیے؛ نمایاں علمی شخصیات، اخلاقی و فکری اور ثقافتی صلاحیتوں کے مالک افراد کا یہاں آنا جانا لازمی ہے۔ یہ ادارہ نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ میں نے برسوں تک اس یونیورسٹی کی اہمیت پر زور دیا ہے، آج بھی اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ اس ادارے کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کے نظام و ضوابط کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ خیر، معلم کے حوالے سے یہ چند باتیں تھیں۔
تعلیم و تربیت کے مسائل کے حوالے سے میں نے کچھ نکات نوٹ کیے ہیں۔ البتہ، کہنے اور توجہ دلانے کے قابل باتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، لیکن میں نے یہاں چند اہم نکات درج کیے ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پہلا نکتہ یہ کہ تعلیم و تربیت ایک حکومتی ادارہ ہے۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو کم از کم ایک خاص سطح تک—مثلاً ہائی اسکول تک، علم، ہنر، پیشہ ورانہ مہارت، معارف اور ایمان سے آراستہ کرے۔ یہ اس کا فریضہ ہے۔ اگرچہ بعض حلقوں میں، بلکہ خود تعلیم و تربیت کے ادارے کے اندر بھی—جیسا کہ مجھے یاد ہے—یہ بات سنائی دیتی ہے کہ اس کے بعض شعبوں کو دیگر اداروں کے حوالے کر دیا جائے، گویا تعلیم و تربیت میں ملوک الطوائفی کا ماحول پیدا ہو جائے۔ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ نئی نسل کی فکری و ثقافتی تربیت کا تعلق حکومت سے ہے، یہ اس کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ یہ کام حکومتوں کو ہی کرنا چاہیے۔ وہی اصولوں، اقدار اور بنیادی ضابطوں کے مطابق نظامِ تعلیم کو استوار کرکے ملک کے نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔ یہ کہ ہم اپنے ذاتی رجحانات یا خیالات کو مسلط کریں، درست نہیں۔ گزشتہ برسوں میں کئی اعلیٰ سطح کے ذمہ داران میرے پاس آئے اور اصرار کرتے رہے—ان کی دلیل یہ تھی کہ تعلیم و تربیت کا بجٹ بہت زیادہ ہے جو حکومت پر بوجھ بن رہا ہے۔ حالانکہ تعلیم و تربیت حکومت کا افتخار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جتنا ہو سکے، تعلیم پر خرچ کرے اور اس پر فخر محسوس کرے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ تعلیم کا بجٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیں؟ انہوں نے مجھ پر زور ڈالا کہ میں اس کی حمایت کروں، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ اگر تعلیم و تربیت کے فیصلہ ساز حلقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں، تو انہیں اپنا نظریہ ضرور بدلنا چاہیے۔ تعلیم و تربیت حکومت کی ملکیت ہے، اس کے زیرِ انتظام ہے اور اس کی کنجی حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔ یہ حکومت کا فرض ہے، وہ جوابدہ بھی ہو، اور یہ اس کا اعزاز بھی ہے کہ وہ ملک میں ایک بہترین نظامِ تعلیم قائم کرے اور اسے ترقی دے۔ یہ تھا پہلا اہم نکتہ۔
دوسرا نکتہ تعلیم و تربیت کے نظام کے بارے میں ہے۔ میرے عزیز ساتھیو! لاکھوں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں چھ سال سے اٹھارہ سال تک تعلیم و تربیت کے نظام سے وابستہ رہتے ہیں، اس کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر یہ نئی نسل، یہ کروڑوں پر مشتمل عظیم آبادی صحیح طریقے سے پروان نہ چڑھ سکی تو ہم خدا کے حضور اور آنے والی نسلوں کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ تعلیم و تربیت کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ واقعی انہیں علمی لحاظ سے مفید علم اور ثقافتی و اخلاقی و ایمانی تربیت سے آراستہ کر سکے۔
ویسے یہاں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا، حضرات نے اسے ترتیب دیا تھا، اجلاس میں آنے سے پہلے میں نے اس پر نظر ڈالی تو خوشی ہوئی کہ تعلیمی نظام کی بعض ضروری باتوں پر توجہ دی گئی ہے۔ اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہیے۔ موجودہ اور پرانا تعلیمی نظام در پیش تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک تعلیم و تربیت کا نیا تنظیمی نظام تیار کرنا ہے۔ یہ ذمہ داریوں میں شامل ہے جس پر کچھ کام ہو چکا ہے اور کچھ کام جاری بھی ہے۔ اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلیمی نظام کو اپنی منفرد اور جامع ساخت کی ضرورت ہے۔ یہ مناسب شکل، یہ درکار وضع، یہ ضروری ڈھانچہ جو یقیناً تبدیلی پر مبنی ہو اور موجودہ ضروریات کے مطابق ہو، اسے بہترین طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچائیے۔
