سلیمانی

سلیمانی

مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، سید ماجد میر احمدی نے اربعین کے مرکزی صدر دفتر کے اجلاس میں اتوار کو دوپہر کے وقت خادمین سید الشہداء (ع) کے مرکزی ہیڈکوارٹر میں اربعین کے موکبوں کے مسئولیں کی عظیم الشان کانفرنس کو سراہتے ہوئے کہا: اربعین سید الشہداء (ع) کے مرکزی ہیڈکواٹر میں منعقد ہونے والی یہ عظیم الشان کانفرنس قابل تعریف ہے اور یہ دوسرے زائرین دوست صوبوں میں ایک اچھے اور کامیاب نمونے کے طور پر منعقد ہونی چاہئے۔

انہوں نے صدر مملکت کی موجودگی میں اربعین کے مرکزی مقام میں مجالس کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی تاکید کے مطابق ہر زائرین صوبے کے موکب مسئولین کے نمائندوں کی نشاندہی کی جائے اور ان نمائندوں کو اربعین کے مرکزی دفتر میں موجود ہونا چاہیے اور اپنی تجاویز اور نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے۔

مرکزی اربعین دفتر  کے سربراہ نے کہا کہ تمام قومی، انتظامی، فوجی اور ملکی اداروں اور عوامی تنظیموں کو اربعین آپریشن کمانڈر (صوبائی گورنر) کی رائے سے اربعین کانگریس کو مدد اور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اربعین کی خبروں اور اطلاعات کا اعلان صرف اربعین کے مرکزی دفتر سے کیا جاتا ہے، کہا: اربعین کی خبروں اور اطلاعات کے بارے میں ابہام کو روکنے کے لیے یہ اہتمام ضروری ہے۔

انہوں نے تاکید کی کہ اربعین کی ٹریفک کا فیصلہ ایلام صوبے کے گورنر کی رائے سے ہونا چاہیے اور  دیگر معاون اداروں کی تمام صلاحیتوں کو اربعین آپریشن کے کمانڈر کی حیثیت سے گورنروں کی رائے کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مرکزی اربعین دفتر کی منظوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: پاکستانی بسیں ایران میں داخل ہو سکتی ہیں اور عراق کی سرحدوں تک کوئی پابندی نہیں ہے۔

رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلی افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اور بسیج کو عوامی محبوبیت حاصل ہے اسی لئے دشمن ان کا امیج خراب کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

 سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی افسران نے جمعرات کی صبح حسینیہ امام خمینی میں رہبر معظم ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس سے پہلے سپاہ پاسداران کے اعلی حکام اور افسران نے کرونا وائرس سے پہلے اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر ملاقات کی تھی۔

اس موقع پر رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی فعالیت اور پالیسی کا ایک پہلو سپاہ کا امیج خراب کرنا ہے۔ بسیج اور سپاہ پاسداران کا امیج خراب کرنا دشمن کی ایک پالیسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سپاہ اور بسیج عوام کے درمیان نہایت محبوب ہیں۔ اسی کشش اور محبوبیت نے دشمن کو حواس باختہ کردیا ہے۔

رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای  نے مزید کہا کہ دشمن مختلف پروپیگنڈوں اور افواہوں کے ذریعے ان محبوب اور معروف اداروں کا تشخص بگھاڑنا چاہتے ہیں۔ 
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے "ایرانی قوم کے ذہنوں میں انقلاب کے حقائق اور حقائق کو فراموش کرنے" کو دنیا کے شیاطین کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی خصوصیات کے حامل ایک گروہ کی تشکیل کو عظیم انقلابات میں منفرد قرار دیا۔ تاریخ کے بارے میں، انہوں نے کہا: "تمام انسانی گروہوں میں خامیاں اور کمزوریاں ہیں." ​​لیکن ملک کی تاریخ میں، اس طرح کی روحانی، سیاسی، اخلاقی اور انسانی صحت کے ساتھ کبھی بھی فوجی گروہ نہیں تھا.