بے شک تبدیلی کی دستاویزِ کا ترمیم شدہ نسخہ — جیسا کہ میں نے سنا ہے — اس وقت زیرِ غور ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن نہ صرف اس دستاویز کو حقیقی معنوں میں درست کیا جائے، بلکہ تبدیلی کے اس دستاویز کے لائحہ عمل کو بھی— جو شہید صدر رئیسی کی حکومت کے دوران شروع ہوا تھا، جس کے سلسلے میں کچھ انتباہات بھی دئے گئے تھے، جس پر عمل کیا گیا تھا، کام ہوا تھا — ادھورا مت چھوڑیں، اسے بيچ میں مت چھوڑیں۔ اس میں ماہرانہ عمل درکار ہے، اس میں فرض شناسی کی ضرورت ہے۔ یعنی جو لوگ تعلیم و تربیت کے مناسب نظام کو مرتب کر رہے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے تو ماہر ہوں، تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتے ہوں، اسے پہچانتے ہوں؛ دوسرے وہ فرض شناس ہوں؛ دین کے پابند ہوں، ملک کی خودمختاری کے پابند۔ یہ نیا نظام ہمارے نوجوانوں اور بچوں کو عالم، باایمان، ایران دوست، محنتی، مستقبل کے لیے پرامید بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس سے یہ نتیجہ ملنا چاہئے۔
درسی کتابوں کے بارے میں بھی ایک اہم بات ہے۔ درحقیقت، استاد اور درسی کتاب یہ دو عناصر مل کر تعلیم و تربیت کی اساس اور بنیاد ہیں۔ درسی کتاب کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ میں نے بارہا—خواہ عام اجتماعات میں جہاں اساتذہ اور تعلیمی ماہرین موجود ہوتے ہیں، یا پھر سابقہ تعلیمی حکام کے ساتھ خصوصی نشستوں میں—درسی کتابوں کے حوالے سے سفارش کی ہے، تاکید کی ہے۔ کچھ کام بھی ہوا ہے، مثلاً کسی مسلم صاحب علم کا نام کتاب میں شامل کر دیا گیا، یا جاسوسی کے اڈے (تہران میں امریکی سفارت خانہ جو جاسوسی کے مرکز میں تبدیل ہو گیا تھا۔) سے ملنے والے دستاویزات کے چند ورق—جن کی طرف ہم نے توجہ دلائی تھی—کتابوں میں ڈال دیے گئے۔ لیکن یہ سب کافی نہیں ہے! یہ ضروری تو ہے، مگر بس اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ درسی کتاب کو طالب علم کی تربیت کرنی چاہیے، اسے پروان چڑھانا چاہیے۔
پہلی بات یہ کہ کتاب پرکشش ہونی چاہیے۔ آج اگر آپ پرائمری ہو یا سیکنڈری، کسی بھی طالب علم سے ملیں، تو آپ دیکھیں گے کہ درسی کتاب اس کے لیے کوئی پرکشش چیز نہیں ہے۔ مواد دلچسپ ہونا چاہیے—یعنی علم کے گہرے اور پیچیدہ موضوعات کو بھی شیریں اور پرکشش زبان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہونا چاہئے۔ ہماری پوری زندگی درس و تدریس، سننے اور سکھانے میں گزری ہے—ہم جانتے ہیں کہ مشکل سے مشکل علمی مباحث کو بھی سادہ، پرلطف اور سامع کے ذوق کے مطابق بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو تھی مواد کی بات۔
دوسری بات ہے کتاب کی ظاہری شکل و صورت۔ کتاب کا ڈیزائن، اس کی ظاہری شکل، یہ سب ذوق و تخلیق، خوبصورتی اور جمالیات کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ فی الوقت ایسا نہیں ہے۔ آج ہماری درسی کتابوں کی شکل و صورت میں کوئی کشش نہیں۔ لہٰذا، درسی کتابوں کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ جو لوگ درسی کتابیں تیار کرتے ہیں، جو ادارہ ان کے مواد کو مرتب کرتا ہے، اس کے اراکین میں سو فیصد دینی ایمان، سیاسی بصیرت اور اسلام و انقلاب کے اصولوں، بنیادوں اور اقدار کے ساتھ پختہ وابستگی ہونی چاہیے۔ ایسے ہی افراد کو کتابوں کی ترتیب و تالیف کی ذمہ داری سونپی جائے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
دو تین نکات مزید ہیں، البتہ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ فنی اور پیشہ ورانہ سبجیکٹس کے بارے میں ہیں، جو ہماری مستقل تاکید کا مرکز رہے ہیں، ابھی بتایا گیا کہ ان سبجیکٹس میں داخلے کی شرح 50 فیصد تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے، لیکن آپ کو ان فنی شعبوں اور ان طلباء پر مزید توجہ دینی چاہیے جو فنی مہارتیں سیکھ رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں، اور جلدی سے روزگار کے بازار میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ نوجوان نہ صرف روزگار کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں بلکہ بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک مسئلہ تعلیمی انصاف کا بھی ہے۔ الحمد للہ، ملکی عہدیداران کے ہاں تعلیمی انصاف کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے، اور میں خود بھی تعلیمی انصاف کا پوری طرح قائل ہوں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ تعلیمی انصاف کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طلباء کو نظر انداز کر دیں۔ بعض لوگ تعلیمی انصاف کا غلط مفہوم نکال لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 'سمپاد' (3) جیسے ادارے ملک کی ضرورت ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ ہونہار طلباء کو ڈھونڈیں، ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ ارتقائی سفر طے کر سکیں۔ کچھ طلباء کم وقت میں زیادہ علم حاصل کر سکتے ہیں، ایسے طلباء کو نظر انداز کر دینا، انہیں عام دھارے میں نہیں چھوڑا جا سکتا اور یہ ہرگز تعلیمی انصاف کے خلاف نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب ہے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا۔ یہ انصاف کا مطلب ہے۔ جو طالب علم زیادہ سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے زیادہ تعلیم دینا ہی انصاف ہے۔ اگر آپ زیادہ استعداد رکھنے والے کو کم تعلیم دے رہے ہیں، تو یہ انصاف کے خلاف ہے۔
آخری بات الگ تربیتی ڈائریکٹر کے معاملے کے بارے میں ہے جو ہمارا ہمیشگی موقف اور مسلسل اصرار رہا ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ بعض لوگوں نے غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الگ تربیتی ڈائریکٹر کے معاملے کو نظرانداز کر دیا، ختم کر دیا، اور اس کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے اس سلسلے میں غلط دلائل بھی پیش کیے جو مسترد کر دیے گئے۔ خوش قسمتی سے آج میں نے دیکھا کہ محترم وزیر نے تربیتی امور اور تربیتی ادارے جیسے مسائل پر کچھ وضاحتیں کی ہیں۔ ان شاء اللہ اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے اور اسے بہترین طریقے سے انجام دیا جائے۔ یہ تو تھی تعلیم و تربیت کے بارے میں بات۔
چند الفاظ ان سیاسی باتوں کے بارے میں بھی عرض کر دوں جو ان دنوں علاقائی اور بین الاقوامی فضا میں اٹھائی گئی ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں جو امریکی صدر کے اس خطے کے دورے کے دوران کہی گئیں، وہ اتنی پست سطح کی ہیں کہ وہ جواب دینے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ یہ باتیں کہنے والے کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہیں اور امریکی قوم کے لیے بھی رسوائی کا سبب ہیں۔ ہمیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ البتہ ایک دو جملوں پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ طاقت کو امن کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ انہوں نے اور دیگر امریکی حکام نے، امریکی حکومتوں نے طاقت کا استعمال غزہ کے قتل عام کے لئے، ہر ممکن جگہ جنگ بھڑکانے اور اپنے ایجنٹوں کی حمایت کے لیے کیا ہے۔ کب انہوں نے طاقت کو امن قائم کرنے کے لیے استعمال کیا؟ ہاں، طاقت کو امن اور سلامتی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے تو ہم دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ہم ان شاء اللہ اپنی طاقت اور ملک کی قوت میں روز بروز اضافہ کریں گے۔ لیکن انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے طاقت کا استعمال صیہونی حکومت کو دس ٹن کے بم دینے کے لیے کیا، جو غزہ کے بچوں، اسپتالوں اور لبنان سمیت ہر جگہ عام لوگوں کے گھروں پر برسائے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
امریکی صدر عرب ممالک کو ایک ایسا ماڈل پیش کرتے ہیں جو خود اُن کے اپنے الفاظ میں، ایسا ہے کہ اس میں یہ ممالک امریکہ کے بغیر دس دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے یہی تو کہا تھا۔ انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ اگر امریکہ نہ ہو تو یہ اپنا وجود دس دن تک بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ امریکہ ہی انہیں سنبھالے ہوئے ہے۔ اب بھی اپنے معاملات، اپنے رویے اور اپنی تجاویز میں وہ ان ممالک پر یہی نمونہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ یہ امریکہ کے بغیر زندہ نہ رہ سکیں۔ یقیناً یہ نمونہ ناکام ہو چکا ہے۔ خطے کے عوام کی کوششوں سے امریکہ کو اس علاقے سے نکلنا ہوگا، اور وہ نکلے گا بھی۔
بلاشبہ اس خطے میں فساد، جنگ اور اختلاف کی جڑ صیہونی حکومت ہے۔ صیہونی حکومت جو اس علاقے کا ایک خطرناک اور مہلک سرطان ہے، ضرور اکھاڑ پھینکی جانی چاہئے، اور ایسا ہوگا بھی۔
اسلامی جمہوریہ کے اپنے واضح اصول ہیں، ایک مخصوص نظام اقدار ہے۔ ہمارے اردگرد جو بھی اتار چڑھاؤ آئے، ہم نے انہی اصولوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ملک کو آگے بڑھایا ہے۔ آج کا ایران تیس سال، چالیس سال یا پچاس سال پہلے والا ایران نہیں ہے۔ آج خدا کے فضل و کرم سے، دشمنوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے، دوسروں کی مخالفت کے باوجود، ایران پیشرفت حاصل کر چکا ہے اور ان شاء اللہ اس سے کئی گنا زیادہ پیشرفت حاصل کرے گا، اور یہ سب دیکھیں گے۔ ہمارے نوجوان اسے بخوبی دیکھیں گے اور ان شاء اللہ مطلوبہ آئیڈیل اسلامی ایران کی تعمیر میں پورے طور پر حصہ لیں گے۔
والسّلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ
1- اس ملاقات کے آغاز میں وزیر تعلیم و تربیت جناب علی رضا کاظمی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
2- ڈاکٹر مسعود پزشکیان
3- غیر معمولی اور درخشاں استعداد کو پروان چڑھانے پر مامور قومی ادارہ۔
شہید رئیسی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں کی پہلی برسی پر خطاب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین
یہ جلسہ ہمارے عزیز شہید صدر مرحوم آقائے رئیسی اور دیگر شہدائے خدمت کی یاد میں منعقد ہوا ہے جو ان کے ساتھ اس تلخ حادثے میں شہید ہوئے؛ شہید آل ہاشم،(1) شہید امیر عبداللہیان(2) ایئر اسٹاف کے شہدا (3) صوبہ آذربائیجان کے گورنر(4) سیکورٹی ٹیم کے کمانڈر(5) آج ہی کے دن ان حضرات کی شہادت نے ملت ایران کو سوگوار کر دیا تھا۔
انسان کی زندگی میں تلخ وشیریں واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ ہم ان حوادث پر غور کریں اور ان حوادث کے تناظر میں تاریخ سے اپنے ماضی سے اور خود ان حوادث سے درس حاصل کریں۔