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے تعمیرات اور بنیادی ڈھانچے کے معاملات میں IRGC کی کارکردگی کو باعزت، شاندار اور منفرد جہتوں میں شمار کیا اور مزید کہا: پاسداران انقلاب نے عوامی خدمات، محرومیوں کے خاتمے، قدرتی آفات اور حادثات جیسے واقعات میں پوری طاقت کے ساتھ عوام کی خدمت کی ہے۔

اگلا موضوع جس کی طرف کمانڈر انچیف نے اس ملاقات میں پاسداران انقلاب اسلامی کی طرف اشارہ کیا وہ تھا اپنی حفاظت کی ضرورت۔

ذکر الٰہی سے غافل ہونا، غرور، گمراہی، خدا کی نعمتوں اور مدد سے غافل ہونا، مایوسی اور شکوک جیسی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے تحفظِ نفس یعنی تقویٰ کو تمام گروہوں اور افراد کا فرض قرار دیا اور فرمایا: کردار۔ کمزوری انسان کو نیچے گرنے کا سبب بنتی ہے یہ بعض اوقات حساس ہو جاتا ہے۔ اس لیے انقلاب کے خلاف پہرہ دینے سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو مسلسل سنبھالنا چاہیے۔

اس ملاقات میں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس اہم سوال کا جواب دینا چاہا کہ انقلاب اسلامی کی وہ کیا خصوصیت ہے جو دشمنیوں کا باعث بنتی ہے اور ان کے مقابلے میں انقلاب کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے؟

انہوں نے ایران میں "اسلام کی سیاسی حاکمیت" کو اس سوال کا واضح جواب قرار دیا اور سیاسی اسلام کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "ظالم اور ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی مدد کرنا" سیاسی اسلام کی ایک نمایاں اور حساس خصوصیت ہے۔ اسلام جس نے صیہونی حکومت جیسی حکومت کو مجبور کیا کہ اس کی بنیاد قبضے، جبر، جبر اور تشدد پر ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ جیسے نظام کے ساتھ ضد اور دشمنی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اسلامی نظام کی طرف سے قوموں کے مفادات اور وسائل پر قبضے کی مخالفت ایک اور خصوصیت تھی جسے رہبر انقلاب اسلامی نے استعمار کے اسلامی نظام سے ٹکراؤ کا سبب قرار دیا اور مزید فرمایا: استعماری نقطہ نظر کے مقابلے میں قرآن کریم کی مخالفت۔ ایک نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قوموں کے ساتھ معاملہ کریں، حتیٰ کہ ان قوموں کے ساتھ جو ایمان رکھتی ہیں اور عدل و انصاف کے ساتھ غیر مساوی سلوک کرتی ہیں۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے صدیوں کے دوران انگلینڈ اور فرانس جیسے ممالک کی دولت کی جمع آوری اور ترقی کو دوسرے ممالک کے قبضے، استعمار اور استحصال کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: ایک مخصوص سیاسی تجزیہ کار نے سوال کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے کیا کیا ہے کہ ایک مخصوص ملک کے خلاف ہے۔ جبکہ جواب یہ ہے کہ سوال واضح ہے اور اس پس منظر کے ساتھ استعمار کا شیطانی نظام اسلامی نظام کے ساتھ اچھا نہیں ہو سکتا۔

"بغیر رنگ و نسل اور علاقے کے تمام انسانوں کی عزت پر یقین" قرآن کا ایک اور حکم تھا جس کی طرف رہبر انقلاب نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کی منطق کے مطابق سیاہ فام لوگ۔ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہیں۔ لہٰذا، جو اہل مغرب نسلی امتیاز کی منطق کو غلیظ انداز میں پھیلاتے ہیں، کیا وہ اسلامی نظام پر مہربان ہو سکتے ہیں؟

انقلاب کی فتح سے پہلے کے سالوں میں، یعنی 1967 کی چھ روزہ جنگ اور 1973 کی جنگ میں، تین عرب ممالک کی مسلح افواج کی غاصب صیہونی حکومت کے خلاف میدان میں اترنے کا موازنہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا: اسلامی انقلاب کے بعد۔ یہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ اسی حکومت نے 33 دن تک لبنان کی حزب اللہ کو شکست دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور ذلت کے ساتھ بھاگنا پڑا۔


انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ انقلاب اور انقلاب سے پہلے کا فرق 1967 کی 6 روزہ جنگ اور 33 روزہ جنگ میں فرق ہے، مزید کہا: آج حالات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ نوجوان مقبوضہ علاقوں میں نقل و حرکت اور حملے کر رہے ہیں۔ فلسطین اور دریائے اردن کے مغرب کے علاقے میں جس نے صیہونی حکومت کو ناکارہ کر دیا ہے۔

اپنی تقریر کے آخری حصے میں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے چند اہم اور عمومی سفارشات پیش کیں۔