میں شہید رئیسی کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، لیکن مقصد صرف تعریف نہیں ہے، اگرچـہ جو عرض کروں گا وہ اس شہید کی ستائش ہے لیکن مقصد، صرف ستائش نہیں ہے بلکہ درس حاصل کرنا ہے۔
ہم سب، ہماری مستقبل کی نسلیں، ہمارے نوجوان اور وہ لوگ جو اس ملک میں حکمرانی کریں گے، اس قوم کے لئے کام کریں گے، وہ سنیں، جان لیں اور دیکھیں کہ اس طرح کی زندگی، عوام کے جذبات پر، ملک کے مستقبل پر اور ملک کی حالت پر کیا اثر مرتب کرتی ہے؛ یہ سب درس ہے۔
پہلی بات جو شہید رئیسی کے بارے میں عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ وہ اس آیہ شریفہ کے مصداق تھے کہ " تِلکَ الدّارُ الآخِرَة نَجعَلھا لِلَّذینَ لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرضِ وَ لا فَسادًا " (6) یہ ملک چلانے کے لئے اہم معیار ہے۔ لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرض۔ سورہ قصص میں، جس میں یہ آیت ہے، یہ آیت سورہ کے اواخر میں ہے، سورہ کے شروع میں ارشاد ہوتا ہے کہ اِنَّ فِرعَونَ عَلا فِی الاَرض (7) اس کا نقطہ مقابل یہ ہے؛ وہ بلندی چاہتا ہے: اَ لَیسَ لی مُلکُ مِصرَ وَ ھذہ الانھار تَجری مِن تَحتی (8) خود کو برتر سمجھنا، اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالنا، اورعوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، فرعونی حکومت کی خصوصیت ہے۔
اس کا بالکل برعکس، حکومت الہی کی خصوصیت ہے: لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرض جس کے مصداق کامل شہید رئیسی تھے؛ ان کی سیاسی اور سماجی حیثیت بہت بلند تھی۔ وہ جو دورے کرتے تھے، ان میں آپ دیکھتے تھے، لوگوں سے جو ملاقاتیں کرتے تھے، لوگ ان سے کیسی عقیدت کا اظہار کرتے تھے، کتنے لگاؤ کا اظہار کرتے تھے، لیکن وہ خود کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھتے تھے۔ خود کو عوام کے برابر، ان کے جیسا اور بعض معاملات میں عوام سے بھی کمتر سمجھتے تھے۔ وہ اس نقطہ نگاہ کے ساتھ ملک پر حکمرانی کرتے تھے، حکومت چلاتے تھے اور امور کو آگے بڑھاتے تھے۔ ان سیاسی اور سماجی سہولتوں سے اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے تھے۔ اپنے لئے کچھ نہیں لیتے تھے، ان کی ساری توانائی، ساری قوتیں، سب کچھ عوام کی خدمت کے لئے تھا، عوام کے لئے تھا، بندگان خدا کی خدمت کے لئے تھا۔ قومی عزت وآبرو کی بلندی کے لئے تھا؛ راہ خدا میں خدمت کے لئے تھا اور راہ خدمت میں ہی اپنے خدا سے جا ملے۔ یہ اس عزیز شہید کی بہت اہم خصوصیت تھی جو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ کہ اسلامی نظام میں ایسی خصوصیت رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن بہر حال ان سے درس حاصل کرنا چاہئے۔ اس کو عوام میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔
شہید رئیسی کا قلب خشوع اور ذکر خدا سے مملو تھا۔ ان کی زبان صریح اور صادق تھی۔ مستقل انتھک کام کرتے تھے۔ یہ تین خصوصیتیں ہیں: دل، زبان، اور عمل۔ کسی بھی انسان کی شخصیت اور ماہیت کو سمجھنے کے لئے، یہ تین بنیادی عناصر ہیں، اس کا دل، اس کی زبان اور اس کا عمل۔
شہید رئيسی کا دل، اہل ذکر و خشوع اور اہل توسل تھا؛ اس کا ہم نے اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ پہلے سے، صدر بننے سے پہلے حتی عدلیہ کا سربراہ بننے سے پہلے ہم مشاہدہ کرتے تھے، جانتے تھے کہ اہل خشوع اور اہل توسّل ہیں اور ان کا دل خدا سے مانوس تھا۔ ان کا دل ایک طرف ایسا تھا اور دوسری طرف عوام کے لئے مہربانی سے لبریز تھا۔ عوام سے گلہ مند نہیں تھے۔ عوام سے بدگمان نہیں تھے۔ عوام کی شکایت نہیں کرتے تھے۔ ایک بات جو بہت ہوتی تھی، وہ یہ تھی وہ عوام سے ملتے تھے، لوگ آتے تھے اور شکایت کرتے تھے، بولتے تھے، ممکن ہے کہ بعض اوقات تند باتیں کرتے ہوں، لیکن وہ عوام کے لئے مہربان تھے اور اس طرح کے سلوک سے، ایسی نگاہوں سے اور حرکتوں سے ناراض نہیں ہوتے تھے۔
دوسری طرف انہیں اسلامی فریضے کی انجام دہی کی فکر تھی۔ وہ خدا کے ساتھ بھی تھے اور عوام کے ساتھ بھی تھے۔ انہیں اسلامی فریضے کی انجام دہی کی فکر بھی تھی کہ فریضہ ادا ہوا کہ نہیں ۔ اس طرح جو انجام دیا، وہ کافی ہے یا نہیں؟ انہیں ہمیشہ یہ فکر لاحق رہتی تھی۔ مجھ سے مستقل طور پر ملتے تھے، نظر آتا تھا کہ انہیں کام کی فکر ہے۔ فریضے کی انجام دہی کا فکر ہے۔ ذمہ داری کی سنگینی محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے عدلیہ کی سربراہی صرف شرعی فریضے کی حیثیت سے قبول کی تھی۔ یہ میں قریب سے جانتا تھا۔ صدارتی الیکشن میں صرف شرعی فریضے کی انجام دہی کے لئے حصہ لیا۔ اس احساس ذمہ داری کی بات بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ انھوں نے شرعی فریضے کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ انھوں نے ذمہ داری کا احساس کیا اورآئے وہاں بھی اور یہاں بھی۔ ان کے دل میں یہ رجحان تھا۔ یہ ان کے دل کی حالت تھی۔
ان کی زبان: عوام سے صراحت اور صداقت سے بات کرتے تھے۔ وہ عوام سے ابہام اور ابہام آمیز علامتوں کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے۔ صریح، واضح اور صادقانہ بات کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ عوام سے کہیں کہ اگر کر سکے تو انجام دیں گے اور جہاں نہ کر سکے، وہاں عوام سے کہیں کہ نہیں کر سکتے ۔ وہ بھی اسی طرح عمل کرتے تھے۔ صراحت اور صداقت کے ساتھ۔ یہ صراحت اور صداقت حتی ان کی ڈپلومیسی کے مذاکرات میں بھی نظر آتی تھی اور سامنے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ ڈپلومیسی کے مذاکرات میں جہاں باتیں گھمائی جاتی ہیں اور نیتیں چھپائی جاتی ہیں، وہ صراحت اور صداقت کے ساتھ بات کرتے تھے اور سامنے والے کو متاثر کرتے تھے اور وہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ جانتے تھے کہ جو کہتے ہیں صحیح کہتے ہیں۔ اپنے دور صدارت میں، پہلے انٹرویو میں، رپورٹر نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ امریکا سے مذاکرا ت کریں گے؟ انھوں نے کسی ابہام کے بغیر صراحت کے ساتھ کہا کہ نہیں اور نہيں کیا۔ انھوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن یہ کہہ سکے کہ میں دھمکی سے، لالج دے کر اور حیلے سے ایران کو مذاکرات کی میز پر لایا۔ انھوں نے یہ موقع نہیں دیا۔ یہ جو فریق مقابل براہ راست مذاکرات کے لئے اصرار کر رہا ہے، اس لئے ہے؛ اہم ہدف یہ ہے ، انھوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ البتہ بالواسطہ مذاکرات ان کے زمانے میں بھی تھے۔ جس طرح کہ اب ہو رہے ہیں۔ لیکن بے نتیجہ رہے۔ اب بھی ميں نہیں سمجھتا ہوں کا نتیجہ خیز ہوں گے، پتہ نہیں کیا ہوگا۔
مذاکرات کی بات ہوئی ہے تو میں بریکٹ میں، فریق مقابل کو ایک نصیحت کر دوں۔ امریکی فریق جو ان بالواسطہ مذاکرات میں بات کرتے ہیں اور بولتے ہیں، کوشش کریں کہ فضول کی باتیں نہ کریں۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دیں گے، یہ کچھ زیادہ ہی بڑا بول ہے۔ کوئی ان کی اجازت کا منتظر نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی اپنی سیاست ہے، اپنی روش ہے اور اپنی سیاست پر عمل کرتا ہے ۔ میں کسی اور موقع پر اس سلسلے میں ایرانی عوام کو بتاؤں گا کہ وہ جو افزودگی پر زیادہ بول رہے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے۔ امریکا اوریورپ والے اتنا اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ ایران میں افزودگی کا کام نہ ہو؛ اس بات کی میں ان شاء اللہ کسی اور موقع پر وضاحت کروں گا تاکہ عوام معلوم ہو جائے کہ ان کی نیت کیا ہے۔
ان کی (شہید رئیسی کی) زبان ایسی تھی: زبان سچی، پاک، گرمجوشی سے بھری اور شفاف تھی۔ یہ بہت اہم ہے۔ اگر ہم اس طرح بولنے کی اہمیت اور قدر کو سمجھنا چاہیں، جو شہید رئیسی کا طریقہ تھا کہ صراحت اور صداقت کے ساتھ بات کریں، تو اس کا موازنہ ، بعض مغربی ملکوں کے سربراہوں کی بات سے کریں جنھوں نے برسوں سے چیخ چیخ کر امن اور انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے کرکے دنیا کے کان کا پردہ پھاڑ دیا، مستقل انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں لیکن ہزاروں مظلوم بچوں کے قتل عام پر، بڑوں کے قتل عام کی بات نہیں ہے، مختصر مدت میں غزہ ميں ہزاروں بچے شہید کر دیے گئے، شاید بیس ہزار سے زائد بچـے قتل کر دیئے گئے اور یہ جو انسانی حقوق کا اتنا دم بھرتے ہیں، نہ صرف یہ کہ یہ قتل عام نہیں روکا بلکہ ظالم کی مدد بھی کی! ان کے صلح اور امن کے دعوؤں، ان کے انسانی حقوق کے دعوؤں اور ان کی جھوٹی زبان کا شہید رئیسی جیسے ایک صدر کی صداقت اور صراحت سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت معلوم ہوگی۔ یہ ان کی زبان اور وہ ان کا دل۔
تیسرا عمل۔ شہید مستقل کام کرتے تھے؛ مستقل! رات اور دن نہیں دیکھتے تھے۔ انتھک محنت کرتے تھے۔ میں بار بار ان سے کہتا تھا کہ تھوڑا سا خیال رکھیں، ممکن ہے کہ طبیعت برداشت نہ کر سکے، بعض اوقات انسان گر جاتا ہے پھر کام نہیں کر سکتا۔ کہتے تھے، ميں کام سے نہيں تھکتا۔ مستقل کام ، مستقل کام اور معیاری کام، عوام کی خدمت، براہ راست عوام کی خدمت۔ فرض کریں ایک شہری کو پانی کی پائپ لائن جوڑنا ہے، پانی پہنچانا ہے، راستہ نکالنا ہے، روزگار فراہم کرنا ہے، کئی ہزار بند پڑے کارخانوں کو چلانا ہے، جو کام تین سال چار سال میں ختم ہو جانا چاہئے، وہ دس پندرہ سال سے ادھورا پڑا تھا، شہید رئیسی نے ان کاموں کا بیڑا اٹھایا، بہت سے شہروں ميں یہ کام کئے، ان شہروں کے عوام نے نزدیک سے یہ خدمت دیکھی اور اس کو محسوس کیا۔ یہ ایک طرح سے عوام کی خدمت تھی۔
ایک خدمت، ملی عزت و آبرو اور ملت ایران کے اعتبار کی ہے؛ ملت ایران کا اعتبار! یہ بات کہ بین الاقوامی مالیاتی مراکز کے کہنے کے مطابق ایران کا اقتصادی نمو، تین سال میں صفر سے پانچ فیصد تک پہنچ گیا، یہ قومی افتخار ہے۔ یہ ملی عزت ہے، یہ ملک کی پیشرفت کی علامت ہے؛ یہ ہوا اور اس طرح کے بہت سے کام ہوئے۔ مختلف عالمی اقتصادی تنظیموں میں رکنیت حاصل کرنا اور اسے محکم کرنا، ملت ایران کے لئے بین الاقوامی افتخار کی بات ہے۔ صدر مملکت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہاتھ میں قرآن اٹھائے، یا شہید سلیمانی کی تصویر ہاتھ میں اٹھائے،یہ قوم کے لئے باعث افتخار ہے جو قوم کی عزت بڑھاتا ہے۔ یہ دوسری طرح کی خدمت ہے۔ دونوں طرح کی خدمت ان برسوں میں اس شہید عزیز نے انجام دی۔