انہوں نے انقلاب کے بعد عظیم پیشرفت اور صلاحیتوں اور اچھے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی: ہمیں ترقی کی قدر و اہمیت کو جاننا چاہیے لیکن فخر نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے ایران میں بحران پیدا کرنے کی مغرب کی اسٹریٹجک پالیسی کو مسلسل پالیسی قرار دیا اور مزید کہا: وہ اب بھی ملک کے اندر مستقل بحرانوں کی تلاش میں ہیں۔ ایک دن الیکشن کے بہانے، ایک دن پٹرول کے بہانے اور ایک دن عورتوں کے بہانے۔ بلاشبہ، بحران کی پیداوار کے اوزار آج زیادہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے بحران پیدا کرنے کے دشمن کے اصل ہدف کو ملکی سلامتی پر کاری ضرب قرار دیا اور فرمایا: سلامتی کے بغیر معیشت، روزگار، بنیادی ڈھانچے کے کام، کارخانوں کا قیام، سائنس، یونیورسٹیاں اور تحقیق ممکن نہیں۔ مراکز۔" اس لیے ان کا اصل ہدف ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنا اور لوگوں کی زندگیوں کو درہم برہم کرنا ہے۔


آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ دشمن کے عزائم کے مقابلے میں ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنا چاہیے اور فرمایا: آج ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انقلاب کی مسلسل دیکھ بھال کریں۔ آج ہمارا اہم کام قومی اتحاد، عوام کی شرکت اور لوگوں بالخصوص کمزور طبقات کی مدد کرنا ہے۔ آج کی ڈیوٹی اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے اور انتھک جہادی کام ہے
 سعودی عرب کے لیے ایران کے سفیر نے کہا ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ایران کے سفیر علی رضا عنایتی کا کہنا تھا کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو پائيدار بنانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سعودی عرب مشترکہ کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوگیا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون کا روڈ میپ تیار کرے گی۔

ایران کے سفیر نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران سعودی عرب تعلقات کے سائے میں نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کے لیے نئے افق روشن ہوں گے۔

علی رضا عنایتی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ خطے کے ممالک بیرونی طاقتوں کو خاطر میں لائے بغیر باہمی تعاون کو مزید پائيدار بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بعض بیرونی طاقتیں خطے کے ممالک کے تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں۔
https://taghribnews.com/
 
 
 

تحریک کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا بہت اہم کردار ہے ، اپ نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور اپ کے با وفا ساتھیوں کی شھادت کے بعد مقصد تحریک کو دنیا کے کانوں تک پہنچایا اور اسے زندہ رکھا ، امام سجاد علیہ السلام اور دیگر تمام اسیروں کی حفاظت کی ۔

امام وقت کی حفاظت

ابن زیاد نے جس وقت حضرت امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اپ نے خود کو ان سے چسپاں کرلیا اور فرمایا : اے پسر زیادہ کافی ہے ، خدا کی قسم میں ان سے الگ نہ ہوں گی اگر تو انہیں قتل کرنا چاہتا تو مجھے بھی قتل کردے ۔

یا جب گیارہ محرم کو اسیران کربلا کوفہ کی جانب کوچ کرنے لگے اور اھل حرم کو شھداء کے لاشوں کے درمیان سے لے جایا گیا تو اپنے عزیزوں خصوصا امام حسین علیہ السلام کو بے گور و کفن دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی حالت غیر ہونے لگی اس وقت حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے انہیں دلاسا دیا اور فرمایا : میرے لال یہ لاشے ایسے ہی نہ رہیں گے بلکہ یہ اسی مقام پر دفن ہوں گی اور اس مقام پر تمھارے بابا کا حرم بنے گا جو دنیا کے عقیدتمندوں زیارتگاہ ہوگا ۔

فارس خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی سیاحوں کے مرکز ہوائی شہر میں تیزی سے پھیلنے والی جنگل کی آگ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے اور امدادی کارکن سب سے زیادہ متاثرہ جزیرے ماؤئی سے لوگوں کو نکالنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آگ سے سینکڑوں مکانات اور عمارتیں مکمل طور پر جل گئیں جبکہ طوفانی ہواؤں کی وجہ سے آگ بجھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ ریاست ہوائی کا بدترین قدرتی سانحہ ہے، ریاستی گورنر کے مطابق جلے ہوئے گھروں میں اب بھی کئی افراد کی لاشیں موجود ہوسکتی ہیں۔

جنگلات میں لگی آگ سے تاریخی سیاحتی مقام Lahaina بھی جل کر تباہ ہوگیا، آگ کے سبب کاؤنٹی ماؤئی میں بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا جبکہ متعدد بجلی کے کھمبے بھی گر گئے ہیں۔

لوڈ شیڈنگ اور ٹیلی فون سروسز میں رکاوٹوں کی وجہ سے صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے کیونکہ اس کے سبب انخلا کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے بھی ہوائی کے جنگلات میں آتش زدگی کو بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے اس  تباہ شدہ جزیرے ماؤئی کی تعمیر کے لیے وفاقی فنڈز کا وعدہ کیا۔

Monday, 14 August 2023 12:29

مسجد کیلوا

مسجد کیلوا مشرقی افریقہ کی ساحلی علاقے میں واقع ہے اور نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کی یہ سب سے بڑی مسجد شمار کی جاتی ہے۔

 

سنگ مرجانی سے دیواروں کی تعمیر ہوئی ہے جب کہ تزئین و آرایش میں مختلف دیگر مواد استعمال کیا گیا ہے۔

 

ایک گنبد والے کمرے الگ سے موجود ہے جو اس وقت کے حاکم کی عبادت کے لیے مخصوص تھا تاہم فنڈ کی اس وقت کمی کی وجہ سے پتھروں کا استعمال کرنے پر مجبور ہوئے، تاریخی روایات کے مطابق مسجد حکومت ابوالمواهب الحسن بن سلیمان کے دور میں گرگئی تھی۔

 

مذکورہ مسجد ایک ڈھلوان والی جگہ پر تعمیر کی گیی ہے جو قبلے کے رخ پر تعمیر شدہ ہے۔

 

مسجد کی دیوار سے سکوں سے لبریز ایک مٹکا ملا اور ایک لوح سے معلوم ہوا کہ مسجد کے منار کو 1269 میں بنایا گیا ہے۔

 

کہا جاتا ہے کہ مستطیل والی دیواروں کی تعمیر ۱۱۳۱ تا ۱۱۷۰ کے دوران کی گیی ہیں۔

 

سال ۲۰۰۵ و ۲۰۰۹، میں ایک پروجیکٹ ( Zamani Project) جو جنوبی افریقہ کی جانب سے شروع کی گیی اس کے تحت کیلوا پر کام کیا گیا ۔/

 

 

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ میں آتشیں اسلحے کی دستیابی اور شہریوں کے لیے ان کے استعمال کی آزادی کے نتیجے میں تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو قتل وغارت کی ہوشربا شرح پر منتج ہوئی ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ان برسوں میں امریکہ میں آتشیں اسلحے کی تعداد ملک کی آبادی سے زیادہ ہو گئی ہے اور آتشیں اسلحے کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

اس وقت ریاستہائے متحدہ میں آتشیں اسلحے سے قتل کی لہر بڑھنے کے ساتھ  2022 اور 2023 کے درمیان ڈکیتیوں اور جنسی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا جن کے اعداد و شمار الگ سے درج ذیل انفوگرافک میں دکھائے گئے ہیں:

امریکہ میں قتل، ڈکیتی اور عصمت دری کی شرح میں ہوشربا اضافہ؛ خوفناک اعداد و شمار


اس بنیاد پر جرائم کی اوسط شرح (بشمول قتل اور چوری) 2022 کے پہلے چھ ماہ میں 15,793 واقعات کے مقابلے میں 2023 کے پہلے چھ ماہ میں 20,547 واقعات کے ساتھ 30 فیصد بڑھ گئی ہے۔

یعنی امریکہ میں قتل کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ 2022 کے مقابلے میں 126 واقعات سے بڑھ کر 2023 میں 161 تک پہنچ گئی ہے۔

پرتشدد جرائم کی مقدار میں بھی 37 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں 2,350 واقعات سے بڑھ کر 2023 کے اندر 3,216 ہو گئے۔

اس کے علاوہ ملکیت سے متعلق جرائم کی تعداد 2022 کے پہلے چھ ماہ میں 13 ہزار 443 کیسز سے 29 فیصد بڑھ کر 2023 کی اسی مدت میں 17 ہزار 331 ہو گئی۔
حقیقی املاک کو جلانے میں بھی ان دو مدتوں کے مقابلے میں خوف ناک حد تک کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور 2023 میں 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں دو کیسز سے 8 کیسز تک پہنچ گئے ہیں۔

جنسی حملوں کی شرح میں بھی 2022 کے پہلے چھ مہینوں اور 2023 کے اسی دورانیے کے درمیان 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

2022 اور 2023 کے درمیان امریکہ میں کار چوری کی شرح بھی دوگنی ہو گئی ہے اور خطرناک اور بھاری ہتھیاروں سے حملوں میں بھی چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شیراز میں امامزادہ شاہچراغ کے مزار پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