ان باتوں سے میں جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے: اہم یہ ہے کہ شہید رئیسی اور ان کے بہت سے نوجوان ساتھیوں میں وہی جذبہ اور نورانیت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، جو شہید رجائی کے ساتھیوں، جیسے کلانتری(9) جیسے عباس پور(10)جیسے قندی(11)جیسے نیلی (12) اور ان جیسے دوسرے لوگوں میں دیکھتے تھے، وہی نورانیت، وہی جذبہ، وہی ولولہ، وہی احساس ذمہ داری؛ اور وہ بھی چالیس برس بعد! یہ بہت اہم ہے؛ یہ وہی انقلابی قوت ہے۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ انقلاب، ایک طاقتور انقلاب ہے، یہ وہی امام بزرگوار کی فتح الفتوح ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انقلاب کے وسیلے سے، کارآمد اور ایثاروفداکاری کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کی تربیت کو فتح الفتوح کہا ہے، یہ حاصل ہوئی۔
جب 1979 میں انقلاب کامیاب ہوا تو شہید رئیسی اٹھارہ برس کے نوجوان تھے؛ شہید آل ہاشم سولہ برس کے تھے، شہید امیر عبداللہیان چودہ برس کے بچے تھے، شہید مالک رحمتی پیدا نہيں ہوئے تھے؛ یہ انقلاب کے پروردہ تھے۔ شہید رئيسی مشہد سے، آل ہاشم تبریز سے، رحمتی مراغہ سے، امیر عبداللہیان دامغان سے، موسوی اصفہان کے فریدون شہر سے، مصطفوی گنبد قابوس سے، دریا نوش نجف آباد سے، قدیمی ابہر سے؛ یہ نوجوان ملک کے گوشہ وکنار سے اٹھے اور نمو حاصل کیا۔ انقلاب نے ان نوجوانوں جیسے لاکھوں لوگوں کی تربیت کی اور ان میں سے ممتاز بین الاقوامی شخصیات، ممتاز ہستیاں، ملت ایران کو دیں؛ یہ انقلاب کا کام ہے، یہ انقلاب کی طاقت ہے، یہ انقلاب کا امتیاز ہے کہ اس نے چالیس برس میں اسّی نوے برس کی ایک ضعیف العمر ہستی شہید آیت اللہ اشرفی(13) اور ایک اٹھارہ سال کے نوجوان شہید آرمان علی وردی کو ایک صف میں کھڑا کر دیا، انہیں تیار کیا اور آگے بڑھایا۔ اس نوجوان جیسے بہت سے نوجوان، اسی راہ میں شہید ہوئے جس میں شہید اشرفی اور شہید صدوقی جیسی ہستیاں شہید ہوئيں، سن رسیدہ افراد ابتدائے انقلاب میں شہید ہوئے۔ انقلاب ميں یہ توانائی پائی جاتی ہے کہ اس نے ان برسوں میں ایسے نوجوان تیار کر دیے۔ یہ ناقابل شکست ہے۔
انقلاب کی قدر کو جانیں، اس کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر کی قدر کو سمجھیں، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کی قدر سمجھیں، خدا سے نصرت طلب کریں اور اس راہ پر آگے بڑھیں؛ ان شاء اللہ ملت ایران بشریت کے لئے ایک جاویدانی درس رقم کرے گی اور فضل الہی سے یہ خدمت پوری دنیا، پوری بشریت کو پیش کرے گی۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم(تبریز کے امام جمعہ اور صوبہ مشرقی آذربائیجان میں نمائندہ ولی فقیہ)
2۔ جناب امیر عبداللہیان ( وزیر خارجہ)
3۔ بریگيڈیئر پائلٹ سید طاہر مصطفوی، بریگیڈیئر پائلٹ، محسن دریا نوش اور کرنل بہروز قدیمی
4۔ جناب مالک رحمتی
5۔ بریگیڈیئر سید مہدی موسوی
6۔ سورہ قصص، آیت نمبر 83؛"آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین پر برتری نہیں چاہتے اور بدعنوانی نہیں پھیلاتے۔۔۔۔"
7۔ سورہ قصص، آیت نمبر 4؛"فرعون نے زمین پر ( سرزمین مصر میں) سرکشی کی۔
8۔ سورہ زخرف، آیت نمبر 51؛ "۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے جاری ہیں، میری نہیں ہیں"۔۔۔۔"
9۔ شہید موسی کلانتری (شہید رجائی کی کابینہ میں روڈ اور ٹرانسپورٹ کے وزیر تھے) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے۔
10۔ شہید عباس پور(شہید رجائی کی کابینہ کے وزير توانائی) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے
11۔شہید محمود قندی ( شہید رجائی کی کابینہ کے پوسٹ اور ٹیلی کمیونکیشن کے وزیر) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے
12۔ شہید حسن نیلی احمد آبادی ( 1983 سے 1985 تک، محکمہ دھات و معدنیات کے وزیر) 29 جون 1989 کو جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی تھی اس کی ادائگی اورخدمت کے دوران شہید ہوئے۔
13۔ شہید آیت اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی (کرمانشاہ کے امام جمعہ)
مسلمان خاتون کو جدید اسلامی ثقافت کے لیے نمونہ بننا چاہیے
، لبنان کے شہدائے مقاومت کی بیواؤں اور چند منتخب خواتین نے مدیر جامعہ الزہرا سلام اللہ علیہا، محترمہ سیدہ زہرہ برقعی سے ملاقات کی۔
انہوں نے مہمان خواتین کو خوش آمدید کہتے ہوئے رہبر معظم انقلاب کے فرمان کا حوالہ دیا کہ شہداء "محفلوں کے چراغ" ہیں اور فرمایا: آپ کی موجودگی ہر محفل کو منور کر دیتی ہے۔ آج جامعہ الزہرا سیدہ سلام اللہ علیہا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شہداء مقاومت کی اہل خانہ کی میزبانی کر رہا ہے۔