ناصر کنعانی نے حادثے میں شہید ہونے والے حرم کے خادم حاج عباس غلامی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی مستعدی اور ہوشیاری کے باعث دہشت گرد کو موقع پر گرفتار کیا گیا ہے۔ قانونی کاروائی مکمل کرنے کے لئے متعلقہ اداروں کے حوالے کرکے تحقیقات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بے گناہ زائرین پر حملہ ایرانی سکیورٹی فورسز کی دشمن کے خلاف کامیاب کاروائیوں کا انتقام لینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی شہریت کے بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

کنعانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ نے کئی عرصے سے ایران کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کررکھا تھا۔ حالیہ دنوں میں ان اثاثوں کی بحالی کے لئے حکومت اور وزارت خارجہ کوشش کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں پیش سامنے آنے والی خبریں ایرانی عوام کے حقوق کے لئے ہونے والی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور سفارتی حلقے ملک اور عوام کے حقوق کے لئے اپنے اختیارات استعمال کریں گے۔ اثاثوں کی بحالی اور بے گناہ قید ایرانیوں کی رہائی کے لئے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کررہی ہے۔ ایران نے معاہدے کی شقوں پر عملدرامد کے سلسلے میں فریق دوم سے ضمانت حاصل کرلی ہے۔

ترجمان نے شیراز میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بارے میں کہا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور دیگر شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کی قربانی کے نتیجے میں ہمیں امنیت حاصل ہے۔ اگر ان کی قربانی نہ ہوتی تو خطے میں ہر روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے داعشی تکفیری دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سیاسی اور دفاعی مبصرین ان کی قربانی سے بخوبی واقف ہیں۔ آج صہیونی حکومت کے خلاف لبنانی مقاومت کی فتح کا دن ہے۔ امریکہ نے اس شخص سے انتقام لیا جس نے صہیونی حکومت کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔

ناصر کنعانی نے صدر رئیسی کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے کہا کہ ابھی تک دورے کا وقت معین نہیں ہوا ہے۔ وزیرخارجہ کا دورہ ریاض دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ہماہنگی کے سلسلے میں معاون ثابت ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے 86ویں نیول گروپ کے کمانڈر، عملے اور اہل خانہ نےاتوار صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے 86ویں بحریہ اسکواڈرن نے حال ہی میں 65000 کلومیٹر سے زائد سمندری راستے اور 8 ماہ کی کشتی رانی کے بعد دنیا بھر میں 360 ڈگری کا اپنا تاریخی مشن مکمل کیا۔

اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے بیانات کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے:

آپ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ بہت بڑا اعزاز تھا۔

اللہ کا شکر ہے کہ آپ کے عزیر چاہنے والے واپس آگئے اور آپ نے انہیں گلے لگایا لیکن شہداء کے اہل خانہ کے پیاروں کا خلا پر نہیں ہوسکا۔

میں شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے وقت اکثر کہتا ہوں کہ خدا آپ کا سایہ ایرانی قوم پر قائم رکھے۔

اس ملاقات کا مقصد 86ویں بحری گروپ کا شکریہ ادا کرنا ہے جس نے ایک عظیم مشن مکمل کیا اور کامیابی کے ساتھ پوری دنیا کا چکر لگایا، جو ہمارے ملک کی بحریہ کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ میں آپ میں سے ہر ایک کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے اہل خانہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میرے عزیزو! آپ کے پیشرو اسلاف کی محنتیں اور اقدامات انقلاب سے لے کر آج تک، آپ کی موجودہ کامیابی کی بنیاد ہیں۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ 
فوج اور سپاہ پاسدران انقلاب نے سمندر میں بہت قربانیاں دیں اور یہ  قربانیاں آج رنگ لائیں۔ آپ لوگ وہ پھول ہیں جنہیں انہوں نے اگایا تھا اور آپ ان کے لگائے گئے درخت کا میٹھا پھل ہیں۔ آپ نے ثابت کیا کہ آزاد سمندر پر سب کا حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ بعض جہازوں کو آبنائے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے، بہت بڑی غلطی ہے۔

آپ کا یہ اقدام سکیورٹی کی ضمانت تھا۔ ان دور دراز علاقوں جیسے بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس میں آپ کی موجودگی نے ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا۔

 آپ نے دنیا کو عملا دکھایا کہ سمندر پر سب کا حق ہے اور آزاد سمندر کسی کے لیے خاص نہیں۔


اگر ان نام نہاد سپر طاقتوں کا بس چلے تو یہ سمندروں کو بھی اپنے نام کر لیں گی اور دوسری اقوام کو محروم کر دیں گی۔ یہ امریکہ کی خصوصیات میں سے ایک ہے لیکن آپ نے اسے توڑا ہے اور یہ جرات آپ اس اقدام کام کے واضح نتائج میں سے ایک ہے۔ 

آپ نے ثابت کیا کہ آزاد سمندر پر سب کا حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ بعض جہازوں کو آبنائے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے، بہت بڑی غلطی ہے۔

سمندر اور ہوا تمام قوموں کے لیے آزاد ہونا چاہیے، تمام ممالک کے لیے جہاز رانی اور بحری نقل و حمل کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے، آج امریکی آئل ٹینکرز پر حملے کرتے ہیں، سمندری اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کی مدد کرتے ہیں، یہ ہمارے خطے میں ان کا بڑا جرم ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی وہ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ ناقابل معافی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آپ نے اس اقدام کے ذریعے سمندر کی حفاظت کے قانون کو عملی طور پر سب کے لیے نافذ کیا۔

آپ کا یہ عمل ایران کے بین الاقوامی امیج کو بڑھانے اور بہتر کرنے میں کامیاب رہا۔ آپ کے اس کام کی سیاسی قدر اس کی عسکری قدر سے اگر زیادہ نہیں تو کم نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ سمندر پر اتنی بڑی مہم کرنے کے قابل تھے گویا ایران کے پاس اتنی طاقت، سائنسی صلاحیت اور مہارت تھی کہ وہ اس عظیم کام کو انجام دینے کے قابل بنا جس سے ملک کے بین الاقوامی امیج میں بہتری آئی۔ آپ کی اس بحری مہم نے ہم سب اور ہر اس شخص کے لیے جو آپ کی اس مہم کے بارے میں جانتا ہے ایران کے اسلامی انقلاب کی اہمیت کو واضح کر دیا۔ کیوں؟ کیونکہ انقلاب نے ہمیں یہ علم، یہ صلاحیت، یہ خود اعتمادی عطا کی ہے ۔ 

انقلاب نے ہی ہمیں اتنا عظیم کام کرنے کی یہ یہ ہمت عطا کی ہے۔ جب کہ انقلاب سے پہلے ایسا ممکن نہیں تھا۔ پہلویوں اور قاجاریوں کے ذلت آمیز دور میں ہم اتنے ساحلوں، اتنی سمندری سہولیات کے ساتھ سمندر کو نہیں جانتے تھے۔ ہماری بحریہ دیگر کاموں میں مصروف تھی۔ انقلاب نے سمندر کو بندش اور فراموشی سے نکالا۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: نامہ نگار نفیسہ عبداللہی: «سزد کراچی و لاهور، قبه السلام / ‏‬ که هست یاری اسلام کار پاکستان. مدام تشنه صلح است ملتش / ‏‬هرچند که نیست کم ز کسی اقتدار پاکستان» 

شاید یہ اشعار فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کی بہترین توصیف ہو۔

پاکستان یا پاک لوگوں کی سرزمین، برصغیر کے ثقافتی دائرے کا گیٹ وے ہے۔ یہ ملک اور یقیناً ہندوستان کا شمال ہمیشہ سے فارسی زبان کا ثقافتی علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن انگریزوں کی آمد اور اس خطے سے فارسی زبان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے فارسی ان علاقوں میں کم نمایاں ہو گئی ہے۔  تاہم اب بھی ان دونوں ممالک میں اس کی موجودگی کے بہت سے آثار موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی ترانہ زیادہ تر فارسی الفاظ پر مشتمل ہے، جیسے: پاک سرزمین شاد باد، کشور حَسین شاد باد، مرکز یقین شاد باد.

پاکستان دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے۔ اس ملک میں بیرونی مداخلت ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے اور پاکستان کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق اگر استعمار نہ ہوتا تو آج ہم اور ایرانی فارسی بول رہے ہوتے۔

اسلامی جمہوریہ ایران پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک اسٹریٹجک ثقافتی اور تہذیبی گہرائی ہے، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگ ایران کو اپنا دوسرا ملک سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے زمینی مشاہدات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام میں باہمی محبت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ جب پاکستانیوں کو ایرانیوں کی شناخت معلوم ہوتی ہے تو وہ جلدی سے اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

ایران کی سڑکوں پر پاکستانی مشہور شخصیات اور پاکستان کی سڑکوں اور اہم مقامات پر ایرانی مشہور شخصیات کے نام، فارسی زبان کی اعلی مشترکات کے ساتھ، دونوں قوموں کے گہرے تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کے دوران کراچی کی ایک شاہراہ کا نام تبدیل کر کے امام شاہراہ خمینی رکھ دیا گیا۔

پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کو تسلیم کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کئی سالوں سے امریکہ میں ایران کے مفادات کا محافظ رہا ہے اور اس نے 8 سالہ جنگ کے دوران مدد کی اور ہماری مسلح افواج کو رسد فراہم کی۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

اس لیے اگر ہم برصغیر پاک و ہند کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو اس کا گیٹ وے پاکستان ہے، جو ایک مسلمان اور دوست ملک ہے جو کبھی بھی ایران اور ایرانیوں کے ساتھ تصادم کا شکار نہیں رہا۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی پہلا ملک ہے جس نے قیام پاکستان اور اس خطے کے مسلمان عوام کی برطانوی استعمار سے آزادی کے وقت اسے تسلیم کیا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات میں کہا: ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی آزادی کو تسلیم کیا۔

کوہ ہندوکش کی بلندی جتنے عروج پاتے پاک ایران تعلقات 

محمد علی جناح، گاندھی کے دوستوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے برصغیر کے مشہور فارسی شاعر اقبال لاہوری کے ساتھ مل کر ایک مسلم ملک کے قیام کی تجویز پیش کی اور پاکستان کی آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی، حالانکہ اس سرزمین کو ہندوستان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تلخ واقعات رونما ہونے سے بالآخر پاکستان ایک مسلم ملک کے طور پر ہندوستان سے الگ ہوگیا۔

اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور  مرحوم رہنما کی یادگاری کتاب پر دستخط بھی کیے۔

آیت اللہ خامنہ ای کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان عوام کا پرتپاک استقبال

1981 سے 1989 تک اسلامی جمہوریہ ایران کہ جس پر جنگ مسلط کردی گئی تھی، نے خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے احیاء کو ایجنڈے پر رکھا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔

1985 میں آیت اللہ خامنہ ای کا پاکستان کا دورہ ان دوروں میں سے ایک اہم ترین سفر تھا جس کا ذرائع ابلاغ اور میڈیا حلقوں میں بہت چرچا رہا۔ یہ استقبال اس قدر بے ساختہ اور تاریخی طور پر وسیع تھا کہ گویا پاکستانی عوام نے اپنے عوامی صدر کا استقبال کیا تھا۔ حتیٰ کہ امام خمینی (رح) نے اس سفر کے بعد اپنی ایک تقریر میں دنیا کی مسلم اور آزاد اقوام کی نوزائیدہ  اسلامی انقلاب سے دلچسپی کے اظہار کو آیت اللہ خامنہ ای کے دورے میں منعکس پایا۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

دونوں ممالک کے درمیان یہ ثقافتی تعلقات ا اتنے گہرے ہیں کہ پاکستانی عوام نے امام خمینی (رح) کے انتقال پر دس روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا۔

پاکستان کے ساتھ وسیع مفادات اور گہرے تعلقات کا پایا جانا اور تصادم کا فقدان

پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری تینوں ممالک کے ساتھ مل کر تعلقات میں مزید بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔

پاکستان میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے باوجود ہم نے دیکھا کہ جب سعودی عرب اور بعض عرب ممالک نے یمن پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے  یمن کی دلدل میں اترنے سے انکار کر دیا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود یہ ملک ایران کو اپنی تہذیب کا ہمدرد اور حقیقی بھائی سمجھتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں سلفی رجحانات موجود ہیں، لیکن ہمارے اور پاکستان کے درمیان مفادات کا وسیع تصادم کبھی نہیں ہوا اور دونوں ممالک اپنے وجود اور بہت سی مشترکات کی وجہ سے بعض ادوار میں پیدا ہونے والے سیاسی چیلنجوں کو سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پاکستان کے معاشی دل (شہرا کراچی) کا سفر 

پاکستان ایک بڑا ملک ہے جس کی بڑی آبادی اور اعلیٰ اقتصادی صلاحیت ہے۔ ایرانی انجینئرنگ کی اعلیٰ صلاحیت، پاکستان کی اچھی مارکیٹ اور زیادہ کھپت کے ساتھ جو کہ ایران سے تین گنا آبادی والا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کو فروغ دے سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ کراچی کے دوران پاکستان کے اقتصادی مرکز میں ایران اور پاکستان کے درمیان سرمایہ کاری کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تہران اور کراچی کے چیمبر آف کامرس کے درمیان تعاون کی دستاویز پر دستخط کیے گئے۔

ماضی میں امریکہ کے دباؤ نے ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون کو روکا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور آخری دہائی میں امریکہ کے دباؤ کا کوئی اثر نہ ہوا اور پاکستان نے ایران کے ساتھ دوستی میں اپنی بہتری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