سیدہ زہرہ برقعی نے کہا کہ شہداء کا راستہ جاری رکھنا ایک الٰہی ذمہ داری ہے۔ قرآن ہمیں بشارت دیتا ہے کہ شہداء کے راستے کو اہل ایمان جاری رکھیں گے، اور ان کی یاد کو زندہ رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔
انہوں نے خواتین کے کردار کو ثقافتی، شناختی اور استعماری چیلنجز کے مقابلے میں نہایت اہم قرار دیا اور کہا: خواتین امت اسلامیہ میں فکری و ثقافتی تبدیلی کی صفِ اوّل میں کھڑی ہیں، اور لبنانی خواتین نے نسل نو کی تربیت اور گفتمانِ مقاومت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے رہبر معظم انقلاب کے "زنِ تمدنساز" کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: مسلمان خاتون ایسی ہستی ہے جو دین و عبادت سے وابستہ، فکر و علم میں مصروف، خاندان کی نگراں اور سماجی میدان میں فعال ہو، اور اپنے خاندانی فرائض سے غافل نہ ہو۔
سیدہ برقعی نے جبهه مقاومت کی حوزوی و دانشگاهی خواتین پر مشتمل ایک عالمی اتحادیہ کے قیام کی تجویز دی اور کہا: جامعہ الزہرا سلام اللہ علیہا اس اتحادیہ کے مرکز کے قیام کے لیے آمادہ ہے، تاکہ ایران، لبنان، شام اور دیگر مقاومتی ممالک کی خواتین کے درمیان سائنسی و ثقافتی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
شہید آیت اللہ رئیسی کی صاحبزادی کا دورۂ پاکستان؛ شہید کی برسی کی تقریبات میں شرکت اور خطاب
غزہ میں قحط، مغربی تہذیب کی سفاکیت
غزہ کی پٹی اور اس کے لاکھوں محصورین اس وقت شدید کرب کی صورتحال میں مبتلا ہیں۔ غزہ جو پہلے ہی گذشتہ انیس ماہ میں امریکی اور اسرائیلی گولہ بارود کی زد میں ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے اور اب گذشتہ دو ماہ سے غزہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے اموات ہو رہی ہیں۔ یعنی غزہ میں بدترین قحط پڑ چکا ہے۔ یہ قحط مغربی تہذیب کی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی اور اسرائیلی غاصب حکومت کے مشترکہ منصوبہ کے تحت غزہ میں آنے والی امداد کو روک دیا گیا ہے، تاکہ لوگ بھوک اور پیاس کی شدت سے مارے جائیں اور دبائو کے باعث غزہ کے علاقہ کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر کھلم کھلا ڈھٹائی اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ مشکلات میں ہیں۔ ہم ان کو روٹی اور پانی دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ حماس سے الگ ہو جائیں اور غزہ سے نکل جائیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کا عرب حکمرانوں کے سامنے یہ بیان دراصل مغربی حکومتوں کے اصل مکروہ چہرہ کو عیاں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں کی بے شرمی اور بے غیرتی پر دلیل بھی تھا۔ اسی طرح ٹرمپ کا یہ بیاں واضح طور پر مغربی دنیا کی سفاک تہذیب کی عکاسی کر رہا تھا کہ ہم کس طرح غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مارنا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے سفاک چہرے پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی اور غزہ کی سرزمین جہاں ہر سانس بھوک، خوف اور محرومی کی گواہی بن چکی ہے، وہاں قابض اسرائیل ایک نیا مکروہ کھیل کھیلنے کا ارادہ کیا۔ دو ماہ سے زائد کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اچانک چند درجن امدادی ٹرکوں کی اجازت، انسانیت کے نام پر ایک نئی چال بازی اور دھوکہ ہے۔ ایسا دھوکہ جو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قابض ریاست کی مکروہ تصویر کو دنیا کے سامنے صاف کرنا چاہتا ہے۔
غاصب صیہونی ریاست کے اس مکر و فریب کی چال سے متعلق مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اپنے بیان میں اس سازش کو بے نقاب کیا ہے اور کہا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا نام نہاد انسانی رویہ درحقیقت ایک بے رحم مداخلت ہے، جو نہ صرف امدادی کارروائیوں کو محدود کر رہا ہے، بلکہ غزہ کے باسیوں پر "منظم بھوک” مسلط کرکے ان کی بنیادی انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے بچانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم 600 ٹرک امداد کی ضرورت ہے، لیکن غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے امدادی قافلوں کی غزہ آمد پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کچھ روز قبل چند ٹرک چھوڑ کر غاصب صیہونیوں نے اپنے انسانی چہرے کو عیاں کرنے کی جو ناکام کوشش کی، اس سے مزید یہ ثابت ہوا کہ غاصب ریاست اسرائیل غزہ کے لئے امداد نہیں بلکہ غزہ کے لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مار دینا چاہتی ہے۔