شنگھائی تعاون تنظیم، اسلامی کانفرنس، اسلامی تعاون تنظیم اور ای سی او میں ایران اور پاکستان کی رکنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کر سکتے ہیں۔

لہٰذا ایران کی موجودہ حکومت کا سفارتی نظام، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی معاونت کے ساتھ ساتھ متوازن پالیسی اور مشرق کی طرف دیکھتے ہوئے ان پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو از سر نو استوار کر رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں ہمارے اور پاکستان کے کاروباری اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنیں۔

وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب مہدی سفاری نے مہر نامہ نگار کو دونوں ممالک کی 5 سرحدی مارکیٹیں کھولنے کے منصوبے کے بارے میں بتایا: پاکستان کے ساتھ ہمارے اہم ترین مسائل میں سے ایک تجارت ہے۔ ہم نے کلیئرنگ کی بنیاد پر اس ملک کے ساتھ تجارت کی ہے۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

سفاری نے تاکید کی کہ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم 2.5 بلین ڈالر ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایف اے ٹی ایف اور امریکی پابندیاں جیسے مسائل ہمارے اور پاکستان کے تجارتی اہداف کے حصول میں رکاوٹ نہیں تھے، لیکن ہمارا ایک مسئلہ ٹیرف کا مسئلہ تھا جس کا طریقہ کار واضح نہیں تھا اور سرحدی اور نقل و حمل کے مسائل بھی حل طلب تھے جن میں سے بہت سے حل ہو چکے ہیں۔

وزارت خارجہ کی معاشی سفارت کاری کے نائب نے مذکورہ سفر کے دوران ایران اور پاکستان کے درمیان کلیئرنگ میکانزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا: اب جب کہ پاکستانی فریق اس مسئلے کو سمجھ چکا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ کلیئرنگ کو بڑھا سکتے ہیں۔

سفاری نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ کلیئرنگ کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی پروڈکٹ خریدتا ہے اسے بھی ایک پروڈکٹ ایکسپورٹ کرنا چاہیے، لیکن جب ہم نے کلیئرنگ کے طریقہ کار کی وضاحت کی تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی وزارت اقتصادیات اس معاملے پر فالو اپ دے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کے خواہاں ہیں، اور اس کے بعد ہمارا اگلا ہدف سالانہ 10 بلین ڈالر کا تجارتی حجم حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے پیر کو ایران اور پاکستان کے درمیان مشترکہ راہداری کمیشن کا اجلاس ہوگا جس کے بعد ایران سے بھیجی جانے والی گاڑیاں بارڈر پر نہیں رہیں گی اور پاکستان جائیں گی، جسے ایک مثبت قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ .

ایران اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کا تبادلہ

ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر سید رسول موسوی نے بھی اس بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کو بتایا کہ پاکستان کا دورہ گزشتہ 5 سالوں میں کامیاب ترین دوروں میں سے ایک تھا۔

ہمالیہ کی بلندی کو چھوتے ایران_ پاکستان کے تعلقات

امہوں نے کہا کہ اس سفر کے دوران، ہم نجی اور سرکاری دونوں شعبوں اور پاکستان میں موجود مختلف ڈھانچوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو آگے بڑھانے اور اچھے معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔ بعض اوقات، دونوں ممالک کے درمیان موجود کچھ بڑی چیزیں چھوٹے مسائل سے دوچار ہوتی تھیں، اور ہم اس سفر کے دوران کچھ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے، کیونکہ چھوٹے مسائل کو حل کرنا ہی بڑے کام کرنے کی بنیاد ہے جیسے کلیئرنگ، بینکنگ،  تجارت اور سلامتی کے مسائل۔

سیکیورٹی سرحدوں کو اقتصادی سرحدوں میں تبدیل کرنے کا معاہدہ

موسوی نے یاد دلایا کہ اس سفر کے دوران، خصوصی سرحدی حفاظتی معاہدوں اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو اقتصادی سرحد میں بدلنے کے لئے بات چیت، دونوں ممالک کے درمیان حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان مالیاتی تبادلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 3 بلین ڈالر کے مالیاتی تبادلے ہو رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں ہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلوں میں ایک اچھا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ .

ایرانی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل نے افغانستان کے مسائل کے حوالے سے پاکستانی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سفر کے دوران عمومی طور پر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کی دلچسپی اور ایک قومی حکومت کی تشکیل کے لئے دونوں ممالک کے مشترکہ کوشش کے حوالے سے بات کی گئی تاکہ افغانستان میں ایک ترقی پذیر حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