گذشتہ دنوں کی بات ہے کہ غزہ کی کرم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں کی تعداد درجنوں سے آگے نہ بڑھ سکی، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ کم از کم 600 ٹرک درکار ہیں، لیکن آج بھی سیکڑوں ٹن امدادی سامان، دوائیں، طبی سازوسامان اور غذائی اشیاء اسرائیلی رکاوٹوں کی نذر ہو کر غزہ کی دہلیز پر تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے نکالنے کے لئے عالمی ادارہ برائے خوراک کی کارکردگی بھی ناقص رہی ہے۔ دوسری طرف اونروا کہ جس کا غزہ میں ایک نظام موجود تھا، اس ادارے کو بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے نہیں دے رہی ہے اور اس عالمی ایجنسی کے ادارے کے امدادی کارکنوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں امریکی صدر ٹرمپ سمیت مغربی و یورپی دنیا کی حکومتیں فقط بیان بازیوں تک ہی محدود ہیں۔ اگر یہ صورتحال کسی اور ملک میں رونما ہوتی تو شاید امریکی اور نیٹو کی فوجیں جا کر وہاں جنگ مسلط کر دیتیں، لیکن غاصب اسرائیل کے لئے تو امریکہ اور یورپی ممالک کی حکومتیں مدد گار ہیں، نیٹو آخر یہاں کس کے لئے کاروائی کرے گی۔؟ چاہے یہاں دو لاکھ لوگ مر جائیں یا پھر بھوک کی وجہ سے غزہ کے بیس لاکھ لوگ بھی مارے جائیں، لیکن یہاں مغربی تہذیب کو نہ تو انسانیت نظر آنے کی ہے اور نہ ہی امن و امان کی بات کی جائے گی۔ کیا امریکی حکومت اس قدر بے بس ہے کہ وہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو لگام نہیں دے سکتی۔؟ ہرگز نہیں بلکہ امریکی حکومت اس قتل عام اور نسل کشی میں برابر کی شریک ہے۔ یہی مغربی دنیا کی سفاک تہذیب ہے، جو دنیا کو انارکی اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا منصوبہ واضح ہے۔ محدود امداد کی آڑ میں مخصوص علاقوں جیسے رفح میں فلسطینیوں کو یکجا کرنا، شمالی اور وسطی غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا اور ان علاقوں کو تباہ شدہ زمین میں تبدیل کرنا، امداد یہاں ایک انسانی ذمہ داری نہیں بلکہ سیاسی آلہ کار بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت یہ سب کچھ امریکی حکومت کی مدد سے انجام دے رہی ہے۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ بیان کہ امداد کی اجازت فوجی کارروائی کے لیے ضروری ہے، دراصل اس گھناؤنے منصوبے کا کھلا اعتراف ہے کہ خوراک اور دواوں کو اب غاصب ریاست کے ہاتھوں میں ایک جنگی ہتھیار بن چکی ہے، ایک ایسا ہتھیار جو بچوں، عورتوں، مریضوں اور بزرگوں سب کو یکساں نشانہ بنا رہا ہے۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل امدادی عمل کو دانستہ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے، ان کی آبادی کو منتشر کیا جا سکے اور ایک زندہ، مزاحمت کرتی قوم کو بھوک، موت اور تباہی کی سرحد پر لا کھڑا کیا جائے۔یہ ساری صورتحال مغربی دنیا کی حکومتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں اور کوئی بھی عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ مغربی تہذیب ان حکومتوں کو اجازت نہیں دیتی، اس لئے اس تہذیب کو سفاک تہذیب کہا گیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
یورینیم کی افزودگی سرخ لکیر کیوں؟
ایران اور مغرب کے درمیان دو دہائیوں پر محیط جوہری مذاکرات کے دوران اختلاف کا سب سے اہم نکتہ "یورینیم کی افزودگی" کا مسئلہ رہا ہے۔ افزودگی دونوں فریقوں کے درمیان اس قدر متنازعہ کیوں ہے؟ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جوہری ٹیکنالوجی میں، (جو برسوں سے بنی نوع انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے) "ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے سائیکل" کو ایک کلیدی عنصر سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ملک اس عمل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہو تو اسے حقیقی معنوں میں جوہری طاقت کہا جاتا ہے۔ اس سائیکل میں، جو سرنگوں سے یورینیم نکالنے سے شروع ہوتا ہے اور اس کی دوبارہ پروسیسنگ تک جاری رہتا ہے، اس میں سب سے اہم مرحلہ "یورینیم کی افزودگی میں اضافہ" ہے، تاکہ اسے توانائی کی پیداوار کے لیے تیار کیا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں، نیوکلیئر ہونے کا انحصار مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل ہونے پر ہے اور ایک مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل صنعتی طور پر یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
افزودگی کے عمل میں سنٹری فیوجز کی اعلیٰ سطح کا ہونا ضروری ہے، جس میں مصنوعات کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاص درستگی اور معیار کا ہونا ضروری ہے۔ درحقیقت، جوہری ایندھن کی پیداوار کے سلسلے کا سب سے پیچیدہ حصہ افزودگی ہے۔ بلاشبہ، افزودگی مختلف سطحوں اور فیصدوں پر کی جاتی ہے اور افزودگی کی یہ شرح مختلف مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کم افزودگی (5 فیصد تک) بنیادی طور پر جوہری توانائی پیدا کرنے کے مقصد کے لیے ہے، درمیانی افزودگی (20 فیصد تک) کا استعمال ادویات اور زراعت میں ریڈیو آسوٹوپس بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، زیادہ افزودگی (60 فیصد تک) جدید آلات جیسے آبدوزوں میں استعمال کی جا سکتی ہے اور 90 فیصد اور اس سے اوپر کی افزودگی فوجی ایپلی کیشن یا ایٹم بم کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
تحریر: محمد جواد اخوان